ایک دوسری روایت میں ھے کہ امام جعفر صادق(ع)نے بازار سے کنارہ گیری کرنے والے سے فرمایا: ((اٴغد إلی عزّک)) [52]اور ایک روایت میں امیرالمومنین(ع) فرماتے ھیں:((تعرضوا للتجارات))[53]
اسلام میں بازار و تجارت کی بنیاد هوشیاری، امانت، عقل ، درایت اور احکام تجارت کا خیال رکھنے پر ھے((لایقعدن فی السوق إلامن یعقل الشراء و البیع)) [54] ((الفقہ ثم المتجر))[55]
لیکن دین کے لئے اسلام میں واجبات و مستحبات اور محرمات و مکروھات مقرر کئے گئے ھیں، یھاں ان کی تفصیل ذکر کرنا تو ممکن نھیں ھے، البتہ ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
ھر قسم کے لین دین میں سود، قسم کھانا، بیچنے والے کا اپنی چیز کی تعریف کرنا، خریدار کا خریدی جانے والی چیز میں عیب نکالنا، عیب کو چھپانا، دھوکہ دینا اور ملاوٹ کرنا ممنوع قرار دیا گیا ھے۔
تاجر کو چاھیے کہ حق دے اور حق لے، خیانت نہ کرے۔ اگر مد مقابل پشیمان هو تو سودا کالعدم کردے اور اگر تنگدستی و مشکل میں گرفتار هو جائے تو اسے مھلت دے، اگر کوئی شخص کسی چیز کے خریدنے کو کھے جو کچھ اس کے پاس هو اس سے اسے نہ بیچے، اور اگر کسی چیز کے فروخت کرنے کو کھے اسے اپنے لئے نہ خریدے، ترازو ھاتھ میں لینے والا کم لے اور زیادہ دے، چاھے اس کی نیت یہ هو کہ اپنے فائدے سے کچھ کم یا زیادہ نہ کرے۔ اپنی گفتار میں سچے تاجر کے علاوہ باقی سب تاجر، فاجرھیں۔
اور جس سے یہ کھے: ”سودے اور لین دین میں تم سے احسان و اچھائی کروں گا ،“اس سے منافع نہ لے، کسی رابطے کا خیال کئے بغیر تمام خریداروں کو برابر سمجھے اور جس چیز کی قیمت معلوم و معین هو، قیمت کم کر وانے والے اور خاموش شخص کو ایک ھی قیمت پر بیچے، حساب اور لکھنا جانتا هو کہ حساب اورلکھائی سیکھے بغیر سودا نہ کرے، لوگوں کو جس چیز کی ضرورت ھے اسے ذخیرہ نہ کرے، لین دین میں نرمی سے پیش آئے، آسانی کے ساتھ خرید و فروخت کرے،سهولت کے ساتھ لوگوں کو ان کا حق دے اور ان سے اپنا حق لے، مقروض پر سختی نہ کرے، لین دین طے هونے کے بعد قیمت کم کرنے کو نہ کھے، مؤذن کی آواز سن کر بازار سے مسجد کی طرف جانے میں جلدی کرے، اپنے دل کو ذکر خدا کے ذریعے صفا عطا کرے اور نماز کے ذریعے عالم طبیعت سے ماوراء طبیعت کی جانب پرواز کرے<فِیْ بُیُوْتٍ اٴَذِنَ اللّٰہُ اٴَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ یُسَبِّحَ لَہ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَاْلآصَالِ ة رِجَالٌ لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَةٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَ إِقَامِ الصَّلوٰةِ وَ إِیْتَاءِ الزَّکَاةِ یَخَافُوْنَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَ اْلاٴَبَصَارُ>[56]
اگر چہ اسلام کی تعلیم و تربیت کے معجزانہ اثرات کی تلاش و جستجو، قرآن کی تمام آیات اور سنت اھل بیت عِصمت و طھارت علیھم السلام میں کرنا ضروری ھے، لیکن چونکہ آفتابِ قرآن و سنت کی ھر شعاع، علم و ھدایت کے نور کا مرکز و سرچشمہ ھے ، لہٰذا سورہ فرقان کی آخری آیات اور تین احادیث کو ذکر کرتے ھیں،جو اس مکتب سے تربیت یافتہ افراد کی عکاسی کرتی ھیں:
آیات
۱۔ <وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی اْلاٴَرْضِ هونًا وَّ إِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوا سَلاَمًا ة وَّ اَّلذِےْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ة وَّ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ة إِنَّہَا سَائَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ة وَّ الَّذِیْنَ إِذَا اٴَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ کَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ة وَّ الَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہًا آخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَ لاَ یَزْنُوْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اٴَثَامًا ة یُّضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا ة إِلاَّ مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا فَاٴُوْلٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ة وَّ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّہ یَتُوْبُ إِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ة وَّ الَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا ة وَّ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا ة وَّ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اٴَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ اٴَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَامًا ة اٴُوْلٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّةً وَّ سَلاَماًة خَالِدِیْنَ فِیْھَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَاماً> [57]
خداوند رحمان جس کی رحمت واسعہ سے ھر متقی و فاجر فیض یاب هو رھا ھے، کی بندگی کا اثر یہ ھے کہ عبادالرحمن کا زمین پر چلنا، جو ان کے اخلاق کا آئینہ دار ھے، نہ تو اکڑ کے ساتھ ھے اور نہ ھی اس میں تکبّر ھے۔
عبادالرحمن وہ لوگ ھیں جو خدا کے سامنے ذلیل اور مخلوق کے مقابل متواضع ھیں۔ نہ صرف یہ کہ کسی کو اذیت نھیں پہچاتے بلکہ دوسروں کی تکالیف کو بھی برداشت کرتے ھیں اور جھل و نادانی سے بات کرنے والوں کے ساتھ جیسے کو تیسا کے بجائے نہ صرف یہ کہ اپنے حلم و بردباری کی بدولت ان سے جھگڑا نھیں کرتے بلکہ ان کے لئے جھالت کی بیماری سے نجات کی بھی آرزو کرتے ھیں<وَ إِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوا سَلاَماً>
اجنبیوں اور مخالفین کے ساتھ جن کا رویہ سلام و سلامتی ھے، ان سے اپنوں اور موافق افراد کے ساتھ مواسات و ایثار کے علاوہ کوئی اور امید نھیں کی جاسکتی۔
یہ تو دن میں ان کی رفتار و کردار ھے اور رات میں ان کا طریقہ یہ ھے کہ آفاق آسمان پر نظریں جماکر ستاروں اور کہکشاؤںمیں موجود، خداوند متعال کے علم و قدرت اور حکمت کی نشانیوں میں تدبّر و تفکر کرتے ھیں اور ان آیات و نشانیوں میں خداوند متعال کی تجلّی کی عظمت کو دیکھ کر، رات قیام و سجود میں گزار دیتے ھیں<یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا>اور جب غور سے دیکھتے ھیں کہ کروڑوںستارے اس کے حکم کے مطابق حرکت کر رھے ھیں اور اپنے مدار سے ذرہ برابر بھی منحرف نھیں هوتے، دین اور قانون الٰھی میں اپنے انحراف کے خوف سے کہتے ھیں:<رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ إِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَاماً>
اور اپنے اموال کی نسبت، جو خون کی طرح معاشرے کے لئے مایہٴ حیات ھے، اس طرح عمل کرتے ھیں کہ روک لینے کی صورت میں فشار خون اور بخشش میں اسراف سے قلت خون جیسی بیماریوں میں مبتلا نھیں هوتے اور میانہ روی سے تجاوز نھیں کرتے تا کہ اپنی اور دوسروں کی ضروریات کو پورا کرسکیں <وَالَّذِیْنَ إِذَا اٴَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْترُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَاماً>
ان کی دوسری صفات یہ ھیں کہ وہ دل و زبان کو شرک، ھاتھوں کو خونِ ناحق اور اپنے دامن کو زنا سے آلودہ نھیں کرتے<وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ إِلٰھاً آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَل ذٰلِکَ یَلْقَ اٴَثَاماً>
جھوٹ اور باطل سے دوری اختیار کرتے ھیں، لغو اور عبث رفتار و گفتار کے مقابلے میں بردباری کے ساتھ گذر جاتے ھیں۔ ایسے افراد جو باطل و ناحق مجالس سے پرھیز کرتے ھیں اور اپنی عظمت و بردباری کے سبب خود کو لغو و عبث سے آلودہ نھیں کرتے۔ ان کے درختِ وجود سے فقط علم، حکمت، امانت، صداقت اور عدالت کے پھل حاصل هوتے ھیں<وَ الَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا>
جب آیات خدا کے ذریعے انھیں یاد دھانی کرائی جاتی ھے تو اندھوں اور بھروں کی طرح ان آیات پر نھیں گرتے بلکہ ان آیات کو دل و جان سے سنتے ھیں اور تفکر و تدبر کی نظر سے ان میں غور کرتے ھیں<وَالَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِآیَاتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُماًّ وَّ عُمْیَانًا>
ایسے افراد کو حق حاصل ھے کہ وہ خدا سے پرھیز گاروں کی امامت کی درخواست کریں اور کھیں<وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَاماً>فکری، اخلاقی اور عملی عواملِ انحراف کے مقابلے میں خودسازی کرنے والوں کے لئے خداوندمتعال کی جانب سے وہ حجرہ عطا هوگا جس کا انھیں وعدہ دیا گیا ھے اور اس حجرے میں سلام و تحیت جیسے بلند و بالا عطیہ الٰھی کو پائیں گے<اٴُوْلٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَاصَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْھَا تَحِیَّةً وَّ سَلَاماً>، <سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍِّ رَّحِیْمٍ> [58]
۲۔رسول خدا(ص) سے روایت ھے کہ آپ(ص) نے فرمایا: مؤمن کا ایمان اس وقت تک کامل نھیں هوتا جب تک اس میں ایک سو تین صفات جمع نہ هوں۔ ان صفات میں سے چند ایک کے مفهوم کو ذکر کرتے ھیں:
مومن کا علم کثیر اور حلم عظیم ھے، غافل کے لئے یاد دھانی کا باعث اور جاھل کے لئے معّلم ھے، جو اسے اذیت دے وہ ا سکی جوابی ایذا رسانی سے محفوظ ھے، بے کار کے کام میں ھاتھ نھیں ڈالتا، مصیبت میں کسی کو برا بھلا نھیں کہتا، کسی کی غیبت نھیں کرتا، پردیسی کا مددگار اور یتیموں کا غمخوار ھے، اس کی خوشی اس کے چھرے پر اور غم واندوہ اس کے دل میں هوتا ھے۔کسی کے اسرار سے پردہ نھیں اٹھاتا، کسی کے دامن عفت پر کیچڑ نھیں اچھالتا، امانتوں کا امین اور خیانت سے دور ھے، اس کا کردار مؤدبانہ اور گفتار شگفت انگیز ھے، امور میں اعلیٰ اور اخلاق میں بہترین کا طلبگار ھے، اس کا دل باتقویٰ اور علم پاکیزہ ھے، قدرت پانے کے باوجود عفو کرتا ھے، جو وعدہ دے اسے پورا کرتا ھے، نہ تو بغض میں غرق هوتا ھے اور نہ ھی اسے حب ھلاک کرتی ھے (حب اور بغض اسے اعتدال سے خارج نھیں کرتے)، باطل کو دوست سے بھی قبول نھیں کرتا اور دشمن کے کھے هوئے حق کو بھی رد نھیں کرتا، باخبر هونے کے لئے سیکھتا ھے، علم حاصل نھیں کرتا مگر اس پر عمل پیرا هونے کی غرض سے، اگر اھل دنیا کے ساتھ چلے تو ان میں هوشیار ترین اور اگر اھل آخرت کے ساتھ هو تو ان میں پارسا ترین هوتا ھے۔ [59]