نبوت خاصّہ
چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت رہتی دنیا تک کے لئے ھے اور آپ (ص) خاتم النبیین ھیں، لہٰذا ضروری ھے کہ آنحضرت (ص) کا معجزہ بھی ھمیشہ باقی رھے۔
دوسرے یہ کہ آپ (ص) کی بعثت کا دور کلام میں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے مقابلے کا دور تھا اور اس معاشرے میں شخصیات کی عظمت و منزلت، نظم و نثر میں فصاحت و بلاغت کے مراتب کی بنیاد پر طے هوتی تھی۔
ان ھی دو خصوصیات کے سبب قرآن مجید، مختلف لفظی اور معنوی اعتبارات سے حضور اکرم (ص) کی نبوت و رسالت کی دلیل قرار پایا۔ جن میں سے بعض کی طرف ھم اشارہ کرتے ھیں:
۱۔قرآن کی مثل لانے سے انسانی عجز:
پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے زمانے اور ماحول میں ظہور فرمایا جھاں مختلف اقوام کے لوگ گوناگوں عقائد کے ساتھ زندگی بسر کر رھے تھے۔ کچھ تو سرے سے مبداٴ متعال کے منکر اور مادہ پرست تھے اور جو ماوراء مادہ و طبیعت کے قائل بھی تھے تو، ان میں سے بھی بعض بت پرستی اور بعض ستارہ پرستی میں مشغول تھے۔ باقی جو ان بتوںاور ستاروں سے دور تھے وہ مجوسیت، یہودیت، یا عیسائیت کی زنجیروں میں جکڑے هوئے تھے۔
دوسری جانب شھنشاہ ایران اور ھرقل روم کمزور اقوام کی گردنوں میں استعمار و استحصال کے طوق ڈالے هوئے تھے یا پھر جنگ و خونریزی میں سرگرم تھے۔
ایسے دور میں پیغمبر اسلام (ص) نے غیب پر ایمان اور توحید کے پرچم کو بلند کرکے کائنات کے تمام انسانوںکو پروردگار عالم کی عبادت اور کفر و ظلم کی زنجیریں توڑنے کی دعوت دی۔ ایران کے کسریٰ اور قیصرروم سے لے کر غسان و حیرہ کے بادشاہوں تک، ظالموں اور متکبروں کو پروردگارِ عالم کی عبودیت، قبولِ اسلام، قوانین الٰھی کے سامنے تسلیم اور خود کو حق و عدالت کے سپرد کرنے کی دعوت دی۔
مجوس کی ثنویت، نصاریٰ کی تثلیث، یہود کی خدا اور انبیاء علیھم السلام سے ناروا نسبتوں اور جاھلیت کی ان غلط عادات ورسوم سے، جو آباء و اجداد سے وراثت میں پانے کے سبب جزیرة العرب کے لوگوں کے ر گ وپے میں سما چکی تھیں، مقابلہ کیا اور تمام اقوام و امم کے مدمقابل اکیلے قیام فرمایا۔
باقی معجزات کو چھوڑ کر معجزہٴِ قرآن کو اثبات نبوت کی قاطع دلیل قرار دیا اور قرآن کو چیلنج بناتے هوئے بادشاہوں، سلاطین، نیز علمائے یہود اورعیسائی راھبوں جیسی طاقتوں اور تمام بت پرستوں کو مقابلے کی دعوت دی <وَإِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہ وَادْعُوْا شُہَدَآئَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ> [1]
واضح ھے کہ عوام الناس کا اپنے عقائد میں تعصب، علماء مذاھب کی اپنے پیروکاروں کے ثابت قدم رھنے پر سختی اور سلاطین کے لئے رعایا کی بیداری کا خطرہ هوتے هوئے اگر ان کے بس میں هوتا تو قرآن کا جواب لانے میں ھرگز سستی نہ کرتے۔
دانشوروں، شعراء، اور اھل سخن کے هوتے هوئے جو فصاحت و بلاغت کے ماھرین تھے اور بازار عکاظ کو ان کے مقابلوں کا میدان قرار دیا جاتا تھا اور ان مقابلوں میں جیتنے والوں کے اشعارکو خانہ کعبہ کی دیوار پر بطور افتخار آویزاں کیاجاتا تھا، اگر ان میں مقابلے کی قدرت هوتی تو آیا اس مقابلے میں، جس میں ان کے دین و دنیا کی ھار جیت کا سوال تھا، کیا کچھ نہ کرتے؟
آخر کار آپ (ص) کی گفتار کو جادو سے تعبیر کرنے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہ کر سکے <إِنْ ہٰذَا إِلاَّ سَحْرٌ مُّبِِیْنٌ> [2]
اور یھی وجہ تھی کہ جب ابو جھل نے فصحاء عرب کے ملجا و مرجع، ولید بن مغیرہ سے قرآن کے متعلق رائے دینے کی درخواست کی تو کھنے لگا:((فما اٴقول فیہ فواللّہ ما منکم رجل اٴعلم بالاٴشعار منی ولا اٴعلم برجزہ منی ولا بقصیدہ ولا باٴشعار الجن، واللّٰہ ما یشبہ الذی یقول شیئاً من ہذا، و واللّٰہ إن لقولہ لحلاوة و إنہ لیحطم ما تحتہ و اٴنہ لیعلو و لا یعلی۔ قال ابوجھل: واللّٰہ لا یرضی قومک حتی تقول فیہ، قال: فدعنی حتی اٴفکرّ فیہ، فلمّا فکّر، قال: ھذا سحر یاٴثرہ عن غیرہ)) [3]
ولید بن مغیرہ کا یہ بیان اعجاز قرآن کے مقابلے میں شکست تسلیم کرنے کی دلیل ھے، کیونکہ جادو کی انتھا بھی عادی اسباب پر ھے جو انسان کی قدرت سے باھر نھیں اور تاریخ گواہ ھے کہ اس زمانے میں جزیرة العرب اور اس کے ھمسایہ ممالک میں جادوگروں اور کاھنوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو جادو اور علم نجوم میں کمال کی مھارت رکھتے تھے۔ اس کے باوجود پیغمبر اکرم (ص) کا قرآن کے ذریعے چیلنج کرنا اور ان سب کا قرآن کے مقابلے میں عاجز هونا تاریخ کے اوراق میں ثبت ھے، لہٰذا قرآن سے مقابلے کے بجائے آنحضرت (ص) کو مال و مقام کا لالچ دیا گیا اور جب ان کی اس سعی و کوشش نے بھی اپنا اثر نہ دکھایا تو آپ (ص) کی جان کے درپے هوگئے۔
۲۔ھدایت ِقرآن
ایسے دور میں جب ایک گروہ کا ماوراء الطبیعت پر اعتقاد ھی نہ تھا بلکہ ادارک سے عاری اور بے شعور مادّے کو عالمِ وجود کے حیرت انگیز نظام کے انتظام وانصرام کا مالک سمجھتے تھے، جب کہ ماوراء الطبیعت پر اعتقاد رکھنے والے گوناگوں بتوں کی صورت میں اپنے اپنے معبودوں کی پوجا کرتے تھے اور آسمانی ادیان کے معتقد، تحریف شدہ کتب کے مطابق، خالق کو اوصاف ِخلق سے متصف خیال کرتے تھے۔ ایسا ماحول جھاں تاریخ، عوام کے شدیدفکری، اخلاقی اور عملی انحطاط کی گواہ ھے، وھاں ایک ایسے فرد نے قیام کیا جس نے نہ کھیں سے پڑھا اور نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا تھا، لیکن گمراھی کی ھرتاریک کھائی کے مقابلے میں ھدایت کی عظیم شاھراہ ترسیم کی۔ انسان کو ایسے پروردگار عالم کی عبادت کی دعوت دی جو ھر قسم کے نقص سے پاک و منزہ اور تمام کمال و جمال اسی کے وجود سے ھیں، ساری تعریفیں اسی کے لئے مخصوص ھیں، جس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نھیں، اس کی ذات اس سے کھیں بڑھ کر ھے کہ اس کے لئے کوئی حد معین کی جائے یا اوصاف میں سے کوئی صفت بیان کی جا سکے ((سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلا اللّّّّّٰہ واللّّّّٰہ اٴکبر) [4]
ان ایام میں جب عدد ومعدود کے خالق او ر اولاد و ازواج سے پاک ومنزہ ذات کو ترکیب، تثلیث،احتیاج اور تولید نسل سے نسبت دینے کے ساتھ ساتھ اس کا ھمسر بھی تصور کیا جاتا تھا، قرآن نے اس کی ذات کو ان تمام اوھام سے پاک ومنزہ قرار دیتے هوئے پروردگار عالم کی وحدانیت کا اعلان فرمایا کہ خدا کی ذات ھر قسم کی عقلی، وھمی اور حسی ترکیب سے منزہ ھے، وہ ھر شخص اور ھر شے سے بے نیاز ھی نھیں بلکہ اس کے علاوہ ھر چیز وھر شخص محتاج ھے ، اس کی مقدس ذات میں تولیدِ نسل کو عقلاً وحسا ًکسی بھی معنی کے اعتبار سے گنجائش نھیں، تمام موجودات اس کی قدرت وارادے سے موجود ومخلوق ھیں۔ذات، صفات اور افعال میں اس کی کوئی مثا ل نھیں ۔
اگر چہ قرآن میں پروردگار عالم کی معرفت، اعلیٰ صفات اور اسماء حسنی سے متعلق ایک ہزار سے زیادہ آیات موجود ھیں، لیکن ان میں سے ایک سطر میں تدبر وتفکر ھی ھدایت کی عظمت کو وا ضح وروشن کر دیتا ھے<قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌخاللّٰہُ الصَّمَدُخلَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْخوَلَمْ یَکُنْ لَہ کُفُوٴاً اٴَحَدٌ>
کلام اھل بیت علیھم السلام، جو معرفت کے خزانوں کی کنجی ھے،یھاں ان میں سے دوحد یثیں نقل کرتے ھیں :
۱۔امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں : ((إن اللّٰہ تبارک وتعالی خلو من خلقہ وخلقہ خلو منہ وکل ما وقع علیہ اسم شیء ما خلا اللّٰہ عزوجل فھو مخلوق، واللّٰہ خالق کل شیء، تبارک الذي لیس کمثلہ شیٴ)) [5]
۲۔امام باقر(ع) فرماتے ھیں :((کلما میزتموہ باٴوھامکم فی اٴدق معانیہ، مخلوق مصنوع مثلکم مردود إلیکم)) [6]
آسمانی کتاب، جن پر کروڑوں یہود ونصاٰری کے عقائد کی بنیاد ھے، کے عھدِ عتیق وجدید کا مطالعہ کرنے کے بعد معارفِ الھیہ سے متعلق ھدایت ِ قر آن کی عظمت آشکار هوتی ھے۔ اس مقدمے میں نمونے کے طور پر چند ایک کا ذکر کرتے ھیں:
یهودیوں کے بعض عقیدے
سفر تکوین (پیدائش )باب دوم :”اور ساتویں دن اسے اپنے تمام کاموں سے فراغت ملی ۔ اس نے ساتویں دن اپنے تمام کاموں کو انجام دینے کے بعد فرصت پائی ۔ پھر خدا نے ساتویں دن کو مبارک اور پاکیزہ قرار دیا کیونکہ اس دن اس نے اپنے تمام امور سے فراغت کے بعد فرصت پائی ۔۔۔۔
خداوند خدا نے آدم کو حکم دیتے هوئے فرمایا : بغیر کسی روک ٹوک کے باغ کے تمام درختو ں سے کھا سکتے هو، لیکن نیک وبد کی معرفت کے درخت سے ھر گزنہ کھانا، کیونکہ جس دن اس سے کھاؤ گے یقیناً مر جاؤ گے۔“
سفر تکوین (پیدائش ) باب سوم :”خداوند خدا کے خلق شدہ صحرائی حیوانات میں سے سانپ سب سے زیادہ هوشیار تھا، اس نے عورت سے کھا :کیا واقعی خدا نے تمھیں باغ کے تمام درختوں سے کھانے سے منع کیا ھے؟ عورت نے سانپ سے کھا : ھم باغ کے باقی درختوںسے تو پھل کھا سکتے ھیں سوائے اس درخت کے جو باغ کے درمیان میں ھے، خدا نے فرمایا ھے کہ اس درخت سے نہ کھانا اور اسے چھونا بھی نھیں ورنہ مر جاؤگے ۔ سانپ نے کھا : ھر گز نہ مرو گے،بلکہ خد اجانتا ھے جس دن تم نے اس سے کھا لیا تمھا ری آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹ جائیں گے اور خدا کی طرح تمھیں بھی نیک وبد کی معرفت حاصل هوجائے گی ۔ جب عورت نے دیکھا کہ اس درخت سے کھانا اچھا ھے جس کی دید خوش نما و دلپذیر ھے اور جو معرفت بڑھانے والا ھے، پس اس درخت سے پھل توڑ کر خود بھی کھایا اور اپنے شوھر کو بھی دیا، جو اس نے کھا لیا ۔ جب وہ کھا چکا، اس وقت دونوں کی آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹ گئے دونوں نے دیکھا کہ ان کے جسم عریاں ھیں انہوں نے انجیر کے پتوں کو آپس میں جوڑ کر اپنے جسم کو ڈھانپنے کا سامان فراھم کیا اور انہوں نے خدا وند خدا کی آواز سنی جو نسیمِ صبح کے چلنے کے وقت باغ میں خراماں خراماں ٹھل رھا تھا۔ آدم اور ا س کی بیوی نے خود کو خداوند خدا کی نظروں سے اوجھل کر کے خود کو باغ کے درختوں کے درمیان چھپا لیا ۔ خداوند ِ خدا نے آدم کو آواز دی اور کھا: تم کھاں هو؟آدم نے کھا : میں باغ میں تمھاری آواز سن کر چوں کہ عریاںہوں، ڈر گیا هوں اور خود کو چھپا لیا ھے۔ کھا: کس نے تمھیں آگاہ کیا کہ تم عریاں هو ؟آیا تمھیں جس درخت سے کھانے کو منع کیا تھا، تم نے اس سے کھا لیا ؟…“
اسی باب کی بائیسویں آیت میں ھے:”اور خداوند خدا نے کھا: بے شک انسان نیک وبد کی معرفت کے بعد ھماری مانند هوگیاھے ۔ اب کھیں ایسا نہ هو کہ ھاتھ بڑھا کر درختِ حیات سے بھی کھا لے اور ھمیشہ باقی رھے۔“
باب ششم کی چھٹی اور ساتویں آیت میں یہ مذکور ھے: ”اور خداوند زمین پر انسان کی خلقت سے پشیمان اور اپنے دل میں غمگین هوا، خداوند نے کھا : انسان کو جو خلق کیا ھے اس زمین کو انسان، حیوانات، حشرات الارض اور پرندوں کے وجود سے پاک کردوں، کیونکہ انھیں خلق کر کے پشیمان هوں۔“