اب ھم ان آیات میں سے بعض نکات کی جانب اشارہ کرتے ھیں:
۱۔پروردگار عالم نے انسان کو خلق کیا ھے اور اسے عقل عطا کی ھے تاکہ وہ اچھے اور برے کی پہچان کر سکے۔ اس نے عقل کو علم و معرفت کے لئے پیدا کیا ھے، کیسے ممکن ھے کہ وہ اسے اچھے اور برے کی پہچان سے روک دے؟!
جب کہ ھدایت قرآن یہ ھے < قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اٴُوْلُواْلاٴَلْبَابِ > [7]، <إِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُوْنَ> [8]
علم، معرفت،تعقل، تفکر، اور تدبر کے بارے میں آیات قرآن اتنی زیادہ ھیں کہ اس مختصر مقدمے میں ذکر کرنا ممکن نھیں ھے ۔
۲۔جو یہ کھے کہ اگر اس نیک وبد کے درخت سے کھایا تو مر جاؤگے جب کہ آدم اور اس کی زوجہ کھاتے ھیں اور نھیں مرتے، یا تو جانتا تھا کہ نھیں مریں گے، لہٰذا جھوٹا ھے، یا نھیں جانتا تھا پس جاھل هوا ۔ کیا جھوٹا اور جاھل، ”خداوند“ کے نام کا حق دار هوسکتاھے ؟!
اس سے زیادہ عجیب یہ کہ سانپ، آدم اور اس کی زوجہ کو نیک وبد کی معرفت کے درخت سے کھانے کے لئے ھدایت کر کے، خدا کے جھوٹ کو ان پر آشکار اور بناوٹی خد ا کے فریب اوردھوکے بازی کو نمایاںکرتا ھے ؟!
لیکن خدا کے علم سے متعلق قرآن کا نمونہ یہ ھے<یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اٴَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہ إِلاَّ بِمَا شَاءَ> [9]، <وَلاَ یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ> [10]، <إِنَّمَا إِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْماً> [11]، <قُلْ اٴَنْزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضِ إِنَّہ کَانَ غَفُوْراً رَّحِیْماً> [12]،< لاَ جَرَمَ اٴَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ> [13]،<ھُوْ اللّٰہُ الَّذِیْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ> [14]
۳۔ایسا موجود جو خود محدودہو اور جو آدم کو باغ کے درختوں میں گم کردے اور کھے :کھاں هو؟ تاکہ آدم کی آواز سن کر اسے ڈھونڈے، باغ کے درخت جس کے دیکھنے میں مانع هوں، وہ رب العالمین، عالمِ السر والخفیات، خالق کون ومکان اور زمین وآسمان پر محیط کیسے هوسکتاھے ؟!
جب کہ اس کے مقابلے میں ھدایتِ قرآن کا نمونہ یہ ھے <وَعِنْدَہ مَفَاتِیْحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُھَا إِلاَّ ھُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ إِلاَّ یَعْلَمُھَا وَلاَ حَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ اْلاٴَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ> [15]
۴۔انجیل کی مذکورہ بالا آیات خدا کی توحید اور تقدیس کی جانب ھدایت کرنے کے بجائے کہ<لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْءٌ وَّھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ> [16]، اس کی ذات میںشرک اور تشبیہ پر دلالت کرتی ھےں اور کہتی ھےں :”…خدا نے کھا :نیک وبد کی معرفت حاصل کر کے انسان یقینا ھماری طرح هوگیا ھے…۔“
۵۔پروردگار عالم کا تخلیق آدم سے پشیمان هونا اس بات کی دلیل ھے کہ وہ اپنے کام کے انجام سے جاھل تھا۔ کیا پروردگار عالم کو جاھل سمجھنا، کہ جس کا لازمہ محدودیت ِذات ومخلوقیت ِخالق اور نورِ علم وظلمت ِجھل کی حق ِمتعال کے ساتھ ترکیب ھے، انسان کو خدا کی جانب ھدایت کرنے والی آسمانی کتاب سے ممکن ھے؟!
جب کہ ھدایت قرآن یہ ھے کہ<اٴَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ > [17]<وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِی اْلاٴَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُوْا اٴَ تَجْعَلُُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِِّیْ اٴَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ> [18]
۶۔پروردگا ر عالم سے حزن وملال کو منسوب کیا جو جسم، جھل اور عجز کا لازمہ ھیں اور اس بارے میں ھدایت قرآن یہ ھے <سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُخ لَہ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضِ یُحْی وَیُمِیْتُ وَھُو َعَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌخ ھُوَ اْلاٴَوَّلُ وَاْلآخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیَءٍ عَلِیْمٌ> [19]
عیسائیوں کے بعض مخصوص عقائد
۱۔رسالہٴ اول یوحنا رسول باب پنجم: ”جس کا عقیدہ یہ هوکہ عیسیٰ مسیح ھے، خدا کابیٹا ھے اور جو والد سے محبت کرے اس کے بیٹے سے بھی محبت کرتاھے …کون ھے جو دنیا پر غلبہ حاصل کرے مگر وہ جس کا عقیدہ یہ هو کہ عیسیٰ خدا کا بیٹا ھے۔ یہ وھی ھے جو پانی اور خون سے آیا یعنی عیسیٰ فقط پانی سے نھیں بلکہ پانی، خون اور روح سے ھے، جو گواھی دیتی ھے، کیونکہ روح حق ھے ۔ تین ھیں جو گواھی دیتے ھیں یعنی روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ھیں ۔“
۲۔انجیل یوحنا، باب اول، پھلی آیت سے :”ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کے پاس تھا اور کلمہ خدا تھا، وھی ابتدا میں خدا کے پاس تھا ۔ تمام چیزیں اسی کے لئے خلق کی گئیں۔ موجودات نے اس کے سوا کسی اور سے وجود نھیں پایا۔ اس میں زندگی تھی اور زندگی انسان کا نور تھی، نور کی درخشش تاریکی میں هوتی ھے، اور تاریکی اس کو نہ پاسکی ۔ خدا کی جانب سے یحییٰ نامی ایک شخص بھیجا گیا، وہ گواھی دینے آیا تاکہ نور پر گواھی دے اور سب اس کے وسیلے سے ایمان لائیں ۔ وہ خود نور نہ تھا بلکہ نور پر گواھی دینے آیاتھا ۔ وہ حقیقی نور تھا جو ھر انسان کو منور کر دیتا ھے اور اسے دنیا میں آنا تھا، وہ کائنات میں تھا اور کائنات کو اسی کے لئے خلق کیا گیا اور کائنات نے اسے نہ پہچانا، اپنے خواص کے پاس گیا، اس کے خواص نے بھی اسے قبول نہ کیا، لیکن جنہوں نے اسے قبول کیا انھیں قدرت عطا کی کہ خدا کے فرزند بن سکیں۔ یعنی جوکوئی اس کے نام پر ایمان لایا جو نہ تو خون، نہ جسمانی خواھش اور نہ ھی لوگوں کی خواھش سے ھے، بلکہ خدا سے متولد هوئے ھیں۔کلمہ جسم میں تبدیل هوا اور ھمارے درمیان سکونت اختیار کی ۔اسے فیض،سچائی اور جلال سے پُر دیکھا، ایسا جلال جو بے مثال باپ کے بیٹے کے شایان شان تھا۔“
۳۔انجیل یوحنا، باب ششم،اکیاونویں آیت سے :”میں آسمان سے نازل هونے والی زندہ روٹی هوں ۔ اگر کوئی اس روٹی سے کھا لے تاابد زندہ رھے گا ۔اور جو روٹی میں عطا کر رھا هوں وہ میرا جسم ھے، جسے میں کائنات کی زندگی کے لئے عطا کررھا هوں، یہود ایک دوسرے سے جھگڑ کر کھا کرتے تھے کہ یہ شخص اپنے جسم کو ھمیں کھانے کے لئے کس طرح دے سکتا ھے۔ عیسیٰ نے ان سے کھا :آمین آمین، میں تمھیں کہہ رھا هوں کہ اگر تم نے انسان کے بیٹے کا جسم نہ کھایا اور اس کا خون نہ پیا، تو تم لوگ اپنے اندر زندگی نہ پاؤگے ۔ اور جو کوئی میرا جسم کھائے اور میرا خون پئیے وہ جاودانہ زندگی پائے گا ۔اور روزِقیامت اسے میں اٹھا ؤں گا کیونکہ میرا جسم حقیقی کھانا اور میرا خون حقیقی پینے کی شے ھیں۔ بس جو بھی میر اجسم کھائے گا اور میرا خون پئے گا وہ مجھ میں اور میں اس میں رہوں گا ۔ جیسا کہ مجھے زندہ باپ نے بھیجا ھے اور میں اس کی وجہ سے زندہ هوں، اسی طرح جو مجھے کھائے گا وہ بھی میری وجہ سے زندہ رھے گا ۔“
۴۔انجیل یوحنا، باب دوم، تیسری آیت سے :”اور شراب ختم هوئی تو عیسیٰ کی ماں نے اس سے کھا : ان کے پاس شراب نھیں ھے ۔عیسیٰ نے جواب دیا: اے عورت مجھے تم سے کیا کام ھے، ابھی میرا وقت نھیں هوا۔ اس کی ماں نے نوکروں سے کھا :تم سے یہ جو کھے انجام دو ۔ اس جگہ تطھیر ِیہود کے حساب سے چھ سنگی ساغر رکھے هوئے تھے، جن میں سے ھر ایک میں دو سے تین کیل تک کی گنجائش تھی عیسیٰ نے ان سے کھا: ساغروں کو پانی سے پر کرو۔ انھیں پر کیا گیا تو عیسیٰ نے کھا: اب انھیں اٹھا کر صدر مجلس کے پاس لے جاؤ۔ وہ لے گئے، جب صدر مجلس نے اس پانی کو جو شراب میں تبدیل هوچکاتھا، چکھا ، لیکن اسے معلوم نہ هوا کہ کھاں سے آیا ھے، البتہ پانی نکالنے والے نوکر جانتے تھے۔ صدر مجلس نے دولھا سے مخاطب هوکر کھا: ھر ایک پھلے اچھی شراب لاتاھے اور جب نشہ چھا جائے تو اس سے بدتر، لیکن تم نے ابھی تک اچھی شراب بچا کر رکھی هوئی ھے۔اور یہ وہ ا بتدائی معجزات ھیں جو عیسیٰ سے قانائے جلیل میں صادر هوئے ۔ اوراپنے جلال کو ظاھر کیا اور اس کے شاگرد اس پر ایمان لائے ۔“
اور اب ان آیات کے متعلق بعض نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں :
الف۔نصاریٰ کے اصول وعقائد میں جو بات مورد اتفاق ھے وہ تثلیث پر اعتقاد ھے ۔ جب کہ انجیل یوحنا کے سترہویں باب کی تیسری آیت یہ کہتی ھے :”جاودانہ زندگی یہ ھے کہ تیری، حقیقی خدائے واحد کے طور پراور تیرے بھیجے هوئے عیسیٰ مسیح کی معرفت حاصل کریں ۔“
لہٰذا جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نزدیک تثلیث پر اعتقاد ایک اصلِ مسلم ھے اور انجیل یوحنا نے خدا کو وحدت حقیقی سے توصیف کیا ھے تو جیسا کہ جز اول یوحنا میں بھی مذکور ھے کہ”تینوں ایک ھیں “،ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رھا کہ توحید اور تثلیث کو جمع کریں اور کھیں کہ یہ حقیقتاً جدا بھی ھیں اور حقیقتاً متحد بھی ۔
کئی دلائل کی بنیاد پر یہ عقیدہ باطل ھے جن میں سے بعض یہ ھیں : ۱۔اعداد کے مراتب، مثال کے طور پر ایک اور تین، ایک دوسرے کی ضد ھیں اورضدین(دو متضاد اشیاء) کا آپس میں اجتماع محال ھے،یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک ھی وقت میں وہ تینوں ایک هوں اور وھی ایک تین هوں ۔