اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

مکتب اہل بیت میں بچے کی تربیت

مکتب اہل بیت میں بچے کی تربیت :

      بچے کی تعلیم و تربیت میں مکتب اہل بیت کے دئے ہوئے خطوط کو مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

      ۱۔ فقط والدین پر بچے کی تربیت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جو معاشرے کے تمام افراد پرعائد ہوتی ہے۔

      امام صادق فرماتے ہیں :

      ایما ناشیء نشاء فی قوم ثم لم یؤدب علی معصیةفان اللہ عزوجل اول مایعاقبھم فیہ ان ینقص من ارزاقھم۔

      ”جو بچہ کسی قوم میں پرورش پاتا ہے اور برائی سے بچنے کے آداب نہیں سیکھتا تو اللہ تعالی اس قوم کو پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ اسکے رزق میں کمی کر دیتا ہے“ [1]۔

      امام اس حدیث میں اجتماعی ذمہ داری کا منفی پہلو بیان فرما رہے ہیں اور تعلیم و تربیت کے اقتصاد کے ساتھ تعلق کو واضح کر رہے ہیں کہ تربیت سے ہرقسم کی روگردانی اقتصاد پرمنفی اثر ڈالتی ہے اور معصیت سے معاشرے پرمہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لئے تو قرآن کریم میں ہے :

      ”جب قوم ھود تین سال تک رحمت کی بارش سے محروم رہی تو حضرت ھود نے اپنی قوم کو معصیت سے توبہ اور استغفار کرنے کا حکم دیا:

      ویاقوم استغفروا ربکم ثم توابوا الیہ یرسل السماء علیکم مدرارا ویزدکم قوة الی قوتکم ولاتتولوامجرمین۔

      اے میری قوم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس سے توبہ کرو توآسمان تم پر موسلادھار بارش برسائے گا اور تمہاری قوت بڑھادے گا اور مجرم بن کر اس سے منہ نہ موڑو“ [2]۔

      تو مکتب اہل بیت میں معاشرے کے افراد بالخصوص نوجوانوں کو اطاعت کی تربیت دینا ضروری ہے اور یہ کہ اس کی ذمہ داری فقط والدین پر نہیں ہے اگر چہ انکا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بھی زیادہ وسیع ہے اور یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔

      ب : بچے کی عمرکا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ہرعمر کے بچے کے لئے تربیت کی ایک خاص روش ہے اور دیگر جدید تربیتی نکات سے پہلے مکتب اہل بیت نے درجہ بدرجہ والی روش اپنانے کا حکم دیا ہے اور آج جدید تربیتی طریقے بھی اسی روش کو اپنائے ہوئے ہیں اور اس کے عملی تجربات سے اس کے فوائد ثابت ہوگئے ہیں اور اس کے شواہد ہیں بچہ جب تین سال کا ہو جائے تو دینی تربیت کے لئے اسے ذکر خدا سکھانا چاہئے امام باقر فرماتے ہیں :

      ”اذا بلغ الغلام ثلاث سنین فقل لہ سیع مرات : قل : لاالہ الااللہ ثم یترک“ ”جب تین سال کا ہو جائے تو اس سے سات مرتبہ ”لاالہ الااللہ“ کہلواؤ  پھراسےچھوڑ دو“ [3]۔

      حضرت علی فرماتے ہیں :

      ادب صغار اھل بیتک بلسانک علی الصلاة والطھور، فاذا بلغوا عشرسنین فاضرب ولاتجاوز ثلاثا“۔

      ”اپنے بچوں کو اپنی زبان کے ساتھ نماز اور طہارت کے آداب سکھاؤ اور جب بچہ دس سال کا ہو جائے تو اسے مار کر بھی سکھاؤ لیکن مارنا تین دفعہ سے تجاوز نہ کرے“[4]         ”پھر پندرہ سے سولہ سال کے بچے کو روزہ رکھنے کاپابند بنایا جائے“۔ جیسا کہ امام صادق نے فرمایا ہے [5]۔

      اور درمیان والے وقفے میں اسے دوسرے ایسے آداب سکھائے جائیں گے کہ جن کے لئے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی ہے جیسے دوسروں کے ساتھ احسان کرنا اور مساکین سے محبت کرنا۔ امام صادق فرماتے ہیں :

      مرالصبی فلیتصدق بیدہ بالکسرة والقبضة والشیٴ وان قل، فان کل شیٴ یرادبہ اللہ وان قل بعد ان تصدق النیة فیہ عظیم۔

      ”اپنے بچوں کوحکم دوکہ وہ اپنے ہاتھ سے صدقہ دیں اگر چہ معمولی چیزہی کیوں نہ ہوسچی نیت کے ساتھ جوچیزاللہ کے لئے دی جائے وہ عظیم ہے چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو“ [6]۔

      قابل ذکرہے کہ آئمہ بچے کی عمرکے لئے تین مراحل بناتے ہیں اورہرمرحلہ میں یہ والدین کی خاص توجہ اورخاص تعلیم وتربیت کاضرورتمند ہوتاہے بطور نمونہ اس بارے میں تین احادیث پیش کرتے ہیں۔

      پیغمبر سے مروی ہے کہ :

      الولد سید سبع سنین،وعبد سبع سنین، ووزیرسبع سنین فان رضیت خلائقہ لاحدی وعشرین سنة والاضرف علی جنبیہ، فقداعذرت الی اللہ[7]۔

      ”بچہ سات سال تک سردار سات سال تک غلام اورسات سال تک وزیرہوتاہے اگران اکیس سال تک اس کی عادتیں بہترہوجائیں توٹھیک ورنہ اسے خوب مارواورمیں نے اللہ کی طرف عذرپیش کردیاہے“۔

      امام صادق فرماتے ہیں : دع ابنک یلعب سبع سنین ویؤدب سبع سنین، والزامہ نفسک سبع سنین، فان افلح، والافانہ لاخیرفیہ [8]۔

      سات سال تک بچے کوکھیلنے کودنے دو، سات سال تک اسے آداب سکھاؤ اورسات سال تک اس کی خوب نگرانی کرو اگرفلاح پاجائے توٹھیک ورنہ اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے“۔

      توان دو روایتوں میں بچے کی عمرکے مراحل کوتین حصوں میں تقسیم کیاگیاہے اورہرمرحلہ سات سال پرمشتمل ہے پہلامرحلہ کھیل کودکاہے دوسرا آداب سکھاے کا اورتیسرا اسے سائے کی طرح اپنے ساتھ چمٹائے رکھنے کا۔اورتیسری روایت میں یہ تھوڑی سی مختلف ہے اس میں پہلااوردوسرا مرحلہ چھ چھ سال پرمشتمل ہے اورتیسرا مرحلہ سات سال کاہے۔

      حسن طبرسی اپنی کتاب ”مکارم اخلاق“ میں کتاب المحاسن سے امام صادق کایہ فرمان نقل کرتے ہیں:

      احمل صبیک حتی یاتی علیہ ست سنین، ثم ادبہ فی الکتاب ست سنین، ثم ضمہ الیک سبع سنین فادبہ بادبک، فان قبل وصلح والافخل عنہ۔

      ”چھہ سال تک بچے کواٹھاؤ،چھ سال تکہ اسے قرآن کی تعلیم دو، اورسات سال تک اسے اپنے ساتھ چمٹاکرآداب سکھاؤاگرقبول کرکے صالح بن جائے توٹھیک ورنہ اسے چھوڑدو“ [9]۔

      ج : بچے کی راہمائی میں اسراف سے کام نہیں لیناچاہئے اورایسے تربیتی اسلوب کواپناناچاہئے کہ جس کاسرچشمہ ثواب وعقاب ہوچنانچہ آئمہ غضب کے ساتھ تربیت کرنے سے منع کرتے ہیں امیرالمومنین فرماتے ہیں :

      لاادب مع غضب۔

      ”غضب کے ساتھ کوئی ادب نہیں ہے“ [10]۔

      اس کی وجہ یہ ہے کہ غضب ایسی حالت ہے جوعقل کے بجائے جذبات کو بھڑکاتی ہے اوراس کی وجہ سے تربیتی عمل کے مطلوبہ ثمرات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے اسی صبر،انتظار اورعمدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کی دیرینہ بیماریوں کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔

      پس بچہ مسلسل عقلی راھنمائی کانیازمندہے اوریہ غضب اورجذبات سے حاصل نہیں ہوتی اوراس طرح تربیتی عمل بھی اپنے مطلوبہ اہداف کھودیتاہے اوریہ ایسے ہی ہے جیسے ٹھنڈے لوہے کوکوٹنا۔

      مکتب اہل بیت میں ایسی احادیث ملتی ہیں جومارنے والااسلوب اختیارکرنے کاحکم دیتی ہے جیسے حضرت علی کافرمان ہے

      ادب صغار اھل بیتک بلسانک علی الصلاة والطھور فاذا بلغوا عشرسنین فاضرب ولاتجاوزثلاثا

      ”اپنے بچوں کونماز اورطہارت کے آداب سکھاؤاورجب دس سال کا ہوجائے تواسے مارو لیکن تین سے تجاوزنہ کرو“ [11]۔

      لیکن اس کے مقابلے میں ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جومارنے والے اسلوب سے منع کرتی ہیں ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام موسی کاظم کے پاس اپنے بچے کی شکایت کی توآپ نے فرمایا:

      لاتضربہ ولاتطل

      ”نہ اسے مارو اورنہ اسے آزادچھوڑ“ [12]۔

      ان دونوں قسم کی احادیث کوملانے سے نتیجہ یہ نکلتاہے کہ شروع سے ہی مارنے کی روش کے اچھے نتائج نہیں ہوتے لیکن بعض مخصوص حالات میں یہ ضروری ہے خاص طورپرنماز اورروزے جیسے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں البتہ ضرورت کی حدتک جیساکہ حضرت علی نے فرمایا:

      فاضرب ولاتجاوزثلاثا

      ”مارولیکن تین دفعہ سے تجاوزنہ کرو“۔

      اس بناپرحتی الامکان بچوں کومارنے سے اجتناب کرناچاہئے کیونکہ یہ چیز مفیدہونے کی بجائے ان کی شخصیت پرمنفی اثرڈالتی ہے لیکن خاص حالات میں ضرورت کے مطابق اس سے استفادہ کیاجاسکتاہے جیسے آٹے میں نمک۔

      نیزمکتب اہل بیت کی طرف سے یہ بھی ہدایت ہے کہ بجے کوطاقت سے زیادہ ایسی تکلیف نہ دی جائے جواس پرشاق گزرے حلبی امام صادق سے اوروہ اپنے والدگرامی سے روایت کرتے ہیں :

      انانامرصبیاننابالصلاة،اذاکانو بنی خمس سنین، فمروا صبیانکم بالصلاة اذاکانوا بنی سبع سنین۔ ونحن نامرصبیاننا بالصوم اذاکانوا بنی سبع سنین بمااطاقوامن صیام الیوم ان کان الی نصف النھاراواکثرمن ذلک اواقل، فاذا غلبھم العطش والغرث افطروا حتی یتعودا الصوم ویطیقوہ، فمروا صبیانکم اذاکانوا بنی تسع سنین بالصوم مااستطاعوا من صیام الیوم، فاذا غلبھم العطش افطروا [13]۔

      ہم اپنے بچوں کوپانچ سال کی عمرمیں نمازکاحکم دیتے ہیں اورتم اپنے بچوں کوسات سال کی عمرمیں نماز کاحکم دو اورہم اپنے بچوں کوسات سال کی عمرمیں ان کی طاقت کے مطابق روزے کاحکم دیتے ہیں آدھادن یااس سے کچھ کم یازیادہ اوران پرپیاس یابھوک کاغلبہ ہوجائے توافطارکرلیں تاکہ روزے کے عادی اوراس کے متحمل ہوجائیں اورتم بھی اپنے بچوں کونوسال کی عمرمیں ان کی طاقت کے مطابق روزے کاحکم دو اورجب ان پرپیاس کاغلبہ ہوجائے توافطار کرادو“۔

      اسی دوران بہترہے کہ بچے کواس کی طاقت کے مطابق گھرکے دیگرکاموں کوانجام دینے کاحکم دیاجائے جیسے بسترکامرتب کرنا، چیزوں کاصاف کرنا، کوڑے کرکٹ کوپھینکنا، دسترخوان پرکھانے اوربرتنوں کاسجانا، گھرکے باغیچے کاخیال رکھنااوران کے علاوہ دیگرچھوٹے چھوٹے کام جوبچے کے اندر ذمہ داری اورچستی کی روح کوبیداراوران میں اعتماد پیداکرسکیں۔

      تعلیم بھی بچے کاحق ہے اوریہ تربیت میں معاون ثابت ہوتی ہے اورعلم بھی تربیت کے مثل ایک پاکیزہ وراثت ہے اورعلم نہ ختم ہونے والاخزانہ ہے، لیکن مال چوری وغیرہ کی وجہ سے ضائع ہوسکتاہے۔

      حضرت علی فرماتے ہیں :

      لاکنزانفع من العلم [14]۔

      کوئی بھی خزانہ علم سے بڑھ کرنفع بخش نہیں ہے۔

      اس کانسب کتناہی پست ہو۔

      حضرت علی فرماتے ہیں : العلم اشرف الاحساب ”علم بہترین حسب ہے“۔

      لذا بچے کاباپ پریہ حق ہے کہ اس عظیم شرف کوحاصل کرنے میں اس کی مددکرے اورناخنوں کے اگنے کے وقت سے ہی اسے اس روحانی خزانے کا مالک بنانے کے لئے کوشش کرے، جوہربھلائی کاسرچشمہ ہے شہیدثانی اپنی کتاب ”منیة المرید“ میں لکھتے ہں :

      ”علم کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے آسمانوں اورزمینوں کوخلق کرنے کاسبب علم کوٹھرایاہے چنانچہ اپنی محکم کتاب میں ارباب عقل وخرد کونصیحت کرتے ہوئے فرماتاہے :

      اللہ الذی خلق سبع سموات ومن الارض مثلھن یتنزل الامربینھن لتعلموا ان اللہ علی کل شیٴ قدیر وان اللہ قداحاط بکل شیٴ علما [15]۔

      ”اللہ وہ ہے جس نے سات آسمانوں کوپیداکیا اوران کے مثل زمینوں کو،ان میں خدا کاامرنازل ہوتارہتاہے تاکہ تمہیں علم ہوجائے کہ اللہ ہرشی پرقادر ہے اوراس نے ہرشیٴ کااحاطہ کررکھاہے“۔

      یہ آیت علم کے شرف اورسربلندی کے لئے کافی ہے بالخصوص علم توحید جوہر علم کی اساس اورہرمعرفت کاسرچشمہ ہے۔

      اورجتنی عظمت علم کی ہے اتنی ہی تعلیم کی ہے اسی لئے دانالوگ اس حق کوادا کرنے کے لئے ہمیشہ اپنے بچوں کوتحصیل علم کے لئے برانگیختہ کرتے رہتے ہیں۔

      امام صادق فرماتے ہیں :

      کان فیما وعظ لقمان ابنہ، انہ قال لہ: : یابنی اجعل فی ایامک ولیالیک نصیبا لک فی طلب العلم، فانک لن تجد تضییعا مثل ترکہ

      لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کویہ نصحیت بھی کی تھی کہ پیارے بیٹے اپنی رات اوردن میں ایک حصہ علم کے لئے مخصوص کرو کیونکہ علم حاصل نہ کرناسب سے بڑا نقصان ہے [16]۔

      آئمہ نے بھی اس حق کی پوری پوری حفاظت وحراست کی ہے اوراسلام نے تحصیل علم کوہرمسلمان مرد اورعورت کافریضہ قراردیاہے اوروالدین کافریضہ صرف خود علم حاصل کرنانہیں ہے بلکہ اولاد کواس کاحکم دینابھی ضروری ہے اسی لئے حضرت علی والدین پرزوردیتے ہوئے فرماتے ہیں :

      مروا اولادکم بطلب العلم  [17]۔

      ”اپنے بچوں کوطلب علم کاحکم دو“۔

      اورچونکہ بچپن میں علم پتھرپرنقش ہوتاہے لذا ترجیحی بنیاد پرتحصیل علم کے لئے اس کے بچپن سے خوب استفادہ کیاجاسکتاہے بالخصوص آج کادورجوعلمی انقلاب، تعلیمی ترقی اورتحقیق ومہارت کازمانہ ہے۔

      مکتب اہل بیت نے تعلم قرآن کوخاص ترجیح دی ہے اسی طرح مسائل حلال وحرام کے حاصل کرنے کوبھی خاص اہمیت دی ہے کیونکہ یہی علم مسلمان کوفرائض کی ادائیگی کے قابل بناتاہے چنانچہ حضرت علی اپنے فرزند امام حسن کواپنی وصیت میںفرماتے ہیں :

      ابتداتک بتعلیم کتاب اللہ عزوجل وتاویلہ وشرائع الاسلام واحکامہ، وحلالہ وحرامہ، لااجاو ذلک بک الی غیرہ [18]۔

      میں نے سب سے پہلے کتاب خدا،اس کی تاویل،شریعت اسلام، اس کے احکام اورحلال وحرام کی تعلیم دی اوراس سے تجاوزنہیں کیا۔

      اورامام صادق سے جب کسی نے کہا، میراایک بیٹاہے میں چاہتاہوں کہ وہ فقط آپ سے حلال وحرام کے متعلق سوال کرے اوردوسرے قسم کے سوال سے پرہیز کرے توآپنے فرمایا:

      وھل یسال الناس عن شی ٴ افضل من الحلال والحرام [19]۔

      آیاحلال وحرام کے متعلق سوال کرنے سے بھی بہترکوئی سوال ہے؟

      اس سے بڑھ کرسنت نبویہ فقط قرآن اورفقہ جیسے علوم دینیہ کی تعلیم ہی کوبچوں کے لئے ضرورت قرارنہیں دیتی بلکہ خاص قسم کے دیگرحیات بخش علوم کے حاصل کرنے پربھی زور دیتی ہے جیسے کتابت، تیراکی اوتیراندازی، اس سلسلہ میں بعض روایات ملاحظہ کریں۔ پیغمبر فرماتے ہیں :

من حق الولد علی والدہ ثلاثة : یحسن اسمہ، ویعلمہ الکتابة ویزوجہ اذا بلغ [20]۔

      ”بیٹے کاباپ پرحق ہے کہ اسے کتابت،تیراکی اورتیراندازی کی تعلیم دے اوراسے فقط پاکیزہ کھاناکھلائے“ [21]۔

      یہاں پرایک بڑا اہم اوربنیادی نکتہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی افکارکوانحراف سے بچانے کے لئے انہیں آل محمد کے علوم ومعارف اوران کی احادیث کی تعلیم دیناضروری ہے۔ اسی نکتہ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے حضرت علی  فرماتے ہیں :

      علموا صبیانکم من علمناماینفغھم اللہ بہ لاتغلب علیھم المرجئة برایھا۔

      ”اپنے بچوں کوہمارے علوم ومعارف کی تعلیم دو کیونکہ اللہ تعالی انہی کے ذریعے انہیں نفع دے گاکہیں ان پرمرجئہ اپنے نظریات مسلط نہ کردیں“ [22]۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مظلومیت ہی مظلومیت
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار

 
user comment