ایک جنگ جاری ہے کہ اس ملک پر بالادستی کس کی ہوگی۔ امریکا کے حامیوںکی یا امریکا مخالفوں کی۔ دونوں طرف سے طاقت کا مظاہرہ کیاجارہاہے۔ ایک جانب سے میڈیا بھی شامل ہے جو امریکی حامیوںکو بالادست زبردست اور زیادہ طاقتورثابت کرنا چاہتاہے۔ لیکن رفتہ رفتہ ملک کے طول وعرض میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والے سیاسی جلسوں نے یہ ثابت کردیاہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت بلکہ بھاری اکثریت اب بھی اسلام ہی کے ساتھ ہے۔ میڈیا نے عمران خان کے جلسوں کو بڑا بلکہ بہت بڑا کرکے دکھایا ان جلسوں کی بنیادپر یہ بتانے کی کوشش کی کہ اب عمران خان کا سونامی سب کچھ بہاکرلے جائے گا لیکن اس سونامی کے کچرے سے نام نہاد جمہوریت کا مسترد شدہ کچرا ہی برآمد ہوا۔پھر اس کچرے کے خالق جنرل پرویزکو میڈیا نے اٹھایا اور جب وہ پانچ ہزار افراد کا جلسہ بھی نہ کرسکے تو میڈیا نے دوسری بریکنگ نیوزکے سہارے انہیں چھوڑدیا۔ پھرمولانا فضل الرحمان جے یو آئی ف کا حملہ ہوا اسی مقام پر ہوا جہاں عمران خان نے جلسہ کیا تھا میڈیا کے کئی حلقوں سے یہ تاثردیاگیا کہ اس جلسے میں 5 لاکھ افراد شریک ہوئے لیکن جب جے یو آئی کا جلسہ ہوا تو عمران خان کے جلسے سے زیادہ لوگ نظرآئے لیکن کسی میڈیا نے اسے سوا پانچ لاکھ نہیں کہا۔ ہمارا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ عمران خان کے جلسے میں کتنے لوگ تھے اور پرویزمشرف کے جلسے میں کتنے‘ ہم یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت اب بھی صرف اورصرف اسلام سے محبت رکھتی ہے اس پر خواہ میڈیا برہمی کا اظہارکرے یا اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرے۔ راولپنڈی‘ لاہور‘ کراچی‘ ملتان‘ ہرشہرمیں اسلام کی بنیادپرہونے والے جلسوں میں لوگوں کی بھاری تعداد میں شرکت نے اعلان کردیاہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت صرف اسلام سے محبت رکھتی ہے۔ ہم اس ٹی وی چینل سے سوال کرتے ہیں جس نے عمران خان کے جلسے کو پہلے 30 ہزار کرسیاں پھر 40 ہزار اور شام کو 60 ہزار کرسیوں والا جلسہ کہا۔پہلے ڈیڑھ لاکھ پھر ڈھائی لاکھ اور پھر 5 لاکھ شرکاءکا اعلان کیا۔ ہمارا سوال ہے کہ جے یو آئی کا جلسہ تو عمران خان کے جلسے سے بڑا تھا پھر اسے سوا پانچ یا ساڑھے پانچ لاکھ کا جلسہ کیوں نہیں قراردیا۔ یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ اس میدان میں کتنے لوگوں کی گنجائش ہے اورکون کتنی کرسیاں لگاتاہے اور 15سے 20 ہزار کے جلسے کو لاکھوں کا جلسہ کون بناتاہے۔ جلسے میں شرکت کے لیے لوگ کہاں کہاں سے لائے جاتے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ....بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جوکچھ سامنے ہے اسے میڈیا کیا قراردیتاہے۔ بات یہ ہے کہ پورے ملک میں مختلف حوالوں سے مختلف بیلٹ فارمزپر پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد صرف اسلام کے نام پر جمع ہورہی ہے۔ ایک طرف دفاع پاکستان کونسل ہے جس کے جلسوں کی کامیابی سے بوکھلاکر میڈیا نے ان جلسوں میں شرکاءکے بجائے صرف لیڈروں کو خطاب کرتے ہوئے دکھاناشروع کردیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان بڑے جلسوں پر اس طرح تبصرہ نہیں کیاجارہا جس طرح عمران خان کے جلسے پرکیاگیاتھا۔ صرف یہی نہیں جے یو آئی کا جلسہ بلاشبہ تاریخی جلسہ تھا اس روز بھی میڈیا نے ایک اور جلسے کو اس کے برابر کوریج دینے کی کوشش کی بلکہ ہر اس جلسے کے وقت جو اسلامی جماعتوں یا قوتوں کا جلسہ ہو کسی نہ کسی قوم پرست یا لسانی تنظیم کا جلسہ ہوجاتاہے یا پھرکوئی نہایت غیراہم بریکنگ نیوزآجاتی ہے۔ اورپھرمیڈیا اسے برابر کوریج دینے کی کوشش کرتاہے۔ جے یو آئی کے جلسے کے موقع پر متحدہ کا جو جلسہ ہورہا تھا ان کی اہمیت اپنی جگہ ہوگی لیکن جے یو آئی کے جلسے جیسی اہمیت ہرگزنہیں تھی۔
تاہم میڈیا نے اسے اسلام کے برابرظاہرکرن کی کوشش کی گئی۔ جنرل پرویزمشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا لیکن اس وقت متحدہ مجلس عمل نے جواباً سب سے پہلے اسلام کا نعرہ دیاتھا۔ اب مجلس عمل تونہیں ہے لیکن مجلس عمل میں شامل جماعتیں الگ الگ یا مختلف پلیٹ فارم سے متحرک ہیں۔ باربار یہ کہاجارہاہے کہ مجلس عمل بحال کی جائے۔ کہیں سے جواب آرہاہے کہ مجلس عمل کے غیرفعال ہونے کے اسباب کا تعین کیاجائے اورکوئی یہ کہہ رہاہے کہ مجلس عمل کی بحالی سے قبل پیشگی شرائط نہ عائدکی جائیں۔ لیکن ہمارا مشاہدہ اورتجربہ یہ بتارہاہے کہ امت کے مسائل کا حل اتحاد میں ہی ہے۔ خواہ یہ انتخابی اتحاد بنے یا حکمت عملی کا اتحاد لیکن اب اس کام میں دیرنہ ہونی چاہیے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دنیا دار پارٹی اسلام پسندوں کی قیادت کا ٹھیکہ لے کر پیپلزپارٹی کا ہوّا دکھاکر پھر اسلام کو ہائی جیک کرلے۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ اسلام کی اتنی بڑی قوت آپس میں لڑکر منتشرہوتی رہے۔ جے یو آئی ف متحرک ہے۔ جے یو آئی س دفاع پاکستان کونسل کے ساتھ متحرک ہے‘ جماعت اسلامی بھی دفاع کونسل کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ کئی اور اسلامی سیاسی قوتیں ہیں جو سیاست میں حصہ لیے بغیر متحرک ہیں ان میں جماعت الدعوة پاکستان‘ تنظیم اسلامی سنی تحریک اور سنی اتحادکونسل وغیرہ ہیں۔ ان سب کے الگ الگ اور مشترکہ جلسے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ان جلسوں کے شرکاءکو دیکھاجائے اورعمران خان‘ مسلم لیگ ن مسلم لیگ ق پیپلزپارٹی اوردیگر سیکولرجماعتوں کے کل شرکاءکو سامنے رکھاجائے تو اس وقت اسلام کے حوالے سے بلائے گئے جلسوں کے شرکاءکی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے یہ بات درست ہے کہ سب کو الگ الگ دکھایابھی جارہاہے اور پھر ابھی سب الگ الگ بھی ہیں۔ بلکہ مزید انتشارکی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے علامہ ساجد نقوی نے درست کہاہے کہ مجلس عمل کی بحالی سے زیادہ نئے اتحاد کی ضرورت ہے۔ اوریہ اتحاد دین کی بنیاد پر ہی ہونا چاہیے۔جتنے بھی سیکولر عناصر اس اتحاد میں گھسنے کی کوشش کریں انہیں اسلامی ایجنڈے کا پابند بنایاجائے۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلمان اور اسلامی قوتیں اپنی قوت کو پہچانیں۔
source : http://rizvia.net