افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں عالم اسلام کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم کی بےحرمتی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے غیظ و غضب کو برانگیختہ کر دیا ہے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس ملک کے فوجیوں نے بگرام بیس میں بےکار دستاویزات اور کاغذوں کو جلاتے ہوئے قرآن مجید کے متعدد نسخے بھی نذر آتش کر دیئے تھے اوراس توہین آمیز اقدام کی بنا پر مسلمانوں کے غیظ و غضب کو ختم کرنے کے لئے امریکہ کے سیاسی اور فوجی حکام نےمعافی کے ساتھ ساتھ اس کی تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔
لیکن جو واقعہ بگرام میں رونما ہوا ہے وہ نہ تواسلامی مقدسات کی پہلی مرتبہ توہین ہے اور نہ ہی آخری توہین شمار ہوگی جب کہ گزشتہ ایک دہائی سے امریکہ اور یورپ میں متعدد مرتبہ اسلام دشمنی کے واقعات سامنے آئے ہیں کچھ سال پہلے ڈنمارک کے ایک اخبار نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک کارٹون شائع کیا تھا۔ اسی طرح ہالینڈ کے ایک سیاسی لیڈ ر نے قرآن کے خلاف ایک توہین آمیز فلم بنائی تھی اور اس کا نام "فتنہ" رکھا تھا اس نسل پرست اورانتہا پسند نے مسلمانوں کو یورپ سے نکالنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
ان دنوں امریکہ میں بھی اسلام دشمنی میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ چند روز پہلے جنوبی امریکہ میں ایک انتہا پسند پادری نے اپنے دسیوں ماننے والوں سے کہا تھا کہ وہ گیارہ ستمبر کی برسی کے موقع پر قرآن کو نذر آتش کر دیں۔ انتہا پسند ذرائع ابلاغ اور صہیونیت اور عیسائیت کے بنیاد پرست افراد نے اسلام دشمنی کے ان توہین آمیز اقدامات کے بعد اسلام کو دہشتگرد اور شدت پسند قرار دیا ہے یہاں تک کہ امریکہ میں ہر مشکوک واقعہ کے بعد اس کاذمہ دار مسلمانوں کوٹھہرا دیاجاتا ہے۔
امریکہ میں رہنے والے مسلمان ہمیشہ پولیس کی نگرانی اور جاسوسی میں رہتے ہیں ان کے خیراتی اداروں کو بند کر دیا جاتا ہے ان کے خطوط اور ایمیلز تک کو چک کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اسلامی مراکز یا مسجدوں کی تعمیر پر بھی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ چند سال پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ امریکہ کے تفتیشی فوجی افسروں نےگوانتا نامو جیل میں دہشتگردوں سے تفتیش کے دوران قرآن کی بے حرمتی کی تھی تا کہ ان افراد کو اعتراف کرنے پر مجبور کر دیں۔
امریکہ اور یورپ میں اسلام کے خلاف اتنی زیادہ پرآشوب فضا ہونے کے پیش نظر، جس وقت مغرب کے فوجی افغانستان اور عراق جیسے ملکوں میں داخل ہوتے ہیں تو مسلمانوں پر ظلم وستم کرنے میں کسی بھی طرح کا دریغ نہیں کرتے اور ان کے کچھ گروہ یادگار کے طور پرقیدیوں کی انگلیاں کاٹ لیتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو بےگناہ انسانوں کو فائرنگ کی مشق کے لیے استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ مرنےوالے مسلمانوں کی لاشیں بھی بےحرمتی سے محفوظ نہیں ہیں۔
عراق کی جنگ کے دوران ابو غریب جیل میں ہونے والے بے شمار مظالم کی جو تصویریں شائع ہوئی تھیں وہ سب سے زیادہ ہولناک اور وحشتناک تھیں اس شرمناک کھیل میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ امریکہ کے فوجی تفریح کے لئے برہنہ قیدیوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر ڈھیر لگاتے اور اس کے پاس یادگاری تصویریں کھنچواتے تھے۔
البتہ مغربی حکام نےان تمام واقعات میں ملوث اپنے نچلی سطح کے فوجیوں کی گھناؤنی حرکتوں کا اعتراف بھی کیا ہے جب کہ امریکہ اور یورپ سے بھیجے جانےوالے فوجی مغرب میں اسلام دشمنی کی ثقافت کی پیداوار ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو اسی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے جب تک مغرب میں اسلام دشمنی کا سنجیدگی سے مقابلہ نہیں کیا جائےگا افغانستان جیسے ممالک میں قرآن جلانے اور مسلمانوں کی توہین کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ صورت حال صرف مسلمانوں ہی کے لئے خطرناک نہیں ہے بلکہ تمام ادیان الہی اورعالمی امن کے لئے حقیقی خطرہ ہو گی۔
source : http://www.abna.ir