حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نشریاتی ادارے آئي آر آئي بی کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے اس میں لبنان پر صیہونی حکومت کی تینتیس روزہ جارحیت کے اور اس میں حزب اللہ کی کامیابی کے حوالے سے خصوصی سوالات کئے گئے ہیں۔
سوال: ہمیں ایسے بہت سے ثبوت ملے ہیں کہ دنیا کی اکثر سامراجی طاقتوں کی یہ دلی خواہیش تھی کہ وہ آپ کو راستے سے ہٹا دیں اور آپ اس دنیا میں نہ رہیں لیکن آپ اب بھی قائم ود ائم ہیں آپ کے اس مسلسل ڈٹے رہنے کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟
سید حسن نصراللہ: ظالم اور طاغوتی طاقتوں کی خواہش تھی کہ ہم نہ رہیں لیکن خدا وند عالم کا ارادہ و مصلحت یہ تھی کہ ہم زندہ باقی رہیں لھذا یہ حکم خدا تھا اور چونکہ خدا یہی چاہ رہا تھا ویسے بھی اس عالم وجود پر اگر کسی کا حکم غالب ہے تو وہ صرف اور صرف خدا کا حکم ہے ۔ پس خدا نے چاھا اور اس نے اپنے مومن اور مجاھد بندوں کی مدد کی اور ان کی رہنمائي فرمائي جس کے نتیجے میں ایک تاریخی فتح حقیقت کا روپ اختیار کرگئي یہ سب کامیابیاں اور کامرانیاں خداۓ تبارک و تعالی کا عطیہ ہیں ۔
سوال: گذشتہ سال کی جنگ میں صیہونی حکومت کی شکست کی اصلی وجہ کیا تھی ؟ اور اب جبکہ اس جنگ کو ختم ہوئے ایک سال ہو گيا ہے حزب اللہ کی حیثیت و طاقت کو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں ؟
سید حسن نصراللہ: حزب اللہ کی موجودہ صورتحال جنگ کے دنوں کے مقابلے میں بہتر ہے البتہ جیسا کہ میں شروع میں کہا تھا کہ ہم اس جنگ میں کامیابی کو خداوند عالم کی نعمتوں اور لطف وعنایات میں سمجھتے ہیں ۔
حزب اللہ کے قیام اور تشکیل کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہم الھی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور خدا کے احکام کو بجا لائيں۔ اپنی شرعی ذمہ داریاں پوری کریں اور حزب اللہ نے ابھی تک یہی کیا ہے اور اس وقت حزب اللہ اپنی اخلاقی اور قومی ذمہ داری سمجتھے ہوئے لبنان کی مقبوضہ سرزمینوں کی آزادی، اپنے ملک کی حاکمیت اعلی اور ارضی سالمیت کے تحفظ کے لۓ فرائض پر عمل کررہی ہے ۔حزب اللہ نے دشمن کے مقابلہ میں مسلسل اپنی شرعی ذمہ داری ادا کی ہے کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد ہےکہ واعدولھم مااستطعتم من قوۃ یعنی دشمن کے مقابلہ میں اپنی استطاعت کے مطابق اپنے آپ کو تیارکرو لھذا ہم نے اس فریضے کی ادائيگي یعنی دشمن کے مقابلے میں دفاع جو کہ واجب ہے اس کو ادا کیا اور دشمن کے مقابلہ کے لۓ قرآنی حکم کے تحت اپنے آپ کو تیار کیا ہے افرادی قوت کے لحاظ سے بھی اور وسائل و ذرایع کے لحاظ سے بھی ۔ اس فریضے کی ادائیگي کے لۓ مضبوط ایمان اور مستحکم عزم و ارادے کا ہونا ایک ابتدا اور پیش خیمہ ہے جس کا اظہار اس جنگ میں ہوا جس کے بارے میں خود صیہونی حکومت نے اعتراف کیا ہے اور ان کے فضائي اور زمینی حملوں کی شدت اور وسعت، ماضی میں کی گئي تمام عرب اسرائيل جنگوں سے بھی کئي گنا زیادہ تھی ۔
میرے نظریے کےمطابق حزب اللہ کے دلیر جوانون میں استقامت و پائداری، عزم و ارادے کی جو قوت و طاقت ہے اس نے اس تینتیس روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کو شکست کا مزہ چکھایا ہے۔ حزب اللہ کے نوجوانوں کا یہ عزم اور حوصلہ ہی تھا جس نے انہیں کسی مرحلے میں کمزور ہونے نہیں دیا اور انہوں نے پسپائی اختیار نہیں کی، شہادت اور آخری سانس تک دشمن کا مقابلہ کیا اور جو زخمی ہو گئے سخت سے سخت زخموں کے باوجود اپنے مقصد اور ھدف سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے ۔
مجاھدین کے عزم و حوصلے کے ساتھ ساتھ عوام کی دلیری ،بہادری اور بلند حوصلے بھی اس کامیابی کا بنیادی سبب ہیں خاص کر ان علاقوں میں جہاں پر دشمن نے زبردست حملےکئے تھے۔ جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے عوام کو دیگر لبنانیوں نے جس طرح خوش آمدید کہا اس کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے اس حوالے سے اسلامی استقامت کے حامی ملکوں خاص کراسلامی جمہوریہ ایران ،عرب اور اسلامی ممالک نیز دنیا کے آزاد ضمیر انسانوں اور ملکوں نے جس انداز سے اس استقامت کی مدد کی ، وہ لبنانی قوم کی حوصلہ افزائي اور ان کے عزم وارادے کی مضبوطی کا باعث ہوئي ۔ اگر ہم ان عوامل کے بارے میں جو براہ راست کامیابی کا باعث بنے گفتگو کریں تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ خداوند عالم کی نصرت و مدد کے بعد مجاھدین کی میدان کارزار میں استقامت اور دشمن کے خلاف ڈٹ جانے کی اصلی وجہ وہ ایثار و قربانی اور جانفشانی تھی جس نے دشمن کے تمام ارادوں کو ملیامیٹ کر دیا اور ان کی تمام سازشیں نقش برآب ہوگئيں۔ یہ مجاھدین اسلام کی استقامت اور جرات مندی و بہادری کے اعلی نمونے تھے جسکی وجہ سے صیہونی حکومت اس بات پر مجبور ہوگئي کہ وہ جنگ کے دوران اپنی فوجی اور جنگي حکمت عملی کو بارہ مرتبہ تبدیل کرے اور بلاشبہ اس طرح کی فوجی تبدیلیاں کسی بھی فوجی کمان کے لئے حیران کن اور ناقابل یقین ہیں۔ اس تینتیس روزہ جنگ میں دشمن نے جب بھی ایک نئي جنگي حکمت عملی ا سے حملہ کیا مجاھدین کی طرف پہلے سے زیادہ استقامت اور جرات کا مظاہرہ کیا گيا ۔ یوں اس جنگ کے تمام مراحل میں اسرائيل حزب اللہ کے مجاھدین کی جرات، بہادری اور عزم و ارادے کو ذرہ برابر کمزور کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔اسرائيل نے تمام ترکوششیں کیں اور اپنے تمام نئے اور پرانے جرنیلوں کی خدمات حاصل کیں اور ان کے پاس جو کچھ تھا وہ میدان میں لے آیا اپنی فضائي اور زمینی طاقت کا بھرپور استعمال کیا لیکن ہرموڑ پر اسے ناکامی کے علاوہ کچھ نصیب نہ ہوا ۔ اب جبکہ اس جنگ کو ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے حزب اللہ کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند ہیں ۔ حزب اللہ یقین اور خود اعتمادی کی دولت سے مالامال اور عزم و حوصلے کے اعتبار سے گذشتہ سال کی جنگ کے زمانے سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ اسی طرح لبنانی عوام کے اندر حزب اللہ کا اثرورسوخ پہلے سےکہیں زیادہ بڑھ چکا ہے اور عوامی حلقوں میں نئي نسل کی ایک بڑی تعداد حزب اللہ سے وابستہ ہوچکی ہے اوراس کی بنیادی وجہ ہے حزب اللہ کے وہ کارنامے جو اس نے گذشتہ سال کی جنگ میں اسرائیل کے خلاف انجام دیے ہیں ۔ جنگي ساز و سامان اور دوسری ضروریات کے حوالے سے بھی حزب اللہ کی صورت حال جنگ کے زمانے سے بہتر ہے اور بلاشبہ یہ سب کچھ خداوند عالم کا لطف وکرم ہے۔
سوال:آپ نے جنگ کے دوران حزب اللہ کے مجاھدوں کی روحانی صفات کی طرف اشارہ کیا تھا شاید یہ بات تمام لبنانیوں خاص کر ایرانی قوم کے لئے دلچسپی کا باعث ہے کہ آپ نے اپنی تقریر کے دوران لبنان کے عوام کو بہترین افراد قراردیا ہے اور خاص کرحزب اللہ کے جوانوں نے آپ کو جو محبت بھرا خط لکھا تھا اور آپ نے اسی انداز میں اس کا جواب بھی دیا تھا۔ کیا آپ اس بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے ؟
سید حسن نصراللہ: اس میں کسی طرح کا شک نہیں ہےکہ حزب اللہ کے تمام افراد روحانی قوت کے اصل عوامل جیسے ایمان ،ایثار اور جان نثاری کے جذبات اور احساسات کے حامل ہیں البتہ میں نے اپنی تقریروں میں جوکچھ کہا ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میں لبنانی قوم کو تمام اقوام سے افضل و برترسمجھتا ہوں بلکہ میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایثاروقربانی کا مظاہرہ کیا، اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں، شہید ہوئے، راہ خدا میں شہید ہوۓ اور جنگ کے سخت ترین حالات میں جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے مھاجرین کا استقبال کیا اور ان کی دل کھول کرمدد کی۔ لبنان کے عوام کی اکثریت سخت ترین حالات میں بھی ڈٹی رہی اور ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ۔ جنگ کے دوران عام لوگوں اور مجاھدین کے حوصلے جس قدر بلند تھے انہیں الفاظ کے پیراے میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔
اس وقت صورتحال یہ تھی کہ جس طرف نگاہ اٹھاتے تباہی اور بربادی دیکھنے کوملتی لوگوں میں تاثرعام ہوگيا تھا کہ اسرائيل اور اسکے اتحادی ہمیں ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد یا اس علاقے سے ہمیشہ کے لئے باہر نکالنا چاھتے ہیں اس طرح کے سخت اور دشوار ترین لمحات مین بھی لوگوں کو فتح و کامیابی کے حوالے سے اطمئنان تھا او انکے دل مطمئن تھے اور میں ان سخت حالات میں اس اطمئنان کو الھی اور غیبی امداد کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا بلاشبہ یہ ایک بڑی غیبی امداد تھی او اسکا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے کیونکہ قرآن میں جس غیبی امداد کا ذکر کیا گیا ہے اس میں اطئمنان قلب بھی ایک عظیم خدائي نعمت ہے قرآن کریم کی آیات کا مفہموم یہ ہےکہ ہم ان لوگوں کے قلوب کو اطمئنان اور آرام سکون عطا کرتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور پھر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور میدان جنگ سے پسپائي اختیارنہیں کرتے ۔ ہم نے اسی آرام و سکون اور یقین کا حزب اللہ کے مجاھدین اور عوام کے دلوں میں مشاھدہ کیا اور یہ خداوند عالم کی طرف سے اس جنگ میں ہماری مدد کا واضح نمونہ ہے ۔ دوسری طرف اسرائیل جس کی پوری سامراجی دنیا حمایت کررہی تھی وہ علاقے میں فضائي قوت کے حوالے سے سب سے زیادہ مضبوط فضائيہ تھی۔ اسی طرح اسکے پاس ہرطرح کے جدید اسلحے اور جنگي سازوسامان تھا اسکے علاوہ وہ ایسی جارح اور طاغوتی حکومت ہے کہ کسی کو بھی ذرہ برابر اھیمت نہیں دیتی ،یہ حکومت حزب اللہ کے جوانوں کے مقابلے میں بے دست وپا ہوگئ اور اس پر شدید خوف طاری ہوگيا۔ اسرائيل کی فوجی اور سیاسی قیادت، فوجی افسر اور عام فوجی سخت پریشان اور خوفزدہ ہوگۓ ۔ خوف وہراس ان کے چہروں سے عیاں تھا یہ سب کچھ کیا تھا یہ الھی مدد و نصرت ہی تو تھی یہ خداوند عالم کی طرف سے حزب اللہ کی تائيد و تصدیق تھی اوراس کا ذکر بھی قرآن میں ملتا ہے کہ "خداوند عالم مومنین کے دلوں پر اطمئنان و سکون نازل کرتا ہے اور دشمن پر رعب و وحشت طاری کردیتا ہے" ہم نے قرآن کی اس بشارت کا لبنان پر صیہونی حکومت کی تینتیس روزہ جنگ میں عملا مظاہرہ کیا ۔البتہ آپ نے جس خط کا ذکر کیا اور حزب اللہ کے مجاھدین اور میرے درمیان رابطے کے بارےمیں جو سوال کیا تو عرض کروں کہ یہ رابطہ بہت قدیمی ہے، ہم تقریبا ایک دور کی نسل ہیں پندرہ سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہےکہ ہم سب مل کر کام کررہے ہيں۔ ہم ایک دوسرےکو بڑی اچھی طرح سے پہچانتے ہیں اور یہ پیار ومحبت اور صمیمیت یکطرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ ہے ۔ وہ خط جو حزب اللہ کے مجاھدوں نے میرے نام لکھا تھا وہ تقریبا تمام اخباروں میں شایع ہوا ہے، میں نے بھی جو جواب لکھا تھا وہ بھی سارے اخباروں میں منظر عام پر آیا ہے اور میں نے جو خط کے جواب میں لکھا ہے اس پرمیرا پورا ایمان ہے اور میں نے اس میں اپنے قلبی احساسات کا اظہار کیا ہے او مجھے ان مجاھدین سے جو محبت اور لگاؤ ہے اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ان اخبارات و رسائل میں اتنی گنجائيش کہاں کہ میں مکمل طرح سے اپنے جذبات کا اظہار کرسکوں ،یوں بھی دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھا سکتا تھا لھذا میں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہارنہیں کیا اور جو مجاھدین کے خط کے جواب میں کہا گیا ہے وہ ان مجاھدیں کے لئے میرے دلی جذبات کا ایک ادنی نمونہ ہے ۔ بہرحال میں اس بات پر تاکید کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ باہمی دوستی اور مجاھدین کے قلب وذھن میں موجود ایمان و ایثار و قربانی کے جذبات جنہوں نے حزب اللہ کو معنوی اور روحانی لحاظ سے مضبوط ومستحکم بنارکھا ہے اوربلاشبہ یہ جوش اور ولولہ اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہمارے دشمن میں موجود نہیں ہے، اسرائيل کا کونسا فوجی یہ سوچ سکتا ہےکہ وہ میدان جنگ میں مر جاۓ اور اس کا ساتھی زندہ وسلامت اپے گھر واپس جاۓ جبکہ حزب اللہ کے مجاھدین میں یہ عام سی بات ہے وہ اپنے ساتھیوں اور دوستوں سے پہلے شہادت کی آغوش میں چلے جانا چاہتے ہيں اور ان کی خواہش ہوتی ہےکہ وہ بے شک راہ خدا میں قربان ہوجائيں لیکن ان کےساتھی اپنے گھر والوں کےپاس پہنچ جائيں۔ ہمارے مجاھدوں میں اپنے بھائي اور قوم کے لئے سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ موجود ہے اور ہر وقت شہادت کا فیض حاصل کرنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں ۔
سوال:کیا یہ درست ہے کہ آپ حزب اللہ کے مجاھدین کے ساتھ ایک مہینے تک مسلسل رات کو دعاۓ جوشن صغیر پڑھتے تھے ؟ ہم نے چند دن قبل جنوبی لبنان کے مختلف علاقوں جیسے مارون الراءس اور بنت جبیل کا دورہ کیا اور وہاں غیبی امداد کے واضح نمونے دیکھے اس بارے میں ہمیں کچھ بتائيں ؟
سید حسن نصراللہ: دعاے جوشن صغیر کی تلاوت کے حوالے سے صرف میں نے تاکید نہیں کی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس پرتاکید فرمائي تھی یہ ان کی ایک نصیحت تھی جو وہ حزب اللہ کے افراد سے گاہے بگاہے فرماتے رہتے تھے ہم جب بھی قائد انقلاب اسلامی کی خدمت میں جاتے آپ ہمیشہ خداوند عالم سے رابطے، خدا پر توکل اورقران ودعا سے انس ومحبت بڑھانے کی تلقین فرماتے تھے ۔ گذشتہ سال کی جنگ کے آغاز میں قائد انقلاب اسلامی نے بیانات ارشاد فرماۓ ہیں۔ ان میں خدا پر توکل ،قرآن سے انس اور دعا کے بارے میں نصیحتیں ملتی ہیں، ان نصیحتوں میں خاص کر دعاۓ جوشن صغیر کے پڑھنے پرآپ نے نصیحت فرمائي تھی۔ دعاۓ جوشن صغیر لبنان میں ایک نئي چیز تھی اس پہلے ماہ رمضان اور شب ھائي قدر میں دعاۓ جوشن کبیر پڑھی جاتی تھی اور اس سے لوگ واقف تھے لیکن دعاۓ جوشن صغیر سے لوگ زیادہ واقف نہیں تھے یہ ایک نئي چیز تھی ہم اس دعا کے حقیقی مفاھیم اور اس کی نصیحتوں اور پیغامات سے غافل تھے۔ جب ہم نے اس کو پڑھا تو ایسا لگا جیسے یہ ہمارے آج کے حالات کے بارے میں ہے ۔ میں نے لبنانی قوم اور مجاھدین کو قائد انقلاب اسلامی کی اس نصیحت سے مطلع کیا اورحقیقت یہ ہے کہ اس دعا کے فیوض وبرکات سے مجاھدین اور لبنانی عوام کے حوصلوں کو تقویت ملی اورخدا کی برکات کا نزول ہوا اور یہ سب کچھ قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای کی نصیحتوں کا صلہ ہے ۔
سوال:جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کی کامیابی کے بعد صیہونی حکومت نے اپنے فوجی کیڈر ۔ جنگي کمانڈ ،اور سیاسی قیادت میں بڑی سطح پر تبدیلیاں کی ہیں آپ ایک اہم شخصیت اور علاقے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک فرد کی حیثیت سے اسرائيل کے مستقبل کوکیسا دیکھ رہے ہیں؟
سید حسن نصراللہ: گذشتہ سال کی جنگ میں اسرائیلی فوج کا رعب و دبدبہ خاک میں مل گيا صیہونی فوج کی حیثیت اور مقام کو بری طرح نقصان پہنچا حقیقت یہ ہے کہ اس تینتیس روزہ جنگ میں اسرائيل کے لئے بہت سے تاریخی اور آیندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے بہت سے پیغامات موجود ہیں سب سے اہم پیغام یہ ہےکہ اسرائيل ایک خود ساختہ ملک ہے اور اسکی بقا اسکی فوج کی بقا پرمنحصر ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ملک اور ان کی قومیں اپنی فوج تشکیل دیتی ہیں لیکن اسرائيل ایک فوج ہے جس پر ملک استوار ہے ۔ لھذا صیہونی حکومت کی بقا اسرائيلی فوج کی قوت وطاقت رعب و دبدبہ اور فوجی سازوسامان سے مربوط ہے جو اس نے ہمسایہ ممالک کی افواج پر قائم کیا ہوا ہے ۔ گذشتہ سال کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ حزب اللہ کے مجاھدین نے اسرائيلی فوج کے اس رعب و دبدبے اورھیبت کو تہس نہس کردیا ہے ۔ علاقے کے ملکوں اور اقوام کے لئے یہ بات یہاں تک کہ خود اسرائیلوں کے لۓ واضح ہوچکی ہے کہ اسرائيلی فوج ناقابل شکست نہیں ہے اس کی بہت سی کمزوریاں ہیں جسکی وجہ سے اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ۔ میں جن چیزوں کی طرف اشارہ کررہا ہوں ان کا تعلق حکمت عملی سے ہے کیونکہ اس جنگ میں شکست کے حوالے سے صیہونی حکومت کو حکمت عملی اور جنگی حربوں کی جن ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، دیرپا ہیں اور ان سے جلد چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ جس وقت اسرائیلی فوج میں تزلزل آ جاتا ہے اور اس کے پاؤں اکھڑجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائيلی فوج اور حکومت کی بقا خطرے میں ہے کیونکہ ایک مضبوط فوج کے بغیر اسرائيل کا اس خطے میں وجود ناممکن ہے، گویا اس کے براہ راست اثرات ہيں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائيلی باشندے اپنے فوجی اور سیاسی قائدین کو اس غلطی پر معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں جن کی غلط حکمت عملی سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑا ۔ یہ اسرائيل کے اندر کی توڑ پھوڑ اور عوامی ردعمل کی نشانی ہے۔ اس جنگ میں شکست کی وجوھات کےبارے میں باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی گئي اور اس میں اسرائیل کے ملک گیر اخبارات و رسائل نے بھی اھم کردار ادا کیا ہے۔ یہ عوامی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ بہت سے فوجی اور سیاسی حکام نے مقدمات کا سامنا کرنے سے پہلے ہی اپنےعھدوں سے استعفی دیدیا اور راہ فراراختیارکرلی ۔ ہم نے خود اس بات کا مشاھدہ کیا ہے کہ اس جنگ ک سنٹرل کمانڈ کا چیف جو کہ اسرائيلی فوج کا سربراہ بھی ہے اس جنگ کے نتائج سے بچنے کے لئے استعفی دیکر ہرچیز سے لاتعلق ہو گيا ۔اسرائيل کی بری اور بحری فوج کے کمانڈر، شمالی علاقے کے کمانڈر، جہاں سے حملہ کیا گيا تھا اس علاقے کا کمانڈر، کئي بٹالین اور بریگيڈروں کے کمانڈروں حتی کہ اسرائيل کے داخلی دفاع اور اندرونی محاذ کے کمانڈر جو حزب اللہ کے میزائيلوں کے حملوں کا نشانہ بنے سب نے شکست کی ذمہ داری قبول کرنے کے خوف سے اپنے اپنے عھدوں سے مجبورا استعفی دیدیا ہے ۔
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=63326