۴۔اسرار خلقت سے مکمل آگاھی :
جس زمانے میں انسانی علم ودانش کے مطابق اجرام فلکی کو بسیط خیال کیا جاتا تھا اور ان میں حرکت کا تصور تک نہ تھا اس وقت کو اکب کی خاص مداروں میں حرکت کی خبر دی <لاَ الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَا اٴْنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَ لاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ > [53]
جس زمانے میں اشیاء کے درمیان قانونِ زوجیت کے عمومی هونے کی خبر تک نہ تھی فرمایا<وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ > [54]
اور جس وقت دوسرے سیاروں پر جانداروںکے وجود کا احتمال تک نہ تھا فرمایا: <وَمَابَثَّ فِیْھِمَا مِنْ دَابَّةٍ> [55]
اور اسی طرح نباتات کے درمیان هوا کے ذریعے تلقیح کی خبر دی <وَاٴَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ> [56]
جس زمانے میں اجرام فلکی کو بسیط اور ان کی خلقت کواجرام ارضی سے جدا اور مختلف خیال کیا جاتا تھا اور کسی کو ان کے رتق وفتق [57]کے بارے میں خبر تک نہ تھی فرمایا<اٴَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوَا اٴَنَّ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا> [58]
اور جس وقت انسان کائنات کی گستردگی سے بے خبر تھا فرمایا<وَالسَّمَاءَ بَنَےْنَاھَابِاٴَیْدٍ وَّإِنَّالَمُوْسِعُوْنَ> [59]
اور جب آسمانی سیاروں کے بارے میں ماھرین فلکیات خرق [60] والتیام کے قائل نہ تھے یعنی کسی بھی جسم کو ان سیاروں کے مدار کے درمیان سے عبور کرنے کو ناممکن سمجھتے تھے۔اور جب کوئی ان میں انسان کے عبور کرنے کا تصور بھی نہ کرتا تھا، یہ آیت نازل هوئی <یَا مَعْشَرَالْجِنِّ وَاْلإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ اٴَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اٴَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضِ فَانْفُذُوْا لاَ تَنْفُذُوْنَ إِلاَّ بِسُلْطَانٍ> [61]
اسرارکائنات کے بارے میںآیات کا نزول ،کہ جن کی جانب مختصراً اشارہ کیا گیا اس امر کی نشاندھی کرتا ھے کہ یہ کتاب حق تعالی کی جانب سے نازل کردہ ھے۔
۵۔قرآن کی جذابیت
ھر باانصاف انسان جو قرآن کریم کے اسلوب بیان کو اچھی طرح جانتا هو اس بات کا معترف ھے کہ چاھے کوئی بھی کلام فصاحت وبلاغت کے معیار کے مطابق بلند ترین درجے کا حامل ھی کیوں نہ هو، پھر بھی قرآن کی روح اور جذابیت کے مقابلے میں اس کی حیثیت اصلی پھول کے مقابلے میں کاغذی اور حقیقی انسان کی نسبت مجسمے کی ھے۔
۶۔قرآن میں عدم اختلاف:
اس بات میں شک وتردید کی گنجائش نھیں کہ انسان میں موجود فکری تکامل کے وجہ سے اس کے اعمال واقوال کبھی یکساں نھیں رہتے خواہ کسی ایک فن میں ماھر هونے کے ساتھ ساتھ تمرکز افکار کے لئے تمام وسائل بھی اسے مھیا کر دیئے گئے هوں تب بھی ھر ماھر فن کی زندگی کے مختلف مراحل میں اس کے علمی آثار میں تبدیلیاں رونما هوتی ھیں ،کیونکہ فکری تحول کے نتیجے میں اس فکر کے تحت رونما هونے والے آثار وافعال میں تحول ایک ضروری امر ھے۔
قرآن ایسی کتاب ھے جومعرفت مبدا ومعاد، آیات ِآفاق وانفس، خالق وخلق کے ساتھ انسان کے روابط، فردی واجتماعی ذمہ داریاں، گذشتہ امم کے قصوں اور انبیاء کے حالات جیسے مختلف امور پر مشتمل هوتے هوئے ایک ایسے شخص کی زبان پر جاری هوئی جس نے نہ تو کھیں سے پڑھا اور نہ ھی کوئی اس کا استاد تھا اور جس کے لئے مکہ میں مشرکین کے شر اور مدینہ میں کفار سے جنگوں اور منافقین کے مکر وحیلوں میں مبتلا هونے کی وجہ سے پریشانی ٴ افکار کے تمام اسباب موجودتھے۔
ان پر آشوب حالات کو مد نظر رکھتے هوئے طبیعی ھے کہ ایسے شخص کی زبان سے بیان شدہ کتاب کو بہت ھی زیادہ اختلافات پر مشتمل هونا چاھیے تھا، لیکن قرآن میں عدم اختلاف سے یہ بات ثابت هوتی ھے کہ اس کا نزول فکرِ انسانی کے افق سے کھیں بلند تر ھے، کیونکہ یہ مقام وحی ھے جو جھالت اور غفلت سے منزہ ھے <اٴَ فَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً> [62]
۷۔قرآن کی علمی اور عملی تربیت :
اگر کسی کا دعوٰی هو کہ وہ تمام اطباء جھان سے بڑا ھے تو یہ دعوٰی ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس دو راستے ھیں :
یا تو علم طب سے متعلق ایسی کتاب پیش کرے کہ اس کی طرح امراض کے اسباب، دواؤں اور علاج کو پھلے کسی نے ذکر نہ کیا هو۔
یا پھر ایسے مریض کو جس کے تمام اعضاء وجوارح بیماریوں میں مبتلا هوں، تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے هوں اور وہ مرنے کے قریب هو، اگر اس کے سپرد کردیا جائے تو وہ ایسے مریض کو صحت وسلامتی کا لباس پھنا دے۔
انبیاء علیھم السلام، افکار وروح کے طبیب اور امراض ِانسانیت کے معالج ھیں۔
ان میں سرفھرست پیغمبر اسلام (ص) کی ذات اطھر ھے، جس کی علمی دلیل قرآن جیسی کتاب ھے جو انسان کے فکری، اخلاقی اور عملی امراض کے اسباب وعلاج میں بے مثال ھے اورھدایت قرآن کی بحث میں مختصر طور پر جس کے چند نمونے ذکر کئے گئے ھیں اور عملی دلیل یہ ھے کہ پیغمبر اسلام (ص) بد ترین امراضِ انسانیت میں مبتلا ایک معاشرے میں مبعوث هوئے جن کے افراد فکری اعتبار سے اس حد تک گر چکے تھے کہ ھر قبیلے کے پاس اپنا ایک مخصوص بت تھا، بلکہ گھروں میں افراد اپنے لئے کجھور اور حلوے سے معبود بناتے تھے، صبح سویرے ان کے سامنے سجدہ بجا لاتے اور بھوک کے وقت ان ھی معبودوں کو کھا لیا کرتے تھے۔
معرفت اور ایمان کے مرھم کے ذریعے ناسور زدہ افکار کا ایسا علاج کیا کہ وہ لوگ خالق جھاں کی تعریف ان الفاظ میں کرنے لگے <اَللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لاَ تَاٴْخُذُہ سِنَةٌ وَّلاَ نَوْمٌ لَّہ مَافِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلاٴَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَہ إِلاَّ بِإِذْنِہ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اٴَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِنْ عِلْمِہ إِلاَّ بِمَا شَاءَ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضَ وَلاَ یَوٴُدُہ حِفْظُہُمَا وَ هو الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ> [63] اور اس خالق ِ حقیقی کے سامنے سجدہ ریز هوکر کھنے لگے ((سبحا ن ربی الاعلی وبحمدہ))
باھمی الفت کے اعتبار سے حیوانات سے زیادہ پست تھے کہ باپ اپنے ھی ھاتھوں اپنی بیٹی کو نھایت ھی سنگدلی سے زندہ دفن کردیتا تھا۔ [64] اس درندہ صفت قوم میں باھمی الفت کو اس طرح زندہ کیا کہ مصر کی فتح کے بعد جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک خیمے میں پرندے نے گھونسلا بنایا هوا ھے تو واپس پلٹتے وقت اس خیمے کو وھیں پر رھنے دیا کہ کھیں پرندے کے بچے اور گھونسلا ویران نہ هوجائیں اور اسی لئے وھاں آباد هونے والے شھر کا نام ”فسطاط“ رکھا گیا۔ [65]
فقراء کے مقابلے میں اغنیاء کے اظھارِ قدرت وگستاخی کو اس طرح دور کیا کہ ایک دن جب آنحضرت (ص) کی خدمت میں ایک مالدار شخص بیٹھا تھا، ایسے میں ایک نادار شخص آکر اس کے ساتھ بیٹھ گیا، اس مالدار شخص نے اپنا دامن ہٹا لیا اور جب متوجہ هوا کہ آنحضرت (ص) یہ سب دیکھ رھے ھیں، کھنے لگا : یا رسول اللہ (ص) !میں نے اپنی آدھی ثروت اس غریب کو دی، اس غریب نے کھا : مجھے قبول نھیں ھے،کھیں میں بھی اس مرض میں مبتلا نہ هوجاؤں جس میں یہ مبتلا ھے ۔ [66]
یہ کیسی تربیت تھی کہ مالدار کو ایسی بخشش اور نادار کو اتنی بلند نظری عطا کی اور امیر کے تکبر کو تواضع اور غریب کی ذلت کو عزت میں تبدیل کر دیا ۔کمزور پر طاقتور کے مظالم کا اس طرح قلع قمع کیا کہ امیر المومنین (ع) کی حکومت کے زمانے میں جس وقت مسلمانوں کے خلیفہ کے پاس ایران اور روم کے شھنشاہوں جیسی عظیم فوجی طاقتیں موجود تھیں اور مالک اشتر سپہ سالار تھے، ایک دن جب مالک اشتر ایک سادہ اور عام انسان کی طرح بازار سے گزر رھے تھے تو کسی نے ان کا مذاق اڑایا۔لوگوں نے کھا جس کا تم نے مذاق اڑایا، جانتے هو وہ شخص کون ھے؟ اس نے کھا: نھیں ؛جب اسے بتایا گیا کہ کون تھاتو پریشان هوا کہ مالک اشتر کے پاس اس قدرت مطلقہ کے هوتے هوئے اب اس کا کیا حشرہوگا، مالک کی تلاش میں نکلا، اسے بتایا گیا کہ مالک اشتر مسجد کی طرف گئے ھیں، سر جھکائے مالک کے پاس گیا تاکہ اپنے کئے کی معافی مانگے، مالک نے کھا :”تیرے عمل کی وجہ سے میں نے مسجد میں آکر دو رکعت نما زادا کی ھے تاکہ خدا سے تیری مغفرت کی درخواست کر سکوں ۔“ [67]
یہ تربیت ھی کا اثر تھا کہ طاقت وقدرت کا غرور اسے حی قیوم کے سامنے پیشانی رگڑنے سے نہ روک سکا اور اھانت کرنے والا جب سزا پانے کے خوف واضطراب میں مبتلا تھا، اسے سزا دینے کے بجائے خدا سے طلبِ مغفرت جیسا بہترین تحفہ عطا کیا ۔
قومی فاصلے اس طرح مٹا ئے کہ عجم کی نسبت عرب قومیت کے رسوخ کے باوجود، سلمان فارسی کو اس آیت کے حکم کے مطابق [68]<وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاوَةِ وَالْعَشِِيِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہ وَلاَ تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ لاَ تُطِعْ مَنْ اٴَغْفَلْنَا قَلْبَہ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ هواہُ وَکَانَ اٴَمْرُہ فُرُطاً> [69] اپنے پھلو میں بٹھایا [70] کہ جس کے نتیجے میں مدائن کی امارت ان کے حوالے کی گئی۔
رنگ ونسل کے امتیازات کو جڑ سے یوں اکھاڑا کہ بلال حبشی جیسے غلام کو اپنا موٴذن قرار دیا، اس وقت جب آنحضرت (ص) سے کھا گیا کہ آپ نے جو بھی حکم دیا ھم نے قبول کیا لیکن اس کالے کوے کی آواز سننے کو تیار نھیں، تو آپ (ص) کا جواب یہ تھا، <یَا اٴَیُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقنَْاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ اٴُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اٴَتْقَاکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ> [71]
ایسا پاک و پاکیزہ درخت کاشت کیا کہ علم ومعرفت جس کی جڑیں،مبدا ومعاد پر اعتقاد اس کا تنا، ملکاتِ حمیدہ واخلاقِ فاضلہ اس کی شاخیں، تقویٰ وپرھیزگاری اس کی کلیاں، محکم وسنجیدہ گفتار اور پسندیدہ کردار جس کے پھل تھے <اٴَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اٴَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَائِخ تُوٴْتِیْ اٴُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِإِذْنِ رَبِّھَا> [72]