۵۔ اولاد کے مالی حقوق :
والدین پراولاد کاایک مالی حق یہ ہے کہ انہیں خرچ فراہم کریں اوران کے لباس، طعام اوررہائش جیسی ضروریات کوپوراکریں اورشریعت اسلامی میں اقرباء پرخرچ کرنے کوخاص اہمیت حاصل ہے بلکہ دیگرمقامات پرخرچ کرنے سے بہترہے رشتہ داروں پرخرچ کرنااوراس کازیادہ ثواب ہے، جیسا کہ والدین کی وراثت کے مالک اولادہے اوراسلام اولاد کومحروم کرناجائز قرارنہیں دیتامگرخاص حالات میں جیسے بیٹے کامرتد ہوجانا یاوالدین کوقتل کرنا، اولاد کے حق وراثت کے بارے میں اللہ تعالی فرماتاہے :
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثیین… [29]۔
”اللہ تعالی اولاد کے سلسلے میں تمہیں وصیت کرتاہے کہ مرد کے لئے عورتوں کے دوبرابرحصہ ہے“۔
اورمزید ارشاد ہوتاہے :
وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اٴَزْوَاجُکُمْ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمْ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصِینَ بِہَا اٴَوْ دَیْنٍ ۔
۱۔ ”اورتمہارے لئے اس کاآدھاہے جوتمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کابچہ نہ ہو، اوراگران کاکوئی بچہ ہوتوتمہارے لئے چوتھا حصہ ہے بعد اس وصیت کے جووہ کرتی ہیں یاقرض کے اوران کے لئے چوتھا حصہ ہے اس کاجوتم چھوڑ جاؤاگرتمہارا بچہ نہ ہواوراگربچہ ہوتوان کے لئے آٹھواں حصہ ہے اس کاجوتم چھوڑجاؤبعد اس وصیت کے جوتم کرتے ہویاقرض کے“۔
یہاں سوال پیداہوتاہے کہ ایک طرف سے والدین کوبچوں کے درمیان عدل ومساوات قائم کرنے کاحکم دیتاہے تودوسری طرف قرآن کہہ رہاہے لڑکے کاحصہ لڑکی کے دوبرابرہے یہ سوال زمانہ قدیم میں آئمہ سے بھی کیاگیاتوان کاجواب ایک ہی تھا چنانچہ اسحاق بن محمدنخعی سے روایت ہے کہ فہفکی نے امام حسن عسکری سے دریافت کیا عورت مسکین کاکیاحق ہے کہ اسے ایک حصہ ملتاہے تومردکودو؟ آپ نے فرمایا: ان المراة لیس علیھا جھاد، ولانفقة، ولاعلیھا معقلة، انماذلک علی الرجال… فقال: نعم، ھذہ المسالة مسالة ابن ابی العوجاء وکان زندیقاوالجواب مناواحد [30]۔
عورت پرنہ جہاد ہے نہ نان ونفقہ اورنہ ہی خون بہا اوردین بلکہ یہ سب مرد پرہے“ کہتاہے کہ میں نے دل میں سوچاکہ مجھے کسی نے بتایاتھاکہ ابن ابی العوجاء نے بھی یہی سوال امام صادق سے کیاتھا اورانہوں نے اس کایہی جواب دیاتھا توامام عسکری نے میری طرف پلٹے اورفرمایا: ”ہاں ابن ابی العوجاء زندیق نے یہ سوال کیاتھا اورہماری طرف سے اس کاایک ہی جواب ہے“۔
آئمہ نے اس پراورطریقوں سے بھی روشنی بھی ڈالی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ مردعورت کومہردیتاہے اوریہ حق اللہ تعالی نے عورت کے لئے قراردیاہے اورپھر مرد ہے کہ جس پرعورت کاخرچ واجب ہے اورعورت پرکوئی خرچ نہیں ہے لہذا لڑکے اورلڑکی کے درمیان وراثت کایہ فرق عین عدل ہے اورقرآن کریم صراحت کے ساتھ اعلان کرتاہے کہ انبیاء کی اولادکوبھی باپ کی وراثت ملتی تھی (وورث سلیمان داؤد) اورسلیمان ، داؤود کے وارث بنے [31]۔
اورحضرت علی نے اسی آیت کے ذریعہ حضرت زہرا کے اپنے والدگرامی کے وراثت کے حقدارہونے پردلیل دیتے ہوئے فرمایاتھا : (ھذاکتاب اللہ ینطق)۔
”یہ اللہ کی کتاب بول رہی ہے “ اس پرلوگ خاموش ہوگئے اوراپنے باطل موقف سے پیچھے ہٹ گئے [32]۔
اورحضرت ابوبکرنے اس حدیث :
نحن معاشرالانبیاء لانورث،ماترکناہ صدقة
”ہم انبیاء وراثت نہیں چھوڑتے ہم جوکچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے“ کاسہارا لے کرحضرت فاطمة کواپنے والدگرامی کی وراثت سے محروم کردیا۔
حضرت ابوبکرکایہ قول قرآن کی واضح آیت کے مخالف ہے اوراس نے بنت مصطفی کے دل کوشدید صدمہ پہنچایاکیونکہ آپ اپنے حق کوغصب ہوتے دیکھ رہی تھیں اورجانتی تھیں کہ ہم اسے حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اورآپ کی اندوہ ناک وفات میں اس چیزکابھی دخل تھا۔
اس بات کی طرف اشارہ کرناباقی ہے کہ انبیاء اوصیاء اورصالحین نے اپنی اولاد کووصیت کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔
قرآن کریم حضرت ابراھیم کی اپنی اولاد کوکی گئی وصیت کویوں نقل کرتاہے
:
وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَابَنِیَّ إِنَّ اللهَ اصْطَفَی لَکُمْ الدِّینَ فَلاَتَمُوتُنَّ إِلاَّ وَاٴَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (۱۳۲) اٴَمْ کُنتُمْ شُہَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُون[33] ۔
”اوراس کی وصیت کی ابراھیم نے اپنی اولاد کواوریعقوب نے اے میرے بیٹو! اللہ تعالی نے تمہارے لئے دین کوچناہے پس تم نہ مرنامگراس حالت میں کہ تم مسلمان ہوکیاتم اس وقت موجودتھے جب یعقوب کے پاس موت آئی توانہوں نے اپنے بیٹوں سے کہامیرے بعدتم کس کی عبادت کروگے توانہوں نے کہا ہم تیرے آباؤاجداد ابراھیم، اسماعیل اوراسحاق کے معبود کی عبادت کریںگے درحالیکہ وہ ایک معبود ہے اورہم اسی کے فرمانبردارہیں“۔
اوراحادیث نے ہمارے لئے حضرت آدم کی اپنے بیٹے شیث کوکی گئی قدیم اورقیمتی وصیت کوذکرکیاہے اس کاایک اقتباس پیش کرتے ہیں :
اذا نفرات قلوبکم من شیٴ فاجتنبوہ، فانی حین دنوت من الشجرة لاتناول منھا نفرقلبی،فلوکنت امتنعت من الاکل مااصابنی مااصابنی۔
”دل جس شی سے نفرت کرے اس سے اجتناب کروکیونکہ میں جب درخت کے کھانے کے لئے اس کے قریب گیاتھا تومیرا دل نفرت کررہاتھا اوراگرمیں کھانے سے رک جاتا تومجھ پروہ مصیبت نہ آتی جوآئی“ [34]۔
اورآئمہ نے وصیت کوھدایت کے لئے ایک وسیلہ اوراپنے نورانی افکار کوآئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لئے ایک اسلوب کے طورپراستعمال کیااوروصیت ہی میں اپنی اولاد کومجموعہ عقائد اورزندگی کے تجربات سے آگاہ کردیا کرتے تھے۔
حضرت علی کی اپنے لخت جگرامام حسن کوکی گئی وصیت کے یہ جملے ملاحظہ فرمائیں توبلاتردید آپ انہیں صاف وشفاف بصیرت،ضمیر کی پاکیزگی اورانسانیت کامظہر کامل پائیں گے فرماتے ہیں :
اوصیک بتقوی اللہ ای بنی ولزوم امرہ، وعمارة قلبک بذکرہ والاعتصام بحبلہ وای سبب اوثق من سبب بینک وبین اللہ ان انت اخذت بہ! احی قلبک بالموعظة ، وامتہ بالزھادة، وقوہ بالیقین، ونورہ بالحکمة، وذللہ بذکرالموت واعلم یابنی ان احب ماانت آخذبہ الی من وصیتی، تقوی اللہ، والاقتصارعلی مافرضہ اللہ علیک والاخذ بمامضی علیہ الاولون من آبائک، والصالحون من اھل بیتک… [35]۔
”اے میرے پیارے بیٹے میں تجھے اللہ سے ڈرنے اورتقوی کواپناشعاربنانے کی وصیت کرتاہوں اور یہ کہ تم ذکرخدا سے اپنے دل کوآباد رکھواوراس کی رسی کومضبوطی سے تھامے رکھو اس کے سوا خدااورتمہارے درمیان کونسامضبوط رابطہ ہوسکتاہے اگرتم اس سے متمسک رہے اپنے دل کوموعظہ کے ذریعہ زندہ رکھواور زھد کے ذریعے اسے قوت بخشو اورحکمت کے ذریعے نورانیت اورموت کی یاد کے ذریعے اسے اذیت پہنچاؤ، میرے پیارے بیٹے میری وصیت میں سے مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ چیزجسے توحاصل کرسکتاہے اللہ سے ڈرناہے اوراسی پراکتفا کرناجسے اللہ تعالی نے تجھ پرفرض کیاہے اوراپنے باپ دادا کی نیک سیرت سے تمسک کرنا۔
اورامام حسین کوکی گئی وصیت کابہترین اورحسین ترین ٹکرا ملاحظہ فرمائیں :
یابنی اوصیک بتقوی اللہ فی الغنی والفقر، وکلمة الحق فی الرضاوالغضب، والقصد فی الغنی والفقر، وبالعدل علی الصدیق والعدو، وبالعمل فی النشاة واوالکسل،والرضی عن اللہ فی الشدة والرخا [36]۔
”میرے پیارے بیٹے میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتاہوں غنی وفقرمیں اورحق بات کی رضاوغضب میں اورمیانہ روی کی غنی اورفقرمیں اورعدل کرنے کی دوست ودشمن کے ساتھ، چستی اورسستی میں عمل کرنے اورخوشحالی میں خدائے تعالی سے راضی رہنے کی۔
ہمارے دوسروں اماموں نے بھی اسی سیرت پرعمل کیا لیکن سب کی وصیتوں کوذکرکرناممکن نہیں ہے اورجوکچھ ہم نے ذکرکیاہے ہمارے ہدف کے لئے کافی ہے۔
آخرمیں ہم ترتیب وارگذشتہ مطالب کاخلاصہ ذکرکرتے ہیں۔
خلاصہ:
بچے کے باپ پرکئی حقوق ہیں بعض ولادت سے پہلے جیسے حق وجود اوروالدہ کے انتخاب کاحق اوربعض ولادت کے بعدجیسے حق حیات پس کسی کواسے زندہ در گورکرنے یاقتل کرکے اس کی شمع حیات کوگل کرنے کاحق نہیں ہے اوراچھے نام،اچھی تربیت،نفع بخش علوم ومعارف کی تعلیم، اولاد کے درمیان عدل ومساوات قائم کرنا، ان کے مالی حق اداکرنے میں سستی نہ کرنا اور دین ودنیاکے معاملات میں اسے نصیحت کرنے میں بخل نہ کرناجیسے حقوق۔
آخرمیں امام سجاد کے اولاد کے حقوق کے بارے میں رسالے سے ایک اقتباس ذکرکرتے ہیں یہ وہ رسالہ ہے کہ جس کی فصول اورابواب معدن رسالت اورمنبع وحی سے پھوٹتے ہیں، فرماتے ہیں :
…وحق ولدک ان تعلم انہ منک، ومضاف الیک فی عاجل الدنیا بخیرہ وشرہ، وانک مسؤول عماولیتہ بہ من حسن الادب والدلالة علی ربہ عزوجل، والمعونة علی طاعتہ فاعمل فی امرہ عمل من یعلم انہ مثاب علی الاحسان الیہ، معاقب علی الاساء ةالیہ۔
”تم کوتمہارے بیٹے کاحق معلوم ہوناچاہئے کہ وہ تم سے ہے اوراس کی ہرنیکی اوربرائی تمہاری طرف منسوب ہوگی اورجوکچھ تم اسے دوگے تم سے اس کاسوال کیاجائے گااچھی تربیت،پروردگارکے بارے میں راہنمائی اوراس کی اطاعت پرکمک لذا تمہین اس کے ساتھ ایسارویہ اپنانا چاہئے جیسے تمہیں اس کی نیکی پرثواب اوراس کی برائی پرعقاب ملے گا [37]۔