مدینہ پر قبضہ
1220ھ میں سعود نے مدینہ پر بھی قبضہ كرلیا، اور روضہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قیمتی چیزوں كواپنے قبضے میں لے لیا،اس نے عثمانی بادشاهوں كی طرف سے مكہ او رمدینہ میں معین كئے گئے قاضیوں كو بھی شھر سے باھر نكال دیا۔
صلاح الدین مختار صاحب كی تحریر كے مطابق جس وقت مدینہ كی اھم شخصیات نے یہ دیكھ لیا كہ شریف غالب سعود سے بیعت كرنے كے خیال میں ھے تو انھوں نے سعود كو پیشكش كی كہ اھل مدینہ دین خدا ورسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سعود كی اطاعت كو قبول كرلے، یعنی ان كی بیعت كو قبول كرلے، انھوں نے یہ پیش كش كرنے كے بعد مدینہ منورہ میں موجود گنبدوں اور مقبروں كو گرانا شروع كردیا۔
اس طرح وھابیوں نے ایك بھت بڑی حكومت تشكیل دی كہ جس میں نجد اور حجاز شامل تھے اور عثمانی كارندوں كو باھر نكال دیا، نیز عثمانی بادشاهوں كا ذكر خطبوں سے نكال دیا، اور وہ اسی پر قانع نھیں هوئے بلكہ عراق كا رخ كیا مخصوصاً عراق كے دو مشهور شھر كربلائے معلی اور نجف اشرف پر حملے كئے۔
كربلا اور نجف اشرف پر وھابیوں كاحملہ
ابتداسے ھی آل سعوداور عراقیوں میں جو اس زمانہ میں عثمانی بادشاہ كے تحت تھے، لڑائی جھگڑے هوتے رھتے تھے اور وھابی لوگ عراق كے مختلف شھروں پر حملہ كرتے رھتے تھے، لیكن عراق كے دومشهور شھر نجف اور كربلا پر حملہ ایسا نھیں تھا جو مختلف شھروں پر هوتا رھتا تھا، بلكہ اس حملہ كا انداز كچھ اور ھی تھا او ر اس حملہ میں مسلمانوں كا قتل عام اور حضرت امام حسینںكے روضہٴ مبارك كی توھین كے طریقہ سے یہ معلوم هوتا ھے كہ ان كے مذكورہ كاموں كا بنیادی مقصد ان كے مذھبی عقائد تھے اور وہ بھی شدت اور تعصب كے ساتھ، كیونكہ انھوں نے تقریباً دس سال كی مدت میں كئی مرتبہ ان دونوں شھروں پر حملہ كیا ھے۔
ھم نے پھلے بھی عرض كیا ھے كہ ابن تیمیہ اور اس كے مرید اس وجہ سے شیعوں سے مخالفت اور دشمنی ركھتے تھے كہ ان كو قبروں پر حج كرنے والے یا قبروں كی عبادت كرنے والے كھا كرتے تھے اور بغیر كسی تحقیق كے ان كا گمان یہ تھا كہ شیعہ حضرات اپنے بزرگوں كی قبروں كی پرستش كرتے ھیں اور خانہ كعبہ كا حج كرنے كے بجائے قبور كا حج كرتے ھیں، اور اسی طرح كے دوسرے امور جن كی تفصیل ھم نے پھلے بیان كی ھے، سب كی بڑی وضاحت كے ساتھ تردید بھی كردی ھے۔
بھر حال چونكہ یہ دو شھر،(كربلا اور نجف اشرف) شیعوں كے نزدیك خاص اھمیت كے حامل تھے اور ھیں، اس بناپر ان دونوں زیارتگاهوں پر بھت بھترین، اور عمدہ گنبدیں بنائی گئی ھیں او ربھت سا نذر كا سامان او ربھت سی چیزیں ان روضوں كے لئے وقف كرتے ھیں اور ھر سال ہزاروں كی تعداد میں دور اور نزدیك سے مومنین كرام زیارت كے لئے جاتے ھیں، اور جیسا كہ پھلے بھی عرض كرچكے ھیںوھابی لوگ اپنی كم علمی كی وجہ سے بھت سے شبھات او راعتراضات كے شكار تھے جن كی بناپر شیعوں سے بھت زیادہ تعصب ركھتے تھے اور ھمیشہ ایسی چیزوں كی تلاش میں رھتے تھے جن كے ذریعہ اپنے مقصد تك پهونچ سكیں۔
دائرة المعارف اسلامی كی تحریر كے مطابق، ”خزائل نامی شیعہ قبیلہ“ كی طرف سے نجدی قبیلہ پر هوئی مار پیٹ كو انھوں نے كربلا اور نجف پر حملہ كرنے كا ایك بھانہ بنا لیا۔
كربلا اور نجف پر وھابیوں كے حملے1216ھ میں عبد العزیز كے زمانہ سے شروع هوچكے تھے جو1225ھ سعود بن عبد العزیز كی حكومت كے زمانہ تك جاری رھے۔
ان حملوں كی تفصیل وھابی اور غیر وھابی موٴلفوں نے لكھی ھے اور اس زمانہ كی فارسی كتابوں میں بھی یہ واقعات موجود ھیں، نجف اشرف كے بعض علمائے كرام جو ان حملوں كے خود چشم دید گواہ ھیں اور ان میں سے بعض اپنے شھر كے دفاع میں مشغول تھے انھوں نے ان تمام چیزوں كو اپنی كتابوں میں لكھاھے جن كو خود انھوں نے دیكھا ھے یا دوسروں سے سنا ھے، ھم یھاںپر ان كی كتابوں سے بعض چیزوں كو نقل كرتے ھیں:
كربلا پر حملہ
وھابی موٴلف صلاح الدین مختار اس سلسلہ میں كھتے ھیں:
”1216ھ میں امیر سعود (ابن عبد العزیز) نے اپنی پوری طاقت كے ساتھ نجد اور عشایر كے لوگوں كے ساتھ او راسی طرح جنوب ،حجاز اور تھامہ وغیرہ كے لوگوں كی ھمراھی میں عراق كا رخ كیا اور ذیقعدہ كو شھر كربلا پهونچ كر اس شھر كو گھیر لیا، اور اس لشكر نے شھر كی دیوار كو گرادیا، اور زبردستی شھر میں داخل هوگئے كافی لوگوں كو گلی كوچوں میں قتل كرڈالا اور ان كے تمام مال ودولت لوٹ لیا، اور ظھر كے وقت تك شھر سے باھر نكل آئے اور ” ماء الابیض “ نامی جگہ پر جمع هوكر غنیمت كی تقسیم شروع هوئی اور مال كا پانجواں حصہ (یعنی خمس) سعود نے لے لیا اور باقی مال كو اس طرح اپنے لشكر والوں میں تقسیم كیا كہ پیدل كو ایك اور سوار كو دوحصّے ملے“۔
پھر چند صفحہ بعد لكھتے ھیں كہ امیر عبد العزیز بن محمد بن سعود ایك عظیم لشكر كو اپنے بیٹے سعود كی سرداری میں عراق بھیجا جس نے ذیقعدہ1216ھ میں كربلا پر حملہ كیا۔
صلاح الدین مختار صاحب، ابن بشر كی باتوں كو نقل كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ امیر سعود نے اس شھر پر حملہ كیا جس كا شیعوں كی نظر میں احترام كرنا ضروری ھے۔
شیخ عثمان بن بشر نجدی مورخ مذكور واقعہ كی تفصیل اس طرح بیان كرتے ھیں كہ ذی قعدہ1216ھ میں سعود بھاری لشكر كے ساتھ جس میں بھت سے شھری اور خانہ بدوش (نجد، جنوب، حجاز اور تھامہ وغیرہ كے) تھے حضرت امام حسینںكی بارگاہ كربلا كا رخ كیا اور شھر كے باھر پهونچ كر پڑاوٴ ڈال دیا۔
مذكورہ لشكر نے شھر كی دیوار كوگرادیااور شھر میں داخل هوگئے اور شھر میں پهونچنے كے بعد گھروں او ربازاروں میں موجود لوگوں كا قتل عام كردیا، اور حضرت امام حسین ں كی گنبد كو بھی گرادیا، اور آپ كی قبر پر موجود ہ صندوق (ضریح) جس پر یاقوت اور دیگر جواھر ات لگے هوئے تھے اس پر قبضہ كرلیا، اور ان كے تمام مال ودولت، اسلحہ، لباس، فرش، سونا چاندی بھترین اور نفیس قرآن كو مال غنیمت میں لے لیا نیز اس كے علاوہ تمام چیزوں كو غارت كردیا، اور ظھر كے وقت شھر سے باھرنكل گئے، اس حملہ میں وھابیوں نے تقریباً دو ہزار لوگوں كو قتل كیا ۔
شیعوں كے عظیم عالم دین مرحوم علامہ سید جواد عاملی ،نجف اشرف پر وھابیوں كے حملہ كے چشم دید گواہ ھیں، وہ وھابی مذھب كی پیدائش كے ضمن میں اس طرح فرماتے ھیں كہ1216ھ میں حضرت امام حسین ں كے روضہٴ مبارك كو غارت كردیا چھوٹے بڑوں كو قتل كر ڈالا لوگوں كے مال ودولت كو لوٹ لیا خصوصاً حضرت امام حسین ں كے روضہ كی بھت زیادہ توھین كی اور اس كو گراڈالا۔
جن شیعہ موٴلفوں نے كربلا كے قتل عام كی تاریخ 18 ذی الحجہ (عید غدیر)1216 ھ ق۔ بیان كی ھے ان میں سے ایك صاحب ”روضات الجنات“بھی ھیں جنھوں نے مولیٰ عبد الصمد ھمدانی حائری كے حالات زندگی كے ضمن میں فرمایاھے: بروز چھار شنبہ 18 ذی الحجہ (عید غدیر)1216 ھ ق۔ كا دن تھا كہ وھابیوں نے مرحوم ھمدانی كو اپنی مكاریوں كے ساتھ گھر سے نكالا اور شھید كردیا۔
لیكن اس واقعہ كی تفصیل ڈاكٹر عبد الجواد كلید دار (جو خود كربلا كے رہنے والے ھیں) اپنی كتاب تاریخ كربلا وحائر حسینی میں ”تاریخِ كربلائے معلی“ (ص 20، 22)سے كچھ اس طرح نقل كرتے ھیں :
” 1216ھ میں وھابی امیر سعود نے اپنے بیس ہزار جنگجو بھادروں كا لشكر تیار كیا اور كربلا شھر پر حملہ ور هوا، اس زمانہ میں كربلا كی بھت شھرت اور عظمت تھی اور ایرانی ،تركی اورعرب كے مختلف ممالك سے زائرین آیا كرتے تھے، سعود نے پھلے شھر كو گھیرا اور اس كے بعد شھر میں داخل هوگیا، اور دفاع كرنے والوں كاشدید قتل عام كیا، شھر كے اطراف میں خرمے كی لكڑیوں اور اس كے پیچھے مٹی كی دیوار بنی هوئی تھی جس كو انھوں نے توڑ ڈالا۔
وھابی لشكر نے ظلم اور بربریت كا وہ ناچ ناچا جس كو بیان نھیں كیا جاسكتا، یھاںتك كہ كھا یہ جاتا ھے كہ ایك ھی دن میں انھوں نے بیس ہزار لوگوں كا قتل عام كیا۔
اور جب امیر سعود كا جنگی كام ختم هوگیا تو وہ حرم مطھر كے خزانہ كی طرف متوجہ هوا، یہ خزانہ بھت سی نفیس اور قیمتی چیزوں سے بھرا هوا تھا، وہ سب اس نے لوٹ لیا، كھا یہ جاتا ھے كہ جب ایك خزانہ كے دروازہ كو كھولا تو وھاں پر كثیر تعداد میں سكّے دكھائی دئے اور ایك گوھر درخشان جس میں بیس تلواریں جو سونے سے مزین تھیں اور قیمتی پتھر جڑے هوئے تھے اسی طرح سونے چاندی كے برتن اور فیروزہ اور الماس كے گرانبھا پتھر تھے ان سب كو لوٹ لیا، اسی طرح چار ہزار كشمیری شال، دوہزار سونے كی تلواریں اور بھت سی بندوقیں اور دیگر اسلحوں كو غارت كرلیا۔
اس حادثہ كے بعد شھر كربلا كی حالت یہ تھی كہ شاعر لوگ اس كے لئے مرثیہ كھتے تھے، اور جو لوگ اپنی جان بچا كر بھاگ نكلے تھے، شھر میں لوٹ آئے، اور بعض خراب شدہ چیزوں كے ٹھیك كرنے كی كوشش كرنے لگے۔
”لونكریك“ نے اپنی تاریخ (چھار قرن از عراق)میں لكھا ھے كہ اس واقعہ كو دیكھ كر اسلامی ممالك میں ایك خوف ووحشت پھیل گئی۔
مذكورہ موٴلف دوسری جگہ پر ”لونكریك“ سے نقل كرتے هوئے اس طرح لكھتے ھیں وھابیوں كے كربلا سے نزدیك هونے كی خبر2نیسان(جولائی)1801ء كو شام كے وقت پهونچی اس وقت كربلا كے لوگوں كی كثیرتعداد زیارت كے لئے (عید غدیر كی مناسبت سے) نجف اشرف گئی هوئی تھی، جو لوگ شھر میں باقی تھے انھوں نے جلدی سے شھر كے دروازے بند كردئے، وھابیوں كی تعداد 600پیدل اور 400 سوار تھے، چنانچہ شھر سے باھر آكر جمع هوگئے اور اپنے خیمہ لگادئے او راپنے كھانے پینے كی چیزوں كو تین حصوں میں تقسم كیا اور ”باب المخیم“ نامی محلہ كی طرف سے دیوار توڑ كر ایك گھر میں داخل هوگئے اوروھاں سے نزدیك كے دروازے پر حملہ كردیا اور پھر شھر میں داخل هوگئے ۔
اس موقع پر خوف ودہشت كی وجہ سے لوگوں نے ناگھانی طور پر بھاگنا شروع كردیا، وھابیوں نے حضرت امام حسین ں كے روضہ كا رخ كیا، اور وھاں پر توڑ پھوڑ شروع كردی، اور وھاں پر موجود تمام نفیس اور قیمتی چیزوں كو جن میں سے بعض ایران كے بادشاهوں اور دیگر حكّام نے نذر كے طور پر بھیجی تھی ان تمام چیزوں كو غارت كرلیا، اسی طرح دیوار كی زینت اور چھت میں لگے سونے كو بھی ویران كرڈالا، قیمتی قالینوں ،قندیلوں اور شمعدانوں وغیرہ كو بھی لوٹ لیا، اور دیواروں میںلگے جواھرات كو بھی نكال لیا۔
ان كے علاوہ ضریح مبارك كے پاس تقریباً 50لوگوں كو اور صحن میں 500لوگوں كو قتل كردیا، وہ لوگ جس كو بھی پاتے تھے وحشیانہ طریقہ سے قتل كردیا كرتے تھے، یھاں تك كہ بوڑھوں اور بچوں پر بھی كوئی رحم نھیں كیا، اس حادثہ میں مرنے والوں كی تعداد كو بعض لوگوں نے ایك ہزار او ربعض لوگوں نے پانچ ہزار بتائی ھے۔
سید عبد الرزاق حسنی صاحب اس سلسلہ میں فرماتے ھیں كہ1216ھ میں وھابیوں كے لشكر نے جس میں 600 اونٹ سوار اور 400 گھوڑے سوار تھے كربلا پر حملہ كردیا اور یہ اس وقت كا واقعہ ھے جب اكثر لوگ نجف اشرف كی زیارت كے لئے گئے هوئے تھے۔
حملہ آوروں نے حضرت امام حسینں اور جناب عباسں كے روضوں كو بھت زیادہ نقصان پهونچایا، اور ان دونوں روضوں میں جوكچھ بھی تھا وہ سب غارت كردیا، اور ساری قیمتی چیزیں جیسے قیمتی پتھر ”ساج“ كی لكڑی، بڑے بڑے آئینے اور جن ہدیوں كو ایران كے وزیروں اور بادشاهوں نے بھیجا تھا ان سب كو لوٹ لیا، اور در ودیوار میں لگے قیمتی پتھروں كو ویران كردیا اور چھت میں لگے سونے كو بھی لے گئے اور وھاں پر موجود تمام قیمتی اور نفیس قالینوں، قندیلوں اور شمعدانوں كو بھی غارت كرلیا۔
قارئین كرام!جیسا كہ آپ حضرات نے ملاحظہ كیا كہ مختلف كتابوں نے وھابیوں كی تعداد اور مقتولین كی تعداد میں اختلاف كیا ھے ۔ لیكن وھابی موٴلف كی تحریر كے مطابق جس كو ھم نے پھلے ذكر كیا ھے اور دوسرے شواہد كی بناپر وھابیوں كی تعداد بیس ہزار او رمرنے والوں كی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ صحیح دكھائی دیتی ھے۔