پھلا واقعہ
1216ھ میں جب وھابیوں نے كربلا ئے معلی پر حملہ كیا اور اس كو ویران كردیا اس كے بعد نجف اشرف كا رخ كیا۔
اس واقعہ كو ”براقی“ اس كے چشم دید گواہ شخص سے اس طرح نقل كرتے ھیں :
” سعود نجف اشرف آیا اور اس كا محاصرہ كرلیا دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگی، نجف كے پانچ افراد قتل هوگئے جن میں سے ایك میرے چچا سید علی حسنی معروف بہ” ببراقی“ تھے۔
چونكہ اھل نجف وھابیوں كے كرتوت سے جو انھوں نے كربلا اور مكہ ومدینہ میں انجام دئے واقف تھے لہٰذا بھت پریشان او رمضطرب تھے عورتیں گھروں سے باھر نكل آئیں، اور جوانوںاور بزرگوں كو غیرت دلانے كے لئے بھت سے جملے كہنے لگیں، تاكہ وہ اپنے شھر اور ناموس سے دفاع كریں اور ان كی غیرت جوش میں آئے۔
تمام لوگ گریہ وزاری میں مشغول، خدا كی پناہ مانگ رھے تھے، اور حضرت علی ں سے مدد طلب كررھے تھے، اس وقت خدا نے ان كی مدد كی اور دشمن وھاں سے بھاگ نكلے اور تمام لوگ اپنے اپنے گھروں كوچلے گئے۔
نجف اشرف كے علماء اور طلاب كے دفاع كا دوسرا واقعہ
نجف اشرف كے لوگوں كو یہ احساس هوگیا تھا كہ وھابی لوگ پیچھا چھوڑنے والے نھیں ھیں، اور آخر كار نجف پر بھی حملہ كریں گے، اس بناپر انھوں نے سب سے پھلا كام یہ كیا كہ حرم حضرت امیر المومنین ں كے خزانہ كو بغداد منتقل كردیا، تاكہ حرم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے خزانہ كی طرح غارت نہ هو، اور اس كے بعد اپنی جان او راپنے شھر سے دفاع كے لئے تیار هوگئے۔
شھر نجف سے دفاع كرنے والوں كے سردار، شیعہ بزرگ عالم دین علامہ شیخ جعفر كاشف الغطاءۺ تھے جن كے ساتھ دیگر علماء بھی تھے، مرحوم كاشف الغطاء نے اسلحہ جمع كرنا شروع كیا، اور دفاع كے سلسلہ میں جس چیز كی بھی ضرورت سمجھی اس كو جمع كرلیا۔
اس تیاری كے چند دن بعد وھابیوں كا لشكر شھر سے باھر آكر اس امید میں جمع هوگیا كہ كل صبح هوتے ھی شھر پر حملہ كردیں گے اور قتل وغارت كریں گے، لہٰذا ساری رات شھر كی دیوار كے باھر گذار دی۔ كاشف الغطاءۺ كے حكم سے شھر كے دروازوں كو بند كردیا گیا او ران كے پیچھے بڑے بڑے پتھر ركھ دئے گئے، اس زمانہ میں شھر كے دروازے چھوٹے هوتے تھے، مرحوم شیخ كاشف الغطاء نے شھر كے ھر دروازے پر كچھ جنگجو جوانوں كو معین كیا اور باقی جنگجو افراد شھر كی دیوار كی حفاظت میں مشغول هوگئے۔ اس وقت نجف اشرف كی دیوار كمزور تھی اور ھر چالیس پچاس گز كے فاصلہ پر ایك برج تھا كاشف الغطاء نے ھر برج میں دینی طلباء كو بھر پور اسلحہ كے ساتھ تعینات كردیا ۔
شھر كے دفاع كرنے والوں كی تمام تعداد 200 سے زیادہ نھیں تھی، كیونكہ وھابیوں كے حملہ سے ڈر كر بھت سے لوگ بھاگ نكلے تھے اور عراق كے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے چلے گئے تھے، صرف علماء میں مشهور حضرات باقی بچے تھے مثلاً شیخ حسین نجف اور شیخ خضر شلال، سید جواد صاحب مفتاح الكرامہ، شیخ مہدی ملا كتاب اور دوسرے بعض منتخب علماء حضرات، جو سب كے سب كاشف الغطاء كی مدد كررھے تھے، اور یہ سب لوگ مرنے اور مارنے پر تیار تھے، كیونكہ دشمنوں كی تعداد بھت زیادہ اور خود ان كی تعداد بھت كم تھی، لیكن تعجب كی بات یہ ھے كہ وہ دشمن جس نے یہ طے كرلیا تھا كہ صبح هوتے ھی حملہ كردیا جائے گا، ابھی صبح بھی نہ هونے پائی تھی كہ وہ سب پراكندہ هوگئے۔
صاحب كتاب ”صدف“ (ص 112) جو خود اس واقعہ كے چشم دید گواہ ھیں وھابیوں كے لشكر كی تعداد 15000ذكر كرتے ھیں جن میں سے 700لوگ قتل كردئے گئے۔
ابن بشر، نجدی مورخ نے نجف اشرف پر وھابیوں كے حملہ كے بارے میں كھا ھے كہ1220ھ میں سعود نے اپنے عظیم لشكر كے ساتھ مشہد معروف عراق (مقصود نجف اشرف ھے) كا رخ كیا اور وھاں پهونچ كر اپنے سپاھیوں كو شھر كے چاروں طرف پھیلا دیا، اور شھر كی دیوار كو گرانے كا حكم دیدیا، جب اس كے سپاھی شھر كی دیوار كے نزدیك هو ئے تو انھوں نے دیكھا كہ ایك بھت بڑی خندق ھے جس سے نكلنا مشكل ھے، لیكن دونوں طرف سے گولیوں اور تیروں كی وجہ سے وھابی لشكر(ابن بشر كے قول كے مطابق مسلمانوں كے لشكر) كے بھت سے لوگ مارے گئے، یہ دیكھ كر وہ لوگ شھر سے پیچھے ہٹ گئے اور دوسرے علاقوں میں قتل وغارت كرنے كے لئے روانہ هوگئے۔
خلاصہ یہ كہ نجف اشرف كے اوپر وھابیوں كے حملوں كا سلسلہ جاری رھا لیكن انھیں كوئی كامیابی نھیں مل پا تی تووہ مجبور هوكر لوٹ جاتے تھے، اھل نجف وھابیوںكے شر سے رھائی كے لئے خدا كی پناہ مانگتے تھے او رحضرت علی ں سے متوسل هوتے تھے، جس كی بنا پر ان كی ھمیشہ مدد هوتی رھی۔
مرحوم سید محمد جواد عاملی جو خود اس واقعہ كے چشم دید گواہ اور دفاع كرنے والوں میں سے تھے، مفتاح الكرامہ كی پانچویں جلد كے آخر میں یوں رقمطراز ھیں كہ ماہ صفر كی نویں تاریخ كو نماز صبح كے ایك گھنٹہ پھلے وھابیوں نے اچانك ھم پر دھاوا بول دیا یھاں تك كہ ان میں سے بعض لوگ شھر كی دیوار پر بھی چڑھ گئے اور قریب تھا كہ وہ شھر پر قبضہ كرلیتے۔
لیكن حضرت امیر المومنین علی ں سے معجزہ رونما هوا، اور ان كے كرم سے كچھ ایسا هوا كہ دشمن كے بھت سے لوگ مارے گئے اور وہ بھاگنے پر مجبور هوگئے، اگرچہ علامہ عاملی نے واقعہ كی تفصیل بیان نھیں كی ھے۔
اسی طرح علامہ موصوف جلد ہفتم كے آخر میں كھتے ھیں كہ اس كتاب كا یہ حصہ ماہ رمضان المبارك كی نویں تاریخ1225ھ كی تاریخ آدھی رات میں تمام هوا جبكہ ھمارا دل مضطرب اور پریشان ھے كیونكہ ”عُنَیْزَہ“ كے وھابیوں نے نجف اشرف اور كربلائے معلی كو گھیر ركھا تھا۔
”رَحبہ“ كے بارے میں ایك وضاحت
نجف اشرف پر حملہ كر نے كے لئے وھابیوں نے ”رَحبہ“ كو اپنی چھاؤنی بنا لیا تھا،رحبہ نجف اشرف كے نزدیك ایك سر سبز وشاداب علاقہ ھے ،یہ علاقہ ایك ثروتمند اور مالدار شخص سید محمود رَحباوی سے متعلق تھا، جب بھی وھابی لوگ نجف اشرف پر حملہ كرنا چاھتے تھے تو سب سے پھلے مقام رحبہ میں جمع هوتے تھے، اور سید محمود ان كا بھت احترام كرتا تھا، نیز ان كی خاطر ومدارات كرتا تھا، اسی وجہ سے كھا جاتا ھے كہ اسی شخص نے نجف اشرف پر حملہ كرنے كی راہنمائی بھی كی تھی۔
مرحوم كاشف الغطاء جو دفاع كرنے والوں كے سرپرستوں میں سے تھے، ان كو جب اس بات كا علم هوا تو انھوں نے سید محمود كو پیغام بھجوایا :
جب تم یہ احساس كرو كہ وھابی لشكر نجف اشرف پر حملہ كرنا چاھتے ھیں تو ھمیں ضرور آگاہ كردینا، تاكہ ھم غفلت میں نہ رھیں، بلكہ دفاع كے لئے تیار رھیں۔ سید محمود نے جواب دیا كہ میں ایك ثروت مند آدمی هوں اور بھت سی پراپرٹی ركھتا هوں میں وھابیوں كے منھ میں ایك لقمہ كی طرح هوں لہٰذا میں ڈرتا هوں، كاشف الغطاء نے اس كا یہ جواب دیكھ كر مجبوراً نجف كے كچھ جوانوں كو اسلحہ كے ساتھ معین كیا اور ان كی تنخواہ بھی مقرر كی، تاكہ یہ جوان اس طرف سے شھر پر هونے والے حملہ كا خیال ركھیں۔
اس كے بعد سے ایك طولانی مدت تك خصوصاً عراق پر ملك فیصل كے انتخاب كے بعد سے (یعنی پھلی عالمی جنگ كے بعد) عراق پر نجدیوں كے حملے هوتے رھتے تھے، جس میں كافی قتل وغارت هو تی رھتی تھی لیكن یہ حملے تقریباً سیاسی جھت ركھتے تھے ان حملوں كا مذھب سے كوئی تعلقنھیں تھا،منجملہ ان كے 12رجب المرجب كی شب كو نجد كے ”جمعیة الاخوان“ نامی گروہ نے عراقی قبیلہ ”منتفق“ پر حملہ كیاجس میں بھت نقصانات هوئے جن كی فھرست حكومت عراق كی طرف سےمعاینہ كمیٹی نے اس طرح بیان كی ھے كہ اس حملہ میں694لوگ مارےگئے،130گھوڑے،2530اونٹ،3811 گدھے، 34010 گوسفنداور 781 گھر غارت هوئے، جس گروہ نے یہ حملہ كیا وہ ”دویش“ (اخوان كے روٴسا) كے پیروكار تھے۔
اھل عراق وھابیوں كے حملوں سے تنگ آچكے تھے، لہٰذا انھوں نے مجبور هوكر حكومت سے یہ مطالبہ كیا كہ اس طرح كے حملوں كی روك تھام كے لئے كوئی ٹھوس قدم اٹھائے، اس حالت كو دیكھ كر بھت سے وزیروں نے استعفاء دیدیا، اس كے بعد انگلینڈ كی حكومت نے ”سر پرسی كاكْس“ كو بھیج كر عراق اور ابن سعود كی حكومت كے درمیان صلح كرادی۔
كربلا میں ایك عظیم انجمن كی تشكیل
حكومت عراق اور انگلینڈ كی تدبیروں سے عراقی عوام مطمئن نہ هوسكی، اور وھابیوں كے دوبارہ حملہ كوروكنے كے لئے صحیح اور مطمئن راستہ كا انتخاب كرنا چاھا، چنانچہ سب لوگوں نے علماء كی طرف رجوع كیا۔
نجف اشرف كے علماء نے مشهور ومعروف مجتہد حاج شیخ مہدی خالصیۺ جن كا حكومت عراق میں اچھاخاصا رسوخ تھاان كو ٹیلیگرام كے ذریعہ ان سے درخواست كی كہ عراق كے تمام قبیلوں كے سرداروں كو 12شعبان (1240ھ)كو كربلائے معلی میں جمع كریں۔
مرحوم خالصیۺ صاحب نے اس درخواست پر عمل كرتے هوئے مختلف قبیلوں كے سرداروں كو تقریباً 150 ٹیلیگرام بھیجے جن میں انھیں كربلا میں مذكورہ تاریخ پر آنے كی دعوت دی گئی تھی اور خود بھی نھم شعبان كو كاظمین سے كربلا كے لئے روانہ هوگئے۔
اور اس طرح كربلا میں ایك عظیم كانفرس هوئی جس كی عراقی تاریخ میں نظیر نھیں ملتی، اس كانفرس میں مختلف قبیلوں كے لوگوں نے شركت كی، شركت كرنے والوں كی تعداد دو لاكھ (اور ایك قول كے مطابق تین لاكھ) كے نزدیك اندازہ لگایا جاتا تھا، یہ عظیم كانفرس در حقیقت عراق میں انگلینڈ سے قطع رابطہ كے لئے تھی۔
اس كانفرس كے متعدد جلسات دوسرے مقامات پر بھی هوئے، اور اس كا آخری جلسہ حضرت امام حسین ںكے صحن مطھر میں هوا، جس میں دو نسخوں میں قطعنامہ لكھا گیا اور دستخط كئے گئے تاكہ ایك نسخہ ملك فیصل كو دیا جائے اور ایك علماء كے پاس رھے۔
مذكورہ قطعنامہ كا خلاصہ اس طرح ھے كہ دستخط كرنے والے خود اپنی اور اپنے ان موكلین كی طرف سے جو ”جمعیة الاخوان“ والے مسئلے میں جو 12 سے پندرہ شعبان1240ھ تك جاری رھے،جمع هوئے۔
جمعیة الاخوان نے ھمارے مسلمان بھائیوں كا قتل عام اور مال واسباب كو غارت كیا اسی وجہ سے ھم لوگوں نے قاطعانہ طور پر یہ طے كرلیا ھے كہ روضات مقدسات كے تحفظ كے لئے ھر ممكن كوشش كری اورجمعیة الاخوان كے حملوں كو ناكام كرنے كے لئے ھر ممكن طریقے اپنائیں اور جمعیة الاخوان كے حملوں سے متاثر هوئے افراد كی ھر ممكن مدد كریں اور ان تمام چیزوں كا فیصلہ سب سے پھلے اعلیٰ حضرت ملك فیصل سے تعلق ركھتاھے لہٰذا ھم جنابعالی سے درخواست كرتے ھیں كہ اخوان كے قتل وغارت كے پیش نظر اس ملت كی ھر ممكن مدد كریں۔
ملك فیصل نے مذكورہ قطعنامہ كا نرم اور محبت آمیز جواب دیا، لیكن پھر بھی عراق كے حالات میں كوئی تبدیلی واقع نھیں هوئی، او رآخر كار مرحوم خالصی كو عراق سے مكہ اور وھاں سے ایران كے لئے جلا وطن كردیا گیا موصوف1243ھ میں مشہد مقدس میں اس دنیا سے چل بسے اور ان كو امام رضا ں كے جوار میں دفن كردیا گیا۔
مرحوم خالصیۺ كی جلا وطنی كے بعد نجف او ركربلا كے تقریباً تیس بزرگ عالموں كو (جو ایرانی الاصل تھے) ایران میں بھیج دیا گیا اور اس طرف سے نجدیوں كے عراق پر حملے بھی نھیں ركے، جیسا كہ نجدیوں نے كانون اول1924 میں عراق كے سرحدی علاقوں كے بعض قبیلوں پر حملہ كیا اور تقریباً 16 لوگوں كو قتل كیا اور بھت سے چوپایوں كو اٹھا لے گئے، اور اس حملہ كے چار دن كے بعد دوبارہ حملہ كیا اور بعض لوگوں كو قتل كیا اور تقریباً 150خیموں كو غارت كردیا۔