مقدس مقامات كے لئے ایك اسلامی انجمن كی تشكیل
ابن سعود نے مكہ اور مدینہ پر قبضہ كرنے كے بعد یہ سوچا كہ ان دونوں شھروں پر حكمرانی كرنے كے لئے عالم اسلام كے مشورے سے كوئی قدم اٹھائے۔
اسی منصوبہ كے تحت مختلف اسلامی ملكوں سے مثلاً تركی، ایران، افغانستان اور یمن سے اسی طرح دیگر سر زمینوں كے روساٴ مثلاً مصر، عراق، مشرقی اردن سے نیز امیر عبد الكریم ریفی، حاج امین الحسینی مفتی بزرگ فلسطین، ٹونس، دمشق اور بیروت كے والیوں كو دعوت دی تاكہ اس عظیم كانفرس میں شركت كریں یا اپنے نمائندے بھیجیں، (تاكہ ان دونوں شھروں كی حكومت كے بارے میں غور وفكر كیا جاسكے) اور یہ دعوت 10ربیع الثانی 1344ھ میں دی گئی۔
لیكن اكثر لوگوں نے اس دعوت كو قبول نھیں كیااور صرف چند ملكوں نے اس كو قبول كیا اور مذكورہ انجمن كی تشكیل میں شركت كی، شركت كرنے والوں میں ہندوستان كے مسلمان بھی تھے،سب نے مل كر یہ طے كیا كہ حجاز میں ایك ایسی جمهوری حكومت تشكیل دی جانی چاہئے جس میں تمام مسلمانوں كو شریك كیا جائے، اور یہ بھی طے هوا كہ اس كا اھم خرچ بھی ھم خود قبول كریں گے، لیكن یہ پیش كش مختلف وجوھات كی بناپر عملی نہ هو سكی۔
ایران كے شركت نہ كرنے كی وجہ
مرحوم علامہ عاملی كی تحریر كے مطابق ایران نے مذكورہ كانفرس میں اپنا نمائندہ بھیجنے كا منصوبہ بنالیا تھا لیكن جیسے ھی بقیع میں قبور ائمہ علیهم السلامكی ویرانی كی اطلاع پهونچی، تواعتراض كے طور پر ایران نے اپنا نمائندہ نہ بھیجنے كا فیصلہ كرلیا، اور اپنے حاجیوں كو بھی حج كے لئے نھیں بھیجا تاكہ كھیں ان كے لئے كوئی خطرہ درپیش نہ هو، اور جب1346ھ میں كوئی خطرہ نہ دكھائی دیا تو حاجیوں كو حج كرنے كی اجازت دے دی گئی۔
حجاز میں ابن سعود كی سلطنت
مذكورہ انجمن كا كوئی نتیجہ حاصل نہ هواتو مكہ معظمہ كے تیس علماء جدّہ پهونچے اور ان كے حضور میں ایك انجمن تشكیل دی گئی، اور 22جمادی الثانیہ1344ھ كو اتفاق رائے سے یہ طے هوا كہ سلطان عبد العزیز آل سعود كی حجاز كے بادشاہ كے عنوان سے بیعت كی جائے، اور اس كو یہ اطلاع دی كہ وہ بیعت كے لئے كوئی وقت معین كرے۔
25ربیع الثانی بروز جمعہ نماز جمعہ كے بعد باب الصفا (مسجد الحرام كے ایك دروازے) كے پاس جمع هوئے اور ابن سعود بھی تشریف لائے اور ایك پروگرام كے ضمن میں سید عبد اللہ دملوجی نے جو ابن سعود كے مشاورین میں سے تھا، بیعت كے طریقہٴ كار كو لوگوں كے سامنے بیان كیا،(خوشی كا یہ عالم تھا كہ) اس موقع پر توپ كے ایك سو ایك گولے داغے گئے۔
اس طریقہ سے ابن سعود نجد وحجاز كا بادشاہ بن گیا اور سب سے پھلے اس كو رسمی طور پر قبول كرنے والا” روس“ تھا، اس كے بعد انگلینڈ، فرانس، هولینڈ، تركی اور اس كے بعد دوسری حكومتوں نے قبول كرنا شروع كیا۔
سلطان عبد العزیز بن سعود نے اپنی حكومت كو مضبوط بنانے كے لئے بھت زیادہ كوشش كی، اور اس سلسلہ میں بھت سی حكومتوں سے معاہدے كئے، اور بھت سی شورش اور بلووں كو منجملہ فیصل الدرویش كی شورش كو ختم كیا اور اپنے تمام مخالفوں كو نیست ونابودكردیا، ایك دفعہ اس پر مسجد الحرام میں طواف كے وقت چار یمنیوں (زیدی مذھب) نے حملہ كردیا لیكن وہ زندہ بچ گیا، اور آخر كار ملك میں امن وامان قائم هوگیا جو اس ملك میں بے نظیر تھا۔
ابن سعود اور ادریسی حكمراں
جس وقت ابن سعود نے حجاز كو اپنے تصرف اور قبضہ میں كرلیا، اس وقت امام یحيٰ (امام یمن) نے سید حسن ادریسی كے زیر ولایت عسیر نامی جگہ(جو نجدكے علاقہ میںتھا) پر حملہ كردیا اور وھاں كی اكثر چیزوں كو نابود كردیا، یہ دیكھ كر ادریسی افراد خوف زدہ هوگئے كہ كھیں ایسا نہ هو كہ امام یحيٰ كے حملوں سے آل ادریس كی ولایت خطرے میں پڑجائے، اس وجہ سے ابن سعود كو خطوط لكھے اور اپنی طرف سے اس كے پاس نمائندے بھیجے، جس كے نتیجے میں 14 ربیع الثانی 1345ھ كو دونوں كے درمیان معاہدہ هوا جس میں یہ طے هوا كہ عسیر كی امارت ابن سعود كی حمایت میں ھے، اس معاہدہ میں 14بند تھے جس كے دوسرے بند میں امیر ادریس كو ابن سعود كی اجازت كے بغیر كسی بھی ملك سے گفتگو كرنے كی اجازت نھیں تھی اور تیسرے بند كے مطابق امیر ادریس كو یہ بھی حق حاصل نھیں تھا كہ كسی كے ساتھ اعلان جنگ كرے یا كسی كے ساتھ صلح كرے، مگر یہ كہ آل سعود كی اجازت سے هو، اور اس كے چھٹے بند كے مطابق امیر ادریس كو عسیركے داخلی امور میں تصرف كرنے كا حق دیا گیا تھا۔
لیكن ماہ رجب 1351ھ میں ادریسیوں نے ابن سعود كے خلاف شورش كردی، چنانچہ ابن سعود نے حجاز اور نجد سے لشكر تیار كركے عسیر كی طرف روانہ كیا، جس كے نتیجہ میں وھاں كے حالات صحیح هوگئے، اس وقت ابن سعود نے موقع كو غنیمت شمار كیا اور عسیر میں ادریسیوں كی فرمان روائی كے خاتمہ كا اعلان كردیا، اور اس كے بعد عسیر بھی سعودی عرب كا ایك استان (اسٹیٹ) بن گیا، اور سیدحسن ادریسی كے لئے عسیر میں قیام نہ كرنے كی شرط پر ماھانہ دوہزار سعودی ریال مقرر كئے ۔
تیل نكالنے كا معاہدہ
ابن سعود كے سب سے اھم كاموں میں سے ایك كام مشرقی علاقہ احساء (ظھران) میں تیل نكالنے كا معاہدہ ھے۔
سب سے پھلا معاہدہ مئی 1933ء میں سعودی كی عربی تیل كمپنی اور امریكی كی ”آرامكو“ نامی كمپنی كے درمیان هوا، جس پر سعودیہ كی طرف سے شیخ عبد اللہ سلیمان اور مذكورہ كمپنی كی طرف سے ”ھاملٹن“ نے دستخط كئے۔
اسم گذاری
17 جمادی اول1351ھ میں سلطان عبد العزیز آل سعود نے ایك فرمان بشمارہ 2716صادر كیا كہ 21 جمادی الاول سے ھمارا ملك ”المملكة العربیة السعودیة“ كے نام سے پكارا جائے اور جب ملك كا نام تبدیل هوگیا تو حكومت كے وزیروں اور اركان نے یہ طے كیا كہ سلطان عبد العزیز كے سب سے بڑے بیٹے امیر سعود كو ولی عہدی كے لئے منصوب كردیا جائے۔
16محرم1352ھ كو بادشاہ نے فرمان صادر كردیا اور وزراء كابینہ اور مجلس شوریٰ نے امیر سعودكی ولی عہدی كی بیعت كرنے كا وقت معین كردیا۔
ابو طالب یزدی كا واقعہ
ذی الحجہ 1362ھ میں ابو طالب یزدی كومكہ میں قتل كردیا گیا ،اور مكہ میں رونما هونے والے دوسرے واقعات جو قارئین كرام كے لئے بھت مفید ھیں تفصیل اور اس كی اصلی وجہ بیان كی جاتی ھے :
چنانچہ 14ذی الحجہ 1362ھ كو مكہ معظمہ میں یہ اعلان منتشر هوا:
”بلاغ رسمی رقم 82 ۔ جریمة منكرة:
القتالشرطة القبض فی بیت اللّٰہ الحرام فی یوم 12 ذی الحجة1362 علی المدعو عبدہ طالب بن حسین الایرانی من المنتسبین الی الشیعةفی ایران وهو متلبس باقذر الجرائم واقبحھا وھی حمل القاذورات وهو یلقیھا فی المطاف حول الكعبة المشرفة بقصد ایذاء الطائفین واھانة ہذا المكان المقدس وبعد اجراء التحقیق بشاٴنہ وثبوت ہذا الجرم القبیح منہ فقد صدر الحكم الشرعی بقتلہ وقد نفذ حكم القتل فیہ فی یوم السبت 14 ذی الحجة 1362 ولذا حرر۔
ایك رسمی اعلان شمارہ 82 بھیانك جرم۔
12 ذی الحجہ 1362ھ كو پولیس نے بیت اللہ الحرام میں شیعہ مذھب سے تعلق ركھنے والے ایك ایرانی بنام طالب بن حسین كو گرفتار كیاھے، جس نے بھت برا كام انجام دیاھے، اس نے كچھ كوڑا كركٹ اپنے ساتھ لیا اور طواف كرنے والوں كی اذیت كے لئے مطاف (طواف كرنے كی جگہ) میں ڈالدیا،تحقیقات اور گناہ ثابت هوجانے كے بعد شرعی طور پر 14 ربیع الاول كو اس كے قتل كے حكم پر عمل هو گیا۔
جب یہ خبر ایران پهونچی تو اس سے لوگ بھت ناراض هوئے اور سب لوگ تعجب كرنے لگے۔
كسی كو بھی حقیقت كا پتہ نھیں تھا یھاں تك كہ اس سال گئے هوئے ایرانی حجاج بھی حج سے واپس پلٹ آئے، انھوںنے حقیقت كو اس طرح بیان كیا :
” ابو طالب یزدی كا طواف كے وقت سر چكرانے لگا، اور قے آنے لگی، تو انھوں نے طواف كرنے والوں كے راستہ میں گندگی نہ پھیلنے كی وجہ سے اس كو اپنے دامن میں لے لیا، جس كی وجہ سے ان كا لباس احرام گندہ هوگیا“۔
چند مصری اور سعودی حاجیوں نے ان كو پكڑ كر وھاں كی پولیس كے حوالہ كردیا اور انھیں لوگوں نے عدالت میں گواھی بھی دی، كہ یہ شخص اپنے ساتھ میں گندگی اٹھائے هوئے تھا اور مطاف كو گندا كررھا تھا۔
سوال یہ پید اهوتا ھے كہ جن لوگوں نے ابو طالب یزدی كو اس طریقہ سے دیكھا ان كے ذہن میں فوراً یہ بات كیسے آئی كہ ابو طالب مطاف كو گندا كرنا چاھتا ھے، اور بیت اللہ الحرام كی توھین كرنا چاھتا ھے، اس تصور كی اصل وجہ كیا تھی؟!
اور كیا یہ فقط ان كا تصور تھا، یا ان چند لوگوں نے عمداً كسی خاص مقصد كے تحت یہ الزام اور تھمت لگائی؟!
ہ موضوع واقعاً پیچیدہ او رمبھم دكھائی دیتا ھے اور یہ بات روشن نھیں ھے كہ یہ واقعہ ایك اتفاق ھے یا اس كے پیچھے كسی كا ھاتھ ھے؟ اور دوسری تعجب خیز بات یہ ھے كہ كون شخص عاقل ایسا هوسكتا ھے كہ مسلمان هوكراتنی مشكلات كے ساتھ كتنی آرزوں اور تمناوں كے بعد حج سے مشرف هونے كے لئے وھاں جاتا ھے، او راس زمانہ میں سفر حج میں كتنی مشكلات تھیںان تمام مشكلات كو برداشت كرنے كے بعد حج كے لئے پهونچے اور اتنے شرمناك كام انجام دے، ؟!
اس كے بعد یہ سوال پیدا هوتا ھے كہ عدالت پر یہ كیسے ثابت هوا كہ یہ شخص ایسا ارادہ ركھتا تھا؟ كیونكہ نہ عدالت اس كی زبان كو سمجھتی تھی اور نہ ھی وہ عدالت كی زبان سمجھتے تھے، كس نے ان كا دفاع كیا، كیا كوئی فارسی جاننے والا وكیل ان كا دفاع كررھا تھا؟ ان تمام باتوں كے علاوہ الزام اور فیصلہ میں صرف دو دن كا وقت لگا، در حالیكہ اسلامی نظریہ كے مطابق قتل كے سلسلہ میں ھر طرح كی احتیاط كرنی چاہئے، كہ كھیں غلطی كے سبب كسی بے گناہ شخص كی جان نہ چلی جائے ۔
قارئین كرام! حقیقت تویہ ھے كہ ابوطالب كے قتل كی اصل وجہ معلوم نہ هوسكی، یھاں تك كہ چند سال پھلے شیخ حر ّ عاملی صفویہ دور كے عظیم الشان عالم دین كی سوانح حیات كا مطالعہ كیااور كتاب ”خلاصة الاٴثر“ كے مطالعہ میںابو طالب كے واقعہ كی طرح ایك اور واقعہ ملا اور یہ بات سمجھ میں آئی كہ یہ واقعہ ابوطالب كے واقعہ سے بڑاگھرا تعلق ركھتا ھے او راگر غور وفكر كی جائے تو كسی نتیجہ پر پهونچا جاسكتا ھے۔
شیخ حرّ عاملی كا مكہ معظمہ میں ایك واقعہ اور اس سے متعلق فریب كاری
جب 1087ھ یا 1088ھ میں شیخ محمد بن الحسن معروف بہ حرّ عاملی مكہ معظمہ پهونچے، تو عثمانی تُركوں نے بعض ایرانیوں كو خانہ كعبہ میں گندگی پھیلانے كے جرم میں قتل كردیا، چنانچہ شیخ حرّ عاملی، سیدموسیٰ (مكہ كے حسینی اشراف میں سے) كی پناہ میں چلے گئے، اور سید موسیٰ نے ان كو كسی اپنے مورد اعتماد شخص كے ساتھ یمن بھجوادیا۔
صاحب خلاصة الاثر اس واقعہ كے ضمن میں اس طرح ذكر كرتے ھیں كہ یہ بھت بڑی ذلت اور رسوائی ھے، میں یہ تصور كرسكتا كہ اگر كسی شخص نے اسلام كی بُو یا عقل كی بُو بھی سونگھی هو تو وہ ایسا برا كام كرسكتاھے۔
واقعہ اس طرح ھے كہ خانہ كعبہ كے بعض خادموں نے دیكھا كہ كعبہ شریف ایك جگہ سے گندا هوگیا ھے اور یہ خبر مشهور هوگئی، اور اس كا ھر طرف چرچا هونے لگا، چنانچہ مكہ كی اھم شخصیات شریف بركات اور شریف مكہ، اور محمد میرزا قاضیٴ مكہ كے پاس گئے اور مذكورہ واقعہ كے بارے میں گفتگو هونے لگی، آخر كار ان كے ذہن میں یہ بات آئی كہ یہ كام رافضیوں كا ھے، اور یہ طے كرلیاكہ جو لوگ رافضی مشهور ھیں ان كو قتل كردیا جائے، چنانچہ اس سلسلہ میں فرمان صادر كردیاگیا۔
عثمانی تُرك اور بعض اھل مكہ مسجد الحرام میں آئے، اور پانچ شیعہ منجملہ ایك بوڑھے اور زاہد وعابد انسان سید محمد مومن كو قتل كردیا ۔
صاحب تاریخ مكہ مذكورہ واقعہ كے بارے میں اس طرح لكھتے ھیں كہ شوال1088ھ میں صبح كے وقت لوگوں نے خانہ كعبہ كو (پاخانہ مانندكسی چیز سے) گندا پایا، اور لوگوں نے ایك قدیمی عقیدہ كے تحت ”میں نھیں جانتا كہ كس طرح ان كی عقل اس طرح كے عقید ہ كی اجازت دیتی ھے“ شیعوں پر اس كام كا الزام لگادیا، چنانچہ عثمانی تُركوں اور بعض اھل مكہ نے مل كر شیعوں پر حملہ كردیا بھت سے لوگوں پر پتھراوٴ كیا اور چند لوگوں كو تہہ تیغ كر ڈالا۔
اسی طرح سید دحلان، تاریخ عصامی سے نقل كرتے ھیں كہ موصوف نے خود اپنی آنكھوں سے دیكھا ھے كہ جس چیز سے خانہ كعبہ كو گندا كیا گیا تھا وہ پاخانہ نھیں تھا بلكہ وہ دال كا سالن تھا لیكن اس سے بدبو آرھی تھی۔
سید دحلان لكھتے ھیں :چاھے یہ بات صحیح هو یا نہ هو، حقیقت یہ ھے كہ اسلام سب مسلمانوں كو اگرچہ اعتقادی لحاظ سے ایك دوسرے میں اختلاف ھے، لیكن سب كو اتحاد اور دوستی كی دعوت دیتا ھے، تاكہ ایك راستہ پر چلیں، اس دین مبین كے ماننے والوں كو یہ بات زیبا نھیں دیتی كہ اپنے مخالفوں پر بعض وھم وخیال كی بناپر تھمتیں لگائیں۔
موٴلف تاریخ مكہ مذكورہ واقعہ كو ذكر كرنے كے بعد كھتے ھیں كہ میں (اس علاقہ كی) عوام الناس سے بھت ناراض هوں كہ وہ ایسا عقیدہ ركھتے ھیں كہ شیعہ عجم (ایرانیوں) نے خانہ كعبہ كو گندا كیا جبكہ وہ اپنے حج كو مقبول سمجھتے ھیں۔
اس كے بعد اپنی بات كو آگے بڑھاتے هوئے كھتے ھیں كہ اگر ھم عقل ومنطق سے كام لیں اور صحیح طریقہ سے غور وفكر كریں تو اس نتیجہ پر پهونچ سكتے ھیں كہ اگر ان تھمتوں كو صحیح مانا جائے تو اس طرح توھر سال ایرانی حجاج كی تعداد كے برابر كعبہ گندا هوجانا چاہئے تھا، جبكہ حقیقت اور واقعیت اس كے برخلاف ھے لیكن كیا كریں كہ دشمنی كی وجہ سے اپنی عقل بھی كھوبیٹھتے ھیں۔