2 ھدایت کے اسباب فراہم کرنا
حق تک پنچنا ،کج فہمی اور انحرافات سے نجات ہرانسان کی آرزو ہے ان اھداف کے حصول کے لۓ بعض اصولوں کی پابندی ضروری ہے ان میں ایک اہم ترین اصول حق پسندی کا جذبہ پیداکرنا ہے انسان اسی وقت حق تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جب وہ بغیر کسی تعصب ،پہلے سے فیصلہ کۓ بغیر، دیگر افکار ونظریات کا مقابلہ کرے اور ان کی تمام دلیلوں کا غور سے جائزہ لے تاکہ ان میں سے سب سے اچھی اورمتقن دلیل کو قبول کرسکے ،اگر خاص ذھنیت اورفیصلے کے ساتھہ مخالف نظریے کا سامنا کریےگا تو اس کے درست یا نادرست ہونے کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کرپاۓ گا اورنہ حق تک پہنچنے کے اپنے مقصد ہی کو حاصل کرپاۓ گا قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے فبشرعبادالذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک الذین ھداھم اللہ و اولئک ھم اولوالالباب اور تم میرے بندوں کوخوش خبری دیدو جو بات کو جی لگاکرسنتے ہيں اور پھر اس میں سے اچھی بات پرعمل کرتے ہیں یہی لوگ وہ ہیں جن کی خدانے ھدایت کی ہے اور یہی عقل مند ہیں ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت ہےکہ خدانے اس آیت میں غوروفکرکرنے والوں کوبشارت دی ہے 25 اوریہ بشارت مومنین سے مخصوص نہیں ہے ۔
علامہ طباطبائي نے اس آیت سے دوطرح کی ھدایت کے معنی اخذ کۓ ہیں ایک ھدایت اجمالی ہے دوسری ھدایت تفصیلی ہے ،انہوں نے ھدایت اجمالی کو حق پسندی کے جذبہ سے تعبیر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ جذبہ ھدایت تفصیلی پر منتج ہوسکتاہے جوکہ تمام معارف الھی کو سمجھنا ہے 26 ۔
گفتگو کے لۓ ضروری شرطیں
گفتگو کے طرفداروں کو بعض اصولوں کو قبول کرنا ہوگا یہ اصول حسب ذیل ہیں ۔
الف :علم و آگہی ؛حکماء و فلاسفہ کے نزدیک انسان کی صفت نطق اسے دیگر حیوانات سے ممتاز کرتی ہے ،ان کی مراد انسان کی غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہے جس کا وہ اپنی زبان کے ذریعے اظہار کرتاہے تاہم انسانوں کے درمیان ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں جو اس ذاتی صفت کے برخلاف تعقل و تدبر کو کوئي اھمیت نہیں دیتے قرآن نے اس گروہ کو جانوروں سے بدتر اور انسانوں کے زمرے سے خارج قراردیا ہے ارشاد ہوتاہے "ان شرالدواب عنداللہ الصم البکم الذین لا یعقلون 27 بے شک زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو کچہ نہیں سمجھتے ۔
ظاہر ہے کہ ہم ان لوگوں سے مخاطب نہیں ہیں کیونکہ یہ بحث و گفتگو نہیں کرسکتے ۔
ہمارے دینی منابع میں مختلف جھات سے علم پر تاکید کی گئي ہے ان امور پر ذیل میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ علم حاصل کرنا دیگر واجبات کی طرح واجب ہے
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ ،ہرمسلمان فرد مرد یا عورت پر علم حاصل کرنا واجب ہے 28 ۔
2کسی خاص زمانے تک محدود نہیں ہے ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہےکہ اطلبوا العلم من المھد الی اللحد ،یعنی زگہورہ تاگور دانش بجوئي ۔
3 کسی خاص مکان تک محدود نہیں ہے جہان بھی علم حاصل ہوسکتاہے اسے حاصل کرنا چاہیے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہےکہ اطلبواالعلم ولو بالصین ۔علم حاصل کرو گرچہ تمہں چین جانا پڑے ۔
حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے کہ "لو یعلم الناس مافی طلب العلم لطلبوہ ولوبسفک المہج وخوض اللجج 30 یعنی اگر لوگ یہ جانتے کہ علم حاصل کرنے میں کتنے فائدے ہیں توحصول علم میں لگ جاتے گرچہ انہیں اس راہ میں خون بہانا پڑتا یا سمندروں میں سفر کرنا پڑتا۔
4کسی خاص شخص یا گروہ سے حاصل کرنے (سیکھنے) میں منحصر نہیں ہے ۔
حضرت امام باقرعلیہ اسلام فرماتے ہیں کہ الحکمۃ ضالۃ المومن فحیثما وجد احدکم ضالتہ فلیاخذھا 31 حکمت مومن کی گمشدہ شیئي ہے جھان بھی اسے پاتا ہے حاصل کرلیتا ہے ۔
دیگر روایات میں ولوعندالمشرک یا ولو من اھل النفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی گرچہ وہ حکمت مشرک یا منافق کے پاس ہو مومن اسے حاصل کرلیتا ہے ،یہانتک کہ امام علیہ السلام سے یہ تعبیر بھی وارد ہوئي ہےکہ حق کو اھل باطل سے بھی قبول کرلیں لیکن باطل کو گرچہ اھل حق سے ہوقبول نہ کریں اس کے بعد حضرت ذیل حدیث میں فرماتے ہیں کہ خود سخن شناس بنیں 33 یعنی جس چیزکی اھمیت ہے وہ کلام ہے نہ متکلم ۔
ائمہ معصومین علیھم السلام نے جھل و نادانی کی مذمت میں نہایت اھم نکات بیان فرماے ہيں۔
1 نادانی خواری و ذلت کی باعث ہے ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "اذاارذل اللہ عبدا حظر علیہ العلم" 33 اگر خدا کسی بندے کو ذلیل و خوارکرنا چاھتا ہےتو اسے نعمت علم سے محروم کردیتا ہے ۔
مولائ کائنات حضرت علی علیہ السلام بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی خصوصیات کا ذکرکرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ "واستخفتھم الجاھلیۃ الجھلاء،جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئي زمانہ جاھلیت کے لوگوں کوان کی جھالت نے ذلیل و خوارکررکھاتھا۔
یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہے کہ جب کسی قوم کی زندگي علمی اصولوں پر استوار ہوتی ہے اور اس کی زندگی کے تمام شعبوں میں علمی قوانین حکم فرماہوتے ہیں وہ ترقی کی منزلیں طے کرتی ہے لیکن جس قوم میں علم کا فقدان ہوتاہے وہ زندگي کی ہرضرورت کے لۓ دوسروں کی محتاج ہوتی ہے ۔
2 نادانی و جھل شرپسندوں کے تسلط کاباعث ہے ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام لوگوں کو تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
1 وہ اھل علم و دانا لوگ جو خداشناس بھی ہیں۔
2 وہ معلم جو راہ سعادت میں کوشاں ہے ۔
3 اور ایسے پست لوگ جو ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں اور ہرآوازکے پیچھے دوڑپڑتے ہیں اور ہواکے ہرجھونکے کے ساتھہ بہنے لگتے ہیں، نہ انہیں علم و دانش کی روشنی سے کوئي فروغ حاصل ہواہے اورنہ ہی انہوں نے کسی مستحکم پناھگاہ کی راہ پکڑی ہے 35 ،یہ تیسرا گروہ نہ عالم ہے اور نہ حصول علم کی کوشش میں رہتا ہے بلکہ ہر منحرف وگمراہ کے پیچھے جاسکتا ہے ۔
بہر صورت خدا نے مومنین کو مکلف کیا ہے کہ وہ جس چیزکے بارے میں نہیں جانتے اس پر اصرار نہ کریں اور اس کی پیروی نہ کریں ،ارشاد ہوتاہے لاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع و البصر والفوادکل اولائک کان عنہ مسؤلا36 اس چیز کی پیروی نہ کروجس کاتمہیں علم نہیں ہے کیونکہ کان آنکھوں اور دل کے بارے میں سوال کیا جاے گا ۔
اصول کافی میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہےکہ "لو ان العباد اذا جھلوا وقفوا ولم یجحدوا ،لم یکفروا"37 یعنی اگر عوام جہل و نادانی کی صورت میں عمل نہ کریں اور انکارنہ کريں تو کافر نہیں ہونگے
ب:انسانوں کی برابری کااصول ۔
آج کل یہ سوال برابر ذھنوں میں خطور کررہا ہےکہ کیا انسان ایک دوسرے سے بیگانے ہیں ؟ مثال کے طور پر یہ سوال کبھی اس طرح بھی پیش کیا جاتاہے کہ کیا یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ کسی دن سارے انسانون کے درمیان مفاھمت اور یکجھتی پیدا ہوجاے گي ؟اگر انسان ذاتا ایک دوسرے سے بیگانے نہ ہوں تو یہ امید کی جاسکتی ہے ۔
اس سلسلے میں دو متباین نظریات ہیں ۔
1 انسان ایک دوسرے سے بیگانے ہیں ؛کسی فلسفی نے" تھامس ھابز"(1679-1588 )کی طرح اس مسئلہ پر بحث نہیں کی ہے ان کے استدلال کے مطابق انسان ذاتا اپنے بنی نوع کا مخالف ہے اگر طاقتور مرکزی حکومت نہ رہے جو ڈنڈے کے زور پر حکومت نہ کرے توانسان مفاھمت آمیززندگی نہیں گذارے گا بلکہ شدید مسائل میں گرفتار نظرآے گا ۔
مجموعی طورسے ھابزکے فلسفے میں اس بیگانگی کے دوپہلو ہیں ایک پہلو نفسیات سے مربوط ہے ،انسان محض اپنی ذاتی خود غرضی اور خود محوری کی بناپر ایک دوسرے سے بیگانہ ہے ہر انسان پہلے مرحلے میں صرف اپنی زندگي کی فکر میں ہوتاہے اور بعد کے مراحل میں دولت منزلت و مقام ومنصب کی فکرکرتاہے، ھابز کا خیال ہے کہ "انسان کسی دوسرے کو اھمیت نہیں دیتا مگر یہ کہ اس کے ھدف میں ممدو معاون ثابت ہویا اس کی راہ میں رکاوٹ ہو بنابریں انسان کی زیادہ ترتوجہ اپنی زندگی اور مقام پر ہوتی ہے ۔
اس نفسیاتی پہلوکے تحت ایک امر ہے جسے ہم "بیگانہ ہستی شناسی کا پہلو "کہہ سکتے ہیں ،ہستی مجموعہ اشیاء متحرک سے عبارت ہے ۔
ہر حقیقت و واقعیت مشخص زمان و مکان سے تعلق رکھتی ہے اور تغیر ناپذیر قوانین طبیعیات اس پر حاکم ہوتے ہیں ہر انسانی فرد اس دنیا کا تعمیری اور مفید جزء ہے وہ نباتات و جمادات سے پیچیدہ تر ہے تاہم ان سے ماھیتا فرق رکھتاہے ،مادی اشیاء ایک دوسرے سے صوری فرق رکھتی ہیں ،انسان کو شفقت ،ھمدلی ،اور مشترکہ ھدف جیسے قیود متحد نہیں کرسکتے انسان صرف اس لحاظ سے یگانگت اور اتحاد کا حامل ہوسکتاہے کہ اسے ایک دیوار میں پتھروں کی طرح سے چن دیا جاۓ (38)یہیں سے اخلاقیات میں نسبیت پسندی کا نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ کسی بھی اخلاقی قدر کلی اعتبار کی حامل نہیں ہے بلکہ تمام اخلاقی اقدارکا اعتبار تہذیب و تمدن و فردی لحاظ پر منحصرہے ۔
برن یونیورسٹی کے استاد "جان لڈ"اخلاقي نسبیت پسندی کی اس طرح تعریف کرتے ہیں "اخلاقی نسبیت پسندی ایک ایسا امر ہے جس کے تحت اخلاقی لحاظ سے صحیح وغلط اعمال الگ الگ ہوتے ہیں اور کو ئي بھی عام اور مطلق اخلاقی معیار جو تمام انسانوں کے لۓ ہرزمانے میں لازمی ہو موجود نہیں ہے(39) روث بندیکٹ دوسرے الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ "ہر تہذیب و تمدن انسانی محرکات و بالقوہ اھداف کے عظیم مجموعہ سے ترکیب پاتی ہے ،ہر تہذیب میں اس کے خاص مادی وسائل و ذرایع اور ثقافتی خصوصیات سے استفادہ کیا جاتاہے اوریہ مجموعہ جس میں انسان کا ہر ممکن عمل شامل ہوسکتاہے اس قدر عظیم اور متضاد ہوتا ہےکہ کوئي ایک تہذیب اس کا یا اس کے بیشتر عناصر کا احاطہ نہیں کرسکتی بنابریں انتخاب شرط اول ہے (40)
2 :دوسرا نظریہ ہے انسانوں کی يگانگت کا ،بہت سے مفکرین کا کہنا ہےکہ انسان بنیادی طورسے ایک ہیں اس نظریے کے حامل مفکرین میں ارسطو سرفہرست ہیں ان کی نظر میں انسان اس پتے کی طرح ہے جو اپنی طبیعت کے لحاظ سے درخت کا حصہ ہے اور اپنے تمام وجود کے ساتھہ ناگزیر شہر کا حصہ بھی ہے ،ارسطو کہتے ہیں کہ وہ گوشہ نشین انسان جو معاشرے کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا یا وہ انسان جو خود کفیل ہونے کی وجہ سے اس مشارکت سے بے نیاز ہے وہ شہر کے کارآمد عناصر میں شامل نہیں ہے بلکہ حیوان ہے یا خدا ہے 41
اس نظریے کے طرفداروں کا کہنا ہےکہ نسبیت پسندوں نے یہ دیکہ کرکہ مختلف تہذیبوں کے قواعد الگ الگ ہیں یہ غلط نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کسی بھی تہذیب کے قواعد دوسری تہذیب سے اچھے نہيں ہیں بلکہ کسی تہذیب کے قواعد کا دوسری تہذیب کے قواعد سے بہتر ہونے کا انحصاراخلاقی نظام کے اھداف پر ہے اس نظریے کے حامل افراد کا کہنا ہےکہ اخلاقی قواعد کا ھدف معاشرے کی بقا،انسانوں کے رنج و غم برطرف کرنا ،انسانی رشد وشکوفائی اور ان کے مفادات کے تصادم کو منصفانہ طریقے سے حل کرنا ہے یہ اھداف مشترکہ اصولوں کو جنم دیتے ہیں جودرحقیقت ثقافتی اختلافات کا سبب بنتے ہیں ان ہی اصولوں کی تفصیلات انسان شناس ماہریں نے بیان کی ہیں ۔
اٹھارویں صدی کے فلسفی "ڈیوڈھیوم نے کہا ہے کہ انسانی سرشت تمام اعصارو امصار میں ایک ہی رہی ہے اورحال ہی میں اے او ولسن نے انسانی سرشت کی بیس خصوصیات شمارکی ہیں 42۔
3 :اسلام کا نظریہ ؛اسلام انسان کی کلی خصوصیات کے بارے میں یگانگي کا نظریہ رکھتا ہے و اخلاقی اصول کوثابت اور تمام انسانوں کے درمیان اور تمام زمانوں میں مشترک سمجھتا ہے گرچہ ممکن ہے بعض فروعات میں تبدیلیاں آئيں بنابریں انسان میں تبدیلیاں جو ایک مادی حقیقت ہے اقدار کی تبدیلیوں سے الگ مسئلہ ہے اور اگر ہم انسانی اقدار کو قابل تغیر اور نسبی جانیں تو ہمیں ہر گروہ ،ہر طبقے اور ہر آئيڈیالوجی کے حامل فرد کے لۓ الگ الگ اخلاق و اقدار کا قائل ہونا پڑے گا اس کے معنی یہ ہونگے کہ اخلاق کاسرےسے انکار کرکے اخلاقی اقدارکو بے بنیاد قراردیں ۔
آیت فطرت میں خدا ارشاد فرماتاہے "فاقم وجھک للدین حنیفا فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیھا لاتبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لایعلمون اے رسول تم باطل سے کتراکر اپنا رخ دین کی طرف کۓ رہو یہی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی درست کی ہوئي بناوٹ میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا یہی مضبوط اور بالکل سیدھادین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ۔
اس آيت میں صراحتا دین کو امرفطری قراردیا گیا ہے ۔
علامہ طباطبائي اس آيت کے ذیل میں اس بات کی تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہ انسان کی سعادت ان کے اختلافات کی بناپر اگر مختلف ہوتی تو ایک صالح اور واحد معاشرہ جو انسان کی سعادت کا باعث ہوتا وجود میں نہ آتا، اسی طرح اگر انسان کی سعادت سرزمینوں کے الگ الگ ہونے کی بناپر جھان وہ زندگي گذارتے ہیں مختلف ہوتی اور اجتماعی اداب کے مطابق ہوتی تو انسان نوع واحد کے زمرے میں نہ آتے بلکہ علاقوں کے مطابق الگ الگ نوعیت کے ہوتے اسی طرح اگر انسانوں کی سعادت زمانے کے لحاظ سے مختلف ہوتی تو انسان مختلف قرون و اعصارمیں مختلف نوع کے ہوتے اور ہرعصر کا انسان دیگر زمانے کے انسان سے الگ ہوتا۔
اس طرح انسان کبھی کمال کی منزلیں طے نہ کرتا اور انسانیت ناقص رہ جاتی کیونکہ اس صورت میں کوئي نقص وکمال ہی نہ ہوتا کیونکہ اگر ماضی کا انسان آج کے انسان سے مختلف ہوتا تو اس کا نقص و کمال اسی سے مخصوص ہوتا نیز آج کے انسان کا نقص وکمال اس سے مخصوص ہوتا ،یہ بات یاد رکھنے کی ہےکہ انسان صرف اسی صورت میں کمال کی طرف بڑہ سکتا ہے جب جہت تمام زمانوں میں تمام انسانوں کے درمیان مشترک و ثابت ہو
البتہ ہماری اس بات کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ افراداور زمان و مکان میں اختلاف دینی سنن کی برقراری میں موثر نہیں ہے بلکہ فی الجملہ اور کسی حدتک موثر ہے 44 بنابریں علامہ طباطبائي کی نظر میں دودلیلوں کی بناپر 1 انسان کے اجتماعی ہونے 2 اور اس کی وحدت نوعی کی بناپرانسانیت حقیقت واحدہ ہے جو تمام افراد و اقوام کے درمیان مشترک ہے علامہ نے اس بحث کے اختتام پر تفصیلی دلائل ذکرکۓ ہیں اوران مسائل کی مکمل وضاحت کی ہے ۔
اس سلسلے میں دیگر آيات جیسے آیۃ ذر 45 اور آيۃ عھد 46 و47 کی طرف مراجعہ کیا جاسکتا ہے یہ آیات انسانی وحدت اور اس کی فطرت واحدہ پردلالت کرتی ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے فلسفہ بعثت انبیاء بیان کرتے ہوۓ فرمایا ہےکہ فبعث فیھم رسلہ و واتر الیھم انبیاءہ لیستادوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ و یحتجوا علیھم بالتبلیغ و یثیروا لھم دفائن العقول 48 وقفے وقفے سے ان (انسانوں ) کے درمیان انبیاءو رسل بھیجتارہا اوران کے ذریعے انہیں انتباہ دیا کہ عھد الست (میثاق فطرت ) پر قائم رہیں اور فراموش شدہ نعمت کی یاددھانی کراتے رہیں اور تبلیغ سے ان پر حجت تمام کریں اور سوئي ہوئي عقلوں کو بیدار کریں (نہج البلاغہ خطبہ اول )
انبیاء الھی اس وجہ سے آے تھے کہ لوگوں کو یہ سمجھائيں کہ تمہاری روح ضمیراور باطن کی گہرائيوں میں عظیم خزانے دفن ہیں اور تم اس سے غافل ہو ،بنابریں حقیقت و دانائی ھنر وجمال خیر وفضیلت عشق و پرستش ان سارے امورکا سرچشمہ فطرت ہے یعنی انسان روح وبدن سے مرکب حقیقت ہے ۔
انسان کی روح الھی ہے (ونفخت فیہ من روحی )49 اور اس کا جسم عناصر طبیعی سے مرکب ہے جس کی بناپر وہ نیچر یا طبیعت سے وابستہ ہے اور عناصر غیر طبیعی اسے ماوراء طبیعت کی طرف لے جاتے ہیں ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو اپنے معروف جملے میں انسان کی تعریف سے آگاہ فرماتے ہیں کہ "اما اخ لک فی الدین اور نظیرلک فی الخلق " 50یعنی انسان یا تمہارے دینی برادر ہیں یا خلقت میں تمہاری طرح مساوی ہیں ،لھذا اس قدر غرور ناسازگاری اور اختلاف کس بناپر؟ کیا سب انسان ہمرہ و ہم قافلہ و ہمزاد نہیں ہیں ؟51 مجموعی طورسے یہ کہا جاسکتا ہےکہ انبیاء الھی کی تعلیمات فطرت بشری کے مطابق ہیں ۔
ج:انسانوں کے درمیان اختلافات مسلم حقیقت ؛انسان ایک نوع ہونے کے ساتھہ ساتھہ اختلافات کا بھی حامل ہے ہر انسان کو ایک جیسا نہیں سمجھاجاسکتا افراد بشر میں ظاہری و مادی اور معنوی و باطنی امور میں اختلافات پاے جاتے ہیں ۔