گذری ہوئی بحثوں اور دلیلوں سے بہت حد تک یہ واضح ہو گیا کہ انسان کو اختیاری حالت میں زمین ( اور جو چیز اس سے اگتی ہے ) پر ہی سجدہ کرنا چاہئے کیونکہ:
۱۔ زمین اور سطح زمین پر سجدہ کرنا سنت نبی (ص) اور آپ کا حکم ہے ۔
۲۔ زمین پر سجدہ کرنا آنحضرت (ص) کی سیرت اور عملی روش ہے ۔
۳۔ زمین پر سجدہ کرنا حضور (ص) کے اصحاب کے حکم کے مطابق ہے ۔
۴۔ زمین پر سجدہ کرنا سیرت صحابہ اور تابعین اور صدر اسلام کے مسلمانوں کا وطیرہ ہے ۔
۵۔ زمین پر سجدہ کرنا ،اہل بیت اطہار (ع)کا حکم ہے ۔
۶۔ زمین پر سجدہ کرنا حضور کی عترت پاک (ع) کی سیرت عملی ہے ۔
یہاں پر ایسی روایتوں کو بیان کرناچاہتا ہوں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان جب بالکل تحمل نہ کر سکے جیسااتنی شدید گرمی یاایسی شدید سردی ہو کہ جو ناقابل برداشت ہویاکسی دوسرے معقول و شرعی عذر کی بنا پر لباس کے کناروں یا کپڑے کے ٹکڑوں پر سجدہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ روایات اضطراری حالات میں زمین کے علاوہ دوسری چیز پر سجدہ کرنے کو درست کہتی ہیں لیکن مسلمانوں ( اہل سنت ) نے ایسی حدیثوں سے یہ گمان کیا ہے کہ یہ احادیث و روایات تمام حالات کے لئے ہیں یعنی چاہے کوئی عذر ہو یا نہ ہو جب بھی کپڑوں اور اس جیسی چیزوں پر سجدہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں نے آنحضرت (ص) کی سنت اور آپ کے اصحاب کی سیرت کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے یہ کہا-: انسان کے لئے فقط زمین اور جو چیز اس سے اگتی ہے اس پر سجدہ کرنا ضروری نہیں ہے ، بلکہ ہر حال میں ان چیزوں کے علاوہ شئے پر بھی سجدہ کرنا صحیح ہے ، جیسے قالین ،کپڑا اور دوسری کھانے کی چیزیں ، اسی لئے ضروری ہے کہ ہم ان روایات کو بھی بیان کردیں جو حالت اضطرار پر بالصریح دلالت کرتی ہیں ، تاکہ اس مسئلہ کی حقیقت ہر شخص پر کچھ اور واضح ہو جائے ۔
۱۔ ابو عبد اللہ بخاری اپنی صحیح میں اس روایت کو انس سے نقل کرتے ہیں: (بلکہ انھوں نے اپنی کتاب میں پورے ایک باب کو شدید گرمی میں لباس پر سجدہ کرنے کے بارے مخصوص کیا ہے ) انس کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ (ص) کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو ایک شخص گرم زمین پر سجدہ نہ کرسکا تو اس نے لباس پھیلا کر اس پر سجدہ کیا ۔
۲۔ بخاری دوسرے مقام پر انس سے ہی نقل کرتے ہیں ، ہم گرمی کے موسم میں آنحضرت (ص) کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ۔اور گرم زمین کی تاب نہ لا کر اپنے کپڑوں پر سجدہ کر تے تھے تاکہ اس سے محفوظ رہ سکیں ۔ (۱)
۳۔ مسلم بن حجاج مذکورہ روایت کو اس طرح نقل کرتے ہیں ، جب ہم گرمی کے موسم میں آنحضرت (ص) کے پیچھے نماز پڑھتے اور ہم میں سے کوئی گرم زمین پر سجدہ نہ کرسکتا تو کپڑا پھیلا کر اس پر سجدہ کر لیتا تھا ۔ (۲)
۴۔ مسلم بن حجاج دوسرے مقام پر ایک صحابی سے اس طرح نقل کرتے ہیں: ہم شدید گرمی میں آنحضرت (ص) (ص)کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے (اتفاق ) سے ایک شخص جلتی زمین پر پیشانی نہ رکھ سکتا تھا تو اس نے اپنے لباس کو پھیلا کر اس پر سجدہ کیا ۔ (۳)
ان روایات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انسان اضطراری حالت میں زمین کے علاوہ دوسری چیزوں پر سجدہ کر سکتا ہے ، اس لئے کہ روایت کی تعبیر یہ ہے کہ” شدید گرمی یا کڑاکے کی ٹھنڈک“ جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ صدر اسلام میں مسلمان گرمی کی تاب نہ لا کر کپڑوں پر سجدہ کر لیا کرتے تھے تا کہ پیشانی سوزش زمین سے محفوظ رہ سکے ۔ (۴)
اسی لئے ابن حجر مکی کہتے ہیں : مذکورہ روایات اس نکتہ کی طرف آگہی کرتی ہیں کہ سجدہ میں اصل یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھا جائے کیونکہ لباس وغیرہ پر سجدہ کرنا (مجبوری کی حالت ) اور طاقت نہ ہو نے کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ (۵)
حالت اضطرار کا حکم اہل سنت کی کتابوں سے مخصوص نہیں ہے۔بلکہ یہ حکم ہماری کتابوں میں بھی موجود ہے۔ کہ شدید گرمی اور کڑاکے کی ٹھنڈک میں جب انسان زمین پر سجدہ کرنے سے معذور ہو تو کپڑے وغیرہ پر سجدہ کر سکتا ہے ۔
صاحب وسائل الشیعہ نے اپنی کتاب میں مکمل ایک باب ” جواز السجود علیٰ الملابس وعلیٰ ظہر الکف فی حال الضرورۃ “(حالت ضرورت میں کپڑے اور ہاتھ کی ہتھیلی پر سجدہ کرنا جائز ہے ) کے نام سے قائم کر رکھا ہے۔اور ائمہ طاہرین (ع) کی روایتوں کو اس میں تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ ان میں بعض احادیث کو قارئین کرام کے سامنے بطور تبرک پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔
۱۔عیینہ کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اگر میں شدید گرمی میں مسجد جاوٴں اور (گرم ) پتھر پر سجدہ کرنے سے دل مائل نہ ہو تو کیا میں کپڑا پھیلا کراس پر سجدہ کر سکتا ہوں؟امام (ع) نے فرمایا:ہاں کوئی حرج نہیں ہے۔ (۶)
۲۔قاسم بن فضیل کہتے ہیں : میں نے امام رضا (ع) سے کہا میری جان آپ پر فدا ہو کیا کوئی شخص گرمی و سردی سے بچاؤ کے لئے آستین پر سجدہ کر سکتا ہے ؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا: ہاں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (۷)
۳۔ کچھ شیعوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اگر ہم ایسی جگہ ہوں جہاں شدید ٹھنڈک کی بنا پر پانی جم کر برف ہو گیا ہو تو کیا ہم ( نماز میں ) اس پر سجدہ کر سکتے ہیں ؟ امام (ع) نے فرمایا : نہیں بلکہ برف سے (بچاؤ ) کے لئے روئی یا کتان رکھ لو ۔ (۸)
نتیجہ
انسان تمام احادیث سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ۔
۱۔ اختیاری اور امکانی صورت میں ضروری ہے کہ زمین اور گھانس پر سجدہ کیا جائے۔اور یہی حکم اس وقت ہے جب کسی کا عذر بر طرف ہوجائے ۔
۲۔ صرف اضطراراورعذر کی صورت میں ہی لباس کے کناروں پر سجدہ کرنا صحیح ہے ، جیسے شدید گرمی و سردی وغیرہ میں۔
اسی لئے شیعہ حضرات اہل بیت اطہار (ع) اور سنت رسول اکرم (ص) اور سیرت مسلمان صدر اسلام و تابعین کی روش کی پیروی و اتباع کرتے ہوئے زمین کے اجزاء پتھر اور مٹی پر سجدہ کرتے ہیں ۔ اور کپڑا یا لباس اور کھانے وغیرہ کی چیزوں پر سجدہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیںاورفروتنی و انکساری کی بنا پر مٹی پر سجدہ کرنے کو اور دوسری تمام چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اسی لئے ائمہ طاہرین (ع) اور صحابہ و تابعین کی تاسی و پیروی کرتے ہوئے وہ پاک و پاکیزہ مٹی کو سجدہ کے لئے اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ تاکہ اس پر سجدہ کر کے درگاہ خدائے لایزال میں خضوع و انکساری و خاکساری کی علیٰ منازل کو درک کرسکیں ۔
واضح ر ہے کہ فقط یہ طریقہ شیعہ حضرات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی مشہور شخصیتوں نے بھی اسی راستے کو اختیار کیا ہے لہٰذا نمونے کے طور پر انکے چند بزرگانوں کا اجمالی تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔
۱۔ اسلامی مورخین و محدثین نے نقل کیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز ( اموی خلیفہ) فقط چٹائی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ تھوڑی مٹی بھی اس پر رکھتا اور نماز میں اس پر سجدہ کیا کرتا تھا ۔ (۹)
۲۔صاحب فتح الباری عروہ بن زبیر سے نقل کرتے ہیں کہ وہ زمین کے علاوہ اور کسی چیز پر سجدہ کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ (۱۰)
۳۔ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے کہ صاحب ( الطبقات الکبریٰ ) کہتے ہیں: مسروق بن اجدع ( تابعی ) سفر میں ایک کھپرے کا ٹکڑا ساتھ رکھتے تھے تاکہ کشتی میں اس پر سجدہ کر سکیں ۔ (۱۱)
اس بنا پر شیعوں کا یہ طریقہ کہ ہمیشہ زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں (جو کھانے اور پہننے والی نہ ہو ) پر سجدہ کرنا اور پاک و پاکیزہ اور مقدس مٹی کودرگاہ خدا میںتذلل و فروتنی کے لئے تمام چیزوں پر ترجیح دینا نہ فقط یہ کہ یہ شرک وغیرہ سے دورہے بلکہ توحید اور خدا پرستی کے بالکل مطابق ہے اور اس کے مقابلہ میں جو بھی نظریات پائے جاتے ہیں وہ سب بے بنیاد اور بدعت ہیں۔ ان اقوال و نظریات کے باطل ہونے کے لئے مذکورہ دلیلوں کی روشنی میں سنت اور سیرت آنحضرت (ص) اور اقوال و سیرت صحابہ کرام و تابعین عظام اور اہل بیت اطہار (ع) کی عملی زندگی کافی ہے اور مندرجہ ذیل روایت اسکی بہترین گواہ ہے۔
حافظ ابوبکر بن ابی شیبہ ، اپنی کتاب ( المصنف ) ج/۲ میں سعید بن مسیب و محمد بن سیرین سے نقل کرتے ہیں :کہ نماز ( طنفسۃ) چادر پر پڑھنا نئی چیز بدعت ہے اور رسول خد ا (ص) سے سند صحیح کے ساتھ روایت منقول ہے: کہ نئی چیز کا دین میں داخل کرنا بد ترین چیز ہے ۔ اور ہر نئی چیز کا دین میں داخل کرنا بدعت ہے۔ (۱۲)
حوالہ
(۱) صحیح بخاری ج۱ ص۱۴۳ ، ۱۰۷ اور دوسری جگہ پر ص۱۰۱ ۔ اور جلد ۲ ص۸۱ پرنقل کرتے ہیں کہ : ”کنا اذا صلینا خلف رسول اللّٰہ (ص) بالظہائر، فسجدنا علی ثیابنا اتقاء الحر“
” کنا نصلی مع النبی (ص) فی شدۃ الحر فاذا لم یستطع احدنا ان یمکن جبھتہ من الارض بسط ثوبہ فسجد علیہ“
(۲) سیرتنا و سنتنا ص/ ۱۳۱بحوالہ مسلم۔ ”کنا اذا صلینا مع النبی (ص) فلم یستطع احدنا ان یمکن جبہتہ من الارض من شدۃ الحر طرح ثوبہ ثم سجد علیہ “
(۳) سیرتنا و سنتنا ص/۱۳۱۔ ” کنانصلی مع رسول اللّٰہ فی شدۃ الحر فاذا لم یستطع احدنا ان یمکن جبھتہ من الارض بسط ثوبہ فسجد علیہ “
(۴)الفتح ج/۱ ص/ ۴۱۴ ۔ ” وفیہ اشارۃ الی ان مباشرۃ الارض عن السجو ھو الاصل لانہ علق بعدم الاستطاعۃ “
(۵)سیرتنا و سنتنا ، ص/ ۱۳۱ بحوالہ نیل الاوطار ۔ ” الحدیث یدل علی جواز السجود لاتقاء حر الارض ، وفیہ اشارۃ الی ان مباشرۃ الارض عند السجود ھی الاٴصل ، لتعلیق بسط ثوب بعدم الاستطاعۃ “
(۶) وسائل الشیعہ ج/۳ ، کتاب الصلۃ ، ابواب ما یسجد علیہ ، باب ۴ ، حدیث ۱ ۔ ”قلمت لاٴبی عبد اللّٰہ علیہ السلام : ادخل المسجد فی الیوم الشدید الحر فاکرہ ان اصلی علی الحصی ، فاٴبسط ثوبی فاٴسجد علیہ ؟ قال : نعم لیس بہ باٴس “
(۷) گذشتہ حوالہ، حدیث ۲۔ ” قلت للرضا علیہ السلام : جعلت فداک ، الرجل یسجد علی کمہ من اذی الحر و البرد ؟ قال: لاباس بہ “
(۸) گذشتہ حوالہ، حدیث ۷۔ ” قلت لاٴبی جعفر علیہ السلام : انا نکون بارض باردۃ یکون فیھا الثلج افنسجد علیہ ؟ قال: لا ولکن اجعل بینک و بینہ شیئاً قطناً او کتاناً “
(۹) فتح الباری ، ج/۱ ص/ ۴۱۰ و شرح الاحوذی ، ج/۱ ص/ ۲۷۲ ۔ ” عمربن عبدالعزیزالخلیفۃ الاموی کان یکتفی بالخمرۃ،بل یضع علیھاالتراب ویسجد علیہ “
(۱۰) گذشتہ حوالہ ۔ ” روی عن عروہ بن الزبیر انہ کان یکرہ الصلۃ علی شیء دون الارض “
(۱۱) الطبقات الکبریٰ ، ج/۶ ص/ ۷۹ طبع بیروت ، مسروق بن اجدع کے احوال میں ۔ ” کان مسروق اذا خرج یخرج بلبنۃ یسجد علیھا فی السفینۃ “
(۱۲)سیرتنا و سنتنا ، ص/ ۱۳۴ : ” وقد اخرج الحافظ الکبیر الثقۃ ابوبکر بن ابی شیبۃ باسنادہ فی المصنف فی المجلد الثانی عن سعید بن المسیب وعن محمد بن سیرین : ان الصلۃ علی الطنفسۃ محدث ، وقد صح عن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قولہ : ” شر الامور محدثاتھا ، وکل محدثۃ بدعۃ
source : http://www.shiaarticles.com