اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

تيسرا سبق

تيسرا سبق

رسول اكرم (ص) كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك (2)

حضرت على (ع) كے گھر ميں پناہ گزيني

انصار سے مدد چاہنا

حساس صورت حال

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات

معقول فوجى طاقت كى كمي

اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ

جاہليت كى طرف بازگشت

كينہ توز دشمن

بيعت كا انجام

مسئلہ فدك

فدك پر قابض ہونے كے محركات

1)مخالفين كو اپنى جانب متوجہ كرنا2) جمع وخرچ كى مد ميں كمي

على (ع) كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال

مخالفين كى سركوبي

شورش كا دباجانا

حضرت فاطمہ (ع) كى وفات

سوالات

حوالہ جات

 

55

رسول اكرم (ص) كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك (2)

حضرت على (ع) كے گھر ميں پناہ گزيني

صحابہ رسول (ص) ميں ايسے پاك طينت لوگ بھى موجود تھے جنہوں نے ابوبكر كى بيعت نہيں كى تھي_ چنانچہ موصوف كو خليفہ بنائے جانے پر انہوں نے اعتراض كيا اور اس كے اظہار كے لئے انہوں نے پناہ گزينى كى راہ اختيار كى اور اس مقصد كے لئے بنت رسول (ص) حضرت فاطمہ (ع) كے گھر ميں جمع ہوگئے_

ان ميں سے بعض افراد كے نام مورخين نے اپنى كتابوں ميں درج كئے ہيں _(1)

حضرت فاطمہ (ع) كا گھر رسول خدا (ص) كى حيات ميں خاص احترام كى نظر سے ديكھا جاتا تھا_ چنانچہ بنى ہاشم ' بعض مہاجرين اور اہل بيت (ع) كا آپ كے گھر ميں پناہ گزيں ہونے كا فطرى طور پر مقصد ہى يہ تھا كہ كوئي شخص زبردستى پناہ گزينوں كى بيعت كى غرض سے مسجد ميں لانہيں سكتا تھا _ بالاخر عمر كو ايك دستے كے ساتھ مقرر كيا گيا كہ وہ حضرت فاطمہ (ع) كے گھر پر جائيں اور پناہ گزينوں كو نكال كر باہر لائيں تاكہ وہ خليفہ كے ہاتھ پر بيعت كريں _ عمر ايك گروہ كے ساتھ حضرت فاطمہ (ع) كے گھر كى جانب روانہ ہوئے اور بڑى كشمكش كے بعد حضرت على (ع) كو باہر لايا گيا اور آپ كو مسجد لے گئے جہاں آپ كو مجبور كيا گيا كہ ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كريں ليكن حضرت على (ع) اپنے ارادے پر قائم رہے_

جب ديكھا كہ حضرت على (ع) اپنے عزم وارادے پر قائم ہيں تو لوگ بھى آپ سے دستكش ہوگئے_ (2)

 

56

انصار سے مدد چاہنا

اس واقعے كے بعد حضرت على (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) راتوں كو انصار كے گھر تشريف لے جاتے اور اہل بيت سے متعلق پيغمبر اكرم (ص) كى وصايا اور احاديث كى جانب توجہ دلاتے ہوئے ان سے مدد كے خواہاں ہوتے وہ لوگ جواب ميں كہتے اے بنت رسول (ص) ہم اس شخص كے ہاتھ پر بيعت كرچكے ہيں اگر تمہارے چچا كے بيٹے نے ابوبكر سے قبل ہم سے بيعت كرنے كے لئے كہا ہو تا تو ہم على (ع) كے مقابل كسى دوسرے شخص كو ترجيح نہ ديتے_ اس پر حضرت على (ع) فرماتے كيا عجيب بات ہے كيا تمہيں مجھ سے يہ توقع تھى كہ جنازہ رسول (ص) كو تكفين و تدفين كيئےغير اسے يونہى گھر ميں چھوڑ ديتا اور اس حكومت كو حاصل كرنے كى غرض سے' جو اس عظےم المرتبت انسان نے چھوڑى تھى ، كشمكش و تنازع ميں پڑجاتا ؟

فاطمہ زہرا (ع) فرماتيں: ابوالحسن نے جو كچھ كيا وہ صحيح تھا اور لوگوں نے جو كچھ كيا ہے خدا ان سے باز پرس كرے گا _ (3)

حساس صورتحال

حضرت على (ع) جس كيفيت وحالت سے گذر رہے تھے وہ بہت زيادہ حساس تھى كيونكہ آپ كو جو فرض سپرد كيا گيا تھا وہ نہايت ہى مشكل مگر بہت ہى عظےم واہم تھا_ ايك طرف آپ ديكھ رہے تھے كہ خلافت واسلامى قيادت اصل راہ سے دور ہوگئي ہے جس كے باعث فطرى طور پر بہت سے حقوق پائمال ہوكر رہ جائيں گے_

دوسرى طرف آپ ديكھ رہے تھے كہ مسلمان چونكہ گروہوں ميں تقسيم ہوگئے تھے،اسى لئے ان ميں اختلافات بھى شروع ہوگئے ہيں_ اب ديكھنا يہ ہے كہ اس حساس حالت و كيفيت ميں حضرت على (ع) كا كيا فرض ہے كيا داخلى موقع پرست جماعت كى خود غرضى پر مبنى حركات كو برداشت كركے سكوت اختيار كئے رہنا يا ان حالات كے خلاف سركشى اور كسى تحريك كا آغاز كرنا؟

 

57

اگرچہ مسجد نبوى (ص) ميں مہاجرين و انصار كى موجودگى ميں حضرت على (ع) اور آپ كے طرفداروں كى پند ونصےحت نيز روشن و واضح تقارير نے اس حقيقت كو آشكارا كردياتھا _ آپ كے سامنے اب دو ہى راہيں تھيں پہلى تو يہى كہ بغاوت كركے اپنا حق واپس لے ليا جائے اور دوسرى يہ كہ اسلام كے تحفظ كى خاطر سكوت اختيار كياجائے_

موجود قرائن ودلائل سے ثابت ہے كہ ان حالات ميں حضرت على (ع) كے لئے قيام كرنا اسلام كے حق ميں ہرگز سود مند نہ تھا _ جس كا نتيجہ يہ ہوسكتا تھا كہ اسلامى معاشرہ منتشر ہوكر رہ جائے اور لاتعداد گروہ و افراد دين اسلام سے برگشتہ ہوكر واپس عہد جاہليت ميں اور ديگر خرافات كى جانب چلے جائيں _

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات

حضرت على (ع) نے مختلف مواقع پر جو تقارير كيں اگر ہم ان كا اور ان حالات كا جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر مسلط و طارى تھے جائزہ ليں تو ہميں اس سوال كا جواب مل جائے گا كہ حضرت على (ع) نے كيوں قيام نہيں كيا اب ہم ان نكات كو بيان كر رہے ہيں جن سے يہ باتيں روشن ہوجائےںگي_

1_ معقول فوجى طاقت كى كمي

مندرجہ بالا سوال كا جواب ديتے ہوئے خود حضرت على (ع) نے فرمايا تھا:

امر خلافت ميں ميرى كوتاہى موت كے خوف كى وجہ سے نہيں تھى بلكہ رسول خدا (ص) كے فرمان كے مطابق تھى كيونكہ آنحضرت (ص) نے فرمايا تھا كہ امت نے تجھ سے خيانت كى ہے ، انہوں نے مجھ سے جو عہد كيا ہے اسے وہ وفا نہيں كريں گے_ درحاليكہ تم ميرے لئے ايسے ہى ہو جيسے حضرت موسى (ع)

 

58

كے لئے حضرت ہارون (ع) تھے_

اس كے بعد آپ نے مزيد فرمايا كہ ميں نے سوال كيا كہ ايسى حالت ميں مجھے كيا كرنا چاہيئے رسول خدا (ص) نے فرمايا تھا كہ اگر كوئي ايسا شخص مل گيا جو تمہارى مدد كرے تو تم ان سے جنگ وجدال كرنا اور اپنا حق حاصل كرلينا اگر ايسا نہ ہوا تو تم اس خيال سے در گذر كرنا ، اپنى خون كى حفاظت كرنا تاكہ تم ميرے پاس مظلوم آؤ _(4)

آپ نے ايك جگہ اور بھى اس تلخ حقيقت كى صراحت كرتے ہوئے فرمايا تھا: اگرمجھے چاليس با عزم افراد مل جاتے تو ميں اس گروہ كے خلاف انقلاب اور جنگ و جدال كرتا_ (5)

ايك جگہ آپ نے يہ بھى فرمايا تھا كہ ميں نے اپنے اطراف ميں نظر ڈالى اور ديكھا كہ جز ميرے اہل بيت (ع) كے ميرا كوئي يار ومددگار نہيں مجھے يہ گوارانہ ہوا كہ انہيں موت كے منہ ميں دے دوں_ (6)

2_ اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ

وہ نو مسلم عرب جن ميں سے دور جاہليت كے رسم ورواج كى عادت و خوا بھى مكمل طور پر ختم نہيں ہوئي تھى اور جذبہ ايمان واسلامى عقيدہ ان كے دلوں ميں پورے طور پر راسخ نہيں ہوا تھا انہيں مد نظر ركھتے ہوئے ہر قسم كى داخلى جنگ مسلمانوں كى طاقت كے انحلال اور اسلام كے انہدام كا باعث ہوتى بالخصوص ان حالات ميں جب كہ ''اہل ردہ'' نے جزيرہ العرب كے اطراف ميں مركزى حكومت كے خلاف اپنا پرچم لہرادياتھا (7)ان كے علاوہ ايران اور روم كى دو شاہنشاہى طاقتيں اس موقع كى تلاش ميں تھيں كہ قائم شدہ حكومت سے برسر پيكار ہوں اگر حضرت على (ع) ان متزلزل مسلمانوں اور بيرونى دشمنوں كو پيش نظر ركھتے ہوئے بھى تلوار كا سہارا ليتے اوراپنا حق حاصل كرنے كى خاطر ابوبكر سے جنگ وجدال كرتے تو نوعمر اسلامى طاقت اور مركزيت كو مدينہ ميں نقصان پہنچتا اور اسلام كو نيست ونابود كرنے كى غرض سے بيرونى طاقتوں كے لئے يہ بہترين

 

59

موقع ہوتا شايد يہى وجہ تھى كہ سقيفہ كے واقعات سے متعلق آپ نے جو تقرير كى تھى اس ميں اتحاد كى اہميت اور تفرقہ اندازى كے برے نتائج كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا تھا: فتنے كى امواج كو نجات كى كشتيوں سے چاك كردو، اختلاف پيدا كرنے سے گريز كرو ، فخر فروشى كى علامات كو سرسے اتار دو ، ميرى خاموشى كا سبب ميرى وہ دانش وباطنى آگاہى ہے جس ميں ميں غرق ہوں اگر تم بھى ميرى طرح باخبر ہوتے تو كنويں كى رسى كى مانند مضطرب و لرزاں ہوجاتے_ (8)

3_ جاہليت كى طرف بازگشت

قرآن مجيد ميں ايك آيت اس امر كى جانب اشارہ كر رہى تھى كہ پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت كے بعد ايك گروہ واپس دور جاہليت كى طرف چلاجائے گا چنانچہ فرماتا ہے : فان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم _(9)

اس آيت مباركہ كى روشنى ميں پيغمبر اكرم (ص) كو اسلامى معاشرہ كى آيندہ زندگى كے بارے ميں سخت تشويش تھى _ سقيفہ ميں جو واقعہ پيش آيا اس كا جائزہ لياجائے تو يہ بات واضح ہوجائے گى اس روز كس طرح يہ راز روشن عياں ہوگيا اور ايك بار پھر قبائلى تعصبات اور دور جاہليت سے متعلق افكار و خيالات دونوں جانب سے تقارير كے دوران اشارہ و كنايہ ميں نماياں ہوگئے_

اس كے عالوہ قبائل ميں سے بعض گروہ جو كچھ عرصہ قبل ہى مسلمان ہوئے تھے، رسول اكرم (ص) كى خبر رحلت سنتے ہى مرتد ہوگئے اور اپنے آبا واجدا كے دين كى طرف واپس چلے گئے اور مركزى حكومت كى مخالفت شروع كردي_

دوسرى طرف ''مسيلمہ'' ، ''سجاح'' اور ''طليحہ '' نے بھى نجد ويمامہ كے علاقوں ميں اپنى نبوت كا دعوا كركے دوسرا پرچم لہراديا اور كچھ لوگوں كو بھى اپنے گرد جمع بھى كرليا_

اگرچہ حضرت على (ع) حق بجانب تھے مگر اس وضع وكيفيت كو ديكھتے ہوئے كيا يہ زيبا تھا كہ اپنا پرچم لہراكر انقلاب وقيام كا اعلان كرديں؟ چنانچہ حضرت على (ع) نے اہالى مصركو جو خط لكھا تھا اس ميں آپ

 

60

نے اس نكتے كى جانب اشارہ فرمايا تھا ... ميں نے ديكھا ہے كہ لوگوں ميں ايك گروہ دين اسلام سے برگشتہ ہوگيا ہے اور وہ اس فكر ميں ہے كہ آئين محمدى (ص) كو نيست ونابود كردے ، مجھے يہ خوف محسوس ہواكہ اگر ميں اسلام اور اہل اسلام كى مدد نہ كروں تو مجھے اس بات كے لئے بھى تيار رہنا چاہيئے كہ اسلام كى تباہى كا منظر اپنے آنكھوں سے ديكھوں دنيا كى حكومت چند روزہ ہے جو سراب يا ابر كى طرح سرعت سے گذر جانے والى ہے _ اسلام كى تباہى اس حكومت كے ترك كرنے سے زيادہ مجھ پر شاق والمناك گذرے گى _ (10)

4_ كينہ تو ز دشمن

حضرت على (ع) كے مسلمانوں ميں ہى بہت سے دشمن موجود تھے اور يہ وہ لوگ تھے جن ميں سے كسى كا باپ ' كسى كا بھائي يا كوئي دوسرا قرابت دار جنگ كے دوران آپ كے ہاتھوں مارا گيا تھا اور يہ دشمنى وكينہ توزى ان كے دلوں ميں اسى وقت سے چلى آرہى تھي_

ايسے حالات ميں جب كبھى حضرت على (ع) نے مسلح ہوكر قيام كيا اور اپنا حق طلب كرنے كى كوشش كى تو يہى دشمن فريب ونفاق كو ہوا دينے لگتے اور يہ كہتے پھرتے كہ على (ع) نے مسلمانوں كے درميان رخنہ پيدا كرديا ہے اور دين كے نام پر جنگ و پيكار بر اتر آئے _اگر حضرت على (ع) نے ان سے جنگ كى ہوتى تو اس كے يہ نتائج نكل سكتے تھے_

ممكن تھا كہ جنگ كے ابتدائي چند لمحات ميں ہى آپ (ع) كے بہت سے عزيز و ہمدرد تہ تيغ كئے جاتے اور پھر بھى حق حقدار كو نہ ملتا_

جب آپ كے دوست خير خواہ تہ تيغ كرديئے جاتے تو مخالفين كا قتل ہونا بھى فطرى امر تھا اور اس كا مجموعى نتيجہ يہ ہوتا كہ مركز ميں مسلمانوں كى طاقت رو بزوال ہونے لگتي_

اور جب مركزى طاقت كمزور ہونے لگتى تو وہ قبائل جو مركز سے دور تھے اور جن كے دلوں ميں دين اسلام نے پورى طرح رسوخ نہيں كيا تھا ، مرتدين كى صفوں ميں جاملتے اور شايد ان كے طاقتور ہونے اور مركز ميں رہبر كى زبونى كے باعث اسلام كے چراغ كى روشنى ماند پڑنے لگتي_

 

61

بيعت كا انجام

اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت على (ع) نے حضرت فاطمہ (ع) كى رحلت تك ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت نہيں كي_(11)

حضرت فاطمہ(سلام عليہا) كى وفات كے بعد جب آپ(ع) نے لوگوں كى بے رخى اور مسلمانوں كى پريشان حالى كا مشاہد ہ كيا تو آپ(ع) نے اسلام اور مسلمانوں كى خاطر خاموشى اختيار كرنے ميں ہى مصلحت سمجھى مگر اس كے باوجود يہ تلخ واقعات آپ(ع) كے دل سے كبھى محو نہ ہوسكے اور ہميشہ ان دنوں كو ياد كركے شكوہ و شكايت كرتے تھے_

چنانچہ خطبہ''شقشقيہ '' ميں فرماتے ہيں : ''فرائت ان الصبر على ہاتااحجى فصبرت وفى العين قذى و فى الملق شجا''(عقل اور اس فرض كے مطابق جس كا پورا كرنا مجھ پر واجب تھا) مجھ پر يہ بات واضح و روشن تھى كہ ميرے لئے صبر و شكيبائي كے علاوہ كوئي چارہ نہيں لہذا ميں نے صبر وتحمل سے كام ليا مگر اس طرح گويا ميرى آنكھ ميں خار اور گلے ميں ہڈى اٹك گئي ہو_ (12)

مسئلہ فدك

پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت كو ابھى دس دن بھى نہ گذرے تھے كہ حضرت فاطمہ (ع) كو يہ خبر ملى كہ خليفہ كے كارندوں نے ان كے كام كرنے والوں كو ''فدك'' سے باہر نكال ديا ہے اور اس كے تمام كاموں كو اپنے اختيار ميں لے ليا ہے_

بنت رسول خدا (ص) اس زمين كو حاصل كرنے كى غرض سے بنى ہاشم كى خواتين كے ہمراہ خليفہ كے پاس گئيں اس وقت ابوبكر اور حضرت فاطمہ (ع) كى درميان جو گفتگو ہوئي وہ ذيل ميں درج ہے:

حضرت فاطمہ (ع) : تم نے ميرے كارندوں كو ''فدك'' سے كيوں باہر نكالا اور مجھے ميرے حق سے محروم كيا ؟

خليفہ: ميں نے آپ كے والد سے سنا ہے كہ پيغمبركوئي چيز ميراث ميں نہيں چھوڑتے_

 

62

حضرت فاطمہ (ع) : فدك كى زمين ميرے والد نے اپنے زمانہ حيات ميں مجھے بخش دى تھى اور اس وقت اس كى مالك ميں ہى تھي_

خليفہ: آپ كے پاس اس دعوے كے ثبوت ميں كيا شاہد و گواہ موجود ہيں ؟

حضرت فاطمہ (ع) : ہاں ميرے شاہد وگواہ على (ع) اور ام ايمن ہيں چنانچہ ان حضرات نے حضرت زہرا (ع) كى درخواست پر يہ شہادت دى كہ آپ (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے زمانہ حيات ميں اس كى مالك تھيں_ (14) بعض مورخين نے يہ بھى نقل كيا ہے كہ حضرت امام حسن (ع) و حضرت امام حسين (ع) نے بھى گواہى دي_ (15)

فخر رازى نے يہ قول نقل كيا ہے كہ : پيغمبر اكرم (ص) كے غلاموں ميں سے ايك غلام نے بھى حضرت فاطمہ (ع) كے مالك ہونے كى گواہى دى بلاذرى نے اس غلام كے نام كے تصريح بھى كى ہے اور لكھا ہے كہ اس كا نام ''رباح'' تھا_ ( 16)

جب يہ گواہياں گذر گئيں تو حضرت على (ع) نے خليفہ كو ان (ابوبكر)كى خطاء كى طرف متوجہ كيا (كيونكہ خليفہ نے گواہى اس شخص سے طلب كى تھى جس كے تصرف ميں فدك تھا اور متصرف (قابض) سے گواہى مانگنا اسلامى ميزان و عدل كے سراسر خلاف ہے) اور فرمايا كہ اگر ميں اس مال كا دعويدار ہوں جو دوسرے كے قبضے ميں ہے تو آپ گواہ كس سے طلب كريں گے مجھ سے كہ مدعى ہوں يا اس سے جس كے تصرف ميں مال ہے؟

ابوبكر نے كہا كہ آپ گواہ پيش كريں اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ فدك ہمارے تحت تصرف ہے اور اب دوسروں نے يہ دعوى كيا ہے كہ يہ اموال عامہ ہيں ايسى صورت ميں وہ گواہ پيش كريں ناكہ ہم (17)

خليفہ نے حضرت على (ع) كى اس دليل پر سكوت اختيار كيا اور حلبى كے قول كے مطابق انہوں نے بذريعہ تحرير اس بات كى تصديق كى كہ فدك حضرت فاطمہ زہرا (ع) كى ملكيت ہے _ ليكن عين اسى وقت عمر وہاں پہنچ گئے اور دريافت كيا كہ يہ كيسا مكتوب ہے ؟ اس پر ابوبكر نے كہا كہ ميں نے اس ورق

 

63

پر تصديق حق مالكيت حضرت فاطمہ (ع) كى ہے عمر نے كہا كہ فدك سے جو آمدنى ہوگى اس كى تو آپ كو ضرورت ہے كيونكہ عرب مشركين نے اگر كل كہيں مسلمانوں كے خلاف بغاوت كردى تو آپ جنگ كے اخراجات كہاں سے مہيا كريں گے_

چنانچہ اس نے ابوبكر سے ورق ليا اور چاك كرديا_ (18)

فدك پر قابض ہونے كے محركات

خليفہ كى جانب سے فدك پر قابض ہونے كے جو مختلف محركات تھے ان كى كيفيت ذيل ميں درج ہے:

1_ مخالفين كو اپنے جانب متوجہ كرنا

خليفہ وقت نے اس بات كو بخوبى سمجھ ليا تھا كہ وہ عوام پر اس وقت تك اپنى فرمانروائي قائم نہيں كرسكتے تاوقتى كہ وہ اپنے مخالفين كو اپنا ہمنوا و ہمخيال نہ بناليں اور مختلف طريقوں سے جب تك ان كے افكار و قلوب كو اپنى جانب متوجہ نہ كريں گے ان دستوں پر حكمرانى كرتے رہنا ان كے لئے مشكل ہوگا_

بااثر افراد اشخاص ميں سے ايك ابوسفيان كہ جس كے اعتقاد كو بدلا جاسكتا تھا كيونكہ سقيفہ كا واقعہ جب پيش آيا تو اس نے حضرت على (ع) كے سامنے بيعت لينے كى تجويز پيش كى تھى نيز مسلح ہوكر قيام كرنے كو دعوت دى تھى اور(بنى ہاشم سے خطاب كرتے ہوئے) كہاتھا كہ آپ لوگ اٹھيں اور زمام امور اپنے ہاتھ ميں ليں تو ميں مدينہ كو سوار وپيادہ فوج سے بھردوں گا_(19) ليكن يہ شور و غل ابتدائي چند روز تك برقرار رہا اس كے بعد ختم ہوگيا_

خليفہ وقت نے ابوسفيان كى خوشنودى حاصل كرنے كى غرض سے وہ دولت جو بيت المال و زكات كے نام پر جمع كركے لائے تھے ، اسے بخش دى اس كے علاوہ اس كے لڑكے يزيد كا بھى

 

64

انہوں نے سپاہ اسلام كے فرماندار كى حيثيت سے شام كے علاقے فتح كرنے كے لئے انتخاب كيا اور بالآخر اسے عالم اسلام كے شاداب ترين علاقے يعنى شام كا فرمانروا مقرر كرديا جس وقت يہ خبر ابوسفيان كو پہنچى اس نے كہا ابوبكر نے صلہ رحم كيا ہے_ (20)

جن افراد كى خوشنودى حاصل كرنا خليفہ كيلئے ضرورى تھى وہ بہت سے افراد تھے_ اور بہت سے افراد مہاجرين اور انصار ميں سے ايسے تھے جو سقيفہ ميں موجود نہيں تھے يا بعد ميں جنہوں نے مجبوراً خليفہ كى بيعت كى تھى ان كا شمار بھى اس زمرے ميں تھا_

اس كے علاوہ خزرجى قبيلے كے لوگوں نے چونكہ پہلے دن بيعت نہيں كى تھى ان كى دلجوئي بھى خليفہ كے لئے ضرورى تھى يہى نہيں بلكہ انصار كى خواتين بھى خليفہ كے عطيات سے بے بہرہ نہ رہيں_ (21)

2_ جمع وخرچ كى مد ميں كمي

پيغمبر اكرم (ص) كے پاس جو كچھ اثاثہ و سرمايہ تھا اسے آپ نے رحلت سے قبل تقسيم كرديا اور رحلت كے بعد آپ كے جو بھى نمايندگان مدينے پہنچے وہ بھى اس شہر ميں مختصر پونچى لے كر داخل ہوئے مگر يہ قليل آمدنى نئي قائم شدہ حكومت كى نظر ميں كافى نہ تھى بالخصوص ان حالات ميں جب كہ اطراف كے قبائل نے مخالفت كا پرچم لہرا ديا تھا اور مركزى حكومت كو زكات دينے ميں پس وپيش كررہے تھے_

3_ على (ع) كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال

قيادت ورہبرى كى جو شرائط ہوسكتى ہيں وہ سب حضرت على (ع) ميں موجود تھےں او رمالى اعتبار سے بھى اگر آپ كى حالت قوى ہوتى تو فطرى طور پر ضرورت مند افراد آپ كے گرد جمع ہونے لگتے چنانچہ ممكن تھا كہ افراد كايہ اجتماع خلافت كى مشينرى كے لئے كوئي مسئلہ پيدا كرديتا_

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام اور مغربی زندگی میں فرق
الکافی
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
لالچي بوڑھا اور ہارون الرّشيد
بعثت پیغمبراسلام(ص)
اندازِ خطبہ فدک
کربلا کے متعلق تحقيقي مواد اور مدارس کي ذمہ داري
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
مجلس شوری کا تجزیہ
تيسرا سبق

 
user comment