زیارت سے متعلق شیعہ مذھب کاموقف
اور اس پر وھابیوں کے اعتراضات
چنانچہ جیسا کہ پھلے بھی بیان ھوچکا کہ وہ مسائل جن پر وھابی حضرات بہت زیادہ زور دیتے ھیں اور جن کی بناپر شرک ،کفر اور بت پرستی کی تھمتیں لگاتے ھیں ان میں سے ایک پیغمبر اکرم(ص)، معصومین (ع) اور صالحین کی زیارت کے متعلق شیعہ نظریہ ھے ، مذکورہ مسئلہ کے متعلق شیعہ مذھب کے نظریہ اور موقف کو بیان کرنے کی غرض سے نیز ظاھر بین، متعصب وھابی گروہ کو مناسب اور دندان شکن جواب دینے کی غرض سے ایک بزرگ شیعہ عالم دین علامہ مرحوم شیخ محمد رضا مظفر (رہ) کے بیان کوحسب وعدہ پیش کرتے ھیں تا کہ مذکورہ مسئلہ سے متعلق شیعوں کا نقطہ نظر اورموقف بخوبی روشن ھو جائے نیز تھمت لگانے والوں کی زبان کو بھی لگام لگا دی جائے ۔
قبروں کی زیارت
رسول اکرم(ص) اورائمہ (ع)اطھار کی مبارک اور پر نور قبور کی زیارت کرنا ان پر خصوصی توجہ دنیا ھمیشہ شیعہ مذھب کا طرّہٴ امتیاز رھا ھے شیعہ حضرات ان مقدس مقبروں کا بے حد احترام کرتے ھیں ان مقدس قبروں پر پرشکوہ ، مجلّل اور عظیم الشان عمارتیں بناتے ھیں اور اس راہ میں ایمان اور بے حد محبت اور چاہت کے ساتھ ھر ممکن مال و دولت خرچ کرنے سے کبھی دریغ نھیں کرتے،شیعہ حضرات یہ سب تعظیم و احترام ائمہ(ع) کے حکم کے مطابق انجام دیتے ھیں چونکہ ائمہ معصومین(ع) نے ان مقدس قبور کی زیارت پر بہت زور دیا ھے نیز اپنے شیعوں کو وصیت کی ھے، اور ان زیارتوں کا بارگاہ خداوندی میں بے حد ثواب بیان کرتے ھوئے زیارت کا شوق دلایا ھے اور زیارت کو واجب عبادات کے بعد بہترین اطاعت اور اللہ سے تقرّب کا سب سے اچھا اور بہتر ذریعہ سمجھتے ھیں نیز قبروں کے اطراف کی جگہ کو خداوند عالم کی خاص توجہ کا مقام اور دعا کی قبولیت کے بہترین مرکز کی حیثیت سے پہچنواتے ھیں چنانچہ ائمہ اطھار(ع) نے یھاں تک فرمایا ھے کہ ان مقدس قبور کی زیارت تعظیم و تکریم کرنا ھمارے عھد و پیمان کی تکمیل ھے چنانچہ حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا(ع) ارشاد فرماتے ھیں:
” لِکُلِّ اِمَامٍ عَھداً فِی عُنُقِ اَولِیَائِہِ وَ شِیعَتِہِ وَ اِنَّ مِن تَمَامِ الوَفاَءِ بِالَعھدِ وَ حُسنِ الاَدَاءِ زِیَارَةُ قُبُورِ ھِم فَمَن َزارَھُم رَغبَةً فِی زِیَارَتِھِم وَ تَصدِیقاً بِمَا رَغِبُوا فِیہِ کَانَ آئِمَّتُھُم شُفَعَاعھمُ یَومَ القِیَامَةِ“
”ھر امام کی جانب سے ان کے چاھنے والوں اور پیرو کا روں پر کچھ ذمہ داریاں، حقوق اور عھد پیمان کی تکمیل ھوتی ھے اور یہ عھد و پیمان بخوبی ادا ھوتے ھیں ، ان میں سے ایک عمل ائمہ اطھارکی مقدس قبروں کی زیارت کرنا ھے لہذا جو شخص شوق سے ائمہ(ع) کے مقدس روضہ کی زیارت کرے اور زیارت کے دوران ائمہ (ع)کے اھداف اور مقاصد پر توجہ رکھے روز قیامت ائمہ اطھار (ع) اس کی شفاعت کریں گے،(انشاء اللہ)
ائمہٴ اطھار (ع) کی مقدس قبروں کی زیارت پر خصوصی توجہ اور عنایت رکھنا بلاوجہ نھیںھے بلکہ اس کی وجہ یہ ھے کہ زیارت کے سایہ میں بہت سے دینی اور سماجی فائدے مضمرو پوشیدہ ھیں ان بے شمار فائدوں میں سے ایک یہ ھے کہ: زیارت، ائمہ اطھار(ع) اور شیعوں کے ما بین دوستی اور محبّت کے رابطے مستحکم نیز ان میں اضافہ کا باعث ھے، مزیدائمہ اطھار (ع) کے فضائل اور اخلاق اور راہ خدا میں جھاد کی یاد تازہ ھوتی ھے۔
خصوصاً زیارت کے مخصوص دنوںمیں نورانی روضوں پر دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے مختلف مسلمانوں کا کثیر تعداد میں جمع ھونا اور اسکے سایہ میں ایک دوسرے سے آشنائی اور آپس میں محبت اور دوستی کا رشتہ قائم ھوتا ھے اور اس طرح سے زائروں کے دلوں میں اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی روح زندہ ھو جاتی ھے نیز اللہ کے احکام کی بجا آوری میں نھایت خلوص پیدا ھوجاتا ھے۔
اھل بیت (ع) کی جانب سے وہ فصیح و بلیغ زیارتیں واردھوئی ھیں جن میں یکتا معبود کی حقیقی عبادت اسلام کی قداست اور پاکیزگی ،نیز حضرت محمد(ص) کی رسالت و غیرہ کے متعلق تعلیم دی گئی ھے وہ سب باتیں جو ھر مسلمان پر واجب ھیں، بلندی کردار ، او رخداوندعالم کے سامنے اچھے اخلاق ، خشوع و خضوع ھونے کے طریقے اور اسکی نعمتوں اور لطف و کرم پر شکر ادا کرنے کا جذبہ زا ئروں کے دلوں میں پیدا ھو تا ھے ۔
لہٰذا ان زیارتوں کے پڑھنے کا بھی وھی اثر ھے جو ائمہ (ع) سے مروی دعاوٴں کا اثر ھوتاھے ، (جیسا کہ پھلے بھی بیان کیا جاچکا ھے ) کہ زیارتوں کا زیادہ تر حصہ بلند ترین دعاوں پر مشتمل ھے جیسے زیارت ” امین الله “ کہ جسے امام سجاد (ع) نے اپنے جد بزرگوارمولاعلی (ع) کی زیارت کرتے وقت پڑھا ھے۔
ائمہ (ع) سے منقول زیارتوںمیںان کا موقف یہ ھے کہ ان زیارتوںمیں دین و حق کی راہ اور کلمہ حق کی بلندی میں دی گئی مخلصانہ فداکاریوں اور قربانیوں کا بیان ھے نیز بارگاہ خداوندی میں ان کی بے لوث اطاعت اورمخلصانہ عبادت کو مجسّم طور سے پیش کیا ھے ۔
یہ زیارتیں عربی طور طریقے اور قانون کے مطابق روشن اور واضح ، فصیح و بلیغ عبارتوںمیں ھونے کے باوجود ھر خاص وعام کے لئے واضح اور روشن ھیں ،جیسا کہ وارد ھوا ھے: ان زیارتوں میں کلی طور پر توحید کے دقیق معنی و مفاھیم اور الله کے تقرّب نیز اسکی بارگاہ میں دعا کرنے کے طریقے بیان ھوئے ھیں ۔
حقیقت تو یہ ھے کہ قرآن ، نہج البلاغہ اور ائمہ(ع) سے مروی دعاوٴںکے بعد ان زیارتوں کاشمار دینی ادبیات میں سب سے بلند مقام پر ھوتاھے ، چونکہ مذکورہ زیارتوں میں آئمئہ اطھار (ع) کے تمام معارف اور مفاھیم کا خلاصہ جامع طور پرنیز ان کے دینی اور اخلاقی احکام جلوہ گر ھیں۔[1]
قبروں کی زیارت کے سلسلہ میں اھلسنّت کا عقیدہ
اس گفتگو کے اختتام میں ان روایتوںکو ذکر کردینا بھی بہت مناسب ھے جو اھلسنّت حضرات کے یھاں وارد ھوئی ھیں اور زیارت کے جائزبلکہ مستحب ھونے پر دلالت کرتی ھیں تاکہ کسی کویہ شک یا وھم نہ ھونے پائے کہ فقط شیعہ حضرات ھی زیارت قبور کے قائل ھیں اور باقی تمام اھلسنّت وھابی گروہ کے ھم خیال ھیں اور اس سے یہ بھی بخوبی واضح اور روشن ھوجائیگا کہ وھابی نہ شیعہ ھیں اور نہ ھی سنّی ، چونکہ اھل سنّت حضرات تو قبروں کی زیارت خصوصاً رسول اکرم(ص) کی قبر مبارک کی زیارت کامکمل عقیدہ رکھتے ھیں اور اس راہ پر عمل پیرابھی ھیں ، اس سلسلہ میں اھل سنت حضرات کے یھاں کثیر تعداد میں متواتر صحیح ا ور واضح حدیثیںموجودھیں اور انکے علاوہ حضور اکرم سرور کائنات(ص)کے زمانے سے تمام مسلمان اس پرعمل کرتے چلے آرھے ھیں ، یھاں تک کہ خود آنحضرت(ص) بنفس نفیس شھداء کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے ۔
قارئین محترم ”مغازی واقدی“ نامی کتاب اور محدث قمی کی تصنیف” منتھی الآمال“کی طرف رجوع فرمائیں تاکہ پیغمبر اسلام(ص) کاشھداء کی قبروں پر رونا ،سوگ منانا اور ان کی قبروں پرزیارت کے لئے جانا تاریخ کی زبان سے سن لیں ( تا کہ عقیدت کے موتیوں سے جھولی بھرجائے )
اھل سنّت حضرات کی کتابوں میں مثال کے طور پر سنن نسائی ، سنن ا بن ماجہ اور احیاء العلوم مؤلفہ غزالی میں مذکورہ موضوع ( زیارت) پر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل ھوئی ھیں ابوھریرہ سے روایت ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ” قبروں کی زیارت کرو اس لئے کہ ( قبروںکی زیارت ) تمھیں آخرت کی یاد دلائے گی “ مذکورہ کتابوںمیں ابن ملیکہ نے جناب عائشہ سے روایت نقل کی ھے : حضرت عائشہ کا بیان ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی مادر گرامی کی قبرمبارک کی زیارت کی ، خودروئے اور حاضرین کوبھی رلایا اور فرمایا :
میں نے اپنے معبود سے اپنی ماد رگرامی کی قبرکی زیارت کےلئے اجازت مانگی تو خداوند عالم نے مجھے اجازت مرحمت فرمائی لہٰذا قبروں کی زیارت کیا کرو تاکہ یہ تمھیں آخرت کی یاد دلائے۔
اس طرح مذکورہ کتابوںمیں عبدالله بن مسعود سے روایت نقل ھوئی ھے ان کابیان ھے کہ آنحضرت(ص) نے ارشادفرمایاکہ پھلے میں نے تم لوگوں کو قبروںکی زیارت سے روکا ،لیکن اب جو چاھے زیارت کرے اس لئے کہ زیارت تمھیں روز آخرت اور قیامت کی یادلاتی ھے البتہ بیھودہ باتوںسے پرھیزکرو ۔
غزالی اپنی کتاب احیاء العلوم میں ابن ملیکہ سے روایتں نقل کرتے ھیں کہ ابن ملیکہ کہتے ھیں :
ایک روز میں نے دیکھا کہ حضرت عائشہ قبروں کی زیارت کرکے واپس آرھی ھیں تو میں نے عرض کیا کہ ام المؤمنین کھا ں سے تشریف لارھی ھیں ؟
حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ اپنے بھائی عبدالرحمٰن کے قبر کی زیارت کرکے آرھی ھوں،میںنے عرض کیاکہ کیا پیغمبر(ص)نے اس کام سے منع نھیں فرمایاتھا ؟
تب عائشہ نے جواب دیاکہ پھلے تو منع کیا تھا لیکن بعدمیں حکم دیا کہ اھل قبور کی زیارت کو جایاکریں ۔
اھل سنّت کی حدیث کی کتابوں یعنی صحاح اور سنن میں اھل قبور کی زیارت کی کیفیت سے متعلق بھی حدیثیں وارد ھوئی ھیں ان میں سے ایک حدیث میں زیارت کا طریقے اس طرح بیان ھوا ھے ، کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ارشاد فرمایا کہ جب قبرستان بقیع میں جاؤ تویہ کہہ کرسلام کرو :
”السَّلَامُ عَلَی اَھلِ دِیَارٍ مِّنَ المُؤمِنِینَ “ یہ تمام روایتیں تو صالح لوگوں کی زیارت سے متعلق تھیں لیکن آنحضرت کی زیارت سے متعلق بھی بہت سی معتبر حدیثیں موجود ھیں جن کو دار قطنی، بیہقی ،غزالی اور دیگر حضرا ت نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے جو مطلب کوواضح کرنے کے لئے کافی ھیں ، ان میںسے ایک روایت یہ ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا:
” جو شخص بھی میری زیارت کرے اسکی شفاعت کرنا مجھ پرواجب ھے ، البتہ یہ شفاعت فقط رسالت مآب کے روضہٴ اقدس کے زائروں اور زیارت کرنے والوں ھی سے مخصوص ھے اور وہ شفاعت جو تمام مومنین کے شامل حال ھوگی اس شفاعت سے جدا ھے ۔[2]
[1] اس حصہ کی تحریر او رتالیف میں بھی مرحوم مظفر(رہ) کی کتاب ”مسائل اعتقادی از دیدگاہ تشیع“ سے استفادہ کیا