اور رسول (ص) اكرم كى پر مشقت زندگى كے رنج و غم كے دنوں ميں تسكين بخش تھيں_ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كا بچپن، صدر اسلام كے بحرانى اوربہت ہى خطرناك حالات ميں گذرا جبكہ رسول(ص) خدا سخت مشكلات اور خطرناك حوادث سے دورچار تھے_ آپ(ص) تن تنہا كفر و بت پرستى سے مقابلہ كرنا چاہتے تھے _ چند سال تك آپ پوشيدہ طور پر تبليغ كرتے رہے جب خدا كے حكم سے آپ(ص) نے كھلم كھلا دعوت اسلام كا آغاز كيا تودشمنوں كى اذيّت اورايذا رسانى نے بھى شدت اختيار كرلي_ جب كفار نے يہ ديكھا كہ اذيت و آزار سے اسلام كى بڑھتى ہوئي ترقى كو نہيں روكا جاسكتا توانہوںنے ايك رائے ہوكر پيغمبراكرم (ص) كو قتل كرڈالنے كا منصوبہ بنايا _ رسول (ص) خدا كى جان كے تحفظ كے لئے جناب ابوطالب نے بنى ہاشم كے ايك گروہ كے ساتھ ''شعب ابى طالب'' نامى درّہ ميں آنحضرت (ص) كو منتقل كرديا_ مسلمانوں نے تين سال تك اس تپتے ہوئے درّہ ميں نہايت تنگى ، تكليف اوربھوك كے عالم ميں زندگى گذارى اور اسى مختصر غذا پر گذارہ كرتے رہے جو پوشيدہ طور پروہاں بھيجى جاتى تھى _ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا تقريباً دوسال تك كفار قريش كے اقتصادى بائيكاٹ ميں اپنے پدر عاليقدر كے ساتھ رہيں اور تين سال تك ماں باپ اور دوسرے مسلمانوں كے ساتھ بھوك اور سخت ترين حالات سے گذريں_ 10 بعثت ميں '' شعب'' سے نجات كے تھوڑے دنوں بعد آپ اس ماں كى شفقتوں سے محروم ہوگئيں جنھيں دس سال كى مجاہدت كے رنج و غم خصوصاً اقتصادى نا كہ بدى كى دشواريوں نے رنجور كرديا تھا_ (3) ماں كا اٹھ جانا ہر چند كہ جناب فاطمہ زہراء كے لئے رنج آور اور مصيبت كا باعث تھا اور آپ كى حساس روح كو اس مصيبت نے افسردہ كرديا تھا ليكن اس كے بعد آپ كو پيغمبراكرم(ص) كے دامن تربيت ميں رہنے كازيادہ موقع ملا_ |
10 بعثت ميں جناب ابوطالب اورجناب خديجہ كى وفات نے روح پيغمبر(ص) پر ايسا اثر كيا كہ آپ(ص) نے اس سال كا نام ''عام الحزن ''(4) ( غم واندوہ كا سال) ركھا_ پيغمبر(ص) كے ان دونوں بڑے حاميوں كے اٹھ جانے سے دشمن كى اذيت اور آزار رسانى ميں شدت پيدا ہوگئي ، كبھى لوگ پتھر مارتے كبھى آپ(ص) كے روئے مبارك پر مٹى ڈال ديتے ، كبھى ناسزا كلمات كہتے اكثر اوقات آپ نہايت خستگى كے عالم ميں گھر كے اندر داخل ہوتے _ ليكن يہ فاطمہ (ع) تھيں جو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ(ص) كے سر اور چہرہ اقدس سے گرد جھاڑتيں،نہايت ہى پيار و محبت سے پيش آتيں اور پيغمبراكرم (ص) كے لئے آرام اور حوصلہ كا باعث بنتيں ، جناب فاطمہ (ع) لوگوں كے غصہ اور بے مہرى كى جگہ اپنے باپ سے مہر و محبت سے اس طرح پيش آتى تھيں كہ آپ (ص) كے والدگرامى نے آپ كو '' أُم أَبيہا'' كا لقب ديا_ ہجرت كے كچھ دنوں بعد آٹھ سال كى عمر ميںحضرت على (ع) كے ساتھ مكہ سے مدينہ تشريف لائيں وہاں بھى باپ كے ساتھ رہيں _ پيغمبراكرم (ص) كى زندگى كے مشكلات ميں حضرت فاطمہ (ع) برابر شريك رہيں ، جنگ احد ميں جنگ كے خاتمہ كے بعد جناب فاطمہ (ع) مدينہ سے پيغمبر(ص) كے خيمہ گاہ كى طرف دوڑتى ہوئي پہنچيں اور باپ كے خون آلود چہرہ كو دھويا اور آنحضرت(ص) كے زخموںكا مداوا كرنے لگيں_(5) جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا ، اسلام اور قرآن كے ساتھ ساتھ پروان چڑھيں _ آپ نے وحى ونبوت كى فضا ميں پرورش پائي_ آپ كى زندگى پيغمبر(ص) كى زندگى سے جدا نہيں ہوئي يہاں تك كہ شادى كے بعد بچوں كے ساتھ بھى آپ كا گھر پيغمبر(ص) كے گھر سے متصل تھا اور پيغمبر(ص) خدا كى ہر جگہ سے زيادہ فاطمہ (ع) كے گھررفت و آمد تھي_ ہر صبح مسجد جانے سے پہلے آپ(ص) فاطمہ (ع) كے ديدار كوتشريف لے جاتے تھے _ (6) پيغمبر(ص) كے خدمتگار '' ثومان'' بيان كرتے ہيں كہ جب رسول(ص) اكرم سفر پر جانا چاہتے تو آپ(ص) سب سے آخر ميں فاطمہ (ع) سے وداع ہوتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو سب سے |
پہلے فاطمہ(ع) كے پاس جاتے تھے _ (7) آخر كار پيغمبراكرم(ص) كى زندگى كے آخرى لمحات ميں بھى فاطمہ (ع) ان كى بالين پر موجود گريہ فرمارہى تھيں، پيغمبر(ص) ان كو يہ كہہ كردلا سہ دے رہے تھے كہ وہ ہر ايك سے پہلے اپنے باپ سے ملاقات كريں گي_ (8) حضرت فاطمہ (ع) كى شادي3 ھ ميں پيغمبر اكرم(ص) نے اميرالمؤمنين '' على (ع) '' سے فاطمہ (ع) كى شادى كردي_ (9) حقيقت تو يہ ہے كہ يہ خوشگوار رشتہ انہيںكے لائق تھا_ اس لئے كہ معصومين (ع) كى تصريح كے مطابق حضرت على (ع) كے علاوہ كوئي بھى فاطمہ (ع) كا كفو اور ہمسر نہيں ہوسكتاتھا_ اس شادى كى خصوصيتوں ميں سے يہ بات بھى ہے جو ان دونوں بزرگ ہستيوں كى بلند منزلت كا ثبوت ہے كہ پيغمبراكرم (ص) نے قريش كے صاحب نام افراد، بڑى شخصيتوں اور ثروت مندوں كى خواستگارى كوقبول نہيں كيا آپ(ص) فرماتے تھے كہ فاطمہ (ع) كى شادى كا مسئلہ حكم خدا سے متعلق ہے _ (10) رسول (ص) خدا نے فاطمہ زہراء كو على (ع) كے لئے روكے ركھا تھا اورآپ(ص) خدا كى طرف سے مامور تھے كہ نور كونور سے ملا ديں_ (11) اسى وجہ سے جب حضرت على (ع) نے رشتہ مانگا توپيغمبراكرم (ص) نے قبول فرمايا اور كہا: '' تمہارے آنے سے پہلے فرشتہ الہى نے مجھے حكم خد اپہنچايا ہے كہ فاطمہ (ع) كى شادى على (ع) سے كردو'' (12) رسول اكرم(ص) نے جناب فاطمہ(ع) كى رضايت لينے كے بعدحضرت على (ع) سے پوچھا كہ شادى كرنے كے لئے تمہارے پاس كيا ہے ؟ آپ (ع) نے عرض كيا : '' ايك ذرّہ ، ايك شمشير اور پانى لانے كے لئے ايك شتر كے علاوہ ميرے پاس اور كچھ نہيں ہے _ '' على (ع) نے پيغمبر (ص) كے حكم كے مطابق ذرہ بيچ |
جناب فاطمہ كى معنوى شخصيتتمام عورتوں كى سردار، حضرت فاطمہ كى معنوى شخصيت ہمارے ادراك اور ہمارى توصيف سے بالاتر ہےں_ يہ عظيم خاتون كہ جو معصومين (ع) كے زمرہ ميں آتى ہيں ان كى اور ان كے خاندان كى محبت و ولايت دينى فريضہ ہے _ اور ان كاغصہ اور ناراضگى خدا كا غضب اور اسكى ناراضگى شمار ہوتى ہے (20) ان كى معنوى شخصيت كے گوشے ہم خاكيوں كى گفتار و تحرير ميںكيونكر جلوہ گر ہوسكتے ہيں ؟ اس بناء پر ، فاطمہ كى شخصيت كومعصوم رہبروں كى زبان سے پہچاننا چاہئے _ اور اب ہم آپ كى خدمت ميںجناب فاطمہ كے بارے ميں ائمہ معصومين(ع) كے چند ارشادات پيش كرتے ہيں: 1_ پيغمبراكرم (ص) نے فرمايا : جبرئيل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دى كہ '' ... حسن (ع) و حسين (ع) جوانان جنّت كے سردار ہيں اور فاطمہ (ع) جنّت كى عورتوں كى سردار ہيں _(21) 2_ آنحضرت (ص) نے فرمايا: دنيا كى سب سے برتر چار عورتيں ہيں : مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد ، فاطمہ دختر محمد (ص) اور آسيہ دختر مزاحم ( فرعون كى بيوي) (22) 3_ آپ (ص) نے يہ بھى فرمايا: '' خدا ، فاطمہ كى ناراضگى سے ناراض اور ان كى خوشى سے خوشنود ہوتا ہے'' _ (23) 4_ امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: '' اگر خدا ،اميرالمؤمنين كوخلق نہ كرتا تو روئے زمين پر آپ كا كوئي كفو نہ ہوتا '' _(24) 5_ امام جعفر صادق _سے سوال ہوا كہ : '' حضرت فاطمہ كا نام'' زہرا'' يعنى درخشندہ كيوں ہے؟ تو آپ نے فرمايا كہ : '' جب آپ محراب ميں عبادت كے لئے كھڑى ہوتى تھيں تو آپ كا نور اہل آسمان كو اسى طرح چمكتا ہوا دكھائي ديتا تھا كہ جس طرح ستاروں كا نور ،زمين والوں كے لئے جگمگاتا ہے _ (25) |
حضرت فاطمہ سے پيغمبر(ص) كى مہر و محبتجناب فاطمہ (ع) كے ساتھ پيغمبر اعظم(ص) كى مہر و محبت اتنى شديد تھى كہ اس كوپيغمبر(ص) كى زندگى كى تعجب خيز باتوں ميں سمجھنا چاہئے_ رسول خدا (ص) تمام امور ميں معيار حق اور ميزان عدل و اعتدال تھے ان كى تمام حديثيں اور ان كے تمام اعمال يہاں تك كہ تقرير پيغمبر(ص) ( يعني: ہر وہ كام كہ جس كو ديكھ كر آپ(ص) اپنى خاموشى سے اس كى تصديق كرديتے) بھى شريعت كا حصہ اور حجت ہے ، اور ضرورى ہے كہ يہ چيزيں، سارى امت كے اعمال كا قيامت تك نمونہ قرار پائيں_ اس نكتہ پر توجہ كر لينے كے بعد ،جناب فاطمہ كى معنوى منزلت اوركرداركى بلندى كو زيادہ بہتر طريقہ سے سمجھا جاسكتا ہے _ پيغمبراكرم(ص) كے ہاں اور بھى بيٹياں تھيں (26) اور پيغمبر (ص) اپنے خاندان حتى غيروں كے ساتھ بھى بڑى مہربانى اور نيكى سے پيش آتے تھے ليكن فاطمہ سے آپ(ص) كو خصوصى محبت تھى اور فرصت كے مختلف لمحات ميں اس محبت كا صريحاً اعلان اور اس كى تاكيد فرماتے تھے _ يہ اس بات كى سند ہے كہ فاطمہ اور آنحضرت(ص) كے گھرانے كى سرنوشت ،اسلام كے ساتھ ساتھ ہے اور پيغمبر(ص) اور حضرت فاطمہ كا تعلق صرف ايك باپ اوربيٹى كا ہى نہيں ہے _ بلكہ پورى كائنات كے لئے پيغمبر اكرم(ص) كى عملى تبليغ كا شبعہ فاطمہ زہرا كى عملى سيرت سے ہى مكمل ہوتا ہے_ اس مقام پر پيغمبر(ص) كى حضرت فاطمہ سے مہر و محبت كے چند نمونوں كا ذكر كردينا مناسب ہے _ يہ نمونے ان نمونوں كے علاوہ ہوں گے كہ جو پہلے بيان ہوچكے ہيں_ 1_ امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق _فرماتے ہيںكہ _ پيغمبر اكرم (ص) ہميشہ سونے سے پہلے فاطمہ كے چہرے كا بوسہ ليتے ، اپنے چہرہ كو آپ كے سينہ پر ركھتے اور فاطمہ (ع) كيلئے دعا فرماتے_(27) |
تيسرا مرحلہ:زمام حكومت سنبھالنے كے بعد حضرت ابوبكر نے جناب فاطمہ زہراء سے ''فدك ''(35)لينے كا ارادہ كيا اور حكم ديا كہ فدك ميں كام كرنے والوں كو نكال باہر كيا جائے اور ان كى بجائے دوسرے كاركنوں كو وہاں مقرر كر ديا (36)_ فدك كو قبضہ ميں كرنے كے وجوہات ميں سے ايك وجہ يہ تھى كہ وہ لوگ اس بات كو بخوبى جانتے تھے كہ حضرت على (ع) كے ذاتى فضائل و كمالات ،ان كاعلمى مقام اور ان كى فداكارياں قابل انكار نہيں ہيں، اوران كے بارے ميں پيغمبر(ص) كى وصيتيں بھى لوگوں كے درميان مشہور ہيں اگر ان كى اقتصادى حالت بھى اچھى ہوگئي اور ان كے پاس پيسے آگئے تو ممكن ہے كہ ايك گروہ ان كے ساتھ ہوجائے اور پھر خلافت كے لئے خطرہ پيدا ہوجائے_ اس نكتہ كو ان باتوں ميں ديكھا جاسكتا ہے جو حضرت ابوبكر كو مخاطب كركے حضرت عمر نے كہى ہيں: '' لوگ دنيا كے بندے ہيں اور سوائے دنيا كے انكا كوئي مقصد نہيں ہے اگر خمس و بيت المال اور فدك كو على (ع) سے چھين لو تو پھر لوگ خود بخود ان سے على حدہ ہوجائيں گے (37) _ جب جناب فاطمہ(ع) ، ابوبكر كے اس اقدام سے مطلع ہوئيں تو انہوںنے سوچا كہ اگر اپنے حق كا دفاع نہ كيا تو لوگ يہ سمجھ بيٹھيں گے كہ حق سے چشم پوشى اور ظلم كے بوجھ كے نيچے دب جانا ايك پسنديدہ كام ہے_ يا يہ تصور كريں گے كہ حق ،ابوبكر كے ساتھ ہے_ جيسا كہ اس وقت ان تمام مبارزوں كے باوجود حضرت ابوبكر كے پيروكار، ابوبكر كى اس روش كو حق بنا كر پيش كرتے ہيں_ ان سب باتوں كے پيش نظر ،جناب فاطمہ زہراء س نے ممكنہ حد تك اپنے حق كے دفاع كا ارادہ كيا_ البتہ جس بى بى (ع) كا باپ تازہ ہى دنيا سے رخصت ہوا ہو اورجس كا بچہ تازہ ہى سقط ہوا ہو نيز جس نے اور بہت سے مصائب برداشت كئے ہوں اس كے لئے يہ سب كام سہل اور آسان نہيں |
جناب فاطمہ (ع) كے وجود اور ان كے جسم و جان كو سخت تكليف پہنچائي ، آپ (ع) پيغمبر(ص) كے بعد، مسلسل گريہ كناں اور غمزدہ رہتيں _كبھى با پ كى قبر كى زيارت كو تشريف لے جاتيں اور كبھى شہداء كے مزار پر جاكر گريہ فرماتيں (41) _ نيز گھر ميں گريہ و عزادارى ميں مصروف رہتى تھيں_ آخر كار ، شہزادى دو عالم جاكر كى طاقت كو كم كردينے والے غم اور ديگر پہنچنے والے صدموں نے آپ كو مضمحل اور صاحب فراش بناديا _ بالاخر انہيں صدمات كے نتيجے ميں آپ 13 جمادى الاولى (42)يا سوم جمادى الثانيہ (43)- 11 ھ ق يعنى رسول اكرم (ص) كى رحلت كے 75 يا 95 دن بعد، دنيا سے رخصت ہوگئيں اورآپ نے اپنى شہادت سے اپنے پيروكاروں كے دلوں كو ہميشہ كيلئے غم والم ميں مبتلا كرديا _ |
سوالات1_ جناب فاطمہ زہراء (ع) كى ولادت كس تاريخ كو ہوئي اور مكہ ميں آپ كا بچپن كيسے ماحول اور كن حالات ميں گذرا؟ 2_جناب خديجہ (عليہا سلام) كے انتقال كے بعد جناب فاطمہ زہرا(ع) كا باپ كے ساتھ كيسا سلوك رہا اور ''ام ابيہا'' آپ كا لقب كيوں پڑا؟ 3_حضرت على (ع) سے آپ كى شادى كس سن اور كس تاريخ ميں ہوئي اور اس شادى كى خصوصيت كيا تھي؟ 4_ايك بيوى كے عنوان سے على (ع) كے ساتھ جناب معصومہ (ع) كا كيا سلوك رہا؟ 5_جناب سيدہ كى عبادت كا ايك نمونہ كا ذكر كيجئے؟ 6_سقيفہ كى كاروائي اور پيغمبر (ص) كى جانشينى كے مسئلہ ميں جناب فاطمہ (ع) كا كيا رد عمل تھا؟ 7_خلافت كى مشينرى كے ساتھ آپ كے مبارزہ كى كيا روش تھي؟ اس كے دو نمونے بيان فرمايئے |
حوالہ جات1 مناقب ابن شہر آشوب جلد 3/ص 357، بحارالانوار جلد 43 ص 6_ دلائل الامامہ ص 10 _ اصول كافى جلد 1_ 2 الروضہ الانف جلد 1 ص 213، منقول از بانوى نمونہ اسلام مصنفہ ابراہيم امينى ص 18_ 3 و4 مناقب ابن شہر آشوب جلد 1 ص 174_ 5 بحارالانوار جلد 20 ص 88، الصحيح من سيرة النبى جلد 4 ص 324_ 6 كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1 ص 457_ 7 كشف الغمہ فى معرفة الائمہ جلد 1 ص 457_ 8 امالى طوسى جلد 2 ص 14_ 9 جناب معصومہ كى شادى كى تاريخ ميںاختلاف ہے سيد ابن طاؤس نے مرحوم شيخ مفيد كى كتاب حدائق الرياض ميںاقبال كے مطابق ازدواج كى تاريخ 21 محرم 3 ھ نقل كى ہے _ ليكن مصباح ميں اول ذى الحجہ مانتے ہيں _ امالى ميں آيا ہے: فاطمہ كى شادى عثمان كى بيوى رقيہ كى وفات كے سولہ دن بعد اورجنگ بدر سے واپسى پر ہوئي بحار جلد 43/93_ 97_ 10 '' امرہا الى ربہا'' كشف الغمہ جلد 1 ص 353 _ مطبوعہ تبريزبحار جلد 43ص 1 _ 11 دلائل الامامہ ص 19_ 12 بحار 43/127_ 13 كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1 ص 360_ 369_ بحار جلد 43 ص 127_ ص 133_ 14 بحار الانوار جلد 43/82_ 15 بحار جلد 43/151 منقول از كافى '' ... كانَ اَميْرُ الْمُؤمنيْنَ (ع) يَحْتَطبُ وَ يَسْقيْ وَ يَكنُسُ وَ كانَتْ فاطمَةُ (ع) تَطْحَن و تَعْجنُ و تَخْبزُ'' 16 سيرة ابن ہشام جلد 3 ص 106، الصحيح من سيرة النبى جلد 4 ص 324_ بحار جلد 2 ص 88_ 17 مناقب خوارزمى ، ص 256_ 18 بحار الانوار جلد 43/111 '' ... نعم الصون على طاعة اللہ''_ 19 يہ حصہ كتاب '' بانوى نمونہ اسلام '' مصنفہ ابراہيم امينى كا اقتباس ہے_ |
20 بحار الانوار جلد 34/19_ و26كشف الغمہ جلد 1مطبوعہ تبريز /458، الغدير جلد 3/20 _ 21 امالى مفيد ص 3، امالى طوسى جلد 1 ص 83، كشف الغمہ جلد 1 ص 456_ 22 بحار جلد 43/9_ 26 ... ... ... ... مناقب ابن شہر آشوب جلد3 ص 322_ 23 بحار جلد 43/9_ كشف الغمہ جلد 1 ص 467 _ 24 بحار جلد 43/19_ 26 ، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ص 472_ 25 بحار جلد 43 ص12، علل اشرائع مطبوعہ مكتبہ الداورى قم ص 181 '' قال : سئلت ابا عبداللہ عن فاطمہ ، لمَ سميّت زہرائ؟ فقال: لانّہا كانت اذ اقامت فى محرابہا زہر نورہا لاہل السماء كما يزہر نور الكواكب لاہل الارض''_ 26 فاطمہ كے علاوہ پيغمبركى ديگر بيٹيوں كا ثبوت اہل سنت كى كتابوں سے ملتا ہے جبكہ اكثر شيعہ علماء نے تفصيلى تحقيق كے بعد يہ سمجھا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كى صرف ايك ہى بيٹى فاطمہ تھيں_ 27 بحار الانوار جلد 43/42 ، مناقب ابن شہر آشوب جلد 3/334 '' ... كان النّبى (ص) لا ينام حتّى يقبل عرض وَجہ فاطمة (ع) يَضَعُ وَجَہَہْ بين ثديى فاطمة و يدعولہا ...'' _ 28 كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1 / 467، فصول المہمہ /146، بحار جلد 43/52، الغدير جلد 3/20 '' ... من عرف ہذہ فقد عرفہا و من لم يعرفہا فہى فاطمة ينت محمد (ص) و ہى بضعة منّى و ہى قلبى الذى بين جنبى فمن آذاہا فقد آذانى و من آذانى فقد آذى اللہ _ 29 بحار الانوار جلد 43/6 منقول از تفسير على بن ابراہيم ، كشف الغمہ جلد 1 ص 459_ 30 بحار ج 33/ 46_ 31 بحار الانوار جلد 43/ 82، كشف الغمہ مطبوعہ تبريزى جلد 1 ص 468 '' ... فقالت يا بنى الجار ثم الدار''_ 33 بحار الانوار جلد 43/ 76، 84 '' ما كان فى ہذہ الامة اعبد من فاطمة كانت تقوم حتى تورّم قدماہا''_ 33 الامامة و السياسة جلد 1 ص 19_ 34 ''بانوئے نمونہ اسلام'' مصنفہ ابراہيم امينى ص 144_ 35 ''فدك'' مدينہ سے چند فرسخ كے فاصلہ پر ايك ديہات تھا جو 7 ھ ميں رسول(ص) خدا اور يہوديوں كے درميان صلح كے معاہدہ ميں بغير كسى خونريزى كے رسول(ص) كو ملا تھا اور يہ صرف رسول(ص) كا حق تھا چنانچہ آپ (ص) نے |
خدا كے حكم كے مطابق فدك كو اپنى بيٹى فاطمہ (س) كو بخش ديا تھا_ 36 تفسير نور الثقلين جلد 3/ 154 مطبوعہ حكمت قم اصول مالكيت جلد 2_ موضوع فدك و الاحصہ ملاحظہ ہو_ 37 ناسخ التواريخ ج زہراء / 122_ 38 كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1 ص 491 ، احتجاج طبرسى جلد 1 ص 141'' ألاقد قلت ما قلت ہذا على معرفة منى بالجذلة التى خامرتكم و العذرة التى استشعرتہا قلوبكم ولكنّہا فيضة النفس و نفثة الغيظ ...''_ 39 شرح ابن ابى الحديد جلد 6/ 46 ، كشف الغمہ جلد 1/ 477_ 40 دلائل الامة طبرى /46، مناقب ابن شہر آشوب جلد 3/363_ يہ حصہ ابراہيم امينى كى كتاب ''بانوى نمونہ اسلام'' كا اقتباس ہے_ 41 بحار الانوار جلد 43/195_ 42 بحار الانوار ج 43 /195_ 43 كشف الغمہ جلد 1/503 دلائل الامامہ / 45 ، بحار 43/196 منقول ا ز اقبال الاعمال_ |
|
|
|