اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

میری زندگی میں ایک ہیجان

میری زندگی میں ایک ہیجان

                میں تاریخ کے کلاس میں شرکت کرتا تھا میرے استاد تاریخ پر کم و بیش تبصرہ کرتے تھے کیوں کہ طلبہ کی فکر کلاس ہی سے تشکیل پاتی ہے ۔جب ہم معرکہ صفین پر پہنچے تو استاد نے مسکرا کر کہا : شاطر عمرو بن عاص نے لشکرعلی کو دھوکا دینے کی خاطر نیزوں پر قرآن بلند کرنے کی بات پیش کی تاکہ لشکر معاویہ کو ذلت آمیز شکست سے بچایا جاسکے استاد کے اس جملہ نے مجھے خاکستر کر دیا میں نے اپنے دل میں کہا: عمر وبن عاص نے ایسا کام کیوںکیا ؟ یہ جلیل القدر صحابی! جس کو ہمارے علماء صحابیت کا مینار ہدایت بتاتے ہیں وہ فریب و حیلہ دے !صحابہ کا وہ تقویٰ ،وہ اخلاص ،جس کو ہمارے علماء نے ذہن نشین کرایاہے وہ کہاں ہے ؟ میں نے اپنے اندر ایک شدید قسم کی جنگ محسوس کی ان اقوال کے سلسلہ میں جو صحابہ کرام کو فرشتوں کی صفوں سے ملحق کرتے ہیں اور ان تاریخی حقائق کے درمیان جو بھی میں نے پڑھے !میں مغموم حالت میں گھر واپس آیا اپنے بھائی سے پورا واقعہ نقل کیا بھائی نے مجھ سے کہا صحابہ اپنی مسئولیت سے زیادہ آگاہ تھے لہٰذا تمھارے لئے درست نہیں ہے کہ تم ان کے درمیان فیصلہ کرنے بیٹھو بھائی کی سرد گفتگو نے مجھے بالکل مطمئن نہیں کیا میرا ضمیر بار بار مجھ سے سوال کرتا تھا کہ ایک عام مومن کسی کو فریب نہیں دیتا ہے تو پھر صحابہ نے ایسا کام کیوںکر انجام دیا؟

                کئی سال گزر گئے میرا دل مختلف ایسے سوالات کی آماجگاہ بنتاگیا جن کے جواب مجھے نہ مل سکے آخر کار میں نے ان سوالات سے چشم پوشی کر لی اور جواب کی آرزو دل ہی میںنہاں ہو کے رہ گئی۔

                زمانہ کی کرشمہ سازیاں دیکھیں میرا ایک صمیمی دوست جو میرا ہم کلاس بھی تھا اس سے ایک عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی مجھے اس کے متعلق پتہ چلا کہ وہ شیعہ ہو گیا ہے ؟ میں بچپن ہی سے یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ سنی مذہب ہی حق ہے اور خصوصا ًامام مالک کے پیرو کار ،اگرچہ ان تین اماموں کے پیروکار بھی حق پر ہیں لیکن امام مالک کا مرتبہ زیادہ بلند ہے کیوں کہ وہ امام دار الھجر ة تھے (یعنی مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے) اورا فریقہ کی اکثریت بھی امام مالک کی تابع ہے ،لہٰذا آپ کا مسلک زیادہ با فضیلت ہے ۔اگرچہ کبھی کبھی مذاہب اربعہ کے اختلاف کے سلسلہ میں ذہنی سوالات اٹھتے تھے لیکن میں نے کبھی اختلافات کو اچھی نظر نہیں دیکھا جب کہ ہم کو بچپن ہی سے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اختلافات رحمت ہیں پیغمبر اکرم  کے نزدیک سب برابر ہیں لیکن یہ بات مجھے کبھی ہضم نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ہمارے علماء دلیلوں سے قانع کر پائے اور نہ میں اپنے دل کو مطمئن کر پاتا تھا ۔

                تو جناب مجھے یقین تھا کہ مذہب شیعہ باطل محض ہے اور ان کے عقائد گمراہ کن ہیں اگر چہ بعض چیزوں کے بارے میں میں نے سن رکھا تھا کہ یہ لوگ سید نا الحسین  - پر بہت گریہ کرتے ہیں صحابہ پر سب وشتم کرتے ہیں ،مجھے تو بہت تعجب ہوتا تھا میری دلی آرزو تھی کہ اے کاش میری کسی شیعہ سے ملاقات ہو جائے جس کو میں سمجھاؤں یا کم از کم اس سے دریافت کروں کہ آخر تم یہ سب کام کیوں انجام دیتے ہو ؟

                شیعہ دوست سے جو میری پہلی بحث ہوئی وہ حدیث  ۱#  ’ ’ عشرة المبشرین “ (یعنی وہ دس افراد جن کو جنت کی بشارت دی گئی ہے )کے سلسلہ میں ہوئی اس نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ بات معقول ہے کہ طلحہ و زبیر و علی ں سب جنت میں جائیں جب کہ ان میں سے بعض نے بعض کے ساتھ جنگ بھی کی اور سب و شتم بھی کیا ! یا یہ معقول ہے کہ یہ سب جہنم میں جائیں گے ؟ پھر اس نے مجھے جواب دیا کہ دیکھو!صحابہ کی تین قسمیں ہیں پہلا گروہ تو وہ ہے کہ جو پیغمبرا کرم  کی وفات کے بعد ثابت قدم رہا ،دوسرا گروہ زبانی طور پر تو نہیں بلکہ عملی طور پر مرتد ہو گیا اور تیسرا گروہ منافقین کا تھا لہٰذا ایسی صورت میں تمام صحابہ کیسے عادل ہو سکتے ہیں ؟ پھر اس نے اپنے حقانیت پر حدیث ثقلین کو پیش کیا کہ جس میں مرسل اعظم  نے فرمایا:

                انِّی تارک  فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا کتاب اللّٰہ و عترتی اہل بیتی و لن یفترقا حتٰی یردا علی الحوض“  ۲#

                میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم لوگ ان دونوں سے وابستہ رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ایک کتاب خدا ہے دوسرے میری عترت و اہل بیت ہیں اور یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کریں گے

                بیشک آنحضرت  نے امت کی قیادت دینی و سیاسی امور میں اہل بیت کے سپرد کی تھی اے کاش امت نے اس بات کا لحاظ کیا ہوتا پھر ہمارے درمیان مختلف مناقشات ہوئے جس میں روٴیت باری تعالیٰ ،حرکت وانتقال رسول اعظم  کا گناہان کبیرہ سے معصوم ہونا ،آپ  کا خطا و نسیان سے محفوظ رہنا ،یا عائشہ و حفصہ کے متعلق جو سورہ نازل ہو ا جس میں دونوں کو طلاق اور جہنم کے عذاب سے خوف دلایا گیا ہے میں نے اس بحث کے بعد غور کیا کہ مذہب اہل سنت کے بنیادی عقائد تو منہدم ہو گئے بلکہ ان عقائد کی بنیاد تو حکام وقت کی طرف سے رکھی گئی یعنی بنی امیہ اور بنی عباس جو خدا ور رسول کے دشمن تھے ۔

                آخر کار میں نے شیعت کے متعلق غور و فکر شروع کر دی جیسے جیسے میں منزلوں کو طے کرتا رہا حقیقت مجھ پر آشکار و روشن ہوتی گئی میں نے دیکھا کہ یہ مذہب عقل و منطق پر مبنی ہے جس کی جانب خود قرآن و سنت نے تصریح کی ہے یہ وہ مذہب ہے جہاں پر خرافات ،تحریفات اور چھوٹی باتوں کا گزر بھی نہیں ہے آخر کار میں نے بھی دراہلبیت پر سر تسلیم خم کر دیا اب میری سمجھ میں آیا کہ آخر شیعیت کے متعلق اتنی پر زور تبلیغ کیوں کی گئی ؟ ایسی غلط تہمتیں کیوں باندھی گئی جو یہود و مجوس سے بھی بد تر قرار دیتی ہیں اس وقت مجھ پر اس آیت کے معنی روشن ہوئے جس میں خدا وند کریم نے فرمایا:

                یا ایھا الذین آمنوا  ان جاء کم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالة“  ۰( ۱۔سورہ حجرات/۶ )”اے ایمان والوں جب کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی اچھی طرح سے چھان بین کر لو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی میں تکلیف پہنچاؤ

                اور یہ حدیث کس سے صادر ہوئی ہے اس کو پہچانا: ”الناس اعداء ما جھلوا “  ۳#  لوگ تو اس چیز کے دشمن بن جاتے ہیں جس کے بارے میں ناواقف ہوتے ہیں

                آخر میں ،میں ہر آزاد انسان کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ وہ شیعہ کتابوں کا آزادانہ طور پر مطالعہ کرے اور ان کے افکار سے آگاہی پیدا کرے اور بغیر کسی کو واسطہ بنائے ہوئے میری طرح مذہب اہلسنت کی کتابوں مثلاً بخاری و موٴطاء وغیرہ کو بھی پڑھے اور پھر اس کے بعد دونوں مذہبوں کے درمیان آزادی کے ساتھ تقابل کرے تو اس کے اوپر یہ حقیقت روشن ہو جائے گی اور ظاہر ہے کہ ہم معاویہ سے تو بد تر نہیں ہیں جس نے کتنے محترم نفوس کو قتل کیا کتنے فتنے برپا کئے پھر اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ خطا ء اجتہادی سر زد ہو گئی تھی ہم اگر اس راہ میں کوشش کرتے ہیں اور حق تک پہنچ جاتے ہیں تو یقینا ہمارے لئے دو اجر ہوں گے اور اگر کوشش و سعی کے بعد بھی حق تک نہیں پہنچ پاتے تو ہمارے لئے ایک اجر قرار پائے گا اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہماری نیتوں میں اخلاص ہو آپ حضرات تجربہ کریں اور مذہب تشیع کا انصاف کے ساتھ مطالعہ کریں اس لئے کہ مطالعہ کرنے میں نہ تو کوئی حرج ہے نہ ضرر اور نہ ہی کوئی فتنہ ہے نہ زہر جیسے کہ بعض نادان علماء کا خیال ہے اگر ہم میں سے کوئی فیکٹورہیگو کے آثار کا مطالعہ کرتا ہے یا شکسپیر کے ڈرامے پڑھتا ہے تو وہ دوسروں پر فخر و مباہات کرتا ہے اسی طرح اگر کوئی صاحب بطور آگاہی کتب شیعہ کا مطالعہ کریں تو بہر حال وہ حضرات ان افراد کے مقابل میں قابل ستائش سمجھے جائیں گے کہ جو جاہل و ناواقف ہیں ۔آخر میں میں خدا سے پناہ طلب کرتا ہوں ،استغفر اللّٰہ العلی العظیم ۔

                                                                                                                                                                                الہاشمی بن علی رمضان

                                                                                                                                                                                       قابس۔ تونس

 ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․

  ۱)۔ سنن ابن ماجہ ،ج/۱ص/۴۸باب فضائل العشرة                              ۲)۔ ترمذی ،ج/۵ فضائل امیر الموٴمنین                ۳)۔  نہج البلاغہ ،کلمات قصار /۱۷۲

حقیقت کی کلید

                میں ایک عرصہ تک سنی رہا پھر شیعہ ہوا لہٰذامیں نے غور کیا کہ صحابہ کے متعلق گفتگو کرنا حساس موضوعات میں سے ایک موضوع ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے جو آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے اور حقیقت کے میدان میں اترنے سے سختی سے منع کرتا ہے اس کے دو سبب ہیں:

                ۱)۔پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری تربیت ہی کچھ اس نہج پر کی گئی ہے جس سے ہم کو خوف محسوس ہوتا ہے دیکھو خبر دار اس بحث میں وارد نہ ہونا !صحابہ کے سلسلہ میں قطعا ًبحث نہ کرنا گویا کہ یہ مسئلہ خطر کی گھنٹی ہے جس کے قریب کوئی نہیں جا سکتا چاہے ہمارا سینہ تاریخی حادثات کو دیکھ کرپھٹ جائے۔

                ۲)۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء کا  فرمان ہے کہ دیکھو صحابہ کرام کے درمیان جو تنازعات یا اختلافات ہوئے اس میں ہم کو کچھ بولنے کا حق نہیں ہے کیوں کہ تمام صحابہ مصلح تھے اور ان لوگوں نے بعد از وفات پیغمبر اکرم  نشان رسالت کی علمبرداری کی ،یہ باتیں تھیں جو مجھے اس بحث سے صرف نظر کے لئے آمادہ کرتی تھیں اسی لئے میں نے اپنی کتاب کا موضوع ،مسئلہ صحابیت قرار دیا ہے تاکہ حقیقت عیاں ہو جائے اور آنکھوں سے پردے ہٹ جائیں۔

بحث میں ورود

                بلاشبہ مسئلہ صحابیت ایسے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے کہ جس پر بہت زیادہ روشنائی بہایا گیا ہے اور اس کے مقابل آوازیں دھیمی پڑ جاتی ہیں عام طور سے اہل سنت حضرات مسلمانوں کے لئے تقدس صحابیت کے قائل ہونے کو ایمان کا ایک جز قرار دیتے ہیں اگر کسی شخص نے اصحاب میں سے کسی ایک کو بھی کچھ کہا تو وہ گویا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگیا لیکن جب ایک مسلمان انصاف کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث کرنے اٹھتا ہے تو دیکھتا ہے یہ مسئلہ نہ تو اساسی عقائد میں سے ہے جن عقائد پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے جیسے ،توحید ،معاد ،نبوت ،یا وہ عقائد جن پر مسلمانوں میں اختلاف ہے جیسے عدل اور قیامت اہل سنت کے نزدیک اسلام کے ارکان پانچ ہیں پہلے خدا کے وحدانیت کی گواہی یعنی ”لا الہ الااللّٰہ“کہنا اس کے بعد آنحضرت  کی رسالت کی گواہی یعنی ”محمد رسول اللّٰہ “کہنا دوسرے نماز تیسرے زکاة چوتھے حج اس شخص کے لئے کہ جو مستطیع ہے پانچویں خدا کی جانب سے قضا ء قدر پر ایمان خواہ خیر ہو یا شر ان پانچ ارکان میں سے جس پر اسلام کی بنیاد ہے کہیں بھی عقیدہٴ صحابیت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اب آیئے شیعوں کے نزدیک دیکھیں ! شیعوں کے نزدیک اصول دین پانچ ہیں :

                ۱)۔توحید   ۲)۔عدل    ۳)۔ نبوت    ۴)۔امامت      ۵)۔قیامت۔

                اگر چہ عدل و امامت کا شمار شیعوں کے نزدیک اصول دین میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اس کا منکر ہو جائے تب بھی وہ اس کو کافر نہیں شمار کرتے پس عقیدہ صحابہ نہ تو شیعوں کے نزدیک ارکان دین میں داخل ہے اور نہ سنیوں کے نزدیک جو کچھ قرآن حکیم میں وارد ہو ا ہے اس پر تمام مسلمان اتفاق و یقین رکھتے ہیں چنانچہ قرآن میں اساس ایمان جن چیزوں کو بتایا گیا ہے وہ خدا و رسول ،ملائکہ اور اس کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھنا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ میں خدا وند کریم کا رشاد ہے :

آمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ و المومنون کل آمن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ لا نفرق بین احدمن رسولہ و قالوا سمعنا و اطعنا غفرانک ربنا و الیک المصیر“  (سورہ بقرہ /۲۸۵)

جو چیز پیغمبر  پر اس کے پر ور دگار کی جانب سے نازل کی گئی ہے اس پر وہ ایمان رکھتا ہے ،اور تمام مومنین بھی خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں(مومن کہتے ہیں) ہم خدا کے کسی پیغمبر کے درمیان فرق نہیں رکھتے (بلکہ سب پر ایمان رکھتے ہیں )(موسیٰ)کہتے ہیں پروردگارہم نے سنا اور اطاعت کی اب تیری بخشش کے منتظر ہیں اور ہماری بازگشت تو تیری ہی طرف ہے

                دوسری آیت سورہ نساء میں ہے جہاں ایمان کا تذکرہ ہے خدا کا ارشاد ہے :

یا ایّھا الّذین آمنوا آمنوا باللّٰہ و رسولہ و الکتاب الذی نزل علیٰ رسولہ و الکتاب الّذی انزل من قبل و من یکفر باللّٰہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الآخر فقد ضل ضلالا بعیدا“  (سورہ نساء /۱۳۶)

اے ایمان والو خدا اور اس کے رسول پر واقعی ایمان لاؤ اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل ہوئی اور جو کوئی بھی خدا یا اس کے ملائکہ اور اس کی نازل کردہ کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کا انکار کرے گا وہ یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں ہے

                ان آیات میں تو صحابہ پر ایمان لانے کو ذکر نہیں کیا گیا ہے پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہر نبی کے صحابی تھے یا نہیں ؟ اگر مرسل اعظم کے اصحاب پر ایمان رکھنا ضروریات اسلام ،یا ایمان میں سے ہے تو پھر حضرت نوح اور ابراہیم ،موسیٰ و عیسیٰ کے اصحاب پر ایمان رکھنا کیوں نہیں واجب ہے؟۔

                کون سی دلیل کتاب یا سنت میں اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ہم کو تمام صحابہ پر ایمان رکھنا ضروری ہے جس طرح خدا و رسول پر ایمان لانا لازم و ضروری ہے؟۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی

 
user comment