کلمہ صحبة اور اس کے مشتقات قرآن میں
اس بحث میں تفصیلی وارد ہونے سے پہلے ہمارے لئے ضروری ہے کہ کلمہ صحبت اور اس کے مشتقات جو قرآن مجید میں مختلف معنٰی میں استعمال ہوئے ہیں ان کی جانب رجوع کریں چنانچہ خدا ے ذوالجلال مشرکین قریش کو مخاطب کر کے ارشاد فرماتا ہے:”مابصاحبکم من جنة“( سورہ سبا/۴۶) ’ ’تمھارا ساتھی مجنون نہیں ہے “
آپ ملاحظہ کریں!قریش کے سر کش افراد جن لوگوں نے مرسل اعظم پر جنون کی تہمت لگائی ان کو خدا پیغمبر کا ساتھی کہہ کر مخاطب کررہا ہے کسی عاقل آدمی پر اس آیت کی معنی پوشیدہ نہیں ہےں اور بعینہ یہی معنی آپ کو ان آیات میں بھی ملیں گے۔”ما ضل صاحبکم وما غویٰ“ (سورہ نجم /۲) ”تمھارا ساتھی نہ تو گمراہ ہوا اور نہ ہی بہکا“
پھر اسی مضمون کی آیت تکرار ہوتی ہے : ”وما صاحبکم بمجنون “ (سورہ تکویر /۲۲)”تمھارا ساتھی مجنون نہیں ہے“
اسی طرح قرآن کریم میں لفظ صاحب یا الفظ صحابی ،ہم مکان و ہم محل افراد پر بھی صادق آتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے:
”یا صاحبی السجن“ (سورہ یوسف/۳۹) ”اے میرے قید خانہ کے ساتھیوں“
جب کہ جناب یوسف ﷼ کے دونوں ساتھی کافر تھے قرآن کریم کی یہ آیت شاہد ہے:
”اٴارباب متفرقون خیرام اللّٰہ الواحد القھار“(سورہ یوسف/۳۹) ”آیاایک خدا ے قہار بہتر ہے یا کئی خدا ؟“
لیکن وہ دونوں حضرت یوسف ﷼ کے ساتھ ایک جگہ پر تھے لہٰذا وہ آپ کے ساتھی قرار پائے تقریبا یہی معنی اس آیت کریمہ میں بھی موجود ہیں:
”ومن عاد فاولئٰک اصحاب النار ھم فیھا خالدون“(سورہ بقرہ/۲۷۵ ) ”اور جو بھی رو گردانی کرتے ہیں اور گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ اہل جہنم ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے “
تو یہاں پر بھی جہنم میں رہنے والوں کو اصحاب النار کہا گیا ہے۔اور ہم یہاں چند آیات نقل کرتے ہیں جن میں گزشتہ مضمون و معنیٰ کی تکرار ہوئی ہے:
”اصحاب الجنة یومئذ خیر مستقر ا و احسن مقیلا“ (سورہ فرقان/۲۴)اہل بہشت کا قیامت میں بہترین ٹھاکانا ہوگا اور جنت بہترین ارام کی جگہ ہوگی“
”ام حسبت ان اصحاب الکہف والرقیم کانوا من ایاتنا عجبا“(سورہ کہف /۱۹۱)”کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ کہف و رقیم والے ہماری نشانیوں میںسے کچھ تعجب کیز نشانی تھے “
”وقوم ابراہیم و اصحاب مدین“(سورہ توبہ/۷۰) ”قوم ابراہیم اور اصحاب مدین“
”ونادیٰ اصحاب الاعراف“ (سورہ اعراف /۸) ”اوراعراف والے آواز دیں گے“
”و ان کان اصحاب الایکة لظالمین“( حجرات/۸) اگر چہ ایکہ والے (قوم شعیب) ظالم تھے“
”ولقد کذب اصحاب الحجر المرسلین“ ( حجرات/۸۰) ” اور اصحاب حجر (قوم ثمود ) نے بھی مرسلین کی تکذیب کی “
”واصحاب مدین“(حج /۴۴) اور اصحاب مدین (قوم شعیب)
”اصحاب قریة (یٰش/۱۳) ”اور دیہات والے “
”واصحاب القبور“(ممتحنہ/۱۳) ”قبردں والے“
”واصحاب القبور“(سورہ بروج /۴)”اخدود کے اصحاب “
قرآن کریم میں لفظ صاحب یا صحابی یا اصحاب زمان پر بھی اطلاق ہوتا جیسے سورہ نساء کی آیت ۴۷میں رب العزت کا ارشاد ہے:
”کما لعنا اصحاب السبت“ ”جس طرح ہم نے اصحاب سبت (ہفتہ والوں ) پر لعنت کی“
اسی طرح ”صحبة“ کی نسبت حیوان کی جانب دی گئی ہے جیسا کہ رسورہ الفیل کی آیت ہے:
”الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل“(سورہ فیل /۱)”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمھارے پرور دگار نے اصحاب فیل (ہاتھی والوں) کے ساتھ کیسا سلوک کیا“
اور دوسری آیت میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
”فاصبر لحکم ربک ولا تکن کصاحب الحوت“( سورہ قلم /۴۸)” اب آپ صبر کریں اور اپنے پرور دگار کے فرمان کے منتظر رہیں اور مچھلی (کانوالہ ہونے ) والے (یونس ) کی طرح نہ بنیں“
اسی طرح لفظ ”صحبة “ کی آلة کی جانب بھی نسبت دی گئی ہے چنانچہ ارشاد رب العزت ہے: ”اصحاب السفینة “(سورہ عنکبوت /۱۵)”اور اصحاب کشتی “
اور لفظ ” صحبة “ یا ”صاحبة“زوجہ پر بھی دلالت کرتا ہے جیسا کہ قول اللہ تعالیٰ ہے:
”انی یکون لہ و لد ولم تکن لہ صاحبة“(سورہ انعام /۱۰۱)”کیسے ممکن ہے کہ وہ بیٹا رکھتا ہو حالیکہ وہ زوجہ بھی نہیں رکھتا ہے“
دوسری آیت بھی ملاحظہ ہو: ”یود المجرم لو یفتدی من عذاب یومئذ ببنیہ و صاحبتہ و اخیہ“( سورہ معارج/۱۲۔۱۱)
”وہ سب ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے تو مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے لیا جائے اور بیوی اور بھائی کو“
تیسری آیت ملاحظہ ہو :
” و انہ تعالیٰ جد ربنا مااتخذ صاحبة ولا ولدا“( جن/۳) ” بیشک خدا وند بہت بلند و باعظمت ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے لئے فرزند و زوجہ قرار دے“
اور کبھی لفظ ” صحبة“ اس مرد پر بھی صادق آتا ہے کہ جو گفتگو کرے اس بات سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہ وہ مومن ہے یا کافر چنانچہ ارشاد خدا وند ہے:
”قال لہ صاحبہ و ھو یحاورہ اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفة ثم سواک رجلا“(کہف /۳۷)
”اس کے مومن ساتھی نے کہا کہ وہ گفتگو کر رہا تھا ۔کیا وہ خدا جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تم کو ایک کامل مرد بنا دیا اس کا انکار کرتے ہو“
اسی طرح لفظ ” صحبة “کی نسبت حق و باطل کی جانب بھی دی گئی ہے یہاں پر ہم چند آیات قرآن کریم سے ذکر کرتے ہیں:
”فستعلمون من اصحاب الصراط السوی ومن اھتدیٰ“(طہٰ/۱۳۵)”پس تم لوگوں کو عنقریب علم ہو جائے گا کہ سیدھی راہ والے کون ہیں اور کون ہدایت یافتہ ہیں“
”فاصحاب المیمنة“ (واقعہ/۸) ”پس اصحاب یمین “
” و اصحاب المشئمة“ (واقعہ/۹) ”اور اصحاب شقاوت کار“
”و اصحاب الشمال“ (واقعہ /۴) ” اور اصحاب شمال“
اور لفظ ” صحبة “شخص پر بھی اطلاق کرتا ہے:
”وقال اصحاب موسیٰ“( شعراء/۶۱)”اور موسیٰ ﷼کے اصحاب نے کہا“
”فنادوا صحابھم فتعاطیٰ فعقر“ (قمر/۲۹) ”ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی کو بلایا تو اس نے پکڑ کر (اونٹنی کی ) کوچیں کاٹ ڈالیں“-
اس طرح لفظ ” صحبة “اور اس کے مشتقات کے لئے نہ کوئی ذاتاً فضل ہے اور نہ ہی امتیاز ،ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے ، قرآن مجید سے اتنی کثرت سے آیات پیش کرنے کے بعد اب ہم صحابی کی تعریف کے لئے لغت کی جانب رجوع کرتے ہیں خلیل ابن احمد الفراہید ی نے مادہ (صحب ) کے بارے میں کہا ہے (الصحاب)کی جمع صحب اور صحبان و صحبة والصحابسے بنتی ہے اور اصحاب جمع صحب ہے صحابة مصدر ہے (صاحبک اللّٰہ و احسن صحابتک اور وداع کے وقت کہا جاتا ہے مصاحباً معافی ․․․․الیٰ ان یقول و کل شیٴ ،لا شیئا فقد استصحبہ)یعنی جب ایک چیز دوسرے چیز کے ساتھ ہوتو اس وقت استصحبہ کہتے ہیں یعنی وہ اس کے ہمراہ ہے ۱ # طول کے خوف سے میں نے لغت کی دیگر کتابوں سے نقل کرنے سے پرہیز کیاہے۔
----------------------------------------------------
۱)۔ کتاب العین للخلیل،ج/۲،ص/۹۷۰حرف صاد
ّّّّ