سورہ انفال کی یہ آیات بھی ملاحظہ ہو:
”ماکان لنبی ان یکون لہ اسریٰ حتٰی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللّٰہ یرید الآخرة واللّٰہ عزیز حکیم لو لا کتاب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم “ (انفال /۶۷۔۶۸)
”نبی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو قیدی بنائے جب کہ وہ زمین پر جہاد کر رہے ہوں،تم لوگ تو صرف مال دنیا چاہتے ہو جب کہ اللہ آخرت چاہتا ہے اور وہی صاحب عزت و حکمت ہے ۔ اگر خدا کی طرف سے پہلے فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو فدیہ لے لیا تھا اس پر عذاب عظیم نازل ہو جاتا “
ان آیات میں سختی کے ساتھ صحابہ کو خطاب کیا جارہا ہے جن لوگوں نے بدر میںجنگ کی تھی اور بعض کفار کو قید ی بنالیا تھا جیسا کہ مضمون آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ ہی تو پیغمبر کی شان ہے اور نہ ہی انبیاء ما سلف کی کہ وہ کفار کو قیدی بنائیں اور پھر فدیہ لے کر آزاد کریں لیکن جب مسلمان نے فدیہ لے کر بدر کے اسیروں کو آزاد کیا تو خدا نے اس امر کو نظر انداز کر دیا اور ان کو معاف کر دیا ۔ حیرت کا مقام ہے کہ بہت سے مفسرین جمہور نے اس تہدید میں ذات مرسل اعظم ﷺکو بھی شامل کر دیا جب کہ آیت کا مضمون واضح و روشن ہے کہ اس میں صرف خطاب صحابہ سے کیا جا رہا ہے ۔ ذات پیغمبر اکرم ﷺتو وہ ہے جو بغیراذن الٰہی کے نہ تو کوئی فعل انجام دیتی ہے نہ ہی کوئی قول ،پھر اس دائر ہ تہدید میں آپ کی ذات کو کیسے شامل کیا گیا؟تو جناب یہ کام بنی امیہ نے انجام دیا جن کو پیغمبر اکرم ﷺاور ان کے اہلبیت سے دشمنی تھی انھیں افراد کے لئے یہ آیت صادق آتی ہے۔
” یحرفون الکلم من بعد مواضعہ“(مائدہ/۴۱) ”یہ کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں“
سورہ انعام کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں :
” ومن اظلم ممن افتری علی اللّٰہ کذبا او قال اوحی الی و لم یوح الیہ شئی و من قال سانزل مثل ما انزل اللّٰہ “ (انعام ۹۳)
”اور اس سے بڑ ا ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹا الزام لگائے یا اس کے نازل کئے بغیر یہ کہہ دے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے اور جو یہ کہے کہ میں بھی خدا کی طرح وحی نازل کر سکتا ہوں“
مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت عثمان ابن عفان کے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی ،یہ وہی حضرت ہیں جن کا خون پیغمبر نے مباح قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ جہاں کہیں بھی یہ ملے وہیں اسے قتل کر دیا جائے اس لئے کہ اسی شخص نے کہا تھا کہ جو کچھ خدانازل کرتا ہے میں بھی ویسا ہی کلام پیش کر سکتا ہوں !تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ عثمان کے دور خلافت میں اس افترا پرداز شخص کو لشکر کا سردار اور وزارت تک کا عہدہ سپرد کر دیا گیایہ تو خلیفہ وقت کا معمولی سا فیض تا جو دشمن رسول کے ساتھ انجام دیا ۔
مضمون کے طول کے خوف سے میں ان ہی آیات پراکتفا کرتا ہوں ورنہ ان تمام آیات کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتا جو صحابہ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ان میں سے بعض آیات میں صحابہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے یا بعض میں سرزنش کی گئی ہے اور کبھی تہدید و خوف دلایا گیا ہے اس طرح آپ غور کریں کہ صحابہ کا جو مقام تھا قرآن نے اسی جگہ پر ان کو رکھا۔ لیکن حیف ہے علمائے جمہور پر جن کا دعوی ہے کہ خدا اور قرآن نے تمام ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱)۔صحیح ترمذی ج/۵ص/۷۰۷،ح/۳۸۹ ۲)۔تفسیر فخر الدین رازی سورہ نور کے ذیل میں اور تفسیر در المنثور ،ج/۶ص/۱۴۸۔اور تفسیر طبری ج/۸ص/۶۸
صحابہ کو عادل قرار دیا ہے (جیسا کہ ہم گزشتہ بحث میں اشارہ کر چکے ہیں) اگر کوئی صحابہ کے خلاف لب کشائی کرتا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا اور زندیق ہے لیکن قرآن ان کے بے بنیاد دعواوٴں کی تکذیب کر رہا ہے اور ایسی باتوں کو بیان کررہا ہے جسے وہ حضرات بیان نہیں کرتے خدا کے کلام کے بعد کسی کا بھی کلام ہو اگر حق نہیں ہے تو اس کی کوئی حقیقت نہیں اگر چہ خدا وہ چیز یں بیان کر رہا ہے جو بہت سوں کو ناپسند ہیں۔
اب ہم اس فرزند آدم کا ذکر چھیڑ تے ہیں افضل المرسلین سردار انبیاء اور اولی العزم پیغمبر ہے بلا شبہ آنحضر ت ﷺکو یہ عظیم منزلت آسانی سے نہیں ملی ہے بلکہ خدائے ذوالجلال نے آپ ﷺکے اعمال کی بدولت یہ مقام ومنصب عطاکیا۔قرآن بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے:
”ولقد اوحی الیک والی الّذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین “(سورہ زمر/۶۵)
”اور یقینا تمھاری طرف اور تم سے پہلے والوں کی طرف وحی نازل کی گئی ہے ۔اگر تم شرک اختیار کروگے تو تمھارے اعمال بربادکردئے جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوجائے گا“
خاکم بدہن رسول !اور اس شرک کاتصور !ہاں جناب یہ خدا کامعیار وملاک ہے جس میں نہ تو کسی کے لئے کوئی تکلف ہے اور نہ کوئی رعایت ،جوکوئی بھی حدود الٰہی سے تجاوز کرے گا وہ اپنے انجام کے لئے آمادہ رہے۔ایک دوسری آیت پر غور کریں:
”ولو تقول علینا بعض الاٴقاویل۔لاٴخذنا منہ بالیمین ۔ثم لقطعنا منہ بالوتین“(سورہ حاقہ/۴۴،۴۶)
”اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑلیتے اور پھر اس کی گردن اڑادیتے “
توجناب جب نبوت پر عذاب الٰہی نازل ہوسکتا ہے اگر وہ حدود الٰہی سے خارج ہوجائے تو پھر صحابہ کی کیا حیثیت ہے؟بیشک صحابہ اسلام میں سب سے پہلے مکلف اور سب سے پہلے مسوٴول ہیں،تو ان کا فریضہ یہ ہے کہ یہ شریعت کے ماتحت چلیں نہ کہ شریعت ان کی ماتحت چلے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی پروانہ ٴجنت ہے،اے کاش اس مسئلہ کا اتنا آسان نہ بنایا گیا ہوتا! صحابیت اگر چہ ایک شرف ہے لیکن صحابہ کی مسوٴلیت بہت سنگین ہے کل جب رسول اکرم ﷺان کے درمیان تھے تو وہ ہر طرح کا فیض نبوت سے حاصل کر سکتے تھے لیکن کل قیامت کے روز ایسے اشخاص کے پاس کیا دلیل ہوگی کہ جنھوں نے حدود الٰہی کواپنی ہوا وہوس کی خاطر پامال کردیا،جب کہ واضح وروشن آیات الٰہی اور نور نبوت کامشاہدہ کیا تھا،ایسے افراد پر تو حجت تمام ہوچکی ہوگی ،صد حیف ہے ایسے افراد پر جوکہ اسباب فراہم ہونے کے باوجود نجات کی راہ دریافت نہ کرسکے۔