اھل مغرب کی روش اور اس کا انجام
اھل مغرب نے بجائے اصلاح کے ترک کی روش کو اختیار کیا یعنی انھیں منحرف شدہ عیسائی مذھب ،ساکت، جامد ،بے ھدف اور بے روح نظر آیاتو بجائے اسکے کہ وہ دین کو زندہ ،متحرک اور باھدف بناتے انھوں نے اسے ھی ترک کر دیا۔ انھیں مسیحی عبادتےں کھوکھلی اور بے جان نظر آئیں تو بجائے اسکے کہ وہ عبادتوں کوغنی کرتے انھیں سرے سے ترک کر دیا ،انھیں کلیسا کی روحانیت میں خرافات نظر آئے توبجائے اسکے کہ خرافات کو ھٹا کر اسکی جگہ عمیق معنویت کو جاگزیں کرتے انھو ں نے سرے سے کلیسا اور روحانیت کو ترک کر دیا جسکے نتیجے میں اب وہ ایک متمدّن حیوان بن کر مادّیت کے پیچھے تیزی سے بھاگ رھے ھیں ۔انھوں نے شکم پرستی ،جسم پرستی اور شھوت رانی کا مقابلھ(Competition)شروع کر رکھا ھے اور بشریت کو ایک ایسے موڑ پر پھونچا دیا ھے کہ اس کی ھلاکت کے آثار بھت صاف نظر آنے لگے ھیں اگرچہ علوم وفنون میں آج کے انسان کی ترقی بھی بھت صاف نظر آتی ھے لیکن دین و معنویت سے خالی اس ترقی کے تحفے بھت جانسوز اور دردناک ھیں ۔پھلی اور دوسری جنگ عظیم سے لیکر فلسطین ،افغانستان،اور عراق میں ھونے والی بربریت اور درندگی کے تمام مناظراسی ترقی کے ارمغان ھیں ۔
اھل مغرب نے جس راہ حل کا انتخاب کیا آج دنیائے انسانیت کو اسکی بھت بڑی قیمت ادا کرنی پڑرھی ھے اور ابھی مزید تلخ سے تلخ ترحالات سے دو چار ھونا پڑے گا،جسکی وجہ یہ ھے کہ انھوں نے قرون وسطیٰ (middle ages)کی بے جان مسیحیت سے تنگ آ کرجو طریقہ اپنایا وہ سرے سے راہ حل ھی نھیں تھا بلکہ وہ ایک مشکل سے فرار تھا جس نے اور بڑی مشکل میں گرفتار کر دیا۔
دین اور معنویت کے بغیر انسان اندر سے بالکل کھوکھلا ھو گیا ھے اگرچہ اسکا ظاھر بھت حسین ھے اور اب اس مشکل کا حل یہ ھے کہ انسان پھر دین کی طرف پلٹے لیکن ایک ایسے دین کی طرف جو زندہ ھو ،جسکے پاس انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے لائحہ عمل موجود ھو۔ آج انسان کی بھلائی اسمیں ھے کہ وہ پھر خدا کی طرف پلٹے لیکن ایسے خدا کی طرف جس نے اپنے تمام امور راھبوں اور راھب صفت ملّاؤں کے سپرد نھیں کر دیئے ھیں بلکہ تدبیر عالم اسکے ھاتھوں میں ھے،آج انسانیت کا سکون و اطمینان اسمیں ھے کہ وہ پھر سے عبادت خدا اور ذکر خداکی طرف پلٹے”اَلا بِذِکْرِاللّٰہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ“ (۴)لیکن ایسی عبادت اور ایسا ذکر جس میں اسرار ،فلسفہ اور حکمت موجود ھو اور انسان اس کے اسرار و فلسفہ سے واقف بھی ھو ورنہ نادانی کی دینداری ، اور اسرار و فلسفہ سے خالی اعمال وعباتیں بعض اوقات بے دینی اور بے عملی سے زیادہ مضر ثابت ھوتی ھیں ۔