اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

ضعف یا قوت؟

ضعف یا قوت؟

 

یہ درست ھے کہ حالت روزہ میں  انسان کو بعض اوقات نقاھت کا احساس ھوتا ھے جو پیا س اور گرسنگی کا ایک طبیعی تقاضا ھے ،اسی نقاھت کو بعض افراد ضعف سے تعبیر کرتے ھیں جبکہ ضعف اورنقاھت میں  فرق ھے ۔نقاھت ایک وقتی احساس ھے جو بھت جلدی ختم ھو جاتا ھے بلکہ انسان اگر اسرار و فلسفھٴ روزہ سے واقف ھو توشدیدترین گرمیوں  کے روزے میں  بھی اسے بجائے سستی اور نقاھت کے لذّت ،نشاط اور طمانینت کا احساس ھوتا ھے جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول حدیث میں  بیان ھواھے کہ آپ گرمیوں  کے روزوں  کوبے حد عزیز رکھتے تھے۔

 یہ بھی درست ھے کہ روزہ بعض افراد کے لئے جسمانی ضعف کا بھی باعث بنتا ھے لیکن جسمانی ضعف اس بات کی دلیل نھیں  ھے کہ اس سے ا نسان بھی ضعیف ھو جائے---- بلکہ ممکن ھے کہ اس جسما نی ضعف کے باوجود انسان خود کو عزم و ارادے اور استقامت کے لحاظ سے اتنا قوی کر لے کہ جسمانی ضعف اسکے عزم و ارادے کی راہ میں  رکاوٹ ایجاد نہ کر سکے کیونکہ یہ بات علمی اور تاریخی شواھدکے اعتبار سے مسلّم ھے کہ مضبوط عزم و ارادے کے سامنے جسمانی تھکاوٹ یا ضعف مانع ایجاد نھیں  کر سکتا ۔اس کے بر خلاف جسم کتنا ھی قوی کیوں  نہ ھو لیکن عزم و ارادے کی سستی اسکے حوصلوں  کو سرد کر دیتی ھے اور انسان عمل کے میدان میں  پیچھے رہ جاتا ھے ۔ پس روزہ ممکن ھے بعض افراد کے لئے وقتی ضعف کا سبب بنے لیکن دوسری طرف یھی روزہ انسان کے اندر صبر ،تحمّل،استقامت ،قوت برداشت اور قوت عزم و ارادہ پیدا کرتا ھے ۔ان معنوی قوتوں  کے حاصل ھونے کے بعد جسمانی ضعف کسی طرح کی رکاوٹ ایجاد نھیں  کر سکتا اور انسان کی بلند رو ح جسمانی ضعف پر غالب آجاتی ھے ۔یہ اس صورت میں  ھے کہ جب یہ فرض کیا جائے کہ روزہ رکھنے سے جسمانی ضعف پیدا ھوتا ھے ورنہ حقیقت یہ ھے کہ روزہ انسان کو جسمانی اعتبار سے سالم اورمتعدد قسم کے امراض سے محفوظ کر دیتا ھے۔       

یھیں  سے ھمیں  تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب بھی مل جاتا ھے اور وہ یہ کہ آب و غذا اگر چہ جسم کا تقاضا ھے اور عام حالات میں  انسان کے لئے بھوک اور پیاس ناگوار اور سخت ھوتی ھے ،لیکن مذکورہ اھداف وفوائد اور بعد میں  بیان ھونے والے عظیم اسرار کی خاطر انسان کے لئے یہ ناگوار چیز نھایت عزیز، لذّت بخش اور پسندیدہ ھوتی ھے یھاں  تک کہ وہ عاشق اور محب روزہ ھو جاتا ھے جس طرح امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور نماز کے لئے فرمایاتھا کہ خداجانتا ھے ” اِنِّی اُحِبُّ الصَّلَوٰةَ “ (۱۶) میں  عاشق نماز ھوں یا امام سجاد علیہ السلام ماہ رمضان کے آخر میں  شدید ترین گریہ کے عالم میں  اس مبارک مھینہ کو الوداع کرتے ھیں  :

” اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَکْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْاَوْقَاتِ(۱۷) اے کریم ترین ساتھی تجھ پر سلام ۔

روزہ کے ان اھداف کو دیکھتے ھوئے انسان بھت خوشی کے ساتھ اپنے ھاتھوں  سے حاصل کی ھوئی حلال چیزوں  کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ھے جس طرح ایک طبیب کے مشورے پر انسان بھت سی حلال چیزوں  کو اپنے اوپر حرام کر لیتا ھے حتّیٰ ضرورت پڑنے پر قطع اعضا اور آپریشن کے لئے بھی تیار ھوجاتا ھے بلکہ اس عمل کے لئے ڈاکٹر کو بڑی سے بڑی مقدار میں  اجرت دیکر بعد میں  شکر گزار بھی ھوتا ھے ۔

حلال چیزوں  کے حرام ھونے کا ایک اور بڑا مقصد وھی ھے جو پھلے بیان ھوا یعنی زندگی کی یکسانیت سے نجات تاکہ انسان ان روزمرّہ عادتوں  کے زندان سے نکل کر بلند امور و معارف کی طرف متوجہ ھو سکے ۔

 

 

آزادی یا پابندی؟

 

انسان کے ذھن میں  اٹھنے والے سوالوں  میں  سے ایک اھم سوال یہ تھا کہ روزہ کے وقت انسان شدید پابندی کی حالت میں  ھوتا ھے اور یہ درست بھی ھے لیکن یہ بھی درست ھے کہ انسان کو بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر پابندیاں  عائد کرنی پڑتی ھیں  ۔ پابندیاں  اگر چہ سخت ھوتی ھیں  لیکن بغیر پابندی کے کوئی ھدف اور کمال قابل حصول نھیں  ھے ۔

ایک طالب علم ، دانشمند اور فنکار کو اپنے بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر سخت پابندیاں  عائد کرنی پڑتی ھیں  جنمیں  سر فھرست وقت کی پابندی ھے ۔اس کے علاوہ بھت سی حلال چیزیں  اپنے اوپر حرام کرنی پڑتی ھیں  ورنہ کامیابی حاصل نھیں  ھوتی ۔

خاندان ، قبیلہ ،شھر ، ملک اور دنیا کو ھرج و مرج سے بچانے کے لئے انسان کو اپنے اوپر خاندانی ، قبائلی ، شھری ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی پابندیاں  عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ اسی طرح دین و شریعت اورانکے احکام بھی ایک پابندی ھیں  جنکے دو ھدف ھیں  :

۱۔ انسان کو فردی و نفسیاتی مشکلات اور اجتماعی ھرج ومرج سے محفوظ رکھنا ۔

۲۔ انسان کے اندر مادی و معنوی ،جسمانی و روحانی اور فردی و اجتماعی تکامل پیدا کرنا ۔

روزہ بھی دیگر احکام دین کی طرح ایک پابندی ضرور ھے لیکن ایک ایسی پابندی جو ایک طرف انسان کے اندر تکامل پیدا کرتی ھے اور دوسری طرف اسکو بھت سے نقائص ،رذائل اور شھوات کے زندان سے آزاد کر دیتی ھے ۔

انسان کےلئے سب سے محکم زندان خود اسکے نفسانی ھویٰ و ھوس اور خواھشات ھیں  اور حقیقت میں  آزاد انسان وہ ھے جس نے اپنے آپ کو اس زندان سے آزاد کر لیا ھو۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں :

” مَنْ تَرَکَ الشَّھوَاتِ کَانَ حُرّاً“(۱۸)

جو اپنی خواھشات کو ترک کرنے میں  کامیاب ھو جائے وہ ایک آزاد انسان ھے

اورروزہ اپنے اسرار کے ساتھ رکھا جائے تو اسکا سب سے بڑا اثر یہ ھے کہ وہ انسان کو نفسانی خواھشات سے آزاد کر کے بلند اھداف کی طرف متوجہ کر دیتا ھے ۔

 

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عورت کے متعلق غلط فہمیاں
ضعف یا قوت؟
نیک اخلاق کا صحیح مفہوم
حقيقي اور خيالي حق
لڑکیوں کی تربیت
احتضار
نماز میت
عیب تلاش کرنے والا گروہ
اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
حدیث ثقلین کی سند

 
user comment