اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

سستی و جمود یا نشاط وارتقاء؟

سستی و جمود یا نشاط وارتقاء؟

 

مسلمان معاشروں  میں  مسیحی،یھودی اور ھندو تھذیب و افکار کا یہ اثر ھوا کہ دیگر اسلامی معارف کی طرح تقویٰ کوبھی بالکل بے روح اور بے کیف کر دیا گیا ھے۔ تقویٰ کوغاروں  ،تھہ خانوں  اور گوشئہ عافیت کی بے روح عبادتوں  سے مخصوص کر دیا گیا ھے ۔ساری دنیا سے بے خبر ، معاشرے سے دور،انسانوں  سے روگرداں اور دوست و دشمن سے لا پرواہ ایک سادہ لوح انسان کو متّقی کا نام دے دیا گیاھے جبکہ یہ تقویٰ اس تقویٰ کی بالکل ضد ھے جو رسول اللہ(ص)، امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر ائمّہ و انبیاء علیھم السّلام کے پاس تھا۔ اگرتقویٰ کا بھترین نمونہ رسول اللہ(ص) اور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی ھے تو یہ دونوں  شخصیتیں  ھمیشہ میدان عمل میں  نظر آئیں ،دشمنوں  سے مبارزہ کرتے ھوئے نظر آئے ،مسلمانوں  کے حالات و مسائل کو حل کرتے ھوئے نظر آئے ،کبھی بازار میں ،کبھی مسجد میں ،کبھی گھر میں اور کبھی اصحاب کے درمیان۔اسلام میں  تقویٰ سستی اور جمود کا نام نھیں  ھے بلکہ تقویٰ یعنی ایک مسلسل حرکت اور ارتقاء ۔قرآن نے سورئہ حمد کے بعد سورئہ بقرہ کی ابتدا ھی متّقین کے صفات بیان کرنے سے کی ھے اورمتقین کے تمام صفات کو صیغئہ مضارع میں بیان کیا ھے (۲۹)یعنی عمل مسلسل اور ایمان مترقّی۔

تقویٰ وقایةسے ھے اور وقایة یعنی سپر ۔چونکہ انسان کو ایمان اور عمل کے ذریعے مسلسل تکامل کرنا ھے اور اس تکاملی سفر کا جو راستہ ھے اس پر شیطان قسم کھا کر بیٹھا ھے کہ انسان کو گمراہ کرے گا لھٰذا اسے شیطانی حملوں  سے بچنے کے لئے الٰھی سپر کی ضرورت ھے اوروہ سپر تقویٰ ھے ۔ تقویٰ یعنی انسان کے اندر موجود ایک ایسی دفاعی قوت جو شیطان کے ھر حملے کو پسپا کر کے انسان کو اپنے مقصود تک پھونچا دے۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا :”فَاِنَّ التَّقْوَیٰ الْیَومَ حِرْزٌ وجُنَّةٌ وَ فٖی غِداًالطَّرِیْقُ اِلَی الْجَنَّةِ“ (۳۰)تقویٰ آج پناہ و سپر ھے اور کل جنّت کا راستہ ھے۔

تقویٰ کا ایک منفی معنی ھے اور ایک مثبت ۔منفی معنی وھی ھے جورھبانیت سے متاثّر بعض صوفی سلسلوں  کے ذریعے ھمارے معاشروں  میں  رائج ھواھے،یعنی چونکہ اپنی زندگی کو پاک اورسالم رکھنے کے لیے خود کو شیطان کی دسترس سے محفوظ رکھنا ھے لھٰذا اپنے آپ کو ایسے مقام پر قرار دیاجائے جو شیطانی دسترس سے باھر ھو۔ لھٰذا وہ اپنی فردی،خاندانی اور سماجی ذمّہ داریوں  سے فرار کر کے کسی گوشئہ تنھائی میں  پناہ لیتے ھیں  اور گمان یہ کرتے ھیں  کہ یہ جگہ شیطان کی دسترس سے محفوظ ھے جبکہ اس طرح  شکست خوردہ اور زندگی سے فرار کرنے والا انسان زیادہ شیطان کی دسترس میں  ھوتاھے۔

اسلام اور قرآن کی نظر میں مثبت تقویٰ وہ ھے جو انسان کو دشمن کے سامنے سے فرار کی دعوت نہ دے بلکہ اسے دشمن پرغلبہ پانے کے لئے آمادہ کرے۔ انسان کے اندر ایسی معنوی قوت اور بصیرت پیداکردے جو اسے سماج میں  لوگوں  کے درمیان رھتے ھوئے بھی محفوظ رکھے اور نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھے بلکہ دوسروں  کی نجات کے لئے بھی کوشاں  رھے ۔خدا کی دی ھوئی نعمتوں  سے فرار کرنے کے بجائے انھیں  اپنے اور معاشرے کے تکامل کا وسیلہ قرار دے۔

صاحب تقویٰ انسان خدا کی دی ھوئی نعمتوں  کو استعمال کرتا ھے لیکن ان کا اسیر نھیں  ھوتالھٰذا ضرورت پڑنے پر اپنی جان سے لے کر اپنی عزیز ترین چیزوں  تک کو قربان کرنے کے لئے تیّار ھو جاتا ھے،بر خلاف اس شخص کے جودنیا کی نعمتوں  کو ترک کرنے کے بعد بھی ان کا اسیر ھوتاھے اور ضرورت پڑنے پراک معمولی سی بھی قربانی دینے کی جراٴت نھیں  کر پاتا۔جواپنے گوشئہ تنھائی میں  خدا کی یاد کے بجائے ھمیشہ ان چیزوں کی یاد میں  رھتا ھے جو اسے نصیب نھیں  ھوئیں  یا جنھیں  وہ ترک کر کے آیا ھے۔یھاں  پر شیطان اسکی شکست خوردہ ذھنیت اور تنھائی سے فائدہ اٹھا کران کی اشیاء کی یادو محبّت کو اور شدید کر دیتا ھے اور اس طرح اسے اپنے دام میں  گرفتار کر لیتا ھے۔

 

 

 مشکلات پر غلبہ

 

جیسا کہ بیان کیا گیا کہ تقویٰ انسان کے اندر پیدا ھونے والی ایک معنوی قوّت کا نام ھے جو نہ صرف یہ کہ انسان کو نقائص اور گناہ سے محفوظ رکھتی ھے بلکہ اسی قوّت کی مدد سے انسان اپنی روزمرّہ مشکلات پر بھی غلبہ پا سکتا ھے ۔

انسان جس عالم میں  زندگی گزار رھا ھے وہ عالم طبیعت ومادّہ ھے اور عالم مادّہ عالم تزاحم واختلاف ھے۔ اس عالم میں  ایک طرف خود طبیعت کے تقاضے مختلف ھیں  اور دوسری طرف انسان کے میلانات، رجحانات اور تقاضے مختلف ومتضاد ھیں  اور ھر ایک اپنے تقاضوں  کی تکمیل چاھتا ھے۔ لھٰذاانسان کو طرح طرح کی مشکلات سے دو چار ھونا پڑتا ھے ۔ان مشکلات کی سنگینی اور اپنی ناتوانی کو دیکھتے ھوئے انسان کو ایک ایسی قوت سے وابستہ ھونے کی ضرورت ھے جس کی مدد سے وہ ھر مشکل پر غلبہ پا سکے ۔ اس کے لئے انسان اگرچہ طرح طرح کی قوتوں  کو آزماتا ھے لیکن نتیجے میں  اسے عجز و ناتوانی کے سوا کھیں  کچھ نظر نھیں  آتا کیونکہ منبع قوت، ذات خدا ھے اورپھر جب وہ خدا کی طرف رخ کرتا ھے اور اس سے مدد طلب کرتا ھے -”ایّاک نستعین“ پروردگار ھم صرف تجھ سے مدد چاھتے ھیں تو خدائے کریم اسکی معجزاتی نصرت کرنے کے بجائے نصرت کے ایک قانون اور نظام (System) کی طرف راھنمائی کر دیتا ھے تاکہ اس کے ذریعے وہ زندگی کی ھر مشکل پر غلبہ پاتا رھے ۔لھٰذاارشاد فرمایا ”وَاسْتَعِیْنُوا بِالصّبْرِ وَالصَّلَواةِ(۳۱) ”صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو “۔نماز سے اس لئے کیونکہ بڑی قوّتوں  سے ارتباط انسان کی چھوٹی مشکلات کو حل کر دیتا ھے اور خدا سے بڑی کوئی قوّت نھیں  ھے جس سے ارتباط کا بھترین طریقہ نماز ھے،اورصبر سے اس لئے مدد حاصل کرو کیونکہ صبر انسان کے اندر قوّت ،استقامت ،پائیداری اور استحکام پیدا کرتا ھے ،بلکہ صبر کے معنی ھی استقامت اور پائیداری کے ھیں  ۔یہ استقامت کبھی ظلم کے مقابلے میں  ھے ۔ کبھی امتحانات و مشکلات کے مقابلے میں  اور کبھی علم و فضل وکمالات کو حاصل کرنے کے لئے صبر واستقامت کی ضرورت پڑتی ھے۔ روزہ کا ایک سرّیہ ھے کہ روزہ انسان کے اندر صبرو استقامت پیدا کرتاھے۔صبر کے مصادیق میں  سے ایک مصداق روزہ ھے اسی لئے اس آیت ”وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ“میں  صبر کی تفسیر روزہ سے کی گئی ھے۔ اس مقام پر فلسفہ روزہ یعنی تقویٰ کے معنی میں  اور وسعت پیدا ھو جاتی ھے ۔اب روزہ کے نتیجے میں  انسان کے اندر ایک ایسی معنوی قوّت پیدا ھو جاتی ھے جس میں  شدید استقامت اور پائیداری بھی پائی جاتی ھے اور اسکے بعد انسان ھر مشکل سے باآسانی عبور کر جاتا ھے۔روزہ انسان کو معنوی اعتبار سے اتنا بلند کر دیتا ھے کہ مادّی مشکلات اس کے تکامل کے سفر میں  رکاوٹ ایجاد نھیں  کر سکتیں ۔

 

 

کرم الٰھی کے دسترخوان پر

 

 روایات میں  ماہ رمضان کو ”شھراللھ“یعنی ماہ خدا سے تعبیر کیا گیا ھے اور شھراللہ میں  داخل ھونے والے کے لئے یہ اھتمام کیا گیا ھے کہ انسان اس سے قبل دو مھینوں  یعنی رجب و شعبان جنھیں  ماہ امیرالمومنین  علیہ السلام وماہ رسول خدا(ص) یا شھر ولایت وشھر رسالت سے تعبیر کیا گیاھے میں  اپنے آپ کو آمادہ کرے تاکہ شھراللہ میں  وہ ضیافت پروردگار میں  جانے کے لائق ھو جائے ۔

رسول اکرم(ص) نے فرمایاھے:”اَیُّھاالنَّاسُ اِنَّہ قَداَقْبَلَ اِلَیْکُمْ شَھرُاللّٰھ․․․وَقَدْ دُعِیتُمْ فِیہ اِلَی ضِیَافَةِاللّٰہ“(۳۲)خداکامھینہ آگیا ھے اور اس مھینہ میں  تمھیں  خدا کی ضیافت کے لئے بلایا گیا ھے ۔الٰھی دسترخوان پر انسان کو جو کچھ بھی ملے گا وہ خدا کے کرم کے سائے میں  ھوگا ۔خدا کی ھر عطا کریمانہ ھے اور اس حد تک کریمانہ ھے کہ اسکی لاتعداد نعمتیں  انسان استعمال کرتا ھے اور یہ محسوس بھی نھیں  کرپاتا ھے کہ یہ نعمتیں  کھاں  سے آرھی ھیں  حتّی کہ نادانی میں  ا نھیں کسی دوسرے کی طرف منسوب کر دیتا ھے اوراسی کا شکر ادا کرتا ھے ۔وہ اپنے کریم سے اتنا غافل ھے کہ واسطوں  کا شکریہ ادا کرتا ھے لیکن منبع نعمت سے بے خبر ھے ،جیسے بارش ھونے پر کوئی بادلوں  کا شکریہ ادا کرے لیکن سمندر سے بے خبر ھو ۔کرم الٰھی کا عالم یہ ھے کہ اسکی کتنی مادی اور معنوی نعمتیں  انسان کی خدمت میں  لگی ھوئی ھیں  اور انسان پوری زندگی ان نعمتوں  میں  گزار کر بھی یہ نھیں  سمجھ پاتا کہ ھم ا ن سے بھی استفادہ کررھے تھے،یہ کرم کی معراج ھے ۔

ماہ رمضان میں  انسان مھمان خدا ھوتا ھے اور میزبان مھمان کے سامنے وھی پیش کرتا ھے جو اسکے پا س موجود ھوتاھے۔ خدا کے خزانے میں  ناقص ، آلودہ اور پست چیزیں  نھیں  ھیں  ،اسکے خزانے میں  جس چیز کی فراوانی ھے وہ کمالات ھیں  اور وہ ایسا میزبان بھی نھیں  ھے جسکی عطا میں  کسی طرح کے بخل کا شائبہ ھو لھٰذا اس مبارک مھینے میں ا نسان کو اختیار ھے کہ جتنے کمالات چاھتا ھے کرم الٰھی کے دسترخوان سے حاصل کرلے۔

 

 

قرآن اور انسان

 

کرم الٰھی کا دسترخوان قرآن ھے ”اَلقُرَآنُ مَآدُبَةُ اللہ“(۳۳)اس کتاب میں  انسانی کمالات کے تمام نسخے موجود ھیں  ۔یہ کتاب اسی مھینے میں  نازل ھوئی یعنی اس دسترخوان کو اسی مھینے میں  بچھایا گیا تاکہ مھمان کی ضیافت کا سامان فراھم ھو جائے اور جس شب میں  قرآن نازل ھوا اسی شب یعنی شب قدر میں  بنی آدم سے متعلق تمام امور کے فیصلے ھوتے ھیں ۔اسی شب میں  انسانی اور غیر انسانی مقدرات طے ھوتے ھیں ۔ ”تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَ الرُّوحُ فِیْھا بِاِذْنِ رَبِّھمْ مِنْ کُلِّ اَمْر“(۳۴) اس شب میں  انسان کو اختیار ھے کہ وہ اپنے ھاتھوں  سے اپنی تقدیر لکھے اور جو کچھ چاھتا ھے الٰھی دستر خوان سے حاصل کرلے --۔

رسول اللہ (ص) کی خدمت میں  ایک بدّو عرب آیا اور اس نے قرآن سننے کی درخواست کی ۔رسول اللہ (ص) نے کسی صحابی سے قرآن سنانے کو کھا۔ اس صحابی نے سورہ”الزّلزلة “سنایا جس میں  یہ آیت موجود ھے ”فَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیراًًًًًًیَّرَہ وَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاًیَرَہ“(۳۵)جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ھے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر بھی برائی کی ھے وہ اسے دیکھے گا۔یہ آیت سن کر وہ واپس پلٹ گیا ،صحابی کو حیرت ھوئی کی وہ صرف اتنا ھی قرآن سننے کے لئے آیا تھا !صحابی کی حیرت کو دیکہ کر رسو ل ا للہ نے فرمایاکہ یہ شخص فقیہ بن کر واپس پلٹا ھے یعنی اس ایک آیت نے اسکی زندگی میں  انقلاب برپا کر دیاھے کیونکہ اب وہ اس یقین کے ساتھ پلٹ رھا ھے کہ اس کا ھر عمل دیکھا اور محفوظ کیاجا رھا ھے۔

اگر ایک آیت ایک جاھل عرب کو فقیہ بنا سکتی ھے تو پورا قرآن انسانی معاشروں  میں  کتنا بڑا تحوّل ایجاد کرسکتا ھے ،لیکن مشکل یہ ھے کہ ابھی ھم نے شاید قرآن کی ایک آیت کو بھی اپنی عملی زندگی میں  داخل نھیں  ھونے دیا ھے۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نیک اخلاق کا صحیح مفہوم
حقيقي اور خيالي حق
لڑکیوں کی تربیت
احتضار
نماز میت
عیب تلاش کرنے والا گروہ
اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
حدیث ثقلین کی سند
رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا
۔خود شناسی

 
user comment