دل جس کے دیار میں مدینے کی خوشبو محسوس کرتا ہے ۔ گویا مکہ میں درمیان صفا و مروہ دیدار یار کے لئے حاضر ہے ، عطر بہشت ہر زائر کے دل و جان کو شاداب و با نشاط کردیتا ہے ۔ جس کے حرم میں ہمیشہ بہار ہے ۔ بہار قرآن و دعا ، بہار ذکر و صلوات ، شب قدر کی یادگار بہاریں ۔ دعا و آرزو کے گلدستے کی بہار جو تشنہ کام روحوں کو سیراب کردیتی ہے ، ہر خستہ حال مسافر زیارت کے بعد تھکن سے بیگانہ ہوجاتا ہے ۔ ہر آنے والا شخص اس حرم میں قدم رکھنے کے بعد خود کو غریب محسوس نہیں کرتا ۔ یہ کون ہے ؟
اسے سب پہچانتے ہیں ۔ وہ سب کے دلوں میں آشنا ہے اگر اس کا حرم و گنبد اور گلدستے آنکھوں کو نور بخشتے ہیں تو اس کی محبت و عشق ، اس کی یادیں اور نام دلوں کو سکون بخشتے ہیں ۔ کیونکہ یہ حرم ، حرم اہل بیت ہے ۔ مدفن یادگار رسول ، نور چشم موسیٰ بن جعفر علیہم السلام ، آئینہ نمائش عفت و پاکی ، حضرت فاطمہ ثانی ہے ۔ وہ کہ جو خود مکتب علوی کی تعلیم یافتہ اور خاندان نبوی کے اسرار میں سے ایک راز ہے جس کی ولادت سے قبل صادق آل محمد علیہم السلام نے اس کے آنے کی نوید دیدی تھی ۔ خاندان زہرا علیہا السلام کی ایک دختر جو انہی کی طرح ولایت و امامت کی حامی تھی اورزینب کبریٰ علیہا سلام کی طرح شایستگان کی قافلہ سالار تھی اگر حضرت زینب علیا مقام کی فریادوں نے بنی امیہ کو رسوا کردیا تو فاطمہ معصومہ (س) کی فریادوں نے بنی عباس کو ، آپ کی مدینے سے مرو اور خراسان کی طرف الٰہی سیاسی حرکت در حقیقت زمانے کے طاغوت کے خلاف ایک سفر تھا ۔ اگر چہ وہ اپنے بھائی اور امام زمان کی زیارت نہ کرسکیں لیکن اپنا پیغام پہنچادیا ۔
آپ نے خاندان پیغمبر صل اللہ علیہ و آلہ کے چند افراد اورمحبان اہلبیت کے ہمراہ مدینے سے سفر کر کے ثابت کردیا کہ ہر زمانے میں مادی و طاغوتی طاقتیں اسلام حقیقی کے تربیت یافتہ جیالوں کے سامنے بولی ہیں ۔ جیسا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کے منھ در منھ فرمایا ” انی استصغرک “ (۱) میں تجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل و رسوا سمجھتی ہوں ۔ اگر چہ زینب دوراں کی حرکت منزل مقصود تک پہنچ سکی اور آخر کار دختر آفتاب اپنے اس پر برکت سفر میں دیدار حق کے لئے روانہ ہوگئی اور اپنی شہادت سے سب کو سوگوار بنادیا ۔ لیکن کچھ ہی زمانے کے بد دنیا اس عظیم سفر کے ثمرات کو مشاہدہ کرنے لگی ، یہ اس وقت سمجھ میں آیا جب اس بے کراں کوثر عترت کے صدقے میں علوم و معارف کے چشمے ابلنے لگے اور قم یہ حریم مقدس فاطمی اسلام کے حیات بخش معارف کے نشر کا مرکز قرار پا گیا اور دنیا کے ستمگروں کے خلاف علم کا محور بن گیا ۔
یہ تمام چیزیں اس کی طلبگار ہیں کہ اس عظیم خاتون کی زندگی پر گفتگو کی جائے خصوصا نوجوان نسل کو آپ سے آشنا کیا جائے ۔ ہم اس پر مفتخر ہیں کہ اس سلسلے میں آپ کی زندگی اور فضائل کا اجمالی خاکہ اس فصل میں جمع آوری کرکے خاندان عصمت کے متوالوں کی خدمت میں پیش کررہےہیں ۔
فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کون ہیں ا
آپ کا اسم مبارک فاطمہ اور القاب معصومہ ، ستی (۲) ، اور فاطمہ کبریٰ ہیں ۔ آپ کے والد ماجد ساتویں امام باب الحوائج حضرت موسیٰ بن جعفر علیہما السلام اور مادر گرامی نجمہ خاتون ہیں کہ جو امام رضا علیہ السلام کی بھی والدہ ماجدہ ہیں ۔ (۳
ولادت تا ہجرت
آپ نے پہلی ذی القعدہ ۱۷۳ ء ھ میں مدینہ منورہ کی سرزمین پر اس جہان میں قدم رنجہ فرمایا اور ۲۸ سال کی مختصر سی زندگی میں دس ۱۰(۴) یا بارہ۱۲ (۵) ربیع الثانی ۲۰۱ ھ میں شہر قم میں اس دار فانی کو وداع کردیا ۔
شہر مقدس کی طرف سفر مقدس
امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے(۶) حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔ (۷) اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں ۔
بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ (ص) اہل قم کے عشق اہلبیت سے لبریز سمندر کے درمیان وارد ہوئیں ۔ موسیٰ بن خزرج کے شخصی مکان میں نزول اجلال فرمایا ۔ (۸)
بی بی مکرمہ نے ۱۷ دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے ۔
غروب ماہتاب
آخر کار وہ تمام جوش و خروش ، ذوق و شوق نیز وہ تمام خوشیاں جو کوکب ولایت کے آنے سے اور دختر فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت سے اہل قم کو میسر ہوئی تھیں یکایک نجمہ عصمت و طہارت کے غروب سے حزن و اندوہ کے سمندر میں ڈوب گئیں اور عاشقان امامت و ولایت عزادار ہوگئے ۔
آپ کی اس نا بہنگام وفات اور مرض ، کے سلسلے میں کہا جا تا ہے کہ ساوہ میں ایک عورت نے آپ کو مسموم کردیا تھا ۔ (۹) دشمنان اہل بیت کا اس قافلے سے نبرد آزما ہونا اور اسی میں بعض حضرات کا جام شہادت نوش فرمانا اور وہ دیگر نامساعد حالات ایسے میں حضرت کا حالت مرض میں وہاں سے سفر کرنا ، ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو قبول کرنا بعید نہیں ہے ۔
ہاں بی بی معصومہ نے حضرت زینب علیا مقام سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے پر برکت سفر میں حقانیت رہبران واقعی کی امامت کی سند گویا پیش کردی اور ماٴموں کے چہرہ سے مکر و فریب کی نقاب نوچ لی قہرمان کربلا کی طرح اپنے بھائی کے قاتل کی حقیقت کو طشت ازبام کردیا ۔ فقط فرق یہ تھا کہ اس دور کے حسین علیہ السلام کو مکر و فریب کے ساتھ قتلگاہ بنی عباس میں لے جایا گیا تھا ۔ اسی درمیان تقدیر الٰہی اس پر قائم ہوئی کہ اس حامی ولایت و امامت کی قبر مطہر ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ظلم و ستم اور بے عدالتی کے خلاف قیام کرنے کا بہترین نمونہ قرار پا جائے اور ہر زمانے میں پیروان علی علیہ السلام کے لئے ایک الہام الٰہی قرار پائے ۔
مراسم دفن
شفیعہ روز جزا کی وفات حسرت آیات کے بعد ان کو غسل دیا گیا ۔ کفن پہنایا گیا پھر قبرستان بابلان کی طرف آپ کی تشییع کی گئی ۔ لیکن دفن کے وقت محرم نہ ہونے کی وجہ سے آل سعد مشکل میں پھنس گئے آخر کار ارادہ کیا کہ ایک ضعیف العمر بزرگ بنام ” قادر “ اس عظیم کام کو انجام دیں ، لیکن قادر حتی دیگر بزرگان اور صلحائے شیعہ اس امر عظیم کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق نہ تھے کیونکہ معصومہ اہل بیت کے جنازے کو ہر کس و ناکس سپرد خاک نہیں کرسکتا ہے لوگ اسی مشکل میں اس ضعیف العمر بزرگ کی آمد کے منتظر تھے کہ ناگہاں لوگوں نے دو سواروں کو دیکھا کہ ریگزاروں کی طرف سے آرہے ہی جب وہ لوگ جنازے کے نزدیک پہنچے تو نیچے اتر گئے پھر نماز جنازہ پڑہی اور اس ریحانہ رسول خدا کے جسد اطہر کو داخل سرداب ( جو پہلے سے آمادہ تھا ) دفن کردیا ۔ اور قبل اس کے کہ کسی سے گفتگو کریں سوار ہوئے اور روانہ ہوگئے اور کسی نے بھی ان لوگوں کو نہ پہچانا ۔ (۱۰)
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی مد ظلہ العالی فرماتے ہیں کہ بعید نہیں ہے کہ یہ دو بزرگوار دو امام معصوم رہے ہوں کہ جو اس امر عظیم کی انجام دہی کے لئے قم تشریف لائے ہوں ۔
حضرت کو دفن کرنے کے بعد موسیٰ بن الخزرج نے حصیر و بوریا کا ایک سائبان قبر مطہر پر ڈال دیا وہ ایک مدت تک باقی رہا ۔ مگر جب حضرت زینب دختر امام محمد تقی علیہ السلام قم تشریف لائیں تو مقبرے پر اینٹوں کا قبہ تعمیر کرایا ۔ (۱۱)
۱۔ خطبہ حضرت در شام
۲۔سیدہ اور سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
۳۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹ ۔
۴۔ وسیلہ المعصومہ بنقل نزھۃ الابرار ۔
۵۔ مستدرک سفینۃ البحار ج/ ۸ ص/ ۲۵۷ ۔
۶ ۔ زندگانی حضرت معصومہ / آقائے منصوری : ص/ ۱۴ ، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی ۔
۷ ۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی : ص/۱۲ ، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری ۔
۸۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳ ۔
۹۔ وسیلۃ المعصومیہ : میرزا ابو طالب بیوک ص/ ۶۸ ، الحیاۃ السیاسۃ للامام الرضا علیہ السلام : جعفر مرتضیٰ عاملی ص/ ۴۲۸ ، قیام سادات علوی : علی اکبر تشید ص / ۱۶۸ ۔
۱۰۔ تاریخ قدیم قم ص / ۲۱۴ ۔
۱۱۔ سفینۃ البحار ج/ ۲، ص / ۳۷۶ ۔
source : http://www.mahdimission.com/tarikh/sahel-e-Kousar/m_02.htm#01