اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

اصحاب القريہ

انطاکیہ کے رسول

''انطاکیہ'' شام کے علاقہ کا ایک قدیم شہر ہے بعض کے قول کے مطابق یہ شہر مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے تعمیر ہوا، یہ شہر قدیم زمانے میں دولت و ثروت اور علم و تجارت کے لحاظ سے مملکت روم کے تین بڑے شہروں میں سے ایک شمار ہوتا تھا_

شہر انطاکیہ، حلب سے ایک سو کلو میٹر سے کچھ کم اور اسکندریہ سے تقریبا ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے _

یہ خلیفہ ثانى کے زمانہ میں ''ابو عبیدہ جراح'' کے ہاتھوں فتح ہوا اور رومیوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اس میں رہنے والے لوگ عیسائی تھے انہوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا اور اپنے مذہب پر باقى رہ گئے _

پہلى عالمى جنگ کے بعد یہ شہر'' فرانسیسیوں'' نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس بات کے پیش نظر کہ ان کے شام سے نکلنے کے بعد اس ملک میں ہونے والے فتنہ و فساد سے عیسائیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے، انہوں نے اسے ترکى کے حوالے کردیا_

انطاکیہ عیسائیوں کى نگاہ میں اسى طرح دوسرا مذہبى شہر شمار ہوتا ہے جس طرح مسلمانوں کى نظر میںمدینہ ہے اور ان کا پہلا شہر بیت المقدس ہے جس سے حضرت عیسى علیہ السلام نے اپنى دعوت کى ابتداء کى اور اس کے بعد حضرت عیسى (ع) پر ایمان لانے والوں میں سے ایک گروہ نے انطاکیہ کى طرف ہجرت کى اور'' پولس'' اور ''برنابا'' شہروں کى طرف گئے، انہوں نے لوگوں کو اس دین کى طرف دعوت دى، یہاں سے دین عیسوى نے وسعت حاصل کی، اسى بناء پرقرآن میں اس شہر کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے_

قرآن اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

''تم ان سے بستى والوں کى مثال بیان کرو کہ جس وقت خدا کے رسول ان کى طرف آئے_''(1)

قرآن اس اجمالى بیان کے بعد ان کے قصے کى تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: '' وہ وقت کہ جب ہم نے دو رسولوں کو ان کى طرف بھیجا لیکن انہوں نے ہمارے رسولوں کى تکذیب کى، لہذا ہم نے ان دو کى تقویت کے لئے تیسرا رسول بھیجا، ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارى طرف خدا کى طرف سے بھیجے ہوئے ہیں''_(2)

اس بارے میں کہ یہ رسول کون تھے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض نے کہا ہے کہ ان دو کے نام'' شمعون ''اور ''یوحنا'' تھے اور تیسرے کا نام ''پولس'' تھا اور بعض نے ان کے دوسرے نام ذکر کئے ہیں_

اس بارے میں بھى مفسرین میں اختلاف ہے کہ وہ خدا کے پیغمبراور رسول تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے اور ان کے نمائند ے تھے (اور اگر خدا یہ فرماتا ہے کہ ہم نے انھیں بھیجا تواس کى وجہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے بھى خدا ہى کے رسول ہیں )_یہ اختلافى مسئلہ ہے اگر چہ قران ظاہر پہلى تفسیر کے موافق ہے اگر چہ اس نتیجہ میں کہ جو قران لینا چاہتا ہے کوئی فرق نہیں پڑتا _

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس گمراہ قوم نے ان رسولوں کى دعوت پر کیا رد عمل ظاہر کیا ؟قران کہتا ہے:

انہوں نے بھى وہى بہانہ کیاکہ جو بہت سے سرکش کافروں نے گزشتہ خدائی پیغمبروں کے جواب میں کیا تھا: ''انہوں نے کہا، تم تو ہم ہى جیسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کى ہے،  تمہارے پاس جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ہے _''(3)

اگر خدا کى طرف سے کوئی بھیجا ہوا ہى انا تھا تو کوئی مقرب فرشتہ ہونا چاہئے تھا، نہ کہ ہم جیسا انسان اور اسى امر کو انہوں نے رسولوں کى تکذیب اور فرمان الہى کے نزول کے انکار کى دلیل خیال کیا _

حالانکہ وہ خود بھى جانتے تھے کہ پورى تاریخ میں سب رسول نسل ادم علیہ السلام ہى سے ہوئے ہیں ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھى تھے کہ جن کى رسالت سب مانتے تھے، یقینا وہ انسان ہى تھے اس سے قطع نظر کیا انسانوں کى ضروریات، مشکلات اور تکلیفیں انسان کے علاوہ کوئی اور سمجھ سکتا ہے_؟(4)

بہر حال یہى پیغمبر اس گمراہ قوم کى شدید اور سخت مخالفت کے باوجود مایوس نہ ہوئے اور انہوں نے کمزورى نہ دکھائی اور ان کے جواب میں ''کہا:ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ یقینا ہم تمہارى طرف اس کے بھیجے ہوئے ہیں _''

''اور ہمارے ذمہ تو واضح اور اشکار طورپر ابلاغ رسالت کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے _''(وما علینا الا البلاغ المبین)

مسلمہ طورپر انہوں نے صرف دعوى ہى نہیں کیا اور قسم پر ہى قناعت نہیں کی،  بلکہ''بلاغ مبین ''ان کا ابلاغ ''بلاغ مبین ''کا مصداق نہ ہونا کیونکہ ''بلاغ مبین''تو اس طرح ہونا چاہئے کہ حقیقت سب تک پہنچ جائے اور بات یقینى اور محکم دلائل اور واضح معجزات کے سوا ممکن نہیں ہے _ بعض روایات میں بھى ایا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کى طرح بعض ناقابل علاج بیماروںکو حکم خدا سے شفا بخشی_

ہم اپ کو سنگسار کر دیں گے

لیکن یہ دل کے اندھے واضح منطق اور معجزات کے سامنے نہ صرف جھکے نہیں بلکہ انہوں نے اپنى خشونت اور سختى میں اضافہ کر دیا اور تکذیب کے مرحلے سے قدم آگے بڑھاتے ہوئے تہدید اور شدت کے مرحلے میں داخل ہوگئے ''انہوں نے کہا:ہم تو تمہیں فال بد سمجھتے ہیں تمہارا وجود منحوس ہے اور تم ہمارے شہر کے بد بختى کا سبب ہو_''(5)

ممکن ہے کہ ان انبیاء الہى کے انے کے ساتھ ہى ا س شہر کے لوگوں کى زندگى میں ان کے گناہوں کے زیر اثر یا خدائی تنبیہ کے طورپر بعض مشکلات پیش آئی ہوں، جیسا کہ بعض مفسرین نے نقل بھى کیا ہے کہ ایک مدت تک بارش کا نزول منقطع رہا، لیکن انہوں نے نہ صرف یہ کہ کوئی عبرت حاصل نہیں کى بلکہ اس امر کو پیغمبروں کى دعوت کے ساتھ وابستہ کردیا_

پھر اس پر بس نہیں کى بلکہ کھلى دھمکیوں کے ساتھ اپنى قبیح نیتوں کو ظاہر کیا اور کہا:''اگر تم ان باتوں سے دستبردار نہ ہوئے تو ہم یقینى طورپر سنگسار کردیں گے اور ہمارى طرف سے تمہیں دردناک سزاملے گی''_(6) یہ وہ مقام تھا کہ خدا کے پیغمبر اپنى منہ بولتى منطق کے ساتھ ان کى فضول ہذیانى باتوں کا جواب دینے کے لئے تیار ہوگئے اور ''انہوں نے کہا : تمہارى بد بختى اور نحوست خود تمہارى ہى طرف سے ہے اور اگر تم ٹھیک طرح سے غور کرو تو اس حقیقت سے واقف ہو جاو گے ''_(7)

اگر بدبختى اور منحوس حوادث تمہارے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہیں اور برکات الہیہ تمہارے درمیان میں سے اٹھ گئی ہیں تو اس کا عامل اپنے اندر اپنے پست افکار اور قبیح اعمال میں تلاش کرو نہ کہ ہمارى دعوت میں، یہ تمہیں ہى ہو کہ جنھوں نے بت پرستى، خود غرضى، ظلم اور شہوت پر ستى سے اپنے زندگى کى فضا کو تاریک بناڈالا ہے اور خدا کى بر کات کو اپنے سے منقطع کر کے رکھ دیا ہے ''_

تمہارى اصلى بیمارى وہى تمہارا حد سے تجاوزہے اگر تم تو حید کا انکار کرتے ہوئے شرک کى طرف رخ کرتے ہو تو اس کى وجہ حق سے تجاوز ہے اور اگر تمہار ا معاشرہ بُرے انجام میں گرفتار ہوا ہے تو اس کا سبب بھى گناہ میں زیادتى اور شہوات میں الودگى ہے خلاصہ یہ کہ اگر خیرخواہوں کى خیر خواہى کے جواب میں تم انھیں موت کى دھمکى دیتے ہو تو یہ بھى تمہارے تجاوز کى بناپر ہے_

ایک جاں بکف مجاہد

قران میں ان رسولوں کى جدوجہد کا ایک اور حصہ بیان کیا گیا ہے اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے تھوڑے سے مومنین نے بڑى شجاعت سے ان انبیاء کى حمایت کى اور وہ کا فر و مشرک اور ہٹ دھرم اکثریت کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور جب تک جان باقى رہى انبیاء الہى کا ساتھ دیتے رہے _

پہلے ارشاد ہوتا ہے :''ایک (باایمان )مرد شہر کے دور دراز مقام سے بڑى تیزى کے ساتھ بھاگتا ہوا کافر گروہ کے پاس ایا اور کہا :اے میرى قوم مرسلین خدا کى پیروى کرو _''(8)

اس شخص کا نام اکثر مفسرین نے ''حبیب نجار ''بیان کیا ہے وہ ایسا شخص تھا کہ جو پروردگار کے پیغمبروں کى پہلى ہى ملاقات میں ان کى دعوت کى حقانیت اور ان کى تعلیمات کى گہرائی کو پا گیا تھا وہ ایک ثابت قدم اور مصمم کا ر مومن ثابت ہوا جس وقت اسے خبر ملى کہ وسط شہرمیں لو گ ان انبیاء الہى کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور شاید انھیں شہید کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس نے خاموش رہنے کو جائز نہ سمجھا چنانچہ ''یسعى''کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑى تیزى اورجلدى کے ساتھ مرکز شہر تک پہنچا اور جو کچھ اس کے بس میں تھا حق کى حمایت اور دفاع میں فرو گزاشت نہ کى _

''رجل'' کى تعبیر نا شناختہ شکل میں شاید اس نکتے کى طرف اشارہ ہے کہ وہ ایک عام ادمى تھا، کوئی قدرت و شوکت نہیں رکھتا تھا اور اپنى راہ میں یک و تنہا تھا لیکن اس کے باوجود ایمان کے نور و حرارت نے اس کا دل اس طرح سے روشن اور مستعد کر رکھاتھا کہ راہ توحید کے مخالفین کى سخت مخالفت کى پرواہ نہ کرتے ہوئے میدان میں کودپڑا _

''اقصى المدینة''کى تعبیر اس بات کى نشاندہى کرتى ہے کہ ان رسولوں کى دعوت شہر کے دور دراز کے مقامات تک پہنچ گئی تھى اور امادہ دلوں میں اثر کر چکى تھى، اس سے قطع نظر کہ شہر کے دور دراز کے علاقے ہمیشہ ایسے مستضعفین کے مرکز ہوتے ہیں کہ جو حق کو قبول کرنے کے لئے زیادہ و تیار ہوتے ہیں، اس کے بر عکس شہروں میں نسبتا ً خوشحال لوگ زندگى بسر کرتے ہیں جن کو حق کى طرف راغب کرنا اسانى کے ساتھ ممکن نہیں ہے _

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ یہ مومن مجاہد اپنے شہر والوں کى توجہ حاصل کرنے کے لئے کس منطق اور دلیل کو اختیار کرتا ہے _ اس نے پہلے یہ دلیل اختیار کى کہ :''ایسے لوگوں کى پیروى کرو جو تم سے اپنى دعوت کے بدلے میں کوئی اجر طلب نہیں کرتے ''_(9)

یہ ان کى صداقت کى پہلى نشانى ہے کہ ان کى دعوت میں کسى قسم کى مادى منفعت نہیں ہے، وہ تم سے نہ کوئی مال چاہتے ہیں اور نہ ہى جاہ ومقام، یہاں تک کہ وہ تو تشکر و سپاس گزارى بھى نہیں چاہتے اور نہ ہى کوئی اور صلہ _ اس کے بعد قران مزید کہتا ہے :(علاوہ ازین )یہ رسول جیسا ان کى دعوت کے مطالب اور ان کى باتوں سے معلوم ہوتا ہے ''کہ وہ ہدایت یافتہ افرا د ہیں ''_(10)

یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسى کى دعوت کو قبول نہ کرنا یا تو اس بناپر ہوتا ہے کہ اس کى دعوت حق نہیں ہے اور وہ بے راہ روى اور گمراہى کى طرف کھینچ رہا ہے یا یہ کہ ہے توحق لیکن اس کو پیش کرنے والے اس کے ذریعے کوئی خاص مفاد حاصل کر رہے ہیں کیونکہ یہ بات خود اس قسم کى دعوت کے بارے میں بد گمانى کا ایک سبب ہے، لیکن جب نہ وہ بات ہو اور نہ یہ، تو پھر تامل و تردد کے کیا معنى ؟

اس کے بعد قران ایک اور دلیل پیش کرتا ہے اور اصل توحید کے بارے میں بات کرتا ہے کیونکہ یہى انبیاء کى دعوت کا اہم ترین نکتہ ہے، کہتا ہے: ''میں اس ہستى کى پرستش کیوں نہ کروں کہ جس نے مجھے پیدا کیاہے _''(11)

وہ ہستى پرستش کے لائق ہے کہ جو خالق و مالک ہے اور نعمات بخشنے والى ہے، نہ کہ یہ بت کہ جن سے کچھ بھى نہیں ہو سکتا، فطرت سلیم کہتى ہے کہ خالق کى عبادت کرنا چاہئے نہ کہ اس بے قدر و قیمت مخلوق کى _

اس کے بعد خبردار کرتا ہے کہ یاد رکھو ''تم سب کے سب اخر کار اکیلے ہى اس کى طرف لوٹ کر جاو گے _''(12)

اپنے تیسرے استدلال میں بتوں کى کیفیت بیان کرتا ہے اور خدا کے لئے عبودیت کے اثبات کو، بتوں کى عبدیت کى نفى کے ذریعے تکمیل کرتے ہوئے کہتا ہے :''کیا میں خدا کے سوا اور معبود اپنالوں، جب کہ خدائے رحمن مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو ان کى شفاعت مجھے معمولى سا فائدہ بھى نہ دے دے گى اور وہ مجھے اس کے عذا ب سے نہ بچا سکیں گے_''(13)

اس کے بعد یہ مجاہد مومن مزید تاکید و توضیح کے لئے کہتا ہے :''اگر میں اس قسم کے بتوں کى پرستش کروں اورا نھیں پروردگار کا شریک قرار دوں تو میں کھلى ہوئی گمراہى میں ہوں گا _''(14)

اس سے بڑھ کر کھلى گمراہى کیا ہوگى کہ عاقل و باشعور انسان ان بے شعور موجودات کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور انھیں زمین و اسمان کے خالق کے برابر جانے_

اس مجاہد مومن نے ان استدلالات اور مو ثر و وسیع تبلیغات کے بعد ایک پراثر تاثیر اواز کے ساتھ سب لوگوں کے درمیان اعلان کیا:میں تمہارے پرور دگار پر ایمان لے ایا ہوں اور ان رسولوں کى دعوت کو قبول کیا ہے _ ''اس بناء پر میرى باتوں کو سنو_''(15)

اور جان لو کہ میں ان رسولوں کى دعوت پر ایمان رکھتا ہوں اور تم میرى بات پر عمل کرو کہ یہى تمہارے فائدہ کى بات ہے _

اس مر د مومن کے مقابلہ میں قوم کا ردّعمل

آیئے اب دیکھتے ہیں کہ اس پاکباز مومن کے جواب میں اس ہٹ دھرم قوم کا رد عمل کیا تھا، قران نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کہى لیکن قران بعد کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے شہید کر دیا _

ہاں اس کى پر جوش اور ولولہ انگیز گفتگو قوى اور طاقتور استدلالات اور ایسے عمدہ و دلنشین نکات کے ساتھ تھى، مگر اس سے نہ صرف یہ کہ ان سیاہ دلوں اور مکرو غرور سے بھرے ہوئے سروں پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا بلکہ کینہ و عداوت کى آگ ان کے دلوں میں ایسے بھڑکى کہ وہ اپنى جگہ سے کھڑے ہوئے اور انتہائی سنگدلى اور بے رحمى سے اس شجاع مرد مومن کى جان کے پیچھے پڑگئے، ایک روایت کے مطابق انہوں نے اسے پتھر مارنے شروع کئے اور اس کے جسم کو اس طرح سے پتھروں کا نشانہ بنایا کہ وہ زمین پر گر پڑ ااور جان جان افرین کے سپرد کردى، اس کے لبوں پر مسلسل یہ بات تھى کہ ''خدا وند امیرى اس قوم کو ہدایت فرماکہ وہ جانتے نہیں ہیں ''_

ایک اور روایت کے مطابق اسے اس طرح پاو ں کے نیچے روندا کہ اس کى روح پرواز کر گئی _

لیکن قران اس حقیقت کو ایک عمدہ اور سر بستہ جملہ کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :''اسے کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا''(16)

یہ وہى تعبیر ہے کہ جوراہ خدا کے شہیدوں کے بارے میں قران کى دوووسرى ایات میں بیان ہوئی ہے : ''یہ گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہ خدا میں قتل کئے گئے ہیںو ہ مردہ ہیں بلکہ وہ توزندہ جاوید ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں _''(17)

جاذب توجہ بات یہ ہے کہ یہ تعبیر اس بات کى نشاندہى کرتى ہے کہ یہ مرد مومن شہادت پاتے ہى جنت میں داخل ہوگیا، ان دونوں کے درمیان اس قدر کم فاصلہ تھا کہ قران مجید نے اپنى لطیف تعبیر میں اس کى شہادت کا ذکر کرنے کے بجائے اس کے بہشت میں داخل ہونے کو بیان کیا، شہیدوں کى منز ل یعنى بہشت و سعادت __کس قدر نزدیک ہے _

بہر حال اس شخص کى پاک روح اسمانوں کى طرف، رحمت الہى کے قرب اور بہشت نعیم کى طرف پرواز کر گئی اور وہاں اسے صرف یہ ارزو تھى کہ :''اے کاش میرى قوم جان لیتى _''اے کاش وہ جان لیتے کہ میرے پروردگار نے مجھے اپنى بخشش اور عفو سے نوازا ہے اور مجھے مکرم لوگوں کى صف میں جگہ دى ہے _''(18)

ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر گرامى اسلام (ص) نے فرمایا : ''اس باایمان شخص نے اپنى زندگى میں بھى اپنى قوم کى خیر خواہى کى اور موت کے بعد بھى اس کى ہدایت کى ارزو رکھتاتھا _''

بہرحال یہ تو اس مومن اور سچے مجاہد کا انجام تھا کہ جس نے اپنى ذمہ دارى کى انجام دہى اور خدا کے پیغمبروں کى حمایت میں کوئی کوتاہى نہیں کى اور اخر کار شربت شہادت نو ش کیا اور جوار رحمت میں جگہ پائی _

تین پیغمبروں (ع) کا انجام کار

اگر چہ قران میں ان تین پیغمبروں کے انجام کار کے متعلق کوئی بات نہیں کى گئی کہ جو ا قوم کى طرف مبعوث ہوئے _لیکن بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس قوم نے، اس مر د مومن کو شہید کرنے کے علاوہ اپنے پیغمبروں کو بھى شہید کر دیا جب کہ بعض نے تصریح کى ہے کہ اس مرد مومن نے لوگوں کو اپنے ساتھ مشغول رکھاتا کہ وہ پیغمبر اس سازش سے بچ جائیں، کہ جو ان کے خلاف کى گئی تھى، اور کسى پر امن جگہ منتقل ہو جائیں _

اس ظالم اور سرکش قوم کا سرانجام

ہم نے دیکھا کہ شہر انطاکیہ کے لوگوں نے خدا کے پیغمبروں کى کیسے مخالفت کى، اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا انجام کیا ہوا_

قران اس بارے میں کہتا ہے :''ہم نے اس کے بعد اس کى قوم پر کوئی لشکر اسمان سے نہیں بھیجا اور اصولاً ہمارا یہ طریقہ ہى نہیں ہے کہ ایسى سرکش اقوام کو نابود کرنے کے لئے ان امور سے کام لیں _''(19)

ہم ان امور کے محتاج نہیں ہیںصر ف ایک اشارہ ہى کافى ہے کہ جس سے ہم ان سب کو خاموش کر دیں اور انھیں دیا رعد م کى طرف بھیج دیں اور ان کى زندگى کو درہم برہم کردیں _

صرف ایک اشارہ ہى کافى ہے کہ ان کے حیات کے عوامل ہى ان کى موت کے عامل میں بدل جائیں اور مختصر سے وقت میں ان کى زندگى کا دفتر لپیٹ کر رکھ دیں _ پھر قران مزید کہتا ہے :''صرف ایک اسمانى چیخ پیدا ہوئی، ایسى چیخ کہ جو ہلادینے والى اور موت کا پیغام تھى اچانک سب پر موت کى خاموشى طارى ہوگئی ''، (20)

کیا یہ چیخ بجلى کى کڑک تھى کہ جو بادل سے اٹھى اور زمین پر جاپڑى اور ہر چیز کو لرزہ بر اندام کر دیا اور تمام عمارتوں کو تباہ کردیا اور وہ سب خوف کى شدت سے موت کى اغوش میں چلے گئے ؟

یا یہ ایسى چیخ تھى کہ جو زمین کے اندر سے ایک شدید زلزلے کى صورت میں اٹھى اور فضا میںدھماکہ ہوا اور اس دھماکے کى لہرنے انھیں موت کى آغوش میں سلادیا _

ایک چیخ وہ جو کچھ بھى تھى لمحہ بھر سے زیادہ نہ تھى، وہ ایک ایسى اواز تھى کہ جس نے سب اوازوں کو خاموش کردیا اور ایسى ہلا دینے والى تھى کہ جس نے تمام حرکتوں کو بے حرکت کر دیا اور خدا کى قدرت ایسى ہى ہے اور ایک گمراہ اور بے ثمر قوم کا انجام یہى ہوتا ہے _

بسو زند چوب درختان بى بر      سزا خودہمین است مربى برى را

''بے ثمر درختوں کى لکڑى جلانے ہى کے کام اتى ہے کیونکہ بے ثمر چیز کى سزا یہى ہے _''

انطاکیہ کے رسولوںکى داستان مجمع البیان کى زبانی

مفسر عالى قدر'' طبرسی'' مجمع البیان میں کہتے ہیں :حضرت عیسى علیہ السلام نے حواریوں میں سے اپنے دو نمائندے انطاکیہ کى طرف بھیجے جس وقت وہ شہر کے پاس پہنچے تو انہوں نے ایک بوڑھے ادمى کو دیکھا کہ جو چند بھیڑیں چرانے کے لئے لایا تھا، یہ ''حبیب''صاحب ''یس ''تھا، انہوں نے اسے سلام کیا،  بوڑھے نے جواب دیا اور پوچھا کہ تم کون ہو؟انہوں نے کہا کہ ہم عیسى علیہ السلام کے نمائندے ہیں، ہم اس لئے آئے ہیں کہ تمہیں بتوں کى عبادت کے بجائے خدا ئے رحمان کى طرف دعوت دیں_

بوڑھے نے کہا کہ تمہارے پاس کوئی معجزہ یا نشانى بھى ہے؟

انہوں نے کہا :ہاں اہم بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور مادر زاد اندھوں اور برص میں مبتلالوگوں کو حکم خدا سے صحت و تندرستى بخشتے ہیں _

بوڑھے نے کہا :میرا ایک بیمار بیٹا ہے کہ جو سالہاسا ل سے بستر پر پڑا ہے _

انہوں نے کہا :ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم تمہارے گھر جاکر اس کا حال معلوم کریں _

بوڑھا ان کے ساتھ چل پڑا، انہوںنے اس کے بیٹے پر ہاتھ پھیرا تو وہ صحیح و سالم اپنى جگہ پر اٹھ کھڑا ہو ا_ یہ خبر پورے شہر میں پھل گئی اور خدا نے اس کے بعد بیماروں میں سے ایک کثیر گروہ کو ان کے ہاتھ شفا بخشی_

ان کا بادشاہ بت پرست تھا جب اس تک خبر پہنچى تو اس نے انہیںبلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا :کہ ہم عیسى علیہ السلام کے فرستادہ ہیں، ہم اس لئے آئے ہیں کہ یہ موجودات جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں ان کى عبادت کے بجائے ہم تمہیں اس کى عبادت کى طرف دعوت دیں جو سنتا بھى ہے اور دیکھتا بھى ہے _

بادشاہ نے کہا:کیا ہمارے خداو ں کے علاوہ کوئی معبود بھى موجود ہے ؟

انہوں نے کہا :ہاں وہى کہ جس نے تجھے اور تیرے معبودوں کو پیدا کیا ہے _

بادشاہ نے کہا: اٹھ جاو کہ میں تمہارے بارے میں کچھ سوچ بچار کروں _

یہ ان کے لئے ایک دھمکى تھى، اس کے بعد لوگوں نے ان دونوں نمائندوں کوبازار میں پکڑ کر مارا پیٹا_

لیکن ایک دوسرى روایت میں ہے کہ عیسى علیہ السلام کے ان دونوں نمائندوں کو بادشاہ تک رسائی حاصل نہ ہوئی اور ایک مدت تک وہ اس شہر میں رہے ایک دن بادشاہ اپنے محل سے باہر ایا ہوا تھا تو انہوں نے تکبیر کى اواز بلند کى _اور ''اللہ''کا نام عظمت کے ساتھ لیا، بادشاہ غضب ناک ہوا اور انھیں قید کر نے کا حکم دے دیا اور ہر ایک کو سو کوڑے مارے_

جس وقت حضرت عیسى علیہ السلام کے ان دونوں نمائندوں کى تکذیب ہوگئی اور نھیں زوود کوب کیا گیا تو حضرت عیسى علیہ السلام نے'' شمعون الصفا ''کو ان کے پیچھے روانہ کیا، وہ جو حواریوں کے بزرگ تھے _

شمعون اجنبى صورت میں شہر میں پہنچے اور بادشاہ کے اطرافیوں سے دوستى پیدا کر لى، انھیں ان کى

دوستى بہت بھائی اور ان کے بارے میں بادشاہ کو بھى بتا یا، بادشاہ نے بھى ان کو دعوت دى اور انھیں اپنے ہمنشینوں میں شامل کر لیا، بادشاہ ان کا احترام کرنے لگا _

شمعون نے ایک دن بادشاہ سے کہا:میں نے سنا ہے کہ دو ادمى اپ کى قید میں ہیں اور جس وقت انہوں نے اپ کو اپ کے دین کے بجائے کسى دوسرے دین کى دعوت دى تو اپ نے انھیں مارا پیٹا؟کیا کبھى اپ نے ان کى باتیں سنى بھى ہیں ؟

بادشاہ نے کہا:مجھے ان پر تنا غصہ ایاکہ میں نے ان کى کوئی بات نہیں سنى _

شمعون نے کہا :اگر بادشاہ مصلحت سمجھیں تو انھیں بلا لیں تاکہ ہم دیکھیں تو سہى کہ ان کے پلے ہے کیا_ بادشاہ نے انھیں بلا لیا، شمعون نے یوں ظاہر کیا جیسے انھیں پہچانتے ہى نہ ہوں اور ان سے کہا :تمہیں یہاں کس نے بھیجا ہے ؟

انہوں نے کہا :''اس خدا نے کہ جس نے سب کو پیدا کیا ہے اور جس کاکوئی شریک نہیں ہے _''

شمعون نے کہا:تمہارا معجزہ اور نشانى کیا ہے ؟

انہوںنے کہا:جو کچھ تم چاہو

بادشاہ نے حکم دیا اور ایک اندھے غلام کو لایا گیا جسے انہوں نے حکم خدا سے شفا بخشى، بادشاہ کو بہت تعجب ہوا، اس مقام پر شمعون بول اٹھے اور بادشاہ سے کہا:اگر اپ اس قسم کى درخواست اپنے خداو ں سے کرتے تو کیا وہ بھى اس قسم کے کام کى قدرت رکھتے ہیں؟

بادشاہ نے کہا تم سے کیا چھپا ہوا ہے ہمارے یہ خدا کہ جن کى ہم پرستش کرتے ہیں نہ تو کوئی ضرر پہنچا سکتے ہیں، نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ کوئی اور خاصیت رکھتے ہیں _

اس کے بعد بادشاہ نے ان دونوں سے کہا:اگر تمہارا خدا مردے کو زندہ کر سکتا ہے تو ہم اس پر اور تم پر ایمان لے آئیں گے _

انہوں نے کہا :ہمارا خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے _

بادشاہ نے کہا:یہاں ایک مردہ ہے جسے مرے ہوئے سات دن گزر چکے ہیں ابھى تک ہم نے اسے دفن نہیں کیا، ہم اس انتظار میں ہیں کہ اس کا باپ سفر سے اجائے تم اسے زندہ کر دکھاو _

مردہ کو لایا گیا تو وہ دونوں تو اشکار دعاکر رہے تھے اور شمعون دل ہى دل میں، اچانک مردے میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ اپنى جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ میں سات روز سے مرچکاہوں میں نے جہنم کى آگ اپنى انکھ سے دیکھى ہے اور میں تمہیں خبردار کرتاہوں کہ تم سب خدا ئے یگانہ پر ایمان لے او _

بادشاہ نے تعجب کیا، جس وقت شمعون کو یقین ہو گیا کہ اس کى باتیں اس پر اثر کر گئی ہیں تو اسے خدا ئے یگانہ کى طرف دعوت دى اور وہ ایمان لے ایااور اس کے ملک کے باشندے بھى اس کے ساتھ ایمان لے آئے، اگر چہ کچھ لوگ اپنے کفر پر باقى رہے _

اس روایت کى نظیر تفسیر عیاشى میں امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھى نقل ہوئی ہے، اگر چہ ان کے درمیان کچھ فرق ہے_

لیکن قران کے ظاہر کى طرف توجہ کرتے ہوئے اس شہر والوںکا ایمان لانا بہت بعید نظر اتا ہے کیونکہ قران کہتا ہے کہ وہ صیحہ اسمانى کے ذریعہ ہلاک ہو گئے_

ممکن ہے کہ روایت کے اس حصہ میں راوى سے اشتباہ ہوا ہو_

(1)- سورہ یس آیت 13

(2)- سورہ یس آیت 14

(3)- سورہ یس آیت 15

(4)- یہاں پر خدا کى صفت رحمانیت کا ذکر کیوں کیاگیا ہے ؟ممکن ہے کہ یہ اس لحاظ سے ہو کہ خدا ان کى بات کو نقل کرتے ہوئے خصوصیت سے اس صفت کاذکر کرتا ہے تاکہ ان کا جواب خود ان کى بات ہى سے حل ہو جائے، کیونکہ یہ بات کیسے ممکن ہو سکتى ہے کہ وہ خدا کہ جس کى رحمت عامہ نے سارے عالم کو گھیررکھا ہے وہ انسانوں کى تربیت اور رشد و تکامل کى طر ف دعوت دینے کے لئے پیغمبر نہ بھیجے _ یہ احتمال بھى ہے کہ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ وصف رحمن کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ خدا وند مہربان اپنے بندوں کا کام پیغمبروں کے بھیجنے اور مشکل ذمہ داریاں عائد کرنے سے نہیں کرتا وہ تو ازاد رکھتا ہے، یہ کمزور اور بے بنیاد منطق اس گروہ کے انکار کے ساتھ ہم اہنگ تھی_

(5)- سورہ یس آیت 18

(6)- سورہ یس آیت 18

(7)- سورہ یس آیت 18

(8)- سورہ یس آیت 20

(9)- سورہ یس آیت 21

(10)- سورہ یس آیت 22

(11)- سورہ یس آیت 22

(12)- سورہ یس آیت 22

(13)- سورہ یس آیت 23

(14)- سورہ یسن 24

(15)- سورہ یس آیت 25

(16)- سورہ ى س آیت 26

(17)- سورہ ال عمران آیت  169

(18)- سورہ یس آیت 26تا 27

(19)- سورہ یس آیت 28

(20)- سورہ یس آیت 29


source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=111382
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment