حجاب کی تاریخ اور اس کے مقصد سے قطعِ نظر موجودہ زمانے میں حجاب کے اصولوں کو اسلامی شریعت میں ایک قانونی شکل دے دی گئی ہے اور اِس سلسلے میں قرآنِ کریم کی چند آیات کو بنیاد بنا کر حجاب کو خواتین پر مسلّط کیا گیا ہے اور وہ آیات یہ ہیں: سورہَ نور کی آیات ۳۰/ اور۳۱/ اور سورہَ احزاب کی آیات ۵۸/ اور۵۹۔
(سورہَ نور:۲۴، آیات ۳۰/اور۳۱)
قرآنِ کریم عفّت اور پاک دامنی کے حوالے سے اپنا واضح اصول سورہَ نور:۲۴، کی آیات ۳۰/ اور ۳۱/ میں بیان کرتا ہے۔ یہ اصول مرد و زن، دونوں کے لیے یکساں ہے۔
"مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیا کی حفاظت کیا کریں، یہ اُن کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے؛ اور جو کام یہ کرتے ہیں، بے شک اللہ اُن سے باخبر ہے۔" (قرآنِ کریم، سورۂ نور:۲۴، آیت۳۰)
"اورمومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیا کی حفاطت کیا کریں اوراپنی آرائش کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں، مگر جو خود نمایاں ہو رہا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے شوہر اور باپ اور سُسر اور بیٹوں اور شوہر کے بیٹوں، اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی ہی قسم کی عورتوں اور کنیزوں اور غلاموں، نیز اُن خدّام کے سوا جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں، یا ایسے لڑکوں کے سوا، جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں، کسی اَور پر اپنی زینت اور آرائش کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں کو زمین پر اِس طرح نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اے مومنو! تم سب اللہ کے آگے توبہ کرو، تاکہ فلاح پاؤ۔" (قرآن کریم، سورۂٔ نور:۲۴، آیت ۳۱)
مندرجۂ بالا آیات کے مطابق مسلمان مرد اور مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ عفّت اور پاک دامنی اختیار کریں۔ اپنی نگاہوں اور اعمال کا خیال رکھیں۔ عورتوں کے لباس میں صرف سینوں کو چھپانے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم نے اس بارے میں جزئیات بیان نہیں کی ہیں اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسا نہ کرنے میں کوئی سزا بھی مقرّر نہیں کی ہے۔
ممتاز محققین میں سے ایک اہم محقق محمد اسد نے سورہَ نور:۲۴، آیت ۳۱/ کی تفسیر یوں کی ہے: 1
"لفظ 'خیمار،' جس کی جمع 'خمور' ہے، اس آیت میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ سر کی اوڑھنی کے معنوں میں ہے جو ظہورِ اسلام سے قبل اور بعد عرب خواتین میں زینت و آرائش کے لیے استعمال ہوتی تھی، حجاب کے لیے نہیں۔ اکثر قدیم مفسرین کے خیال میں 'خیمار' اسلام سے قبل صرف آرائش کی چیز تھی۔ عورتیں اسے سر پر رکھ کر فیشن اور رسم کے مطابق پیچھے کی طرف ڈال دیا کرتی تھیں۔ اُس زمانے میں عام طورپرعورتوں کی قمیض کا گلا سامنے سے کھلا ہوتا تھا، لہٰذا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ عورتیں 'خیمار' کے ذریعے اسے ڈھانپ لیں۔ یہ لفظ 'خیمار' حضورِ اکرم (ص) کے زمانے میں خاصا جانا پہچانا اور مروّج تھا، مگر اوپر کی آیت کے ایک حصّے کے مطابق جس میں یہ حکم آیا کہ: "مگر وہ جو خود نمایاں ہوجائے،" تو یہ حکم سینے کے بارے میں نہیں تھا۔ سینے کا ڈھانپنا تو لازم قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ سینہ چھپایا جائے اور اُسے نمایاں نہ کیا جائے، مگر سر چھپانے پر مجبور نہیں کیا گیا ہے۔ حجاب کے معاملے میں مومنِ صادق کا وجدان خود فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہے، کیوں کہ پیغمبرِ اکرم (ص) سے ایک حدیث منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: "صحیح فیصلہ کرنے کے لیے اپنے وجدان اور ضمیر سے رجوع کرو، اس میں جس کسی چیز سے بھی اذیّت پہنچے، اس سے دوری اختیار کرو۔"
٢- سورہَ احزاب: ۳۳، آیات ۵۸ اور ۵۹
ایک اور آیت خواتین کے لباس کے متعلٰق سورہَ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ ہے۔
"اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت) سے، جو انھوں نے نہ کیا ہو، ایذا دیں تو انھوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔" (قرآنِ کریم، سورۂ احزاب:۳۳، آیت۵۸)
اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اور اللّہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔" (قرآنِ کریم، سورۂ احزاب:۳۳، آیت۵۹)
مندرجۂ بالا آیات کے مطابق اُس زمانے میں مسلمان مرد اور خواتین، دونوں کو آزار و اذیّت دینا عام تھا، اِس لیے اذیّت سے بچنے کے لیے انھیں گھر سے باہر نکلتے وقت بیرونی چادر (جَلَابِيبِ ) اوڑھنی پڑتی تھی۔ لہٰذا اس آیت سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ عورتوں کو چادر پہنا کر گھر میں قید کر لیا جائے، بلکہ انھیں آزار و اذیّت سے بچانا مطلوب تھا۔ ایسے معاشروں میں، جہاں مسلمان خواتین کے لیے ایسا کوئی خوف نہ ہو تو اُن کے لیے کسی بیرونی چادر کو اوڑھنا ضروری نہیں، کیوں کہ صرف ایک ایسے کپڑے کو پہننا کوئی معنی نہیں رکھتا جو اِس حکمِِ قرآنی کے حقیقی اصول پر پورا نہیں اترتا۔ 2
یہ بات مسلّم ہے کہ مختلف معاشرے قرآن کے حقیقی پیغام کو قبول کرنے کے بجاے اپنی قومی اور ثقافتی رسم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور نتیجے کے طور پر حجاب کے سطحی ترین معنی میں کپڑے کے ایک ٹکڑے کو عورتوں کے لباس کا حصّہ قرار دیتے ہیں اور حجاب کے وسیع اور جامع معنی پر کبھی توجّہ نہیں دیتے۔
نذیرہ زین الدّین کہتی ہیں: انسان کے اخلاقی پہلو، نجابت اور وجدانِِ صادق، اس کے ظاہری حجاب سے بدرجہا بہتر ہیں۔ حجابِ ظاہری کا کوئی حاصل نہیں، بلکہ ہر شخص کی ذات میں موجود پاکیزگی اور دانش مندی ہی کار آمد ہے۔ نذیرہ اپنی کتاب کے ایک حصّے "السّفور والحجاب" کو اس نتیجے پر ختم کرتی ہیں کہ یہ کوئی اسلامی فریضہ نہیں کہ مسلمان خواتین اپنے سر کو ڈھانپیں۔ اگر اسلامی قانون کے وضع کرنے والوں نے یہ تہیّہ کر رکھا ہے کہ حجاب مسلمان خواتین کے لیے لازم ہے تو انھوں نے غلط سمجھا ہے۔ 3
بعض ممالک میں آج کے دور میں حجاب اپنے سیاسی عقیدے کے اظہار کے طور پر بیرونی طاقتوں کے دباو سے آزادی حاصل کرنے اور ان کے تسلّط سے جان چھڑانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
بہ ہرحال، وجہیں جو بھی ہوں اور جو بھی نظریات اور دلیلیں پیش کی جائیں، خواتین کے لیے چہرہ اور سر چھپانے کے لیے قرآنِ کریم میں کوئی ایسا دستورالعمل موجود نہیں۔
_____________________________
حوالہ جات:
1- Translated and explained by Muhammad Asad, The Message of the Qur'an ( Dar al-Andalus, Gibraltar. 1984) p.538
2- Ibrahim B. Syed, article on Women in Islam: Hijab, (Islamic Research Foundation International, Inc, Louisville , KY. November 3, 1998)
3- Nazira Zin al-Din, al-Sufur Wa'l-hijab (Beirut: Quzma Publications: 1928), p 37.
source : http://www.mto.org