اردو
Sunday 25th of August 2024
0
نفر 0

اہم رپورٹ؛ سی آئی اے کا اعتراف: اسرائیل جلد نابود ہوجائے گا

یہ سنت الہی بھی ہے اورتاریخ کی ایک ناقابل انکار حقیقت بھی کہ ظلم کی شاخ کبھی پھولتی پھلتی ہي نہيں۔

ظلم بہرحال ظلم ہے اسے مٹنا ہی ہوتا ہے اوراسی حقیقت کی روشنی میں جب آج سے چالیس سال قبل امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) نے فرمایا تھا کہ اسرائیل ایک سرطانی پھوڑا اورغاصب و غیرقانونی ریاست ہے جو ظلم پر استوار ہے اسے نابود ہی ہونا ہوگا،  تو شاید اس وقت بہت کم لوگوں کو امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) کی اس بات پر یقین آیا ہوگا۔ 
امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) نے اسی طرح اشتراکیت اور کمیونسٹ نظام کے بارے میں بھی گورباچوف کے نام اپنے تاریخی خط ميں فرمایا تھا کہ بہت جلد کمیونزم کا شیرازہ بکھرنے والا ہے اور اسے لوگ آئندہ صرف تاریخ کے عجائب گھروں ميں تلاش کریں گے، اس وقت بھی لوگوں نے شایدبہت سنجيدگی سے اس پرغورنہ کیا ہوگا مگرچندہی برس کے اندرسویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور کمیونسٹ بلاک کا آج دور دورتک کوئي نام و نشان تک نہيں ہے۔ 
اسی طرح امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کے یہ فرامین بھی اب بہت جلد ہی حقیقت کا روپ دھارنے والے ہيں کہ "اسرائیل نابود ہوجائے گا"۔ 
اگرکوئي آج کے ذرائع ابلاغ کے  کے تشہیراتی مہم سے متاثر مبصر، بظاہر غیرجانبدارنہ نگاہ سے ان باتوں کا جائزہ لیتا تو شاید اسے شک و یقین کی دوہری منزلوں سے گذرنا پڑتا مگرجب امریکہ اوربرطانیہ جیسے ممالک اس بات کا اعتراف کرنے لگيں کہ اب اسرائیل کی بقاء ممکن نہیں ہے تو کسی کو شک نہيں رہ جانا چاہئے خواہ وہ کتنا ہی متعصب ہی کیوں نہ ہو۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) نے جس حقیقت کی طرف اپنی حیات میں اشارہ کیا تھا اور فلسطینی قوم کو جو انھوں نے نوید سنائی تھی اب اس کے عملی جامہ پہننے میں زیادہ عرصہ درکارنہيں ہوگا اورجو لوگ اسرائیل کو ایک ناقابل شکست طاقت تصور کرتے تھے وہ اس حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کررہے ہيں۔
رہبرانقلاب اسلامی نے بھی حال ہی میں اپنے ایک اہم خطاب میں فرمایا تھا کہ "آج امریکی معاشرے میں اس بات کو لے کربہت زیادہ غم وغصہ پایا جارہا ہے کہ آخران کے ملک پرصہیونی لابی کا اتنا اثرو رسوخ کیوں ہے"۔ 
اگرچہ امریکی حکومت اس ناراضگی اورغصے کوکم کرنے کی بے پناہ کوشش کررہی ہے مگراس بات کو لے کر امریکی عوام کے غصے میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
لبنانی فوج کے سابق بریگیڈئیر اور رکن پارلیمنٹ "ولید سکریہ" نے بھی ابھی حال ہک میں اپنے ایک بیان میں کہا  کہ "اسرائیل کا دعوی تھا کہ اسے کوئي بھی شکست نہيں دے سکتا اور وہ اپنے اسی زعم میں علاقے کے تمام ملکوں کو ڈرایا دھمکایا کرتا تھا، مگرآج اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اسلامی مزاحمتی قوتوں کی میزائلوں کا خوف بیٹھ گیا ہے بلکہ وہ امن کے ان بین الاقوامی قافلوں سے بھی ڈرتا ہے جوغزہ کے محصور فلسطینیوں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء لے کرغزہ کی سمت روانہ ہوتے ہيں اوریہ سب کچھ اسرائیل کی نابودی کی علامت ہے"۔
امریکہ کے ایک ممتازنظریہ پرداز "اسٹینلی مک کوہن" نے بھی اس بات پرزور دیتے ہوئے کہ "آج پوری دنیا اسرائیلی مظالم کے مقابلے میں بیدار ہوچکی ہے کہا کہ اب صہیونی حکام بین الاقوامی قوانین کی گرفت سے بچ کرفرار نہيں ہوسکيں گے اور وہ دور ختم ہوگیا ہے جب صہیونی حکام قوانین کو پامال کرتے اور اپنی من مانی کیا کرتے تھے"۔ 
اس امریکی نظریہ پردازکا کہنا ہے کہ "اسرائیل خود کوایک جمہوری حکومت تو کہتا ہے اورآزادی بیان کا دم بھی  بھرتا ہے مگر وہ ایسے یہودیوں کو اپنے یہاں جگہ دینے کو ہرگز تیار نہيں ہے جو صہیونیزم کو مستردکرتے ہيں حتی کہ وہ امریکہ کے ممتاز دانشور "نوام چامسکی" جیسی شخصیت کو بھی تل ابیب کا دورہ کرنے کی اجازت نہيں دیتا"۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ "یہ بات اسرائیل کے دل میں سمایا ہوا خوف ہے جو اس کے جرائم کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، مگر چونکہ ظلم کی ایک  انتہا ہوتی ہے اور اسے بہرحال ایک حدپر جاکرختم ہونا ہوتا ہے اسی لئے اب اسرائیل کے سب سے بڑے حامی سامراجی ملک امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے نے صہیونی حکام کی نیندیں یہ کہہ کراور بھی زیادہ حرام  کردی ہيں کہ "اسرائیل آئندہ برسوں میں ختم ہوجائے گا"۔ 
سی آئی اے نے اپنی ٹاپ سکریٹ رپورٹ میں کہا ہے کہ "اسرائیلی حکومت کا آئندہ بیس برسوں میں کوئي نام و نشان نہيں رہے گا"۔
فلسطین الیوم نامی ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ دنیا کی بعض بہت ہی مشہور ویب سائٹوں پرشائع ہونے والی اس خفیہ رپورٹ کے مطابق "سی آئی اے کو اب اسرائیل کی حیات اوربقاء پریقین نہیں رہا ہے"۔
سی آئی اے کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "جب تک 1948 اور 1967 کے فلسطینی پناہ گزینوں کوان کے وطن واپس آنے کی اجازت نہيں دے دی جاتی فلسطین کا پائیدار اورپرامن حل ممکن نہيں ہوگا"۔
سی آئی اے کی اس خفیہ رپورٹ میں جو معدودے چند افراد کوباخبر کرنے کے لئے تیار کی گئی تھی کہا گیا ہے کہ "فلسطینی پناہ گزین اپنی سرزمین میں لوٹ آئیں گے اور پھر اس کے نتیجے میں مقبوضہ سرزمینوں سے - جہاں اسرائیل نے ناجائز طریقے سے صہیونیوں کو آباد کرایا ہے - بیس لاکھ صہیونیوں کی واپسی کا  عمل شروع ہوجائے گا۔ اس وقت بھی تقریبا پانچ لاکھ صہیونی، جو مقبوضہ علاقوں میں لاکر بسائے گئے ہيں امریکی ریاست کیلیفورنیا جانے کے لئے پاسپورٹ اپنے ہاتھوں میں لئے تیار بیٹھے ہيں لیکن کیلفورنیا میں صرف تین لاکھ افراد کو بسانےکی گنجائش موجود ہے"۔ 
بین الاقوامی امورکے ماہر فرینکلین لیمب (Franklin Lamb) کا کہنا ہے کہ "ان صہیونیوں نے لاکھ جتن کرکے جو پاسپورٹ حاصل کئے ہيں اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے انجام سے باخبرہيں"۔ 
سی آئی اے کی اس تازہ  ترین رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ "باقی پندرہ لاکھ  صہیونی بھی روس اوریورپ کے ديگر ملکوں میں منتقل ہوجائيں گے"۔
یاد رہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "اسرائیل کی سرزمین موعود کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور جلدی یا بدیر اس کا خواب چکنا چور ہوجائے گا"۔
دوسری طرف وھائٹ ہاؤس کے سابق و کہنہ مشق نامہ نگار "ہیلن تھامس" (Helen Thomas)  نے بھی کاروان آزادی پر اسرائیلی حملے کے بعد کہا تھاکہ "اسرائیلیوں کوچاہئے کہ وہ فلسطین سے اپنا راستہ ناپیں اور وہ جرمنی، پولینڈ یا امریکہ کا رخ کریں"۔ 
یاد رہے کہ ان کے اسی بیان پرانہیں استعفاء دینے پرمجبور کردیا گیا۔ 
وہائٹ ہاؤس میں گذشتہ پچاس برسوں سے پریس کلب کی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز 85 سالہ کہنہ مشق امریکی تجزیہ نگار ہیلن تھامس نے بارہا اس بات پرتاکید کی تھی کہ ذرائع ابلاغ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کوحقائق سے دور رکھیں بلکہ ذرائع ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں تک حقیقت سے آگاہ کریں اور اگر عوام کو حالات سے باخبر نہيں کیا جائے گا تو ایسے ملک جمہوریت ہمیشہ تیز ہواؤں کی زد پر رہتی ہے۔ یہاں پر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ مغرب اور اسرائیل، کلی طورپر جمہوریت اور آزادی بیان کے اصول کو اسی حدتک قبول کرتے ہيں جہاں تک ان کے مفادات کونقصان نہ پہنچے  تا کہ وہ اپنے سامراجی عزائم کوآگے بڑھا سکيں؛ اسی لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) نے مغرب کے اس جھوٹے دعوے کا ادراک کرتے ہوئے 1963 میں ہی فرمادیا تھا کہ "ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اسرائیل کے بارے میں کچھ کہیں، یہ کون سی آزادی بیان ہے؟"۔
مغرب کے آزادی بیان کے بارے میں امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) کے بیانات  کو آج 47  سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد دنیا کے لوگوں کی بیداری نے انہیں حقیقی معنوں ميں آزادی بیان کا تشنہ بنادیا ہے اور وہ ظلم و ستم پر کھل کر تنقید کر رہے ہيں اور صہیونی ریاست کی کھوکھلی بنیادوں کے بتدریج ڈھہ جانے کا تماشا کر رہے ہیں۔


source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=193630
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

وہابی فرقہ صہیونیوں سے بدتر
اسلامی مشرق وسطی. انقلاب سعودی سرحدیں بھی پار ...
انڈونیشیا کے دار الحکومت میں بم دھماکے، سات ...
اسرائیل: اسرائیل میں صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ایران ...
روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام اور عالمی برادری کی ...
پچاس سال بعد يمن میں مجالس عزا كا انعقاد
بعثیوں سے متعلق ٹی وی چینل میں مرجعیت کی توہین
مراكش كی جانب سے اسلام ہراسی كا مقابلہ كرنے كا ...
اسلامك يونيورسٹی ملائشياء؛ اسلامی خطی نسخوں كے ...
پاكستان كی ميزبانی میں بين الاقوامی اسلامی ...

 
user comment