وہ گناہ جس کے لیے معتبر احکام میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے حسد ہے اور حسد یہ ہے کہ دوسرے کے پاس کوئی نعمت نہیں دیکھ سکتا اور چاہتا ہے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔
صاحب شرایع فرماتے ہیں: "مومن سے حسد اور دشمنی گناہ ہے اور اس کا ظاہر کرنا عدالت کے خلاف ہے یعنی گناہِ کبیرہ ہے۔ شہید ثانی نے بھی مسالک میں فرمایا ہے کہ مومن سے حسد اور دشمنی تمام فقہاء کے نزدیک حرام ہے۔ دونوں کے لیے بہت سی روایتوں میں عذاب کا وعدہ ملتا ہے اور دونوں گناہِ کبیرہ ہیں۔ اس لیے عدالت کے خلاف اور حسد اور بغض کے اظہار کو جو عدالت کے خلاف سمجھا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حسد اور دلی بغض حرام نہیں ہیں اور صرف ان کا اظہار حرام ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک کوئی ان کو ظاہر نہیں کرتا ان سے عدالت کی نفی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ دل کی بات ہے اور اس کے ثابت ہونے کا طریقہ صرف اس کا اظہار ہے۔ اگرچہ اظہار کیے بغیر بھی حسد اور بغض حرام ہے۔"
حسد کے بارے میں بہت سی روایتیں ہیں۔ یہاں ان میں سے کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے:
حسد آگ کی طرح ایمان کو کھا جاتا ہے
حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "انسان غصے کے وقت ہر قسم کی عجلت ظاہر کرتا اور خود کو کافر بنا لیتا ہے لیکن حقیقت میں حسد ایسی چیز ہے جو ایمان کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (کافی)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) بھی فرماتے ہیں کہ حسد ایمان کو یوں ختم کر دیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حسد، غرور اور ڈینگیں مارنا دین کے لیے مصیبت ہے۔ (کافی)
مومن ہر چیز پر رشک کرتا ہے لیکن حسد نہیں کرتا اور منافق حسد کرتا ہے رشک نہیں کرتا۔ (کافی)
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "خدا نے موسیٰ بن عمران سے فرمایا تھا کہ میں نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو کچھ عطا کیا ہے اس پر حسد نہ کرنا اپنی آنکھیں اس کے پیچھے نہ لگانا اور اپنے دل کو اس کے پیچھے نہ دوڑانا کیونکہ جس نے حسد کیا اس نے میری نعمت کو بُرا سمجھا اور میں نے اپنے بندوں میں جو تقسیم کی ہے اس کو روکا اور جو ایسا ہو گا میں اس سے نہیں ہوں اور وہ مجھ سے نہیں۔" (کافی)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "کفر کی بنیاد تین چیزوں پر ہے: حرص، غرور اور حسد۔" (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب ۵۴)
کفر کی جڑ
حسد کا کفر کی جڑ ہونا جیسا کہ اس روایت میں ہے اور نفاق ہونا جیسا کہ حدیث میں گذر چکا ہے بالکل ظاہر ہے کیونکہ حاسد شخص اس نعمت کو جو اس شخص کو ملی ہے جس سے وہ حسد کرتا ہے اگر خدا کی طرف سے نہیں سمجھتا تو گویا اس نے کسی اور کو خدا کا شریک بنا لیا ہے جس کی تفصیل باب شرک میں گذر چکی ہے اور اگر اسے خدا کی طرف سے سمجھتا ہے تو خدا کو عادل اور حکیم نہیں سمجھتا اور اس کے فعل پر ناراض ہو گیا ہے۔ کیا خدا سے ناراضگی اور دشمنی سے بدتر بھی کوئی کفر ہو سکتا ہے اور کیا ایسی صورت میں ایمان ظاہر کرنا یعنی اپنے آپ کو مومن کہنا منافقت نہیں ہے؟
رسولِ خدا فرماتے ہیں: "بلاشبہ جو بیماری اور مصیبت پچھلی قوموں میں تھی وہی تم تک بھی پہنچی ہے اور وہ حسد ہے جو دین کو ختم کرنے والا ہے۔ نجات اس میں ہے کہ انسان اپنی زبان اور ہاتھ کو حسد کرنے سے روکے اور اپنے مومن بھائی سے دشمنی نہ رکھے۔" (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب ۵۴)
حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں: "خدا چھ گروہوں کو چھ گناہوں کے باعث عذاب دے گا۔ عرب کو غلط تعصب کی وجہ سے، کسانوں اور زمینداروں کو غرور کی وجہ سے، حاکموں کو ظلم کرنے کی وجہ سے، عالموں کو حسد کرنے کی وجہ سے، لین دین کرنے والوں کو خیانت کی وجہ سے اور دہقانوں (گاؤں والوں) کو نادانی کی وجہ سے۔" (خصائل ص ۱۵۸)
شہید کشف الریبہ میں فرماتے ہیں: "حسد انسانی دل کے لیے سب سے بڑا، سب سے بُرا اور سب سے زیادہ برباد کرنے والا گناہ ہے اس سے بُری کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر کیا گیا۔ جس وقت شیطان نے آدم سے حسد کیا اور انہیں گناہ پر مجبور کر دیا۔ قابیل نے بھی اپنے بھائی ہابیل سے حسد کیا اور اسے مار ڈالا۔ خدا اپنے پیغمبر اکرم کو حکم دیتا ہے کہ شیطان اور جادوگر کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کے بعد حاسد کی شر سے خدا کی پناہ طلب کرو۔ اس طرح خدا نے حاسد کو شیطان اور جادوگر کے زمرے میں رکھا ہے۔ حسد کے بارے میں نبی کی بہت سی حدیثیں ملتی ہیں۔"
واقعی حاسد شخص نہ دُنیا ہے اور نہ آخرت کیونکہ دنیا میں وہ سخت پیچ وتاب، تکلیف اور نامرادی میں مبتلا رہتا ہے کیونکہ اس کے حسد کے باوجود دسرے کی نعمت نہیں چھنتی بلکہ ہو سکتا ہے زیاد ہی ہو جائے جبکہ وہ اس کی نعمت زائل ہو جانے کے لیے کس قدر محنت کرتا اور تکلیفیں جھیلتا ہے پھر بھی جو وہ چاہتا ہے وہ حاصل نہیں ہو پاتا۔
آخرت کے متعلق بھی شک نہیں ہے کہ حاسد حضورِ قلب سے عبادت نہیں کر پاتا اور کچھ بڑی بڑی عبادتوں جیسے مومنوں سے بھلائی، ان پر احسان اور ان کی عزت کرنے سے محروم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کچھ نیک اعمال بھی رکھتا ہے تو وہ اس شخص کی نذر کر دیتا ہے جس سے حسد کرتا ہے۔ اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری اور اپنے مال کا پلڑا ہلکا کر دیتا ہے کیا اس سے بھی بدتر نقصان ہو سکتا ہے؟
حسد کا ظاہر کرنا
مشہور فقہاء نے فرمایا ہے کہ حسد گناہِ کبیرہ ہے اور اس کے ثابت کرنے کا طریقہ زبان، ہاتھ اور دوسرے اعضاء سے حسد کرنا ہے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حسد جب تک ظاہر نہیں ہوتا حرام نہیں ہے ۔ اس کا اظہار حرام ہوتا ہے یعنی اعضاء سے حسد کو عمل میں لانا حرام ہے کیونکہ پہلے تو دلی حسد اپنے اختیار میں نہیں ہے یعنی ذاتی بدباطنی یا پُرانی دشمنی کی وجہ سے جو کسی سے ہوتی ہے اگر وہ دوسرے کو نازو نعمت میں دیکھتا ہے تو اسے بے اختیار بُرا لگتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے اور جو چیز اختیاری نہ ہو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ دوسرے اس بات کی کئی روایتوں میں صراحت ہو چکی ہے کہ دلی حسد جب تک ظاہر نہ ہو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم کی بھی حدیث رفع ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: "میری امت سے نو باتوں کی ذمہ داری اُٹھا لی گئی ہے، بھولنے کی غلطی، جس بات کا عِلم نہ ہو، جس کو نہ کر سکیں، جس میں بے بس ہوں، جس کے لیے زبردستی مجبور کر دئیے جائیں، بدشگونی، آفرینش کے سوچ بچار میں وسوسہ، حسد جب تک کہ ہاتھ یا زبان سے ظاہر نہ ہو۔" (کافی باب مارفع من الامة)
حسد اختیار میں ہوتا ہے
حسد کے اختیاری نہ ہونے کا جواب یہ ہے کہ وہ بات جس کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اختیاری نہیں ہے دلی خیالات ہیں جس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں نعمت کسی ایسے شخص کو مل گئی ہے جس سے پچھلی دشمنی چلی آ رہی ہے تو از خود اور بے اختیار بُرا لگتا ہے اور انسان یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ نعمت اس سے چھن جائے لیکن اس حالت کا باقی رہنا اور دل کو ایسے بُرے خیال میں مشغول رکھنا اختیاری اور دلی گناہ ہے کیونکہ اپنے دل کو اس گناہ سے عِلمی اور عملی طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔
حسد کو روکنے کا عِلمی اور عملی طریقہ
علمی طریقہ حسد کی ان خرابیوں پر جو بیان کی گئی ہیں بلکہ دنیا اور اس کی فناکی بُرائی پر سوچنا اور غور کرنا ہے جس سے دنیا کی محبت کا منحوس پودا جوہر گناہ کی جڑ ہے دل سے نکل جائے اور دُور ہو جائے۔
عملی طریقہ اس بُرے خیال کو عمل میں نہ لانا ہے کیونکہ جس خیال کی تائید نہیں کی جاتی وہ ازخود ختم ہو جاتا ہے۔ چنانہ روایت میں یہ آیا ہے: "وسوسہ کتے کے حملہ کرنے کی طرح ہوتا ہے اگر اس پر توجہ دی جائے تو وہ زیادہ جھپٹے گا اور اگر لاپروائی برتی جائے تو دُور ہو جائے گا۔"
حد یث رفع کی توجیہ
حسد کی جو چند دلیلیں بیان کی گئیں ان سے دلی حسد کی حرمت ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی حاسد یہ چاہتا ہے کہ وہ جس سے حسد کرتا ہے اس کی نعمت ختم ہو جائے اور اگر اس نے زبان اور ہاتھ سے حسد کیا، جیسے گالی، غیبت اور دکھ دینا، تو پھر ان میں سے ہر ایک گناہ علیحدہ ہے۔ اس لیے حدیث رفع کو حسد کی طرف بعض قسموں تک محدود سمجھنا چاہیئے تاکہ ان دلیلوں سے اس کا تضاد نہ ہو اور وہ قسم یا درجہ یہ ہے کہ ایک شخص جب یہ سنتا ہے کہ اس کے دشمن کو کوئی نعمت ملی ہے تو اسے بُرا لگتا ہے اور اس کا دل چاہنے لگتا ہے کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے، جب اس حالت میں اس کو عقل اور ایمان کی روشنی کی بدولت یہ کیفیت اچھی نہیں لگی اور اس نے چاہا کہ یہ بُرا خیال دُور ہو جائے تو حسد کا یہ درجہ (جو صرف خیال) قابلِ معافی ہے اور اس کی کوئی سزا نہیں ہے لیکن جب کوئی اسے بُرے خیال سے نہ جھجکے بلکہ اسے دل میں رکھے اور روکے رہے تو چاہے اپنے اعضا سے کچھ نہ کرے وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ درحقیقت وہ اس بُرے خیال کو تقویت دیتا ہے حالانکہ ایک اور حدیث میں کہا گیا ہے: "جب تجھے حسد لاحق ہو جائے تو ظلم مت کرے۔" (خصال صدوق)
علّامہ مجلسی اصولِ کافی میں حسد کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اپنے دشمنوں کی نسبت سے تیرا حال تین طرح کا ہوتا ہے: پہلا یہ کہ تُو فطری طور پر تو اپنے دشمن کی تکلیف اور پریشانی پسند کرتا ہے لیکن خود تجھے یہ حالت بُری لگتی ہے اور اپنے آپ پر غصہ آتا ہے کہ تُو ایسا کیوں ہے یعنی دوسرے کی تکلیف کیوں پسند کرتا ہے چاہے وہ تیرا دشمن ہی کیوں نہ ہو اور تُو چاہتا ہے کہ تیری یہ بُری کیفیت دُور ہو جائے۔ اس میں شک نہیں کہ تیرا یہ حال قابلِ معافی ہے کیونکہ اس سے زیادہ تیرے بس سے باہر ہے۔
دوسرے یہ کہ تو اپنے دشمن کی پریشانی پسند کرتا ہے اور اس کی تکلیف پر تُو اپنی زبان یا اعضاء سے خوشی وخرمی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ وہی حسد ہے جو حرام ہے۔
تیسرے یہ کہ دونوں کی ایک درمیانی حالت ہے یعنی تو اپنے دشمن کی پریشانی پسند کرتا ہے اور تجھے یہ حالت بُری نہیں لگتی لیکن تُو اپنی خوشی کا اظہار بھی نہیں کرتا اور دلی حسد ظاہر نہیں کرتا۔ اس قسم پر فقہاء کا اختلاف ہے۔ چنانچہ بعض نے کہا کہ یہ قسم دل کی اس محبت کی کمزوری یا قوت کی مقدار کے مطابق گناہ سے خالی نہیں ہے۔
با قی تما م روا یتوں سے تضا د نہیں
ایسی روایتیں ملتی ہیں کہ جب مومن گناہ کی نیت کرتا ہے جب تک وہ اس کا ارتکاب نہیں کرتا، اس پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا اور اس کے اعمال نامے میں کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا، اس لیے حاسد بھی جب تک کوئی کام نہیں کرتا اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
جواب یہ ہے کہ یہ روایتین ان گناہوں کے بارے میں ہیں جو اعضاء اور جوارح سے کیے جاتے ہیں اور جب تک کیے نہیں جاتے گناہ نہیں ہوتے لیکن جن گناہوں کی جگہ دل میں ہے جیسے منافقت، غرور، مومن کی دشمنی، حسد وغیرہ یہ سب کے سب معافی کی روایتوں سے خارج ہیں۔
جو کچھ کہا گیا ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جب بھی کسی انسان کے دل میں کسی مسلمان کی نعمت چھن جانے سے دلچسپی اور لگاؤ پیدا ہوا اسے واجب ہے کہ اس حالت کو بُرا سمجھے اور اسے دُور کرنے کی کوشش کرے اور اگر اسی حالت پر باقی اور قائم رہا تو سمجھ لے کہ گناہ کبیرہ واقع ہو گیا اور پھر واجب ہے کہ ہر وقت پچھتاتا اور اپنے گناہ سے توجہ کرتا رہے۔
رشک حرام نہیں ہے
حسد کے معنی کسی کے نعمت پانے پر ناخوش ہونا اور اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی خواہش کرنا جیسا کہ ذکر کیا گیا اور رشک کے معنی ہیں اس نعمت جیسی نعمت پانے کی تمنا کرنا جو دوسرے کو ملی ہے لیکن نہ اس میں دوسرے کے نعمت پانے کا بُرا لگتا ہے نہ اس سے نعمت چھن جانے کی آرزو کی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ رشک میں ویسی ہی نعمت پانے کی آرزو ہوتی ہے جیسی دوسرے کو ملی ہے اور حسد میں دوسرے کی نعمت ختم ہو جانے کی تمنا ہوتی ہے۔
رشک اپنے موقع ومحل کے لحاظ سے مختلف قسم کا ہو سکتا ہے چنانچہ علّامہ مجلسی نے مرآت العقول میں فرمایا ہے کہ یہ فرائض کے پانچ احکام کے تحت منقسم ہو سکتا ہے۔ کبھی یہ واجب ہوتا ہے اور وہ واجبات کا رشک ہے مثلاً کسی کا دوست حج کر آیا اور وہ رہ گیا اب وہ تمنا کرے کہ وہ بھی اس کی طرح یہ فرض ادا کرتا کیونکہ اگر وہ یہ نہ چاہے کہ وہ بھی اس شخص کی طرح واجب بجا لاتا تو معلوم ہو گا کہ وہ اس واجب کو ترک کرنے پر رضا مند ہے اور یہ خود حرام ہے (توبہ کے واجب ہونے، واجب کے ترک ہونے پر پشیمان ہونے اور حرام فعل کرنے کی دلیل کے مطابق)۔
مستحب کاموں پر رشک بھی مستحب ہے۔ مثلاً اپنے اس دوست کی حالت پر رشک کرنا جس نے زیارت یا اور کوئی مستحب کام کیا ہے۔ کبھی رشک حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً اس شخص کی حالت پر رشک کرنا جسے کوئی حرام منصب یا حرام مال ملا ہو یا اس پر رشک کرنا جس سے کوئی مکروہ عمل صادر ہوا ہو اور مباح کاموں پر رشک مباح ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ حرام چیز پر رشک اگرچہ خود حرام ہے۔ لیکن جب تک اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا اہل ایمان کا یہ گناہ قابلِ معافی ہے چنانچہ اس بارے میں بہت سی روایتیں ملتی ہیں۔
source : http://www.islaminurdu.com/chapter.php?chapterID=655