انسان كی زندگی كن مقاصد سے وابستہ ھے۔ جب تك اس كا تعیّن نہ ھو، اُس وقت تك انسان كی قربانی كا صحیح مصرف متعین نھیں ھو سكتا۔ اور ظاھر ھے كہ جتنا مقصد بلند ھو اتنی شے میں بلندی اور جتنا مقصد پست ھو۔ اتنی پستی ھوتی ھے۔
دنیا میں مختلف پیشے اور كاروبار ھیں۔ ھر ایك كا درجہ اُس كے مقصد كے لحاظ سے ھے۔ معمار كا كام عمارت بنانا اور معلّم كا كام علوم كی تدریس كرنا ھے۔ پھلے كا تعلق اینٹ گارے سے ھے اس كا مقصد پست ھے اس لئے تمام عقلاء كے نزدیك اس كا درجہ پست اور دوسرے كا كام علم كے جوھر سے آراستہ كرنا ھے۔ اس كا تعلق جوھر روح كے ساتھ ھے۔ جس كا درجہ بلند ھے۔ اس لئے خود اس كام كا درجہ بلند ھے۔
چونكہ مقصد خود ذریعہ سے اھم ھوتا ھے۔ اس لئے ھمیشہ مقصد سے ذریعہ پست ھوتا ھے۔ اس لئے اگر كسی نے زندگی كا مقصد نیچا ركھا ھے تو زندگی نیچے آئے گی اور اگر مقصد بلند ركھا ھے تو زندگی مین بلندی پیدا ھوگی
انسان نے عالمِ مشاھدہ میں كائنات كی چیزوں پر نظر كی، پھاڑوں كی بلندی كو دیكھا، سمجھا كہ یہ مجھ سے مافوق ھیں۔ اونچے اونچے درختوں كو دیكھا تو اپنے كو نارسا سمجھا۔ حیوان كے ساتھ بھت سی اپنی ضرورتوں كو وابستہ دیكھا تو اپنے كو اُن كا مرھونِ احسان سمجھا لیا۔ اس طرح اس میں احساسِ كمتری پیدا ھوتا گیا۔ اور اپنے كو سب سے پست سمجھ لیا۔ اس كا مقتضا یہ ھے كہ یہ ان میں سے كسی كے استعمال كا حق نھیں ركھتا بلكہ وہ خود ان میں سے ھر شے كی خدمت كرنے كے لئے رہ گیا۔ اسے اب تو پوری زندگی ان سب كی پوجا میں صرف كر دینا چاھئے۔ اس طرح اس كی نگاہ پست ھو گئی اور نگاہ كے ساتھ معیارِ اخلاق پست ھوا۔ بلندیِ اخلاق كے لئے ضرورت ھے كہ انسان كو اس كا صحیح درجہ بتایا جائے۔ اس طرح اس كے مقاصدِ حیات بلند ھوں گے اور پھر اس كی زندگی بھی بلند ھو جائے گی۔
اس كے لئے قرآنِ كریم نے افرادِ انسانی كو آواز دے كر بتایا "خَلَقَ لَكُم ما فِی الاَرضِ جَمیعاً": "كارگاہِ عالم میں جتنی كائنات ھے وہ سب تمھارے لئے ھے"
پھاڑ كتنے ھی بڑے ھوں، درخت كتنے ھی بلند ھوں حیوان كتنے ھی خیر و بركت كا سر چشمہ ھوں، تصرّف كا حق ان سب میں تم كو ھے۔
اب جب تمام كائنات انسان كے لئے ھو گئی تو اسے احساسِ بلندی ھونا چاھئے۔ اب اس كا مقتضا نہ یہ ھے كہ یہ پھاڑوں، درختوں اور حیوانات كے آگے نہ جھكے۔ یہ لاَ اِلٰہَ كی منزل ھے۔ یھاں پر تمام كائنات سے معبود ھونے كی نفی ھو جاتی ھے۔ یھاں تك انسان پھنچ گیا۔ اب انسان سے مافوق ھستی كا اگر تصوّر نہ ھوا تو زندگی بے مقصد ھوگی اور غلط مقصد میں صرف ھونے والی زندگی ھی كی طرح اخلاقی طور پر بے مقصد زندگی بھی پست ھوگی۔
اپنے ھی كو اپنا مقصد اگر بنا لیا تو بے كاری، تن آسانی اور سھولت پسندی كی زندگی بسر ھوگی۔ اس كا نظریہ یہ ھوگا كہ عیش كرو، مزے سے زندگی بسر كرو اور ممكن سے ممكن آرام اور ھر طرح كے لذائذ نفس حاصل كرو۔ كیونكہ جو كچھ بھی ھو بس تم ھی ھو۔
اب اس نصب العین كی صورت میں تصادم بھی ناگزیر ھے۔ كیونكہ مادرِ فطرت كے بطن سے كوئی ایك ھی فرد تو پیدا نھیں ھوا ھے۔ بلكہ افرادِ انسانی بكثرت ھیں۔ اب اگر نوعِ انسانی میں سے ھر فرد نے اپنے لطف اور لذتِ نفس ھی كو نصب العین قرار دے لیا تو ھر ایك كے جینے كی راہ میں دوسرے كی زندگی حائل ھوگی۔ اس طرح كوشش ھوگی كہ دوسرے كی زندگی سے اپنی زندگی كو مقدّم سمجھا جائے اور اس كا نتیجہ یھی ھے كہ قوی ضعیف كو اور دولت مند غریب كو كھا جائے۔ اپنے كو اپنا مقصد بنا لینے كا تقاضائے عقلی یھی ھے كہ جو شخص اپنی ذات كو زیادہ سے زیادہ فائدہ پھنچا سكتا ھے اسے پھنچانا چاھئے اور جو نھیں فائدہ پھنچا سكتا وہ بد قسمت ھے اور اسے استحقاقِ حیات ھی نھیں ھے اسی سے "طاقتِ حق ھے" كا نظریہ قائم ھوتا ھے۔
اس ذھنیت كا علاج صرف یہ ھے كہ اس انسان كو اس سے مافوق قوت كا تصوّر قائم كرایا جائے اور وہ قوت بھی ایسی جو تمام نوعِ انسانی سے یكساں تعلق ركھتی ھے۔ اب جب اس كی رضا جوئی مطلوب ھوگی، جو تمام كائنات كا پروردگار ھے تو دوسرے كی زندگی كو بھی اپنی ھی زندگی كی طرح عزیز ركھنا ھوگا۔ اسی تصوّر كے لئے لاَ اِلٰہَ كے بعد الاَّ اللہ كی منزل پر پھنچنا لازم ھے۔
اب سلسلہ یوں مرتب ھو گیا كہ ما سوائے انسان سب انسان كے لئے اور خود انسان خالق انسان كے لئے۔ پھلے جزو كو قرآن نے ان الفاظ میں پیش كیا تھا كہ "خَلَقَ لَكُم ماَ فِی الاَرضِ جَمیعاً": "تمھارے لئے سب كو خلق كیا" اور دوسرے جزو كو كبھی ان لفظوں میں كہ " مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَ الاِنسَ اِلاَّ لِیَعبَدونَ": "جن و انسان كی خلقت اس لئے ھے كہ وہ میری رضا جوئی كریں" اور كبھی اس طرح كہ"قُل اِنَّ صَلوٰتِی وَ نُسَكِی وَ مَحیَایَ وَ مَمَاتِی للہِ رَبِّ العَالَمِینَ"۔
تمھارا قول یہ ھونا چاھئے، الفاظ نھیں بلكہ مقولہ، نظریہ اور اصول كے معنی ھیں۔ یعنی تمھارا اصول زندگی یہ ھونا چاھئے كہ میری زندگی اور موت سب اللہ كے لئے ھے۔ اب جب اللہ كے لئے ھے تو اللہ كے كام میں صرف ھونا چاھئے مگر اللہ كا كام خود اس كی ذات سے وابستہ نھیں ھو سكتا كیونكہ وہ غنی مطلق ھے۔ بلكہ یہ كام اس كی مخلوق ھی سے وابستہ ھوگا۔ ان سب كا مفاد جن كا اللہ سے رشتہ ھے اللہ كا كام ھوگا۔ اسی لئے مَحیَایَ و مَمَاتِی للہِ كھنے كے بعد رب العالمین كا لفظ كھا گیا۔ یعنی اللہ كا وصف یہ بیان كیا گیا كہ وہ تمام عالمین كا پروردگار ھے، اور اس طرح ھمہ گیر طور پر حقوق انسانی كے تحفظ كے لئے قربانی كا تصوّر پیدا كیا
بیشك كچھ فرقوں نے ایسا خیال قائم كر لیا تھا كہ اللہ ھمارا ھے اور كسی كا نھیں۔ وہ كھتے تھے كہ "نَحنُ اَبنَآءُ اللہُ وَ اَحِبّاؤہ": "ھم اللہ كے بیٹے اور اس كے چھیتے ھیں" مگر مسلمانوں كو تعلیم دی گئی كہ وہ كھیں"ھُوَ رَبُّناَ وَ رَبُّكَم لَناَ اَعمَالُناَ وَ لَكُم اَعمَالُكُم": "وہ ھمارا بھی پروردگار ھے تمھارا بھی پروردگار ھے"۔ ھمارے لئے ھمارے اعمال ھیں اور تمھارے لئے تمھارا اعمال "اسی وسعت كو رب العالمین كے لفظ سے ظاھر كیا گیا كہ وہ تمام جھانوں كا پروردگار ھے" ۔ اس صورت میں اس كے مقاصد بھی محدود نھیں ھو سكتے۔ اس كو ھر ایك كا فائدہ مدِ نظر ھوگا۔ اب اگر انسان نے خالق كی رضا كے لئے اس كے مخلوق كو كوئی اھم فائدہ پھنچانے میں جان دیدی تو یہ اس كی راہ میں قربانی قرار پائے گی۔
انسان كی زندگی فقط اپنے لئے ھوتی تو ایثار اور قربانی كا كوئی سوال پیدا نہ ھوتا۔ جیسا كہ موجودہ زمانے میں"روٹی" كا نعرہ شدت سے لگایا جاتا ھے۔
ظاھر ھے كہ جیتے جی كون ھوگا جو روٹی كی اھمیت سے انكار كرے مگر یاد رھے كہ روٹی كی اھمیت ذریعۂ حیات كی حد تك ھے اور صاف بات ھے كہ مقصد ذریعہ سے اشرف ھوتا ھے۔ نتیجہ یہ ھے كہ روٹی كی اھمیت سے زیادہ خود حیات كی اھمیت ھے۔ اب اگر ھماری حیات كا بھی كوئی مقصد ھے تو وہ مقصد خود حیات سے زیادہ مقدم ھوگا۔ پھر روٹی سے مقدم كیونكر نہ ھوگا۔ لھٰذا روٹی كی اھمیت ضرور ھے مگر اس حد تك كہ مقصدِ حیات كو نقصان نہ پھنچے۔ لیكن اگر روٹی كا حصول مقصدِ حیات كے پامال كر دینے سے وابستہ ھو جائے تو وہ روٹی كا خیال ترك كر دینے كے قابل ھے۔ اكلِ حلال اور اكلِ حرام كی تفریق یھیں سے پیدا ھوئی ھے۔ كون ذریعۂ معاش حلال ھے اور كون ذریعہ معاش حرام۔ ایك مزدور سركار پسینہ ایڑی تك بھاكر بھی روٹی كھاتا ھے اور ایك چور اور ڈاكو بھی محنت سے روٹی حاصل كرتا ھے۔ مگر وہ روٹی مقصدِ حیات كے ساتھ سازگار ھے اور یہ نھیں ھے۔ اس لئے وہ حلال ھے اور یہ حرام۔
اگر روٹی زندگی اور مقصدِ زندگی۔ ان میں سے ھر ایك اپنی اپنی جگہ پر رھے تو روٹی والے نظام اور مذھب سے كسی اصولی تصادم كا سوال پیدا نہ ھو۔
"خوردن برائے زیستن" بالكل درست ھے مگر"زیستن برائے چہ؟ " بھی ایك مستقل سوال ھے۔ دنیا كا كوئی بھی اقتصادی نظام ھو وہ پھلے ھی مرحلہ كی تنظیم كرتا ھے اور مذھب دوسرے مرحلہ كی رھنمائی كرتا ھے۔
وہ غذا جس كے كھانے سے آدمی مر جائے گا۔ ھے تو وہ بھی روٹی مگر چونكہ ذریعہ ھونے كے بجائے مفنیِ حیات ھے اسی لئے نظر انداز كرنے كے قابل ھے۔ اسی طرح بدرجۂ اولیٰ وہ روٹی۔ جو مقاصدِ حیات كے لئے تباہ كن ھو نظر انداز كرنے كی مستحق ھوگی۔
ضبط نفس صبر و تحمل، قناعت، ایثار اور قربانی كا سنگِ بنیادی یھی تفریق ھے كہ كچھ چیزیں انسان كی خاطر ھیں اور كوئی چیز وہ ھوتی ھے جس كی خاطر انسان ھے۔ جب انسان ان مقاصد كی تكمیل كے لئے اپنی زندگی یا زندگی سے وابستہ كسی چیز كو تج دیتا ھے تو اس كا نام ھوتا ھے قربانی اور اسی زندگی سے ھاتھ دھونے كا نام ھوتا ھے"شھادت"
اس طرح قربان ھونے والا ظاھر میں فنا ھوتا ھے مگر حقیقت میں وہ زندگی جاوید حاصل كرتا ھے اور یہ انسان سے مخصوص نھیں، بلكہ تمام نظام كائنات اسی قربانی پر قائم ھے۔
زمین جمادات مین داخل ھے۔ بے جان چیز ھے مگر یہ زمین دو قسم كی ھوتی ھے، ایك كو كھتے ھیں زمین مردہ اور دوسری كو زمین زندہ۔ مردہ زمین وہ اُوسر یا بنجر زمین ھے جس میں نباتات كے روئیدہ كرنے كی صلاحیت نہ ھو اور زمین زندہ وہ ھے جس میں نشو و نما كی طاقت ھو۔ تھوڑے سے بیج بوئے اور ان سے ایك ایسا سایہ دار درخت ھو گیا جو ایك قافلہ كو اپنی چھاؤں میں پناہ دے سكتا ھے۔ اور تھوڑے سے دانے سپرد زمین كئے اور ان سے ایك لھلھاتا ھوا كھیت ھو گیا۔ جو ایك خاندان كی پرورش كر سكتا ھے
اس نشود نما كا راز كیا ھے۔ اس كے متعلق چھان بین كی جائے تو معلوم ھوتا ھے كہ خود زمین میں قدرت نے ایسے اجزا ودیعت كئے ھیں جو اپنے سے مافوق یعنی نباتات كے جزو بننے كی صلاحیت ركھتے ھیں زمین ان اجزاء كو امانتداری كے ساتھ محفوظ ركھتی ھے كسی حقدار كے آنے كے انتظار میں جب وہ حقدار آجاتا ھے تو زمین ان اجزاء كو اس كی خاطر نذر كر دیتی ھے پھر كچھ فیض ھو ا سے كچھ فیض آب سے اور كچھ فیض آفتاب سے۔ اجزاء شریك ھوتے جاتے ھیں مگر بنیادی اجزاء وھی ھیں جو زمین سے حاصل ھوتے ھیں۔ اب یہ زمین كے ذرات اپنے حدودِ وجود میں فنا ھو گئے بایں معنی كہ خاك میں وہ نہ رہ گئے لكن یہ فنا بلند تر بقاء كا ذریعہ ھوئی ھے۔ وہ زمین مردہ ھے جس میں اس قربانی كی صلاحیت نہ ھو اور وہ زمین زندہ ھے جس میں اس ارتقاء كی گنجائش ھو۔
اس كے بعد یہ درختوں كے پتّے، یہ سبزہ، یہ پھل پھول كیا چھوڑ دیئے جائیں تو یوں ھی باقی رھیں گے؟ كبھی نھیں، تمازتِ آفتاب، بادِ سموم اور كچھ نہ ھو تو امتدادِ زمانہ سے ختم ھو جائیں گے اور ان صورتوں سے ختم ھوں تو خاتمہ ھی ھے لیكن اگر كسی جاندار كی غذا نہ بن جائیں تو فنا تو ھوئے لیكن یہ فنا ایك بلند تر بقاء كا ذریعہ ھے۔ یعنی اب وہ ایك جاندار كے جسم میں لھو بن كر دوڑنے لگے۔
یھاں تك تو عقلائے زمانہ میں كوئی اختلاف نھیں، یعنی جمادات نباتات كی خاطر اور نباتات حیوانات كی خاطر قربان ھوں تو كسی كو اعتراض نھیں مگر اس كے بعد ھے حیوان اور انسان كی منزل۔ یھاں پھنچ كر بعض جماعتوں میں جزبۂ ترحم پیدا ھو جاتا ھے اور وہ حیوان كی قربانی كو انسان كی خاطر ظلم قرار دیتے ھیں۔
جھاں تك جذبات كا تعلق ھے بلا شبہ یہ رحم كا جذبہ قابلِ قدر ھے بشرطیكہ اس كا نتیجہ یہ ھو كہ جو جانور كی جان لینا پسند نھیں كرتا وہ انسان كی جان لینا كیونكر گوارا كر سكتا ھے مگر یاد ركھنا چاھئے كہ اصول جذبات كے پابند نھیں ھوتے۔ یہ سنجیدگی سے طے كرنے كی بات ھے كہ انسان دیگر حیوانات سے بالا تر ھے یا نھیں اور جب كہ یہ بالا تر یقیناً ھے تو جمادات، نباتات كے كام آئے، ظلم نھیں ھوا، نباتات حیوانات كے جزو بدن ھوئے ظلم نھیں ھوا تو پھر اگر حیوان انسان كے كام آئے تو كیوں ظلم قرار پائے گا؟
ممكن ھے اس كے جواب میں یہ كھا جائے كہ زمین اور درختوں مں احساس نھیں ھے۔ حیوان میں احساس ھے اس لئے یہ ظلم ھے مگر میں كھوں گا كہ كیا ظلم كا معیار احساسِ تكلیف ھے؟ یعنی قاتل مقتول كو اس كے ھوش و حواس كی حالت میں قتل كردے تو جرم ھوگا اور اگر بیھوشی سُنگھا كر اور بیحسی كی حالت میں قتل كرے تو جرم نہ ھوگا؟ یہ قطعاً غلط ھے اس سے معلوم ھوتا ھے كہ ظلم میں شعور اور بے شعوری كا كوئی دخل نھیں ھے بلكہ ظلم كا معیار اقدامِ ناحق ھے۔ وہ اقدامِ ناحق با شعور كے ساتھ ھو تو ظلم ھوگا۔ اور بے شعور كے ساتھ ھو تو ظلم ھوگا۔ لھٰذا اگر پست كا بلند كے كام آنا ظلم ھے تو زمین میں كھیتی كرنا بھی ظلم ھے نباتات سے غذا حاصل كرنا بھی ظلم ھے۔ اور اگر پست كا بلند كے كام آنا ظلم نھیں ھے بلكہ اس كے مقصدِ وجود كی تكمیل ھے تو پھر حوان كی قربانی كو ظلم نھیں سمجھنا چاھئے۔ بلكہ اسلام اس حیوان كو بھی جس كی قربانی ھو عزّت كی نظر سے دیكھتا ھے۔ یھاں تك كہ اسے مَیتہ نھیں قرار دیتا۔ یعنی اگر اپنی موت سے مرتا تو وہ مَیتہ (مُردہ) ھوتا لیكن جب اپنے سے بالاتر یعنی انسان كے كام میں آنے كے قابل ھوا تو حالانكہ وہ مرگیا ھے مگر اس كا نام مَیتہ نھیں بلكہ ذبیحہ ھے اور صرف نام كا فرق نھیں بلكہ احكام كا بھی فرق ھے۔ اگر مَیتہ ھو تو نجس یعنی زندگی میں وہ جانور پاك تھا۔ مگر اب مرنے سے نجس ھو گیا۔ لیكن اگر ذبیحہ ھے تو پاك ھے۔ اور وھی اجزا پاك نھیں جو زندگی میں پاك تھے بلكہ خون متعارف بھنے كے بعد جو خون اجزائے گوشت میں پیوست رہ جائے وہ خون بھی پاك و حلال ھے۔ یہ عزت ھے اپنے سے مافوق كی خاطر قربان ھونے كی۔ پھر جبكہ حیوان اپنے سے بلند كے كام آئے تو وہ مَیتہ نھیں ھے تو انسان بھلا جب اپنے سے بلند كے كام آئے تو مردہ ھوگا؟ نا ممكن ھے۔ بے شك وہ جسمانی حیثیت سے مر گیا۔ لیكن اگر وہ اپنی موت مرتا تو میّت ھوتا اور جب اس نے اپنے سے بالاتر كی خاطر جان دی تو اب وہ میّت نھیں ھے۔ بلكہ شھید ھے اور فقط نام كی تفریق نھیں بلكہ احكام كا بھی فرق ھے۔ اگر میت ھے تو نجس یعنی كتنا ھی صاحبِ اوصاف، بلند مرتبہ انسان ھو۔ مرنے كے بعد اس كا جسم شریعت اسلامی كی رو سے نجس قرار پا جاتا ھے اسی نجاست كے دور كرنے كے لئے غسلِ میت قرار دیا گیا ھے۔ جب غسل ھوگا۔ تب جسم پاك ھوگا۔ لیكن اگر شھید ھے تو مرنے كے بعد غسل كی ضرورت نھیں ھے اس كے معنی یہ ھیں كہ اس میں نجاست كا گزر ھوا ھی نھیں۔ بلكہ كفن كی بھی ضرورت نھیں اور لباس سے معركۂ جنگ میں بھے ھوئے خون كے چھڑانے اور اس كپڑے كو پاك و صاف كرنے كی بھی ضرورت نھیں۔ اسی خون بھرے لباس میں دفن كر دینا چاھئے۔ كیونكہ خون مردانِ راہِ خدا كی زینت ھے۔
مگر یہ درجہ جس كا نام شھادت ھے اسی وقت حاصل ھوگا كہ جب اپنے سے بالاتر كی خاطر جان دی جائے۔ لیكن دنیا والے عموماً جن جن چیزوں كی خاطر جان دیا كرتے ھیں۔ وہ سب پست ھیں مثلاً دولت كے لئے اگر جان دی تو دولت كیا چیز ھے۔ انسان سے كئی درجے پست۔ اصل دولت كا معیار زر ھے یعنی ھونا۔ جس ملك كے پاس سونا زیادہ وہ ملك مالدار۔ یہ كاغذذ (نوٹ) تو قیمتی اس وقت ھے كہ جب اس كے بدلے كا سونا محفوظ ھو۔ اب سونا كہ جو اصل دولت ھے وہ حقیقت و اصلیت میں كیا چیز ھے؟ جو ٹھوكروں میں آنے والے پتھر ھیں یعنی جمادات، جسے قدرت نے ذرا شوخ رنگ كا بنا دیا، اسے دنیا لعل و یاقوت و زمرد كھتے لگی، اسے قیمتی سمجھا جانے لگا كیونكہ قیمتی ھونے كا معیار اس بازار دنیا میں كسی شے كا كار آمد ھونا نھیں بلكہ كمیاب ھونا ھے حالانكہ خالق حكیم كے نظام فطرت میں جو شے كمیاب ھے وہ زندگی كے لئے بیكار ھے۔ اس نے جو شے زیادہ ضروری ھے اتنی ھی زیادہ پیدا كی ھے، سب سے زیادہ ضروری چیز زندگی كے لئے ھوا ھے، وہ سب سے زیادہ پیدا كی گئی اور ھر جگہ۔ یھاں تك كہ اگر ھم اس سے بھاگنا بھی چاھیں تو وہ ساتھ نہ چھوڑے گی۔ دوسرے درجہ پر حیات كے لئے ضروری پانی ھے تو وہ پیدا بھی اسی تناسب سے كیا گیا۔ وہ موجود ھر جگہ ھے مگر محتاجِ ذرائع ھے۔ ھوا كے حاصل كرنے كے لئے ڈال، رسّی كی ضرورت نھیں بلكہ خود ھمارے نظامِ حیات میں نفس كی آمد و شد ھی صالح ھوا كے جذب اور فاس؟؟ ؟ كے دفع كا كام دیتی ھے اس طرح ضرورتِ حیات كی تكمیل كو جزو حیات بنا دیا گیا ھے مگر پانی كو حاصل كرنے كے لئے كچھ نہ كچھ سعی و عمل كی ضرورت ھے كیونكہ بغیر ھوا كے ھم تھوڑی دیر بھی زندہ نھیں نھیں رہ سكتے۔ لیكن پانی كئی وقت بھی نہ ملے تو زندہ رہ سكتے ھیں تیسرے درجہ پر غذا ھے اس لئے غذا كئی وقت بھی نہ ملے تو زندہ رہ سكتے ھیں تیسرے درجہ پر غذا ھے اس لئے غذا كی خلقت بھی اسی صورت پر ھوئی۔ پانی كے حصول سے زیادہ اس كی پیداوار ذرائع كی محتاج قرار دی گئی۔ جو چیزیں روز مرّہ كے ضروریات سے بالكل غیر متعلق اور اس حیثیت سے بیكار تھیں انھیں پھاڑوں كے اندر ركھ دیا۔ سمندر كے تہ میں چھپا دیا۔ مگر یہ انسان كا معیارِ اعتبار ھے كہ وہ جب كوہ كنی اور غوطہ زنی كركے ان نھفۃ اشیاء كو حاصل كر لیتا ھے تو انھی كو سب سے زیادہ قیمتی قرار دے لیتا ھے اور ضروریاتِ زندگی كی چیزیں اس كے نزدیك كم قیمت ھیں۔ اس لئے كہ فیاض خالق نے انھیں كثرت كے ساتھ پیدا كر دیا ھے۔ مگر اصلی قیمت كا حال اس وقت كھلتا ھے جب ضروری حیات چیز كسی وقت كمیاب ھو جاتی ھے۔ لق و دق صحرا ھو اور خزانہ پاس ھو مگر پانی نایاب ھو اس وقت دیكھنا ھے كہ خزانہ زیادہ قیمتی ھے یا پانی۔ اسی دولت كی خاطر جو حقیقت كے لحاظ سے بے قیمت شے ھے انسان جان دے دیتا ھے تو یہ جو ھر نفس انسانی كی قربانی اپنے سے تین درجے پست شے كے لئے ھوئی جو جمادات میں داخل ھے۔ یہ قربانی مقتضائے فطرت كے خلاف ھے كیونكہ سنتِ كائنات یہ تھی كہ پست بلند كی خاطر قربان ھو اور چونكہ شریعت بمقتضائے فطرت ھوتی ھے۔ اس لئے یہ جان دینا انسان كے لئے جرم ھے۔ اس كا نام ھے"ھلاكت"
اسی طرح كچھ لوگ شھرت كی خاطر جان دیتے ھیں، جو كوئی اصلیت ركھنے والی چیز ھی نھیں۔ اس سے بڑھ كر یہ كہ سلطنت كی خاطر جو بالكل اعتباری شے ھے جب تك لوگ سمجھ رھے ھیں بادشاہ ھے اور لوگوں نے سمجھنا چھوڑ دیا، تو آدمی وھی ھے مگر بادشاہ نھیں رھا۔
اسی طرح وہ جس كے لئے بازاری محاورات میں جان دینے اور مرنے كا لفظ مخصوص ھو گیا ھے یعنی كسی جمال فانی كو مقصدِ قربانی بنانا تو اس سے بقا كیونكر ملے گی۔ جب مركز قربانی خود فانی ھے تو اس كی خاطر جان دینا تو فنا در فنا ھوگا۔ بقاء اس وقت مل سكتی تھی جب فنا فی البقاء ھوتی۔
یہ سب خود اپنی قیمت نہ جاننے كا نتیجہ ھے كہ آدمی اپنے كو ایسی پست چیزوں پر قربان كرے۔ اس قربانی كو شھادت نھیں كھہ سكتے یہ عوام كی غلط ذھنیت ھے كہ وہ زمین پر بھتے ھوئے خون اور خاك و خون میں غلطاں لاش كو دیكھ كر شھید سمجھ لیتے ھیں اور اس كے مدفن كو شھید كا مزار قرار دے لیتے ھیں۔ شھادت كا تعلق مقصد كی بلندی كے ساتھ ھے۔ انسان كو مقصد قربانی اپنے سے مافوق قرار دینا لازم ھے اگر وہ پست مقصد كی خاطر جان دے گا تو وہ ھلاكت كا مصداق ھوگا۔ شھادت كا نھیں۔
عالمِ ممكنات میں ھر شے انسان سے پست ھے۔ اس سے بالاتر صرف خالقِ كائنات كی ذات ھے۔ اس لئے اس كی قربانی شھادت اسی وقت ھوگی كہ جب خالق كے ساتھ وابستہ ھو۔ اسی لئے قرآنِ مجید نے حیاتِ جاوید كی نوید دیتے ھوئے صرف قتلوا نھیں كھا۔ جس كے معنی یہ ھوتے كہ جو قتل ھو جائیں انھیں مردہ نہ سمجھو بلكہ قید لگائی كہ" الَّذِینَ قُتَلُوا فِی سَبِیل اللہ" معلوم ھوا كہ حیاتِ جاودانی اسی وقت ملے گی كہ جب مقصدِ قربانی اللہ كی طرف راجع ھو۔
مگر یھاں ذھن كو ایك دشواری محسوس ھوتی ھے۔ وہ یہ كہ جو بھی كسی دوسرے كے لئے قربان ھوتا ھے تو وہ دوسرا ھوتا ھے محتاج اور مركز آفات ۔ جب ھی قربانی كا تصّور دوست ھوتا ھے۔ مثلاً زمین پودوں كے كام آئی تو پودے محتاج تھے۔ وہ ضرورت زمین سے پوری ھوئی۔ پودے حیوانات كے كام آئے۔ حیوانات محتاج غذا تھے۔ اگر غذا نہ ملتی تو وہ زندہ نھیں رہ سكتے تھے۔ پودوں نے اس ضروریات كو پورا كیا۔ اور اسی طرح حیوان كی قربانی انسان كے لئے ھوئی۔ كیونكہ انسان بھی غذا كا محتاج تھا۔ حیوانات و نباتات سے وہ ضرورت پوری ھوئی لھٰذا قربانی كا تصور صحیح ھوا مگر انسان سے مافوق جو ذات ھے وہ غنی بالذات ھے اور فنا و تغیّر سے بری ھے پھر اس كے لئے قربانی كا امكان كس طرح ھے؟
مگر قرآن مجید نے اس مشكل كو ایك لفظ سے حل كیا ھے۔ مقصدِ قربانی كے اظھار كے لئے ارشاد ھوا ھے۔ فی سبیل اللہ"راہِ خدا میں" ظاھر ھے كہ راستہ عین منزل نھیں ھوتا۔ راستہ اور ھوتا ھے، منزل اور ھوتی ھے۔ اس سے معلوم ھوا كہ مقصد قربانی ذاتِ الٰھی نھیں بلكہ وہ مقاصد ھیں جو اسے پسند ھیں۔ ان مقاصد كے لئے جان دی جائے وہ"ھلاكت شھادت" قرار پائے گی اور جو پست مقاصد كے لئے جان دی جائے وہ "ھلاكت ھے"
اسے زیادہ صاف لفظوں میں یوں سمجھا جا سكتا ھے، كہ ھلاكت اور شھادت كے مابین دو درجوں كا فرق ھے اس لئے كہ درمیان كی منزل سمجھنا چاھئے فطری موت كو۔ جس كا مطلب یہ ھے كہ كسی خاص مقصد كی خاطر اختیار جان نھیں دی بلكہ بیمار ھوئے، كوئی اتفاقی حادثہ پیش آیا، یا عمر طبیعی پوری ھو گئی۔ مر گئے۔ یہ درمیان كا درجہ ھے۔ بایں معنیٰ كہ اس میں نہ ترقی ھے نہ تنزّلی، نہ ثواب اور نہ عذاب۔
غلط فھمی نہ ھو۔ میرا یہ مطلب نھیں كہ اعمال كا ثواب و عذاب ھوگا بلكہ یہ مطلب ھے كہ اس موت كا كوئی ثواب یا عذاب نھیں۔ نہ یہ شكریہ؟ ؟ ؟ یہ تو ھوئی وسط كی منزل۔ اس كے نیچے ھے ھلاكت یعنی باختیار پست مقصد كی خاطر جان دنیا اس میں عذاب ھے اور اس كے اوپر ھے شھادت یعنی باختیار بلند مقصد كے لئے جان دینا جس میں حیاتِ جاودانی ھے اور بیش قرار اجر و ثواب۔
اب جس وقت كی ھلاكت اور شھادت میں اتنا فرق ھے، تو كسی شھید راہِ خدا كے اقدامات عملی كے مقابل میں یہ آیت پیش كرنا ھر گز درست نھیں ھے كہ" لاَ تُلقُوا بِاَیدِیكُم اِلَی الَّتھلُكَۃِ" (یعنی) اپنے ھاتھوں ھلاكت میں نہ پڑو۔
یہ سوال كبھی درست نہ ھوگا۔ كہ قرآن میں ھلاكت كی طرف جانے سے روكا ھے پھر حضرت امام حسین(ع) جانتے تھے كہ كربلا میں كیا ھوگا۔ تو عراق كی طرف كس لئے آئے؟ یا جانتے تھے كہ میدان میں تیرِ ستم كا اندیشہ ھے، تو علی اصغر(ع) كو كیون لے گئے۔ یا جانتے تھے كہ آپ اور آپ كے تمام ساتھ والے مجاھدین شھید ھو جائیں گے تو اھل حرم كو اپنے ساتھ كیون لائے؟
یہ سوال بالكل غلط ھے۔ اس لئے كہ قرآن نے جو روكا ھے وہ ھلاكت كی طرف جانے سے روكا ھے۔ شھادت كی طرف جانے سے نھیں ۔ منزلِ شھادت كی طرف جانے والا خطرہ كو سمجھتا ھے اور اگر خطرہ محسوس نہ كرے تو صبر و ثباتِ قدم كی قیمت ھی كیا ھوگی۔ وہ اتفاقی حادثہ قرار پائے گا۔ مگر وہ نگاہ فرض شناس كی ترازو میں جان اور مقصد كی اھمیت كا موازنہ كرتا ھے اور پھر مقصد كو جان كے مقابلہ میں ترجیح دے كر بقدمِ اخیتار آگے بڑھتا ھے۔ اس كا نام ھوتا ھے "شھادت"
اب یہ ھمت دل اور مقصد كی بلندی كے مراتب ھیں كہ كوئی اپنی ھی جان دے اور كوئی اپنے دل كے ٹكڑوں كو، وابستہ افراد كو اور اپنے سے متعلق ھر عزیز چیز كو مقصد پر نثار كردے۔
واقعۂ كربلا اس باب میں منفرد نظر آتا ھے۔ ھر معركہ میں معیّن كر كے بتا سكتے ھیں كہ یہ قربانی پیش كی گئی۔ لیكن كربلا میں تو یہ سوچنا ھے كہ كیا چیز نھیں قربان كی گئی۔ یھاں جو بھی شے كسی شخص كو عزیز ھو سكتی ھے۔ وہ مقصد كی راہ میں نثار كر دی گئی بلكہ حضرت امام حسین(ع) نے ایسا انتظام كیا كہ قربانی آپ كی زندگی تك محدود نہ رھے۔ آپ اپنے ساتھ ایك قربانیوں كا لشكر لائے تھے جو عصر كے ھنگام تك جھاد كرتا رھا۔ اور ایك قربانیوں كا خاموش قافلہ لائے تھے جس كا جھاد عصر كے بعد سے شروع ھوا دنیا والے كھتے تھے كہ آپ جانتے ھیں تو عورتوں اور بچوں كو كیوں لئے جا رھے ھیں۔ مگر حضرت امام حسین(ع) تو اپنی قربانی كو مقصد كی بلندی كے مطابق ركھنا چاھتے تھے۔ آپ محسوس فرماتے تھے كہ اسلامی احساسات پر كتنی شدید غشی چھائی ھوئی ھے اور اس كے لئے كتنے تیز چھینٹے كی ضرورت ھے۔ آپ كو دشمنوں كی شقاوت كا بھی صحیح اندازہ تھا۔ اور اس كے نتائج بھی پوری طرح پیش نظر تھے اور اس سب كا لحاظ كرتے ھوئے آپ نے اپنی قربانی كے اجزاء مرتب فرمائے تھے۔ جو مقصد الٰھی كے تحفظ كے لئے ضروری تھے۔
اب واقعۂ كربلا كی روشنی میں ھلاكت اور شھادت كا فرق بھت صاف محسوس ھو جاتا ھے۔ ادھر كم از كم تیس ھزار اور ادھر صرف بھتّر یا زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو۔ لیكن اس كے باوجود یہ نھیں سمجھنا چاھئے كہ ادھر والے بالكل مطمئن تھے۔ نھین وہ بھی جانیں دے رھے تھے ان مین سے ھر فرد كو خطرہ كا احساس تھا۔ اس لئے كہ اس كے قبل كے بدر و احد اور خندق و خیبر یا پھر جمل و صفین اور نھروان كے تذكرے ابھی دماغوں سے بالكل محو تو نھیں ھوئے تھے اور پھر ماضی قریب میں اپنی آنكھوں سے دیكھ چكے تھے كہ كوفہ میں تن تنھا مسلم بن عقیل(ع) نے جنگ میں وہ كارِ نمایاں انجام دیا كہ محمد بن اشعث كو اپنے ساتھ كافی جمیعت ركھتے ھوئے ابنِ زیاد سے كمك منگانا پڑی اور جب ابنِ زیاد نے كھا كہ ایك آدمی كے مقابلہ كے كئے اتنی فوج كیا كافی نھیں ھے۔ تو محمد بن اشعث نے جواب دیا كہ كیا مجھے كوفہ كے كسی بنیے بقال سے مقابلہ كے لئے بھیجا ھے؟ ارے یہ محمد(ص) كی تلواروں میں ایك تلوار ھے۔ اب دیكھئے كہ كوفہ میں تو صرف ایك تلوار تھی لیكن كربلا میں كم از كم اٹھارہ تلواریں تھیں او رجو انصار حسینی(ع) تھے وہ بھی كوئی معمولی افراد نہ تھے۔ ان كے لئے سردارانِ فوج یزید كے یہ الفاظ تھے كہ یہ سب كوفہ كے مخصوص شھسوار ھیں جو ھمارے مقابلہ میں نبردآزما ھیں۔ اسی كا نتیجہ ھے كہ ان قلیل افراد كے قدم تو ایك دفعہ بھی پیچھے نھیں ھٹے لیكن تیس ھزار فوج نے كئی مرتبہ میدان چھوڑا۔ اس كے بعد یہ ماننا ضروری ھے كہ ادھر والے بھی جانیں دے رھے تھے۔ لیكن كاھے كے لئے؟ وہ مقصد ان كے سالار(عمر سعد) كے اس اعلان سے ظاھر ھے جو اس نے تیر چلۂ كمان میں جوڑتے ھوئے بلند آواز سے كھا تھا۔ اور فوج والوں كو مخاطب كركے كھا تھا كہ گواہ رھنا كہ پھلا تیر فوج حسینی كی طرف میں نے رھا كیا ھے۔ بس واقعۂ كربلا كا پورا پس منظر اس ایك جملہ میں مضمر ھے عمر سعد نے فوج والوں كو گواہ كیا ھے۔ كھاں كے لئے؟ دربارِ حكومت میں گواھی دینے كے لئے۔ یعنی تمام كارنامہ كا مقصد حكومت وقت كی رضا جوئی اور جائزہ و انعام كی ھوس ھے۔ اب اس راہ میں جو جانیں گئیں اسے ھلاكت كے سوا اور كیا كھا جا سكتا ھے؟
دوسری طرف حضرت امام حسین(ع) نے بھی ایك وقت اپنے عمل پر گواھی چاھی۔ وہ كب؟ جب فرزند جوان مرنے كے لئے روانہ ھو رھا تھا بوقت رخصت علی اكبر(ع) ، حسین(ع) نے ھاتھ اٹھائے۔ بارگاہِ الٰھی میں كھا پروردگارا گواہ رھنا كہ اب وہ جا رھا ھے، جو صورت و سیرت، رفتار اور گفتار میں تیرے رسول(ص) سے مشابہ ھے۔ جب ھم مشتاقِ زیارت رسول(ص) ھوتے تھے تو اپنے اس فرزند كو دیكھ لیتے تھے۔"
چونكہ عمر سعد كا مقصد عمل خود واقعہ كا نگران نھیں تھا۔ اس لئے دوسروں كی گواھیاں دركار ھوئیں۔ لیكن حسین(ع) كا مقصدِ قربانی خود حاضر و ناظر تھا۔ لھٰذا دوسرے كو گواہ كرنے كی ضرورت نہ تھی۔ خود اسی كے سامنے اپنی وارداتِ قلب پیش كردی۔
یہ تھی وہ قربانی جو مركزِ اعلیٰ كی خاطر پیش ھو رھی تھی۔ اس لئے وہ شھادت كا مصداق ھوئی جو حیاتِ جاوید كی ضامن ھے۔
یون تو اس حیاتِ جاوید اور اس كے بالمقابل فنا كی حقیقت ھی دوسری ھے۔ مگر ظاھر آثار كے اعتبار سے بھی دیكھئے تو كربلا میں ھلاك ھونے والے كتنے تھے۔ وہ یقیناً شھید ھونے والوں كی تعداد سے بھت زیادہ تھے۔ كیونكہ كربلا كے مجاھدین میں سے ھر ایك كے ھاتھ سے كئی كئی آدمی قتل ھوئے۔ بعض مجاھدین كے حال میں ھے كہ"ضجت الاعدآء من كثرۃ القتلیٰ بینھم": "فوج دشمن كثرتِ مقتولین سے چیخ اٹھی" مگر ان بے شمار مرنے والوں كا نام و نشان بھی قطعاً موجود نھیں۔ یہ ھے ھلاكت جس كا نتیجہ حقیقی معنی میں مٹ جانا ھے۔ اور امام حسین(ع) كے ساتھ والے قیامت تك كی زندگی ركھتے ھیں یھاں تك كہ ۶ مھینے كی جان علی اصغر جو باپ كے ھاتھوں پر شھید ھو گئے ان كے لئے وہ چھ مھینے كی زندگی اس مصرف میں صرف ھونے كے بعد اس طولانی حیات مں تبدیل ھو گئی جس كی كوئی انتھا ھی نھیں۔
یہ شھید ھونے والے ایسے تھے جنھوں نے مقصد كی بلندی كو دیكھ كر اپنی جانیں باختیار خود نذر كر دیں۔ شك كی گنجائش نھیں ھے۔ یقیناً باختیار۔ اسے یوں ھی دیكھ لیجئے كہ كربلا میں انكارِ بیعت جس وقت بھی اقرار سے بدل جاتا اسی وقت جانیں خطرہ سے محفوظ ھو جاتیں لیكن انكار انتھا تك رھا۔ بڑوں كا كیا ذكر كسی بچہ تك نے امام سے نھیں كھا كہ بس اب مصائب نھیں اٹھتے۔ اب بیعت كر لیجئے۔
یھاں تك كہ جب امام(ع) شھید ھو گئے اور اھلِ حرم رہ گئے۔ تو ان میں سے كبھی كسی كے ذھن میں بیعت كا خیال پیدا نھیں ھوا۔ یزید ظلم كرتے كرتے عاجز ھو گیا اور آخر میں جب احساسِ شكست ھوا تو پشیمانی كا اظھار كرنے لگا۔ لیكن حضرت امام حسین(ع) كے بعد كسی ان كے یھاں كے غلام یا كنیز یا آج تك ان كے كسی نام لیوا تك كو پشیمانی نھیں ھوئی۔
وہ پشیمانی كیا تھی؟ اپنی موت كا احساس تھا۔ جس میں غلط مقصد میں كوشش كرنے والے كو مبتلا ھونا ھے۔ خواہ وہ كچھ عرصہ تك دنیا میں زندہ رھے تو وہ زندگی بھی اس كی موت ھے اور خواہ اس راستے پر مرجائے تو وہ مرنا بھی ھلاكت ھے۔ جو دائمی ھے اور موت سے بدتر ھے۔
اور كارنامۂ حسینی(ع) پر نازش و بالیدگی كا سبب صرف حیات جاودانی كا احساس ھے۔ جو شھادت كے ساتھ وابستہ ھے۔ اور جتنا شھادت كا مرتبہ رفیع ھوگا۔ اتنے ھی زندگی كے نقوش زیادہ نمایاں ھوں گے۔ جیسا كہ شھید كربلا حضرت امام حسین(ع) جو سید الشھداء(ع) تھے۔ ان كی شھادت سے حاصل شدہ زندگی بھی ھر زندگی سے زیادہ درخشاں اور پائدار ھے ۔
منبع: مقالات سید العلماء (عظمت حسین - ع) / سید العلماء علی نقی نقوی (ره)
source : http://www.sadeqin.com/View/Articles/ArticleView.aspx?ArticleID=281&LanguageID=6