امام مہدی اورحج کعبہ
یہ مسلمات میںسے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہرسال حج کعبہ کے لئے مکہ معظمہ اسی طرح تشریف لے جاتے ہیں جس طرح حضرت خضروالیاس جاتے ہیں (سراج القلوب ۷۷) علی احمد کوفی کابیان ہے کہ میں طواف کعبہ میں مصروف ومشغول تھا کہ مےری نظرایک نہآیت خوبصورت نوجوان پرپڑی ،میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ اورکہاںسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ”انا المھدی وانا القائم۔“ میں مہدی آخرالزماں اورقائم آل محمد ہوں ۔ غانم ہندی کابیان ہے کہ میں امام مہدی کی تلاش میں ایک مرتبہ بغداد گیا،ایک پل سے گزرتے ہوئے مجھے ایک صاحب ملے اور وہ مجھے ایک باغ میں لے گئے اورانھوںنے مجھ سے ہندی زبان میں کلام کیا اورفرمایاکہ تم امسال حج کے لئے نہ جاؤ،ورنہ نقصان پہونچے گا محمد بن شاذان کاکہنا ہے کہ میں ایک دفعہ مدینہ میں داخل ہوا توحضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،انھوں نے مےراپورانام لے کرمجھے پکارا ،چونکہ میرے پورے نام سے کوئی واقف نہ تھا اس لئے مجھے تعجب ہوا۔ میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟فرمایا میں امام زمانہ ہوں ۔ علامہ شیخ سلےمان قندوزی بلخی تحرےرفرماتے ہیں کہ عبداللہ بن صالح نے کہا کہ میں نے غیبت کبری کے بعد امام مہدی علیہ السلام کوحجراسود کے نزدےک اس حال میں کھڑے ہوئے دےکھاکہ انھےں لوگ چاروں طرف سے گھےرے ہوئے ہیں ۔ (ےنابع المودة )۔
زمانہ غیبت کبری میں امام مہدی کی بیعت
حضرت شیخ عبداللطےف حلبی حنفی کاکہناہے کہ میرے والد شیخ ابراہےم حسین کاشمارحلب کے مشائخ عظام میں تھا ۔وہ فرماتے ہیں کہ میرے مصری استاد نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضر ت امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھ پربیعت کی ہے۔ (ےنابع المودةباب ۸۵ ص ۳۹۲ )
امام مہدی کی مومنین سے ملاقات
رسالہ جزیرہ خضرا کے ص ۱۶ میں بحوالہ احادےث آل محمد مرقوم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ہرمومن کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ اوربات ہے کہ مومنین انھےں مصلحت خداوندی کی بناء پراس طرح نہ پہچان سکےن جس طرح پہچاننا چاہےے مناسب معلوم ہوتاہے اس مقام پرمیں اپناایک خواب لکھ دوں ۔
واقعہ یہ ہے کہ آج کل جبکہ میں امام زمانہ کے حالات لکھ رہاہوں حدےث مذکورہ پرنظرڈالنے کے بعد فورا ذہن میں یہ خیال پےداہواکہ مولا سب کودکھائی دےتے ہیں ،لےکن مجھے آج تک نظرنہیں آئے ،اس کے بعد میں استراحت پرگیا اورسونے کے ارادے سے لےٹاابھی نےند نہ آئی تھی اورقطعی طورپرنےم بےداری کی حالت میں تھا کہ ناگاہ میں نے دےکھا کہ میرے کان سے جانب مشرق تابحد نظرایک قوسی خط پڑاہواہے یعنی شمال کی جانب کاسارا حصہ عالم پہاڑہے اوراس پرامام مہدی علیہ السلام برہنہ تلوارلئے کھڑے ہیں اوریہ کہتے ہوئے کہ ”نصف دنیاآج ہی فتح کرلوں گا ۔“ شمال کی جانب ایک پاؤں بڑھارہے ہیں آپ کاقد عام انسانوں کے قد سے ڈےوڑھا اورجسم دوہراہے ،بڑی بڑی سرمگےن آنکھےں اورچہرہ انتہائی روشن ہے آپ کے پٹے کٹے ہوئے ہیں اورسارا لباس سفےد ہے اوروقت عصرکاہے۔ یہ واقعہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸ شب ےکشنبہ بوقت ساڑھے چاربجے شب کاہے۔
ملامحمد باقرداماد کاامام عصرسے استفادہ کرنا
ہمارے اکثرعلماٴ علمی مسائل اورمذہبی ومعاشرتی مراحل حضرت امام مہدی ہی سے طے کرتے آئے ہیں ملامحمد باقرداماد جوہمارے عظیم القدرمجتہد تھے ان کے متعلق ہے کہ ایک شب آپ نے ضرےح نجف اشرف میں ایک مسئلہ لکھ کرڈالا اس کے جواب میں ان سے تحرےرا کہاگیاکہ تمھارا امام زمانہ اس وقت مسجدکوفہ میں نمازگذارہے تم وہاں جاؤ،وہ وہاں جاپہونچے ،خود بخود دروازہ مسجد کھل گیا ۔ اورآپ اندرداخل ہوگئے آپ نے مسئلہ کاجواب حاصل کیا اواآپ مطمئن ہوکر برآمد ہوئے۔
جناب بحرالعلوم کا امام زمانہ سے ملاقات کرنا
کتاب قصص العلماٴ مولفہ علامہ تنکابنی ص ۵۵ میں مجتہد اعظم کربلائے معلی جناب آقا محمدمہدی بحرالعلوم کے تذکرہ میں مرقوم ہے کہ ایک شب آپ نماز میں اندرون حرم مشغول تھے کہ اتنے میں امام عصراپنے اب وجدکی زیارت کے لئے تشریف لائے جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت ہوئی اوربدن میں ایک قسم کا رعشہ پےداہوگیا پھرجب وہ واپس تشریف لے گئے توان پرجوایک خاص قسم کی کےفےت طاری تھی وہ جاتی رہی ۔اس کے علاوہ آپ کے اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورہ میں مندرج ہیں ۔
امام مہدی علیہ السلام کاحمایت مذہب فرمانا واقعہ ٴانار
کتاب کشف الغمہ ۱۳۳ میں ہے کہ سےد باقی بن عطوہ امامیہ مذہب کے تھے اوران کے والدزےدیہ خیال رکھتے تھے ایک دن ان کے والدعطوہ نے کہا کہ میں سخت علےل ہوگیاہوں اوراب بچنے کی کوئی امےدنہیں ۔ہرقسم کے اطباٴ کاعلاج کراچکاہوں، اے نورنظر ! میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اگرمجھے تمہارے امام نے شفادےدی ،تومیں مذہب امامیہ اختیارکرلوںگا یہ کہنے کے بعد جب یہ رات کوبسترپرگئے توامام زمانہ کاان پرظہورہوا،امام نے مقام مرض کواپناہاتھ سے مس کردیا اوروہ مرض جاتارہا عطوہ نے اسی وقت مذہب امامیہ اختیارکرلیا اور رات ہی میں جاکر اپنے فرزند باقی علوی کوخوشخبری دےدی ۔
اسی طرح کتاب جواہرالبیان میں ہے کہ بحرین کاوالی نصرانی اوراس کاوزیرخارجی تھا ،وزیرنے بادشاہ کے سامنے چند تازہ انار پےش کئے جن پرخلفاٴ کے نام علی الترتےب کندہ تھے اوربادشاہ کوےقےن دلایاکہ ہمارامذہب حق ہے اورترتےب خلافت منشاٴقدرت کے مطابق درست ہے بادشاہ کے دل میں یہ بات کچھ اس طرح بےٹھ گئی کہ وہ یہ سمجھنے پرمجبور ہوگیا کہ وزیرکامذہب حق ہے اورامامیہ راہ باطل پرگامزن ہیں ،چنانچہ اس نے اپنے خیال کی تکمیل کے لئے جملہ علماٴ امامیہ کو جواس کے عہد حکومت تھے بلابھےجا اورانھےں اناردکھاکر ان سے کہاکہ اس کی رد میں کوئی معقول دلےل لاؤ ورنہ ہم تمہیںقتل کرکے تمام مذہب کوبےخ وبن سے اکھاڑدیں گے ،اس واقعہ نے علماٴکرام میںایک عجےب قسم کاہےجان پےداکردیا ، بالاخرسب علماء آپس میں مشورہ کے بعد اےسے دس علماٴ پرمتفق ہوگئے جوان میں نسبتا مقدس تھے اورپروگرام یہ بنایا کہ جنگل میں ایک ایک عالم بوقت شب جاکرامام زمانہ سے استعانت کرے ،چونکہ ایک شب کی مہلت ومدت ملی تھی ،اس لئے پرےشانی زیادہ تھی غرضکہ علماء نے جنگل میں جاکرامام زمانہ سے فریاد کاسلسلہ شروع کیا۔دوعالم اپنی اپنی مدت ،فریادوفغاں ختم ہونے پرجب واپس آئے اورتےسرے عالم حضرت محمدبن علی کی باری آئی توآپ نے بدستورصحرامیں جاکرمصلی بچھادیا ،اورنماز کے بعد امام زمانہ کواپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لےکن ناکام ہوکر واپس آتے ہوئے انھےں ایک شخص راستے میں ملا اس نے پوچھا ۔ کیابات ہے کےوں پرےشان ہو،آپ نے عرض کی امام زمانہ کی تلاش ہے اوروہ تشریف لانہیں رہے ۔
اس شخص نے کہا :” اناصاحب العصرفاذکرحاجتک “ میں ہی تمہارا امام زمانہ ہوں ،کہوکیاکہتے ہو محمدبن علی نے کہا کہ اگرآپ صاحب العصرہیں توآپ سے حاجت بیان کرنے کی ضرورت کیا،آپ کوخود ہی علم ہوگا ۔ اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ سنو ! وزیرکے فلاں کمرہ میں ایک لکڑی کا صندوق ہے اس مٹی کے چند سانچے رکھے ہوئے ہیں جب انارچھوٹاہوتاہے وزیراس پرسانچہ چڑھادےتاہے ۔ اورجب وہ بڑھتاہے تواس پروہ نام کندہ ہوجاتے ہیں جوسانچہ میں کندہ ہیں محمد بن علی ! تم بادشاہ کواپنے ہمراہ لے جاکروزیرکے دجل وفریب کوواضح کردو،وہ اپنے ارادہ سے بازآجائے گا اوروزیرکوسزا دے گا چنانچہ اےساہی کیاگیا اوروزیربرخواست کردیا گیا ۔ (کتاب بداےع الاخبارملا اسماعےل سبزواری ص ۱۵۰ وسفےنة البحارجلد ۱ ص ۵۳۶ طبع نجف اشرف)۔
امام عصرکا واقعہٴ کربلابیان کرنا
حضرت امام مہدی علیہ السلام سے پوچھاگیا کہ ” کھےعص “ کاکیامطلب ہے توفرمایا کہ اس میں (ک)سے کربلا (ہ) سے ہلاکت عترت (ی ) سے ےزےدملعون (ع) سے عطش حسینی (ص ) سے صبرآل محمدمراد ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ آیت میں جناب زکریاکاذکر کیاگیا ہے ۔جب زکریاکوواقعہٴ کربلاکی اطلاع ہوئی تووہ تین روزتک مسلسل روتے رہے ۔(تفسیرصافی ص ۲۷۹) ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے طول عمرکی بحث
بعض مستشرقین وماہرین اعمارکاکہناہے کہ ”جن کے اعمال وکرداراچھے ہوتے ہیں اورجن کا صفائے باطن کامل ہوتاہے ان کی عمرےں طویل ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ علماٴ فقہاء اورصلحاٴکی عمریں اکثرطویل دےکھی گئی ہیں اورہوسکتاہے کہ طول عمرمہدی علیہ السلام کی یہ بھی ایک وجہ ہو ،ان سے قبل جوآئمہ علہےم السلام گزرے وہ شہےدکردئےے گئے ،اوران پردشمنوں کادسترس نہ ہوا ،تویہ زندہ رہ گئے اوراب تک باقی ہیں لےکن میرے نزدےک عمرکاتقرر وتعےن دست اےزد میں ہے اسے اختیارہے کہ کسی کی عمرکم رکھے کسی کی زیادہ اس کی معین کردہ مدت عمر میںایک پل کابھی تفرقہ نہیں ہوسکتا ۔
تواریخ واحادیث سے معلوم ہوتاہے کہ خداوندعالم نے بعض لوگوں کوکافی طویل عمرےں عطاکی ہیں ۔ عمرکی طوالت مصلحت خداوندی پرمبنی ہے اس سے اس نے اپنے دوست اوردشمن دونوں کونوازاہے ۔دوستوں میں حضرت عیسی ،حضرت ادرےس ،حضرت خضروحضرت الیاس ، اوردشمنوں میں سے ابلےس لعےن ،دجال بطال ،یاجوج ماجوج وغےرہ ہیں اورہوسکتاہے کہ چونکہ قیامت اصول دین اسلام سے ہے اور اس کی آمد میں امام مہدی کاظہورخاص حیثیت رکھتاہے لہذا ان کازندہ وباقی رکھنامقصودہاہو ،اوران کے طول عمرکے اعتراض کورداوررفع ودفع کرنے کے لئے اس نے بہت سے افراد کی عمرےں طویل کردی ہوں مذکورہ ا فراد کوجانے دےجئے ۔ عام انسانوں کی عمروں کودےکھئے بہت سے اےسے لوگ ملےں گے جن کی عمرےں کافی طویل رہی ہیں ،مثال کے لئے ملاحظہ ہو :
۱ ) ۔ لقمان کی عمر ۳۵۰۰ سال ۔(۲) عوج بن عنق کی عمر ۳۳۰۰ سال اوربقولے ۳۶۰۰ سال ۔ (۳) ذوالقرنےن کی عمر۳۰۰۰ سال۔ (۴) حضرت نوح و(۵) ضحاک و(۶) طمہورث کی عمرےں ۱۰۰۰ سال۔(۷) قےنان کی عمر۹۰۰ سال ۔ (۸) مہلائےل کی عمر۸۰۰سال (۹) نفےل بن عبداللہ کی عمر۷۰۰ سال۔ (۱۰) ربےعہ بن عمرعرف سطےع کاہن کی عمر۶۰۰ سال ۔ (۱۱) حاکم عرب عامربن ضرب کی عمر۵۰۰ سال ۔ (۱۲) سام بن نوح کی عمر۵۰۰ سال۔ (۱۳) حرث بن مضاض جرہمی کی عمر۴۰۰ سال ۔ (۱۴) ارفخشد کی عمر۴۰۰ سال ۔ (۱۵) درےدبن زےدکی عمر۴۵۶ سال۔ (۱۶) سلمان فارسی کی عمر۴۰۰ سال۔ (۱۷) عمروبن روسی کی عمر۴۰۰ سال۔ (۱۸) زہےربن جناب بن عبداللہ کی عمر۴۳۰سال۔ (۱۹) حرث بن ضیاص کی عمر۴۰۰ سال۔ (۲۰) کعب بن جمجہ کی عمر۳۹۰ سال ۔ (۲۱) نصربن دھمان بن سلےمان کی عمر۳۹۰ سال۔ (۲۲) قےس بن ساعدہ کی عمر۳۸۰سال ۔ (۲۳) عمربن ربےعہ کی عمر۳۳۳سال۔ (۲۴) اکثم بن ضےفی کی عمر۳۳۶ سال ۔ (۲۵) عمربن طفےل عدوانی کی عمر۲۰۰ سال تھی (غایۃ المقصود ص۱۰۳ اعلام الوری ص۲۷۰ ) ان لوگوں کی طویل عمروں کودےکھنے کے بعدہرگزنہیں کہاجاسکتا کہ ”چونکہ اتنی عمرکاانسان نہیں ہوتا ،اس لئے امام مہدی کاوجود ہم تسلےم نہیں کرتے ۔ کےونکہ امام مہدی علیہ السلام کی عمراس وقت ۱۳۹۳ہجری میں صرف گیارہ سواڑتالےس سال کی ہوتی ہے جومذکورہ عمروں میں سے لقمان حکےم اورذوالقرنےن جےسے مقدس لوگوں کی عمروں سے بہت کم ہے ۔
الغرض قرآن مجید ،اقوال علماٴاسلام اوراحادےث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی پےداہوکر غائب ہوگئے ہیں اورقیامت کے قرےب ظہورکریں گے ،اورآپ اسی طرح زمانہٴ غیبت میں بھی حجت خداہیں جس طرح بعض انبیاء اپنے عہدنبوت میں غائب ہونے کے دوران میں بھی حجت تھے (عجائب القصص ص ۱۹۱ ) اورعقل بھی یہی کہتی ہے کہ آپ زندہ اورباقی موجودہیں کےونکہ جس کے پےداہونے پرعلماٴکااتفاق ہواوروفات کاکوئی ایک بھی غےرمتعصب عالم قائل نہ ہو اور
طویل العمرانسانوں کے ہونے کی مثالےں بھی موجود ہوں تولامحالہ اس کاموجود اورباقی ہونا ماننا پڑے گا ۔ دلےل منطقی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے لہذا امام مہدی زندہ اورباقی ہیں ۔
ان تماشواہد اوردلائل کی موجودگی میں جن کا ہم نے اس کتاب میں ذکرکیاہے ،مولوی محمد امےن مصری کا رسالہ ”طلوع اسلام “ کراچی جلد ۱۴ ص ۵۴# و ۹۴# میں یہ کہناکہ :” شےعوں کو ابتداء روی زمین پر کوئی ظاہری مملکت قائم کرنے میں کامیابی نہ ہوسکی ،ان کوتکلےفےں دی گئےں اورپراکندہ اورمنتشر کردیا گیا توانھوں نے ہمارے خیال کے مطابق امام منتظراورمہدی وغےرہ کے پرامےدعقائد اےجاد کرلئے تاکہ عوام کی ڈھارس بندھی رہے۔ “
اورملا اخوند دروےزہ کاکتاب ارشادالطالبین ص ۳۹۶ میں یہ فرمانا کہ :” ہندوستان میں ایک شخص عبداللہ نامی پےداہوگا جس کی بےوی کااےمنہ (آمنہ) ہوگی ، اس کے ایک لڑکاپےداہوگاجس کانان محمد ہوگاوہی کوفہ جاکرحکومت کرے گا …
لوگوں کایہ کہنا درست نہیں کہ امام مہدی وہی ہیں جوامام حسن عسکری کے فرزندہیں ۔ ا لخ حددرجہ مضحکہ خےز،افسوس ناک اورحےرت انگےز ہے ،کےونکہ علماٴ فریقین کااتفاق ہے کہ ”المھدی من ولدالامام الحسن العسکری ۔“ امام مہدی حضرت امام حسن عسکری کے بےٹے ہیں اور ۱۵ شعبان ۲۵۵ کوپےداہوچکے ہیں ،ملاحظہ ہو ،اسعاف الراغبےن ،وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن ا لوردی ،ےنابع المودة ، تاریخ کامل ،تاریخ طبری ،نورالابصار،اصول کافی ،کشف الغمہ ،جلاٴالعےون ،ارشادمفید ،اعلام الوری ،جامع عباسی ،صواعق محرقہ ،مطالب السول ،شواہدالنبوت ،ارجح المطالب ،بحارالانوار ومناقب وغےرہ۔
حدیث نعثل اورامام عصر
نعثل ایک یہودی تھا جس سے حضرت عائشہ ،حضرت عثمان کوتشبیہ دیاکرتی تھےں ،اوررسول اسلام علیہ السلام کب بعد فرمایا کرتی تھےں : اس نعثل اسلامی کو عثمان کوقتل کردو ۔ (ملاحظہ ہو،نہاےةاللغة علامہ ابن اثےرجزری ص ۳۲۱) یہی نعثل ایک دن حضوررسول کرےم کی خدمت میں حاضرہوکر عرض پردازہوا مجھے اپنے خدا ،اپنے دےن ،اپنے خلفاٴ کاتعارف کرائےے اگر میں آپ کے جواب سے مطمئن ہوگیا تومسلمان ہوجاؤں گا ۔ حضرت نے نہآیت بلےغ اوربہترین انداز میں خلاق عالم کاتعارف کرایا،اس کے بعد دےن اسلام کی وضاحت کی ۔ ”قال صدقت ۔“ نعثل نے کہا آپ نے بالکل درست فرمایا پھراس نے عرض کی مجھے اپنے وصی سے آگاہ کےجئے اوربتائےے کہ وہ کون ہے یعنی جس طرح ہمارے نبی حضرت موسی کے وصی ےوشع بن نون ہیں اس طرح آپ کے وصی کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا میرے وصی علی بن ابی طالب اور ان کے فرزند حسن وحسین پھرحسین کے صلب سے نوبےٹے قیامت تک ہوں گے ۔
اس نے کہا سب کے نام بتائےے آپ نے بارہ اماموں کے نام بتائے ناموں کوسننے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا اورکہنے لگا کہ میں نے کتب آسمانی میں ان بارہ ناموں کو اسی زبان کے الفاظ میں دےکھا ہے ،پھراس نے ہروصی کے حالات بیان کئے ،کربلا کاہونے والا واقعہ بتایا ،امام مہدی کی غیبت کی خبردی اورکہا کہ ہمارے بارہ اسباط میںسے لادی بن برخیاغائب ہوگئے تھے پھرمدتوں کے بعد ظاہر ہوئے اورازسرنودےن کی بنیادیں استوارکےں ۔حضرت نے فرمایا اسی طرح ہمارابارہواں جانشےن امام مہدی محمدبن حسن طویل مدت تک غائب رہ کر ظہورکرے گا ۔ اوردنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا ۔ (غایۃ المقصود ص ۱۳۴ بحوالہ فرائدالسمطےن حمویی )۔
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=1266&link_articles=holy_prophet_and_ahlulbayit_library/imam_mahdi/hazrat_imam_m_mahdi_alehisalam6