مکتب امام علی(ع) کے مثالی معاشرے اور آئیڈیل سوسائٹی کا تصور رسول پاک(ص) کی سیرت طیبہ کے بغیر ناممکن ہے آنحضور(ص)کی سیرت طیبہ کو نظریاتی اور عملی میادین میں اجرا کرنا امام کے مثالی معاشرے کے اہم ترین ارکان میں سے ہے دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ امام علی(ع) کا مثالی معاشرہ رسالت مآب(ص)کی سیرت کا عملی نمونہ ہے کیونکہ پیغمبراکرم(ص) اپنی پوری زندگی انہی دو مذکورہ رکن (توحید اور قرآن ) کو لوگوں کی زندگی میں نافذ کرنا چاہتے تھےپس آئیڈئیل سوسائٹی کے قیام کے لئے آپ توحید کا پیغام اور انسانیت ساز آئین لے کے بشریت کے پاس آئے تھے امام علی(ع) خطبہ نمبر(۱۶۰)میں اس بات کی جانب واضح الفاظ میں اشارہ کرتے ہیں کہ آنحضور(ص) کی زندگی مکمل طور سے نمونہ عمل ہے اسی لئے بیعت کے وقت لوگوں سے اس بات کا تعہد لیتے ہیں کہ میرے سارے امور کا مبنی اور محور قرآن اور آنحضور(ص) کی پاکیزہ اور مثالی سیرت رہے گی۔
(اَدعوکم الی کتاب الله و سنه نبية) ‘‘میں تمہیں کتاب خدا اور اسکے نبی کی سنت کی جانب دعوت دیتا ہوں’’
کیونکہ توحید کے بعد یہی دین کے اہم ستون میں حساب ہوتی ہےآپ شہادت سے پہلے اس حقیقت کی جانب اشارہ فرماتے ہیں کہ اگر معاشرے کو زندہ اور نورانی اور سعادتمند بنانا چاہتے ہو تو ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا ہوگا۔
(أَمَّا وَصِيَّتِي: فَاللهَ لاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً، وَمُحَمَّداً فَلاَ تُضَيِّعُوا سُنَّتَهُ، أَقِيمُوا هذَيْن الْعَمُودَيْنِ، وَأَوْقِدُوا هذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ) ”میری وصیت یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک قرار نہ دینا اور پیغمبر کی سنت کو ضائع نہ کرنا کہ یہی دونوں دین کے ستون ہیں انہیں کو قائم کرو اور انہیں دونوں چراغوں کو روشن رکھو“
آپ کی نظر میں سیرت نبوی (ص)سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور مضبوط سیرت ہے اگر اسے معاشرے کےبنیادی امور میں جگہ دی جائے تو مثالی معاشرے کی تشکیل بھی یقینی ہوجاتی ہے۔
(اقتدوا بهدی نبیکم فانه اصدق الهدی و استنو بسنة فانها اهدی السنن) ”اپنے نبی کی ہدایت کی اقتدا کرو کیونکہ وہ سب سے مصدق ہدایت ہے اورآپکی سنت اور سیرت پر عمل کرو کیونکہ وہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ سنت اور سیرت ہے“
امام اس حقیقت سے پردہ ہٹاتے ہیں کہ بعثت سے پہلے لوگ اختلافات اور انتشار کے شکار تھے معاشرہ بدحالی میں مبتلا تھا لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارتے تھے لیکن آنحضور(ص) کی ذات مبارک کی برکت سے وہ تفرقہ اور اختلافات کی گمراہی سے نجات پاکے اتحاد کی نورانی ہدایت اور سعادت سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں اور اس زمانے کے سب سے برے معاشرے کو دنیا کے سب سے اعلی اقدار رکھنے والے انسانی اور مثالی معاشرے میں تبدیل کرتے ہیں جو رہتی دنیا تک آنے والی ہر نسل کے لئے نمونہ عمل بن کے رہ گیا۔
(وَ اهْلُ الاَرْضِ يَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَهٌ وَ اهْواءٌ مُنَتِشرَهٌ وَ طَرائِقُ مُتشَتِّتَهٌ بَيْنَ مُشْبِّهٍ لِلّهِ بِخَلْقِهِ اوْ مُلْحِدٍ فِى اسْمِهِ اوْ مُشِيرٍ الى غَيْرِهِ، فَهَداهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلالَهِ وَ انْقَذَهُمْ بِمَكانِهِ مِنَ الْجَهالَهِ) ”اس وقت اہل زمین مختلف مذاہب ، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے۔ کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا ۔ کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا۔ اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔ مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے نجات دی اور جہالت سے باہر نکال لیا“
آپ (ع)کی نظر میں آنحضور(ص) نےنہ صرف ایک صالح اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے اصول و ضوابط لوگوں تک پہنچائے بلکہ عملی جد وجہد کے ذریعہ اسکی سنگ بنیاد بھی رکھی۔
(فَصَدَعَ بَمَا أُمِرَ بِهِ، وَبَلَّغَ رِسَالَةِ رَبِّهِ، فَلَمَّ اللهُ بِهِ الصَّدْعَ، وَرَتَقَ بِهِ الْفَتْقَ، وَأَلَّفَ بِهِ بَيْنَ ذَوِي الاَْرْحَامِ، بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِي الصُّدُورِ، والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِي الْقُلُوبِ) ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہونچادیا ۔ اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا۔ شگاف کو بھردیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اور دلو ںمیں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے“
از رسالت درجهان تکوين مـــــــا
از رسالت دين ما آئين مـــــــا
از رسالت صد هزارمــــا يک است
جزو مـــا از جزومالاينفک است
از رســالت همنوا گشتيم مـــــــا
همنفس، هممدعـــــا گشتيم ما
آن که شان او است يهدي من يريد
از رسالت حلقه گرد ما کشيد
لیکن پیغمبر اکرم(ع) کی پاکیز ہ سیرت کو سمجھنے اور مثالی معاشرے میں اجرا کرنے کے لئے ہم اہلبیت رسول(ع) کے در کے محتاج ہیں اگر صحیح معنوں میں ہمیں سیرت نبوی کو سمجھنا ہوگا تو اہلبیت کی جانب رجوع کرنا ہوگا کیونکہ وہیں حقیقی دین کے مالک ہیں حق اور حقیقت کا صحیح پیغام انہیں کے پاس موجود ہیں۔
(نَحْنُ الشِّعَارُوَالاَْصْحَابُ، وَالْخَزَنَةُ وَالاَْبْوَابُ، وَلاَ تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلاَّ مِنْ أَبْوَابِهَا، فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً فِيهِمْ كَرَائِمُ الْقُرْآنِ، وَهُمْ كُنُوزُ الرَّحْمنِ، إِنْ نَطَقُوا صَدَقُوا، وَإِنْ صَمَتُوا لَمْ يُسْبَقُوا) ”در حقیقت ہم اہلبیت ہی دین کے نشا ن اور اس کے ساتھی ، اس کے احکام کے خزانہ دار اور اس کے دروازے ہیں اور ظاہر ہے کہ گھروں میں داخلہ دروازوں کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے ورنہ انسان چور کہلائے گا۔ انہیں اہلبیت کے بارے میں قرآن کریم کی عظیم آیات ہیں اور یہی رحمان کے خزانہ دار ہیں یہ جب بولتے ہیں تو سچ کہتے ہیں اور جب قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں لے جا سکتا ہے“
اسی طرح خطبہ نمبر (97) میں ان کے نقش قدم پر ہوبہو چلنے کا حکم دیتے ہیں ان کی راہ سے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کو ہلاکت سے تعبیر کرتے ہیں پس ان فرمایشات کی بناپر مکتب نہج البلاغہ کے مثالی معاشرے میں آنحضرت(ص) کی پاکیزہ سیرت کو ایک مبنی اور رکنیت کی حیثیت سے ملحوظ نظر رکھنا ناقابل انکار حقیقت ہےلیکن اس سیرت طیبہ کو اجرا کرنے کے لئے ہمیں اہلبیت (ع) کی چوکھٹ پر سر تسلیم خم کئے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=3816&link_book=family_and_community_library/various_books/misali_muashira_nahjulbalagha_nigah_main