اردو
Sunday 29th of December 2024
0
نفر 0

عالمی اسلامی معاشرہ

تمام مسلمانوں کایہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں اورپیغمبر اکرم کی حدیثوں میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ کا پیغام اور آپ کی رسالت کوئی خصوصی دین اور علاقائی یاملکی سطح کی نبوت و رسالت نہیں تھی کہ جس سے صرف ایک سماج اور معاشرہ یا کسی خاص قوم و ملت یا علاقہ کی ہدایت و رہبری مقصود ہو اور اسلامی قوانین اور قرآنی احکام کسی ایک سماج یا معین ملک علاقہ یا کسی قوم و قبیلہ سے مخصوص نہیں ہیں۔

a تمام مسلمانوں کایہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں اورپیغمبر اکرم کی حدیثوں میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ کا پیغام اور آپ کی رسالت کوئی خصوصی دین اور علاقائی یاملکی سطح کی نبوت و رسالت نہیں تھی کہ جس سے صرف ایک سماج اور معاشرہ یا کسی خاص قوم و ملت یا علاقہ کی ہدایت و رہبری مقصود ہو اور اسلامی قوانین اور قرآنی احکام کسی ایک سماج یا معین ملک علاقہ یا کسی قوم و قبیلہ سے مخصوص نہیں ہیں ۔

 عمومی تبلیغ

  بلکہ اسلام کا پیغام پوری دنیا کے لئے ہے اور اسکے قوانین سب لوگوں کے واسطے ہیں اور وہ تمام مردوں،عورتوں ،مالدار ،فقیر ،کالے ،گورے،شہری یا دیہاتی بلکہ ہر طبقہ اور ہر صنف کے لئے ہدایت ہے(۲)

 پیغمبر اسلام    پوری کائنات کے لئے رحمت اور تمام عالمین کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے

(۱)یہ مقالہ مسجد اعظم کے کتب خانہ کے رسالہ میں شائع ہوا تھا ملاحظہ فرمائیے جلد ۲ شمارہ ۱۱۔

(۲)قرآن کریم کی وہ متعدد آیتیں ملاحظہ فرمائیں جن میں پیغمبر اکرم    کی رسالت کے عام ہونے کی صراحت موجود ہے جیسے:وما اٴرسلنٰک الا رحمة للعالمین ۔ان ہو الا ذکر للعالمین ۔قل یا ایھاالناس اني رسول اللہ الیکم جمیعا ً ۔مَن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ۔

تھے ان کی رسالت تمام لوگوں کو بری عادتوں اور استعمار وطاغوت کی غلامی سے نجات دلانے ، توحید پر ایمان اور اخلاقی اقدارنیز انسانی حقوق کو ادا کرنے کی دعوت دینے کے لئے تھی ۔

 ایک خدا کی عباد ت کی طرف دعوت دینا اور اس حسِین انداز سے تمام لوگوں کی ہدایت کرنا جس سے انکے اندر اتحاد کی فضا قائم ہو جائے ۔ ہر قسم کے فاصلے مٹ جائیں اور دوسروں پر ناحق کسی کو ترجیح دینے کا خاتمہ ہو سکے اور ایک عالمی سماج ، برادری اور ہر لحاظ سے نمونہٴ عمل شہر یا بستی کے قیام کے لئے کوشش کرنا یہ صرف اسلام کا ہی امتیاز ہے ۔

  تمام اختلافات کی بنیاد در اصل خدائے وحدہ لاشریک سے منھ موڑنا اور غیر خدا کی عبادت کرنا ہے ۔

 مختلف بنیادوں پر حکومتوں کا قیام اور انکے متضاد اور متصادم نظام اور ایک دوسرے کے مخالف قوانین یہ سب توحید کے معنی سے نا واقفیت ،خاص ماحول میں پرورش اور محدود ذہنیت کی بنیاد پر ہیں، اسلام کی عالمی رسالت کے فلسفہ پر توجہ اور عقیدہ ٴ توحید سے یہ بصیرت اور طہارت نظر پیدا ہوتی ہے کہ وہ سرحدوں اورزبانوں اور ہر طرح کے ضخیم پردوں کے پیچھے سے دنیا کے تمام علاقوں اور تمام لوگوں کو ایک انداز سے دیکھ لے اور اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کے سائے میں ایک عالمی حکومت قائم ہو جائے ۔

  حقیقی توحید

  اسلامی تبلیغ اور پیغام کا ایک اہم ستون، جس پر فلسفہٴ نبوت کا بھی دارو مدار ہے، وہ یہ ہے کہ ہر شریعت کا سرچشمہ اور تمام قوانین اور ہر طرح کے نظام کو بنانے والا، صرف خدا وند متعال ہی ہے، شریعتوں کے قوانین اور احکام سب اسی کی لازوال اور عالم و حکیم ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور لوگوں کو صر ف احکام خدا کے سامنے سرتسلیم خم کر نا چاہے ٴ اورخدا کے علاوہ کسی دوسرے کے احکام کے آگے یا غیر اسلامی قوانین کے سامنے سر جھکانے کا مطلب اسلام کے راستہ سے انحراف ،شرک کی طرف توجہ اور حقیقی توحیدتک نہ پہنچنا ہے (۱)

 احکام خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا در حقیقت خدا کے سامنے سر جھکانا اور اس کی عبادت کرنا ہے اور جن حکومتوں اور قوانین کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کی پابندی کر نا غیر خدا کی عبادت اور ان کی غلامی کو قبول کرنا ہے ۔

 جو شخص قانون اور احکام بنانے کو اپنا حق بھی سمجھتا ہو وہ خدا کے مخصوص افعال میں اپنے کو شریک قرار دیتا ہے اور جو شخص کسی دوسرے کے لئے ایسے حق کا اعتراف کرے تو اس نے اسکے خدا ہونے کا اقرارکیا ہے اور اس کی بندگی کو قبول کیا ہے ۔

  الٰہی حکومت

 اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے اوپر صرف خدا اور احکام خدا کی حکومت رہے، اسی لئے اس نے اس دور میںشرک کی ان تمام قسموں کا مقابلہ کیا جو اُس وقت ایران،روم یا دوسرے علاقوں میں بادشاہوں کے احترام کے نام یا کسی اور دوسری شکل میں رائج تھیں ۔

رہبران اسلام جیسے حضرت علی نے ہر ایک کے لئے یہ واضح کر دیا کہ دور جاہلیت میں روم اور ایران کے اندر جس شاہی ٹھاٹ باٹ کا چلن تھا وہ سب خدا پرستی کی روح کے سراسر مخالف اور مقام انسانیت کی توہین ہے ، حضرت علی علیہ السلام جیساخلیفہٴ مسلمین جنکی ذات اور شخصیت کا ہر پہلو انسانیت کی

(۱)موجودہ دور کے ایک بڑے دانشمند نے اپنی کتاب میں قرآن مجید کی چند آیتیں ذکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالاہے کہ دین ،قوانین، حدود ،شریعت اور فکری و عملی نظام کا نام ہے۔لہٰذا اگر کسی شخص کے پاس قوانین و حدود کی پابندی کے وقت کوئی خدا ئی دلیل ہو تو وہ دین خدا کے دائرہ میں ہے لیکن اگر اسکے سامنے کسی شخص یا حاکم کا حکم معیار ہو تو اسے اسی کا پیرو کہا جائے گا اسی طرح اگر وہ کسی قبیلے کے سردار یا عوام الناس کی رائے کے ماتحت چلے تو اسے انہیں کے دین کا پابند قرار دیا جائے گا۔

عظمت کی علامت ہے وہ بنفس نفیس بہت سارے کام خود کیا کرتے تھے غریبوں کے لئے آٹا، روٹی یا کھجور لے جاتے تھے اور اگر لوگ زمانہ ٴ جاہلیت کی رسموں کے مطابق آپ کے احترام یا آپ کے اعزاز میں کوئی خاص اہتمام کرنا چاہتے تھے تو آپ ان کو سختی سے منع کر دیتے تھے پرانے اور پیوند لگے ہوئے کپڑوں میں ہر جگہ آتے جاتے تھے خود ہی بازار جاتے تھے اور وہاں سے گھر کا لازمی سامان خرید کر خود ہی اپنے گھر پہنچاتے تھے ۔

 اولیائے خدا کا یہ اہتمام صرف اس لئے تھا تاکہ کوئی بھی اپنے کو کسی قوم کا حاکم اور لوگوں کی زندگی کا مالک و مختار نہ سمجھے بلکہ سب خدائی حکومت اور اسکے احکام کے دائرہ کے اندر رہیں اور تمام لوگوں کا حاکم اور ہا دی صرف خدا ہی ہو ۔

  آزادی ٴبشر کا اعلان

 یہ آیہٴ کریمہ:<قل یا اٴھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا یتخذ بعضنا بعضا ً اٴرباباً من دون اللّٰہ>(۱)

 ”اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہل کتاب آوٴ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اسکا شریک نہ بنائیں اور خدا کے علاوہ آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں “

 یہ ہر طرح کی آزادی اور حریت کا اعلان ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کا کوئی مالک اور صاحب اختیار نہیں ہے، کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پوری قوم کو اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے لہٰذا سب کو خدا کی حکومت کے دائرے میں داخل ہونا چاہئے کیونکہ وہی ہر ایک کا مالک و مختار ہے ۔ اس طرح پوری دنیا میں عدل و انصاف احسان ومساوات اور بھائی چارگی کا رواج پیدا ہو جائے اور ہر قسم کی اونچ نیچ

(۱)سورہٴ آل عمران آیت۶۴

اور دوریاں ختم ہو جائیں ۔

 تیز رفتار ترقی

 انہیں اصولوں کی وجہ سے اسلام نے ایک صدی سے کم مدت کے اندر برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی، دل روشن و منور ہو گئے اور رومی و ایرانی قوموں نے اپنے حاکموں کے ظلم و بربریت کا جو تلخ مزہ چکھ رکھا تھا اوروہ ان کی کھو کھلی اور بے بنیاد عزت و احترام سے تنگ آچکے تھے، انسان پرستی کی وبا نے ان کو شقاوت و بد بختی کیبد ترین وادیوں میں ڈال رکھا تھا، وہ سب ان تعلیمات کے صدقہ میں جب بیدار ہو گئے (۱)تو انہیں ہوش آیا اور انہوں نے اپنے کو پہچانا ،چنانچہ جب وہ لوگ عوام اور رعایا کے ساتھ یا فوجیوں کے ساتھ اسلامی حاکموں کا اچھا برتاوٴ دیکھتے تھے توانھیںبڑی خوشی ہوتی تھی، وہ اطمینان کی سانس لیتے تھے، انھوں نے آزادی کا ایسا مزہ چکھا کہ ایک دم اسلام کے دلدادہ اور عاشق ہو گئے،اگر خلافت اپنے راستے سے نہ بھٹکی ہوتی، خاص طور سے معاویہ جیسے لوگوں کی حکومت نے اگرقیصر وکسریٰ کے ٹھاٹ باٹ کو دوبارہ زندہ نہ کیا ہوتا، تو دنیا میں انسان پرستی کا کہیں نام و نشان بھی نہ ملتا ۔

  مختصر یہ کہ اسلام اپنی ان تعلیمات کے ساتھ ایک نہ ایک دن پوری دنیا میں ایک عادلانہ 

(۱)ہماری نظر میں انسان پرستی کا نقصان بت پرستی سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ انسان دوسروں کے ذریعہ احترام اورانکی تواضع و انکساری اور چاپلوسی کی وجہ سے مغرور ہو جاتا ہے اور اسکے اندر اس حد تک تکبر اور خود سری پیدا ہو جاتی ہے کہ دوسروں کی تنقیدوں یا مشوروں سے اس کی پیشانی پر بل پڑ جاتے ہیں اور وہ فرعونیت کا اظہار کرنے لگتا ہے اور اگر لوگ اس کی پوجا کریں یا اسکے سامنے سر تسلیم خم کئے رہیں تووہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن بت پرستی میں یہ نقصانات موجود نہیں ہیں یہ واقعاً بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ دور کی موڈرن کہی جانے والی دنیا میں بھی یہ انسان پرستی نئی یا پرانی شکلوں میں آج بھی باقی ہے۔

حکومت قائم کرے گا کیونکہ اسکاپیغام دنیا کے ہر انسان کے لئے ہے اور اس کی نظر میں ہر کالا گورا خدا کے احکام کے سامنے برابر ہے ۔

 اسلامی پرچم

 دین حق تمام انسانوں کو صرف ایک پرچم تلے جمع کرتا ہے جسکا تعلق صرف خدا سے ہے اور کسی ملک ،حکومت ،قوم، قبیلے یا کسی شخص سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہے اور اس طرح وہ پورے انسانی سماج کو ایک جسم کی طرح ایسا بنا دیتا ہے کہ:

  اذا اشتکیٰ منہ عضو تداعیٰ لہ سائرُہ بالحُمّیٰ والسھر

 یعنی جب کسی عضو میں کوئی درد پید ا ہوتا ہے تو دودسرے تمام اعضاء بھی بخار یا بیداری کے ذریعہ اسکے درد میں شریک ہو جاتے ہیں ۔

  اسلام کے اس پر چم اورجھنڈے کی یہ خاصیت ہے کہ اسکے نیچے دنیا کے ہرملک اور ہر طرح کے لوگ ایک ساتھ جمع ہو سکتے ہیں اور کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی یا اپنی قوم ا ور قبیلے کی طرف نسبت دے سکے کہ جس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے تعصب پیدا ہو جائے ۔

  اسلامی پرچم ایک ایسا پرچم ہے جس سے ہر پرانے اور نئے مسلمان کا رابطہ ہے، چاہے وہ کہیں رہتا ہواور اسکا تعلق کسی بھی سرزمین سے ہو، مختصر یہ کہ اسکے سائے میں ہر قسم کے قومی اور نسلی تعصب کا خاتمہ ہوتا ہے، لیکن دوسرے تمام پرچم چاہے وہ کسی نام سے ہوں ، اختلاف ،جدائی اور ذاتیات کی پہچان ہیں ۔

  اسلام کا ہر قانون سب کے لئے یکساں ہے، اگر اس کی ان تعلیمات پر عمل کیا جائے تو وہ خود بخود تمام قوموں کو ایک عالمی برادری کی طرف لے جائے گا اور تمام قوموں کو ایک اسلامی قوم کے اندر ضم کرکے انہیں دونوں جہان میں سعادت مند بنا دے گا ۔


source : http://www.islamshia-w.com/Portal/Cultcure/Urdu/CaseID/39680/71243.aspx
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
معاد اور تخلیق کا فلسفہ
مسلمان ایک جسم کی مانند
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ سوّم )
مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
علامہ محمد اقبال اور پیغام وحدت امت
اتحاد بین المسلمین کے دشمن کون ہیں اور کیوں
اسلام میں عید غدیر کی اھمیت

 
user comment