اردو
Saturday 21st of September 2024
0
نفر 0

امام زمانہ کے مخصوص مقامات (صلوات اللہ علیہ)

محدث نوری لکھتے ہیں یہ چیز مخفی نہیں ہے بعض ایسے مقامات ہیں کہ جو آخری حجت کے ساتھ مخصوص ہیں کہ جو ان کے نام سے مشہور ہیں جیسے وادی اسلام نجف اشرف میں اور مسجد سھلہ شہر کوفہ میں حلہ میں ایک معروف مقام ہے مسجد جمکران قم میں میری نظر یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں عاشقان حجت نے ان مقامات پر حضرت کو دیکھا ہے اور زیارت کی ہے یا یہ کہ ان مقامات پر حضرت کی طرف سے معجزہ ظاہر ہوا ہے اس لئے ان مقامات کو اماکن شریف میں سے شمار کیا گیا ہے یہ وہ مقام ہیں کہ جو ملائکہ کے اترنے کی جگہ ہے اور ان مقامات پر شیطان کا آنا بہت کم ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر دعا قبول ہوتی ہے بعض روایات میں پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ مقدم اماکن کو دوست رکھتاہے جیسے مساجد اماموں کے حرم ائمہ کے حرموں کی زیارت گاہ نیک لوگوں کی قبریں کہ جو قریب اور دور موجود ہیں۔

ہاں یہ خود اللہ کا لطف ہے کہ اپنے بندوں پر لطف کیا ہے۔

اللہ کے بندے کہ جو محتاج ہیں جنھوں نے راہ کو گم کردیا ہے اور معرفت کی تلاش میں ہیں وہ لوگ کہ جو اپنے لئے کوئی چارہ کار نہیں دیکھتے ہیں مجبور ہیں وہ لوگ کہ جو بیماری میں مبتلا ہیں کچھ مقروض ہیں کچھ لوگ ظالم دشمنوں سے خائف ہیں وہ سب محتاج ہیں غم نے ان کے وجود کو گھیر لیا ہے جو پریشانہیں ان کے حواس پراگندہ ہیں یہ سب کے سب ان مقدس مقامات میں پناہ حاصل کرتے ہیں اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ان مقامات میں درخواست کرتے ہیں۔ طبیعی ہے جتنا اس مقام کا قابل احترام کرتے ہیں اس مقدار میں نیکی پاتے ہیں ۔

مسجد کوفہ کی فضیلت

اب بعض ان مقامات کو بیان کروں گا کہ جو آخری حجت سے منسوب ہیں۔ مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جن کی طرف سفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ مساجد یہ ہیں ۱۔ مسجد الحرام مکہ مکرّمہ میں ۲۔مسجد النبی مدینہ منورہ میں ۳۔ مسجد الاقصی بیت المقدس میں ۴۔مسجد کوفہ اسی طرح مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جس میں انسان کو اختیار ہے کہ وہاں نماز قصر پڑھنا چاہے یا تمام پڑھنا چاہے وہ جگہیں یہ ہیں۔ ۱۔ مسجد الحرام ۲۔مسجد النبی ۳۔امام حسین کا حرم ۴۔مسجد کوفہ مسجد کوفہ وہ ہے کہ جس میں انبیاء اور اوصیاء نے نماز پڑھی ہیں۔ ایک روایت میں ہے اس مسجد میں ہزار پیغمبر اور ہزار اوصیاء نے نماز پڑھی ہیں مسجد کوفہ کے اعمال بہت زیادہ ہیں یہاں بیان نہیں کئے جاسکتے جو تفصیل سے دیکھنا چاہیں انہیں چاہیئے کہ سید علی بن طاوؤس کی کتاب مصباح الزائر میں دیکھیں۔

۲۔ مسجد سھلہ کی فضیلت

حضرت صاحب الزمان کا مقام بھی وہیں پر ہے شہر کوفہ میں مسجد کوفہ کے بعد سب سے بہترین مسجد مسجد سہلہ ہے وہاں حضرت ادریس اور ابراہیم کا مقام ہے وہاں حضرت خضر کے رہنے کی جگہ ہے ایک روایت میں ہے کہ وہاں پر پیغمبران اور نیک لوگوں کا مقام ہے اس مسجد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں۔

امام صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا گویا میں دیکھ رہاہوں کہ صاحب العصر اپنے اھل و عیال کے ساتھ مسجد سہلہ میں داخل ہوئے ہیں اور وہاں پر ساکن ہیں خداوند نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں پر نماز پڑی ہے جو بھی اس مکان میں نماز پڑھے ایسا ہے جیسے خیمہ رسول خدا میں پڑھی ہے کوئی موٴمن مرد اور عورت نہیں ہے مگر یہ کہ مسجد سہلہ میں جانے کا آرزو رکھتاہے اس مسجد میں ایک پتھر ہے کہ اس میں تمام پیغمبروں کی تصویر ہے۔

جو شخص بھی خلوص نیت سے اس مسجد میں نماز پڑھے اور دعا پڑھے خداوند تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے اس مسجد کے اور بھی فضائل ہیں ۔ حضرت صادق سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا: من صلّٰی رکعتین فی مسجد السہلہة زاد اللہ فی عمرہ عامین۔ جو بھی مسجد سہلہ میں دو رکعت نماز پڑھے خداوند تعالیٰ اس کی عمر میں دو سال اضافہ کرتاہے ایک اور روایت میں آیا ہے انّ منہ یکون النفخ فی الصور و یحشر من حولہ سبعون الفایدخلون الجنة بغیر حساب صور اس جگہ سے پھونکا جائے گا اور ستر ہزار آدمی اس کے اطراف میں محشور ہوں گے اور حساب کے بغیر بہشت میں داخل ہونگے۔

ابن قولویہ کتاب کامل الزیارات میں معتبر سند کے ساتھ حضرمی سے امام محمد باقر یا امام صادق سے روایت کی گئی ہے کہ کہا کہ میں نے امام سے عرض کیا سب سے بہتر مقام حرم خدا اور حرم رسول خدا کے بعد کیا ہے حضرت نے فرمایا: الکوفة یا ابابکر، ھی الزکیّة الطاھرة، فیھا قبور النبیّین المرسلین وغیر المرسلین و الاوصیاء الصادقین، و فیھا مسجد سھیل الّذی لم یبعث اللّٰہ نبیاً الّا وقد صلّی فیہ۔ ومنھا یظھر عدل اللّٰہ، و فیھا یکون قائمہ و القوّام من بعدہ، و ھی منازل النبیّین والأوصیاء و الصالحین۔ وہ مکان پاک و پاکیزہ ہے اس میں مرسل انبیاء اور غیر مرسل اور اوصیاء صادقین کی قبریں ہیں اور اس میں مسجد سہلہ ہے اللہ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس میں نماز پڑھی ہے اس شہر سے خدا کا عدل ظاہر ہوگا اسی میں قائم آل محمد ہے اور دین کو قائم کرے گا۔ یہی شہر انبیاء اوصیاء اور نیک لوگوں کی جگہ ہے۔

 

۳۔ جمکران کی مقدس مسجد

جمکران کی مسجد امام کے حکم سے بنائی گئی ہے پرہیزگار حسن بن مثلہ نے امام کے حکم سے کس طرح مسجد بنائی گئی ہے کہتے ہیں یہ واقعہ منگل کی رات سترہ ماہ رمضان مبارک میں ۳۹۳ ھجری قمری میں پیش آیا کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا رات کا کچھ حصہ گزرا تھا اچانک کچھ لوگوں نے ہمارے گھر کے دروازے کو دق الباب کیا اور مجھے بیدار کیا اور کہنے لگے اٹھیں امام آپ کو پکارتے ہیں حسن بن مثلہ کہتاہے میں جلدی سے اٹھا اور لباس کو تلاش کرتارہا تا کہ تیار ہوجاؤں میں نے کہ اکہ اجازت دیں تا کہ میں اپنی قمیض پہن لوں آواز آئی یہ تمہاری قمیض نہیں ہے اس کو نہ پہنو میں نے اس کو پھینک دیا اور اپنی قمیض کو دیکھا اور پہن لیا چاہا کہ شلوار پہن لوں آواز آئی یہ تمہاری شلوار نہیں ہے اپنی شلوار پہن لو اس کو چھوڑ کر اپنی شلوار پہن لی اس کے بعد دروازے کی چابی تلاش کرنے لگا تا کہ دروازہ کھول دوں اتنے میں آواز آئی اس کے لئے چابی کی ضرورت نہیں دروازہ کھلا ہوا ہے گھر کے دروازے پر آیا تو کچھ بزرگوں کو کہ جو میرا انتظار کر رہے تھے سلام کر کے عرض آداب کیا انہوں نے جواب دیا اور کوش آمدید کہا مجھے وہان پر لے گئے کہ جہاں اب مسجد جمکران موجود ہے غور سے دیکھا دیکھا کہ ایک نورانی تخت ہے جس پر عمدہ فرش ہے ایک خوبصورت جوان اس تخت پت بیٹھا ہوا ہے کہ جس کی عمر تقریباً تیس سال تھی تکیہ کا سہارا لیکر بیٹھا تھا ان کے سامنے ایک عمر رسیدہ شخص بٹھا ہوا تھا ایک کتاب اس کے ہاتھ میں تھی جو انھیں پڑھ کے سناتا تھا وہاں پر ساٹھ آدمی سفید اور سبز لباس میں ان کے اطراف میں نماز پڑھتے تھے

 وہ سن رسیدہ مرد حضرت خضر تھے اس بوڑھے مرد نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا میں وہاں پر بیٹھ گیا حضرت امام زمان میری طرف متوجہ ہوئے میرا نام لیکر پکارا اور فرمایا جا کر حسن مسلم سے کہو کہ تو نے کئی سال سے اس زمین کو غصب کر کے آباد کیا ہے اور زراعت کرتے ہو ہم اس کو خراب کریں گے پانچواں سال ہے کہ اس زمین میں غاصبانہ طور پر کاشت کی گئی ہے اس سال دوبارہ آباد کرنا چاہتے ہیں اب تمہیں حق نہیں ہے کہ اس زمین میں کاشت کرو اس زمین سے جو فائدہ بھی اٹھایا اس کو واپس کردو تا کہ اس جگہ مسجد بنالیں اور حسن مسلم سے کہو یہ زمین مبارک زمین ہے اور خداوند تعالیٰ نے اس زمین کو باقی زمینوں پر فضیلت دی ہے تو اس زمین کا مالک بن بیٹھا ہے اور اپنی زمین قرار دی ہے خدا نے تجھے تنبیہ کرنے کے لئے اور سزا دینے کے لئے تمہارے دو جوان بیٹوں کو لے لیا ہے لیکن تم اب بھی باز نہیں آتے ہو اگر اس کے بعد بھی باز نہ آیا تمہیں ایسی سزا ملے گی جو تمہیں معلوم نہیں ہوگا۔ میں نے کہا اے میرے مولیٰ اور آقا اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوئی علامت چاہتاہوں چونکہ لوگ پیغام کو نشانی اور علامت کے بغیر نہیں سنتے ہیں ۔ میری بات کو قبول نہیں کریں گے فرمایا ہم یہاں پر ایک علامت رکھ دیتے ہیں تا کہ تمہاری بات کو قبول کریں تم چلے جاؤ اور میرے پیغام کو پہنچادو اور سید ابوالحسن کے پاس چلے جاؤ اور ان سے کہو کہ اٹھیں اور زراعت کرنے والے کو حاضر کریں کئی سال سے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ اس سے لیکر لوگوں کو دیدیں تا کہ مسجد بنالیں اگر خرچہ کم ہوا تو باقی کو فلاں جگہ سے لے آئیں وہ ہماری ملکیت ہے وہاں سے لاکر مسجد کو مکمل کرلیں ہم نے نصف مُلک کو اس مسجد کے لئے وقف کیا ہے اس کی آمدنی لا کر اس مسجد پر خرچ کریں اور لوگوں سے کہیں کہ لوگ شوق سے اس مسجد میں آئیں اور اس کو اہمیت دیں وہاں پر چار رکعت نماز پڑھیں جناب حسن بن مثلہ کہتاہے جب میں نے یہ باتیں سنیں تو اپنے آپ سے کہا گویا یہ وہی مقام ہے کہ جس کے بارے میں فرماتے ہیں اور میں نے اشارہ کیا اس جوان کی طرف کہ جو تکیہ کا سہارا لیا ہوا تھا۔

مسجد جمکران بہت زیادہ اہمیت کی حاصل ہے ان میں سے بعض کو بیان کرتاہوں 

۱۔آخری حجت نے حسن بن مثلہ کے توسط سے حکم دیا ہے کہ مسجد مقدس کی بنیاد رکھ لے یہ واقعہ بیداری کی حالت میں فرمایا نہ کہ عالم خواب میں۔

۲۔ آخری حجت کے حکم سے کئی سال پہلے حضرت امیرالموٴمنین نے اس کے بارے میں خبر دی ہے۔

۳۔ مسجد جمکران آخری حجت کے ظہور کے زمانے میں کوفہ کے بعد سب سے بڑا پایہ تخت ہوگا امام کے ظہور کے وقت امام کے لشکر کا علم کوہ خضر پر لہراتاہوا دکھائی دے گا۔

۴۔ ایک مہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف امام عصر(علیہ السلام ) کے ظوہر کے وقت مسجد جمکران مرکز ہوگا بلکہ زمانہ غیبت میں بھی ایسا ہوگا امام زمانہ کا یہ فرمانا کہ جو بھی اس جگہ پر نماز پڑھے گا گویا اس نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے اس سے استفادہ ہوتاہے کہ خانہ خدا نہ صرف مرکز زمین ہے اس میں ہونا انسانی میں روحانی جسمانی اعتبار سے بہت زیادہ اثر رکھتاہے اسی طرح مسجد جمکران بھی ہے۔

امام عصر کا یہ کہنا کہ اس مکان میں نماز کا پڑھنا خانہ خدا میں نماز پڑھنے کا ثواب رکھتاہے اس مسجد جمکران میں کچھ اسرار ہیں جو ہر کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیرالموٴمنین نے فرمایا ہے مامن سرّ الّاوانا افتحہ و مامن سرّ الّا والقائم یختمہ کوئی راز نہیں مگر یہ کہ میں اس کو کھول دوں گا اور کوئی راز نہیں مگر یہ کہ قائم اس کو بیان کرے گا۔

۵۔ جو لوگ اس مقدس مکان میں جاتے ہیں وہ جانیں یہ بہت بڑا مقام ہے امام عصر کی توجہ ان کی طرف ہے گویا حضرت کے مکان میں داخل ہوئے ہیں ان کے سامنے موجود ہیں۔

کئی سو سال حضرت کی غیبت سے گزرے ہیں لیکن ہم امام زمانہ سے استفادہ نہیں کرتے ہیں ہم بارش کی فکر کرتے ہیں لیکن بارش حضرت کے وجود اور برکت سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں وبکم ینزل الغیث تمہاری وجہ سے بارش ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ آخری حجت کی طرف توجہ حقیقت میں خدا کی طرف توجہ ہے جس طرح باقی ائمہ کی طرف توجہ کرنا خدا کی طرف توجہ کرنا ہے پس آئمہ کی زیارت اور توسل حقیقت میں خدا سے توسل ہے یہی وجہ ہے کہ جو بھی خدا سے قرب حاصل کرنے کا قصد رکھتاہے اس کو چاہئے کہ ائمہ طاہرین کی طرف توجہ دے چنانچہ زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے ہیں ومن قصدہ توجہ بکم جو بھی خدا کا قرب حاصل کرنا چاہے اس کو چاہئے کہ وہ ائمہ کی طرف توجہ دے چونکہ آئمہ کی طرف توجہ کرنا نہ صرف خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے بلکہ وہ گناہ اور وہ چیزیں کہ جو بلند مقام حاصل کرنے کے لئے مانع ہیں وہ بھی دور ہوتی ہیں چونکہ امام زمانہ اور ائمہ طاہرین کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے انسان کی طرف رحمت اور مغفرت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

حضرت باقر العلوم نے حضرت امیرالموٴمنین کے اس کلام میں کہ جہاں فرمایا انا باب اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی من توجہ بی الی اللہ غفرلہ جو بھی میرے وسیلہ سے خدا کی طرف توجہ دے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اگر چہ چودہ معصومین کی طرف ہر زمانہ میں توجہ ہونا چاہئے لیکن انسان جس زمانے میں زندگی گزارتاہے اس کو اپنے زمانے کے امام(علیہ السلام ) کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے آپ اس روایت کی طرف توجہ دیں عن عبداللہ بن قلامہ الترمذی عن ابی الحسن علیہ اسلام قال: من شکّ فی اربعة فقد کفر بجمیع ما انزل اللہ عزوجل: احدھا معرفة الامام فی کل زمان و اوان بشخصہ و نعتہ۔ حضرت نے فرمایا: کہ جو بھی چار چیزوں کے بارے میں شک کرے گویا اس نے تمام ان چیزوں کا انکار کیا ہے جو نازل کی گئی ہے ان میں سے ایک ہر زمانے میں امام کا پہچاننا کہ امام کی ذات اور صفات کے ساتھ پہچانیں پس ہر زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے کس طرح ممکن ہے کہ جو اپنے زمانے کی امام کی معرفت رکھتا ہو اور ان کی عظمت سے آگاہ ہو لیکن اس کی طرف توجہ نہ دیتا ہو اس بناء پر امام زمانے کی معرفت سے غفلت صحیح نہیں ہے پس ہمارا وظیفہ اس زمانے میں یہ ہے آخری حجت کی امامت کے زمانے میں آپ(علیہ السلام ) کی طرف زیادہ توجہ دیں وہ دعا کہ جو ملا قاسم رشتی کو تعلیم دی ہے اور فرمایا ہے اسے دوسروں کو تعلیم دیں اگر کوئی موٴمن کسی بلاء میں مبتلا ہوا ہو تو اس دعا کو پڑھے وہ مجرب ہے اس دعا کے پڑھنے میں بہت زیادہ تاثیر ہے وہ دعا یہ ہے یا محمد یا علی یا فاطمہ یا صاحب الزمان ادرکنی ولا تھلکنی ۔ 


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=3820&link_book=holy_prophet_and_ahlul_bayt_library/imam_al_mahdi/saheefa_e_mehdia
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے ...
مدينہ ميں حضرت محمد صلّي اللہ عليہ و آلہ کي ولادت
اطاعت رسولۖ ہی محبت رسول ۖہے
امام رضا علیہ السلام کی چند نصحتیں اور فرامین
حضرت امام زین العابدین (ع)کے سیاسی افکار و کردار
حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا )کا پردہ
واقعہ غدير کيا ہے ؟
رسول اکرم (ص) کی زندگانی وحدت اسلامی کا سبب
اللہ نے اپني کتابوں اور رسولوں کے ذريعے عقيده ...

 
user comment