اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

اقتضائے غم حسين

دنيا کا جائزہ ليا جائے تو پتہ چلے گا کہ ہر حکومت کے نصيب ميں شکست اور ذلت آميز اختتام لازمي ہے اور ہر حکومت کے خلاف بغاوت بلند کرنے والے نے ہميشہ حکومت کے ظالمانہ ، متکبرانہ ، متعصبانہ اور جاہلانہ رويہ کے خلاف علم بلند کيا ہے اور ان علمِ بغاوت بلند کرنے والوں ميں آفاقي دين کے چاہنے والے بھي نظر آتے ہيں ليکن اکثريت ايسے افراد کي ہوتي ہے جو دين کا نام سياست کے طور پر استعمال کرتے ہيں يہ الگ بات ہے کہ آفاقي دين کے ساتھ مذاق کرنے والوں کے چہرہ پر سجا ہوا نقاب ان کے چہرے چھپا نہيں سکا البتہ وہ لوگ جو ايک اچھي حکومت اور انسانيت پسند نظام کے لئے جدوجہد کررہے تھے اور عوام الناس کي مشکلات کو سنجيدگي سے ختم کرنا چاہتے تھے بلاشبہ ايسے لوگ دنيا ميں انقلاب لاتے ہيں کامياب ضرور ہوتے ہيں ليکن ان کي کاميابي زمان و مکان کي قيد سے باہر نظر نہيں آتي۔

متن:

ليکن ايک تحريک ايسي ہے جس ميں زمان و مکان خود مقيد نظر آتے ہيں۔ کوئي زمان، کوئي مکان، کوئي مذہب، کوئي نسل، کوئي رنگ، کوئي حکومت ہو يا بادشاہت سب کے سب اس تحريک سے متاثر ہوئے بغير نہ رہ سکے اس تحريک کا نام ہي کرب وبلا ہے ليکن قيامت تک کے لئے ظالم ، جابر، ستمگر کا اس نے سکون و قرار چھين ليا ہے اور کربلا کا صرف يہي ايک رخ نہيں ہے بلکہ کربلا گونا گوں مقاصد کے حصول کے لئے ايک تحريک ہے اور قيامت تک عظيم الشان اور جليل القدر الٰہي آئين کو عملي شکل دينے والي ايک حرکت کا نام ہے۔

ہر باني تحريک کے منصوبے ميں اصلي ہدف حکومت کا حصول کہلاتا ہے کيونکہ اس کے نزديک اگر حکومت کا حصول نہ ہو تو وہ اپنے لافاني نظريات کو عملي جامہ نہيں پہنا سکتا اور نہ انھيں عوام الناس پر آشکار کرسکتا ہے۔ تاريخ اس بات کي گواہي ديتي ہے کہ جو لوگ حصولِ حکومت سے پہلے جابر حکومت کے ہاتھوں اپني زندگي سے ہاتھ دھو بيٹھے ان کے نظريات ان کے جسموں کے ساتھ بوسيدہ ہوکر وقت کي دھول ميں پنہاں ہوکر رہ گئے۔

يہ ايک متفقہ اٹل تاريخي حقيقت ہے۔۔۔ ليکن صاحبانِ نظر اور ماہر مورخين نے ديکھا کہ اس اٹل حقيقت کو کربلا کے ايک جھونکے نے پارہ پارہ کرديا يہ کہہ کر تم حکومت کا حصول لازم سمجھتے ہو ہم تو تحريک ہي ايسي لے کر چلے ہيں جس ميں حکومت توکيا چيز ہے ، فکر جان و دل بھي نہيں ہے اور آپٴ نے فرمايا :

\'\'اگر دينِ محمد ۰ قائم نہيں رہ سکتا مگر ميرے قتل سے ،تو اے تلوارو! آو مجھے گھير لو۔\'\'

کوئي سوال کرے کہ مولا! آپ کہنا کيا چاہتے ہيں تو آپ يہي فرمائيں گے ہم ايسے نظريہ کو پيش کرنا چاہتے ہيں جو حکومت کا محتاج نہيں ہے مگر حکومتيں اب تابہ قيامت اس کي محتاج رہيں گي۔ جو حکومت عدل وانصاف سے کام کرنا چاہتي ہے تو اس حکومت کے لئے ہمارے سوا نہ کوئي آئين ہوگا اور نہ ہي کوئي راستہ ۔

اس تحريک کي ايک اہم خصوصيت يہ ہے کہ اسے زمان و مکان کي قيد سے دور رکھنا تھالہٰذا اس جنگ کاانداز ہي نرالہ تھا۔ ہر رہبر اپنے اطراف اپنے نظريہ کے ہمنوا افراد کي کثرت چاہتا ہے مگر کائنات ميں کربلا کا رہبر واحد رہبر ہے کہ جب مکے سے چلا تو جنابِ محمدحنفيہ جيسے بہادر اور جنابِ عبداللہ جيسے مخلص ساتھيوں کو مدينے ميں اپنے سے جدا کر کے ٹھہرنے کا حکم ديتے ہيں اور انہي کي طرح تيسري عظيم قوت جو اپني ذات ميں ايک لشکر تھي، يعني جنابِ مسلم ابنِ عقيل بلاشبہ شاہکار جرآت و ہمت کو اپنے سے جدا کر کے شہرِ کوفہ کي طرف روانہ کر ديتے ہيں اور شبِ عاشور کو بے نيازي کي معراج کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہيں: جو چاہتا ہے وہ چلا جائے۔

کائنات کے بڑے سے بڑے ماہر جنگجو آج تک حسين کے اس عمل بے نيازي کو ديکھ کر لرز جاتے ہيں کہ آخر اس قلب کي قوت کي انتہا کيا ہے؟ اس دماغ کي پروازِ فکر کيا ہے؟ جو چاروں طرف سے ننگي تلواروں اور خونخوار نيزوں ميں بھوکا پياسا کھڑ اہوکر اوج اطمينان پر پہنچ کر کہہ رہا ہے جو چاہے وہ چلا جائے۔ يہ اطمينان کي کون سي معراج ہے يہ شفاعت کي کون سي قسم ہے؟!

آخر حسين ايسا کيوں کررہے تھے؟ کيا سمجھانا چاہ رہے تھے؟ بتانا يہ مقصود تھا کہ مجھے نہيں ميرے ساتھيوں کو بھي پہچانو يہ ايسے اصحاب ہيں جو آيتِ الٰہي کے مفہوم ميں اپنے نفسوں کو خدا کي رضا کے لئے فروخت کر چکے ہيں۔ ان کے سامنے دنيا حکومت، آرام، سکون ، غذا سب کچھ ہے مگر حسينٴ کي طرح وہ بھي دين محمد۰ کي طرح تلواروں کا مقابلہ کرنے کے لئے تيار ہيں۔

حيرت ہو کيوں نہ\' شہ کو بہتّر ملے رفيق

دو آدمي تو ملتے نہيں اک خيال کے

آنے والا کل کا مورخ يہ نہ لکھ دے کہ حسينٴ کا مقصد کچھ بھي ہو مگر ساتھ ميں شريک افراد کے مقاصد ميں فرق تھا اور اصحاب، رشتہ دار، خاندان اور ديگر افراد رسومات اور قبائلي رسم و رواج کے بندھن ميں بندھے ہوئے تھے۔ اس لئے امام حسين نے شمع گل کر کے بتا ديا کہ عشقِ الٰہي کے رہرو کي منطق وہ سمجھ ہي نہيں سکتا جو ماديت کے حجابوں ميں گرفتارہو۔

پھر صبح ہوگئي۔

ايسي صبح جو قيامت تک کے لئے کفر کي شام بن گئي۔

اور چہرہ نفاق ہميشہ کے لئے عرياں کر گئي۔

پھر کوہِ عزم و ثبات نے اپنے دعوے کا ثبوت ديتے ہوئے شکر کے سجدے کرتے ہوئے۔۔۔لاشے اٹھانا شروع کردئيے۔

اب حسين ہيں مگر اصحاب نہيں ہيں، اب حسين ہيں مگر انصار نہيں ہيں، اب حسين ہيں مگر رشتہ دار نہيں ہيں، اب حسين ہيں مگر دوست نہيں ہيں، اب حسين ہيں مگر مدد کرنے کو شيِر خوار بھي نہيں ہے۔ اب حسين کہہ رہے ہيں:

ھل من ناصر ينصرنا۔۔ہے کوئي ميري مدد کرنے والا ۔

اس کو استغاثہ کا نام ديا گيا ہے۔ يعني استغاثہِ حسينٴ۔ ليکن کيا امام حسينٴ واقعي کسي کو پکار رہے تھے کہ ميري مدد کے لئے آجاو۔۔ کيا واقعي امامٴ کو کسي کي ضرورت تھي؟

اگر يہ مان ليا جائے کہ امام حسينٴ کو اس وقت کسي کي ضرورت تھي اور وہ کسي مددگار کو بلارہے تھے تو مستند تواريخ اور آئمہ کے اقوال سے ثابت ہے کہ ملائکہ نے باذن اللہ امام حسينٴ کے ناصر بننے کا شرف حاصل کرنے کے لئے مکمل کوشش کي اور فقط ملائکہ ہي نہيں بلکہ جنوں کا بھي ايک بڑا لشکر آيا اور اس نے اپني محبت اور ولايت کا واسطہ دے کر امامٴ سے درخواست کي کہ آپ ہميں اذن نصرت عطا فرمائيں۔ مگر امام حسين نے انھيں رخصت کرديا کہ ميں نے تمہيں ابھي نہيں بلايا ہے۔ اب عقل کا سوال ہے کہ ايک طرف تو جب سب کچھ آپٴ نے راہِ خدا ميں ہنسي خوشي قربان کرديا تب کسي کو مدد کے لئے نہيں پکارا۔ جب بچپن کے دوست کا لاشہ اٹھايا۔۔ تب نہيں بلايا۔ جوان بيٹے کے سينے سے سناں نکالي مگر۔۔ کسي کو نہيں پکارا ! حد تو يہ ہے کہ شيِرخوار کے گلے سے تير نکال چکے اور اکيلے لختِ جگر کو سپردِ لحد کر رہے تھے تو آپٴ کا عزم و ثبات ديکھنے کے قابل تھا۔

لٹِا کے قبر ميں اصغرٴ کو شہ نے فرمايا

حسين آخري سجدہ کرو خدا کے لئے

لہٰذا عقل حيران ہے اب جب کچھ نہ رہا تو ناصر کي کس لئے ضرورت ہے؟ عام آدمي جس کا گھر اجڑ جائے اسے دنيا سے نفرت ہوجاتي ہے اور آپٴ کا کچھ بھي نہ رہا تو آپٴ کو کس کي ضرورت يا خواہشِ دنيا کيوں ہے۔ آپٴ ايک کامل ترين شخصيت ہيں۔ آپ زم زم و صفاو مروہ کے بيٹے ہيں۔ رسول اللہ ۰ کے نواسے اور عليٴ و فاطمہٴ کے بيٹے ہيں۔

پھر اس استغاثہ کا مقصد کيا ہے؟ ايک طرف مدد کے لئے بلايا جارہا ہے جب چاہنے والے آگئے تو واپس بھيجا جارہا ہے۔ جب مدد قبول نہيں کرنا تھي تو آواز کيوں دي تھي؟

پس ثابت ہوا کہ استغاثہ امام حسينٴ کو سمجھنا آسان نہيں ہے۔ ويسے بھي خاندانِ ابوطالبٴ ميں بازارِ شہادت ميں چھوٹے بڑے سب يکساں خريدار نظرآتے ہيں۔ پس امام حسينٴ کو نہ شوقِ زندگي تھا نہ خوفِ موت بلکہ امام حسين مدت استقامتِ دين ، استحکامِ دين قيامت تک طويل کرنا چاہتے ہيں اور عاشور کي صدائے استغاثہ صرف اس دن کے لئے نہيں ہے بلکہ عاشور سے قيامت تک کے لئے ہے۔

آج ! 

اپنے دامن ميں لئے آنسو، عزادارِ حسين

صحنِ عالم ميں سجے بيٹھا ہے بازارِ حسين

يہ عزاداري کا سلسلہ \'ہل من \'کي صدا کے جواب ميں ايک تحريک مسلسل ہے۔ عزاداري صرف رونے اور سينہ پيٹنے کا نام نہيں ہے۔ عزاداري اصل ميں دلوں کے اندر حريت اور آزادي کي شمع روشن کرنے کا نام ہے۔ جس کا آغاز بعداز شہادت امام حسينٴ فاتح شام و کوفہ جنابِ زينبٴ نے کيا ہے اور حقيقت بھي يہي ہے کہ عزاداري شبير صرف زينبٴ نے ہي کي ہے اور عزاداري شبيرٴ کي تمام سمتوں کو جنابِ زينب نے معين اور روشن کيا ہے۔

ہر رسمِ عزا تجھ سے زمانے ميں چلي ہے

تو شارحِ کردارِ حسينٴ ابنِ عليٴ ہے

صدائے استغاثہ امام حسينٴ کو قيامت تک باقي رکھنے کا اقدام عزاداري جنابِ زينب سے ہي شروع ہوا ہے۔ يہي وجہ تھي کہ امام حسينٴ سمجھ رہے تھے کہ ميرا مقصد ميري بہن ہي بچاسکتي ہے۔ اسي لئے وصيت کرتے ہوئے کہا کہ اے بہن زينب! مجھے نمازِ شب ميں نہ بھولنا۔

آج اگر حقيقتاً ديکھا جائے تو اسوہ شبيري کي بقائ طريقِ زينبٴ پر ہي چل کر ممکن ہے اور عزادارانِ سيد الشہدائ بلاشک و شبہ اس کام کو بہت خوش اسلوبي کے ساتھ انجام دے رہے ہيں۔ ہماري نگاہ ميں فرشِ عزا بچھانے والا، فرشِ عزا پر بيٹھنے والے محترم سامعين، ذکرِ حسين کرنے والے محترم مرثيہ خوان، ذاکرِ حضرات، نوحہ و سلام پڑھنے والے ، سينہ زني کرنے والے سب کے سب اپنے اپنے مقامات پر واجب الاحترام ہيں ليکن کچھ افراد ان ميں ايسے بھي پائے جاتے ہيں جن کي محبتِ اہلبيت پر شک کرنے کا سوال تو پيدا ہي نہيں ہوتا مگر مقصدِ حسينٴ ابنِ عليٴ کس حد تک سمجھے ہيں يہ سوال ضرور اٹھتا رہتا ہے۔ کيا مقصدِ امام حسينٴ سوز خواني، سلام، ذاکري ان تمام چيزوں ميں کارفرما ہے۔ امام حسين کي يزيد کے ساتھ جنگ اس بات پر تھي کہ وہ حلالِ محمدي۰ کو حرامِ کرنا چاہ رہا تھا۔ کيا آج کے زمانے ميں مجالس غمِ حسينٴ کے ذريعے ہميں نہيں چاہيے کہ ہم حلالِ محمدي۰ اور حرامِ محمدي۰ کو زمانے کے سامنے پيش کريں اور وہ فضائل اہلبيت جو سننے والے کي روح کو روح ابوذري، سلماني، اشتري اور حري بنادے بيان کرنا چاہيے تاکہ سچے محبانِ اہلبيت کے دلو ں ميں صدائے حسينٴ کے جواب ميں لبيک کہنے کا جذبہ بھي بيدار ہو۔ جذبہ صرف زبان سے ادا ہونے والے نعرہ کا نام نہيںہے بلکہ جذبہ کردار کے ايک ايک رخ سے جھلکنے کا نام ہے۔ اس جذبہ ميں مولا عليٴ کا علم، مولا حسنٴ کا حلم، امام حسينٴ کي شجاعت اور سيدِ سجادٴ کے سجدوں کي عظمت نظر آنا لازمي ہے۔ جب يہ تمام چيزيں مل جائيں گي تو وہ \'\'لبيک يا حسينٴ\'\' ادا ہوگا جو فرزندِ ارجمند جنابِ فاطمہٴ کومطلوب ہے۔ جن کا لقب يامنتقم، يا ثار اللہ ہے ۔جيسے ہي يہ سچي لبيک يا امام زبان مومنين سے ادا ہوگي حجابات ہٹ جائيں گے اور امامٴ ظہور فرمائيں گے۔اور کيوں نہ ظہور فرمائيں، خود آئمہ نے فرمايا ہے کہ پندرہ شعبان المعظم روزِ ولادت امامِ زمانہٴ پر امام حسينٴ کو ياد کرو۔ گريہ کرتي ہوئي آنکھوں کے ساتھ زيارت عاشورہ پڑھو اور جب عاشور کا دن ہو تو اپنے زمانے کے وارث يعني امامِ زمانہٴ کو قتيل ظلم و جفا امام حسينٴ کي تعزيت پيش کرو۔ اس حکم کا مقصد يہي ہے کہ روزِ ولادت امام زمانہٴ تمہيں ياد رہے کہ بعثت امام زمانہٴ کا ہدف خاص انتقام ثار اللہ ہے۔ يہ زيارت پڑھتے وقت انسان کا ذہن سوچے گا کہ ميں نے امامٴ کو آنے کي دعوت دي ہے ليکن کس حد تک ان کي ميزباني کي تياري کي ہے؟ اور روزِ عاشور محبانِ اہلبيت سے امامِ زمانہٴ کو تعزيت اس لئے پيش کروائي جاري ہے تاکہ دل و دماغ متوجہ ہوجائيں کہ کتني صدياں بيت چکي ہيں۔۔ آخر کب تک ؟ صرف اس طرح سے تعزيت پيش کرتے رہيں گے۔

کيا کربلا والوں کا ہم پر کوئي قرض نہيں ہے؟ کيا ہم شہادت و مصيبت کے واقعات اور مخدرات عصمت کي اسيري پر آنسو بہا کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجائيں گے۔ يقينا ان آنسووں کي عظمت عقلِ انساني درک نہيں کرسکتي مگر عزاداري کا ہدف، عاشورہ کا ہدف اور صديوں سے آج تک بزرگان نے غمِ حسينٴ کے سلسلے ميں جو قربانياں دي ہيں ان سب کے بدلے ميں ہمارا فرض صرف اشکباري ہے؟ يقينا ہر عزادار يہي کہے گا کہ عزاداري کا ہدف استغاثہ کے جواب ميں لبيک کي تياري ہے۔ ہماري عزاداري اتني اعليٰ و ارفع ہوني چاہيے کہ اگر آج کوئي بھي حر ِغافل کہيں بھي کسي بھي روپ ميں ہو تو وہ کارواں حسين ميں شاملِ ہوکر حر ِبيدار بن جائے۔

ہمارے بزرگان نے عزاداري کي يہي روش قائم کي تھي جس کے نتيجے ميں ہندو مسلک پر چلنے والے ماتھر پنڈت جيسے شاعر بارگاہِ حسيني ميں امام حسينٴ کي مدح کرتے ہوئے اتنے بڑے بڑے حقائق بيان کرگئے ہيں جو سننے اور سمجھنے والے کے لئے آج بھي کشش رکھتے ہيں۔

غم ہے ميري فطرت ميں تو غم کرتا ہوں ماتھر

ہندو ہوں مگر دشمنِ شبيرٴ نہيں ہوں

عقيدہ منزلِ انسانيت ميں کب ضروري ہے

ميں ہندو ہوں مگر اک بت شکن سے پيار کرتا ہوں

دنيا کے تقريباً ہر مذاہب کے شعرا ئ نے جس ہستي کو خراجِ تحسين پيش کرنا اپنے لئے فخر سمجھا وہ کائنات ميں بعداز خدا حسينٴ ہے اور دنيا کے ہر مفکر نے انسانيت کا طريق يا جادہ جسے سمجھا وہ صرف اور صرف اسوہ شبيري ہے۔ ليکن آج اگر غير تو کيا اپنے بھي غم حسينٴ کو سمجھ نہيں پارہے تو اس ميں ان سے زيادہ ہماري خطا ہے آج بھي غم حسينٴ کي کشش کم نہيں ہے ليکن غمِ حسينٴ منعقد کرنے ميں کہيں کہيں انداز مظلوميت کي کمي ہے۔۔ وہ انداز مظلومانہ جو دلوں کو تڑپا دے۔۔ وہ آہ و سوز جو برف جيسے جذبات کو برانگيختہ کر کے شعلہ نينوا بنا دے ۔

اور يہ خواہش کسي فردِ واحد کي نہيں ہے بلکہ يہ تو ايک ماں کي خواہش ہے کہ جو اپنے بابا سے پوچھ رہي تھي کہ بابا کيا شکم ميں بھي کوئي بچہ پياسہ ہوتاہے۔ ميرا حسينٴ شکم ميں کہتا ہے

اماں ۔۔۔ميں پياسہ ہوں

اماں ۔۔۔ ميں بھوکا ہوں

آج کوئي بھي کہيں بھي فرشِ عزا ہو۔۔۔ ہم تو خراماں خراماں باتيں کرتے ہوئے آدھي مجلس کے بعد پہنچتے ہيں ليکن وہ مادرِ حسينٴ فرشِ عزا پر پہلے آجاتي ہے۔ کيا ان کي خواہش نہيں ہوگي۔

اتنے لوگ۔۔ جب جمع ہوگئے ہيں تو پھر يہ ايسي لبيک کيوں نہيں کہتے جو ميرے حسينٴ کے انتقام کے لئے مطلوب ہے۔ آج اتنے لوگ سچے، سادہ، عزادار ہيں۔ حقيقتاً سلام ہو ان عزاداروں پر جن تک حقائق نہيں پہنچ رہے مگر نامِ حسينٴ پر وہ آج بھي بے دريغ سب کچھ لٹانے کو تيار ہيں۔ کاش ہر فرشِ عزا پر آنے والا دکھيا ماں کي صدا سنے۔۔ جو ہل من کي صدا بن کر ہر مجلس ميں موجود ہوتي ہيں۔ کاش ہر فرشِ عزا پر آنے والا مجسم لبيک بن کر آئے اور ہر مجلس ، ہدفِ عزاداري کو پورا کرسکے

کم سے کم اتنا تو مقصد ہو غمِ شبيرٴ کا

کام لے مظلوميت سے قوم کي تعمير کا


source : http://shiastudies.net/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اقتضائے غم حسين
امام زمانہ کے مخصوص مقامات (صلوات اللہ علیہ)
حضرت فاطمہ زہراء (س) کی ولادت با سعادت
تیرہ جمادی الاول؛ شہزادی کونین کے یوم شہادت پر ...
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
امام جواد کے نام امام رضا کا ایک اہم خط
امام مهدی (ع) کی اثبات ولا دت
کتاب امام علي (ع)
اقوال حضرت امام علی النقی علیہ السلام
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض ...

 
user comment