اردو
Saturday 28th of December 2024
0
نفر 0

حضرت فاطمہ زہراء (س) کی ولادت با سعادت

حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت مکہ میں بروز جمعہ 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال ہوئی "

جبرائیل کی بشارت:

"حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی ولادت کے وقت رسول خدا (ص) نے جناب خدیجہ سے فرمایا : جبرائیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ ہمارا یہ پیدا ہونے والا فرزند لڑکی ہے ، اور تمام آئمہ معصومین(ع) اسی کی نسل سے ہوں گے"

ولادت:

مکہ میں جب قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے تو بروز جمعہ 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال شہزادی کونین فاطمہ زہرا (ع) تشریف لائیں۔

پرورش :

جناب فاطمہ (ص) نے نبوت و رسالت کے گھرانے میں پرورش پائی اور رسول اسلام (ص) کے علم و دانش سے بہرور ہوئیں رسول اکرم (ص) سے زبانی قرآن سنا اور اسے حفظ کیا اور خود سازی و حقیقی انسان بننے کی فکر میں مشغول ہو گئیں اپنے والد محترم اور قرآن سے بے حد محبت فرماتیں ، اپنے والد ماجد کے فیض بخش وجود سے استفادہ فرماتیں تھیں یہی وہ کمالات تھے جن کی بنا پر پیغمبر اسلام (ص) آپ کو بے حد چاہتے تھے ایک روز آپ کی زوجہ "عائشہ " نے آپ سے سوال کیا ، کیا آپ (ص) فاطمہ زہرا (ع) کو اتنا چاہتے ہیں کہ جب وہ آتی ہیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے اپنے برابر میں جگہ دیتے ہیں ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : اے "عائشہ "اگر تمہیں یہ معلوم ہو جائے کہ میں فاطمہ (ع) کو کیوں دوست رکھتا ہوں تو تم بھی انھیں محبوب رکھو ۔ آپ فاطمہ (ع) کو اپنا ٹکڑا سمجھتے تھے اور برابر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ " فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ستایا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے خوش کیا " ایک روز پیغمبر اسلام ارشاد فرماتے ہیں "فاطمہ خدا تیری خوشنودی پر خوش ہوتا ہے اور تیری ناراضگی پر غضبناک ہوتا ہے " شباھت: فاطمہ زہرا (ص) صورت ، سیرت ، رفتار ، اور گفتار میں سب سے زیادہ اپنے پدر محترم سے مشابہ تھیں ، پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ ام سلمی فرماتی ہیں فاطمہ زہرا (ع) سب سے زیادہ رسول (ص) سے مشابہ تھیں

باپ بیٹی کا رشتہ :

باپ بیٹی کے درمیان یک طرفہ محبت نہیں تھی بلکہ حضرت فاطمہ زہرا (ص) رسول (ص) کی طرح اپنے والد ماجد سے محبت کرتی تھیں جناب خدیجہ کی وفات کے وقت آپ کی عمر چھ سال سے زیادہ نہ تھی ماں کے بعد گھر میں اپنے والد کے آرام و آسائش کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں فاطمہ وہ بیٹی تھیں کہ جو ہمیشہ اپنے باپ کے نقش قدم پر ثابت قدم رہیں شہر مکہ کی گلی کوچہ اور مسجد الحرام سب رسول (ص) کی توہین کرنے اور اذیت پہونچانے والوں سے بھرے ہوئے تھے جب بھی آپ کے پدر محترم زخمی ہو کر واپس آتے تو آپ ہی چہرہ اقدس سے خون صاف کرکے زخموں پر مرہم رکھتیں اور اپنی پیاری پیاری باتوں سے رسول کا حوصلہ بڑھاتی تھیں جب باپ اپنے وطن میں رہ کر مسافر ، اور اپنے میں بیگانہ ، اپنوں کے ہوتے ہوئے تنہا ، اپنی زبان بولنے والوں میں بے زبان ، ہر وقت جہل وبت پرستی سے بر سر پیکار ، تبلیغ کا سنگین بار اٹھانے میں یک و تنہا تھا تو فاطمہ (ص) ہی تو تھیں جو اپنی بے لوث محبت سے باپ کے دل کو شاد کرتی تھیں ، اور والد کی رسالت کو تسلیم کرکے ان کی امیدوں کو تقویت بخشتی تھیں یہی تو وجہ کہ پیغمبر فرماتے تھے " تمہارا باپ تم پر قربان ہو " یا یہ کہ " اپنے باپ کی ماں " کے لقب سے پکارتے تھے چونکہ آپ اپنے باپ کے لئے مثل ماں کے تھیں ۔ 

زندگي نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا

نام، القاب 

نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔ 

کنیت

آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔ 

پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔ 

والدین 

آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ زوجہ پیغمبر(ص) فرماتی ھیں : 

" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ کھتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام(ص) سے کہا : 

" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا : 

"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بھتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ کہتی ھیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔ 

حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔

ولادت

حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختیاف ہے۔ لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔

بچپن اور تربیت 

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں . 

جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔ 

حضرت فاطمہ(س) کی شادی

یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔ 

مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کر دیا : اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے ۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کہتے تھے : پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔ 

آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے ۔ 

مورخین لکھتے ھیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟

حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ مشیت الٰھی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں ۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ھیں ۔ علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔ 

اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟ 

حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔ 

شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔ 

حضرت فاطمہ(س) کا اخلاق و کردار

حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔ 

فاطمہ زھرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔ 

حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل 

حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے ۳۴ مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔ 

حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ 

سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں . ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا .

"کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"

حضرت زہرا(س) اور جہاد 

اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لٰہذا حضرت فاطمہ زہرا نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا ۔ لیکن جب کبھی پیغمبر میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں .اور جب علی علیہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ اسے دھو کر پاک کرتی تھیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں . ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ یعنی صرف مباہلہ کا میدان ایسا تھا جہاں سیدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں جس کا واقعہ یہ تھا کہ یمن سے عیسائی علماء کا ایک وفد رسول کے پاس بحث ومباحثہ کے لیے آیا اور کئ دن تک ان سے بحث ہوتی رہی جس سے حقیقت ان پر روشن تو ہوگئی مگر سخن پروری کی بنا پر وہ قائل نہ ہونا چاہتے تھے نہ ہوئے . اس وقت قران کی یہ آیت نازل ہوئی کہ 

" اے رسول اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور الله کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کے لیے الله کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں .» "

عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول الله اس شان سے تشریف لے گئے کہ حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام جیسے بیٹے فاطمہ زہرا جیسی خاتون اور علی علیہ السّلام جیسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائیوں نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور مخصوص شرائط پر صلح کرکے واپس ہو گئے . 

فاطمہ زہرا(س) اور پیغمبر اسلام 

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا سے رخصت ہونےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملنے کے لئے جاتے تھے .

اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا .

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں 

سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .

ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثلاً 

" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "

" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."

" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "

" آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "

" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں .

فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں 

افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے رسول کے جانے کے بعد اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا ۔ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے ۔ علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئ ۔ پھر آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا نہیں بلکہ جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا. انتہا یہ کہ سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کر دیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی وفات کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 

صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا

یعنی "مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات

میں تبدیل ہو جاتے"۔

سیدہ عالم کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک، فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول نے سیدہ عالم کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائیداد کا چلا جانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ اپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک باقی رہا . 

حضرت فاطمہ زہرا(س) کی وصیتیں 

حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں . اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی فکر مند نظر آئیں . آپ کی چچی(جعفر طیار(رض) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر اتا ہے . اسما(رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں 

اور پیغمبر کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ اپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے . مورخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلی لاش جو تابوت میں اٹھی ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا کی تھی۔ ا سکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزعمل نے میرے دل میں زخم پیدا کر دئے ہیں ۔ سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

شہادت 

سیدہ عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے 3 مہینے بعد تیسری جمادی الثانی سن ۱۱ ہجری قمری میں وفات پائی . آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا . صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسی(رض)، مقداد(رض) و عمار(رض) جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا . آپ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ اپ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجد رسول کا جزو بن گیا۔ جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال سن ۱۳۴۴ھجری قمری میں ابن سعود نے دوسرے مقابر اہلیبیت علیہ السّلام کے ساتھ منہدم کرا دیا۔ 

اولاد

حضرت فاطمہ زہرا(س) کو اللہ نے پانچ اولاد عطا فرمائیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں ۔ شادی کے بعد حضرت فاطمہ زہرا صرف نو برس زندہ رہیں ۔ اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن علیہ السّلام پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین علیہ السّلام . پھر غالباً پانچویں سال حضرت زینب اور ساتویں سال حضرت امِ کلثوم ۔ نویں سال جناب محسن علیہ السلام بطن میں تھے جب ھی وہ ناگوار مصائب پیش آئے جن کے سبب سے وہ دنیا میں تشریف نہ لا سکے اور بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے۔ اس جسمانی صدمہ سے حضرت سیّدہ بھی جانبر نہ ہوسکیں .لہذا وفات کے وقت آپ نے دو صاحبزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السّلام اور دو صاحبزادیوں زینب کبری و امِ کلثوم کو چھوڑا جو اپنے اوصاف کے لحاظ سے طبقہ خواتین میں اپنی ماں کی سچی جانشین ثابت ہوئیں .

 

جناب فاطمہ كى معنوى شخصيت

تمام عورتوں كى سردار، حضرت فاطمہ كى معنوى شخصيت ہمارے ادراك اور ہمارى توصيف سے بالاتر ہیں۔ يہ عظيم خاتون كہ جو معصومين (ع) كے زمرہ ميں آتى ہيں ان كى اور ان كے خاندان كى محبت و ولايت دينى فريضہ ہے ۔ اور ان كاغصہ اور ناراضگى خدا كا غضب اور اسكى ناراضگى شمار ہوتى ہے (20) ان كى معنوى شخصيت كے گوشے ہم خاكيوں كى گفتار و تحرير ميںكيونكر جلوہ گر ہوسكتے ہيں ؟ 

اس بناء پر ، فاطمہ كى شخصيت كومعصوم رہبروں كى زبان سے پہچاننا چاہئے ۔ اور اب ہم آپ كى خدمت ميںجناب فاطمہ كے بارے ميں ائمہ معصومين(ع) كے چند ارشادات پيش كرتے ہيں: 

1۔ پيغمبراكرم (ص) نے فرمايا : جبرئيل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دى كہ '' ... حسن (ع) و حسين (ع) جوانان جنّت كے سردار ہيں اور فاطمہ (ع) جنّت كى عورتوں كى سردار ہيں ۔ (21) 

2۔ آنحضرت (ص) نے فرمايا: دنيا كى سب سے برتر چار عورتيں ہيں : مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد ، فاطمہ دختر محمد (ص) اور آسيہ دختر مزاحم ( فرعون كى بيوي) (22) 

3۔ آپ (ص) نے يہ بھى فرمايا: '' خدا ، فاطمہ كى ناراضگى سے ناراض اور ان كى خوشى سے خوشنود ہوتا ہے'' ۔ (23) 

4۔ امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: '' اگر خدا ،اميرالمؤمنين كوخلق نہ كرتا تو روئے زمين پر آپ كا كوئي كفو نہ ہوتا '' ۔ (24) 

5۔ امام جعفر صادق ۔سے سوال ہوا كہ : '' حضرت فاطمہ كا نام'' زہرا'' يعنى درخشندہ كيوں ہے؟ تو آپ نے فرمايا كہ : '' جب آپ محراب ميں عبادت كے لئے كھڑى ہوتى تھيں تو آپ كا نور اہل آسمان كو اسى طرح چمكتا ہوا دكھائي ديتا تھا كہ جس طرح ستاروں كا نور ،زمين والوں كے لئے جگمگاتا ہے ۔ (25)

حوالہ جات : 

20 - بحار الانوار جلد 34/19_ و26كشف الغمہ جلد 1مطبوعہ تبريز /458، الغدير جلد 3/20 

21 - امالى مفيد ص 3، امالى طوسى جلد 1 ص 83، كشف الغمہ جلد 1 ص 456

22 - بحار جلد 43/9_ 26 ... ... ... ... مناقب ابن شہر آشوب جلد3 ص 322

23 - بحار جلد 43/9_ كشف الغمہ جلد 1 ص 467 

24 - بحار جلد 43/19_ 26 ، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ص 472

25 - بحار جلد 43 ص12، علل اشرائع مطبوعہ مكتبہ الداورى قم ص 181 '' قال : سئلت ابا عبداللہ عن فاطمہ ، لمَ سميّت زہراء فقال: لانّہا كانت اذ اقامت فى محرابہا زہر نورہا لاہل السماء كما يزہر نور الكواكب لاہل الارض''

نام كتاب: تاريخ اسلام 4 (حضرت فاطمہ(س) اور ائمہ معصومين (ع) كى حيات طيبہ) 

مؤلف: مركز تحقيقات اسلامي 

مترجم: معارف اسلام پبلشرز 

ناشر: نور مطاف 

جلد: چوتھي

مصحف فاطمہ (ع)

182۔ ابوبصیر نے امام صادق (ع) کی زبانی نقل کیا ہے کہ ہمارے پا س مصحف فاطمہ (ع) ہے اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کی حضور یہ کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ ایک صحیفہ ہے جو حجم میں اس قرآن کا تین گناہے اور اس قرآن کا کوئی حرف اس میں شامل نہیں ہے۔( کافی 1 ص 239 /1)۔

183۔ امام صادق (ع) ! مصحف (ع) فاطمہ (ع) وہ ہے جس میں اس کتاب خدا کی کوئی شے نہیں ہے بلکہ یہ ایک صحیفہ ہے جس میں وہ الہامات الہیہ ہیں جو بعد وفات پیغمبر جناب فاطمہ (ع) کو عنایت کئے گئے تھے۔( بصائر الدرجات 159 / 27 روایت ابو حمزہ)۔

184۔ امام صادق (ع) نے ولید بن صبیح سے فرمایا کہ ولید ! میں نے مصحف فاطمہ (ع) کو دیکھا ہے۔اس میں فلاں کی اولاد کے لئے جوتیوں کی گرد سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔( بصائر الدرجات 161/ 32)۔

185۔ حماد بن عثمان ! میں نے امام صادق (ع) سے سناہے کہ 128 ء ھ میں زندیقوں کا دور دورہ ہوگا اور یہ بات میں نے مصحف فاطمہ (ع) میں دیکھی ہے۔

میں نے عرض کی حضور یہ مصحف فاطمہ (ع) کیاہے؟ فرمایا کہ رسول اکرم کے انتقال کے بعد جناب فاطمہ (ع) بے حد محزون و مغموم تھیں اور اس غم کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جان سکتا تھا تو پروردگار عالم نے ایک ملک کو ان کی تسلّی اور تسکین کے لئے بھیج دیا جو ان سے باتیں کرتا تھا۔

انھوں نے اس امر کا ذکر امیر المومنین (ع) سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب جب کوئی آئے اور اس کی آواز سنائی دے تو مجھے مطلع کرنا ۔ تو میں نے حضرت کو اطلاع دی اور آپ نے تمام آوازوں کو محفوظ کرلیا اور اس طرح ایک صحیفہ تیار ہوگیا۔ پھر فرمایا اس میں حلال و حرام کے مسائل نہیں ہیں بلکہ قیامت تک کے حالات کا ذکر ہے۔( کافی 1 ص 240 /2 ، بصائر الدرجات 157 / 18 ، کافی 1 ص 238 ، باب ذکر صحیفہ و جفر و جامعہ و مصحف فاطمہ (ع) اور بصائر الدرجات، باب صحیفہ جامعہ و باب الکتب و باب اعطاء و جامعہ و مصحف فاطمہ (ع) ، بحار الانوار 26 باب جہالت علوم ائمہ و کتب ائمہ، روضة الواعظین ص 232۔

پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں حضرت فاطمہ(س)کا احترام

حضرت فاطمہ(س) كي جبيں پر پيغمبر اسلام (ص) بوسہ ديتے تھے ان كے احترام ميں حضور كھڑے ہوجاتے تھے اور ان كو اپني جگہ پر بٹھاتے تھے حضرت فاطمہ زہرا عليہا السلام كي زندگي ايك ايسي ہي زندگي ہےكہ آپ بيٹي ہو نے كے رشتہ سے رسول خدا كي وارث ہيں، رفيق زندگي ہونے كے اعتبار سے شريك امامت ہيں ، اورام الائمہ ہو نے كے لحاظ سے ہر امام كے كمال و جمال كي آئينہ دارہيں، جوكچھ گيارہ اماموں كے كردار سے كل ظاہر ہو نيوالا ہے اس كا پر تو معصومہ عالم كي زندگي ميں جلوہ گرہے اور اولادكي منزل ميں بنوھاجمع كا صيغہ استمال كرديا تا كہ زہرا جملہ اوصاف وكمالات كي مصدر ومركز قرارپا جائيں تاريخ نے صاف واضح كرديا ہےكہ كفار ومشركين كے ورثہ دار شام كے حكام ہيں اور محمد مصطفي كے وارث علي بن ابي طالب(ع) اور حسن و حسين بن علي عليہم السلام ہيں اٹھارہ سال كي مختصر عمر اور اس ميں مصائب وآلام كي يہ كثرت كہ خود اپنے حال كا مرثيہ پڑھا ''مجھ پر اتنے مصائب ڈالےگئے كہ اگر دن پر پڑتے توراتوں كي طرح تاريك ہوجاتے ليكن كيا كہنا بنت رسول (ص)كے صبر اور استقلال كا كہ نہ ذاتي اوصاف و كمالات ميں كوئي فرق آيا نہ خدمت مذہب وملت سے انحراف فرمايا، قوم ستاتي رہي اور سيدہ ہدايت كي دعائيں ديتي رہيں دنيا گھر جلاتي رہي اور فاطمہ فرض تبليغ ادا كرتي رہيں تاريخ گواہ ہے كہ نہ اس شان كا باپ ديكھا ہے نہ اس شان كي بيٹي، نہ اس كردار كا شوہر ديكھا ہے نہ اس عظمت كي زوجہ ، نہ اس جلالت كے بچے ديكھے ہيں نہ اس رفعت اور منزلت كي ماں ، رشتوں كے ساتھ فضيلتيں سيدہ كے گھر كا طواف كر رہي تھيں اور نسبتوں كے ساتھ عظمتيں فاطمہ كي ڈيوڑھي پر خيمہ ڈالے ہوئے ہيں ذاتي فضائل كا يہ عالم تھا كہ مصلائے عبادت پر آگئيں تو دنيا نور عبادت سے منور ہوگئي صبح كے وقت ايك نور ساطع ہوتا ظہر كے وقت دوسرانور اور مغرب كے ہنگام تيسرا نور، مدينہ نور زہراسے منور ہوجاتا اور فضيلت آواز ديتي نمازيں پڑھ كر خود مقرب بارگاہ بن جانا امت كا كام ہے اور نماز سے كائنات كو منور كر دينا بنت رسول كي منزل ہے اور ہميں اعتماد ہے كہ ہم دنيا ميں اپني بد نفسي كے بنا پر غافل ہوجائيں تو ہوجائيں ليكن وہ قيامت كے دن اپنے كرم سے غافل نہ ہوں گے جب ان كا دامن ہاتھ ميں ہے تو جنت بھي اپني ہے اور كوثر بھي اپناہے خدا بھي اپنا ہے اور رسول بھي اپنا ہے ايمان بھي اپناہے اور كعبہ بھي اپنا ہے قرآن بھي اپناہے اور مختصر يہ ہے كہ ہم ان كے ہوگئے تو كل كائنات اپني ہے پيغمبر اسلام (ص)كي رحلت كے بعد انكے بعض صحابہ حضرت فاطمہ (س) كے گھر كي حرمت پامال كرنے پر كمر بستہ ہوگئے خانہ وحي پر مسلسل حملوں اور دھمكيوں سے پيغمبر اسلام كي بيٹي تنگ آگئيں بعض صحابہ خلافت كو آنحضور كے گھر سے نكال كر اپنے گھر لے گئے اور كچھ ہي عرصے كے بعد خلافت كو ملوكيت كا لباس پہنا كر اسلام كا شيرازہ بكھير ديا وہ بي بي دوعالم جس كي جبيں پر پيغمبر اسلام بوسہ ديتے تھے جس كے احترام ميں حضور كھڑے ہوجاتے تھے جس كے بارے ميں حضور (ص) نے اصحاب سے بار بار كہا كہ فاطمہ ميري پارہ جگر ہے جس نے اس كو اذيت دي اس نے مجھ كو اذيت دي ۔۔۔فاطمہ كي عظمت كو آنحضور (ص)نے بارہا اصحاب كے سامنے بيان فرمايا ليكن پيغمبر اسلام (ص)كي رحلت كے بعد بعض اصحاب نے حضور كي تمام وصيتوں كو پس پشت ڈال ديا اور انكي بيٹي كو اتنا ستايا كہ فاطمہ زہرا (س) نے وصيت كي كہ ميرے جنازے ميں ان صحابہ كوبالكل شركت نہ كرنے دي جائے جنھوں نے ميرا حق غصب كيا اور مجھ پر ظلم و ستم كے پہاڑ توڑے ہيں تاريخ طبري اور صحيح مسلم ميں ہے كہ پيغمبر اسلام كي بيٹي حضرت فاطمہ زہرا (س)نے ابوبكر اور عمر سے مرتے دم تك كلام نہيں كيا اور ابو بكر نے بھي اپني زندگي كے آخري ايام ميں اس بات كا اعتراف كيا ہے كہ كاش ميں نے نبي اكرم (ص)كي بيٹي كو پريشان نہ كيا ہوتا، آہ ! ميں نے اپني بيٹي كا تواحترام كيااور سركار دوعالم كي بيٹي كو خون كے آنسو رلايا ، جب نبي مكرم (ص) اپني فاطمہ (س) كے بارے ميں مجھ سے سوال كريں گے تو ميں كيا جواب دوں گا ؟ يہي كہوں گا كہ ميں نے اور ميرے ساتھيوں نے امت كو متحد كرنے كے لئے خلافت كو آپ (ص) كے اور علي (ع) و فاطمہ (ع) كے گھر سے نكال ليا فدك كو فاطمہ سے چھين كر بيت المال ميں شامل كرليا فاطمہ فدك كا مطالبہ كرتي رہيں اس نے علي (ع) و ام ايمن اور حسن و حسين (ع) كو گواہي كے طور پر پيش كيا ليكن ميں نے سب كي گواہي مسترد كردي فاطمہ روتي رہي اور ميں ديكھتا رہا ، علي (ع) گريہ كرتے رہے اور ميں ديكھتا رہا حسن اور حسين (ع) سسكياں ليتے رہے اور ميں ديكھتا رہا ،اب ديكھنا يہ ہے كہ كيا سقيفہ كے اجماع نے امت كو متحد كرنے كےبجائے اس كو كہيں تہتر فرقوں ميں تقسيم تو نہيں كرديا ؟ جس كے بارے ميں پيغمبر اسلام نے فرمايا تھا كہ ميري امت ميں تہتر فرقے ہونگے ان ميں سے ايك جنت ميں جائے گا باقي جہنم ميں جائيں گے 

فدک اور فضائل حضرت فاطمہ زھرا(س)

حضرت زہرا(ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف اوراس کی تحقیق

واقعہ فدک اورحضرت زہرا(ع) کا ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ہماری غرض جناب فاطمہ زہرا(ع)کی زندگی کے ان واقعات کی تشریح کرنا ہے جو لوگو ں کے لۓ عملی درس کی حیثیت رکھتے ہیں البتہ صدراسلام سے لے کر آج تک مورد بحث قرار پانے والے اس حساس اور اہم موضوع پر پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات چاہتے ہیں جس پر زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہۓ اور واقعہ کو علمی اور تحقیقی لحاظ سے مورد بحث قرار دیناچاہۓ لہذا ہم اس موضوع پر ذرا تفصیل سے نظر ڈال رہے ہیں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے ۔

اختلاف اور نزاع کا موضوع

جو لوگ اس بحث میں وارد ہوۓ ہيں انھوں نے صرف فدک کے اطراف میں بحث کی ہے کہ گویا نزاع اور اختلاف کا موضوع صرف فدک ہی تھا اسی وجہ سے یہاں پر کافی اشکالات اور ابہام پیدا ہوگۓ ہیں لیکن جب اصلی مدارک کا مطالعہ کیا جاۓ تو معلوم ہوگا کہ اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے امور میں بھی اختلاف اور نزاع موجود تھا ۔ مثلا حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے کہ فاطمہ(ع)نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا جناب فاطمہ(ع)نے اس وقت کئی چیزوں کا مطالبہ کیا تھا ۔ 

اول: پیغمبر(ص)کے وہ اموال جو مدینہ میں موجود تھے ۔

دوم: فدک 

سوم: خیبر کا باقی ماندہ خمس 

جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ(ع) کو جواب بھجوایا کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی رہ جاۓ وہ صدقہ ہوتا ہے اور آل محمد(ع)بھی اس سے ارتزاق کرسکیں گے ۔ خدا کی قسم میں رسول خدا(ص)کے صدقات کو تغییر نہیں دوں گا اور اس کے مطابق عمل کروں گا ۔ جناب ابوبکر تیار نہ ہوۓ کہ کوئی چیز جناب فاطمہ(ع)کو دیں اسی لۓ جناب فاطمہ(ع) ان پر غضبناک ہوئیں اور آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وفات تک ان سے گفتگو اور کلام نہ کیا( شرح ابن ابی الحدید ج16،ص 217)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ(ع) نے ابوبکر کو پیغام دیا کہ کیا تم رسول خدا(ص)کے وارث یا ان کے رشتہ دار اور اہل ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ ان کے وارث ان کے اہل اور رشتہ دار ہیں۔

جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا کہ پس رسول خدا(ص)کا حصہ غنیمت سے کہاں گیا ؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے پیغمبر(ص) کے لۓ طعمہ(خوراک )قرار دیا ہے اور جب اللہ ان کی روح کو قبض کرلیتا ہے تو وہ مال ان کے خلیفہ کے لۓ قرار دے دیتا ہے میں آپ کے والد کا خلیفہ ہوں مجھے چاہۓ کہ اس مال کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں(شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص219)

عروہ نے نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ(ع) کا اختلاف اور نزاع جناب ابوبکر سے فدک اور ذی القربی کے حصے کے مطالبہ کے سلسلے میں تھا لیکن جناب ابوبکر نے انہیں کچھ بھی نہ دیا اور ان کو بیت المال کا جزو قرار دیدیا(شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص231 ) \r\nامام حسن بن علی بن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ(ع) اور بنی ہاشم کو ذوی القربی کے سہم اور حصے سے محروم کردیا اور ان کے حصے کو بیت المال کا حصہ قرار دے کر اس سے جہاد کے لۓ اسلحہ اور اونٹ اور خچر خریدتے تھے(شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص231 ) ان مطالب سے معلوم ہوجاۓ گا کہ حضرت فاطمہ(ع)فدک کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات میں جیسے رسول خدا(ص) کے ان اموال میں جو مدینے میں تھے اور خیبر کے خمس سے جو باقی رہ گیا تھا اور غنائم سے رسول خدا(ص) کے سہم اور ذوی القربی کے سہم میں بھی جناب ابوبکر کے ساتھ نزاع رکھتی تھیں لیکن بعد میں یہ مختلف موضوع خلط ملط کردۓ گۓ کہ جن کی وجہ سے حضرت فاطمہ(ع) کے اختلاف اور نزاع میں ابہامات اور اشکالات رونما ہوگۓ حقیقت اور اصل مطلب کے واضح اور روشن ہوجانے کے لۓ ضروری ہے کہ تمام موارد نزاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا جاۓ اور ہر ایک میں علیحدہ بحث اور تحقیق کی جاۓ۔

پیغمبر(ص) کے شخصی اموال

پیغمبر(ص) کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی ان کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کے وہ کمرے کہ جس میں آپ(ص) کی ازواج رہتی تھیں آپ کا شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن وغیرہ، تلوار،زرہ، نیزہ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گاۓ وغیرہ ۔ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام(ص) مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔(مناقب شہر آشوب، ج 1، ص168 ۔ کشف الغمہ ج2 ص،122) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملکیت تھیں اور آپ کی وفات کے بعد یہ اموال آپ کے ورثہ کی طرف منتقل ہوگۓ ۔

حسن بن وشاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے، تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء، صہباء اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا ء اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والے گوسفند، چالیس اونٹنیاں دودھ دینے والی، ذوالفقار نامی ایک تلوار، ایک زرہ بنام ذات الفصول، عمامہ بنام سحاب، دو عدد برد یمانی ایک انگوٹھی،ایک عدد عصا بنام ممشوق، لیف کا ایک فرش، دوعدد عبا کئی چمڑے کے تکۓ ۔ پیغمبر(ص)یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں حضرت فاطمہ(ع) کی طرف سواۓ زرہ،شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں ۔ تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی علیہ السلام کو دیۓ گۓ ۔(کشف الغمہ، ج 2 ص 122)

وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی(سورہ احزاب 33) کہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں ازواج پیغمبر(ص)کو حکم دیا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاھلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تبھی تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتی رہو ۔ لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لۓ کافی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی نسبت دیدینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہیں اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا۔ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طر ف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر ہوا کرتا ہے ۔ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لۓ معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کراۓ پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوی کے لۓ ایک ایک کمرہ مخصوص کررکھا تھا اس لۓ کہا جاتا تھا جناب عائشہ کا گھر یا ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبراکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیۓ تھے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلاۓ کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا لہذا کہنا پڑے گا کہ ازواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص)کی زندگی میں رہ رہیں تھیں۔ حضرت فاطمہ(ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیۓ رکھا ۔ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہۓ کہ رسول خدا(ص)نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ورثاء کی طرف منتقل ہو‌ۓ اور قانون وراثت اور آیات وراثت میں وہ شامل ہیں ۔

فدک

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے جس کا نام فدک ہے۔ مدینہ سے وہاں تک دو دن کا راستہ ہے ۔ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا ۔ صاحب معجم البلدان لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ جگہ تھی ۔ یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب 7 ھجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی ۔

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ جناب رسول خدا(ص) نے ان کی اس خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ تحریر کیا۔ اس صلح نامہ کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگۓ ۔

صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، صاحب معجم البلدان لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص)کو دیدیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرار داد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص)کو دیدیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر(ص)کی ذات کا ہوگیا اور یہ علاقہ بغیر جنگ کۓ پیغمبر(ص) کے ہاتھ آ گیا۔ اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کۓ فتح ہوجاۓ وہ رسول(ص)کا خالص مال ہوا کرتا ہے ۔ یہ قانون اسلام کے مسلمہ قوانین میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے ۔ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔

وما افاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر، ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القوی وللرسول۔(سورہ حشر 7 ۔ 6)

""یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص)کو دلوایا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑاۓ لیکن اللہ اپنے پیغمبر(ص)کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور خدا تمام چیزوں پر قادر ہے ۔ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے لۓ مخصوص ہیں۔ ""

لہذا اس میں کسی کو شک بھی نہیں ہونا چاہۓ کہ فدک پیغمبر(ص) کےخالص اموال میں سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص)کو ملا تھا اور پیغمبر(ص)اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں ۔ آپ اس مال کو حکومت چلانے پر بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تاکہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے۔ آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلا عوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لۓ فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دیدیں ۔ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لۓ مخصوص کر رکھا تھا۔ آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگاۓ۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر باز یار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص)نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگاۓ تھے۔ جب کبھی فدک جناب فاطمہ(ع)کی اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ کردیتے تھے ۔ جب یہی عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشران بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گۓ اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا۔(شرح ابن ابی الحدید، ج 16،ص217)

پیغمبر(ص)کی عادت یہ تھی کہ فدک کی آمدنی سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا وہ بنی ہاشم کے فقراء اور ابن سبیل کو دیدیا کرتے تھے اور بنی ہاشم کے فقراء کی شادی کرانے کے اسباب بھی اسی سے مہیا کرتے تھے۔

فدک جناب فاطمہ(ع)کے پاس

سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ(ع)اور جناب ابوبکر کے درمیان پیدا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا جناب فاطمہ(ع)مدعی تھی کہ رسول خدا(ص)نے اپنی زندگی میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے ۔ ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادی امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کی صورت اختیار کرلی کہ جس کے آثار اور نتائج ہمیشہ جامعہ اسلامی کے دامن گیر ہوگۓ اور اب بھی ہیں۔ اس نزاع میں جو بھی حق ہے وہ اچھی طرح واضح اور روشن ہوجاۓ لہذا چند مطالب کی طرف اشارہ ضروری ہے۔

پہلا مطلب : کیا پیغمبر(ص)کو اسلامی حکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں ۔( واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فئی اور خمس وغیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامی کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامی صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مال نہیں ہوتا، گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کی اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھی یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھی اس نظرئیے کی تردید ہوتی ہے، کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر(ص)اور امام کا شخصی اور ذاتی مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ کہ منصب اور حکومت کا ۔ 

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہئیے لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہئیے لہذا پیغمبر(ص)کے لۓ جو ہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کی ملک تھا اپنی بیٹی ‌ جناب فاطمہ(ع)کو بخش دیتے۔ لیکن اس اعتراض کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان صفحات پر تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جاسکتی لیکن اسے مختصر اور نتیجہ خیز طور پر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلام کے حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی کے مطابق اور پیغمبر(ص)کی سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر(ص)کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جاۓ کہ آپ کا شخصی مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے مال کا ان عمومی اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر(ص)کے ہاتھ میں ہے اور آپ کو اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قسم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیشی اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومی مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تاکہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں۔ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا(ص)نے اپنی آراضی خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دئیے تھے کہ جنھیں اصطلاح میں "" اقطاع "" کہا جاتا ہے۔ 

بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص)نے زمین کے چند قطعات بنی نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبد الرحمان بن عوف اور جناب ابودجانہ وغیرہ کو عنایت فرما دئیے تھے ۔(فتوح البلدان ص 21)

ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا(ص)نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دیدیا تھا ۔(فتوح البلدان ص 34۔)\r\nبلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص)نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دیدیا ۔(فتوح البلدان ص 27)بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص)نے زمین کے چار قطعے علی ابن ابی طالب(ع)کو عنایت فرما دیۓ تھے ۔(فتوح البلدان ص 27)۔ پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہۓ کہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی معین آدمی کو بخش دے تاکہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے ۔ پیغمبر(ص)نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے ۔ حضرت علی(ع)اور جناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کی بخشش سے نوازے گۓ تھے۔ بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا(ص)فدک کی آراضی کو جناب زہرا( ع)کو بخش دیں۔ صرف اتنا مطلب رہ جاۓ گا کہ آیا جناب رسول خدا(ص)نے فدک جناب فاطمہ(ع)کو بخشا بھی تھا یا نہیں تو اس کے اثبات کے لۓ وہ اخبار اور روایات جو پیغمبر(ص)سے منقول ہیں کافی ہیں کہ آپ نے فدک فاطمہ(ع)کو بخش دیا تھا، نمونہ کے طور پر ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ) نازل ہوئی تو رسول خدا(ص)نے جناب فاطمہ(ع)سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے۔(کشف الغمہ،ج 2ص 102 ۔ در منشور، ج 4 ص 177)

عطیہ نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ ) نازل ہوئی تو جناب رسول خدا(ص)نے جناب فاطمہ کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا ۔(کشف الغمہ،ج 2ص 102)

جناب امام جعفر صادق(ع)نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ )نازل ہوئی تو پیغمبر(ص)نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ(ذالقربی)کون ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا(ص)نے امام حسن(ع)اور امام حسین(ع)اور جناب فاطمہ(ع)کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسی لۓ فدک تم کو دیتا ہوں ۔(تفسیر عیاشی ج 2 ص 276)

ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق(ع)کی خدمت میں عرض کیا کہ آیا رسول خدا(ص)نے فدک جناب فاطمہ(ع)کو دیا تھا ؟ آپ(ع)نے فرمایا کہ فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ(ع)کے لۓ‌ معین ہوا تھا ۔(تفسیر عیاشی ج 2 ص 276)

امام جعفر صادق(ع)نے فرمایا کہ جناب فاطمہ(ع)حضرت ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا ۔ جناب ابوبکر نے کہا اپنے مدعا کے لۓ گواہ لاؤ توجناب ام ایمن گواہی کے لۓ حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز کی گواہی دیتی ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا(ص)کے پاس آۓ اور عرض کی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے(وآت ذالقربی حقہ )پیغمبر(ص)نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذی القربی کون ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کی کہ فاطمہ(ع)ذی القربی ہیں پس رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ(ع)کو دیدیا ۔(درمنشور، ج 4 ص 177)

اس قسم کی روایات سے جو اس آیت کی شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا(ص)اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربی فاطمہ(ع)کے اختیار میں دے دیں تاکہ اس کے ذریعے سے حضرت علی( ع)کی اقتصادی حالت(جس نے اسلام کے راستے میں جہاد اور فداکاری کی ہے )مضبوط رہے۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذوالقربی والی آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں وارد ہوا ہے سورہ اسراء کی آیت ہے اور سورہ اسراء کو مکی سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کی فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اسکے جواب میں دو مطالب میں سے ایک کو اختیار کیا جاۓ گا اور کہا جاۓ گا کہ اگرچہ سورہ اسراء مکی ہے مگر پانچ آیتیں اس کی مدینہ میں نازل ہوئیں ہیں ۔ آیت(ولا تقتلواالنفس )اور آیت(ولا تقربوا الزنا )اور آیت(اولئک الذین یدعون )اور آیت(اقم الصلو ۃ )اور آیت(ذی القربی )۔(تفسیر المیزان تالیف استاد علامہ طباطبائی )

دوسرا جواب یہ ہے کہ ذی القربی کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا۔ 

فدک کے دینے کا طریقہ

ممکن ہے کہ جناب رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ(ع)کو دو طریقوں میں سے ایک طریقہ سے دیا ہو ۔ پہلا فدک کی آراضی کو آپ کا شخصی مال قرار دیدیا ہو ۔

دوسرا طریقہ یہ کہ اسے علی(ع)اور فاطمہ(ع)کے خاندان پر جو مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھی ایک دائمی صدقہ اور وقف ہو جو کہ ان کے اختیار میں دیدیا ہو۔

اخبار اور احادیث کا ظاہر پہلے طریقے کی تائید کرتا ہے لیکن دوسرا طریقہ بھی بعید نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں اس پر نص موجود ہے جیسے ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق(ع)سے سوال کیا کہ کیا رسول خدا(ص)نے فدک جناب فاطمہ(ع)کو بخش دیا تھا آپ نے فرمایا کہ پیغمبر(ص)نے فدک وقف کیا اور پھر آیت ذالقربی کے مطابق وہ آپ کے اختیار میں دیدیا۔ میں نے عرض کی کہ رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ( ع)کو دیدیا۔ آپ نے فرمایا بلکہ خدا نے وہ فاطمہ(ع)کو دیا ۔(بحارالانوار، ج96 ص 213)امام زین العابدین(ع)نے فرمایا کہ رسول(ص)نے فاطمہ(ع)کو بطور قطعہ دیا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 102)ام ہانی نے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ(ع)جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا ؟ جناب ابوبکر نے کہا میری آل و اولاد، جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا پس تم کس طرح رسول اللہ کے ہمارے سوا وارث ہوگۓ ہو، جناب ابوبکر نے کہا اے رسول اللہ کی بیٹی ! خدا کی قسم میں رسول اللہ کا سونے، چاندی وغیرہ کا وارث نہیں ہوا ہوں۔ جناب فاطمہ(ع)نے کہا ہمارا خیبر کا حصہ اور صدقہ فدک کہاں گیا ؟ انہوں نے کہا اے بنت رسول(ص) میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک طمعہ تھا جو اللہ نے مجھے دیا تھا جب میرا انتقال ہوجاۓ تو یہ مسلمانوں کا ہوگا(فتوح البلدان ص 44)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق(ع)تصریح فرماتے ہیں کہ فدک وقف تھا، دوسری حدیث میں امام زین العابدین(ع)نے اسے قطعہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے معنی صرف منافع کا اسلامی اور حکومتی زمین سے حاصل کرنا ہوتا ہے، احتجاج میں حضرت زہرا(ع)نے ابوبکر سے بعنوان صدقہ کے تعبیر کیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں جو پہلے گزر چکی ہے امام جعفر صادق(ع)نے فرمایا ہے کہ رسول خدا(ص)نے حسن(ع)و حسین(ع)اور فاطمہ(ع)کو بلایا اور فدک انہیں دیدیا ۔ اس قسم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ(ع)و علی(ع)کے خاندان کو دیا جو ولایت اور رہبری کا خاندان تھا ۔ لیکن جن روایات میں وقف وغیرہ کی تعبیر آئی ہے وہ ان روایات کے مقابل کہ جن میں بخش دینا آیا ہے بہت معمولی بلکہ ضعیف بھی شمار کی جاتی ہیں لہذا صحیح نظریہ یہی ہے کہ فدک جناب فاطمہ(ع)کی شخصی اور ذاتی ملکیت تھا جو بعد میں ان کی اولاد کی میراث بنا۔

فدک کے واقعہ میں قضاوت

دیکھنا یہ چاہئیے کہ اس واقعہ میں حق جناب فاطمہ(ع)کے ساتھ ہے یا ابوبکر کے ساتھ ؟مورخین نے لکھا ہے کہ رسول خدا(ص)کی وفات کے دس دن کے بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمی بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا ۔(شرح ابن ابی الحدید ج 16، ص 263 )حقائق کی روشنی میں پیغمبر اسلام(ص)کی بیٹی حق پر تھیں کیونکہ وہ کسی ایسی چیز کا ہرگز مطالبہ نہیں کر سکتی تھیں جو ان کی نہ ہو ۔

فضائل حضرت فاطمہ زھرا(س)

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ عالم اسلام میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں

1۔ جناب مریم بنت عمران 

2 ۔ جناب فاطمہ(س)بنت حضرت محمد(ص)

3 ۔ جناب خدیجہ بنت خویلد

4 ۔ جناب آسیہ زوجہ فرعون(کشف الغمہ ج 2 ص 76)

" پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ(س)جنت کی بہترین عورتوں میں ہیں ۔ "(کشف الغمہ ج 2 ص 76)

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ہوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جاۓ ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 83 ۔ ذخائر العقبی ص 48)پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت فاطمہ(س)سے فرمایا کہ خدا تمہاری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 84 ۔ اسد الغابہ ج 5 ص 522 )

حضرت عایشہ کہتی ہیں کہ رسول خدا(ص)کے بعد میں نے حضرت فاطمہ(س)سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زھرا(ص)کو علم کے ذریعہ فساد اور برائی سے دور رکھا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم کے پاس حضرت فاطمہ(ص)کے 9 نام ہیں۔ 

فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زھرا ۔ اسکی علت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(ص)تمام شر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو کوئی حضرت فاطمہ(ص)کا شوہر نہ ہوتا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

اسم مبارک : حضرت فاطمہ زھرا(ص)

کنیت : ام الحسن، ام الحسین، ام المحسن، ام الائمہ و ام ابیھا ۔

القاب : زھرا، بتول، صدیقہ، کبری، مبارکہ، عذرہ، طاھرہ، و سیدۃ النساء ۔

والد : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

والدہ : ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ۔

ولادت : 20 جمادی الاخر، بعثت کے پانچویں سال بروز جمعہ 

مقام ولادت : شہر مکہ معظمہ ۔ 

وفات : 11 ھجری بروز پیر 

مقام وفات : شہر مدینہ منورہ 

مقام دفن : نامعلوم

پیغمبر اسلام حضرت محمد(ص)کی رحلت کے بعد مصیبتوں نے حضرت زھرا(س)کے دل کو سخت رنجیدہ، ان کی زندگی کو تلخ اور ناقابل تحمل بنا دیا تھا ۔ ایک طرف تو پدر بزرگوار سے اتنی محبت تھی کہ ان کی جدائی اور دوری برداشت کرنا ان کے لئے بہت سخت تھا ۔ دوسری طرف خلافت کے نام پر اٹھنےوالے فتنوں نے حضرت علی علیہ السلام کے حق خلافت کو غصب کرکے وجود مطہر حضرت زھرا(س)کو سخت روحانی و جسمانی اذیت پہونچائی ۔ یہ رنج وغم اور دوسری مصیبتیں باعث ہوئیں کہ حضرت زھرا(س)پیامبراسلام(ص)کے بعد گریہ و زاری کرتی رہتی تھیں کبھی اپنے بابا رسول خدا(ص)کی قبر مبارک پر زیارت کی غرض سے جاتی تھیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور کبھی شھداء کی قبروں پر جاتیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور گھر میں بھی گریہ و زاری برابر رہتا تھا ۔ چونکہ آپ(س)کا گریہ مدینہ کے لوگوں کو ناگوار گزرتا تھا اس لئے انھوں نے اعتراض کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے قبرستان بقیع میں ایک چھوٹا سا حجرہ بنا دیا جسکو"" بیت الحزن"" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حضرت زہرا(س)حسنین علیھم السلام کو لیکروہاں چلی جاتی تھیں اور رات دیر تک وہاں گریہ کرتی تھیں ۔ جب شب ہوجاتی تھی تو حضرت علی علیہ السلام جاتے اور حضرت زہرا(ص)کو گھر لاتے ۔ یہاں تک کہ آپ مریض ہوگئیں ۔ پیامبر اسلام(ص)کے فراق میں حضرت زہرا(ص)کا رنج و غم اتنا زیادہ تھا کہ جب بھی پیغمبر اسلام(ص)کی کوئی نشانی دیکھتی گریہ کرنےلگتی تھیں ۔

اور بے حال ہوجاتی تھیں ۔ بلال جو رسول(ص)کے زمانے میں مؤذن تھے انھوں ‌نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اب کسی کے لۓ اذان نہيں کہوں گا ۔ ایک دن حضرت زھرا(س)نے کہا کہ میں پدر بزرگوار کے مؤذن کی آواز سننا چاہتی ہوں ۔ یہ خبر بلال تک پہونچی اور ‌حضرت زہرا(ص)کے احترام میں اذان کہنے کے لۓ کھڑے ہوگۓ ۔ جیسے ہی بلال نے اللہ اکبر کہا حضرت زہرا(ص)گريہ نہ روک سکیں اور جیسے ہی بلال نے کہا اشھد ان محمدا رسول اللہ حضرت زہرا(س)نے ایک فریاد بلند کی اور بیہوش ہوگئیں ۔ لوگوں نے بلال سے کہا کہ اذان روک دو۔ رسول(ص)کی بیٹی دنیا سے چلی گئی۔ بلال نے آذان روک دی جب حضرت زہرا(س)کو ہوش آیا تو کہا بلال آذان کو تمام کرو ۔ بلال نے انکار کیا اور کہا کہ اس آذان نے مجھے ڈرا دیا ہے ۔ آپ کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا تو آپ نے کنیز کو پانی لانے کا حکم دیا تاکہ غسل کرکے نیا لباس پہن لیں کیونکہ بابا سے ملاقات کا وقت بہت قریب تھا، کنیز نے حکم کی تعمیل کی اور آپ نے غسل کرکے نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنے بستر پر جا کر قبلہ کی طرف منہ کرکے لیٹ گئیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں بند اورلب خاموش ہوگۓ اور آپ جنت میں چلی گئیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ علی علیہ السلام نے وصیت کے مطابق غسل و کفن دیکر شب کی تاریکی میں آپکے جسد اطہر کو سپرد خاک کردیا لیکن آپ کی قبر کو پوشیدہ رکھا اور اب تک پوشیدہ ہے اس لۓ تاکہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ آپ کی قبر کہاں ہے کیونکہ اس وقت کے سیاسی افراد فاطمہ(س)کی قبر کھود کر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے پر کمر بستہ تھے۔ فاطمہ(س)کی وصیت سے اس وقت اور بعد میں آنے والی تمام نسلوں پر یہ واضح ہوگیا کہ رسول(ص)کی بیٹی فاطمہ(س)پر ظلم ہوا ہےاور فاطمہ(س)ان ظالم افراد سے مرتے دم تک ناراض رہیں ۔ حضرت فاطمہ(س )کی وفات کے بعد علی علیہ السلام تن تنہا رہ گۓ ۔ علی علیہ السلام نے فاطمہ(ص)کی قبر پر بیٹھ کر دھیمی آواز میں کچھ کلمات زبان سے دہراۓ ۔ اور پھر پیغمبر اسلام(ص)کی قبر کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا۔ اے رسول خدا(ص)آپ نے جو امانت میرے سپرد کی تھی میں آپ کو واپس کررہا ہوں، آقا جوکچھ ہم پہ گزر گئی فاطمہ(س)سے دریافت کرلیجۓ گا، وہ آپ کو سب کچھ بتا دیں گی ۔ با الآخر انھیں صدمات کی بنا پر 13 جمادی الاول یا 3 جمادی الثانی 11 ھجری کو یعنی رحلت پیغمبر(ص)کے 75 یا 90 دن کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی اور اپنے شیعوں کو ہمیشہ کے لۓ غم زدہ کردیا ۔ 

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی چند احادیث

حدیث (۱)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” ما یصنع الصائم بصیامہ اذا لم یصن لسانہ و سمعہ و بصرہ و جوارحہ “ 

ترجمہ : 

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں:

” اگر روزہ دار حالت روزہ میں اپنی زبان ، اپنے کان و آنکہ اور دیگر اعضاء کی حفاظت نہ کرے تو اس کا روزہ اس کے لئے فائدہ مند نھیں ھے “۔ 

حدیث (۲)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” یا ابا الحسن انی لا مستحیی من الٰھی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیہ “ 

ترجمہ : 

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” اے علی مجھے خدا سے شرم آتی ھے کہ آپ سے ایسی چیز کی فرمائش کروں جو آپ کی قدرت سے باھر ھے “۔ 

حدیث (۳)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” الزم عجلھا فان الجنة تحت اقدامھا “

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” ماں کے پیروں سے لپٹے رھو اس لئے کہ جنت انھیں کے پیروں کے نیچے ھے “۔ 

حدیث (۴)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” خیر للنسا ان لا یرین الرجال و لا یراھن الرجال “

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” عورتوں کے لئے خیر و صلاح اس میں ھے کہ نہ تو وہ نا محرم مردوں کو دیکھیں اور نہ نامحرم مرد ان کو دیکھیں “۔

حدیث (۵) 

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

”حبب الٰھی من دنیاکم ثلاث : تلاوة کتاب اللہ و المنظر فی وجہ رسول اللہ 

و الانفاق فی سبیل اللہ “ 

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” میرے نزدیک تمھاری اس دنیا میں تین چیزیں محبوب ھیں: تلاوت قرآن مجید ، زیارت چھرہ رسول خدا ، اور راہ خدا میں انفاق “۔ 

 

حدیث (۶)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا : 

” من اصعد الی اللہ خالص عبادتہ اھبط اللہ عزو جل الیہ افضل مصلحتہ “ 

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” ھر وہ شخص جو اپنے خالصانہ عمل کو خداوند عالم کی بارگاہ میں پیش کرتا ھے خدا بھی اپنی بھترین مصلحت اس کے حق میں قرار دیتا ھے “۔ 

حدیث (۷)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” فی المائدة اثنتا عشرة خصلة یجب علی کل مسلم ان یعرفھا اربع فیھا فرض

و اربع فیھا سُنَّة و اربع فیھا تاٴدیب:فامّا الفرض فالمعرفة و الرضا والتسمیة و الشکر ، 

فاما السنةفالوضو ء قبل الطعام و الجلوس علی الجانب الایسر و الاکل بثلاث اصابع و لعق الاصابع، فامّا التاٴدیب فاکل بما یلیک و تصغیر اللقمہ و المضغ الشدید وقلة النظر فی وجوہ الناس“

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

”آداب دسترخوان میں بارہ چیزیں لازم ھیں ،جن کا علم ھر مسلمان کو ھونا چاھئے۔ ان میں سے چار چیزیں واجب ،چار مستحب اور چار رعایت ِادب کے لئے ھیں۔ وہ چار چیزیں جو لازم ھیں وہ یہ ھیں: معرفت ، خوشنودی، شکر اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا ۔ وہ چار چیزیں جو مستحب ھیں وہ یہ ھیں : کھانے سے پھلے وضو کرنا ،بائیں جانب بیٹھنا ،تین انگلیوں سے کھانا اور کھانے کو انگلیوں سے ملانا۔ اور وہ چار چیزیں جو رعایت ِ ادب میں شامل ھیں وہ یہ ھیں: جو بھی سامنے آئے اسے کھانا ، لقمہ چھوٹا ھونا، خوب چبا کر کھانا اور لوگوں کے چھرہ پر زیادہ نگاہ نہ کرنا “۔


source : http://iqna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام موسیٰ کاظم (ع) کی شھادت اور اس کے محرکات
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض ...
حسین بن علی (علیہما السلام) کا یزید بن معاویہ کی ...
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
اهل بیت علیہم السلام آسمانی فرش نشین
(پہلا حصہ) امام محمد مہدی علیہ السلام
آئمہ کی زندگی میں سخاوت اور جود وکرم!
حضرت فاطمہ زہراء (س) کی ولادت با سعادت
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
حضرت محمد (ص) کا بیانِ حدیث کیلئے اہتمام

 
user comment