یہ وہ حقیقت ہے ،جس کا متعدد عیسائی محققین نے بھی اعتراف کیا ہے ۔
۱ عبد المسیح انطاکی صاحب جریدہ ”العمران“ مصر ،جنہوں نے امیر المومنین علیہ السلامسیرت میں اپنی مشہور کتاب ”شرح قصیدہ علویہ“ تحریر کی ہے اور وہ مطبع رعمسیس فجالہ مصر میں شائع ہوئی ہے وہ اس کے ص۵۳۰، پر تحریر کرتے ہیں :
لاجدال ان سیدنا علیاً امیر المومنین ہو امام الفصحاء واستاذ البلغاء واعظم من خطب و کتب فی حرف اہل ہذہ الصناعة الالباء وہذا کلام قد قیل فیہ بحق انہ فوق کلام الخلق و تحت کلام الخالق قال ہذا کل من عرف فنون الکتابة واشتغل فی صناعة التحبیر والتحریر بل ہو استاذ کتاب العرب ومعلمہم وبلا مراء فما من ادیب لبیب حاول اتقان صناعة التحریر االادّبین یدیہ القران و نہج البلاغہ ذلک کلام الخالق وہذاکلام اشرف المخلوقین و علیہما یعوّل فی التحریر والتحبیر اذا اراد ان یکون فی معاشر الکتبة المجیدین ولعل اضل من خدم لغة قریش الشریف الرضی الذی جمع خطب واقوال و حکم ورسائل سیدنا ا میر المومنین من افواہ الناس وامالیہم واصاب کل الاصابة باطلاقہ علیہ اسم ”نہج البلاغہ“ وما ہذاالکتاب الاصراطہا المستقیم لمن یحاول الوصول الیہا من معاشر المتادّبین۔
اس میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا کہ سیدنا حضرت علی امیر المومنین فصیحوں کے امام اور بلیغوں کے استاد اور عربی زبان خطابت اور کتابت کرنے والوں میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت ہیں اور یہ وہ کلام ہے جس کے بارے میں بالکل صحیح کہا گیا ہے کہ یہ کلام خلق سے بالا اور خالقِ کلام سے نیچے ہے یہ ہر اس شخص کا قول ہوگا ،جس کے انشاء پردازی کے فنون سے وافقیت حاصل کی ہو اور تحریر کا مشغلہ رکھا ہو،بلکہ آپ بلاشبہ تمام عرب انشاء پردازوں کے استاد او رمعلم ہیں کوئی ادیب ایسا نہیں ہے جو تحریر کے فن میں کمال حاصل کرنا چاہے، مگر یہ کہ اس کے سامنے قرآن ہوگا۔ اورنہج البلاغہ کہ ایک خالق کا کلام ہے اور دوسرا اشر ف المخلوقین کا اور انہیں پر اعتماد کرے گا ہر وہ شخص جو چاہے گا کہ اچھے لکھنے والوں میںاس کا شمار ہو ، غالباً زبان عربی کی خدمت کرنے والوں میں سب سے بڑا درجہ شریف رضی ۺ کا ہے جنہوں نے امیرالمومنین کے یہ خطبے اور اقوال اور حکیمانہ ارشادات اور خطوط لوگوں کے محفوظات اور مخطوطات سے یکجا کئے ہیں اور انہوں نے اس کا نام ”نہج البلاغہ“ بھی بہت ٹھیک رکھا۔ بلاشبہ یہ بلاغت کاصراط مستقیم ہے ہر اس شخص کے لئے جو اس منزل تک پہنچنا چاہئے۔
اس کے بعد انہوں نے شیخ محمد عبدہ کی رائے بیان کی ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ ایک مرتبہ شیخ ابراہیم یازجی نے جو اس آخر دور میں متفقہ طور پر عربی کے کامل انشاء پرداز اور امام اساتذہ لغت مانے گئے ہیں ،مجھ سے فرمایا مجھے اس فن میں جو مہارت حاصل ہوئی ،وہ صرف قرآن مجید اور نہج البلاغہ کے مطالعہ سے یہ دونوں عربی زبان کے وہ خزانہٴ عامرہ ہیں ،جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔
۲)فواد افرام البستانی الآداب العربیہ فی کلیة القدیس یوسف (بیروت) انہوںنے ایک سلسلہ تعلیمی کتابوںکا روائع کے نام سے شروع کیا ہے ،جس میں مختلف جلیل المرتبہ مصنفین کے آثار قلمی اور تصانیف سے مختصر انتخابات ،مصنف کے حالات،کمالات ،کتاب کی تاریخی تحقیقات وغیرہ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مجموعوں کی صورت میں ترتیب دیئے ہیں اور وہ کیتھلک عیسائی پریس (بیروت) میں شائع ہوئے ہیں ۔اس سلسلہ میں پہلا مجموع امیرالمومنین اورنہج البلاغہ سے متعلق ہے جس کے بارے میں موٴلف نے اپنے مقدمہ میں تحریر کیا ہے :
اننا نبدا الیوم بنشر منتخبات من نہج البلاغہ للامام علی ابن ابی طالب اول مفکری الاسلام۔
ہم سب سے پہلے اس سلسلہ کی ابتدا کرتے ہیں کچھ انتخابات کے ساتھ نہج البلاغہ کے جو اسلام کے سب سے پہلے مفکر امام علی ابن ابی طالب کی کتاب ہے۔
اس کے بعد وہ سلسلہ شروع ہوا ہے جوسلسلہٴ روائع پہلی قسط ہے اس کا پہلا عنوان ہے ۔”علی ابن ابی طالب “ جس کے مختلف عناوین کے تحت میں امیر المومنین کی سیرت اورحضرت کے خصوصیات زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے جو ایک عیسائی کی تحریر ہوتے ہوئے پورے طورپر شیعی نقطہء نظر کے موافق نہ سہی لیکن پھر بھی حقیقت و انصاف کے بہت سے جوہر اپنے دامن میں رکھتی ہے۔دوسرا عنوان ہے ”نہج البلاغہ‘ اورا س کے ذیلی عناوین میں ایک عنوان ہے ”جمعہ“ دوسرا عنوان ہے ”صحة نسبتہ“ اس کے تحت میں لکھا ہے ”نہج البلاغہ“ کے جمع و تالیف کو بہت زمانہ نہیںگذرا تھا کہ بعض اہل نظر اور مورّخین نے اس کی صحت میں شک کرنا شروع کیا،ان کا پیشرو ابن خلکان ہے ، جس نے اس کتاب کو اس کے جامع کی طرف منسوب کیا ہے او ر پھر صفدی وغیرہ نے اس کی پیروی کی او رپھر شریف رضی ۺ کے بسا اوقات اپنے دادا مرتضیٰ کے لقب سے یا د کئے جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کو دھوکا ہوگیااور وہ ان میں اور ان کے بھائی علی بن طاہر معروف بہ سید مرتضیٰ متولد ۹۶۶ء متوفیٰ ۱۰۴۴ء میں تفرقہ نہ سمجھ سکے اور انہوں نے نہج البلاغہ کے جمع کو ثانی الذکر کی طرف منسوب کردیا جیسا کہ جرجی زیدان نے کیا ہے اور لوگوں نے جیسے مستشرق کلیمان نے یہ طرہ کیا کہ اصل مصنف کتاب کا سید مرتضیٰ ہی کو قرار دے دیا ہم جب اس شک کے وجوہ و اسباب پر غور کرتے ہیں تووہ ہر پھر کے پانچ امر ہوتے ہیں ۔
اس کے بعدانہوں نے شک کے وہی اسباب تقریباً تحریر کئے ہیں جو اس کے پہلے محی الدین عبد الحمید شارح نہج البلاغہ کے بیان میں گذر چکے ہیں اور پھر انہوں نے ان وجوہ کو ردکیا ہے۔
۳)بیروت کے شہرہٴ آفاق مسیحی ادیب اورشاعر پولس سلامہ اپنی کتاب ”اول ملحمہ عربیہ عید الغدیر“ میں جو مطبعة النسر بیروت میں شائع ہوئی ہے ۔ صفحہ ۷۱،۷۲پر لکھتے ہیں:
” نہج البلاغہ“ مشہور ترین کتا ب ہے ، جس میں امام علی علیہ السلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے اوراس کتاب سے بالاتر سواقرآن کے اور کسی کتاب کی بلاغت نظر نہیں آتی اس کے بعد حسب ذیل اشعار نہج البلاغہ میں کی مدح میں درج کئے گئے ہیں۔
ہذہ الکہف للمعارف باب
مشرع من مدینہ الاسرار
تنثر الدر فی کتاب مبین
سفر نہج البلاغہ المختار
ہوروض من کل زہر جنی
اطلعتہ السماء فی النوار
فیہ من نضرة الورد العذاری
والخزامی والفدّوالجلنار
فی صفاء الینبوع یجری زلالا
کوثر ارائقابعید القرار
تلمع الشط ولضفاف ولکن
بالعجز العیون فی الاغوار
یہ معارف و علوم کا مرکز اوراسرار و رموز کاکھلا ہوا دروازہ ہے۔
یہ نہج البلاغہ کیا ہے، ایک روشن کتاب میں بکھرے ہوئے موتی
یہ چنے ہوئے پھولوں کا ایک باغ ہے ،جس میں پھولوں کی لطافت چشموں کی صفائی اورآبِ کوثر کی شیرینی جس نہر کی وسعت اورکنارے توآنکھوں سے نظر آتے ہیں مگر تہ تک نظر ےں پہنچنے سے قاصر ہیں۔
مذکورہ بالا ادباء محدثین کے کلام سے نہج البلاغہ کے لفظی اورمعنوی اہمیت بھی ضمناً ثابت ہوگئی ہے اب اس کے متعلق مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اب رہ گیا ہمارے فنی اصول سے اس کتاب کا وہ درجہ جس اعتبارسے ہم اس سے استدلال کر سکتے ہیں تو مجموعی طورپ ر ہمارے نزدیک اس کتاب کے مندرجات کی نسبت امیر المومنین کی جانب اسی حد تک ثابت ہے جیسے صحیفہ کاملہ کی نسبت امام زین العابدین کی جانب یاکتب اربعہ کی نسبت ان کے مصنفین کی طرف یامعلقات اربعہ کی نسبت ان کے نظم کرنے والوں کی جانب رہ گیا، خصوصی عبارات اورالفاظ میں سے ہر ایک کی نسبت اطمینان و ہ اسلوب کلام اور انداز بیان سے وابستہ ہے اور ان مندرجات کی مطابقت کے ا عتبار سے ہے ان ماخذوں کے ساتھ جو صحیح طورپر ہمارے یہاں مسلّم الثبوت ہیں۔اصطلاحی حیثیت سے قدماء کی تعریف کے مطابق جو صحت خبر کے لئے وثوق بالصدور کو کافی سمجھتے ہیں ان شرائط کے بعد اس کا ہر جز صحیح کی تعریف میں داخل ہے اور متاخرین کی اصطلاح کی مطابق جوصحت کو باعتبار صفات راوی قراردیتے ہیں۔نہج البلاغہ کے مندرجات کو مرسلات کی حیثیت حاصل ہے مرسلات کی اہمیت ارسال کرنے والے کی شخصیت کے اعتبار سے ہوتی ہے ۔یہیں تک کہ ابن ابی عمیر اورجلیل القدر اصحاب کے بارے میں علماء نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ ان تک جب خبر کی صحت ثابت ہوجائے تو پھر ان کے آگے دکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون راوی ہے اس لئے کہ ان کا نقل کرنا خود اس کے اعتبار کی دلیل ہے اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ مرسلات ابن ابی عمیر حکم مسند میں ہیں۔اس بناپرخود جناب سید رضی اعلی اللہ مقامہ کی جلالت قدر ضرور اسے عام مرسلات سے ممتاز کردیتی ہے ۔پھر بھی مواعظ وتواریخ وغیرہ کا ذکر نہیں جس میں عقیدہ و عمل ایسی اہمیت نہیں ہے ۔لےکن مقام اعتقاد و عمل میں ہم نہج البلاغہ کے مندرجات و ا ور ادلہ کے ساتھ جو اس باب میں موجود ہوں۔اصول تعاون و تراجیح کے معیار پرجانچےں گے اور بعض موقعوں پر ممکن ہے جو مسند حدیث اس موضوع میں موجود ہو اس پر نہج البلاغہ کی روایت کوترجیح ہوجائے اور بعض مقاموں پر ممکن ہے تکافوٴ ہوجائے اوربعض جگہ شاید ان دوسرے ادلہ کو ترجیح ہوجائے ،لےکن اس سے نہج البلاغہ کی مجموعی حیثیت پرکوئی اثر نہیںپڑتااس کاوزن اسی طرح برقرار رہنا ہے جس طرح کافی کی بعض حدیثوں کی کسی وجہ سے نظر انداز کرنے کے بعدبھی کافی کاوزن مسلم ہے۔
بہر صورت نہج البلاغہ کی علمی و ادبی و مذہبی اہمیت اور اس کے حقائق آگےںمضامین اور اخلاقی مواعظ کا وزن ناقابل انکار ہے ،مگر ظاہر ہے کہ نہج البلاغہ سے صحیح فائدہ وہی افراد اٹھاسکتے ہیں کہ جو عربی زبان میں مہارت رکھتے ہوں۔غیر عربی داں اس حزینہٴ عامرہ سے فیض حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے ایرانی فضلاء و علماء کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اس فارسی ترجمے شائع کرےں چنانچہ متعدد ترجمے ایران میں اس کے شائع ہوتے رہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اردوزبان میں ا بھی تک نہج البلاغہ کا کوئی اطمینان ترجمہ نہیں ہوا ہے ۔بعض ترجمے جو شائع ہوئے ، ان میں سے کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیںرکھا،نیزحواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کردیئے۔ جناب مولانا مفتی جعفر حسین صاحب جو ہندوستان و پاکستان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اپنے علمی کمالات کے ساتھ بلندی سیرت اورسادگی معاشرت میں جن کی ذات ہندوستان و پاکستان میں ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے ان کی یہ کوشش نہایت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے مکمل ترجمہ اورشارحانہ حواشی کے تحریر کابیڑا اتھایا اورکافی محنت و عرق ریزی سے اس کام کی تکمیل فرمائی ۔بغیر کسی شک و شبہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک ہماری زبان میں جتنے ترجمے اس کتاب کے حواشی شائع ہوئے ہیں، ان سب میں اس ترجمہ مرتبہ اپنی صحت اور سلامت اور حسن اسلوب میں یقینا بلند ہے اور حواشی میں بھی ضرور مطالب کے بیان میں کمی نہیںکی گئی اور زوائد کے درج کرنے سے احتراز کیا ہے ۔بلا شبہ نہج البلاغہ کے ضروری مندرجات اور اہم نکات پر مطلع کرنے کے لئے اس تالیف نے ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے جس میں مصنف ممدوح قابل مبارکباد ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ صاحبان ذوق ہر طبقہ کے اس کتاب کاویساہی خیر مقدم کرےں گے جس کی وہ مستحق ہے۔ جزی اللہ مولفہ فی الدارین خیرا۔
source : http://www.islamshia-w.com/Portal/Cultcure/Urdu/CaseID/55673/71243.aspx