قارئین محترم !ا ب ھم خلفائے ثلاثہ کے چند شواھد پیش کرتے ھیں ، جنہوں نے متعدد مقامات پر الٹے سیدھے اور خلافِ واقع حکم اور فتوے صادر فرمائے، جو قرآن و حدیث کے صریحا مخالف تھے، جس کی وجہ سے حضرت امیر المومنین (ع) نے اس رویہ کو اپنی محکم اورمضبوط دلیل و برھان کے ذریعہ ھدف تنقید قرار دیا ، چنانچہ اسبارے میں اھل سنت کی معتبر کتابوں میں کثرت کے ساتھ شواھد پائیجاتے ھیں،ھم صرف اس جگہ گیارہ عددمقامات صحیحین سے نقل کرنے پراکتفاکرتے ھیں۔
قارئین محترم !ا ب ھم خلفائے ثلاثہ کے چند شواھد پیش کرتے ھیں ، جنہوں نے متعدد مقامات پر الٹے سیدھے اور خلافِ واقع حکم اور فتوے صادر فرمائے، جو قرآن و حدیث کے صریحا مخالف تھے، جس کی وجہ سے حضرت امیر المومنین (ع) نے اس رویہ کو اپنی محکم اورمضبوط دلیل و برھان کے ذریعہ ھدف تنقید قرار دیا ، چنانچہ اسبارے میں اھل سنت کی معتبر کتابوں میں کثرت کے ساتھ شواھد پائیجاتے ھیں،ھم صرف اس جگہ گیارہ عددمقامات صحیحین سے نقل کرنے پراکتفاکرتے ھیں۔
۱۔ حضرت عمر نے حکم تیمم کی صریحا خلاف ورزی کی!!
قرآن مجید کی صریحا یت اور رسول اسلام (ص)کا واضح دستور اس بارے میں موجود ھے کہ جب انسان( مثلاً) مجنب ھو جائے اور پانی کا حا صل کرنا ممکن نہ ہو، یا پانی کا استعمال ضرر رساں ہو،توانمقامات پر انسان کے اوپر واجب ھے کہ وہ تیمم کرکے اپنی عبادت بجا لائیجب تک کہ عذر زائل نہ ھو جائے،لیکن جب یہ قضیہ عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو بجائے اس کے کہ آپ اس صورت میں حکمِ تیمم بیان کرتیجو قرآن و حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ھے، آپ نے فوراً ”لَاتُصَلِّ“ کا علی الاعلان حکم صادر فرمادیا یعنی نماز نہ پڑھے !!اتفاقاً عمار یاسر اس وقت موجود تھے لہٰذاآپ نے خلیفہ ٴ وقت پر اعتراض کیا اور فرمایا : ایسی صورت میں تیمم کر کے انسان اپنی عبادت بجالائے گا اور یہ بات روایات ِ نبوی سے ثابت ھے، لیکن خلیفہ صاحب کو عمار یاسر کی بات پر اطمینان نہ ہوااور الٹے عمار یاسر کو تھدید کرنے لگے!( الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے) جس کی وجہ سے عماریاسر کو یہ کهنا پڑا کہ اگر خلیفہ صاحب مصلحت نھیں سمجھتے تو میں اپنی بات واپس لیتا ہوں !! ھم اس جگہ اس بارے میں دو عدد روایتیں معہ ترجمہ و متن نقل کرتے ھیں :
۱۔ سعید بن عبدالرحمان عن ابیہ؛ان رجلااتی عمر،فقال: انی اجنبت فلم اجد ماءً ،فقال:لا تصل، فقال عمار:اما تذکر یا امیرالموٴمنین! اذاانا وانت فی سریة فاجنبنا فلم نجد ماءً فاما انت فلم تصل،واما انا فتمعکت فی التراب وصلیت،فقال النبی(ص)انم ا یکفیک ان تضرب بیدیک الارض ثم تنفخ،ثم تمسح بھماوجھک وکفیک؟فقال عمر:اتق الله یا عمار! فقال ان شئت لم احدث بہ!!
سعید بن عبدالرحمن اپنے باپ سے نقل کرتے ھیں :
ایک مرد عمر کے پاس آیا اور سوال کیا : میں مجنب ھو گیا ہوں اور پانی دستیاب نھیں ھے بتائیے اس حا لت میں کیا کروں ؟عمر نے کھا: نماز مت پڑھو! (اتفاقاً)عمار یاسر اس وقت موجود تھے، انھوں نے کھا: اے امیرالموٴمنین! کیا آپ کو یاد نھیں کہ ھم اور آپ کسی جنگ میں تھے اور مجنب ھو گئے اور کسی جگہ پانی نہ ملا ،تو آپ نے نماز نھیں پڑھی ،لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کرنمازکو انجام دیا، جب رسو ل خدا(ص)کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو فرمایا : اسی اندازہ بھر کا فی ھے کہ تیمم کی غرض سے (نماز کیلئے)دونوں ھاتھوں کو زمین پرمارواور خاک کے ذرات کو بر طرف کر کے (ھاتھوں کو جھاڑکے)دونوں ھاتھوں کو چھرے پر پھیر لو اور پھر اپنے ھا تھوں کے اوپر مسح کرلو؟ عمر نے کھا :اے عمار! خد ا سے ڈرو! عمار نے کھا:آپ اگر چاھیں تو میں اس واقعہ کو نقل نہ کروں؟!![۱]
عرض موٴلف
مذکورہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں منقول ھے، لیکن امام بخاری نے اپنے شدید تعصب کی بنا پر اس روایت میں کاٹ چھانٹ فرمادی ھیجیساکہ ھم نیجلد اول میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس روایت میں حضرت عمر کا جواب (لا تصل )کو حذف کردیا ھے :
۲۔,,… عن شقیق ابن سلمة؛ قال:کنت عند عبدالله بن مسعود وابی موسی الاشعری، فقال لہ ابو موسی: یا اباعبد الرحمان! اذا اجنب المکلف فلم یجد ماءً کیف یصنع ؟قال عبد الله : لا یُصَلِّی حتی یجد الماء، فقال ابو موسیٰ: فکیف تصنع بقول عمارحین قال لہ النبی(ص)” کان یکفیک …؟قال: الم ترعمرلم یقنع بذالک؟ فقال ابو موسی: دعنا من قول عمار، فما تصنع بہٰذہ الآیة ؟:و تلی علیہ آیة الما ئدة: قال: فمادری عبد الله ما یقول … ۔
امام بخاری نے شقیق ابن سلمہ سے نقل کیا ھے:
میں عبد اللہ ابن مسعود اور ابو موسی اشعری کے پاس تھا ابوموسی اشعری نے ابن مسعود سے پوچھا: اگر کوئی مجنب ھو اور پانی حا صل نہ کرسکتا ھو تو کیا کرے گا؟ ابن مسعود نے کھا: اگر پانی نہ ھو تو نماز نہ پڑھو، ابو موسی ٰنے اس پر اعتراض کیا اور کھا :عمار ی ا سر کا وہ قول کھا ں جائے گا جو تیمم کے بارے میں انھوںنے رسول(ص)سے نقل کیا ھے:”ان تضرب بیدیک الارض ثم تنفخ،ثم تمسح بھما وجھک وکفیک“؟
ابن مسعود نے کھا :مگر عمار یاسر کے قول کو حضرت عمر نے تو قبول نھیں کیا تھا؟ ابو موسی اشعری نے کھا: چلو عمار یاسر کے قول کو نہ مانو، لیکن یہ آیہٴ قرآن کھاں جائے گی ؟ جو حکم تیمم کو صراحت کے ساتھ بیان فرما رھی ھے؟ <…فَلَمْ تَجِدُوامَاءً فَتَیَمَّمُوْاصَعِیْداً طِیِّباً [۲]اور جب تم کو پانی نہ ملے تو پاک خاک سے تیمم کرلو۔>ابن مسعود اس وقت خاموش ہوگئے اور کچھ نہ کہہ سکے ۔[۳]
متذکرہ حدیث بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آئی ھے لیکن بعض علمائے اھل سنت نے اس واقعہ کو دوسرے انداز میں پیش کرنے کی بیجا کوشش کی ھے، تاکہ اپنے ھیرو کی کچھ خدمت اور ان کے علمی مقام کا دفاع کر سکیں کھتے ھیں :حضرت عمر کا یہ اعتراض ان کے اجتھاد کی بنا پر تھا اوریہ ان کا اپنا ذاتی نظریہ اور اجتھادتھا کبھی کھا جاتا ھے: خلیفہ صاحب کو اس بارے میں اس وجہ سے ھدف تنقید نھیں بنایا ج ا سکتا کیونکہ آپ حدیث ِ رسول فراموش کر گئے تھے، ان کے اوپر نسیان غالب آگیا تھا، جس کی وجہ سے وہ عمار کو اس طرح تھدید کر رھے تھے۔
چنانچہ ابن حجر فتح ا لباری میں لکھتے ھیں :
جب غسل جنابت کرنے کے لئے پانی نہ ھو تونماز ترک کرنا یہ صرف حضرت عمر کا ان کے اجتھادکی بناپرذاتی نظریہ تھا ، چنانچہ مشہور ھے کہ عمر اس مسئلہ میں یہ نظریہ رکھتے تھے۔
اس کے بعد ابن حجر کھتے ھیں :
ان واقعات سے استفادہ ھو تا ھے کہ رسول(ص)کے زمانہ سے ھی صحا بہ نے اجتھاد کرنا شروع کردیا تھا !![۴]
ابن رشد جو سنیوں کے مشہور دانشور ،فلسفی اور فقیہ ھیں ، آپ اپنی استدلالی کتاب” بدایةالمجتھد“ میں تحریر کرتے ھیں :
” حضرت عمر نے عمار سے یہ بحث ومباحثہ اس لئے کیا تھاکہ وہ حکم تیمم فراموش کر گئے تھے، ان پر نسیان طاری ہوگیا تھا، آپ نے اس طرح خلیفہ صاحب کو معذور قرار دیا ،البتہ علمائے اسلام کی اکثریت کا عقیده یھی ھے کہ نماز کو تیمم کرکے پڑھے گااور شخص ِ مجنب پر نماز کا واجب ہوناآیت کے علاوہ حضرت عمار اور عمران بن حصین کی حدیث سے بھی ثابت اوریقینی ھے ، عمران ابن حصین کی حدیث کو امام بخاری نے بھی نقل فرمایا ھے، لہٰذا حضرت عمر کا نسیان و فراموشی کی بنا پر حضرت عمار کی حدیث پر عمل نہ کرنا جناب عمار کی حدیث کے مضمون پر کوئی اثر نھیں کرتا “
”لٰکن الجمہور راوٴ ا ان ذالک قد ثبت من حدیث عمار و عمران بن حصین……“ [۵]
۲۔ شراب خورکی حداورحضرت عمرکی خلاف ورزی!!
”…قتادة یحدث عن انس بن مالک؛ان النبی(ص) اتی برجل قد شربالخمرفَجَلَدَہ بجرید تین نحواربعین،قال:ففعلہ ابوبکرفلما کان عمر،استشارالناس،فقال عبد الرحمان:اخف الحدود ثمانین، فامربہ عمر“
قتادہ نے انس بن مالک سے روایت کی ھے:
ایک ایسے شخص کو خدمت رسول(ص) میں لایا گیا جس نے شراب پی تھی رسول(ص) نے حکم صادر فرمایا : اس کو خرمہ کی چوب سے چالیس ضرب لگائی جائیں ،حضرت ابوبکر نے بھی اپنے دور خلافت میں شراب پینے والے کو چالیس ضرب لگوائیں ، لیکن جب عمر کا دور خلافت آیا تو آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا: آیا چالیس ضرب شراب خور کی حد کمتر نھیں ھے؟! توعبد الرحمان بن عوف نے کھا: اسی (۸۰) کوڑے (قرآن مجید میں ) کمترین حد (سزا) بیان کی گئی ھے ،عمر نے بھی اس رائے کو پسند کیا اور اسی وقت سے اسی (۸۰) کوڑے لگائیجانے لگے۔[۶]
عرض موٴلف
اس حدیث کو مسلم نے کئی طریق سے نقل کیا ھے اور بخاری نے اسے دو جگہ پر نقل کیا ھے، لیکن حدیث کاآخری حصہ حذف کر دیا ھیجس میں یہ ھے کہ حضرت عمر نے لوگوں سے مشورہ کر کے اسی (۸۰) کوڑے مارنے کا حکم اجراء کیا۔[7]
محترم قارئین !حقیقت حال یہ ھے کہ شارب ُالخمر کی حد صدر اسلام سے ھی اسی (۸۰) کوڑے تھی ،ایسا نھیں تھا کہ رسول(ص) کے زمانہ میں چالیس کوڑے تھی اور خلیفہ صاحب نے مشورہ کرکے اسی کوڑے کردی ،کیو نکہ رسول(ص) کے زمانہ میں اکثر لوگ جنگ و جدال میں مبتلا رھتے تھے،شراب پینے کا موقع ھی نہ ملتا تھا ، یا پھر اسلامی قوانین پر زیادہ عمل پیرا تھے، لہٰذا حد ِخمر جاری کرنے کابھت ھی شاذ ونادراتفاق ہوتا تھا ، اس وجہ سے خلیفہ صاحب( اپنی بھترین ذھانت کی بنا پر) یہ حکم فراموش کر گئے ،لیکن جب وفات رسول(ص) کے بعد عمر کے زمانہ تک مسلمان معنویت اور روح ا نیت سے رفتہ رفتہ دور ھو نے لگے اور کچھ آسائش ، عیش و عشرت کا زمانہ ملا اور شراب نوشی عام ہونے لگی تو شراب پینے کی حدجاری کرنا پڑی، لیکن اس طرف چونکہ حضرت عمراس مسئلہ کا حکم بھول چکے تھے، لہٰذا موصوف کو یہ سزا کم معلوم ہوئی چنانچہ آپ نے اسی (۸۰)کوڑے کر دی ، جبکہ پھلے سے ھی اسی (۸۰) کوڑے سزا تھی۔[8]
اور اسی کوڑے کے بارے میں حضرت عمر کا رهنما عبدالرحمان بن عوف نہ تھا بلکہ اس بارے میں در اصل حضرت امیر (ع) نے رهنمائی فرمائی تھی،جیسا کہ ا ھل سنت کی معتبر اور اصلی کتابوں سے ثابت ھے ،چنانچہ ابن رشد اندلسی شراب خوری کی حد کے بارے میں علما ئے اھل سنت کے درمیان اختلاف نقل کرنے کے بعد کھتے ھیں :
”اکثر فقھا ء بلکہ تمام فقھا ء کا نظریہ شراب خور کی حد کے بارے میں اسی کوڑے ھے ، اس کے بعدآپ مزید تحریر کرتے ھیں : شراب خوری کے بارے میں اسی تازیانے کی حد کی دلیل ان اکثر فقھاء کے نزدیک حضرت امیر المومنین (ع) کا یھی نظریہ ھیجسے آپ نے اس وقت جب عمر کے زمانہ میں زیادہ شراب پی جانے لگی اور اس کی حدپر ایک شور و هنگامہ ہوا کہ شراب خور کی حد کمتر ھے، عمر اور دیگر صحا بہ اس بارے میں مشورہ کرنے کیلئے بیٹھے تو بیان فرمایا : شراب خور کی حد وھی ھیجو قذف کی ھے یعنی اسی (۸۰) کوڑے“[9]
بھر کیف ان مطالب سے یہ استفادہ ہوتاھے کہ خلیفہ صا حب نے اسی کوڑے مارنے کاحکم دوسروں کے مشورے اور راهنمائی سے حا صل کرنے کے بعدجاری فرمایا ، راهنما کوئی بھی ھو حضرت امیر المومنین (ع) یا عبد الرحمن بن عوف ۔
۳۔ جنین کی دیت اور حضرت عمر کا رویہ!!
,,…عن المِسْوَربن مخرمة؛قال:استشارعمربن الخطاب الناس فی املاص المراٴة،فقال المغیرة بن شعبةشھدتُ النبی(ص) قضی فیہ بغرة عبدٍ اوامةٍ،قال: فقال عمر:ائتنی بمن یشھد معک؟قال:فتشھد محمدُ بن مسلمة“[10]
مسور بن مخرمہ کھتے ھیں :
حضرت عمر نے ایک مرتبہ اس بچہ کی دیت کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کیا جو شکم مادر سے ساقط کر دیا جائے ، اس وقت مغیرہ بن شعبہ نے کھا: میں رسول(ص) کی خدمت بابرکت میں ایک مرتبہ حا ضر تھا کہ رسول(ص) نے سقط جنین کے بارے میں ایک غلام کی قیمت یا ایک کنیز کی قیمت ادا کرنے کا حکم دیا، عمر نے کھا :اے مغیرہ اپنی رائے پر شاھد پیش کرو، اس وقت مغیرہ کی بات کی گواھی محمد بن مسلمہ نے دی۔
عرض موٴلف
قارئین ِ محترم !صحیحین کی روایت کے اعتبار سے مذکورہ حکم ان احکام میں سے ایک ھیجن کو خلیفہ صاحب نے مشورہ سے حا صل کیا اور حضرت عمر نے صرف مغیرہ بن شعبہ کی گواھی پر بات کو تسلیم کر لیا ،لیکن مایہٴ افسوس یہ ھے کہ وہ مغیرہ جو ظالم ترین اور زناکار ترین لوگوں میں سے شمار کیا جاتا تھا ، اس کی بات کو آپ نے تسلیم کر کے ایک اسلامی حکم کوجاری فرمایا!! اس سے زیادہ خلیفہ صاحب کی نا اھلی اور کیا ھو سکتی ھے ؟!
۴۔حضرت عمر اور حکم استیذان!!
…” سمعت عن ابی سعیدالخدری؛یقول:کنت جالساًبا لمدینة فی مجلس الانصار، فاتانا ابو موسیٰ فزعاًاو مذعوراً،قلنا ما شاٴ نک ؟قال ان عمرارسل اليَّ ان آتیہ،فاتیت با بہ فسلمت ثلاثاً فلم یرد عليَّ،فرجعت،فقال:ما منعک ان تاتینا؟ فقلت انی اتیتک فسلمت علی بابک ثلاثاًفلم یردوا علی، فرجعت، و قد قال رسول(ص)الله :اذا استاٴذن احدکم فلم یوذن لہ فلیرجع ،فقال عمر: اقم علیہ البینة والا اوجعتک ،فقال ابی بن کعب: لا یقوم معہ الا اصغر القوم، قال ابو سعید: قلت: انا اصغرالقوم، قال: فاذھب بہ“[11]
ابو سعید کھتے ھیں :
ایک مرتبہ میں مدینہ میں انصار کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ابوموسی اشعری اضطراب و پریشانی کی حا لت میں وارد مجلس ہوئے ، میں نے اضطراب ک ا سبب پوچھا :تو ابوموسی نے کھا : مجھے عمر نے بلایا تھا ،لیکن جب میں ان کے گھر گیا ان کے دروازے پر میں نے تین مرتبہ سلام کر کے وارد ہونے کی اجازت چاھی، مگرجب کسی نیجواب نھیں دیا تو میں پلٹ آیا ،لیکن بعد میں جب عمر نے مجھے دیکھا تو کھا: میں نے تجھے بلایا تھا کیوں نہ آیا؟ میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اور کھا: رسول (ص)نے چوں کہ فرمایا ھے :
اگرتین مرتبہ تک کوئی جواب نہ دے تو پلٹ جانا چاھیئے ، عمر نے اس بات کو جب سنا تو کھا :قسم خدا کی اگر تونے اس بات پر کسی کو گواہ پیش نہ کیا تو سخت سزادوں گا۔ ابوسعید کھتے ھیں : میں اس مجلس میں سب سے چھوٹا تھا اور ابی بن کعب نے کھا : اس مجلس ک ا سب سے چھوٹا اس بات کی گواھی دے گا ، میں نے کھا : میں سب سے چھوٹا ہوں ،چنانچہ میں نے ابی بن کعب کی رائے سے ابو موسیٰ کی گواھی دی۔
عرض موٴلف
مسلم نے اس مطلب کو ”باب الاستیذان“ میں مختلف اسناد و مضامین کے ساتھ نو (۹) حدیثیوں کے ضمن میں نقل کیا ھے،چنانچہ جب حضرت عمر پر یہ بات واضح و ثابت ہوگئی کہ وہ اس سادہ حکم کے بارے میں نابلد ھیں ،تو وہ اپنی بوریت ختم کرنے کیلئے ایک حدیث کے مطابق اس طرح توجیہہ کرتے ہوئے بولے:
ممکن ھے کہ رسول اسلام(ص) کا یہ حکم میرے اوپر اس لئے پوشیدہ رھا ھو کہ میں اکثر بازار میں خرید و فروخت کرتا رھتا تھا ، لہٰذاخرید و فروخت نے مجھے اس حکم رسول(ص) کیجاننے سے قاصر رکھا:
”خفی علی ھٰذا من امررسول(ص)الله الھانی عنہ الصفق بالاسواق“!![12]
صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں اس طرح آ یا ھے:
ابی ٴ ابن کعب نے اس موضوع کی گواھی خود دی تھی اور حضرت عمر پر اعتراض کرتے ہوئے کھا: اے خطاب کے بیٹے! اصحا ب رسول(ص) پر عذاب مت بن:
,,فلا تکن یا ابن الخطاب عذاباًعلی اصحا ب رسول(ص)الله ۔“[13]
عرض موٴلف
محترم قارئین ! صحیحین کی نقل کے مطابق مسئلہ استیذان خلیفہ صاحب کے لئے اس قدر مشکل مرحلہ تھا کہ گواھی اور سختی وغیرہ کی نوبت آگئی، جبکہ یہ مسئلہ ایک اخلاقی اورا نسانی اقدار کی عکاسی کرتا ھے ،جو لوگ صاحب اخلاق اور غیرت مند ہوتے ھیں وہ اپنے وجدان وفطرت میں ان احکام کو اچھی طرح درک کرتے ھیں ، چنانچہ مسئلہ ٴ اذن ایک ڈھکا چھپا مسئلہ نہ تھا بلکہ رسول(ص) نے اس مسئلہ کو بارھا بیان فرما دیا تھا،اس کے علاوہ قرآن مجید میں بھی خدا وند متعال نے اس مسئلہ کو ببانگ دھل بیان کر دیا تھا:
<یَاْ اَیُّہَاْ اْلَّذِیْنَ آمَنُوْاْ لَاْ تَدْخُلُوْاْبُیُوْتاً غیر بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْاْ وَتُسَلِّمُوْاْ عَلیٰ اَهلہَاْذَاْلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ . فَاِٴنْ لَمْ تَجِدُوْاْ فِیْہَاْ اَحَداً فَلَاْ تَدْخُلُوْہَاْ حَتّٰی یُوٴْذَنَ لَکَمْ وَاِنْ قِیل لَکُمْ اِرْجِعُوْ اْ فَاْرْجِعُوْ اْ ہُوَ اَزْکٰی ٰلَکُمْ وَالله بِمَاْ تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ >
اے ایماندارو !اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں ( درّانہ )نہ چلیجاوٴ، یھاں تک کہ ان سے اجازت لے لو اور ان گھروں کے رهنے والوں سے صاحب سلامت کرلو یھی تمھارے حق میں بھتر ھے ( یہ نصیحت اس لئے ھے) تا کہ یا د رکھو ۔ پس اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاوٴ تو تا وقتیکہ تم کو ( خا ص طور پر)اجازت نہ حا صل ھو جائے ان میں نہ جاوٴ اور اگر تم سے کھا جائے کہ پھر جاو ٴ تو تم (بے تامل ) پھر جاوٴ یھی تمھارے واسطے زیادہ صفائی کی بات ھے اور تم جو کچھ بھی کرتے ھو خدا اس سے خوب واقف ھے ۔[14]
ابی ٴ بن کعب کا یہ کهنا کہ ا س چیز کی گواھی کے لئے سب سے چھوٹا شخص جا ئے، یہ بعنوان اعتراض اور تنقید تھا ،بتلانا یہ چاھتے تھے کہ یہ حکم اس قدر عام ھے کہ بوڑھوں کی کیا با ت بچے بھی جانتے ھیں ، لیکن خلیفہ صاحب بچارے ھر وقت بازاروں میں مصروف رھتے تھے،جس کی بناپر اتنے سادہ مسئلہ سے واقف نہ ھو سکے ،اس جگہ سے ھ میں اس بات کا بھی پتہ چل جا تا ھے کہ خلیفہ صاحب مشکل مسائل کا کتنا علم رکھتے ہوں گے !![15]
۵۔ مسئلہٴ کلالہ سے حضرت عمر کی نادانی!!
”…عن سالم، عن معدان بن ابی طلحة؛ان عمر بن الخطاب خطب یوم الجمعة، فذکر نبی الله (ص)وذکرابابکر،ثم قال:انی لاادع بعدی شیٴاًھم عندی من الکلالة، ماراجعت رسول(ص)الله فی شیءٍ ما راجعتہ فی الکلالة،ومااغلظ لی فی شیءٍ ما اغلظ فیہ حتی ٰطعن باصبعہ فی صدری وقال(ص):یا عمرالا تکفیک آیة الصیف َالّتَیِ فی آخرسورةالنساء؟وانی ان اعش اقض فیھا بقضیةیقضی بھامن یقرئالقرآن ومن لا یقرء القرآن۔“[16]
سالم نے معدان بن ابی طلحہ سے نقل کیا ھے:
ایک روز عمر ابن خطاب نے نماز جمعہ کے خطبہ میں رسول(ص) اور ابوبکر کو یاد کیا اور کھا کہ کلالہ سے زیادہ مشکل ترین مسئلہ اپنے بعد کوئی نھیں چھوڑ رھا ہوں، کیونکہ کلالہ کے علاوہ میں نے رسول(ص) سے اور کسی مسئلہ کو نھیں پوچھا ھے اور رسول(ص) بھی مجھ سے کلالہ کے علاوہ اور کسی مسئلہ کے پوچھنے پر ناراض نھیں ہوئے ھیں اور اس مسئلہ کے دریافت کرنے پررسول اس قدرناراض ہوئے کہ ایک مرتبہ آپ نے میرے سینے پر انگلی مار کر فرمایا: اے عمر! آیہٴ صیف جو سورہ نساء کے آخر میں ھے کیا وہ تیرے لئے کافی نھیں ھے؟!بھر حال حضرت عمر نے اپنے خطبہ کو ان جملوں پرختم کیا کہ اگر میں زندہ رہ گیا تو کلالہ کے بارے میں ایسا فیصلہ کروں گا کہ جو قرآن پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے کرتے ھیں ۔
وضاحت
آیہٴ صیف[17] میں کلالہ کی میراث بیان کی گئی ھے اور اس آیت کو آیہ ٴ صیف کھتے ھیں کیونکہ یہ آیت گرمی کے موسم میں نازل ہوئی تھی (صیف کے معنی گرمی کے ھیں )۔
مرحوم علامہ امینی (رہ)اس آیت کے ذیل میں فرماتے ھیں :
شریعت اسلامیہ کے قوانین کو خداوند عالم نے آسان و سھل بنایا ھے اسی وجہ سے اس کو شریعت ِ سھلہ کھا جاتا ھے مگر عمر کے لئے یہ شریعت، شریعت ِ مشکلہ تھی کیونکہ آپ منبر کے اوپر جاکر فرماتے تھے:
” میرے نزدیک سب سے زیادہ مشکل مسئلہٴکلالہ ھے اس سے زیادہ میں کوئی مشکل مسئلہ اپنے بعد نھیں چھوڑیجا رھا ہوں۔“
اس کے بعدعلامہ امینی(رہ)کھتے ھیں :
سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ اگر حضرت عمر رسول(ص)سے باربار کلالہ ک ا سوال کرتے تھے تو حضرت رسالتمآب(ص) اس کا جواب دیتے تھے یا نھیں ؟اگر آپ جواب دیتے تھے تو پھر عمر یاد کیوں نھیں کرتے تھے ؟یا پھر یا د کرتے تھے ، مگر بھول جاتے تھے کیونکہ آپ کی عقل اس کو درک کرنے سے عاجز تھی! اور اگر رسول(ص) جواب نھیں دیتے تھے بلکہ مسئلہ کو لا ینحل اور مبھم بیان فرماتے تھے، تو یہ رسول(ص) سے بعید ھے کیونکہ جو مسئلہ روز مرہ کا مبتلا بہ ھو اس کا امت کے لئے واضح کر دینا آنحضرت (ص)کی خدا کی جانب سے ذمہ داری ھے ۔اور پھریہ کیسے ممکن ھو سکتا ھے کہ جس شخص کے سامنے قر آن کی اس سے مربوط آیات موجود ہوں،وہ کلالہ کے معنی نہ جانتا ھو جبکہ اسی آیت کے ذیل میں خدا ارشاد فرماتا ھے:<یُبَیِّنُ الله لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْاوَالله بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ :خدا واضحا ور روشن بیان کرتاھے تاکہ تم گمراہ نہ ھو جاوٴ>آخر خدا نے اس حکم کو کیسے بیان کیا تھا کہ خلیفہ صاحب کی سمجھ میں نھیں آ یا اور اپنے نز دیک اس سے مشکل ترین مسئلہ کوئی نھیں جانا ؟ اور یہ کیسے ممکن ھے کہ رسول(ص) خدا کلالہ کی تو ضیح میں آیت کو کا فی سمجھیں لیکن کلالہ پھر بھی ایک غیر قابل حل مشکل کے طورپر باقی رھے ؟!![18]
عرض موٴلف
ان تما م باتوں کے باوجود خلیفہ صاحب فرماتے ھیں :
”اگر میں زندہ رھا توایسافیصلہ کروں گاجوقرآن پڑھنے اورنہ پڑھنے والے کرتے ھیں۔“
اس سے ان کی کیا مرادھے؟آیا حکم قرآن کے مقابلہ میں کوئی جدید فیصلہ کرنا چاھتے ھیں؟!یاپھرحکم قرآن سے صحیح تر فیصلہ کرنا چاھتے ھیں جو قرآن کے مطابق ھو مگر صراحت اور تسھیل میں قرآن سے زیادہ روشن اور واضح ھو جسے ھرشخص کا ذوق سلیم تسلیم کرلے ؟!جبکہ خدا فرماتا ھے کہ میں نے اس مسئلہ کو روشن بیان کیا ھے ،یا پھر اور کوئی مطلب تھا؟!ھمارے نزدیک موصوف کی مراد مجہول ھے!!
۶۔ حضرت عمرکاپاگل عورت کو سنگسارکرنا!!
امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے :
ایک مرتبہ عمر کے پاس ایک پاگل عورت کو لایا گیا جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا ،حضرت عمر نے چند لوگوں سے مشورہ کر کے حکم دیا کہ اس عورت کو سنگسار کر دیا جائے لہٰذا اس عورت کو سنگسار کرنے کے لئے لیجا رھے تھے، ابن عباس کھتے ھیں : جب حضرت علی علیہ السلام نے اس عورت کو دیکھا تو دریافت کیا : لوگوں نے بتایا: یہ عورت دیوانی ھے اور فلاں قبیلہ سے تعلق رکھتی ھے اوراس نے زنا کاارتکاب کیا ھے، اس لئے اس کو حضرت عمر کے حکم کی بنا پر سنگسار کرنے کے لئے لیجایا جارھا ھے۔
ابن عباس کھتے ھیں : حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اس کو واپس لے چلو اور خود عمر کے پاس آئے اور فرمایا: اے عمر! کیا تمھیں نھیں معلو م کہ خدا نے تین لوگوں سے تکلیف اٹھالی ھے؟!
۱۔ ایک وہ شخص جو دیوانہ ھو یھاں تک کہ عقل مند ھو جائے ۔
۲۔ وہ شخص جو محو خواب ھو یھاں تک بیدار ھو جائے۔
۳۔ بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے۔
عمر نے کھا :کیوں نھیں امیرالموٴمنین! حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:تو پھر کیوں اس کی سنگساری کا حکم دیا؟اس کی آزادی کا حکم دو ! ابن عباس کھتے ھیں : عمر نے اس حال میں کہ زبان پر کلمہٴ اللہ اکبر تھا حکم د یا کہ اس عورت کو آزاد کردیا جائے۔
امام بخاری نے اس حدیث کو دو جگہ تحریر کیا ھے لیکن حضرت عمر کی عزت بچانے کے لئے حدیث کے آخر اور اول کیجملے حذف کر دئے ھیں،صرف خلیفہ صاحب کے وسط والیجملہٴ قسمیہ کے الفاظ نقل کئے ھیں جو یہ ھیں :
”قال علی لعمر:اماعلمت ان القلم رفع عن المجنون حتی یفیق، وعن الصبی حتی یدرک، و عن النائم حتی یستیقظ؟!“[19]
علی (ع) نے عمر سے کھا:کیا تمھیں نھیں معلوم کہ مجنون سے قلم ِتکلیف اٹھا لیا گیا ھے یھاں تک کہ وہ ہوش میں آجائے ، اسی طرح بچے سے تکلیف ساقط ھیجب تک کہ وہ بالغ نہ ھو جائے، اسی طرح سونے والے سے تکلیف ساقط ھیجب تلک کہ وہ بیدار نہ ھو جائے؟!
اس حدیث کا کامل متن علم حدیث و تراجم کی مختلف کتب میں نقل کیا گیا ھے۔[20]
ابن عبد البر نے تو اس حدیث کے آخر میں یہ جملہ بھی تحریر کیا ھے:
جب عمر نے یہ سنا توحضرت علی (ع) سے فرمانے لگے:”لَوْلَا عَلِیٌّ لَهلکَ عُمَرُ“اگر آج حضرت علی (ع) میری مدد نہ کرتے تو عمر ھلاک ھو جاتا۔[21]
۷۔ حضرت عمر نماز عید میں سورہ بھول جایا کرتے تھے!!
”۔۔۔۔عن عبید اللّٰہ بن عبد اللّٰہ ان عمرابن الخطاب؛ ساٴل اباواقد اللیثی ما کان یقراٴ بہ رسول(ص) اللّٰہ فی الاضحیٰ والفطر؟فقال:کان یقراٴ فیھما بقٓ والقرآن المجید واقتربت الساعة وانشق القمر“
مسلم نے عبید الله ابن عبد الله سے نقل کیا ھے :
ایک مرتبہ حضرت عمر نے ابو واقد لیثی سے پوچھا : رسول(ص) اسلام نماز عیدین میں کون سے سورے پڑھتے تھے؟ابو واقد لیثی نے کھا :رسول(ص) ان دونوں نمازوں میں سورہٴ ق ٓوالقرآن المجید اور سورہٴ<اِقتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ القَمَرُ> پڑھتے تھے۔ [22]
یہ حدیث صحیح مسلم کے علاوہ موطا امام مالک ، سنن ترمذی اور سنن داؤد میں بھی نقل کی گئی ھے، لیکن ابن ماجہ میں یوں منقول ہوئی ھے:
”خرج عمر یوم عید فارسل الی ابی واقد لیثی…“
جب حضرت عمر نماز عید پڑھانے کے لئے باھر نکلے تو کسی کو ابو واقد لیثی کے پاس بھیج کر معلوم کروایا کہ رسول اسلام(ص) نماز عیدین میں کون سے سورے پڑھتے تھے؟[23]
قارئین محترم! یھاں پر علامہ امینی(رہ) کتاب” الغدیر“ میں فرماتے ھیں :
اس جگہ خلیفہ صاحب سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا وجہ تھی کہ وہ ان سوروں کو بھول گئیجنھیں رسول(ص) نماز عیدین میں پڑھتے تھے؟!کیا واقعاً (کند ذهنی کا نتیجہ تھا کہ)یادنہ رکھ پائے اور فراموش کردیا جیسا کہ علامہ جلال لدین سیوطی نے کتاب” تنویر الحوالک“ میں یہ عذر تحریر کیا ھے؟! یا حضرت عمر کو بازاروں میں خرید و فروخت سے فرصت نہ ملتی تھی کہ نماز عیدین ادا کرتے؟ چنانچہ حضرت عمر خود بھی کبھی کبھی اس عذر کو بعض مواقع پرپیش کرتے تھے!! لیکن جھاں تک فراموشی کا مسئلہ ھے تو یہ بعید معلوم ہوتا ھے کیونکہ نماز عید ین ھر سال دو دفعہ پڑھی جاتی تھی لہٰذاا یسے بڑے لوگ (روٴوس الاشھاد)کیسے بھول سکتے ھیں یاپھر اس کا کچھ اور ھی مقصدتھا؟ [24]
عرض موٴلف
اس واقعہ میں دقت کرنے سے ایک بات ظاھر ہوتی ھے کہ خلیفہ صاحب اس بارے میں بھت ھی تذبذب اور پریشانی میں مبتلا تھے لہٰذا ایسے حساس موقع پر چلتے وقت بحالت مجبوری ابوواقدلیثی سے نماز عیدین کی صورت حال کومعلوم کیا!!
۸ ۔ زیوراتِ کعبہ اورحضرت عمرکی بدنیتی!!
…”عن ابی وائل ؛قال: جلست الی شیبة فی ھٰذاالمسجد، قال: جلس الی عمر فی مجلسک ھٰذا،فقال:ھممت ان لاادع فیھا صفراء ولابیضاء الاقسمتھابین المسلمین،قلت:ماانت بفاعل،قال لم؟ قلت:لم یفعلہ صاحباک، قال ھما المرء ان یقتدی بھما“ [25]
امام بخاری نے ابو وائل سے نقل کیا ھے:
ایک روز میں مسجد الحرام میں شیبہ کے پاس بیٹھا ہواتھا، تو مجھ سے شیبہ نے کھا: ایک روز میں اور عمر اسی جگہ بیٹھے تھے توعمر نے کھا : میرا ارادہ ھے کہ خانہٴ کعبہ پرجتنابھی سونا چاندی ھے سب کو اترواکر مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دوں؟ میں نے عمر سے کھا : آپ اس کام کو نھیں کرسکتے، حضرت عمر نے کھا کیوں نھیں کرسکتا؟ میں نے کھا: چوں کہ حضرت رسول(ص) اسلام و حضرت ابوبکر نے ایسا کام نھیں کیا، عمر نے کھا: صحیح ھے وہ لوگ کامل مرد تھے لہٰذا ان کی پیروی کرنا بھتر ھے۔
عرض موٴلف
بخاری نے اس روایت کو صحیح بخاری میں کچھ الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ دو جگہ نقل کیا ھے،لیکن کتب تواریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ھے کہ حضرت عمر نے یہ ارادہ ایک دفعہ نھیں بلکہ کئی دفعہ کیا ،مگر مسلمانوںاور رسول (ص)کے معزز صحابہ کی مخالفت کی وجہ سے اس کام کے انجام دینے سے باز رھے ،ایک دفعہ شیبہ نے باز رکھااوردوسری دفعہ مولا علی (ع) سے مشورہ کیا تو حضرت(ع) نے محکم دلائل کے ساتھ ان کو قانع کیا اور انھیں اس کام کے انجام دینے سے منصرف کردیاْ۔
چنانچہ اس واقعہ کو خود مولا علی (ع) نے نہج البلاغہ میں بیان فرمایا ھے:
” جب کعبہ کے سونے چاندی کی کثرت کولوگوں نے عمر سے بیان کیا اور ان کو مشورہ دیا کہ اگر یہ سونا چاندی مسلمانوں کے اوپر جنگ کے وسائل فراھم کرنے پر خرچ کردیا جائے تواس کا زیادہ فائدہ حا صل ھو سکتا ھے، کیونکہ خانہ ٴ کعبہ کو سونے چاندی کی کیا ضرورت ؟! لہٰذا عمر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس بارے میں اقدام کیا جائے، لیکن جب حضرت امیر الموٴ منین (ع) سے دریافت کیاتو آپ نے فرمایا:
”ان ہٰذاالقرآن انزل علی النَّبِی صلَّی الله علیہ وآلہ وسلم والاموال اربعة: اموال المسلمین فقسمھا بین الورثة فی الفرائض،والفیٴ فقسمہ علی مستحقیہ، والخمس فوضعہ الله حیث جعلھا،والصدقات فجعلھا الله حیث جعلھا…“
جس وقت قرآن مجید رسول اسلام(ص) پر نازل ہوا تو مال و ثروت کی چار قس میں تھیں اوررسول اسلام(ص) نے ان چار قسموں میں سے ھر ایک کا حکم بیان فرما دیا تھا۔
۱۔ مسلمانوں کا وہ مال جو ارث میں رہ جائے: اس کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔
۲۔ مال غنیمت:ان لوگوں میں تقسیم کیا جائیجو استحقاق رکھتے ھیں ۔
۳۔ مال خمس: یہ معین افراد کا حق ھے۔
۴۔ زکاة: یہ بھی ان لوگوں پر صرف کیا جائیجو مستحقین زکاة ھیں ۔
اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:
یہ سونا و چاندی جو خانہ ٴ کعبہ پر موجود ھے یہ نزول قرآن کے وقت موجود تھا لیکن خدا نے اس کو اسی طرح اپنے حال پرچھوڑدیا اور اس سلسلے میں کچھ نھیں بیان فرمایا کہ کھاں صرف کیا جائے اور اس کا حکم بیان نہ کرنا فراموشی یا خوف کی وجہ سے نھیں تھا،بلکہ قصداًاور عمداً تھا ،لہٰذا اے عمر! تو بھی اس سونے و چاندی کو اسی حال پر چھوڑ دیجس طرح خدا ورسول(ص) نے چھوڑ ا ھے، اس وقت عمر نے کھا:اے علی! (ع) اگر آپ نہ ہوتے تو میں ذلیل ھو جاتا چنانچہ عمر نے کعبہ کے سونے چاندی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ۔
ابن ابی الحدید اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ھیں :
جو کچھ حضرت علی علیہ السلام نے استدلال فرمایا تھا وہ درست ھے اوراس کو ھم دو طرح سے بیان کر سکتے ھیں یعنی حضرت کے بیان کیتصدیق پر ھم دو طریقہ سے استدلال پیش کرسکتے ھیں :
۱۔ کسی بھی مال و منفعت میں (جب تک اس کے مالک کی اجازت نہ ہو) اصل، حرمت اور منع ھے، لہٰذا بغیرِاذنِ شرعی اپنے سے غیر متعلق اموال کا استعمال کرنا درست نھیں ھے ،چنانچہ کعبہ ک ا سوناچاندی (کہ جس کے ھم مالک نھیں ھیں)استعمال کرنا اس اصلِ حرمت اور عدمِ تصرف کے تحت باقی ھے،کیونکہ اس کے تصرف کیلئے شریعت کی طرف سے کوئی اجازت موجود نھیں ھے ۔
۲۔ امام علی علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ تمام وہ اموال جو خانہٴ کعبہ سے متعلق ھیں وہ خانہٴکعبہ پر وقف ھیں جیسے خانہٴ کعبہ کے دروازے اورپردے وغیرہ، لہٰذاجب یہ چیزیں بغیر شارع کی اجازت کے استعمال کرنا جائز نھیں ھیں تواسی طرح خانہٴکعبہ کے سونے چاندی کا استعمال کرنا بھی جائز نھیں ھے،بھرحال جامع وجہ یھی ھے کہ چونکہ یہ اموال خانہٴ کعبہ سے مخصوص اوراس پر وقف ھیں لہٰذا ان کا شمار بھی کعبہ کیجزئیات سے ھو گا،جس کی بنا پر ان میں تصرف نھیں ھو سکتا ۔
” وروی انہ ذکر عند عمر بن الخطاب فی ایامہ حلی الکعبة و کثر تہ ، فقال قوم: فجہزت بہ جیوش المسلمین …ان ہٰذا القرآن نزل علی محمد والاموال اربعة …“[26]
عرض موٴلف
اس واقعہ کو زمخشری نے بھی اپنی کتاب” ربیع الابرار“ میں تحریر کیا ھے۔[27]
۹۔ واہ! یہ بھی ایک تفسیرِ قرآن ھے !!
”ان رجلاًساٴل عمر بن الخطاب عن قولہ <وَفَاکِہَةً وَاَبّاً>:ما الاب؟ قال: نھینا عن التعمق والتکلف!“[28]
ایک شخص نے عمر بن خطاب سے آیہٴ<وَفَاْکِہَةً وَاَبّاً> میں اٴَب کے معنی دریافت کئے تو کهنے لگے: خدا نے ھ میں قرآن مجید کے اندرغور وفکر اور زحمت کرنے سے روکا ھے!
اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ھے، لیکن انھوں نے حسب عادت خلیفہ صاحب کی عزت بچانے کی خاطر جملہ ٴ اُولیٰ کو حذف کر کے صرف حدیث کا آخری یہ جملہ تحریر کر دیا:نھیٰنا عن التعمق۔۔۔۔لیکن اس بات سے غافل رھے کہ حق چھپانے سے چھپتانھیں ،چنانچہ شارحین صحیح بخاری،موٴرخین اور مفسرین نے کتب احادیث، تواریخ و تفاسیر میں مکمل حدیث کو نقل کیا ھے، جیسا کہ ھم نے ابتداء میں من و عن آپ کی خدمت میں پیش کیا،بلکہ بعض شارحین ِ صحیح بخاری نے اس بات کی تصریح بھی کی ھے کہ امام بخاری کی نقل شدہ حدیث مقطوع ھے اور اس کی تکمیل ا سطرح ہوتی ھے ۔[29]
حواله جات:
[1] صحیح مسلم جلد۱،کتا ب الحیض، باب”التیمم“حدیث۳۶۸،طریق دوم۔
عرض مترجم : محترم موٴلف صاحب نے جلد اول میں صحیح بخاری سے امام بخاری کی تقطیع شدہ روایت اس طرح قلمبند کی ھے: ”…
عن سعید بن عبد الرحمان بن ابزیٰ عن ابیہ قال:جاء رجل الی عمر بن الخطاب فقال انی اجنبت فلم اُصبِ الماء َ…؟ (اس جگہ راوی یا …نے حضرت عمر کے جواب کو حذف کر کے صرف حضرت عمار یاسر کے قو ل کو نقل کیا ھے جو یہ ھے) فقال عماربن یاسرلعمر بن الخطاب:اما تذکراَناّ کناّ فی سفراناوانت ، فاماانت فلم تصلِّ، واماانا فَتَمَعَّکْتُ فصلیتُ فذکرتُ للنبی،(ص) فقال النبی:< اِنَّمَ ا یکفِیْکَ ہٰذَاْ > فضرب النبی بکفیہ الارض،ونفخ فیھما،ثم مسح ، بھما وجہہ وکفیہ؟“ صحیح بخاری جلد۱،کتاب التیمم،ب(۴) ” المتیمم ھل ینفخ فیھما“حدیث۳۳۱ ۔
[2] سورہٴ مائدة، آیت نمبر ۶ ،پ۶۔
[3] صحیح بخاری: ج۱ ،کتاب التیمم ،باب ”اذا خاف الجنب علی نفسہ المرض اوالموت“ حدیث۳۳۸۔۳۳۹، مترجم:(صحیح بخاری ج۱ ،کتاب التیمم ، باب ”التیمم للوجہ والکفن“ حدیث ۳۳۲ سے ۳۳۶۰ تک میں اسی طرف اشارہ ھے) صحیح مسلم ج۱،کتا ب الحیض، باب” تیمم“حدیث۳۶۸۔
[4] فتح ا لباری شرحا لبخاری جلد۱،کتاب التیمم ،باب ”ھل المتیمم ھل ینفخ فیھما “ ص۳۷۶۔
[5] بدایة المجتھد،جلد۱،کتاب التیمم باب فی معرفة الطھارة ص۵۶۔
[6] صحیح مسلم جلد۵،کتاب الحدود،باب(۸)”حد الخمر“حدیث۱۷۰۶۔
[7] صحیح بخاری:جلد۸،کتاب الحدود،باب”ماَجاَء فی ضرب شارب الخمر“حدیث۶۳۹۱، باب”الضرب بالجریدوالنعال“حدیث۶۳۹۳۔
[8] یہ واقعہ صرف خلیفہ ٴدوم کی فضیلت ظاھر کرنے کے لئے گڑھا گیا ھے ،تاکہ مسلمانوں کو یہ باور کرایا جائے کہ حضرت عمر نے جو حد مقرر کردی تھی وھی قانون اسلام بن گئی اس قدر خدا کو عمر کا فعل پسند تھا!مترجم۔
[9] بدایة المجتھد جلد۲ ،کتاب القذف باب ” فی شرب الخمر “صفحہ ۴۴۴۔
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=875&link_articles=holy_prophet_and_ahlulbayit_library/lmam_ali/hakim_ali_ki_nazar_main2