اردو
Monday 20th of May 2024
0
نفر 0

علی (علیہ السلام) کوکس جرم کی وجہ سے قتل کیا گیا

حضرت علی (علیہ السلام) کی شہادت سے متعلق یہ جملہ بہت زیادہ مشہور ہے : ''قتل لشدة عدالتہ'' حضرت علی (علیہ السلام) بہت زیاده عدالت کی وجہ سے شہید ہوئے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امیر المومنین علی (علیہ السلام) اپنی عدالت کی وجہ سے کیوں قتل ہوئے ؟

حضرت علی (علیہ السلام) کی عدالت خواہی

اسلام میں ذاتی عدالت کی شرط بہت ضروری ہے یہاں تک کہ اگر عام آدمی کسی منصب پر قائم ہوجائے تو عدالت اس کے لئے بھی ضروری ہے ۔جیسے قاضی، شاہد اور امام جماعت کی عدالت۔ اور ان فراد میں اگر عدالت نہ پائی جائے تو قضاوت، شہادت اور امامت کا یہ عہدہ ان کے لئے جائز نہیں ہے ، ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کریم نے عدل اوراس کے مشتقات کو ''اجتماعی عدالت'' کے معنی میں استعمال کیا ہے جیسے :''و امرت لاعدل بینکم'' (١) ۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں ۔

''و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل'' (٢) ۔ اور جب تم لوگوں کے درمیان کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ۔

'' ان الشرک ظلم عظیم'' (٣) ۔خبردار کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔

'' ربنا ظلمنا انفسنا '' (٤) ۔ان دونوں نے کہا کہ پروردگار ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ۔

اس مقالہ میں حضرت علی (علیہ السلام) کی عدالت خواہی سے مراد آپ کی ذاتی عدالت نہیں ہے کیونکہ آپ ایک عادل انسان تھے اور '' فقہی عدالت'' (٥) پر پائبند تھے ۔ بلکہ اجتماعی عدالت منظور ہے، حضرت علی (علیہ السلام) صرف عادل ہی نہیں تھے بلکہ معاشرہ میں عدالت کو اجراء کرنا چاہتے تھے ۔

حضرت علی (علیہ السلام) صرف عادل ہی نہیں تھے بلکہ عدالت خواہ تھے ... قرآن کریم کی آیت میں بھی اس بات کی تاکید کی گئی ہے ''یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ بِالْقِسْطِ شُہَداء َ لِلَّہِ وَ لَوْ عَلی أَنْفُسِکُمْ أَوِ الْوالِدَیْنِ وَ الْأَقْرَبینَ اِنْ یَکُنْ غَنِیًّا أَوْ فَقیراً فَاللَّہُ أَوْلی بِہِما فَلا تَتَّبِعُوا الْہَوی أَنْ تَعْدِلُوا وَ اِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَِنَّ اللَّہَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً'' (٦) ۔ اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہو- جس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولیٰ ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تاکہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کرلی تو یاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے

قسط کے متعلق قیام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عدل کو قائم کرنا اور یہ عدل اورکسی شخص کے عادل ہونے کے علاوہ دوسری بات ہے(٧) حضرت علی (علیہ السلام) کی نظر میں عدالت کو جاری کرنا اس لئے ضروری تھا کہ معاشرہ اس کے بغیر صحیح زندگی نہیں گذار سکتا تھا : '' و من الناس من لا یصلحھا لا العدل (٨) ۔

عدالت کے علاوہ کوئی اور چیز عوام الناس کی اصلاح نہیں کرسکتی۔

علی (علیہ السلام) کی نظر میں معاشرہ کے فساد کو صرف عدالت جاری کرکے ختم کیا جاسکتا تھا اور معاشرے کے درد کی دوا بھی اجرائے عدالت تھی اسی وجہ سے آپ عدالت کو جاری کرنے کی نصیحت کرتے تھے اور حاکموں کے لئے عدالت کو ضروری سمجھتے تھے ، اگر آپ خود خلافت کو حاصل کرنا چاہتے تھے تو وہ بھی سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور عدالت کو قائم کرنے کے لئے ۔ حکومت کے ذریعہ اپنے آپ کو خوش کرنے اور ر لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ نے کے لئے نہیں (٩) ۔

آپ کی ظاہر خلافت کے زمانہ میں بصرہ میں آپ کی طرف سے عثمان بن حنیف وہاں کے گورنر منصوب تھے جب آپ کو اطلاع ملی کہ وہ ایک بڑی دعوت میں شریک ہوئے ہیںجس میںدولت مند مدعو کئے گئے تھے اور غریب انسان اس میں موجود نہیں تھے تو آپ نے ایک خط میں ان کو لکھا : کیا میرا نفس اس بات سے مطمئن ہوسکتا ہے کہ مجھے ''امیر المومنین'' کہا جائے اور میں زمانہ کے ناخوشگوار حالات میں مومنین کا شریک حال نہ بنوں اور معمولی زندگی کے استعمال میں ان کے واسطے نمونہ پیش نہ کرسکوں(١٠)؟۔

حضرت علی (علیہ السلام) معاشرہ کی مصلحت ، عدالت کو جاری کرنے میںسمجھتے تھے اور عدالت کو بشریت کے چین و سکون کیلئے ضروری سمجھتے تھے اور عدالت کے ظرف کو وسیع اورظلم کے ظرف کو تنگ سمجھتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں : ''ان فی العدل سعة و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق'' (١١) ۔

عدالت و انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگی۔

شیعوں کی تعلیمات میں عدالت خواہی بہت وسیع امر ہے اور ائمہ علیہم السلام اس موضوع کو ضرورت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ امام سجادعلیہ السلام،دعائے مکارم الاخلاق کے ضمن میں خدا وند عالم سے عدل و عدالت کو وسیع طور پر طلب کرتے ہیں : ''والبسنی زینة المتقین فی بسط العدل(١٢) ۔

عدالت کو قائم کرنا اگر چہ ایک یا چند افراد کی طرف سے معاشرہ میں مطلوب ہوتا ہے لیکن معاشرہ میں وسیع طور پر اس کی قدر ومنزلت پائی جاتی ہے اسی وجہ سے امام سجاد(علیہ السلام) نے اس کی توفیق کی دعا کی ہے ۔

اسی طرح حضرت علی (علیہ السلام) نے جب ابن عباس کی جگہ زیاد بن ابیہ کو فارس اور اس کے اطراف پر قائم مقام بنادیا تو ان کو سفارش کرتے ہوئے فرمایا: خبردار! عدل کو استعمال کرو اور بے جا دبائو اورظلم سے ہوشیار رہو کیونکہ فشار اور دبائو عوام کو غریب الوطنی پر آمادہ کردے گا اور ظلم تلوار اٹھانے پر مجبور کردے گا(١٣) ۔

'' قد رکزت فیکم رایة الایمان، و وقفتکم علی حدود الحلال و الحرام والبستکم العافیة من عدلی، و فرشتکم المعروف من قولی و فعلی و اریتکم کرائم الاخلاق من نفسی''۔

کیا میں نے تمہارے درمیان ایمان کے پرچم کونصب نہیں کیا اور تمہیں حلال و حرام کی حدود سے آگاہ نہیں کیا، اپنے عدل کی بناء پر تمہیں لباس عافیت نہیں پہنایااوراپنے قول و فعل کی نیکیوں کو تمہارے درمیان رائج نہیں کیا ؟ اور تمہیں اپنے بلند ترین اخلاق کا منظر نہیں دکھایا؟ ۔

حضرت علی (علیہ السلام) عدالت کو جاری کرنے میں مسامحہ سے کام لینے کو جائز نہیںسمجھتے تھے خصوصا جہاں پر بیت المال کی بات ہو ۔ ایک حاکم نے بیت المال میں سے بہت سا مال اپنے بعض رشتہ داروں کو بخش دیا تھا لہذا حضرت علی (علیہ السلام) اس کے متعلق فرماتے ہیں :''واللہ لو وجدتہ قد تزوج بہ النساء ، وملک (تملک ) بہ الاماء ، لرددتہ ، فان فی العدل سعة و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق'' ۔

خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنادیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیدیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا اس لئے کہ عدالت و انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگی(١٤) ۔

اگر کسی معاشرہ میں یہ فکر غالب آجائے کہ عدالت کو ہر حال میں جاری کرنا ہے تو وہ معاشرہ خود بخود عدالت کو جاری کرے گااور لوگ خود بخود عدالت کو قائم کریں گے ۔ ایک روایت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:''عدل ساعة خیر من عبادہ سبعین سنة'' (١٥) ۔ایک گھنٹہ کی عدالت ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام میں ذاتی عبادت کے مقابلہ میں عدالت کو قائم کرنے سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر معاشرہ میں عدالت رائج ہوجائے تو ستر سال کی عبادت سے ایک گھنٹہ کی عدالت بہتراور برتر ہے ۔

معاشرہ میں عدالت کا ہونا فقط انسانوں کے متدین ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے بلکہ حکومت بھی عدالت کے ذریعہ سے قائم و دائم رہتی ہے :

حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں : '' فی العدل الاقتداء بسنہ اللہ و ثبات الدول'' (١٦) ۔ عدالت کو جاری کرنے میں صرف سنت الہی نہیں چھپی ہوئی ہے بلکہ حکومت بھی عدالت کو جاری کرنے کے ذریعہ قائم ہے ۔

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے : حکومت کفر کے ساتھ باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ کبھی باقی نہیں رہ سکتی (١٧) ۔

حضرت علی (علیہ السلام) کی عدالت خواہی کے نمونے

حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) کی ایک بیٹی نے بیت المال سے ایک گردن بند بطور عاریہ لے لیا جس کو کچھ دنوں بعد واپس کردیا ۔ حضرت علی (علیہ السلام) بیت المال کے خازن پر بہت نازاض ہوئے اور اپنی بیٹی کی طرف رخ کرکے فرمایا: جتنی بھی عورتیں مدینہ سے کوفہ آئی ہیں کیا ان سب کے پاس ایسا گردنبد ہے جو تمہیں اس کی ضرورت پڑی؟ اے بنت علی ، شیطان کو اپنے اوپر مسلط نہ ہونے دو (١٨) ۔

''و ان عملک لیس لک بطعمة (مطعمة) و لکنہ فی عنقک امانة ، وانت مسترعی لمن فوقک'' ۔ یہ تمہارا منصب کوئی لقمہ نہیں ہے بلکہ تمہاری گردن پر امانت الہی ہے اور تم ایک بلند ہستی کے زیر نگرانی حفاظت پر مامور ہو(١٩) ۔

'' ان من احب عباد اللہ الیہ عبدا قد الزم نفسہ العدل'' ۔ اللہ کی نگاہ میں سب سے محبوب بندہ وہ ہے جس نے اپنے نفس کے لئے عدل کو لازم قرار دے لیا ہے ۔

میں جس وقت تمہارا حاکم بنا تو اس وقت میرے پاس چند درہم اور کچھ لباس تھے جس کو میری اہلیہ نے بنا تھا ،اب اگر میرا کام ختم ہونے کے بعد میرے پاس اس سے زیادہ ہو تو میں خائن ہوں اورمیں نے معاشرہ اور عوام سے خیانت کی ہے (٢١) ۔

حق و عدالت کے راستہ اختیار کرو ، عوام کو ناراض نہ کرو اور جو اشراف و سرمایہ دار اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتے اور امتیاز طلب ہیں ان کو اپنے سے دور کردو(٢٢) ۔

کبھی کبھی آپ کے مصلحت اندیش دوست آپ سے کہتے تھے کہ مصلحت کی وجہ سے عدالت اور مساوات کے موضوع سے چشم پوشی کرلو ،آپ ان کے جواب میں کہتے تھے : کیا تم مجھے اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ داربنایا گیا ہوں ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ۔ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ میں فتح و کامیابی کے لئے تبعیض اور ظلم کو اختیار کروں؟ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ میں سیاست اور سیادت کی وجہ سے عدالت کو قربان کردوں؟ خدا کی قسم! جب تک یہ دنیا باقی ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا (٢٣) ۔

'' واللہ لان ابیت علی حسک السعدان مسھدا ، او اجرفی الاغلال مصفدا، احب الی من ان القی اللہ و رسولہ یوم القیامة ظالما لبعض العباد و غاصبا لشئی من الحطام''۔

خدا گواہ ہے کہ میرے لئے سعدان کی خار دار جھاڑی پر جاگ کر رات گذار لینا یا زنجیروں میں قید ہو کر کھینچا جانا اس امر سے زیادہ عزیز ہے کہ میں روز قیامت پروردگار اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )سے اس عالم میں ملاقات کروں کہ کسی بندہ پر ظلم کرچکا ہوںیادنیا کے کسی معمولی مال کو غصب کیا ہو ۔

'' واللہ لقد رایت عقیلا و قد املق حتی استماحنی من برکم صاعا، و رایت صبیانہ شعث الشعور، غبر الالوان من فقرھم ، کانما سودت وجوھھم بالعظلم، و عاودنی موْکدا، و کرر علی القول مرددا، فاصغیت الیہ سمعی، فظن انی ابیعہ دینی، و اتبع قیادة مفارقا طریقتی، فاحمیت لہ حدیدة ، ثم ادنیتھا من جسمہ لیعتبر بھا، فضج ضجیج ذی دنف من المھا، و کاد ان یحترق (یخرق) من میسمھا، فقلت لہ: ثکلتک الثواکل یا عقیل ! اتین من حدیدة احماھا انسانھا للعبہ، و تجرنی الی نار سجرھا جبارھا لغضبہ! اتئن من الاذی و لاائن من لظی''؟!

خدا کی قسم میں نے عقیل کو خود دیکھا ہے کہ انہوں نے فقر و فاقہ کی بناء پر تمہارے حصہ گندم میں سے تین کیلو کا مطالبہ کیا تھا جب کہ ان کے بچوں کے بال غربت کی بناء پر پراکندہ ہوچکے تھے اور ان کے چہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑک کر سیاہ بنایا گیا ہو اور انہوں نے مجھ سے بار بار تقاضا کیا اور مکرر اپنے مطالبہ کو دہرایا تو میں نے ان کی طرف کان دھر دئیے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید میں دین بیچنے اور اپنے راستہ کو چھوڑ کر ان کے مطالبہ پر چلنے کے لئے تیار ہوگیا ہوں لیکن میں نے ان کے لئے لوہا گرم کرایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں ، انہوں نے لوہا دیکھ کر یوں فریاد شروع کردی جیسے کوئی بیمار اپنے درد و الم سے فریاد کرتا ہو اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس کے داع دینے سے جل جائے تو میں نے کہا رونے والیاں آپ کے غم میں روئیں اے عقیل! آپ اس لوہے سے فریاد کررہے ہیں جسے ایک انسان نے فقط ہنسی مذاق میں تپایا ہے اور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جسے خدائے جبار نے اپنے غضب کی بنیاد پر بھڑکایا ہے، آپ اذیت سے فریاد کریں اور میں جہنم سے فریاد نہ کروں(٢٤) ۔

آخری بات یہ ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) ایسے مربی اور امام ہیں کہ پوری دنیا کے ادیان و ملل والے آپ کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں ۔ ایک عیسائی ادیب جرج جرداق لبنانی نے آپ کو ''انسانی عدالت کی آواز'' کے عنوان سے یاد کیا ہے اور بے نظیر کتاب کی پانچ جلدیں آپ کے متعلق تحریر کیں، اور تاریخ کی طرف تمناو آروز کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے تاریخ سے خطاب کیا :

کیا (تاریخ کو دہرانے کے نام پر ) ایک دوسرا علی بن ابی طالب بشریت کو نہیں دیا جاسکتا؟

حضرت علی (علیہ السلام) کا چہرہ عدالت اور انسان دوستی کے بلند و بالا ٹکڑے کی طرح ہر لمحہ انسانی زندگی پر چمک رہا ہے اور عدالت کا وہ خون جو نماز صبح کے وقت آپ کی پیشانی سے محراب میں ٹپکا وہ روزانہ صبح کے وقت سورج کو بیدار کرتا ہے تاکہ علی کی آواز کو سب لوگ غور سے سن لیں : عدالت عدالت... خلاصہ یہ ہے کہ یہ عدالت ہی ہے جو سب کے اوپر حاکم ہے (٢٥) ۔

حضرت علی (علیہ السلام) کی نظر میں پاک نیت ، لالچ و حرص کو کم کرنے اور تقوی و پرہیزگاری کو زیادہ کرنے کے ذریعہ عدالت کو جاری کیا جاسکتا ہے (٢٦) ۔

آخر کار حضرت علی (علیہ السلام) نے صدائے حق کو لبیک کہا اور عدالت نے اپنے محافظ اور امین کو کھودیا ۔

حوالہ جات

١ ۔ سورہ شوری ، آیت ١٥۔

٢۔ سورہ نساء ، آیت ٥٨۔

٣۔ سورہ لقمان، آیت ١٣۔

٤۔ سورہ اعراف، آیت ٢٣۔

٥۔ فقہی متون میں عادل اس کو کہتے ہیں جو گناہ کبیرہ انجام نہ دیتا ہو اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو اورمروت کے برخلاف عمل نہ کرے ۔

٦۔ سورہ نسائ، آیت ١٣٥۔

٧۔ بیست گفتار، مرحوم مطہری، گفتار اول، ص ٥۔

٨۔ الحیاة ، محمد رضا حکیمی، ج٦، ص ٤٠٠۔

٩۔ علی از زبان علی، سید جعفر شہیدی، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ص ٤٢۔

١٠۔ نہج البلاغہ ، خط نمبر ٤٥۔

١١ ۔ نہج ا لبلاغہ ، خطبہ ١٥۔

١٢۔ صحیفہ سجادیہ، دعائے مکارم الاخلاق۔

١٣۔ نہج ا لبلاغہ ، حکمت٤٧٦۔

١٤۔ نہج ا لبلاغہ، خطبہ ١٥۔

١٥۔ میزان الحکمة ، ج٦، ص ٧٩۔

١٦۔ غرر الحکم، ص ٥١٣۔

١٧۔ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) الملک یبقی مع الکفر و لا یبقی مع الظلم۔

١٨۔ ابن شہر آشوب مازندرانی، مناقب ، ص١٠٨ ۔

١٩۔ نہج البلاغہ ، خط ٥۔

٢٠۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٨٧۔

٢١ ۔ مناقب، ج ٢ ، ص ٩٨۔

٢٢۔ نہج ا لبلاغہ، خط ٥٣۔

٢٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٢٦۔

٢٤۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٢٤۔ ترجمہ دکتر سید جعفر شہیدی ۔

٢٥۔ باجاری صلابت اعصار، محمد رضا حکیمی، بینات، سال ٧، ش ٢٨، ص ٣٣۔ ٣٤۔

٢٦۔ نہج البلاغہ ، صبحی صالحی، خطبہ ١٥۔ استعن علی العدل بحسن النیة و قلة الطمع و کثرة الورع ۔

مآخذ : باشگاہ اندیشہ ۔

 

 


source : http://www.taghrib.ir/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=259:1389-06-11-10-18-47&catid=35:1388-06-09-06-50-36&Itemid=56
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسین (ع) کا انقلاب اور شہادت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شخصیت اور عہد ...
زیارت عاشورا کی فضیلت
پیغمبر اسلام(ص) کی قبر کی منتقلی کے منصوبہ پر ...
اخلاق محمدي (ص) قرآني تناظر ميں
امام جعفر صادق- اور سیاست
حضرت فاطمہ زہراء (س) کی ولادت با سعادت
15 رمضان امام مجتبى سبط اكبر(ع) کی ولادت با سعادت ...
فاطمہ زہرا(س) زمین کو آسمان سے متصل کرنے کا ذریعہ ...
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

 
user comment