حدیث ”دوات و قلم“ کے بارے میں جو احتمالات پائے جاتے ھیں ان کا کوئی ٹھکانا نھیں ھے۔ اور موجودہ شواھد اور قرائن اس بات پر دلالت کرتے ھیں کہ رسول خدا کے نوشتہ کا موضوع، بیان احکام، یا اصحاب کا امتحان نھیں تھا، بلکہ ان حالات میں جو موضوع اتنا بابرکت اور نتیجہ بخش ھوکہ اس میں امت کی ھدایت کی ضمانت اس میں موجود ھو، وہ بے شک ایک شخص کو نبی کی جانشینی کے لئے منتخب کرنا، اور امت کے لئے رھبر معین کرناھی ھوسکتا ھے، اسی وجہ سے اس نوشتے کے موضوع کے بارے میں جو سب سے بڑا احتمال علماء فریقین کی طرف سے پیش ھوا ھے، یھی ھے۔ چونکہ دیگر احتمالات کی صورت میں وہ مقصد جو نبی نے، نوشتہ تحریر ھونے کی صورت میںبیان فرمایاتھا (یعنی ھرگز گمراہ نہ ھونے کا دعویٰ)پورا نھیں ھوتا۔
آپ نے یہ بھی ملاحظہ کیا کہ اس آخری احتمال کی صورت میں بھی معاملہ دو شخص کے درمیان ھے۔ تمام شیعہ علماء ایک دل و زبان، اور بعض علماء اھل سنت اس بات کے معتقد ھیں کہ رسول خدا کا ارادہ تھا کہ وہ ھدایت گر نوشتہ، امام علی علیہ السلام کے متعلق لکھا جائے اور اس میں آپ کی امامت کا اعلان کیا جائے، اس طرح سے کہ اس کے بعد نہ تو کوئی گمراہ ھو، اور نہ ھی اصحاب رسول خدا کے درمیان، مسئلہٴ خلافت پر اختلاف ھو۔
اس کے برخلاف ایک مختصر تعداد کے عقیدہ کے مطابق رسول خدا اس نوشتہ کو ابوبکر کی خلافت کے اور ان کی خلافت کوصاف طور سے بیان کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کی دلیل، وہ جعلی حدیث ھے جس کو عائشہ کی طرف، منسوب کیا گیا ھے اس کے برخلاف تقریباً اکثر علماء اھل سنت کا عقیدہ یہ ھے کہ خلافت کے سلسلے میں کوئی نص نبیکریم سے نھیں ملی۔ اور نبی کریم نے اس اھم مسئلے کو خود اصحاب پر چھوڑدیاتاکہ وہ جس کو چاھیں، انتخاب کرلیں ،اس طرح ابوبکر ایک یا دو شخص کی رائے ،چنداصحاب رسول ،اور اس زمانے کے مسلمانوں کی بیعت کے ذریعہ خلافت پر آئے، لہٰذا یہ نظریہ کہ ابوبکر نص رسول کی بنیاد پر، برسر اقتدار آئے، ایک کمزور نظریہ ھے۔ جو اھل سنت میں بھی قابل قبول نھیں ھے۔ اور اس کے معتقد لوگوں کی تعداد انگشت شمار ھے۔ ان لوگوں کی دلیل بھی جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ ایک خبر واحد ھے۔ جس کی تک وتنھا راوی عائشہ ھیں اور حافظین حدیث میںسے جس شخص نے اس روایت کو نقل کیا وہ فقط احمد ابن حنبل ھیں۔ جو حنبلی فرقے کے امام ھیں۔ اس کے علاوہ کسی نے یہ روایت بیان نھیں کی ۔اس سے پھلے بھی ھم نے دیکھا کہ عائشہ والی روایت بے تکی ھے، اور اس کا احتمال نہ ھونے کے برابرھے۔
صرف یہ وہ احتمال جو باقی رہ جاتا ھے، کہ رسول خدا چاہتے تھے کہ وہ نوشتہ امیر الموْمنین کی خلافت کے بارے میں، تحریر فرمائیں۔ چونکہ رسول اکرم نے دعوت اسلام سے لیکر، اس روز تک باربار امامت علی علیہ السلام کا اعلان فرمایا ، احادیث کے وہ نمونے جو رسول خدا نے بیان فرمائی ھیں۔ حسب ذیل ھیں:
حدیث انذار عشیرہ
پیغمبر اکرم پر یہ آیت نازل ھوئی <وانذر عشیرتک الاقربین> اس میں آپ کو حکم ھوا کہ اپنی رسالت کو لوگوں پر ظاھر کریں اور اپنے خاندان والوں کو اسلام کی دعوت دیں ،رسول خدا نے اپنے خاندان والوں کا ایک مجمع اکٹھا کیا اور اپنی رسالت کو ان تک پھونچادیا، آپ نے اسی جلسے میں اپنی تقریر میں فرمایا:
فایکم یوازرنی علی ہذا الامر علی ان یکون اخی ووصیی وخلیفتی فیکم؛[1]
تم میں سے جو شخص اس کام میں میرا ساتھ د ے گا وہ تمھارے درمیان میرا بھائی ،وصی اور میرا جانشین ھوگا۔
کسی نے جواب نھیں دیا، اور اکیلے علی علیہ السلام جو اس مجمع میں سب سے زیادہ کمسن تھے، عرض کیا:
”یا رسول اللہ میں اس کام میں آپ کی مدد کرونگا“
رسول خدا نے علی کے دوش پر ھاتھ رکھ کرفرمایا:
بے شک تمھارے درمیان یھی میرا بھائی، وصی اور جانشین ھے لہٰذا اس کی باتوں کو سنواور اس کی اطاعت کرو۔
حدیث منزلت
غزوہٴ تبوک کے واقعہ میںجب رسول خدا مدینہ سے تبوک کے لئے نکلے توعلی کو مدینہ میں چھوڑدیا، امیر المؤمنین جو مرد میدان تھے، اور اسلام کی سب سے بڑی مجاھد شخصیت تھی اور آپ دیکھ رھے تھے کہ جنگ میں شرکت سے محروم رہ گئے ھیں۔ آپ نے اپنے غم کا اظھار کیا ،تو رسول خدا نے علی (ع)سے فرمایا:
اما ترضیٰ ان تکون منی بمنزلة ھارون من موسیٰ؟ الا انہ لیس بعدی نبی انہ لا ینبغی ان اذھب الا و انت خلیفتی؛[2]
کیا تم اس بات پر راضی نھیں ھو کہ تمھیں مجھ سے وھی نسبت ھے ھارون کو موسیٰ سے تھی ؟ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں ھوگا ،اور یہ بات روا نھیں کہ میں چلاجاؤں، اور تم کو اپنا جانشین نہ بناؤں۔
حدیث ثقلین
یہ حدیث ان اسناد و مدارک کا جزء ھے، جن پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق ھے۔ اس کے بارے میں یہ جان لینا کافی ھے کہ علماء اھل سنت نے اس حدیث کو نبی کے تیس اصحاب سے نقل کیا ھے۔ موجودہ اسناد و مدارک یہ بتاتے ھیں کہ رسول خدا نے اس حدیث کو متعدد مقامات پر بیان کیا ھے اور اس پر تاکید کی ھے۔ اس حدیث کے چند نمونہ یہ ھیں:
۱۔مسلم نے اپنی صحیح میں زید ابن ارقم سے روایت کی ھے:
رسول خدا نے غدیر خم میں خطبہ پڑھا اور حمد و ثناء الٰھی کے بعد فرمایا:
اما بعد، الاایھا الناس! فانما انا بشر یوشک ان یاٴتی رسول ربّی فاجیب، وانا تارک فیکم الثقلین، اولھا کتاب الله، فیہ الھدی والنور، فخذوا بکتاب الله، واستمسکوا بہ، فحث علی کتاب الله ورغب فیہ۔ ثم قال: واھل بیتی، اذکرکم الله فی اھل بیتی، اذکرکم الله فی اھل بیتی، اذکرکم الله فی اھل بیتی،[3]
۲۔احمد ابن حنبل نے اس طرح روایت کی ھے:
۔۔۔کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض، وعترتی اھل بیتی و انھما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض۔[4]
اسی طرح احمد ابن حنبل کی دوسری روایت میں بیان ھوا ھے:
انی تارک فیکم خلیفتین۔۔۔۔۔۔[5]
ایک دوسری روایت میں اس طرح آیا ھے:
۔۔۔فلا تسبقوھم، فتھلکوا ولاتعلموھم فانھم اعلم منکم۔۔۔[6]
اس روایت کے الفاظ میں،بہت اھم اور بلندو بالا مطالب پوشیدہ ھیں۔ ھم حدیث ثقلین سے یہ سمجھ سکتے ھیں کہ اھل بیت رسول قرآن کے ھم پلہ ھیں، اور قرآن و اھل بیت سے تمسک، راہ ھدایت کا ضامن ھے۔
جملہ”اذکر کم الله فی اھل بیتی“ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں بیان ھواھے، یہ جملہ، اھل بیت کے مقام اور رسول اکرم کی نظر میں ان کی خاص اھمیت کو واضح کرتا ھے اور یہ جملہ رسول خدا کے بعد ، ان کے متعلق مسلمانوں کی ذمہ داری کو بیان کرتا ھے۔
جملہ ”وانھما لن یفترقا“کے الفاظ اس بات کو بیان کرتے ھیں کہ اسلامی معاشرے میں کتاب خدا اور اھل بیت رسول خدا ،ھمیشہ ایک ساتھ ھیں۔ اور آغاز رسالت سے نبی کے حوض کوثر پر پھونچنے تک ان کا ساتھ رھے گا۔ اس عرصہ میں وہ ایک دوسرے سے الگ نھیں ھونگے۔اور مذکورہ جملے سے یہ بھی معلوم ھوتا ھے کہ اھل بیت، قرآن کی طرح معصوم ھیں۔ چونکہ ان کی کوئی بھی لغزش ان کا قرآن سے جدا ھوجانا ھوگی۔اسی طرح یہ بات بھی ثابت ھوتی ھے کہ اھل بیت رسول میں سے کوئی نہ کوئی ھر زمانے اور ھر وقت میں موجود رھے گا، جو قرآن کے ساتھ ھوگا۔ چونکہ اگر نہ ھو، تو اس کے معنیٰ یہ ھونگے کہ قرآن اھل بیت سے جدا ھوگیا اور یہ ایسی بات ھے جس کا رسول خدا نے سختی سے انکار کیا ھے۔
روایت کی بعض نقل میں ثقلین کی جگہ لفظ ”خلیفتین“آیا ھے جو اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ قرآن اور عترت امت کے درمیان نبی کے جانشین ھیں۔
روایت کی ایک دوسری نقل میں اس طرح بیان ھواھے:
انی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی۔[7]
رسول خدا جملہٴ شرطیہ ”ان تمسکتم بہ“ سے ھم کو یہ بتانا چاہتے ھیں کہ راہ ھدایت پر چلنا، فقط قرآن اور عترت کی روشنی میں ممکن ھے اور بس۔
حدیث غدیر
حجة الوداع کا واقعہ اور اس میں موجود واقعات کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ھوجاتی ھے کہ کم سے کم ، اس سفر سے نبی کریم کااھم ترین مقصد علی ابن ابی طالب کی جانشینی تھی اور آپ کو اس امت کا امام بنانا تھا جیسا کہ حجة الوداع کے تمام ھونے کے بعد غدیر خم میں پیش آیا۔ نبیکریم نے میدان غدیر میں خانہٴ خدا کے زائرین سے مخاطب ھوکر ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا:
ان الله مولای وانا مولی المومنین وانا اولی بھم من انفسھم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ، واحب من احبّہ وابغض من ابغضہ، وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار۔۔۔[8]
بےشک خدا میرا مولا ھے اور میں مومنین کا مولا ھو اور ان کے نفس سے زیادہ ان پر حق رکھتا ھوں لہٰذا جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (ع)مولا ھیں (اسکے بعد آپ نے دعا کے لئے ھاتھ بلند فرمائے اور کھا) بار الٰھا اس کو دوست رکھنا جو علی (ع)کی محبت رکھے اور اس کو دشمن رکھنا جو علی (ع)سے دشمنی رکھے ، اس کی مدد فرما جو علی (ع)کی مدد کرے اور ذلیل و خوار کر اس کو، جو علی (ع)کو رسوا کرنا چاھے، اور حق کو اس طرف موڑدے ،جس سمت علی (ع)کا رخ ھو۔
حدیث غدیر کی صحت اور قطعیت کے لئے اتنا کہہ دینا کافی ھے کہ شیعوں کے زبردست محقق اور ریسرچ اسکالر ، علامہ امینی(رہ) نے کتاب الغدیر میں اس حدیث کو ۱۱۰،ا صحاب رسول سے روایت کیا ھے، اور اس حدیث کو ۸۴ تابعین نے نقل کیا ھے، اس کے بعد دوسری صدی هجری کے آغاز سے چودھویں صدی هجری تک، ۳۶۰ اھل سنت کے ایسے علماء ھیں، جنھوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں جگہ دی، اور اس کی صحت پر تاکید کی۔[9]
حدیث اٴئمہ اثناعشر
ایک دوسری دلیل جو خلافت و ولایت امیر المؤمنین اور ان کی اولاد اطھار پر دلالت کرتی ھے اور حجة الوداع کے موقع پر رسول خدا کی زبان پاک پر جاری ھوئی وہ حدیث اٴئمہٴ اثنا عشر ھے۔
یہ حدیث سند کے اعتبار سے امت مسلمہ کی متفق علیہ حدیث ھے۔ اس حدیث میں رسول خدا نے اپنے جانشین اور خلفاء کی تعداد بارہ بتائی ھے، اور ان کی کچھ خصوصیات بھی بیان کی ھیں اور یہ سب خصوصیات شیعوں کے بارہ اماموں کے علاوہ کسی اور پر پوری نھیں اترتیں۔ یہ حدیث بھی ایک واضح دلیل ھے جو یہ بتاتی ھے رسول خدا اپنے تاریخی نوشتے میں وھی مطالب تحریر کرنا چاہتے تھے جن کو کچھ پھلے واقعہ حجة الوداع میں حدیث اثنا عشر کے ضمن میں بتاچکے تھے۔
اب اگر کوئی ھماری یہ بات تسلیم نھیں کرتا تو مجبوراً اسے وہ راستہ اپنانا پڑے گا جو اھل سنت نے اس حدیث کی تاویل کے سلسلے میں اپنایا ھے اورجیسا کہ ھم بیان کریں گے وہ راستہ ایسا راستہ ھے جو آگے جاکر بند ھوجاتا ھے اور اس پر چلنے والا ھرگزمنزل تک نھیں پھونچ سکتا۔
مذکورہ حدیث صحاح اھل سنت کی نقل کے اعتبار سے اس طرح ھے:
مسلم نے اپنی صحیح میں رسول خدا سے یہ روایت نقل کی ھے:
لایزال الدین قائماًحتیٰ تقوم الساعة، او یکون علیکم اثنا عشر خلیفة، کلھم من قریش۔[10]
مسلم نے آٹھ سندوں سے، بخاری نے ایک سند سے اور ترمذی نے تین سندوں سے، ابوداؤد نے دوسند سے اور احمد ابن حنبل نے ۳۶سندوں سے اس حدیث کو نقل کیا ھے([11])،([12])، ([13])
احمد ابن حنبل کی ایک نقل میں اس طرح آیا ھے:
یکون بعدی اثنا عشر امیراً کلھم من قریش۔[14]
میرے بعدبارہ حاکم یا خلیفہ ھوں گے جو سب کے سب قریش سے ھونگے۔
مذکورہ حدیث جیساکہ اھل سنت کے منابع میں ذکر ھوئی ھے اسی طرح شیعہ منابع میں بھی اس کا ذکر ھے[15]
مذکورہ حدیث سے جو کوئی بھی مرادھوں اس میں کوئی شک و شبہ نھیں کہ وھی رسول خدا کے جانشین اور امت مسلمہ کے رھبر ھیں اور رسول خدا کا وعدہ ان کے بارے میں در حقیقت خدا کا وعدہ ھے۔ چونکہ نبی اپنی مرضی سے کچھ کہتے ھی نھیں وہ جو کچھ کہتے ھیں وہ وحی الھی ھوتی ھے[16]
شیعوں نے شروع سے اب تک ایک دل اور ایک زبان ھوکر نبی کی اس حدیث کے مصداق بارہ اماموں کو مانا ھے۔ جو اھل بیت رسول سے ھیں لیکن اھل سنت نے شیعوں کے نظریہ کو نھیں مانا، اور وہ اس حدیث کی کوئی مناسب تفسیر کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس حدیث کے بارے میں اب تک دسیوں نظریے سامنے لائے گئے ھیں۔ ھم یھاں علماء اھل سنت کی طرف سے کی گئی اس حدیث کی توجیھات کے چند نمونے پیش کررھے ھیں:
(الف)ابوحاتم نے کھا ھے کہ بارہ خلفاء یہ ھیں:
ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاویہ، یزید، معاویہ بن یزید،مروان بن حکم، عبد الملک مروان،ولید بن عبد الملک، سلیمان بن عبدالملک،عمربن عبدالعزیز۔[17]
(ب)قاضی عیاض کہتے ھیں کہ بارہ خلیفہ یہ ھیں:
ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاویہ، یزید،عبد الملک مروان، ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبد الملک، یزید بن عبدالملک، ھشام بن عبد الملک اور ولید بن عبد الملک،[18]
سیوطی لکھتے ھیں کہ بارہ خلفاء یہ ھیں:
ابو بکر، عمر، عثمان، علی، حسن بن علی، معاویہ، عبداللہ بن زبیر، عمر بن عبدالعزیز، المہتدی، الظاھر، مھدی(عج)اور؟[19]
مذکورہ باتیں اور اس قسم کی توجیہ جو معمولاً خلفاء راشدین، اموی اور عباسی حکام سے ملی جلی ایک فھرست ھے ھماری نظر میں ھرگز قابل قبول نھیں ھے۔
جن دلیلوں سے ان توجیھات کی خامی ثابت ھوتی ھے وہ یہ ھیں:
۱۔ان توجیھات کے قائلین نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل قائم نھیں کی ھے، بلکہ فقط اپنادعوابیان کیا ھے۔ دنیا بھر کے صاحبان عقل کے لئے ایسا دعویٰ قابل قبول نھیں۔
۲۔علماء اھل سنت نے امام اور خلیفہٴ رسول کے لئے جو شرائط بیان کئے ھیں ان میں عدالت اور علم کی شرط بھی ھے ، چنانچہ انھوں نے لکھا ھے کہ خلیفہ کو چاہئے کہ عادل ھو اور علم اور دین شناسی میں اپنے زمانے میں افضل و برتر ھو.[20]
جیسا کہ آپ نے دیکھا انھوںنے جن لوگوں کے نام نبی کے بارہ خلفاء میں لئے ھیں وہ زیادہ تر اموی حاکم ھیں جو شیعہ اور سنی دونوں کی نظر میں بے دین، کم علم، ستم گر اور فاسق تھے۔ لہٰذا یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ ایسے لوگ رسول خدا کے خلفاء شمار کئے جائیں؟! مذکورہ شرائط فقط ائمہ اھل بیت میں مکمل طور پر پورے اترتے ھیں۔
۳۔جیسا کہ ھم نے کھا رسول خدا کی طرف سے بارہ خلفاء کے آنے کا وعدہ بلا شک خدا کا وعدہ ھے۔ اگرھے تو ضروری ھے کہ یہ سب خلفاء ایک ھی رفتار اور کردار کے حامل ھوں لیکن جب ھم ائمہ اھل بیت اور خلفاء اھل سنت کی تاریخ پر نظر ڈالتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ ائمہ اھل بیت تو ایک ھی طرح کے کردار اور رفتار کے حامل ھیں، اپنے قول و عمل میں پیغمبر اکرم کی سیرت اور ان کی راہ پر چلنے والے ھیں لیکن خلفاء اھل سنت میں سے ھر ایک دوسرے کا مخالف تھا ۔
معاویہ نے، امیر المؤمنین اور امام حسن مجتبیٰ سے جنگ کی جبکہ یہ دونوں حضرات (امیر المؤمنین اور امام حسن مجتبیٰ) اھل بیت رسول سے ھیں، یزید نے نبی کے نواسے حسین بن علی (ع)سے جنگ کی اور آپ کو شھید کردیا، یزیداور مروان اور اس کا بیٹا عبدالملک یہ تینوں عبدالله بن زبیر سے لڑے اور آخر کار اس کو قتل کردیا۔
اسی طرح امویوں نے عمر ابن عبدالعزیز کو زھر دے کر قتل کردیا۔[21]
تمام خلفاء بنی امیہ کا یھی حال تھا ان میں سے بعض نے تو اپنے سے پھلے خلیفہ کو قتل کیا اور مسند حکومت پر بیٹھ گئے، بنی عباس نے بنی امیہ سے جنگ کی اور اموی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔
ان کا یہ کردار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ یہ لوگ خلیفہ رسول نھیں تھے چونکہ انبیاء نے ایک دوسرے سے جنگ نھیں کی لہٰذا یہ بات بھی قابل قبول نھیں کہ نبی کے خلفاء ایک دوسرے سے جنگ کریں اور ایک دوسرے کا خون بھائیں۔
تمام خلفاء بنی امیہ کا یھی حال تھا ان میں سے بعض نے تو اپنے سے پھلے خلیفہ کو قتل کیا اور مسند حکومت پر بیٹھ گئے، بنی عباس نے بنی امیہ سے جنگ کی اور اموی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔
ان کا یہ کردار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ یہ لوگ خلیفہ رسول نھیں تھے چونکہ انبیاء نے ایک دوسرے سے جنگ نھیں کی لہٰذا یہ بات بھی قابل قبول نھیں کہ نبی کے خلفاء ایک دوسرے سے جنگ کریں اور ایک دوسرے کا خون بھائیں۔
۴۔ اھل سنت نےجن لوگوں کو خلیفہٴ رسول جانا اور اور بشارت الٰھی کا مصداق سمجھا ان میں زیادہ تر اموی حاکم ھیں جن پر خدا نے نبی کی زبان پاک سے لعنت کی ھے[22]
کیا اس حالت میں ان کو خلیفہ ، حاکم اور جانشین رسول ماننا صحیح ھے،جب کہ خود خدا ان پر لعنت کررھا ھے؟!
تعجب کی بات ھے کس طرح اھل سنت نے، جن لوگوں پرخدا نے ان کے برے اعمال اور خیانت آمیز کردار کی وجہ سے لعنت کی ھے اور ان کو اپنی رحمت سے دور کیا ھے ان کو خلیفہٴ خدا اور رسول کے طور پر پہچنوانا کیسے گوارا کرلیا؟! جو الٰھی ھدایت سے دور رھے ان کو لوگوں کا ھادی اور رھنما مان لیا۔
اس کے علاوہ پھلی اور دوسری فھرست میں امام حسن علیہ السلام کا نام نھیں لیا گیاجب کہ آپ نے اپنے والد بزرگوار کی وصیت اور لوگوں کی بیعت پر چھ مھینے خلافت فرمائی۔
اسی طرح امام مھدی(عج) کا نام نھیں لیا گیا جبکہ صحیح بلکہ متواتر احادیث میں آپ کے آنے اور آپ کے خلیفہ ھونے کی بشارت دی گئی ھے۔[23]
اسی طرح معاویہ جو کہ اھل سنت کا ایک خلیفہ ھے اس نے امیر المؤمنین اور حسن مجتبیٰ سے جنگ کی اور امام حسن کو شھید کیا۔یزید بھی اھل سنت کا خلیفہ ھے اس نے امام حسین سے جنگ کی اور آپ کو شھید کیا ان تینوں ھستیوں سے جنگ رسول خدا کے قول کے مطابق خود رسول خدا سے جنگ کرنا ھے۔
ابوھریرہ کہتے ھیں: رسول خدا نے علی،فاطمہ، حسن اور حسین کی جانب رخ کرکے فرمایا:
انا حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم[24]
میں اس شخص سے جنگ کی حالت میں ھوں جو تم سے جنگ کرے اور اس سے صلح میں ھوں، جو تمھارے ساتھ صلح وصفائی سے رھے۔
نبی سے جنگ کفر کا باعث ھے اب اگر کوئی خود پیغمبر سے حالت جنگ میں ھو کیا یہ مناسب ھے کہ اس کو خلیفہٴ رسول مان لیا جائے ؟!
۵۔اھل سنت نے اس حدیث کی جو تاویل کی ھے اس کے مطابق بعض زمانوںمیں وہ بغیر رھبر اور رھنما کے رہ جاتے ھیں مثال کے طور پر سیوطی کی توجیہ کی بنا پر، حکومت عبدالله بن زبیر سے، عمر بن عبدالعزیز کی خلافت تک ۳۵ سال کا عرصہ گذرا ھے۔ اس مدت میں امت مسلمہ بغیر کسی رھبر اور امام کے رھی اور عمر بن عبدالعزیز کی خلافت سے لیکر خلافت مہتدی تک چالیس سال کا عرصہ خالی گذرا اور اس مدت میں امت بغیر خلیفہ کے رھی، اسی طرح الظاھر کی خلافت کے بعد خلافت امام مھدی(عج) تک جو دنیا کے اختتام پر قائم ھوگی لوگ بغیر ھادی اور رھنما کے رھیں گے اور یہ تب ھے جبکہ رسول خدا فرماچکے ھیں:
من مات ولیس فی عنقہ بیعة مات میتة جاھلیة[25]
جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس نے کسی امام کی بیعت نہ کی ھو وہ شخص جاھلیت کی موت مرتاھے۔
اسی طرح فرمایا:
من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة.[26]
جو شخص مرجائے اور اس نے اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا ھو وہ جاھلیت کی موت مرتاھے۔
خاص کر اس بنا پر کہ قیامت تک،خلافت ھروقت اور زمانے میں قریش سے مخصوص ھے، رسول خدا سے منقول ھے کہ آپ نے فرمایا:
لایزال ہذا الامر فی قریش مابقی من الناس اثنان؛[27]
امر خلافت ھمیشہ قریش سے مخصوص ھے اس وقت تک کہ دنیا میں دو شخض بھی باقی رھیں۔
اسی لئے اھل سنت کی ایک بڑی پریشانی یہ ھے کہ مذکورہ حدیث کے پیش نظران کے لئے ھر زمانے میں ایک قریشی خلیفہ موجود رھے اور اگر کوئی مرجائے اور اس قریشی خلیفہ کی بیعت اس کی گردن پر نہ ھو تو اس کی موت جاھلیت کی موت ھوگی اس کے باوجود صدیاں گذرگئیں اور اھل سنت ایسے خلیفہ سے محروم ھیں۔ لیکن شیعوں کاھر زمانے میں ایک قرشی خلیفہ رھا ھے اور آئندہ بھی رھے گا چونکہ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ھمیشہ ایک امام وہ بھی اھل بیت میں سے اس دنیا میں باقی ھے۔
۶۔بارہ خلیفہ، رسول خدا کے جانشین اور پوری امت مسلمہ کے خلیفہ ھیں اس لئے ان کی خلافت کا زمانہ کسی خاص زمانے سے مخصوص نھیں ھے بلکہ جب تک امت مسلمہ ھے تب تک کوئی نہ کوئی ان میں سے باقی ھے تا کہ امت مسلمہ کی رھنمائی کرسکے۔روایت کی بعض نقل میں اس طرح بیان ھوا ھے :
لایزال الدین قائما حتیٰ تقوم الساعة او یکون علیکم اثنیٰ عشر خلیفة۔۔۔[28]
یکون لہٰذہ الامة اثنا عشر خلیفة۔[29]
یکون لہٰذہ الامة اثنا عشر قیماً۔[30]
مذکورہ مطالب سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ بارہ خلفاء کی خلافت کا زمانہ مخصوص نھیں ھے۔ بلکہ یہ پوری امت کے خلیفہ ھیں اسی طرح ان احادیث میں استعمال ھونے والالفظ ” امت “ پوری امت مسلمہ کے لئے ھے چاھے وہ قیامت تک کی امت ھو،اس لئے اس کو پھلی صدی کے مسلمانوں سے مخصوص نھیں کیا جاسکتا، اس لئے بارہ خلفاء کے زمانے کو پھلی صدی میں محدود کردینا بے بنیاد بات ھے۔
۷۔اس حدیث کی بعض روایت کے مطابق اسلام کی عزت ان بارہ خلفاء کے وجود پر منحصر ھے:
لایزال الاسلام عزیزاً الی اثنی عشر خلیفة۔۔۔۔[31]
بعض دوسری روایات میں دین کا قیام اور اس کی پائداری بارہ خلفاء کے وجود پر منحصر ھے:
لایزال الاسلام قائماً حتی یکون اثنا عشر خلیفة۔[32]
اب اگر اھل سنت کے علماء یہ کھیں جیسا کہ وہ اس حدیث کی تاویل میں کہتے ھیںکہ نبی کے بارہ خلفاء ۱۳۲ھتک یا اس کے کچھ بعد تک رھے اس کے بعد ان کی خلافت کا زمانہ تمام ھوگیا ،اس کا جواب یہ ھے کہ اس عقیدے سے لازم یہ آتا ھے کہ ان کی خلافت کے بعددین محمد(ص) کا قوام و دوام اور عزت ختم ھوجائے!
لہٰذا ماننا پڑے گا کہ رسول خدا کے بارہ خلفاء کا زمانہ ابھی پورا نھیں ھوا بلکہ ابھی جاری ھے اور یھی وہ چیز ھے جس کے شیعہ معتقد ھیں۔
۸۔بعض احادیث رسول میں واضح طور پر آیا ھے کہ امام مھدی(عج) بھی خلفاء رسول میں سے ھیں اور ان کی ظاھری حکومت کا زمانہ آخری زمانہ ھے اور بعض روایات میں یہ بھی آیا ھے کہ وہ امت مسلمہ کے آخری خلیفہ اور دین محمد(ص) کی آخری کڑی ھیں یہ اس بات کا واضح ثبوت ھے کہ خلفاء کی خلافت کا زمانہ ابھی پورا نھیں ھوا۔ اس حدیث کے چند نمونے یھاں ذکر کئے جارھے ھیں:
لولم یبق من الدھر الایوم لبعث الله رجلاً من اھل بیتی یملاٴھا عدلا کما ملئت جوراً۔[33]
یکون فی آخر امتی خلیفة یحثی المال حثیا لایعدہ عدداً۔[34]
ومن خلفائکم خلیفة یحثوا المال حثیاً لایعدہ عدداً۔[35]
ویکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال ولایعدّہ۔[36]
والمھدي منا یختم الدین بہ کما فتح بنا
با المھدي منا بنا یختم الله کمابنا فتح۔۔۔۔۔[37]
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا حدیث ائمہ اثنا عشر شیعوں کے بارہ اماموں کے علاوہ کسی پر مطابقت نھیں کرتی اب اگربارہ خلفاء کے سلسلے میں کوئی شخص علماء شیعہ کے نظریہ کو نھیںمانتا، تو ان احادیث اور بہت سی دوسری احادیث کا کوئی قابل قبول حل نھیں نکال سکتا۔ اسی وجہ سے ھمارا عقیدہ ھے کہ روز پنجشنبہ رسولخدا جو چیز لکھنا چاہتے تھے وہ وھی حقیقت ھے جو ”حدیث ائمہ اثنا عشر“ میں آئی ھے۔
ان احادیث کے علاوہ دوسری بہت سی احادیث موجود ھیںھم یھاں ان میں سے چند احادیث کے ذکر پر اکتفاء کرتے ھیں:
(الف)ترمذی نے عمران بن حصین سے اور اس نے رسول خدا سے یہ روایت نقل کی ھے:
۔۔۔۔ان علیاً منی وانا منہ، وھو ولی کل مؤمن بعدی۔[38]
(ب)زید ابن ارقم نے رسول خدا سے یہ حدیث نقل کی ھے:
من احبّ ان یحیاحیاتی و یموت موتی ویسکن جنّة الخلد الذی وعدنی ربّی-عزوجلّ- غرَس قضبانھا بیدہ، فلیتولّ علی بن ابی طالب۔ فانہ لن یخرجکم من ھدی ولن یدخلکم فی ضلالة۔[39]
(ج) ام سلمہ نے رسولخدا سے نقل کیا ھے کہ آپ نے فرمایا:
علی مع الحق والحق مع علی، ولن یفترقا حتیٰ یردا علیَ الحوض یوم القیامة۔[40]
(د)ام سلمہ نے فرمایا کہ میں نے رسول خدا سے سنا:
علی (ع)مع القرآن والقرآن مع علی (ع)لایفترقان حتیٰ یردا علیّ الحوض۔[41]
لہٰذا ھمارا عقیدہ ھے کہ پیغمبر اکرم چاہتے تھے کہ اس نوشتے میں اس بات کو تحریر فرمائیں جو انھوں نے متعدد بار ، مختلف مقامات پر، دوران رسالت کے تقریباً بیس سال کے عرصہ میں، ولایت و خلافت علی ابن ابی طالب کو زبانی طور پر بیان فرمایا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ اس کو تحریری شکل میں لے آئیں تاکہ کوئی چون وچرا کی گنجائش نہ رہ جائے اور اس کے ذریعہ اختلاف اور گمراھی کے اسباب کا خاتمہ ھوجائے۔
ظاھر ھے یہ بات عمر جیسے لوگوں کے دل میں امت مسلمہ پر حکومت کی خواھش لئے ھوئے تھے بے چینی کا باعث تھی اور جس چیز نے انھیں رسول خدا کے سامنے جلدبازی اور ناسمجھی پر اکسایاتھا، وہ خلافت علی ابن ابی طالب کے علاوہ اور کوئی چیز نھیں ھے ۔
[1]خفاجی، نسیم الریاض،شرح الشفاء،ج۳، ص۳۵، دلائل النبوة، ج۲، ص۱۷۸۔۱۸۰؛ متقی ھندی، کنز العمال، ج۱۳، ص۱۲۸؛ مسند احمد، ج۱، ص۱۵۹؛ تفسیر طبری، ج۱۹، ص۷۵۔
[2]صحیح بخاری، کتاب فضائل صحابہ، باب مناقب علی؛ سنن ترمذی، ج۵، ص۳۰۲؛ابن عساکر، مختصر تاریخ دمشق، ج۱۷، ص۳۴۷؛ سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص۱۸۷؛ طبرانی، معجم کبیر، ج۱۱، ص۷۶ و ج۱۲، ص۹۹ وج۱۹، ص۲۹۱؛ نسائی، خصائص امیر المؤمنین، ص۸و۱۹؛ مصنف ابن ابی شیبہ، ج۱۲، ص۶۰ و ج۱۴، ص۵۴۵؛خطیب، تاریخ بغداد، ج۴، ص۴۳۲؛ طحاوی، مشکل الاثار، ج۲، ص۳۰۹۔
[3]صحیح مسلم، کتاب فضائل صحابہ، جدیث ۳۶؛ بیہقی، السنن الصغیر، ج۲، ص۲۱۲؛ طبرانی، معجم کبیر، ج۵، ص۱۸۳۔
[4]مسند احمد، ج۳، ص۱۴ وج۴، ص۳۷۱؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۲۵۷؛ تہذیب تاریخ دمشق،، ج۵، ص۴۳۹۔
[5]مسند احمد، ج۵،ص۱۸۲؛ مناوی، فیض القدیر، ج۳، ص۱۴؛ سیوطی، الدرّ المنثور، ج۲، ص۶۰۔
[6]شیخ قوام الدین وشنوی، حدیث ثقلین، ص۱۰؛ ینابیع المودة، ج۱، ص۳۸و۳۹و۴۳؛ سیوطی، الدرّالمنثور، ج۲، ص۶۰۔
[7]سنن ترمذی،ج۵، ص۳۲۹؛ الدرّ المنثور، ج۲، ص۶۰؛ کنز العمال، ج۱، ص۱۷۳؛ اتحاف سادة المتقین، ج۱۰، ص۵۰۷؛
[8]سنن ترمذی، حدیث۳۷۱۳؛ مسند احمد، ج۱، ص۸۴،۱۱۸، ۱۱۹و۱۵۲؛ طبرانی، معجم کبیر، ج۴، ص۲۰۷و ۲۰۸ وج۵، ص۱۶۶؛ مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۱۰، ۱۳۴و۳۷۱۔
[9]مراجعہ کیجئے کتاب الغدیر،ج۱، ص۱۰۲ تا ۱۹۰۔
[10]صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب۱۔
[11]صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب۵۱۔
[12]سنن ترمذی، کتاب الفتن، باب۴۶۔
[13]سنن ابوداؤد، کتاب المھدی، حدیث۱و۲۔
[14]احمد ابن حنبل، مسند،ج۵، ص۹۲۔
[15]محمد بن علی الخزاز قمی، کفایة الاثر، ص۴۹۔
[16]نجم(۵۳) آیات۳و۴۔
[17]عون المعبود، شرح سنن ابی داؤد، ج۱۱، ص۳۶۳۔
[18]فتح الباری، شرح صحیح بخاری، ج۱۳، ص۲۱۴۔
[19]تاریخ الخلفاء ،ص۱۰۔۱۲۔
[20]ماوردی، احکام السلطانیہ، ص۲۰؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۲۴۳۔
[21]سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص۲۷۷و۲۷۸۔
[22]شوکانی فتح القدیر، ج۳، ص۲۴۰؛ مسند احمد، ج۳، ص۵؛ مجمع الزوائد، ج۱، ص۳۰۸ وج۵، ص۴۳۵؛ سیوطی، الدرّ المنثور، ج۵، ص۳۰۹؛ تفسیر قرطبی، ج۱۰،ص۲۸۶؛ ابن حجر تطھیر الجنان، ص۶۳؛ مستدرک الصحیحین،ج۴، ص۴۸۱؛وغیرہ
[23]الحاوی للفتاویٰ، ج۲، ص۲۴۷۔
[24]مستدرک الصحیحین، ج۳، ص۱۴۹؛ احمد ابن حنبل، مسند، ج۲، ص۴۲۲؛ طبرانی، معجم کبیر، ج۳، ص۳۱؛ تہذیب تاریخ دمشق، ج۴، ص۱۳۹؛ تاریخ بغداد، ج۷، ص۱۳۷؛ الدرّ المنثور، ج۵، ص۱۹۹۔
[25]صحیح مسلم ، کتاب امارہ، حدیث۵۸۔
[26]تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۲۳۰۔
[27]صحیح مسلم، کتاب امارہ، باب۱؛ صحیح بخاری، کتاب احکام، باب۲۔
[28]صحیح مسلم، کتاب امارہ، باب۱۔
[29]مسند احمد، ج۵، ص۱۰۶؛ کنز العمال، ج۱۲، ص۳۳۔
[30]گذشتہ حوالہ
[31]صحیح مسلم، کتاب امارہ، باب۱؛ مسند احمد، ج۵، ص۹۰،۱۰۰و۱۰۶؛ طبرانی، معجم کبیر، ج۲، ص۲۱۴۔
[32]صحیح مسلم، کتاب امارہ، باب۱؛ سنن ابی داؤد، کتاب المھدی؛ دلائل النبوہ، ج۱، ص۳۲۴۔
[33]سنن ابی داؤد، ج۴، کتاب المھدی؛ الحاوی للفتاویٰ، ج۲، ص۲۱۵۔
[34]صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب۱۸، حدیث۶۷۔۶۹۔
[35]گذشتہ حوالہ
[36]گذشتہ حوالہ
[37]عجلونی، کشف الخفاء، ج۲، ص۳۸۰؛ الصواعق المحرقہ، ص۱۶۳؛ سیوطی، الحاوی للفتاویٰ جلد۲ ص۲۱۔
[38]سنن ترمذی، ج۵، ص۲۹۶؛ سنن ابن ماجہ، حدیث۱۱۹؛ مسند احمد، ج۴، ص۱۶۴و۱۶۵؛ طبرانی، معجم کبیر، ج۴، ص۱۹و ۲۰؛
[39]ھیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۳۷؛ طبرانی، معجم کبیر، ج۵، ص۱۹۴؛ حلیة الاولیاء، ج۴، ص۳۴۹، ابونعیم۔
[40]خطیب بغدادی، تارخ بغداد، ج۱۴، ص۳۲۱؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۲۳۵۔
[41]طبرانی، معجم اوسط، ج۵، ص۴۵۵؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۲۳۵۔
source : http://www.balaghah.net