حضرت فاطمہ (س) سے شاد ی کے وقت حضرت علی (ع) انتہائی تنگ دست تھے۔ مہاجرین کی بہت سی بزرگ شخصیات نے فاطمہ زہرا (س) کا ہاتھ مانگا تھا ۔پیغمبر نے ان لوگوں کو جواب دیا تھا کہ : (اس سلسلے میں)میں پروردگار کے حکم کا منتظر ہوں ۔ لوگوں نے حضرت علی (ع) سے کہا :آپ فاطمہ(س) کا رشتہ کیوں طلب نہیں کرتے؟ حضرت علی (ع) کو اس بات سے شرم محسوس ہوتی تھی۔ لیکن بہر صورت آپ رسول مقبول کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور مسئلہ ان کے گوش گزار کیا۔ پیغمبر اسلام کا چہر ہ کھل اٹھا۔ گویا آنحضرت کو اسی لمحے کا انتظار تھااور آپ اس کیلۓ تیار تھے۔ پیغمبر حضرت علی (ع) کی مالی حالت سے بخوبی آگاہ تھے۔ کیونکہ خود آپ ہی نے انہیں پال پوس کر جوان کیا تھا اور علی (ع) ان کے گھر میں انہی کے ہمراہ رہا کرتے تھے ۔لہذاجس طرح پیغمبر حضرت علی (ع) کے علمی اور روحانی فضائل سے آگاہ تھے اسی طرح ان کے پاس موجود مال و دولت کی مقدار کو بھی جانتے تھے ۔اسکے باوجود آپ نے ان سے پوچھا : تمہارے پاس کیا ہے؟ حضرت علی (ع)نے فرمایا : ڈھال ‘ تلوار اورجسم پر موجود لباس‘ اور آپ اسے خوب جانتے ہیں ۔پیغمبر نے فرمایا : تلوار تو تمہاری ضرورت ہے‘ اس لۓ کہ اسکے ذریعے تم اسلام اور اﷲ کے رسول کا دفاع کرتے ہو۔ البتہ اپنی ڈھال مجھے دے دو۔ اس ڈھال کو ٠٠٥ درہم میں فروخت کیا گیا۔یہی حضرت زہرا (س) کا مہرقرار پایا۔ علی (ع) اور فاطمہ (س)تنگ دست ترین لوگوں کی مانند زندگی بسرکیا کرتے تھے ‘یہاں تک کہ شدید فقر و افلاس اور گھریلو کاموں کی مسلسل محنت ومشقت نے حضرت زہرا (س) کو ( دوسری عورتوں سے کہیںزیادہ) شدیدتکلیف میں مبتلا کیا ہوا تھا۔
حضرت فاطمہ(س) کی شادی کے سلسلے میں ہونے والی گفتگو اوران کی شخصیت میں پوشیدہ فضائل کے ضمن میں ’’کشف الغمہ‘‘ میں ایک روایت نظر آتی ہے جس میں امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے کہ : لولا ان اﷲ تبارک و تعالیٰ خلق امیر المومنین لفاطمة ما کان لھا کفو علی وجہ الارض (اگر خداوندتبارک و تعالیٰ نے امیر المومنین کو حضرت فاطمہ کے لۓ خلق نہ کیا ہوتا تو روۓ زمین پر ان کیلۓ کوئی ہم سر اور ہم شان نہیں تھا)
اگر ہمسری ’’نسب‘‘ اور رشتے داری کی بنیاد پرہوتی تو پیغمبر اسلام کے اور بہت سے چچا زاد بھائی تھے اور اگر مسلمان ہونے کے اعتبار سے ہوتی تو مسلمان بھی بہت تھے‘ لیکن علی (ع) اور فاطمہ کے ازدواج میں ایک ایسا راز پوشیدہ ہے جس سے خدا کے سوا کوئی اور واقف نہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق غیبی امور سے ہے ۔
علی (ع) اور فاطمہ(س) کے بندھن کا سبب بننے والا ایک عنصر یہ ہے کہ‘ یہ دونوں علمی‘ معنوی اور اخلاقی لحاظ سے ایک ساتھ رسول خدا کے ہمراہ رہے تھے ‘جبکہ صحابہ میں سے کسی اورمرد یا عورت کو یہ امتیاز حاصل نہ تھا۔ علی (ع) اور فاطمہ‘ (س) آنحضرت کے دن رات کے ساتھی تھے اورانہوں نے ایک ایسی ہستی کی مانندان کے ہمراہ زندگی بسرکی تھی جو اپنے سامنے واقع ہونے والی ہر چیز سے سبق حاصل کرتی ہے ۔
پیغمبر اسلام بھی کوشش کیاکرتے تھے کہ ان دونوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ انہیں دیکھنے والا خود آنحضرت کو اپنے سامنے مجسم پاۓ اورآپ نے اپنے اس عمل کے ذریعے‘ خداوند عالم کی اس دعوت کا مثبت جواب دیا کہ : وانذر عشیرتک الاقربین (اور اپنے قریبی رشتے داروںکو تنبیہ کیجۓ ۔سورہ شعراء۲۶۔آیت۲۱۴) ۔جس وقت پیغمبر کے عزیز و اقربا نے آپ سے منھ موڑ لیا تھا‘ اس وقت آپ کے نزدیک ترین روحی اور ایمانی رشتے دار یعنی علی (ع) اور فاطمہ (س) آپ کے ساتھ ساتھ تھے۔ لہٰذا جس معنوی فضا‘ افق اور خدا پذیری اور خدا شناسی کی خصوصیات کے حامل علی (ع) تھے فاطمہ (س)بھی انہی اوصاف کی مالک تھیں۔لہٰذا جب ہم حضرت علی (ع)اور حضرت فاطمہ (س) کی عبادتوںپر نظردوڑاتے ہیں تو دونوںمیں قوت ‘سعی و کوشش اورخدا پذیری کی یکساں اور ایک ہی سی حالت کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اس گفتگو کے معنی یہ ہیں کہ یہ دونوں ہستیاںخدا کی معرفت‘ قدسِ الٰہی اور اسکی غیبی صفات کے اسرار سے اتصال کے ایک بلند رتبے پر فائز اور خداوند تعالیٰ کے قرب کی اہمیت سے آگاہ تھیں۔شیخ صدوق ‘ کتاب ’’عیون اخبار الرضا‘‘ میںسند کے ذکر کے ساتھ حضرت ابوالحسن علی ابن موسیٰ الرضا (ع) سے اور وہ اپنے والدِ گرامی (امام موسیٰ کاظم (ع)) سے اور وہ اپنے اجداد سے ‘اوروہ حضرت علی (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا : پیغمبر نے مجھ سے کہا : اے علی (ع) مردانِ قریش نے فاطمہ کے سلسلے میں مجھے سرزنش کی اور کہا کہ : ’’ہم نے آپ سے فاطمہ کا رشتہ طلب کیا ‘ لیکن آپ (ص) نے ہمیں مسترد کر دیا اور علی (ع) کے ساتھ ان کی شادی کر دی۔ میں نے انہیں جواب دیا: میں نے تمہیں مسترد نہیں کیا بلکہ خدا نے تمہیں مسترد کیا اور علی (ع) کے ساتھ ان کی شادی کی۔ ‘‘حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی کا مسئلہ ‘ پیغمبر کے ہاتھ میں نہ تھا‘ بلکہ یہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا فیصلہ تھا۔ اس حدیث کے سلسلۂ سند کے بارے میں احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ : انما لو وضعت علی المجنون لافاق ( بے شک اگر یہ سلسلۂ سند کسی دیوانے کی گردن میں ڈال دیا جاۓ‘ تووہ شفا پا جاۓ ) کیونکہ اس سلسلۂ سند میں ایک امام دوسرے امام سے روایت کر رہا ہے‘ یہاں تک کہ حضرت علی (ع) رسولِ مقبول سے نقل کرتے ہیں۔
شوہر کے ساتھ ہم آہنگی
حضرت زہرا (س) نے اپنے شوہر کے حوالے سے عائد ہونے والی گھریلو ذمے داریوں کی ادائیگی میں (دوسری عورتوں کی مانند) کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اور اس بنیاد پر کہ آپ دختررسول ہیںآپ نے اپنے شوہر سے تعلق میںخود کو دوسری مسلمان خواتین سے ممتاز نہیں سمجھا۔البتہ اپنی گھریلو اور عائلی ذمے داریوں کی انجامدہی کے سلسلے میں آپ ایک ایسے بہترین اور بلندترین درجے پرفائز ہیں جس تک کوئی مسلمان عورت نہیں پہنچ سکتی ۔ آپ خوداپنے ہاتھوںسے(گندم اور جو) پیستیں ‘آٹا گوندھتیں ‘ اسکی روٹیاں پکاتیں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتیں۔
آپ اپنی زندگی کے آغاز ہی سے بے انتہا رنج و غم کا شکار رہیں ‘ جن کا سیرت نویسوں نے اپنی تحریروں میں ذکر کیا ہے۔ ایک بہت اہم بات جو حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کی ازدواجی زندگی میں نظر آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ حضرت زہرا (س) اپنے عزم وحوصلے ‘ استقامت ‘ عبادت اور زہد سے حضرت علی (ع)کی تقویت کا باعث بنیں۔آپ نے گھریلو ماحول میں ایسی اسلامی فضا ایجاد کی کہ جب حضرت علی (ع) گھر میں داخل ہوتے تو خود کوہر طرف سے اسلام کے حصار میں محسوس کرتے ‘کیونکہ زہرا (س)نے اپنے گھر کی فضا کو اسلام کی خوشبو سے معطر کیا ہوا ہوتا تھا۔ اور علی (ع) جس طرح مسجد میں اور رسول مقبول کے نزدیک ایک اسلامی فضا میں سانس لیتے تھے اسی طرح گھر میں ‘ دختر رسول کے پہلو میں بھی ایک اسلامی فضا میں جیتے تھے۔
علی (ع) ایک ایسے مسلمان شوہر ہیں جو بجا طور پر خودحق کا مدارہیں‘ جنہوں نے اپنی عقل‘ روح عبادت ‘استقامت اور زہد کے ذریعے حضرت فاطمہ (س) کے لۓ ایک مثالی اسلامی ماحول فراہم کیا ۔خود فاطمہ (س) حضرت علی (ع) کی شخصیت میں موجود فضائل کے ذریعے اسلام کی دل انگیز خوشبو سے مشام جاں کو معطر کرتیں ۔ بارگاہِ خداوندی میںتضرع ‘ خشوع ‘ عبادت اور سجدہ ریزیوں کے ساتھ ساتھ یہ دونوں محبت ِالٰہی اور خوف خدا میں بھی ممتاز مقام کے حامل تھے۔
source : ttp://www.bayenat.net/