اردو
Wednesday 17th of July 2024
0
نفر 0

علی(ع)وفاطمہ(س)آئینۂ پیغمبر ہیں

علی (ع) اور فاطمہ (س) کا عقدِ ازدواج ‘ دو ایسے طالب علموں کا بندہن ہے جو ایک ہی استاد کے محضر درس سے مستفید ہوۓ ہیں۔ اور یہی عامل اس بات کا سبب ہوا ہے کہ وہ عقلی ‘ روحانی ‘ اخلاقی اور کرداری لحاظ سے آپس میںمکمل ہم آہنگ ہیں۔لہٰذا جب ہم حضرت علی (ع) کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں رسول خدا  نظر آتے ہیں ‘اسی طرح جب فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں توان کے وجود میں بھی پیغمبر کا نظارہ کرتے ہیں۔

’’حاکم‘‘ کتاب مستدرک میں سند کے ذکرکے ساتھ’’ابی ثعلب‘ ‘سے نقل کرتے ہیں کہ : جب کبھی رسولِ مقبول  جنگ یا سفر سے پلٹتے تو سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے اور دو رکعت شکرانے کی نماز ادا کرتے ‘اسکے بعد اپنی بیٹی فاطمہ (س)کے یہاں جاتے اور پھر اپنی ازواج سے ملاقات کرتے۔اس بات کا مطلب یہ ہے کہ فاطمہ (س) پیغمبر اسلام  کے دوسروں سے حتیٰ آپ کی ازواج تک سے تعلق میںمر کزی نقطے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

’’حاکم ‘‘ اسی مذکورہ کتاب میں ‘ سند کے ذکر کے ساتھ یوں روایت کرتے ہیں کہ : ’’جب کبھی پیغمبر عازمِ سفر ہوتے تو سب سے آخر میں فاطمہ (س) سے وداع ہوتے ۔‘‘ یعنی سفر پر نکلتے ہوۓ سب سے آخرمیں جو چہرہ دیکھتے وہ فاطمہ زہرا (س) کا رخِ انور ہوتا‘ تاکہ آپ کا سراپا اور وہ مہربانی اور محبت جس کا زہرا (س) اپنے والدِ گرامی کے لۓ اظہار کرتی تھیں دوران سفر آپ   کی روح کی تسکین اورقوتِ قلب کا موجب رہے۔ ( روایت ان الفاظ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے کہ) جب بھی (رسولِ کریم)سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے فاطمہ (س)کے دیدار کو جاتے۔ کیونکہ پیغمبر  پورے سفر کے دوران ان سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے تھے۔ وہ اشتیاق جس کی ماننداشتیاق کسی اور کے لۓ آپ کے دل میں نا پایا جاتا تھا۔ لہٰذا اس آتشِ شوق کوسب سے پہلے ان کا دیدارکرکے بجھاتے ۔

’’استیعاب‘‘ میں سند کے ذکرکے ساتھ روایت کی گئی ہے کہ :ام المومنین عائشہ سے پوچھا گیا : پیغمبر کے نزدیک محبوب ترین ہستی کون تھی؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : فاطمہ ۔ راوی نے دریافت کیا : مردوں میں آنحضرت کسے سب سے زیادہ پسند کرتے تھے؟ کہا : ان کے شوہر (علی ) کو ۔ کہ میں نے انہیں بہت زیادہ روزہ دار اور نماز گزار پایا ہے۔

ابو نعیم نے ’’حلیة الاولیائی‘‘ میں سند کا ذکر کرتے ہوۓ حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ : مارایت احداً قطّ اصدق من فاطمة غیرا بیھا (میں نے فاطمہ سے زیادہ راست گو کسی کو نہیں دیکھا سواۓ ان کے والدِ گرامی کے)جی ہاں ! آپ سچائی اور صداقت کے اس مقام پر فائزہیںکہ کوئی مسلمان آپ کے رتبے تک نہیں پہنچا اور مقامِ صدق میں کوئی ان سے بلند نہ ہو سکا۔ اور یہ مقام‘ رسول خدا  سے آپ کی پیوستگی اور آنحضرت   کی اس ممتاز صفت سے آپ کی یگانگت کا عکاس ہے۔ کیونکہ صداقت رسولِ مقبول کی وہ امتیازی خصوصیت تھی جس نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی نبوت کی قبولیت کی راہ ہموار کی۔ بالفاظ دیگر نبوت قبول کرنے کی بنیادیں آپ کی صداقت اور امانت ہیں۔ امانت ‘ صدق کا نتیجہ ہوتی ہے‘ یوں صدق اور امانت ساتھ ساتھ ہوتے ہیں‘ اس لۓ کہ کسی صادق اور سچے انسان کا خیانت کا مرتکب ہونا ممکن نہیں‘ کیونکہ خیانت جھوٹ کی ایک قسم ہے۔

فاطمہ(س)‘ پیغمبر اسلام   کی صداقت کا آئینہ ہیں۔آپ صدق کی بدولت ایک بلند درجے پر فائز ہوئیں‘ اور اپنے والد گرامی حضرت محمد مصطفی  کے بعد ‘ آپ سے زیادہ سچاکوئی اور نہیں۔ کیونکہ ان کا صدق ‘ اپنے والد گرامی کے صدق سے متصل ہے‘ جنہوں نے صدق کو ان کی عقل میں بویا تھا تاکہ ان کی فکر‘ صادقانہ فکر ہو‘ اورصدق کو ان کے جذبات و احساسات میں رچایا بسایا تھا تاکہ وہ صادقانہ جذبات و احساسات کی حامل ہوں اورصداقت کو ان کی حیات میں داخل کیا تھاتاکہ ان کی پوری کی پوری زندگی صداقت سے سر شار ہو۔

فاطمہ(س) بچپنے ہی سے اپنے والد کے سلسلے میں اس احساسِ ذمے داری کی مالک تھیں‘ جو احساسِ ذمے داری ایک ماں اپنے بچے کے بارے میں رکھتی ہے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ ایک روز پیغمبر سجدے کی حالت میں تھے کہ قریش (کے کچھ لوگوں)نے جانور کی اوجڑی آنحضرت کی پشت پر پھینک دی۔ فاطمہ (س) دوڑ کے آئیں اور اس گندگی کو اٹھا کر دور پھینک دیا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب پیغمبر نماز کی ادائیگی کیلۓ مسجد الحرام کی سمت تشریف لاتے تھے تواس موقع پر فاطمہ(س) اپنے والدِ گرامی کے ہمراہ ہوا کرتی تھیں۔ یہ قصہ اپنے باباکے حالات سے باخبر رہنے اور مشرکین کی حرکتوںپر نظر رکھنے کے سلسلے میں حضرت فاطمہ (س) کے اہتمام کی نشاندہی کرتا ہے۔

جنگوں میں بھی والد کے ہمراہ

اسی طرح اپنے والد کے ساتھ ساتھ رہنے کے سلسلے میں حضرت فاطمہ(س) کی روش کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ بعض جنگوں میں بھی پیغمبر کے ہمراہ تھیں۔ مورخین نے مدینہ میں آپ کی سرگرمیوں کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ : جنگ بدر میں پیغمبر اسلام  زخمی ہو گۓ۔ حضرت علی (ع) نے آپ کے زخم کو صاف کیا اور پٹی باندھ دی۔ لیکن جب خون نہ رکا ‘ تو فاطمہ(س) آئیں‘ اس حال میں کہ آپ رو رہی تھیں۔ انہو ں نے اپنے پدرِ بزرگوار کو آغوش میں لیا ‘ایک چٹائی جلائی اور اسکی راکھ زخم پر رکھ دی۔یہاں تک کہ خون بند ہو گیا۔ یہ قصہ حضرت فاطمہ (س) کی اپنے والد گرامی سے محبت کی گہرائی اور ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کے سلسلے میں توجہ کی نشاندہی کرتا ہے۔اس زمانے میں پیغمبر کی چند بیویاں تھیں لیکن فاطمہ (س)آنحضرت کے احوال کی جستجو‘ان کی دیکھ بھال اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے سلسلے میں خود کو ان کی بیویوں سے زیادہ ذمے دارسمجھتی تھیں۔


source : http://www.bayenat.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حسینیت اور یزیدیت کی شناخت
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
حضرت ولی عصرؑ کی ولادت باسعادت
امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
دربار یزید میں امام سجاد(ع) کا تاریخی خطبہ

 
user comment