اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

مدینہ سے امام رضا (ع) کا خراسان میں آنا

 

تاریخ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے (مرو) خراسان بلوانے پر آپ سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ گویا آپ اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے بلکہ لائے گئے تھے۔مورخین میں سے ایک نے بھی یہ نہیں لکھا کہ امام کو خراسان لانے سے قبل کوئی خط و کتابت کی گئی ہو۔ یا کسی شخص کے ذریعہ آپ تک پیغام بھجوایا گیاہو‘ آپ کو آمد مقصد بالکل نہیں بتایا گیا تھا جب آپ ”مرو“ میں تشریف لائے تو پہلی بار مسئلہ ولی عہدی پیش کیا گیا۔ اس طرح امام سمیت آل ابی طالب حکومتی اہلکاروں کی نظر میں تھے‘ یہاں تک کہ جس راستے سے امام (ع) کو لایا گیا وہ راستہ بھی دوسرے راستوں سے مختلف تھا ۔ پہلے ہی سے یہ پروگرام طے پایا تھا کہ امام (ع) کو شیعہ نشین علاقوں سے نہ گزارا جائے۔ کیونکہ بغاوت کا خطرہ تھا۔ اس لیے مامون نے حکم دیا امام (ع) کو کوفہ کے راستے سے نہ لایا جائے بلکہ بصرہ خوزستان سے ہوتے ہوئے نیشا پور لایا جائے ۔ پولیس کے اہل کار حضرت امام رضا علیہ السلام کے ادھر ادھر بہت زیادہ تھے۔ پھر آپ کے دشمنوں، مخالفوں کو آپ کے ساتھ تعینات کیا گیا۔ سب سے پہلے تو جو پولیس افسر آپ کی نگرانی کر رہا تھا وہ مامون کاخاص گماشتہ اور وفادار تھا۔

متن:

تاریخ کیا کہتی ہے؟

۱۔ مدینہ سے امام (ع) کی خراسان میں آمد

تاریخ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے (مرو) خراسان بلوانے پر آپ سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ گویا آپ اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے بلکہ لائے گئے تھے۔مورخین میں سے ایک نے بھی یہ نہیں لکھا کہ امام کو خراسان لانے سے قبل کوئی خط و کتابت کی گئی ہو۔ یا کسی شخص کے ذریعہ آپ تک پیغام بھجوایا گیاہو‘ آپ کو آمد مقصد بالکل نہیں بتایا گیا تھا جب آپ ”مرو“ میں تشریف لائے تو پہلی بار مسئلہ ولی عہدی پیش کیا گیا۔ اس طرح امام سمیت آل ابی طالب حکومتی اہلکاروں کی نظر میں تھے‘ یہاں تک کہ جس راستے سے امام (ع) کو لایا گیا وہ راستہ بھی دوسرے راستوں سے مختلف تھا ۔ پہلے ہی سے یہ پروگرام طے پایا تھا کہ امام (ع) کو شیعہ نشین علاقوں سے نہ گزارا جائے۔ کیونکہ بغاوت کا خطرہ تھا۔ اس لیے مامون نے حکم دیا امام (ع) کو کوفہ کے راستے سے نہ لایا جائے بلکہ بصرہ خوزستان سے ہوتے ہوئے نیشا پور لایا جائے ۔ پولیس کے اہل کار حضرت امام رضا علیہ السلام کے ادھر ادھر بہت زیادہ تھے۔ پھر آپ کے دشمنوں، مخالفوں کو آپ کے ساتھ تعینات کیا گیا۔ سب سے پہلے تو جو پولیس افسر آپ کی نگرانی کر رہا تھا وہ مامون کاخاص گماشتہ اور وفادار تھا۔اس کا نام جلودی تھا۔ امام علیہ لسلام سے کینہ و بعض رکھتا تھاٗ یہاں تک کہ جب مسئلہ ولی عہدی مرو میں پیش کیا گیا تو اس جلودی نامی شخص نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مامون نے اسے خاموش رہنے کو کہا لیکن اس نے کہا کہ میں اس کی بھرپور مخالفت کروں گا۔ جلودی اور دو دوسرے آدمیوں کو زندان میں ڈالا گیا پھر اسی مخالفت اور دشمنی کی وجہ سے ان کو قتل کر دیا گیا۔

(جلودی بہت ہی ملعون شخص تھا اس نے مدینہ میں علویوں کے خلاف جنگ لڑی لیکن اس کو شکست ہوئی۔ ہارون نے اسی جلودی کو حکم دیا تھا کہ آل ابی طالب(ع) کا تمام مالٗ زیورات اور لباس وغیرہ لوٹ لے۔ یہ سادات کے دروازے پر آیا لیکن امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا کہ میں تجھے اندر نہیں جانے دوں گا۔ اس نے بہت اصرار لیا۔ امام(ع) نے فرمایا یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس نے کہا میری یہ ڈیوٹی میں شامل ہے۔ آپ(ع) نے فرمایاتو ادھر ہی ٹھہر جا جو کہتا ہے وہ ہم خود ہی تجھے دیتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خود اندرتشریف لے گئے آپ نے بیبیوں سے فرمایا آپ کے پاس جو چیز بھی ہے کپڑے ‘ زیورات وغیرہ وہ سب مجھے دے دو تاکہ میں جلودی کو دے دوں)۔

مورخین نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک روز ہارون نے حضرت امام(ع) اور فضل کی موجودگی میں جلودی کو اپنے دربارمیں بلوایااور اس سے کہا کہ اپنے موقف پرنظرثانی کرے ۔لیکن جلودی اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم سو فی صد اس بات کی مخالفت کریں گے بلکہ ایک شخص نے بد تمیزی بھی کی۔ ہارون نے حکم دیا ان میں سے جوبھی ہماری بات نہ مانے ان کا سر قلم کر دیا جائے۔ چنانچہ دو افراد کو اس وقت قتل کردیا گیا۔جلودی کی باری آئی۔ امام رضا علیہ السلام نے ہارون سے فرمایا کہ اسے معاف کر دولیکن جلودی نے کہا اے امیر! میری آپ سے ایک درخواست ہے وہ یہ کہ اس شخص یعنی (امام(ع)) کی سفارش میرے بارے میں قبول نہ کیجئے۔ مامون نے کہا تیری قسمت خراب ہے۔ میں امام (ع) کی سفارش قبول نہیں کرتا۔ اس نے تلوار اٹھائی اس وقت جلودی کو ڈھیر کر دیا۔ بہر حال امام رضا علیہ السلام کو خراسان لایا گیا۔ تمام سادات ایک جگہ پر اور امام رضا علیہ السلام ایک جگہ پر … لیکن پولیس کے سخت پہروں میں تھے اس وقت مامون نے کہا آقا میں آپ کو اپنا ولی عہد مقرر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بات تاریخ کی مسلمہ حقائق میں سے ہے۔

۲۔ امام رضا علیہ السلام کا انکار

جیسا کہ ہم نے کہا کہ مدینہ میں حضرت سے ولی عہدی کی بات بھی نہ کی گئی اور نہ اس سے متعلق کوئی مشورہ لیا گیا ”مرو“ میں جب آپ کو ولی عہدی کی بابت بتایا گیا تو آپ نے شدید انکار کیا۔ ابوالفرج نے مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ مامون نے فضل بن سہل اور حسن بن سہل کو امام (ع) کے پاس بھیجا جب ان دونوں بھائیوں نے آپ کی ولی عہدی کے بارے میں بتایا تو آپ نے فرمایا ایسا نہیں ہو گا اور تم لوگ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہم مجبور ہیں ہمیں اوپر سے حکم ہوا ہے کہ اگر آپ نے انکار کیا تو آپ کا سر قلم کر دیں گے۔ شیعہ علماء نے بار بار اس تاریخی جملہ کو ذکر کیا ہے کہ انکاری کی صورت میں آپ کو اسی وقت قتل کر دیا جاتا لیکن مورخین نے یہ بھی لکھا ہے حضرت نے قبول نہ فرمایا۔ یہ دونوں مامون کے پاس گئے‘ دوسر مرتبہ مامون خود حضرت کے پاس آیا اور بات چیت کی۔ آخر میں امام (ع) کو قتل کی دھمکی بھی دی…… اور کہا آپ اس عہدے کو قبول کیوں نہیں کرتے ؟کیا آپ کے دادا علی (ع) نے مجلس شوریٰ میں شرکت نہ کی تھی ؟اس سے وہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ جو کچھ رہے ہیں یہ تمہارا خاندانی شیوہ ہے۔

دوسرے لفظوں میں جب حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ میں شرکت فرمائی تو خلیفہ کے انتخاب میں دخل اندازی کی ‘اور یہ مانتے اور جانتے ہوئے خاموش ہو گئے کہ خلافت اللہ کی طرف سے انہی کا حق ہے۔ اور آپ نے آنے والے لمحوں کا انتظار کیا ۔پس جب آپ کے دادا علی (ع) نے شوریٰ کے فیصلوں کو تسلیم کیا ہے تو آپ ہماری مشاورتی کمیٹی میں شمولیت اختیار کیوں نہیں کرتے؟ امام علیہ السلام نے مجبور ہو کر قبول کر لیا اور خاموش ہو گئے۔ البتہ آپ کے سوال کا جواب باقی ہے جو کہ ہم نے اپنی اس گفتگومیں دینا ہے کہ جب امام علیہ السلام نے انکار کر دیا تھا تو اپنے اس موقف پر قائم رہتے اگرچہ اس کے لیے آپ کو جان بھی قربان کرنی پڑتی…… کر لیتے۔ امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے اپنی مظلومانہ شہادت کو قبول کر لیا ۔ لیکن یزیدیت کے سامنے اپنا سر نہ جھکایا۔ جب انکار ہی کیا تھا تو انکار ہی رہنے دیتے؟ اس سوال کا جواب ہم اس گفتگو میں دیں گے۔

۳۔ امام رضا علیہ السلام کی شرط

مورخین نے لکھا ہے کہ امام علیہ السلام نے ایک شرط عائد کی کہ ولی عہدی کا منصب میں اس صورت میں قبول کروں گا کہ حکومتی اور سرکاری معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کروں گا اور کوئی ذمہ داری بھی نہ لوں گا۔ در حقیقت آپ مامون کے کسی کام میں تعاون نہیں کرنا چاہتے تھے۔ گویا آپ ایک طرح کی مامون کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ ایک طرح کا احتجاج تھا اور احتساب بھی۔ مامون نے امام علیہ السلام کی یہ شرط مان لی لیکن امام علیہ السلام نماز عید میں بھی شرکت نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ مامون نے امام علیہ السلام سے کہا کہ آپ اس عید پر ضرور تشریف لائیں ۔ آپ نے فرمایا یہ میرے معاہدے کے خلاف ہے ۔ مامون بولا لوگ ہمارے خلاف طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں‘ اس مرتبہ آپ ہر حالت میں شرکت فرمائیے ۔ حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے آپ نے ایسی صورت میں مامون کی دعوت قبول فرمائی کہ مامون اور فضل کو شرمندگی اٹھانا پڑی ‘کیونکہ آپ کی وجہ سے ایک بہت بڑے انقلاب کے برپا ہونے کا خطرہ تھا۔ اسی خوف اور خدشے کی بناء پر آپ کو راستہ ہی میں واپس بھیج دیا گیا اور آپ کو باہر اس لیے نہیں جانے دیا گیا کہ اگر آپ عید کے اجتماع میں شرکت کرتے ہیں تو لوگوں کا انبوہ کثیر آپ کی بیعت کر کے حکومت وقت کے خلاف اٹھ کھڑاہوگا۔

۴۔ ولی عہدی کے اعلان کے بعد امام (ع)کا رویہ

اس مسئلہ سے بھی اہم مسئلہ ولی عہدی کے اعلان کے بعد امام رضا علیہ السلام کا مامون کے ساتھ بے غرضانہ رویہ اختیار کرنا ہے۔ اس کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء اور مئورخین نے کھلے لفطوں میں اظہار خیال کیا ہے۔ جب امام رضاعلیہ السلام کو ولی عہد نامزد کیا جاچکا تو آپ نے ڈیڑھ سطر کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے اپنی پالیسی کھل کر بیان کی آپ نے اس خطبہ میں نہ مامون کا نام لیا اور چھوٹا سا شکریہ بھی ادا نہ کیا ۔حالانکہ سرکاری پروٹوکول کے مطابق آپ کو مامون کا نام لینے کے ساتھ ساتھ شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے تھا۔

ابوالفرج بیان کرتے ہیں کہ مامون نے ایک دن اعلان کیا کہ فلاں روز ملک بھر کے عوام ایک جگہ پر جمع ہوں اور علانیہ طور پر امام رضا علیہ السلام کی بیعت کی جائے چنانچہ ایک بہت اجتماع ہوا ‘اس میں مامون نے امام علیہ السلام کے لیے کرسی صدارت بچھوائی۔ سب سے پہلے مامون کے بیٹے عباس نے بیعت کی پھر علوی سید کو موقعہ بیعت دیا گیا۔ اس طرح ایک عباسی اور ایک علوی بیعت کے لیے آتے جاتے رہے اور ان بیعت کرنے والوں کو بہترین انعامات بھی دئیے گئے ۔آپ نے بیعت کیلئے دوسرے طریقے رکھے ہوئے تھے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ میرے جد بزرگوار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طریقے سے بیعت لیتے تھے لوگوں نے آپ کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی‘ خطباء ‘شعراء اور مقررین نے اپنے اپنے الفاظ اور اپنے اپنے انداز میں سرکار رضا (ع)کی مدح سرائی کی۔ بعض شعراء نے مامون کو بھی سراہا اس کے بعد مامون نے امام رضا علیہ السلام سے کہا: ”قم فا خطب الناس و تکلم فیھم“

آپ اٹھ کر لوگوں سے خطاب کریں مامون کو یہ توقع تھی کہ امام علیہ السلام اس کے حق میں توصیفی کلمات ادا فرمائیں گے۔

 ”فقال بعد حمد اللہ والثنا ء علیہ“

مسئلہ ولی عہدی امام رضا (ع)(2)

ہم امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ۔اس نشست میں بھی ہم اس اہم تاریخی موضوع پر مزید روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ جرجی زیدان کی طرح کچھ مورخین نے کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ بنو عباس کی سیاست نیکیوں کو چھپانا اور حقائق کو دبانا تھا۔ جس کی وجہ سے تاریخ میں سے کچھ چیزیں ایسی بھی رہ گئی ہیں کہ جن کے بارے میں آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ولی عہدی کا مسئلہ امام رضاعلیہ السلام سے شروع نہیں ہوا یعنی امام رضا علیہ السلام نے ولی عہد بننے کی نہ خواہش ظاہر کی اور نہ آپ دلی طور پر مامون کا نائب خلیفہ بننا چاہتے تھے اور نہ ہی امام وقت کے شایان شان تھا۔ دراصل شروع ہی اس مسئلہ کو انتہائی راز میں رکھا گیا تھا۔ مامون خراسان میں تھا۔ خراسان اس زمانے میں روس کے ساتھ ملتا جلتا تھا۔ مامون وہاں سے چند افراد کو مدینہ روانہ کرتا ہے۔ کس لیے امام رضا علیہ السلام کو بلوانے کیلئے۔

امام رضا علیہ السلام کی خراسان میں آمد کا پروگرام تک نہ تھا اور آپ کو ان راستوں‘ شہروں ‘ علاقوں اور دیہاتوں سے گزار کر لایا گیا کہ جہاں آپ کے ماننے اور جاننے والے موجود نہ تھے ۔دوسرے لفظوں میں امام رضا علیہ السلام کو پولیس کے کڑے پہرے میں قید کر کے لایا جارہا تھا۔ جب آپ مرو پہنچے تو آپ کو ایک الگ مکان میں لایا گیا۔ مامون اور امام علیہ السلام کے مابین پہلی جو گفتگو تھی وہ یہ تھی کہ میں آپ کوخلافت کی باگ دوڑ دینا چاہتا ہوں۔ پھر کہا کہ اگر آپ یہ قبول نہ فرمائیں تو ولی عہدی کا منصب ضرور قبول کریں۔ آپ نے سخت انکار کیا۔ اب سوال یہ ہے امام علیہ السلام کے انکار کی وجہ کیا ہے؟ اس سلسلے میں ہم روایات کی طرف چلتے ہیں دیکھتے ہیں وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے امام علیہ السلام کو انکار کرنا پڑا؟ عیون اخبار الرضا میں ذکر ہوا ہے کہ مامون نے امام رضا علیہ السلام سے کہا میں سوچ رہا ہوں کہ مسند خلافت چھوڑ کر اسے آپ کے حوالے کروں اور آپ کی بیعت کروں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا تم خلافت کے مستحق ہو کہ نہیں؟ اگر حقدار ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تمہارے پاس امانت ہے اسے ہر صورت میں اپنے پاس رکھواگر اس پر تمہارا حق نہیں ہے تو پھر بھی اس پر قابض رہو؟ اس سے امام کا مقصد یہ تھا اگر خلافت تمہارا حق نہیں ہے تو یزید کے بیٹے معاویہ کی طرح اعلان کرو کہ میں حقدار نہیں ہوں۔ میرے آباء و ء اجداد نے غلطی کرتے ہوئے مجبوراً عنان حکومت میرے ہاتھ میں دی ہے۔ معاویہ بن یزید نے کہا تھا کہ میرے باپ دادا نے خلافت غصب کر کے اس پر ناجائز طور پر قبضہ جمایا تھا اور میں جامہ خلافت کو اتار کر واپس جارہا ہوں۔ اگر تم بھی خلافت دینا چاہتے ہو تو اسی طرح کرو۔ سب سے پہلے تو آپ کو اپنے آباؤ اجداد اور ان کے انداز حکومت کو ناجائز اور غلط کہنا ہو گا۔ ہارون نے جب یہ بات سنی تو اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور گفتگو کو بدلتے ہوئے اچھا چھوڑو اس بات کو شاید آپ کی کوئی مجبوری ہے۔پھر مامون نے کہا کہ آپ کو ہماری شوریٰ میں شرکت تو کرنا پڑے گی- مامون ایک پڑھا لکھا شخص تھا۔ حدیث ‘ تاریخ‘ فلسفہ‘ ادبیات پر اسے مکمل عبور حاصل تھا۔ طب و نجوم پر بھی خاص مہارت رکھتا تھا ۔آپ اسے وقت کا قابل ترین شخص بھی کہہ سکتے ہیں۔ شاید سلاطین و خلفاء میں مامون جیسا قابل اور لائق شخص پیدا ہی نہیں ہواہو ۔ اس نے دلیل کا سہارا پکڑتے ہوئے کہا کہ آپ کے دادا علی علیہ السلام نے بھی شوریٰ میں شمولیت اختیار کی تھی؟

اس وقت کی شور یٰ میں چھ آدمی تھے۔ فیصلہ اکثریت کے پاس تھا۔ اس وقت کسی نے دھمکی دی تھی کہ اگر شوریٰ کے فیصلے سے کسی نے انکار کیا تو ابوطلح انصاری اس کا سر قلم کر دے گا۔ یہ صورت حال بھی اس جیسی ہے۔ لہذا آپ اپنے دادا علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے فیصلے کو قبول کریں۔ ایک لحاظ سے مامون امام علیہ السلام کو سمجھانے کی ایک لا حاصل کوشش کر رہا تھاکہ آپ کے دادا علی علیہ السلام نے خلافت کو اپنا حق جاننے ہوئے بھی شوریٰ کے فیصلوں کو تسلیم کیا حالانکہ علی علیہ السلام کو اس وقت احتجاج کرنا چاہیے تھا‘ اور آپ شوریٰ میں شامل ہی نہ ہوتے اور اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھتے جب تک کہ ان کو اپنا حق نہ مل جاتا‘ لیکن آپ نے کسی قسم کا احتجاج نہ کیا بلکہ اپنی مرضی سے ہی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کی‘ اور اپنی خوشی سے خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لیا۔ لہذا اب بھی وہی صورت حال ہے بہتر یہ ہوگا کہ آپ ہماری شوریٰ میں آجائیں لیکن آپ کی خاموشی اور انکار کے بعد اس نے دھمکی آمیز رویہ اپناتے ہوئے امام علیہ السلام کو ولی عہد بننے پر مجبور کیا۔ یہ نظریہ قطعی طور پر درست نہیں ہے کہ امام علیہ السلام نے ڈر اور خوف کی وجہ سے ولی عہدی کا منصب قبول کیا ہے ۔دراصل یہ سب کچھ مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کیلئے کیا گیا۔ دوسرا آپ نے امامت کی ذمہ داریاں بھی دوسرے امام کی طرف منتقل کرنا تھیں۔ اس کے علاوہ اور بھی شرعی ذمہ داریاں تھیں جن کو امام علیہ السلام نے نبھانا تھا۔ اگر تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ آپ نے مامون کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ آپ کا ایک بار کا ٹھکرانا اس بات کی دلیل ہے کہ امام علیہ السلام مامون کی خلافت کو جائز سمجھتے تھے نہ اس کی کسی قسم کی مدد کرنے کو تیار تھے۔ پھر مصلحت کے ساتھ آپ کو خاموشی اختیار کرنا پڑی۔

تیسرا مسئلہ جو کہ بہت اہم ہے کہ امام علیہ السلام نے اس پر شرط عائد کی کہ میں خلافت اور حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کروں گا‘ اس صورت میں مجھے نائب خلیفہ مقرر کرنا ہے تو کر لو‘ میرے نام پر سکہ جاری کرنا ہے تو کر لو۔ میرا نام استعمال کرتے ہوئے خطبہ پڑھنا ہے تو پڑھ لو ‘لیکن عملی طور پر مجھے اس سے دور رکھو ۔میں نہ عدالتی ‘ حکومتی امورمیں دخل اندازی کروں گا اور نہ کسی کو مقرر اور معطل کرنے میں حصہ لوں گا۔ اس کے علاوہ آپ نے حکومت کا سرکاری پر وٹو کول بھی قبول نہ کیا۔ اس لحاظ سے آپ اس کو سمجھا رہے تھے کہ وہ اس کی حکومت کے خیر خواہ نہیں ہیں اور نہ ہی اس خلافت کو جائز سمجھتے ہیں۔

ایک روز مامون نے ملک کے سر کردہ افراد‘ سیاسی و مذہبی شخصیات کو مدعو کیا۔ سب کو سبز لباس پہننے کی تلقین کی گئی۔ فضل بن سہل نے سبز لباس تجویز کیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عباسیوں کا پسندیدہ رنگ کالا تھا۔ فضل نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ سبز لباس پہن کر کانفرنس میں شرکت کریں۔ کہا جاتا ہے یہ رنگ مجوسیوں کا پسندیدہ رنگ تھا لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات کسی حد تک سچی ہو؟ چنانچہ وقت مقررہ پر سب شرکاء پہنچ گئے۔ جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے امام علیہ السلام کی ولی عہدی کی رسم ادا کی گئی۔ اس سلسلے میں مامون کے بیٹے عباس نے امام علیہ السلام کی بیعت کی ‘ اس سے قبل وہ اپنے باپ کا ولی عہد تھا۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے لوگ آتے رہے بیعت کرتے رہے ۔پھر شعراء ‘ خطباء کی باری آئی ۔انہوں نے اپنے اپنے انداز میں انتہائی خوبصورت اشعار کہہ کے محفل کو پرکیف بنا دیا ۔اس کے بعد امام علیہ السلام کو خطاب کی دعوت دی گئی ۔آپ اپنی نشست سے اٹھ کر سٹیج پر تشریف لائے۔ اور ڈیڑھ سطر پڑھ کر اپنا خطبہ مکمل کر لیا آپ نے فرمایا ہم (اہلبیت اطہار (ع) ‘ ہمارے آئمہ) آپ لوگوں پر حق رکھتے ہیں کہ تمہارے سربراہ مقرر ہوں ۔اس کا مفہوم یہ تھاکہ خلافت ہمارا حق ہے ۔اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔آپ پر ہمارا اور ہمارا آپ پر حق ہے۔ آپ کا ہم پر حق یہ ہے کہ ہم آپ کے سب حقوق کی حفاظت کریں اور امور زندگی میں آپ کی مدد کریں ‘اور آپ کا فرض یہ ہے کہ ہماری پیروی کریں اورہم سے رہنمائی لیں۔ آپ لوگوں نے جب ہی ہمیں خلیفہ برحق کے طور پر تسلیم کر لیا تو ہم پرلازم ہے کہ اپنے وظیفہ کو احسن طریقے سے نبھائیں۔ بحارالانوارج ۴۹/۱۴۶ میں یوں عبارت درج ہے:

” لنا علیکم حق برسول اللہ ولکم علینا حق بہ فاذا انتم ادیتم الینا ذلک وجب علینا الحق لکم“

 اس کامفہوم اور معنی اوپر درج کیا جا چکا ہے دوسرے لفظوں میں ہم اس کی تعبیر کچھ اس طرح کر سکتے ہیں کہ امام علیہ السلام لوگوں سے یہ کہہ رہے تھے خلافت ہمارا حق ہے تمہارا حق یہ ہے‘ کہ خلیفہ آپ کے مسائل کو حل کرے۔ آپ پر فرض ہے کہ ہمارا ہمیں حق دیں اور ہم اس ذمہ داری کوبخوبی انجام دیں گے۔

اس میں آپ نے مامون کا نام تک نہ لیا اور نہ ہی اس کا شکریہ ادا کیا۔ اس طرح محسوس ہو رہا تھا کہ جس طرح امام علیہ ا لسلام مامون کی ولی عہدی کے خلاف بول رہے ہوں۔ پھر آپ نے عملی طور پربھی کر دکھایا۔ مامون کے حکومتی امور میں مداخلت نہ کی اور نہ کسی قسم کا شاہی اعزاز لیا جب کہ مامون نے عرض کی تھی کہ آپ نماز عیدمیں سرکاری طور پر شرکت فرمائیں ‘لیکن آپ نے اس سے انکار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ کیا آپ سے معاہدہ نہیں ہوا کہ میں حکومتی امور میں مداخلت نہ کروں گا ۔جب اس نے اصرار کیا کہ میں اپنے جد بزرگوار کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھر سے باہر نکلتا ہوں اس نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ امام علیہ السلام جب عمل کرتے ہوئے گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں اور پورے شہر میں کھلبلی سی مچ جاتی ہے۔ مامون نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے امام علیہ السلام کو واپس گھر بھجوا دیا۔

چنانچہ ان شواہد سے یہ ثابت ہو گیا کہ آپ کی ولی عہدی کا منصب قبول کرنا امام علیہ السلام کی مرضی کے خلاف تھا ۔زبردستی طور پر آپ کو اقرار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ پھر آپ نے مصلحت کے تحت اس منصب کو قبول تو کر لیا لیکن حکومت کے کسی مسئلہ میں مداخلت نہ کی اور نہ ہی کسی لحاظ سے شریک اقتدار ہوئے اور آپ نے اس اندازسے کنارہ کشی کی کہ دشمن کی تمام کوششوں پر پانی پھر گیا ۔اور آپ نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ حق و باطل ‘دن اور رات ایک جگہ پر جمع نہیں ہو سکتے۔

مشکوک مسائل

اب تک ہم نے کچھ مسائل پر بحث کی ہے دراصل یہ مشکوک نظر آتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اس قسم کی باتوں پر یقین نہیں آتا۔ پھر علماء و مورخین کا بھی آپس میں اختلاف ہے کہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ مامون امام (ع) کو مدینہ سے مرو بلائے اوراپنے خاندان کو نظر انداز کر کے خلافت آل محمد (ع) کے سپر د کر دے؟ سوچنے کی بات ہے کہ یہ کام اس نے اپنی مرضی سے کیا ہے یا فضل بن سہل کے مشورے سے ہوا ہے۔ بعض مورخین نے اس کو فضل کا تجویز کردہ منصوبہ قرار دیا ہے۔ لیکن یہ قول انتہائی کمزور ہے۔ جرجی زیدان نے بھی امام کی ولی عہدی کے مشورہ کو فضل کا پروگرام تسلیم کیا ہے۔ ان کے بقول فضل بن سہل شیعہ تھا وہ اور دل وجان سے آل محمد علیہم السلام کو خلافت سپرد کرنا چاہتا تھا ۔ اگر یہ قول صحیح ہوتا تو امام رضا علیہ السلام فضل کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرتے تھے تو پھر آپ کو جان سے مار دینے کی دھمکی کیوں دی جار ہی تھی ۔ اگر آپ نے ولی عہدی قبول ہی کر لی تھی تو کھل کر حکومتی امور میں مداخلت کرتے ۔پروٹوکول سے لطف اندوز ہوتے اور کوشش کرکے مامون سے مسند خلافت لے ہی لیتے؟ البتہ یہاں پر بھی ایک اعتراض اٹھتاہے ۔ وہ یہ کہ اگر امام علیہ السلام اور فضل بن سہل ایک دوسرے کے تعاون سے مامون سے خلافت لے لیتے تو پھر بھی فضا خوشگوار نہ ہو سکتی تھی؟ خراسان ایک اسلامی مملکت تھی ۔عراق ‘ حجا ز‘ یمن‘ مصر‘ شام الگ الگ ریاستیں تھیں ‘ان لوگوں کے خیالات اور حالات اہل ایران سے جدا تھے ۔بلکہ ان ملکوں کے لوگ ایرانیوں کے زبردست مخالف تھے ۔بالفرض اگر امام رضا علیہ السلام خراسان کے حاکم ہوتے اور بغداد میں کوئی اور مد مقابل ہوتا اور امام کی ولی عہدی کی خبر بغداد تک پہنچتی اور بنی عباس کو اس کا پتا چلتا تو وہ مامون کو معزول کر کے ابراہیم کو امیدوار کھڑا کر کے اس کی بیعت کر لیتے۔ اس وقت بہت بڑا انقلاب برپا ہو سکتا تھا۔ یہ لوگ ضرور اس بات کا احتجاج کرتے کہ ہم نے ایک سوسال محنت کی ہے‘ اور بے تحاشہ تکلیفیں دیکھیں ہیں۔ اب اس آسانی سے علویوں کو خلافت کیوں دے دیں۔ بغدا دمیں احتجاج برپا ہو جاتا اور گردونواح کے لوگ بھی امام علیہ السلام کی مخالفت میں متحد ہو سکتے تھے۔

یہ بات بھی حقیقت سے بہت دور ہے اس کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا کہ فضل بن سہل شیعہ ہونے کی بناء پر امام علیہ السلام کو مسند خلافت پر لانا چاہتا تھا۔ سب سے پہلے تو ولی عہدی کا مسئلہ اس کا تجویز کردہ نہیں تھا ‘دوسرا اس کا شیعہ ہونا وہ بھی تردید سے خالی نہیں ہے ۔کیونکہ وہ نو مسلم تھا ۔وہ ایران کو زمانہ سابق والے ایران کی طرف لانا چاہتا تھا ۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ چونکہ ایرانی لوگ پکے مسلما ن ہیں وہ اس قدر آسانی سے کوئی بات قبول نہ کریں گے۔ وہ اسلام کے نام پر عباسی خلیفہ سے خلافت لے کر امام رضا علیہ السلام کو دینا چاہتا تھا‘ پھر وہ امام رضا علیہ السلام کو گوناگوں مشکلات میں ڈالنا چاہتا تھا ۔گویا وہ آج کے ایران کو زمانہ قدیم والے ایران میں لے جانا چاہتا تھا۔ اگر یہ بات درست ہے توامام علیہ السلام کے لیے محتاط رہنا بہت ضروری تھا ۔اور آپ نے انتہائی محتاط اندازمیں قدم رکھا۔

کیونکہ فضل کے ساتھ چلنا اور تعاون کرنا مامون کی نسبت زیادہ مشکل اور خطرناک تھا ۔اس کے مقابلے میں مامون جو بھی تھا اور جیسا بھی تھا فضل سے اچھا تھا۔ ‘کیونکہ مامون ایک مسلم خلیفہ تھا۔ ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ تمام خلفاء ایک جیسے نہ تھے ۔یزید اور مامون میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔مامون ایک تو پڑھا لکھا دانشور اورعلم دوست خلیفہ تھا۔ بہترین حاکم‘ بہترین سیاستدان تھا ۔اس نے جو فلاحی و رفاہی کام کیے شاید کیسی اور عباسی خلیفے نے نہ کئے ہوں ؟

آج جو علمی و اسلامی ترقی مسلم قوموں میں موجود ہے اس میں ہارون و مامون کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ یہ روشن فکر اور جدیدسوچ رکھنے والے حکمران تھے‘ آج بہت سے اسلامی کارنامے ان دونوں سلاطین کے مرہون احسان ہیں ۔یہ تو تھا اس کی شخصیت کا مثبت پہلو‘ لیکن اس کا منفی پہلو یہ تھا کہ اقتدار کے لیے اپنے بیٹے کو بھی قتل کرنے کا قائل تھا ۔یہ جس امام علیہ السلام کو اچھا سمجھتا تھا اس نے اپنے ہاتھ سے انہیں زہر دے کر مروا دیا ۔ بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔

اگر حققیت حال ایسی ہو کہ جیسا کہ ہم نے بیان کی ہے کہ ولی عہدی کا مسئلہ فضل کا تجویز کردہ ہو تو امام علیہ السلام اور تمام مسلمانوں کے حق میں بہتر نہ تھا‘ کیونکہ فضل بن سہل کی نیت درست نہ تھی۔ ہماری شیعہ روایات کے مطابق امام رضا علیہ السلام فضل بن سہل سے سخت نفرت کرتے تھے۔ جب فضل اور مامون کے مابین اختلاف ہو جاتا تو امام علیہ السلام مامون کی حمایت کرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ فضل اور ہشام بن ابراہیم حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ خلافت تو حق آپ کا ہے یہ سب غاصب ہےں۔ آپ اگر ساتھ دیں تو ہم مامون کا کام تمام کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ رسمی طور پر خلیفہ ہو جائیں گے۔ حضرت نے ان دونوں کی اس تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا جس سے انہوں نے سمجھا کہ انہوں نے ایسی بات کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس کے بعد یہ دونوں فوراً مامون کے پاس آئے اور کہا کہ ہم امام علیہ السلام کے پاس گئے۔ اور ان کا امتحان لینے کیلئے ہم نے ان سے کہا کہ آپ اگر ہمارا ساتھ دیں تو ہم مامون کو قتل کر سکتے ہیں‘ لیکن امام علیہ السلام نے انکار کر دیا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ آپ کے ساتھ مخلص ہیں ۔ چند دنوں کے بعد جب مامون کی امام سے ملاقات ہوئی تو مامون نے فضل اور ہشام کی بات امام علیہ السلام کو بتلائی‘ تو امام علیہ السلام نے فرمایا یہ دونوں جھوٹ کہتے ہیں یہ واقعتا آپ کے دشمن ہیں۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے مامون سے فرمایا ان دونوں سے احتیاط کیا کرو یہ کسی وقت بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

روایات کے مطابق حضرت علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام مامون کی نسبت فضل بن سہل سے زیادہ خطر ہ محسوس کرتے ۔ان حقائق کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ولی عہدی کی تجویز فضل ہی کی تھی۔ یہ نیا نیا مسلمان ہوا تھا ۔اس نے اسلام کا نام لے کر بہت بڑا فائدہ حاصل کیا۔ اور ترقی کرتے کرتے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر پہنچ گیا۔ امام علیہ السلام اس شخص کی اس تجویز کو قطعی طور پر اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ آپ کو ان کی نیتوں پر شک تھا بلکہ آپ کو اس بات کا یقین تھا کہ فضل اسلام اور امام علیہ السلام کا نام استعمال کر کے ایران کو صدیوں پیچھے کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر فضل کی تجویز کار آمد ہوتی تو امام علیہ السلام مامون کے خلاف فضل ہی کی حمایت کرتے ۔ امام علیہ السلام شروع ہی سے فضل کو ایک مفاد پرست، سازشی انسان سمجھتے تھے۔ ایک اور فرض کہ اگر یہ تجویز مامون کی تھی تو سوچنے کی بات ہے کہ مامون نے ایسا کیوں کیا ہے؟ اس کی نیت اچھی تھی یا بری؟ اگر اس کی نیت اچھی تھی تو کیا اپنے اس فیصلے پر برقرار رہا یافیصلہ بدل لیا؟ اگر یہ کہیں کہ وہ حسن نیت رکھتا تھا اور آخر تک اسی پر قائم رہا تو یہ بات بالکل ہی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ نکتہ کسی حد تک درست ہے کہ وہ شروع میں تو مخلص تھا لیکن بعد میں بدل گیا۔ شیخ مفید اور شیخ صدوق کا نظریہ بھی یہی تھا۔ جناب شیخ صدوق اپنی مشہور کتاب عیون اخبار الرضا میں لکھتے ہیں کہ مامون شروع میں امام کی ولی عہدی کے بارے میں اچھی نیت رکھتا تھا کیونکہ اس نے واقعی طور پر منت مانی تھی ۔وہ اپنے بھائی امین کے ساتھ الجھ گیا تھا ۔اس نے منت مانی تھی کہ اگر خدا نے اس کو اس کے بھائی امین پر فتح اور غلبہ دیا تو وہ خلافت کو اس کے حقدار کے سپرد کر دے گا ۔امام رضا علیہ السلام نے بھی اس کی پیشکش کو اس لیے ٹھکرا دیا کہ اس نے جذبات میں آکر یہ فیصلہ کیا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شخص اپنے تمام ارادے تما م قسمیں توڑ دالے گا۔ لیکن کچھ مورخین نے یہ لکھا ہے کہ وہ شروع ہی سے اچھی نیت نہ رکھتا تھا ۔یہ اس کی ایک سیاسی چال تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کی سیاسی چال کیا تھی؟ کیا وہ امام علیہ السلام کے ذریعہ سے علویوں کی تحریک کو کچلنا چاہتا تھا؟ یا امام رضا علیہ السلام کو بدنام کرنا چاہتا تھا ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امام علیہ السلام ایک گوشہ میں خاموشی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے اور ماموں پر سخت تنقید کیا کرتے تھے۔

اس لیے اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ حضرت کو حکومت میں شامل کر کے تنقید کا سلسلہ بند کرے ۔جیسا کہ عام طور پر تمام سیاستدان کرتے ہیں اور وہ اپنے مخالفوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان کی عوامی مقبولیت کو ختم کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی اہداف و نظریات بدلنے والوں کی جانی قربانی بھی دینی پڑتی ہے کیونکہ دشمن بالآخر دشمن ہی ہوتا ہے۔ ہمارے اس مدعا کی تائید یہ روایات بھی کرتی ہیں کہ امام علیہ السلام نے ایک مرتبہ مامون سے کہا تھا کہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ تم مجھے حکومت میں شامل کر کے میری روحانی ساکھ خراب کرنا چاہتے ہو۔ یہ سن کر مامون غصے میں آگیا اوراس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ‘اور بولا آپ کیسی باتیں کرتے ہیں اس قسم کی باتیں مجھ سے منسوب کیوں کرتے ہیں؟

 

 

 


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نبی ۖکا امام حسین (ع) کی شہا دت کی خبر دینا
زندگانی رسول اکرم (ص)
سبط رسول الثقلین ۔حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ ...
شیعہ اثنا عشری عقائد کا مختصر تعارف
غدیر خم میں پیغمبر اسلام(ص) کے خطبہ کا کامل ...
امام حسن عسکری(ع) کےاخلاق واوصاف
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
مدینہ سے امام رضا (ع) کا خراسان میں آنا
امام(ع) کي عمومي مرجعيت
آنحضرت(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی زندگی کے بعض ...

 
user comment