خدا کی حمد و ثنا
ساری تعریف اس اللہ کےلئے ھے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ھے[1] وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ھے وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ھر شے کا احاطہ کےے ہوئے ھے اور اپنی قدرت اور اپنے برھان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکھے ہوئے ھے ۔[2]
وہ ھمیشہ سے قابل حمد تھااور ھمیشہ قابل حمد رھے گا ،وہ ھمیشہ سے بزرگ ھے وہ ابتدا کرنے والا دوسرے :خداوند عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہو ئے ھے درحالیکہ خداوند عالم اپنے مکان میں ھے ۔البتہ خداوند عالم کےلئے مکان کا تصور نھیں کیا جا سکتا ،پس اس سے مراد یہ ھے کہ خداوند عالم تمام مو جودات پر اس طرح احاطہ کئے ہوئے ھے کہ اس کے علم کےلئے رفت و آمد اور کسب کی ضرورت نھیں ھے ۔
ھے وہ پلٹانے والاھے اور ھر کام کی باز گشت اسی کی طرف ھے بلندیوں کا پیدا کرنے والا ،فرش زمین کابچھانے والا،آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا ، پاک ومنزہ ،پاکیزہ [3]،ملائکہ اور روح کا پروردگار، تمام مخلوقات پر فضل وکرم کرنے والا اور تمام موجودات پر مھربانی کرنے والا ھے وہ ھر آنکھ کو دیکھتا ھے[4] اگر چہ کوئی آنکھ اسے نھیں دیکھتی ۔
وہ صاحب حلم وکرم اوربردبار ھے ،اسکی رحمت ھر شے کااحاطہ کئے ہوئے ھے اور اسکی نعمت کا ھر شے پراحسان ھے انتقام میں جلدی نھیں کرتا اور مستحقین عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نھیں لیتا ۔
اسرارکو جانتا ھے اور ضمیروں سے باخبر ھے ،پوشیدہ چیزیں اس پر مخفی نھیں رہتیں ،اور مخفی امور اس پر مشتبہ نھیں ہوتے ،وہ ھر شے پر محیط اور ھر چیز پر غالب ھے ،اسکی قوت ھر شے میں اسکی قدرت ھر چیز پر ھے ،وہ بے مثل ھے اس نے شے کو اس وقت وجود بخشا جب کو ئی چیز نھیں تھی اوروہ زندہ ھے،[5] ھمیشہ رہنے والا،انصاف کرنے والا ھے ،اسکے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے ،وہ عزیز و حکیم ھے ۔
نگاہوں کی رسائی سے بالاتر ھے اور ھر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ھے کہ وہ لطیف بھی ھے اور خبیر بھی کوئی شخص اسکے وصف کو پا نھیں سکتا اور کوئی اسکے ظاھر وباطن کی کیفیت کا ادراک نھیں کرسکتا مگر اتنا ھی جتنا اس نے خود بتادیا ھے۔
میں گواھی دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ھے جس کی پاکی و پاکیزگی کا زمانہ پر محیط اور جسکا نور ابدی ھے
اسکا حکم کسی مشیر کے مشورے کے بغیر نافذھے ،اور نہ ھی اس کی تقدیرمیں کوئی اسکا شریک ھے،اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی فرق ھے ۔[6]
جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر ونظر[7] کی زحمتکے بنایا ۔جسے بنایا وہ بن گیا[8] اور جسے خلق کیا وہ خلق ہوگیا ۔وہ خدا ھے لا شریک ھے جس کی صنعت محکم اور جس کا سلوک بہترین ھے ۔وہ ایسا عادل ھے جو ظلم نھیں کرتااور ایسا کرم کرنے والا ھے کہ تمام کام اسی کی طرف پلٹتے ھیں ۔
میں گو اھی دیتا ہوں کہ وہ ایسا بزرگ و برتر ھے کہ ھر شے اسکی قدرت کے سامنے متواضع ، تمام چیزیں اس کی عزت کے سا منے ذلیل ،تمام چیزیں اس کی قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہو ئے ھیں اور ھر چیز اسکی ھیبت کے سامنے خاضع ھے۔
وہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ[9] ،تمام آسمانوں کا خالق ،شمس و قمر پر اختیاررکھنے والا ،یہ تمام معین وقت پرحرکت کر رھے ھیں،دن کو رات اور رات کو دن پر پلٹانے والا [10]ھے کہ دن بڑی تیزی کے ساتھ اس کا پیچھا کرتا ھے،ھرمعاندظالم کی کمر توڑنے والا اورھرسرکش شیطان کو ھلاک کرنے والا ھے ۔
نہ اس کی کوئی ضد ھے نہ مثل،وہ یکتا ھے بے نیاز ھے ،نہ اسکا کوئی باپ ھے نہ بیٹا ،نہ ھمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ھے ،جو چاہتا ھے کرگزرتا ھے جوارادہ کرتا ھے پور ا کردیتا ھے وہ جانتا ھے پس احصا کر لیتاھے ،موت وحیات کا مالک،فقر وغنا کا صاحب اختیار ،ہنسانے والا، رلانے والا،قریب کرنے والا ،دور ہٹادینے والا[11] عطا کرنے والا[12]،روک لینے والا ھے، ملک اسی کے لئے ھے اور حمد اسی کے لئے زیبا ھے اورخیر اسکے قبضہ میں ھے ۔وہ ھر شے پر قادر ھے ۔
رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کردیتا ھے ۔[13] اس عزیزو غفار کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے ،وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، بکثرت عطا کرنے والا،سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ھے ،اسکے لئے کوئی شے مشتبہ نھیں ھے۔[14]وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نھیں ہوتا ھے اور اسکو گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال نھیں کرتا ،نیک کرداروں کا بچانے والا ، طالبان فلاح کو توفیق دینے والاموٴ منین کا مولا اور عالمین کا پالنے والاھے ۔اسکا ھر مخلوق پر یہ حق ھے کہ وہ ھر حال میں اسکی حمد وثنا کرے ۔
ھم اس کی بے نھایت حمد کرتے ھیںاورھمیشہ خوشی ،غمی،سختی اور آسائش میں اس کا شکریہ ادا کرتے ھیں ،میں اس پر اور اسکے ملائکہ ،اس کے رسولوں اور اسکی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں،اسکے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں ،اسکی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اسکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں[15] چونکہ اسکی اطاعت میں رغبت ھے اور اس کے عتاب کے خوف کی بناء پر کہ نہ کوئی اسکی تدبیر سے بچ سکتا ھے اور نہ کسی کو اسکے ظلم کا خطرہ ھے ۔
۲ ایک اھم مطلب کے لئے خداوند عالم کا فرمان
میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا ہوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کھیں ایسا نہ ہوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔
اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے :<بِسم اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ،یٰااٴَیُّهاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ( فی عَلِیٍّ یَعْنی فِی الْخِلاٰفَةِلِعَلِیِّ بْنِ اٴَبی طٰالِبٍ) وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَه وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ>[16]
”اے رسول!جوحکم تمھاری طرف علی (ع) (یعنی علی بن ابی طالب کی خلافت )کے بارے میں نازل کیاگیا ھے،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسانہ کیا[17] تو رسالت کی تبلیغ نھیںکی اوراللہ تمھیں لوگوںکے شرسے محفوظ رکھے گا “
ایها الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتا ھی نھیں کی اور میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب واضح کردینا چاہتا ہوں :
جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِسلام[18] پروردگار(کہ وہ سلام ھے )کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پرٹھھر کر سفیدوسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب (ع) میرے بھائی ،وصی،جانشین اور میرے بعد امام ھیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ھی ھے جیسے موسیٰ کےلئے ھارون کی تھی ۔فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ھیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پریہ آیت نازل کی ھے :
<اِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلاٰةَوَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰاةَ وَهمْ رٰاکِعُونَ>[19]
”بس تمھارا ولی اللہھے اوراسکارسول اوروہ صاحبان ایمان جونمازقائم کرتے ھیں اورحالت رکوع میںزکوٰةادا کرتے ھیں “علی بن ابی طالب(ع) نے نماز قائم کی ھے اور حالت رکوع میں زکوٰةدی ھے وہ ھر حال میں رضا ء الٰھی کے طلب گار ھیں۔ [20]
میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجھے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپاکرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلا م کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوںسے با خبرہوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ھے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ھیں جو ان کے دل میں نھیں ھے ،اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ھیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ھے “۔اسی طرح [21] منافقین نے بارھا مجھے اذیت پہنچائی ھے یھاں تک کہ وہ مجھے ”اُذُنْ“”ھر بات پرکان دھرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ھی ہوںچونکہ اس (علی )کے ھمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجھے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ھے:
<وَمِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُوْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ ھُوَاُذُنٌ،قُلْ اُذُنُ ]عَلَی الَّذِیْنَ یَزْعَمُوْنَ اَنَّہُ اُذُنٌ-[خَیْرٍلَکُمْ،یُوٴمِنُ بِاللّٰہِ وَ یُوٴْمِنُ لِلْمُوٴْمِنِیْنَ>[22]
اس مقام پر یہ بات بیان کردینا ضروری ھے کہ ”یُوٴْمِنُ بِاللّٰہِ “اللہ ”باء “ کے ساتھ اور ”یُوٴمِنُ لِلْمُوٴْمِنِیْنَ ‘مو منین ”لام کے ساتھ ان دونوں میں یہ فرق ھے کہ پھلے کا مطلب تصدیق کرنا اور دوسرے کا مطلب تواضع اور احترام کا اظھار کرنا ھے ۔
”اور ان میں سے بعض ایسے ھیں جو رسول کو ستاتے ھیں اور کہتے ھیں کہ یہ بس کان ھی (کان) ھیں (اے رسول )تم کھدوکہ (کان تو ھیں مگر)تمھاری بھلائی (سننے )کے کان ھیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ھیں اور مو منین( کی باتوں) کا یقین رکھتے ھیں “[23]
ورنہ میں چاہوں تو ”اُذُنْ “کہنے والوں میںسے ایک ایک کا نام بھی بتاسکتا ہوں،اگر میں چاہوں تو ان کی طرف اشارہ کرسکتا ہوں اور اگرچا ہوں توتمام نشانیوں کے ساتھ ان کاتعارف بھی کراسکتا ہوں ،لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں ۔[24]
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضیٴ خدا یھی ھے کہ میں اس حکم کی تبلیغ کردوں۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) اس آیت کی تلا وت فرما ئی :
<یٰااٴَیُّهاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّک (فِیْ حَقِّ عَلِیْ )وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رِسٰالَتَه وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ>[25]
”اے رسول!جوحکم تمھاری طرف علی (ع) کے سلسلہ میں نازل کیاگیا ھے،اسے پہنچادو،اوراگرتم نے ایسانہ کیاتورسالت کی تبلیغ نھیںکی اوراللہ تمھیں لوگوںکے شرسے محفوظ رکھے گا “
۳ بارہ اماموں کی امامت اور ولایت کا قانونی اعلان
لوگو! جان لو(اس سلسلہ میںخبر دار رہواس کو سمجھواور مطلع ہوجاؤ) ہوکہ اللہ نے علی کو تمھارا ولی اور امام بنادیا ھے اور ان کی اطاعت کو تمام مھاجرین ،انصار اورنیکی میں ان کے تابعین اور ھر شھری، دیھاتی، عجمی، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کردیا ھے ۔ھر توحید پرست[26] کیلئے ان کا حکم جاری،ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ھے ،ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ھے۔[27]جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے گا اللہ اسکے گناہوں کو بخش دے گا
ایها الناس ! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ھے لہٰذا میری بات سنو ، اور اطاعت کرو اور اپنے پر ور دگار کے حکم کو تسلیم کرو ۔ اللہ تمھارا رب ، ولی اور پرور دگار ھے اور اس کے بعد اس کا رسول محمد(ص) تمھارا حاکم ھے جو آج تم سے خطاب کر رھا ھے۔[28] اس کے بعد علی تمھارا ولی اور بحکم خدا تمھارا امام ھے اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تمھارے خدا و رسول سے ملاقات کے دن تک با قی رھے گی ۔
حلال وھی ھے جس کو اللہ ،رسول اور انھوں(بارہ ائمہ )نے حلال کیا ھے اور حرام وھی ھے جس کو اللہ،رسول اور ان بارہ اماموں نے تم پر حرام کیا ھے ۔ اللہ نے مجھے حرام و حلال کی تعلیم دی ھے اور اس نے اپنی کتاب اور حلال و حرام میں سے جس چیز کا مجھے علم دیا تھا وہ سب میں نے اس( علی (ع) )کے حوالہ کر دیا ۔
ایها الناس علی (ع) کو دوسروں پر فضیلت دو خداوندعالم نے ھر علم کا احصاء ان میں کر دیا ھے اور کو ئی علم ایسا نھیں ھے جو اللہ نے مجھے عطا نہ کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا تھا سب میں نے علی (ع) کے حوالہ کر دیا ھے۔[29] وہ امام مبین ھیں اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ھے :
<وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنَاہُ فِیْ اِمَامٍ مُبِیْنٍ>[30] ”ھم نے ھر چیز کا احصاء امام مبین میں کردیا ھے “
ایها لناس ! علی (ع) سے بھٹک نہ جانا ، ان سے بیزار نہ ہو جانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دیناکہ وھی حق کی طرف ھدا یت کر نے والے ،حق پر عمل کر نے والے ، باطل کو فنا کر دینے والے اور اس سے روکنے والے ھیں ،انھیں اس راہ میں کسی ملامت کر نے والے کی ملامت کی پروانھیں ہوتی ۔
وہ سب سے پھلے اللہ و رسول پر ایمان لا ئے اور اپنے جی جا ن سے رسول پرقربان تھے وہ اس وقت رسول کے ساتھ تھے جب لوگوں میں سے ان کے علا وہ کوئی عبادت خدا کر نے والا نہ تھا(انھوں نے لوگوں میں سب سے پھلے نماز قائم کی اور میرے ساتھ خدا کی عبادت کی ھے میں نے خداوند عالم کی طرف سے ان کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیاتو وہ بھی اپنی جان فدا کرتے ہو ئے میرے بستر پر سو گئے ۔
ایها الناس ! انھیں افضل قرار دو کہ انھیں اللہ نے فضیلت دی ھے اور انھیں قبول کرو کہ انھیں اللہ نے امام بنا یا ھے ۔
ایها الناس ! وہ اللہ کی طرف سے امام ھیں[31] اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ھے بلکہ اللہ یقینااس امر پر مخالفت کر نے والے کے ساتھ ایسا کرے گااور اسے ھمیشہ ھمیشہ کےلئے بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ لہٰذا تم ان کی مخالفت[32] سے بچو کھیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہو جا وٴ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ھیں اور جس کو کفار کےلئے مھیا کیا گیا ھے ۔
ایها الناس ! خدا کی قسم تمام انبیاء علیھم السلام و مرسلین نے مجھے بشارت دی ھے اور میں خاتم الانبیاء والمر سلین اور زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کےلئے حجت پر ور دگار ہوں جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ زمانہ ٴ جا ھلیت جیسا کا فر ہو جا ئے گا اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیدیا اورجس نے ھمارے کسی ایک امام کے سلسلہ میں شک کیااس نے تمام اماموںکے بارے میں شک کیااور ھمارے بارے میں شک کرنے والے کا انجام جہنم ھے ۔[33]
اس بات کا بیان کردینا بھی ضروری ھے کہ شاید ”جا ھلیت اول کے کفر“ سے دور جاھلیت کے کفر کے درجہ میں سے شدیدترین درجہ ھے ۔
ایها الناس ! اللہ نے جو مجھے یہ فضیلت عطا کی ھے یہ اس کا کرم اور احسان ھے ۔ اس کے علا وہ کو ئی خدا نھیں ھے اور وہ میری طرف سے تا ابد اور ھر حال میں اسکی حمدو سپاس ھے ۔
ایها الناس ! علی (ع) کی فضیلت[34] کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ھر مرد و زن سے افضل و بر تر ھے جب تک اللہ رزق نا زل کررھا ھے اور اس کی مخلو ق با قی ھے ۔ جو میر ی اس بات کو رد کرے اور اس کی موافقت نہ کرے وہ ملعون ھے ملعون ھے اور مغضوب ھے مغضوب ھے ۔ جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ھے[35] کہ پر ور دگار کا ارشاد ھے کہ جو علی سے دشمنی کرے گا اور انھیں اپنا حاکم تسلیم نہ کر ے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ھے ۔لہٰذا ھر شخص کو یہ دیکھنا چا ہئے کہ اس نے کل کےلئے کیا مھیا کیا ھے ۔اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو ۔ کھیں ایسا نہ ہو کہ راہ حق سے قدم پھسل جا ئیں اور اللہ تمھا رے اعمال سے با خبر ھے ۔
ایها الناس ! علی (ع) وہ جنب اللہ[36] ھیںجن کاخداوند عالم نے اپنی کتاب میںتذکرہ کیا ھے اور ان کی مخالفت کرنے والے کے با رے میں فرمایا ھے:<اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یَاحَسْرَتَاعَلیٰ مَافَرَّطَّتُ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ >[37]ھائے افسوس کہ میں نے جنب خداکے حق میں بڑی کو تا ھی کی ھے“
ایها الناس ! قر آن میں فکر کرو ، اس کی آیات کو سمجھو ، محکمات میںغوروفکر کرو اور متشابھات کے پیچھے نہ پڑو ۔ خدا کی قسم قر آن مجید کے باطن اور اس کی تفسیر[38]کو اس کے علاوہ اور کو ئی واضح نہ کرسکے گا۔ [39]
جس کا ھاتھ میرے ھاتھ میں ھے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ھے اور جس کے بارے میں یہ بتا رھا ہوں کہ جس کا میں مو لا ہوں اس کا یہ علی (ع) مو لا ھے ۔ یہ علی بن ابی طالب (ع) میرا بھائی ھے اور وصی بھی ۔ اس کی ولایت کا حکم اللہ کی طرف سے ھے جو مجھ پر نا زل ہوا ھے ۔
ایها الناس ! علی (ع) اوران کی نسل سے میری پاکیزہ اولاد ثقل اصغر ھیں اور قرآن ثقل اکبر ھے[40] ان میں سے ھر ایک دوسرے کی خبر دیتا ھے اور اس سے جدا نہ ہوگا یھاں تک کہ دونوں حوض کو ثر پر وارد ہوں گے جان لو! میرے یہ فرزند مخلوقات میں خدا کے امین اور زمین میں خدا کے حکام ھیں ۔[41]
آگاہ ہو جاوٴ میں نے میں نے اداکر دیا میں نے پیغام کو پہنچا دیا ۔میں نے بات سنا دی، میں نے حق کو واضح کر دیا،[42] آگاہ ہو جا وٴ جو اللہ نے کھا وہ میں نے دھرا دیا۔ پھر آگاہ ہو جاوٴ کہ امیر المو منین میرے اس بھا ئی کے علاوہ کو ئی نھیں ھے[43] اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کےلئے سزا وار نھیں ھے ۔
۴ پیغمبر اکرم (ص)کے ھاتھوں پر امیرا لمومنین علیہ السلام کا تعارف
(اس کے بعد علی (ع) کو اپنے ھا تھوں پرپازوپکڑکر بلند کیا یہ اس وقت کی بات ھے جب حضرت علی علیہ السلام منبر پر پیغمبر اسلام(ص) سے ایک زینہ نیچے کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت (ص) کے دائیں طرف ما ئل تھے گویا دونوں ایک ھی مقام پر کھڑے ہو ئے ھیں ۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا اور ان کے دونوں ھاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایااورعلی (ع) کو اتنابلند کیا کہ آپ (ع) کے قدم مبارک آنحضرت(ص) کے گھٹنوں کے برابر آگئے۔[44] اس کے بعد آپ (ص) نے فر مایا :
ایها الناس !یہ علی (ع) میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن[45] اورمیری امت میں سے مجھ پر ایمان لانے والوںکے لئے میرا خلیفہ ھے اور کتاب خدا کی تفسیر کی رو سے بھی میرا جانشین ھے یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا ،اس کی مر ضی کے مطابق عمل کر نے والا ،اس کے دشمنوں سے جھاد کر نے والا، اس کی اطاعت[46] ۔ پر ساتھ دینے والا ، اس کی معصیت سے رو کنے والا ۔
یہ اس کے رسول کا جا نشین اور مو منین کا امیر ،ھدایت کرنے والاامام ھے اورناکثین( بیعت شکن ) قاسطین (ظالم) اور مارقین (خا رجی افرا[47] سے جھاد کر نے والا ھے ۔
خداوند عالم فر ماتا ھے :<مٰایُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ>[48] ”میرے پاس بات میں تبدیلی نھیں ہو تی ھے “ خدایا تیرے حکم سے کہہ رھا ہوں[49]۔خدا یا علی (ع) کے دوست کو دوست رکھنا اور علی (ع) کے دشمن کو دشمن قرار دینا ،جو علی (ع) کی مدد کرے اس کی مدد کرنا اور جو علی (ع) کو ذلیل و رسوا کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کرناان کے منکر پر لعنت کر نا اور ان کے حق کا انکارکر نے والے پر غضب نا زل کرنا ۔
پر ور دگا را ! تو نے اس مطلب کو بیان کرتے وقت اور آج کے دن علی (ع) کو تاج ولایت پہناتے وقت علی (ع) کے بارے میں یہ آیت نازل فر ما ئی:
<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضیتُ لَکُمْ الاِسْلاٰمَ دیناً>[50]
”آج میںنے دین کو کا مل کر دیا ،نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیدیا“
<وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالاِسْلاٰمِ دیناًفَلَنْ یُقْبَلَ مِنْه وَهوَفِی الْآخِرَةِمِنَ الْخاسِرینَ>[51]
”اور جو اسلام کے علاوہ کو ئی دین تلاش کر ے گا وہ دین قبول نہ کیا جا ئے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہو گا “
پرور دگارا میں تجھے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی ۔[52]
۵ مسئلہ ٴ امامت پر امت کی توجہ پر زور دینا
ایها الناس !اللہ نے دین کی تکمیل علی (ع) کی امامت سے کی ھے ۔لہٰذا جو علی (ع) اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا ۔اس کے دنیا و آخرت کے تمام اعمال بر باد ہو جا ئیں گے[53] وہ جہنم میں ھمیشہ ھمیشہ رھے گا ۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کو ئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ انھیں مھلت دی جا ئے گی ۔
ایها الناس ! یہ علی (ع) ھے تم میں سب سے زیادہ میری مدد کر نے والا ، تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ھے ۔اللہ اور میں دونوں اس سے را ضی ھیں ۔قرآن کریم میں جو بھی رضا کی آیت ھے وہ اسی کے با رے میں ھے اور جھاں بھی یا ایها الذین آ منوا کھا گیا ھے اس کا پھلا مخا طب یھی ھے قرآن میںھر آیت مدح اسی کے با رے میں ھے ۔ سورہ ھل اتیٰ میں جنت کی شھا دت صرف اسی[54] کے حق میں دی گئی ھے اور یہ سورہ اس کے علا وہ کسی غیر کی مدح میں نا زل نھیں ہوا ھے ۔
ایها الناس ! یہ دین خدا کا مدد گار ، رسول خدا (ص)[55]سے دفاع کر نے والا ، متقی ، پا کیزہ صفت ، ھا دی اور مھدی ھے ۔تمھارا نبی سب سے بہترین نبی اور اس کا وصی بہترین وصی ھے اور اس کی اولاد بہترین او صیاء ھیں ۔
ایها الناس !ھر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہو تی ھے اور میری ذریت علی (ع) کے صلب سے ھے
ایها الناس ! ابلیس نے حسد کر کے آدم کو جنت سے نکلوادیا لہٰذا خبر دار تم علی سے حسد نہ کرنا کہ تمھارے اعمال برباد ہو جا ئیں ،اور تمھا رے قد موں میں لغزش پیدا ہو جا ئے ،آدم صفی اللہ ہو نے کے با وجود ایک ترک او لیٰ پر زمین میں بھیج دئے گئے تو تم کیا ہو اور تمھاری[56] کیا حقیقت ھے ۔تم میں دشمنان خدا بھی پا ئے جا تے ھیں[57] یاد رکھو علی کا دشمن صرف شقی ہو گا اور علی کا دوست صرف تقی ہو گا اس پر ایمان رکھنے والاصرف مو من مخلص ھی ہو سکتا ھے اور خدا کی قسم علی (ع) کے با رے میںھی سورہ عصر نا زل ہوا ھے ۔
<بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْر>[58]
”بنام خدائے رحمان و رحیم ۔قسم ھے عصر کی ،بیشک انسان خسارہ میں ھے “مگر علی (ع) جو ایمان لا ئے اور حق اور صبر پر راضی ہو ئے ۔
ایها الناس !میں نے خدا کو گواہ بناکر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نھیں ھے ۔ایھا الناس !اللہ سے ڈرو ،جو ڈرنے کا حق ھے اور خبر دار !اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہو جا ؤ ۔
۶ منافقوں کی کار شکنیوں کی طرف اشارہ
ایها الناس !”اللہ ، اس کے رسول(ص) اور اس نور پر ایمان لا وٴ جو اس کے ساتھ نا زل کیا گیا ھے ۔قبل اس کے کہ خدا کچھ چھروں کو بگا ڑ کر انھیں پشت کی طرف پھیر دے یا ان پر اصحاب سبت کی طرح لعنت کرے “[59]
جملہ ” جو شخص اپنے دل میں علی (ع) سے محبت اور بغض کے مطابق عمل کرتا ھے “کی آٹھویں حصہ کے دوسرے جزء میں وضاحت کی جا ئے گی ۔
خدا کی قسم اس آیت سے میرے اصحاب کی ایک قوم کا قصد کیا گیا ھے کہ جن کے نام و نسب سے میں آشنا ہوں لیکن مجھے ان سے پردہ پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ھے ۔پس ھر انسان اپنے دل میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت یا بغض کے مطابق عمل کرتاھے ۔
ایها الناس !نور کی پھلی منزل میں ہوں[60] میرے بعد علی (ع) اور ان کے بعد ان کی نسل ھے اور یہ سلسلہ ا س مھدی قائم تک بر قرار رھے گاجو اللہ کاحق اورھما راحق حا صل کر ے گا[61]چو نکہ اللہ نے ھم کو تمام مقصرین ،معا ندین ،مخا لفین ،خا ئنین ،آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ھے ۔[62]
ایها الناس !میں تمھیں با خبر کرنا چا ہتا ہوں کہ میں تمھا رے لئے اللہ کا نما ئندہ ہوں جس سے پھلے بہت سے رسول گذر چکے ھیں ۔ تو کیا میں مر جا وٴں یا قتل ہو جا ؤں تو تم اپنے پرا نے دین پر پلٹ جا وٴ گے ؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جا ئے گا وہ اللہ کا کو ئی نقصان نھیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ھے ۔آگاہ ہو جا وٴ کہ علی (ع) کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ھے اور ان کے بعد میری اولا د کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ھے ۔جو ان کے صلب سے ھے ۔
ایها الناس !مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھوبلکہ خدا پر بھی احسان نہ سمجھوکہ وہ تمھارے اعمال کو نیست و نابود کردے اور تم سے ناراض ہو جا ئے ،اور تمھیں آگ اور”پگھلے ہوئے “تانبے کے عذاب میں مبتلا کردے تمھارا پروردگار مسلسل تم کو نگاہ میں رکھے ہو ئے ھے ۔[63]
آنحضرت (ص) نے ”پھلے صحیفہٴ ملعونہ “کی طرف اشارہ فر مایا ھے جس پرمنافقین کے پانچ بڑے افراد نے حجة الوداع کے موقع پر کعبہ میں دستخط کئے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) کے بعد خلافت ان کے اھل بیت علیھم السلام تک نھیں پہنچنی چا ہئے اس سلسلہ میں اس کتاب کے تیسرے حصہ کے دوسرے جزء کی طرف رجوع کیجئے “
ایها الناس !عنقریب میرے بعد ایسے امام آئیں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے اور قیامت کے دن ان کا کو ئی مدد گار نہ ہو گا ۔اللہ اور میں دونوں ان لوگوں سے بیزار ھیں ۔
ایھا الناس !یہ لوگ اور ان کے اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہو ں گے اور یہ متکبر لوگو ں کا بد ترین ٹھکانا ھے ۔آگاہ ہو جا وٴ کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ[64] ھیں لہٰذاتم میں سے ھر ایک اپنے صحیفہ پر نظر رکھے ۔
راوی کہتا ھے :جس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی زبان مبارک سے ”صحیفہ ٴ ملعونہ “کا نام ادا کیا اکثر لوگ آپ کے اس کلام کا مقصد نہ سمجھ سکے اور اذھان میں سوال ابھر نے لگے صرف لوگوں کی قلیل جما عت آپ کے اس کلام کا مقصد سمجھ پائی ۔
ایها الناس آگاہ ہو جا وٴ کہ میں خلافت کو امامت اوروراثت کے طورپر قیامت تک کےلئے اپنی اولاد میں امانت قرار دے کر جا رھا ہوں اور مجھے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کر دی ھے تا کہ ھر حا ضر و غائب ،مو جود و غیر مو جود ، مو لود و غیر مو لود سب پر حجت تمام ہو جا ئے ۔ اب حا ضر کا فریضہ ھے کہ قیامت تک اس پیغام کوغائب تک اورماں باپ اپنی اولاد کے حوالہ کر تے رھیں ۔
میرے بعد عنقریب لوگ اس امامت(خلافت) کو باشاہت سمجھ کرغصبی[65] غصب کرلیں گے ،خدا غا صبین اور تجاوز کرنے والوں پر لعنت کرے ۔یہ وہ وقت ہوگا جب (اے جن و انس[66] تم پر عذاب آئے گا آگ اور(پگھلے ہوئے) تانبے کے شعلے بر سا ئے جا ئیں گے جب کو ئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہو گا ۔[67]
ایها الناس !اللہ تم کو انھیں حالات میں نہ چھو ڑے گا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کر ایھا الناس !کوئی قریہ[68] ایسا نھیں ھے مگر یہ کہ اللہ (اس میں رہنے والوںکو آیات الٰھی کی تکذیب کی بنا پر) ھلا ک کر دےگااور اسے حضرت مھدی کی حکومت کے زیر سلطہ لے آئے گا یہ اللہ کا وعدہ ھے اوراللہ صا دق الوعد ھے۔[69]
ایها الناس !تم سے پھلے اکثر لوگ ھلاک ہو چکے ھیں اور اللہ ھی نے ان لوگوں کو ھلاک کیا ھے[70] اور وھی بعد والوںکو ھلا ک کر نے والا ھے ۔خداوند عالم کا فرمان ھے :
<اٴَلَمْ نُهلِکِ الْاٴَوَّلینَ،ثُمَّ نُتْبِعُهمُ الْآخِرینَ،کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمینَ،وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبینَ>[71]
”کیا ھم نے ان کے پھلے والوں کو ھلاک نھیں کردیا ھے پھر دوسرے لوگوں کو بھی انھیں کے پیچھے لگا دیں گے ھم مجرموں کے ساتھ اسی طرح کا بر تاوٴ کرتے ھیں اور آج کے دن جھٹلانے والوں کے لئے بربادی ھی بربادی ھے “
ایها الناس !اللہ نے مجھے امر و نھی کی ھدایت کی ھے اور میں نے اللہ کے حکم سے علی(ع) کوامر ونھی کیا ھے۔ وہ امر و نھی الٰھی سے با خبر ھیں۔[72] ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلا متی پا وٴ ، ان کی پیروی کرو تاکہ ھدایت پا وٴ ان کے روکنے پر رک جا وٴ تاکہ راہ راست پر آجا وٴ ۔ان کی مر ضی پر چلو اور مختلف راستے تمھیں اس کی راہ سے منحرف کردیں گے ۔
۷ اھل بیت علیھم السلام کے پیرو کار اور ان کے دشمن
میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کی اتباع کا خدا نے حکم دیا ھے۔[73] پھر میرے بعد علی (ع) ھیں اور ان کے بعد میری اولاد جو ان کے صلب سے ھے یہ سب وہ امام ھیں جو حق کے ساتھ ھدایت کر تے ھیں اور حق کے ساتھ انصاف کر تے ھیں ۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) نے اس طرح فرمایا :<بسم الله الرحمٰن الرحیم، الحمد لله رب العا لمین ۔۔۔> سورہ الحمد کی تلاوت کے بعد آپ نے اس طرح فرمایا :
خدا کی قسم یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے با رے میں نا زل ہوا ھے ، اس میں اولاد کےلئے عمو میت بھی ھے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ھے ۔[74] یھی خدا کے دوست ھیں جن کےلئے نہ کوئی خو ف ھے اور نہ کو ئی حزن ! یہ حزب اللہ ھیں جو ھمیشہ غالب رہنے والے ھیں ۔
آگاہ ہو جا وٴ کہ دشمنان علی ھی اھل ِ تفرقہ ، اھل تعدی اور برادران شیطان ھیں جواباطیل کوخواھشات نفسانی کی وجہ سے ایک دوسرے تک پہونچا تے ھیں ۔[75]
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دوست ھی مو منین بر حق ھیں جن کا ذکر پر ور دگار نے اپنی کتاب میں کیا ھے:
<لَاتَجِدُ قَوْماًیُوٴمِنُوْنَ بِالله والْیَوْمِ الْآخِرِیُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّالله وَرَسُوْلَه وَلَوْ کَانُوْااٰبَائَهمْ اَوْاَبْنَائَهمْ اَوْاِخْوَانَهمْ اَوْعَشِیْرَتَهمْ ،اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهم الاِیْمَانَ ۔۔۔>[76]
”آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جوقوم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی ھے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رھی ھے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کر نے والے ھیںچا ھے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرة اور قبیلہ والے ھی کیوں نہ ہوں اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ھے “
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان (اھل بیت )کے دوست ھی وہ افراد ھیں جن کی توصیف پر ور دگار نے اس انداز سے کی ھے :< الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَلَمْ یَلْبَسُوْااِیْمَانَهمْ بِظُلْمٍ اُوْلٰئِکَ لَهمُ الْاَمْنُ وَهمْ مُهتَدُوْن>[77]
” جو لوگ ایمان لا ئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نھیں کیا انھیں کےلئے امن ھے اور وھی ھدایت یا فتہ ھیں “
آگاہ ہو جا ؤ کہ ان کے دوست وھی ھیں جو ایمان لائے ھیں اور شک میں نھیں پڑے ھیں ۔
آگاہ ہوجاوٴ کہ ان کے دوست ھی وہ ھیںجوجنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہو ں گے اور ملا ئکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے کہ تم طیب و طاھر ہو ، لہٰذا جنت میں ھمیشہ ھمیشہ کےلئے داخل ہو جا وٴ “
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دوست ھی وہ ھیں جن کے لئے جنت ھے اور انھیں جنت میں بغیر حساب رزق دیاجائیگا ۔[78]
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان (اھل بیت ) کے دشمن ھی وہ ھیں جوآتش جہنم کے شعلوں میںداخل ہوں گے۔
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دشمن وہ ھیں جوجہنم کی آواز اُس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک
رھے ہوں گے اور وہ ان کو دیکھیں گے ۔
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دشمن وہ ھیں جن کے با رے میں خدا وند عالم فر ماتا ھے:
<کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَعَنَتْ اُخْتَها۔۔۔>[79]
” (جہنم میں) داخل ہو نے والاھر گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا ۔۔۔ ‘ ‘
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دشمن ھی وہ ھیں جن کے با رے میں پر ور دگار کا فرمان ھے:
< کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیْها فَوْجٌ سَاٴَلَهمْ خَزْنَتُهااَلَمْ یَاتِکُمْ نَذِیْرٌ. قَالُوْابَلَیٰ قَدْجَاءَ نَانَذِیْرٌفَکَذَّبْنَاوَقُلْنَامَانَزَّلَ الله مِنْ شَیْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّافِیْ ضَلَالٍ کَبِیْرٍ.۔۔۔اَلَا فَسُحْقاًلِاَصْحَا بِ السَّعِیْرِ>[80]
” جب کوئی گروہ داخل جہنم ہو گا تو جہنم کے خازن سوال کریں گے کیا تمھا رے پاس کو ئی ڈرانے والا نھیں آیا تھا ؟تو وہ کھیں گے آیا تو تھا لیکن ھم نے اسے جھٹلا دیا اور یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کچھ بھی نا زل نھیں کیا ھے تم لوگ خود بہت بڑی گمرا ھی میں مبتلا ہو۔۔۔آگاہ ہوجا ؤ تو اب جہنم والوں کےلئے تو رحمت خدا سے دوری ھی دوری ھے“ [81]
آگاہ ہو جا وٴ کہ ان کے دوست ھی وہ ھیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ھیں[82] اور انھیں کےلئے مغفرت اور اجر عظیم ھے ۔
ایها الناس!دیکھو آگ کے شعلوں اوراجر عظیم کے ما بین کتنا فا صلہ ھے ۔[83]
ایها الناس!ھمارا دشمن وہ ھے جس کی اللہ نے مذمت کی اور اس پر لعنت کی ھے اور ھمارا دوست وہ ھے جس کی اللہ نے تعریف کی ھے اور اس کو دوست رکھتا ھے ۔
ایها الناس!آگاہ ہو جا وٴ کہ میں ڈرانے والا ہو ں اور علی (ع) بشارت دینے والے ھیں ۔[84]
ایها الناس!میں انذار کرنے والا اور علی (ع) ھدایت کرنے والے ھیں۔
ایها الناس!میں پیغمبر ہوں اور علی (ع) میرے جا نشین ھیں ۔
ایها الناس!آگاہ ہو جا وٴ میں پیغمبر ہوں اور علی (ع) میرے بعد امام اور میرے وصی ھیں اوران کے بعد کے امام ان کے فرزند ھیں آگاہ ہو جاوٴ کہ میں ان کا باپ ہوں اور وہ اس کے صلب سے پیدا ہو نگے۔
۸ حضرت مھدی عج۔۔
یاد رکھو کہ آخری امام ھمارا ھی قائم مھدی ھے ، وہ ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ھے ،وھی قلعوں کو فتح کر نے والا اور ان کو منھدم کر نے والا ھے ،وھی مشرکین کے ھر گروہ پر غالب اور ان کی ھدایت کر نے والا ھے ۔[85]
آگاہ ہوجا ؤ وھی اولیاء خداکے خون کا انتقام لینے والااور دین خدا کا مدد گار ھے جان لو!کہ وہ عمیق سمندر سے استفادہ کر نے والا ھے ۔[86]
عمیق دریا سے مراد میں چند احتمال پائے جا تے ھیں ،منجملہ دریائے علم الٰھی ،یا دریائے قدرت الٰھی ،یا اس سے مراد قدرتوں کا وہ مجمو عہ ھے جو خداوند عالم نے امام علیہ السلام کو مختلف جہتوں سے عطا فر مایا ھے “
وھی ھر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ھر جا ھل پر اس کی جھالت کا نشانہ لگا نے والا ھے ۔[87]
آگاہ ہو جا وٴ کہ وھی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ھے ، وھی ھر علم کا وارث اور اس پر احا طہ رکھنے والا ھے۔
آگاہ ہو جا ؤوھی پرور دگار کی طرف سے خبر دینے والا اورآیات الٰھی کو بلند کر نے والا ھے[88] وھی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ھے اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ھے ۔
اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ھے ۔[89] وھی حجت با قی ھے اور اس کے بعد کو ئی حجت نھیں ھے ، ھر حق اس کے ساتھ ھے اور ھر نور اس کے پاس ھے ، اس پر کو ئی غالب آنے والا نھیں ھے وہ زمین پر خدا کا حاکم ، مخلوقات میں اس کی طرف سے حَکَم اور خفیہ اور علانیہ ھر مسئلہ میں اس کا امین ھے ۔
۹ بیعت کی وضاحت
ایها الناس!میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا ،اب میرے بعد یہ علی تمھیں سمجھا ئیں گے
آگاو ہو جا وٴ ! کہ میں تمھیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پھلے میرے ھاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو ،[90]اس کے بعد ان کے ھاتھ پر بیعت کرو ، میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی ھے اور علی (ع) نے میری بیعت کی ھے اور میں خدا وند عالم کی جا نب سے تم سے علی(ع)کی بیعت لے رھا ہوں (خدا فرماتا ھے)[91]:<اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَایِعُوْنَ الله یَدُ الله فَوْقَ اَیْدِیْهمْ فَمَنْ نَکَثَ فَاِنَّمَایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِه وَمَنْ اَوْفَیٰ بِمَاعَاهدَ عَلَیْه الله فَسَیُوْتِیْه اَجْراًعَظِیْماً>
” بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کر تے ھیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کر تے ھیں اور ان کے ھا تھوں کے اوپر اللہ ھی کا ھا تھ ھے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ھے وہ اپنے ھی خلاف اقدام کر تا ھے اور جو عھد الٰھی کو پورا کر تا ھے خدا اسی کو اجر عظیم عطا کر ے گا “
۱۰ حلال و حرام ،واجبات اور محرمات
ایها الناس!یہ حج اور عمرہ اور یہ صفا و مروہ سب شعا ئر اللہ ھیں(خدا وند عالم فر ماتا ھے:[92]
<فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِعتَمَرَفَلَا جُنَاحَ عَلَیْه اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهمَا۔۔۔ >[93] ”لہٰذا جوشخص بھی حج یا عمرہ کر ے اس کےلئے کو ئی حرج نھیں ھے کہ وہ ان دونوں پھا ڑیوں کا چکر لگا ئے “
ایها الناس!خا نہ ٴ خدا کا حج کرو جو لوگ یھاں آجاتے ھیں وہ بے نیاز ہو جا تے ھیںخوش ہوتے ھیں اور جو ا س سے الگ ہو جا تے ھیں وہ محتاج ہو جا تے ھیں ۔[94]
ایها الناس!کو ئی مو من کسی مو قف(عرفات ،مشعر ،منی ) میں وقوف[95] ھیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ھے ،لہٰذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے
ایها الناس!حجا ج کی مدد کی جاتی ھے اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معا وضہ دیا جاتا ھے اور اللہ محسنین کے اجر کو ضا ئع نھیں کرتا ھے ۔
ایها الناس!پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو ،اور جب وہ مقدس مقامات سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گنا ہ کے ساتھ ۔
ایها الناس!نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو جس طرح اللہ نے تمھیں حکم دیا ھے[96] اگر وقت زیادہ گذر گیا ھے اور تم نے کو تا ھی و نسیان سے کام لیا ھے تو علی (ع) تمھا رے ولی اور تمھارے لئے بیان کر نے والے ھیں جن کو اللہ نے میرے بعداپنی مخلوق پرامین بنایا ھے اور میرا جا نشین بنایا ھے وہ مجھ سے ھے اور میں اس سے ہوں ۔[97]
وہ اور جو میری نسل سے ھیں وہ تمھارے ھر سوال کا جواب دیں گے اور جو کچھ تم نھیں جا نتے ہو سب بیان کر دیں گے ۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ حلا ل و حرام اتنے زیادہ ھیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نھیں ھے ۔مجھے اس مقام پر تمام حلال و حرام کی امر و نھی کرنے اور تم سے بیعت لینے کا حکم دیا گیاھے اور تم سے یہ عھد لے لوں کہ جو پیغام علی (ع) اور ان کے بعد کے ائمہ کے با رے میں خدا کی طرف سے لا یا ہوں ،تم ان سب کا اقرار کرلوکہ یہ سب میری نسل اور اس (علی (ع) )سے ھیں اور امامت صرف انھیں کے ذریعہ قائم ہوگی ان کا آخری مھدی ھے جو قیا مت تک حق کے ساتھ فیصلہ کر تا رھے گا “
ایها الناس!میں نے جس جس حلال کی تمھارے لئے رہنما ئی کی ھے اور جس جس حرام سے روکا ھے کسی سے نہ رجوع کیا ھے اور نہ ان میں کو ئی تبدیلی کی ھے لہٰذا تم اسے یاد رکھو[98] اور محفوظ کرلو، ایک میں پھر اپنے لفظوں کی تکرار کر تا ہوں :نماز قا ئم کرو ، زکوٰة ادا کرو ، نیکیوں کا حکم دو ، برا ئیوں سے روکو ۔
اور یہ یاد رکھو کہ امر با لمعروف کی اصل یہ ھے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جا وٴ اور جو لوگ حاضر نھیں ھیں ان تک پہنچا وٴ اور اس کے قبول کر نے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو[99] اس لئے کہ یھی اللہ کا حکم ھے اور یھی میرا حکم بھی ھے[100]اور امام معصوم کو چھو ڑ کر نہ کو ئی امر با لمعروف ہو سکتا ھے اور نہ نھی عن المنکر ۔[101]
ایها الناس!قرآن نے بھی تمھیں سمجھا یا ھے کہ علی (ع) کے بعد امام ان کے فرزند ھیں اور میں نے تم کو یہ بھی سمجھاد یا ھے کہ یہ سب میری اور علی کی نسل سے ھیں جیساکہ پر ور دگار نے فر مایا ھے:
<وَجَعَلَهاکَلِمَةً بَاقِیَةً فِیْ عَقَبِه >[102]
” اللہ نے (امامت )انھیںکی اولاد میں کلمہ با قیہ قرار دیا ھے “اور میں نے بھی تمھیں بتا دیا ھے کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رہو گے ھر گزگمراہ نہ ہو گے [103]
ایها الناس!تقویٰ اختیار کرو تقویٰ۔قیا مت سے ڈروجیسا کہ خدا وندعالم نے فر مایا ھے:
<اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ >[104]
” زلزلہ قیامت بڑی عظیم شیٴ ھے “
موت ، قیامت ،حساب، میزان ،اللہ کی با رگاہ کا محا سبہ ،ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وھاں نیکیوں پر ثواب ملتا ھے[105] اور برا ئی کر نے والے کا جنت میں کو ئی حصہ نھیں ھے ۔
۱۱ قانونی طور پر بیعت لینا
ایها الناس!تمھاری تعداد اتنی زیادہ ھے کہ ایک ایک میرے ھاتھ پر ھاتھ ما ر کر بیعت نھیں کر سکتے ہو ۔لہٰذا اللہ نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں تمھاری زبا ن سے علی (ع) کے امیر المو منین[106] ہو نے اور ان کے بعد کے ائمہ جو ان کے صلب سے میری ذریت ھیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں اور میں تمھیں بتا چکا ہوں کہ میرے فرزند ان کے صلب سے ھیں۔
لہٰذا تم سب مل کر کہو :ھم سب آپ کی بات سننے والے ، اطاعت کر نے والے ، راضی رہنے والے اور علی (ع) اور اولاد علی (ع) کی امامت کے با رے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ھے اس کے سا منے سر تسلیم خم کر نے والے ھیں ۔ھم اس بات پر اپنے دل ، اپنی روح ، اپنی زبان اور اپنے ھا تھوں سے آپ کی بیعت کر رھے ھیں اسی پر زندہ رھیں گے ، اسی پر مریں گے اور اسی پر دو بارہ اٹھیں گے ۔نہ کو ئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہو ں گے ، نہ عھد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو تو ڑیں گے ۔
اورجن کے متعلق آپ نے فرمایا ھے کہ وہ علی امیر المومنین اور ان کی اولاد ائمہ آپ کی ذرّیت میںسے ھیں ان کی اطاعت کریں گے ۔جن میںسے حسن وحسین ھیں اور ان کے بعد جن کو اللہ نے یہ منصب دیا ھے اور جن کے بارے میں ھم سے ھمارے دلوں،ھماری جانوںھماری زبانوں ھمارے ضمیروں اور ھمارے ھاتھوںسے عھدوپیمان لے لیاگیا ھے ھم اسکا کوئی بدل پسند نھیں کریں گے ،اور اس میں خدا ھمارے نفسوں میں کوئی تغیر و تبدل نھیں دیکھے گا۔
ھم ان مطالب کو آپ کے قول مبارک کے ذریعہ اپنے قریب اور دور سبھی اولاد اور رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے اورھم اس پر خدا کو گواہ بناتے ھیںاور ھماری گواھی کے لئے اللہ کافی ھے اور آپ بھی ھمارے گواہ ھیں ۔[107]
ایهاالناس!اللہ سے بیعت کرو ،علی (ع) امیر المومنین ہونے اور حسن وحسین اور ان کی نسل سے باقی ائمہ کی امامت کے عنوان سے بیعت کرو۔جو غداری کرے گا اسے اللہ ھلاک کردے گا اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا اور جو عھد کو توڑدے گا وہ اپنا ھی نقصان کرے گا اور جو شخص خداوند عالم سے باندھے ہوئے عھد کو وفا کرے گا خدوند عالم اس کو اجر عظیم عطا کرے گا ۔
ایهاالناس !جومیں نے کھا ھے وہ کہو اور علی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کرو،[108]اور یہ کہو کہ پرودگار ھم نے سنا اور اطاعت کی ،پروردگاراھمیں تیری ھی مغفرت چاہئے اور تیری ھی طرف ھماری بازگشت ھے اور کہو :حمدو شکرھے اس خداکاجس نے ھمیں اس امر کی ھدایت دی ھے ورنہ اسکی ھدایت کے بغیر ھم راہ ھدایت نھیں پاسکتے تھے۔
ایهاالناس!علی ابن ابی طالب کے فضائل اللہ کی بارگاہ میں اور جواس نے قرآن میں بیان کئے ھیں وہ اس سے کھیں زیادہ ھیں کہ میں ایک منزل پر شمار کر اسکوں۔لہٰذا جو بھی تمھیں خبر دے اور ان فضائلسے آگاہ کرے اسکی تصدیق کرو۔[109]
یاد رکھو جو اللہ ،رسول،علی اور ائمہ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک ہوگا ۔
ایها الناس!جو علی کی بیعت ،ان کی محبت اور انھیں امیر المومنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے وھی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے ۔ایھالناس!وہ بات کہو جس سے تمھارا خدا راضی ہوجائے ورنہ تم اور تمام اھل زمین بھی منکر ہوجائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نھیں پہونچا سکتے۔
پرودگارا !جو کچھ میں نے ادا کیا ھے اور جس کا تونے مجھے حکم دیا ھے اس کے لئے مومنین کی مغفرت فرما اور منکرین (کافرین )پر اپنا غضب نازل فرمااور ساری تعریف اللہ کے لئے ھے جو عالمین کا پالنے والا ھے ۔
ب : ”عَرَّفَها “ تشدید کے ساتھ ،یعنی جو شخص امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل بیان کرے اور ان کا لوگوں کو تعارف کرائے تو اس کی تصدیق کرو ۔
”ب “ میں عبارت اس طرح ھے :ایها الناس ،فضائل علی (ع) اور جو کچھ خداوند عالم نے ان سے مخصوص طور پر قرآن میں بیان کیا ھے وہ اس سے کھیں زیادہ ھے کہ میں ایک جلسہ میں بیٹھ کر سب کو بیان کروں ،لہٰذا جو کو ئی اس بارے میں تم کو خبر دے اس کی تصدیق کرو ۔
--------------
[1] توحید کے متعلق خطبہ کی ابتدا کے الفاظ بہت دقیق مطالب کے حامل ھیںجن کی تفسیر کی ضرورت ھے ۔مذکورہ جملہ کی اس طرح وضاحت کی جا سکتی ھے :ساری تعریف اس خد اکےلئے ھے جو یکتا ئی میں بلند مرتبہ رکھتا ھے ،وہ یکتا ہو نے اور بلند مرتبہ ہونے کے باوجوداپنے بندوں سے نزدیک ھے ۔ ” ب “اور ” د “ کی عبارت اس طرح ھے :اس خد ا کی حمد ھے جو اپنی یکتا ئی کے ساتھ بلند مرتبہ اور اپنی تنھائی کے با وجود نزدیک ھے۔
[2] اس جملہ سے مندرجہ ذیل دو جہتوں میں سے ایک جہت مراد ہو سکتی ھے:
پھلے :خداوند عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ھے درحالیکہ وہ چیزیں اپنی جگہ پر ھیں اور خداوند عالم کو ان کے معائنہ اور ملا حظہ کرنے کی ضرورت نھیں ھے ۔
[3] کلمہ ” قُدُّوْسٌ “کا مطلب ھر عیب و نقص سے پاک اور منزّہ ،اور کلمہ ٴ ” سُبُّوْحٌ “ کا مطلب جس کی مخلوقات تسبیح کرتی ھے اور تسبیح کا مطلب خداوند عالم کی تنزیہ اور تمجید ھے “
[4] ”ج “، ” د “اور ” ھ “ھر نفس اس کے زیر نظر ھے ۔
[5] ” ج “اور ” د “وھی عدم سے وجود عطا کرنے والا ھے “
[6] ” الف “ ، ” ب “ اور ” د “اس کی تدبیر میں کو ئی اختلاف نھیں ھے “
[7] ” ج “بغیر فساد کے “
[8] ” ج “ :اس نے چاھا پس وہ وجود میںآگئے ۔
[9] ” ب “ اور ” ج “:بادشاہوں کا مالک ۔
[10] اس چیز سے کنایہ ھے کہ رات اور دن دو کشتی لڑنے والوں کی طرح ایک دو سرے پر غالب آجاتے ھیں اور اس کو زمین پر پٹک دیتا ھے اور خود اوپر آجاتا ھے ۔دن کے بارے میں فرمایا ھے”رات کا بہت تیزی کے ساتھ پیچھا کرتا ھے “ لیکن رات کے بارے میں نھیں فر مایا ۔شاید یہ اس بات سے کنایہ ہو کہ چونکہ دن نور سے ایجاد ہو تا ھے اور جیسے ھی نور کم ہوا رات آجاتی ھے ۔
[11] ”د “تدبیر کرتا ھے اور مقدر بناتا ھے ۔
[12] ” ب “ منع کرتا ھے اور ثروتمند بنا دیتا ھے ۔
[13] ” ج “ اور ” ھ “ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے والا اس کے علاوہ اور کو ئی نھیں ھے ۔
[14] ” ج “ اور ”د “اور ”ھ “ سے کسی زبان کی مشکل پیش نھیں آتی ھے ۔
[15] ” د “ ” ھ “اس کے حکم کو سنو اور اطاعت کرو ،اور جس چیز میں اس کی رضایت ھے اس کی طرف سبقت کرو اور اس کے مقدرات کے مقابلے میں تسلیم ہو جاؤ۔
[16] سورہ ما ئدہ آیت/۶۷۔
[17] ” ج “ اور ” ھ “ جو کچھ میں نے پہنچایاھے اس میں کسی قسم کی کو ئی کو تا ھی نھیں کی ھے اور جو کچھ مجھ پر ابلاغ ہوا اس کے پہنچانے میں کسی قسم کی کاھلی نھیں کی ھے ۔
[18] ان دو مقامات پر سلام پروردگار عالم کے نام کے عنوان سے ذکر ہوا ھے۔
[19] سورہ ما ئدہ آیت/۵۵۔
[20] ” ب “ حالت رکوع میں خداوند عالم کی خاطر زکات دی ھے خداوند عالم بھی ھر حال میں ان کا ارادہ کرتا ھے ۔
[21] یعنی اس مھم کے ابلاغ میں معافی چاہنے کی ایک علت یہ بھی ھے
[22] سورہ توبہ آیت/ ۶۱۔
[23] یھاں پر اس کا مطلب یہ ہو گاکہ پیغمبر اکرم (ص) خداوند عالم کے کلام کی تصدیق فرماتے ھیں اورمو منین کے مقابل میں تواضع اور احترام کا اظھار کرتے ھیں اور ان کی باتوں کو رد نھیں کرتے ۔
[24] ” ج “ اور ” ھ “ لیکن خدا کی قسم ان کی باتوں کو در گزر کرتے ہوئے ان پر کرامت کرتا ہوں ۔
[25] سورہ مائدہ آیت/۶۷۔
[26] ” ج “ اور ” ھ “ ھر موجود پر ۔۔۔
[27] ” ب “جو شخص ان کا تابع ہوگا ان کی تصدیق کرے گا اس کو اجر ملے گا ۔
[28] آنحضرت (ص) کے اس کلام سے مراد خود آپ ھی ھیں ۔
[29] ” اَحْصَاہُ “ کا مطلب ” عَدَّ ہُ وَضَبَطَہُ “ھے ۔یعنی ذہن سے قریب کرنے کےلئے کلمہ”جمع اور جمع آوری “سے استفادہ کیا گیا ھے ۔
[30] سورہ یس آیت/۱۲۔
[31] وہ خداوند عالم کے امر سے امام ھیں ۔
[32] میری مخالفت کرنے سے پرھیز کرو ۔
[33] ”الف‘ ‘، ”ج “اور ” د “اگر کو ئی میری اس گفتگو میں کسی ایک چیز میں شک کرے گو یا اس نے تمام چیزوں میں شک کیا ھے اور اس میں شک کرنے والے کا ٹھکانا جہنم ھے ۔” ھ “:جو شخص میری گفتار کی ایک چیز میں شک کرے گویا اس نے پوری گفتار میں شک کیا ھے
[34] ” ب “ ایھا الناس ،خداوند عالم نے علی بن ابی طالب کو سب پر افضل قرار دیا ھے ۔
[35] ” ج “ اور ” ھ “میرا کلام جبرئیل سے اور جبرئیل پروردگار عالم کی طرف سے یہ پیغام لا ئے ھیں۔
[36] ” جنب “ یعنی طرف ،جہت ،پھلو ۔شاید یھاں پراس سے مراد امیر المو منین علیہ السلام کا خداوند عالم سے بہت زیادہ مرتبط ہو نا ھے
[37] سورہ زمر آیت/۵۶۔
[38] ” زواجر “یعنی باطن ،ضمیر اورنھی کے معنی میں بھی آیا ھے ،اور پھلے معنی عبارت سے بہت زیادہ منا سبت رکھتے ھیں
[39] خدا کی قسم وہ نور واحد کے عنوان سے تمھارے لئے بیان کرنے والے ھیں ۔
[40] یہ حدیث :<انی تارک فیکم الثقلین > کی طرف اشارہ ھے ۔
[41] ” ج “یہ خداوند عالم کی جانب سے اس کی خلق میںامراور زمین میں اس کا حکم ھے ۔
[42] ” ج “ جان لو !میںنے نصیحت فرما دی ھے ۔
[43] ” الف “ اور ” ب “اور ” د “:جان لو کہ امیرالمومنین میرے اس بھا ئی کے علاوہ کوئی نھیںھے ۔
[44] ” ب “ امیر المو منین علیہ السلام نے اپنے دونوں ھاتھوں کو پیغمبر اکرم (ص) کے چھرہ ٴ اقدس کی طرف اس طرح بلند کیا کہ آپ کے دونوں ھاتھ مکمل طورپر آسمان کی طرف کھل گئے تو پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا یھاں تک کہ ان کے قدم مبارک آنحضرت (ص) کے گھٹنوں کے برابر آگئے ۔
یہ فقرہ کتاب اقبال سید بن طا ؤس میں اس طرح آیا ھے :۔۔۔پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کرتے ہو ئے فر مایا :ایھا الناس ،تمھارا صاحب اختیار کون ھے ؟ انھوں نے کھا :خدا اور اس کا رسول ۔آنحضرت (ص)نے فرمایا : آگاہ ہو جاؤ جس کا صاحب اختیار میں ہوں یہ علی اس کے صاحب اختیار ھیں ۔خداوندا جو علی کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے تو اس کو دشمن رکھ ،جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر اور جو اس کو ذلیل کرے تو اس کو ذلیل و رسوا کر ۔
[45] ” د “ اور میرے بعد امور کے مدبر ھیں ۔
[46] ” ب “ :۔۔۔اور میری امت کے جو لوگ مجھ پر ایمان لائے ھیں ان پرمیرے جا نشین ھیں ۔آگاہ ہو جا ؤ کہ قرآن کا نازل کرنا میری ذمہ داری ھے لیکن میرے بعد اس کی تاویل ،تفسیر کرنا اور وہ عمل کرنا جس سے خدا راضی ہوتا ھے اور دشمنوں سے جنگ کرنا اس کے ذمہ ھے اور وہ خداوند عالم کی اطاعت کی طرف راہنما ئی کرنے والے ھیں ۔
[47] ناکثین :طلحہ ،زبیر ،عائشہ اور اھل جمل ؛قاسطین :معاویہ اور اھل صفین ؛اور مارقین :اھل نھروان ھیں ۔
[48] سورہ ق آیت/۲۹۔
[49] ” الف “ میں کہتا ہوں :میری بات (خداوند عالم کے امر سے )نھیں بدلتی ھے ۔” ھ “ میں خداوند عالم کے امر سے کہتا ہوں :میری بات میں کو ئی تغیر و تبدل نھیں ہوتاھے ۔
[50] سورہ ما ئدہ آیت /۳۔
[51] سورہ آل عمران آیت/ ۸۵۔
[52] ” الف “ ،” ب “ ، ” د “ اور ” ھ “ : خدایا! تو نے مجھ پر نازل کیا ھے کہ میرے بعد امامت علی (ع) کے لئے ھے میں نے اس مطلب کو بیان کیا علی (ع) کو امام معین فرمایا ،جس کے ذریعہ تو نے اپنے بندوں کے لئے دین کو کامل کیا ، ان پر اپنی نعمت تمام کی اور فرمایا :جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو انتخاب کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جا ئیگا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھا نے والوں میں سے ہوگا “خدایا میں تجھ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے پہنچادیا اور گواھی کے لئے تجھ کو کا فی سمجھتا ہو ں ۔
[53] ” حبط “ یعنی سقوط ،فساد ،نابودہونا ،ضائع ہونا اور ختم ہوجانا ھے ۔
[54] ہ سورہ انسان کی آیت ۱۲ کی طرف اشارہ ھے جس میں خدافرماتا ھے :<وَ جَزَاھُمْ بِمَاصَبَرُوْاجَنَّةً وَ حَرِیْراً > اور انھیں ان کے صبر کے عوض جنت اور حریر جنت عطا کرے گا “ سورہ انسان آیت/ ۱۲۔
[55] ” ب “ وہ میرا قرض ادا کرنےوالا اور میرا دفاع کرنے والا ھے ۔’ ھ “ وہ خداوند عالم کا دَین (قرض) ادا کرنے والا ھے۔
[56] یعنی تمھارے ایمان کے درجہ کا حضرت آدم علیہ السلام کے درجہ سے بہت زیادہ فاصلہ ھے ۔
[57] ” ب “ درحالیکہ خداوند عالم کے بہت زیادہ دشمن ہو گئے ھیں ۔” ج “اور ” ھ “ اگر تم انکار کروگے تو تم خدا کے دشمن ہو ۔
[58] سورہ عصر آیت/۱۔
کتاب اقبال سید بن طاؤس میں عبارت اس طرح آئی ھے : سورہ ” والعصر “ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوا ھے اور اس کی تفسیر یوں ھے :قیامت کے زمانہ کی قسم، انسان گھا ٹے میں ھے اس سے مراد دشمنان آل محمد ھیں ،مگر جو لوگ ان کی ولایت پر ایمان لائے اور اپنے دینی برادران کے ساتھ مواسات کے ذریعہ عمل صالح انجام دیتے ھیں اور ان کی غیبت کے زمانہ میںایک دوسرے کو صبر کی سفارش کرتے ھیں ۔
[59] یہ سورہ نساء آیت/ ۴۷کی طرف اشارہ ھے۔کلمہ ” طمس “ کا مطلب ایک تصویر کے نقش و نگار کو محو کرنا ھے ۔اس مقام پر (احادیث کے مطابق )دل سے ھدایت کا مٹا دینا اور اس کو گمرا ھی کی طرف پلٹا دینامراد ھے ۔
[60] ” مسلوک “یعنی داخل کیاگیا۔اور ” ب “ میں مسبوک ھے جس کا مطلب قالب میں ڈھالاہوا ھے۔
[61] د”اور ھر مو من کا حق حاصل کرے گا “
[62] ج”۔۔۔مھدی قائم خداوند عالم اور ھمارے ھر حق کو تمام مقصرین ،معاندین ،مخالفین،خا ئنین ،آثمین،ظالمین اور غاصبین کو قتل کر کے وصول کرے گا “
[63] ”ھ“ ھمارے سلسلہ میں خداوند عالم پر احسان نہ جتاؤخداوند عالم تمھاری باتیں قبول نھیں کرے گا ،تم پر غضب نازل کرے گا اور تم پر عذاب نازل کرے گا اس “
[64] کلمہ ٴ ”اغتصاب “کا مطلب ظلم و زبر دستی کے ساتھ اخذ کرنا ‘
[65] کلمہ ٴ ”الثقلان“ کا ”جن و انس “ترجمہ کیا گیا ھے ۔
[66] یہ سورہ رحمن کی ۳۱ اور ۳۵ ویں آیت کی طرف اشارہ ھے ۔
[67] یہ سورہ آل عمران کی ۱۷۹ویںآیت کی طرف اشارہ ھے
کردے اور اللہ تم کو غیب پر با خبر کرنے والا نھیں ھے ۔
[68] کلمہٴ ”قریہ “کے معنی گاؤں اور آبادی کے ھیں اور اس مو قع پر دوسرے معنی منا سب ھیں ۔
[69] ”الف “اور ”د“ایھا الناس ! کو ئی ایسی بستی نھیں ھے جس کے رہنے والوں کو پروردگار عالم نے تکذیب کی وجہ سے ھلا ک نھیں کیا اسی طرح خداوند عالم ظالموں کی بستیوں کو ھلاک کرتا ھے جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ارشاد فر مایا ھے اور یہ علی (ع) تمھارے امام اور صاحب اختیار ھیں وہ وعدہ گاہ الٰھی ھیں اور خداوند عالم اپنے وعدہ کو عملی کرتا ھے ۔
[70] ”ج اور ”ھ “خدا کی قسم تم سے پھلے والے لوگوں کو ان کی اپنے انبیاء کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ھلاک کیا ھے ۔
[71] سورہ مرسلات :آیات /۱۶۔۱۹۔
[72] ”الف “پس وہ امر و نھی کو خداوند عالم کی طرف سے جانتے ھیں ۔”د“امر و نھی خداوند عالم کی طرف سے ان کے ذمہ ھے “
[73] ”الف “اور ” د “جان لو ! کہ علی (ع) کے دشمن اھل شقاوت ،تجاوز کرنے والے اور شیا طین کے بھا ئی ھیں ۔
[74] سورہ مجا دلہ آیت/ ۲۲۔
[75] سورہ انعام آیت/۸۲۔
[76] سورہ مجادلہ آیت /۲۲۔”ب “اور ”ج “میں وہ سیدھا راستہ ہوں جس سے تمھیں خداوند عالم نے ھدایت پانے کا حکم دیاھے ۔
[77] سورہ انعام آیت/۸۲۔”ج“:کس شخص کے بارے میں نازل ہوا ھے ؟انھیں کے بارے میں نازل ہوا ھے (خدا کی قسم انھیں کے بارے میں نازل ہوا ھے خداکی قسم ان سب کو شامل ھے اور ان کے آباء و اجداد سے مخصوص ھے اور عام طور پر ان سب کو شامل ھے ۔
[78] ”الف “، ”ب “اور ” د“آگاہ ہو جا ؤ کہ ان کے دوست وہ لوگ ھیں جن کے بارے میں خدا وند عالم فر ماتا ھے :وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو ں گے “
[79] سورہ اعراف آیت /۳۸ ۔
[80] سورہ ملک آیات / ۸۔۱۱۔
[81] کلمہ”سحق “کے معنی ھلاکت ،اور دوری کے ھیں ۔
[82] جملہ ” یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ “کا شاید یہ مطلب ھے کہ وہ خداوند عالم کو دیکھے بغیر غیب پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اس سے ڈرتے ھیں ۔
[83] ”الف “اور ”د “آگ کے شعلوں اور بھشت کے ما بین کتنا فا صلہ ھے ۔”ب “ھم نے آگ کے شعلوں اور عظیم اجر کے مابین فرق واضح کر دیا ھے “
[84] شاید اس سے یہ مراد ہو کہ میں نے تم کو برائیوں سے ڈرایا اور تصفیہ کیا اور اب وہ وقت آگیا ھے کہ تم علی (ع) کے ساتھ بھشت کی راہ اختیار کرلو ۔
[85] ”الف “، ”ب “اور ”د “وہ ھر اھل شرک قبیلہ کا قاتل ھے “
[86] وہ عمیق سمندر سے عبور کرنے والا ھے ۔
[87] ”ب“وہ وھی ھے جو صاحب فضل کو اس کے فضل کے مانند جزا دیتا ھے ۔
[88] وہ اپنے آبا ؤ اجدادکے حکم کو محکم و مضبوطی عطا کرنے والا ھے۔
[89] وہ وھی ھے جس کی ھر گزشتہ پیغمبر نے بشارت دی ھے ۔
[90] ” ج “ میں تمھاری طرف بیعت کے لئے ھاتھ بڑھاؤں گا ۔
[91] سورہ فتح آیت/ ۱۰۔
[92] پرانٹز کے اندرجملہ اس لئے لکھا گیا ھے کہ ” بھما “کی ضمیر کا حج و عمرہ سے کوئی تعلق نھیں ھے اور اس کامرجع صفا و مروہ ھیں
[93] سورہ بقرہ آیت / ۱۵۸)
[94] شاید منقطع ہو جا نے سے مراد کم نسل ہو جا نا ہو جیساکہ کلمہ ”بتر “سے استفادہ کیا گیا ھے ،اور ”د “اور ”ھ “میں اس طرح ھے :”گھر والے خا نہٴ خدا میں داخل نھیں ہو تے مگر یہ کہ وہ رشد و نمو کر تے ھیں اوران کا غم ختم ہو جا تا ھے اور کو ئی خاندان اس کو ترک نھیں کرتا مگر یہ کہ وہ ھلاک اورمتفرق ہو جاتا ھے “
[95] اس سے مراد ان تین جگہوں پر وقوف کرنا ھے جو اعمال حج کا جزشمار ہو تا ھے ۔
[96] ”ج “اور ”ھ “زکات ادا کرو جیسا کہ میں نے تم کو حکم دیا ھے “
[97] ”الف “ اور ”ج “جس شخص کو خداوند عالم نے مجھ سے خلق کیا ھے اور میں اس سے ہوں۔ ”د “جس کو خداوند عالم نے خود اپنا اور میرا خلیفہ قرار دیا ھے ۔
[98] اس مطلب کے سلسلہ میں فکر کرنا اور تحقیق کرناـ
[99] یہ جملہ (نسخہٴ ”ج “)کتاب ” التحصین “کے مطابق خطبہ کا آخری جملہ ھے ۔
[100] ” ب “جان لہ کہ تمھارے سب سے بلند و برتر اعمال امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ھیں ۔پس جو لوگ اس مجلس میں حا ضر نھیں ھیں اور انھوں نے میری ان باتوں کو نھیں سنا ھے ان کو سمجھانا چونکہ تم تک یہ حکم میرے اور تمھارے پرور دگار کا ھے ۔
[101] شاید اس سے مراد یہ ہو کہ معروف و منکرات کا معین کرنا نیز معروف و منکرات کی شرطوں اور اس کے طریقہ کو امام معصوم معین کرتاھے ۔ نسخہٴ ” ج “میں اس طرح آیا ھے :”امر بالمعروف اور نھی عن المنکرصرف امام معصوم کے حضور میں ہو تا ھے ۔
[102] سورہ زخرف آیت / ۲۸۔
[103] ” ب “ایھا الناس میں قرآن کو اپنی جگہ پر قرار دے رھا ہوں اور میرے بعد میرے جا نشین علی (ع) اورائمہ ان کی نسل سے ھیں ،اور میں نے تم کوسمجھادیا کہ وہ مجھ سے ھیں ۔اگر تم ان سے متمسک رہو گے تو ھر گز گمراہ نہ ہو گے ۔
[104] سورہ حج آیت/۱ ۔
[105] ” د “جو شخص اچھے کام کرے گا کامیاب ہوگا ۔
[106] ”الف “، ” ب “اور ” ھ “جو کچھ میں نے علی (ع) کےلئے ”امیر المو منین“ کے عنوان سے بیان کیا ھے ۔
[107] اس مقام تک وہ عبارتیں تھیں جن کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں سے چاھا کہ وہ اس کومیرے ساتھ دھرائیںیں اور اس کے مضمون کا اقرار کریں۔ یہ عبارتیں نسخہٴ ”ب“ کے مطابق بیان کی گئی ھیں۔ اس کے بعد ”الف“، ”د“ اور ” ھ “ میںاس جملہ ”آپ نے ھماری مو عظہٴ الٰھی کے ذریعہ نصیحت فر ما ئی “یھاں تک اس طرح آیا ھے :
”۔۔۔ھم خدا وند عالم ،آپ ،علی امیر المو منین (ع) ان کے امام فرزندجن کے سلسلہ میں آپ نے فر مایا کہ وہ آپ کے فرزنداور ان (علی) کے صلب سے ھیں کی اطاعت کرتے ھیں ۔ ”ھ “ (آپ نے فرمایا وہ علی (ع) کے صلب سے آپ کے فرزند ھیں وہ جب بھی آئیں اور امامت کا دعویٰ کریں )جو حسن و حسین علیھما السلام کے بعد ھیںمیں نے ان دو نوںکے مقام و منزلت کی اپنے اور خدا کے نزدیک نشاندھی کرادی ھے ۔ان دونوں کے سلسلہ میں میں نے یہ مطالب تم تک پہنچا دئے ھیں ، وہ دونوں جوانان جنت کے سردار ھیں ،وہ اپنے والد بزرگوار علی (ع) کے بعد امام ھیں اور میں علی (ع) سے پھلے ان دونوں کاباپ ہوں۔
کہو ”ھم اس سلسلہ میں خدا وند عالم ،آپ ،علی (ع) ،حسن و حسین اور جن اماموں کا آپ نے تذکرہ فر مایا ھے ان سے عھد و پیمان باندھتے ھیں اورھم سے امیر المو منین علیہ السلام کے لئے میثاق لیاجائے ۔(”ھ “پس یہ پیمان مو منین سے لے لیا گیاہو ) ھمارے دلوں ،جانوں ،زبانوں اور ھاتھ سے ،جس شخص کےلئے ممکن ہو اس سے ھاتھ سے ورنہ وہ اپنی زبان سے اقرار کرے ۔اس پیمان کو ھم نھیں بد لیں گے اور ھم کبھی بھی اس میں تغیرو تبدل کرنے کا ارادہ نھیں کریں گے۔
ھم آ پ کا یہ فرمان اپنے دور اور قریب سب رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے۔ ”ھ“ ھم آپ کا یہ قول اپنے تمام بچوں تک پہنچا ئیں گے چا ھے وہ پیدا ہو گئے ہوں اور چا ھے ابھی پیدا نہ ہو ئے ہوں )،ھم خدا کو اس مطلب کے لئےاپنا گواہ بناتے ھیں اور گواھی کے لئے خدا کافی ھے اور آپ(ع) ھم پر شاھد ھیں ،نیز ھر وہ انسان جوخدا کی اطاعت کرتا ھے (چا ھے آشکار طور پر اور چاھے مخفی طور پر) نیز خداوند عالم کے ملا ئکہ ،اس کا لشکر اور اس کے بندوں کو اپنا گواہ قرار دیتے ھیں اور خداوند عالم تمام گواہوںسے بلند و بالا ھے “۔
ایھا الناس!اب تم کیا کہتے ہو ؟یاد رکھو کہ اللہ ھر آواز کو جانتا ھے اور ھر نفس کی مخفی حالت سے باخبر ھے ،جو ھدایت حاصل کرے گاوہ اپنے لئے اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنا نقصان کرے گا ۔جو بیعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی بیعت کی،اسکے ھاتھ پر اللہ کا ھاتھ ھے ۔
[108] یعنی کہو ”السلام علیک یا امیر المو منین “۔اور عبارت ” ب “میں اس طرح ھے :ایھا الناس جس کی میں نے تملوگوں کوتلقین کی ھے اس کی تکرار کرو اوراپنے امیر المو منین کو سلام کرو“۔
[109] اس عبارت کے دو طریقہ سے معنی بیان کئے جا سکتے ھیں :
الف :”عَرَفَھَا “بغیر تشدید ،یعنی امیرالمو منین علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے والے کو اھل معرفت ہو نا چا ہئے اورصرف سنے ہوئے کو لیں اس وقت تک نقل نہ کریں جب تک دشمنوںکی مکاریوںاور حذف شدہ عبارتوں سے آگاہ نہ ہو جائیں کہ کھیں ایک فضیلت کا نتیجہ برعکس نہ ہوجائے ۔