اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

زندگانی رسول اکرم (ص)

آغازوحی

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ حرا پر گئے هوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کھا : اے محمد پڑھ: پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا میں پڑھا هوانھیں هوں ۔ جبرئیل نے انھیں آغوش میں لے کردبایا اور پھر دوبارہ کھا : پڑھ، پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے پھر اسی جواب کو دھرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پھر وھی کام کیا اور وھی جواب سنا ، اور تیسری بارکھا: < اقراباسم ربک الذی خلق۔۔۔>[1]

جبرئیل (ع)یہ بات کہہ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں سے غائب هوگئے رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو وحی کی پھلی شعاع کو حاصل کرنے کے بعد بہت تھکے هوئے تھے خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا : ” زملونی ودثرونی “ مجھے اڑھادو اور کوئی کپڑا میرے اوپر ڈال دوتاکہ میں آرام کروں ۔

”علامہ طبرسی“ بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ھیں کہ رسو لخدا   صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے خدیجہ سے فرمایا :

”جب میں تنھا هوتا هوں تو ایک آواز سن کر پریشان هوجاتاهوں “ ۔ حضرت خدیجہ(ع) نے عرض کیا : خداآپ کے بارے میں خیر اور بھلائی کے سواکچھ نھیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ھیں اور صلہٴ رحم بجالاتے ھیں ‘اور جوبات کرتے ھیں اس میں سچ بولتے ھیں۔

”خدیجہ“(ع) کہتی ھیں : اس واقعہ کے بعد ھم ورقہ بن نوفل کے پاس گئے (نوفل خدیجہ کا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا )رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے جو کچھ دیکھا تھا وہ“ ورقہ“ سے بیان کیا ” ورقہ “ نے کھا : جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ھے ؟ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رھاھے : 

اے محمد !  کهو :

” بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبدوایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین“۔

اور کهو ” لاالہ الاالله“ اس کے بعد آپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔

” ورقہ “ نے کھا : آپ کو بشارت هو ‘ پھر بھی آپ کو بشارت هو ۔میں گواھی دیتا هوں کہ آپ وھی ھیں جن کی عیسی بن مریم نے بشارت دی ھے‘ آپ موسی علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت ھیں اور پیغمبر مرسل ھیں ۔ آج کے بعد بہت جلدھی جھاد کے لیے مامور هوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رھا تو آپ کے ساتھ مل کر جھاد کروں گا “ جب “ ور قہ دنیا سے رخصت هو گیا تو رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا:

”میں نے اس روحانی شخص کو بہشت (برزخی جنت ) میں دیکھا ھے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے هوئے تھا‘ کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی۔ “[2]

پھلا مسلمان[3]

اس سوال کے جواب میں سب نے متفقہ طور پر کھا ھے کہ عورتوں میں سے جو خاتون سب سے پھلے مسلمان هوئیں وہ جناب خدیجہ(ع) تھیں جو پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفاداراور فدا کار زوجہ تھیں باقی رھا مردوں میں سے تو تمام شیعہ علماء ومفسرین اور اھل سنت علماء کے ایک بہت بڑے گروہ نے کھا ھے کہ حضرت علی (ع) وہ پھلے شخض تھے جنهوںنے مردوں میں سے دعوت پیغمبر پر لبیک کھی علماء اھل سنت میں اس امرکی اتنی شھرت ھے کہ ا ن میں سے ایک جماعت نے اس پر اجماع واتفاق کا دعویٰ کیا ھے ان میں سے حاکم نیشاپوری [4]نے کھا ھے :

مورخین میں اس امر پر کوئی اختلاف نھیں کہ علی ابن ابی طالب اسلام لانے والے پھلے شخص ھیں ۔ اختلاف اسلام قبول کرتے وقت انکے بلوغ کے بارے میں ھے ۔

جناب ابن عبدالبر[5]لکھتے ھیں : اس مسئلہ پر اتفاق ھے کہ خدیجہ(ع) وہ پھلی خاتون ھیںجو خدا اور اس بات کا پختہ ارادہ کرلیا کہ خود کو پھاڑ سے گرادیں ‘ اور اسی قسم کے فضول اور بے هودہ باتیں جو نہ تو نبوت کے بلند مقام کے ساتھ سازگار ھیں اور نہ ھی پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس عقل اور حد سے زیادہ دانش مندی ‘ مدبریت ‘ صبر وتحمل وشکیبائی ‘ نفس پر تسلط اور اس اعتماد کو ظاھر کرتی ھیں جو تاریخوں میں ثبت ھے ۔ 

ایسا دکھائی دیتا ھے کہ اس قسم کی ضعیف ورکیک روایات دشمنان اسلام کی ساختہ وپرداختہ ھیں جن کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کو بھی مورد اعتراض قراردے دیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی کو بھی ۔ 

اس کے رسول پر ایمان لائیں اور جو کچھ وہ لائے تھے اسی کی تصدیق کی ۔ پھر حضرت علی نے ان کے بعد یھی کام انجام دیا ۔[6]

ابوجعفر الکافی معتزلی لکھتا ھے : تمام لوگوں نے یھی نقل کیا ھے کہ سبقت اسلام کا افتخار علی سے مخصوص ھے ۔[7]  قطع نظر اس کے کہ پیغمبر اکرم سے،خود حضرت علی (ع)سے اور صحابہ سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل هوئی ھیں جو حد تواتر تک پہنچی هوئی ھیں،ذیل میں چند روایات ھم نمونے کے طور پر نقل کرتے ھیں : پیغمبر اکر منے فرمایا :

۱۔پھلا شخص جو حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچے گا وہ شخص ھے جو سب سے پھلے اسلام لایا اور وہ علی بن ابی طالب ھے۔ [8]

۲۔ علماء اھل سنت کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرم سے نقل کیا ھے کہ آنحضرت نے حضرت علی (ع)کا ھاتھ پکڑکر فرمایا :

یہ پھلا شخص ھے جو مجھ پر ایمان لایا اور پھلا شخص ھے جو قیامت میں مجھ سے مصافحہ کرے گا اور یہ ”صدیق اکبر“ ھے ۔[9]

۳۔ابو سعید خدری رسول اکرم سے نقل کرتے ھیں کہ آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کے دونوں شانوں کے درمیان ھاتھ مارکر فرمایا :”اے علی (ع) : تم سات ممتاز صفات کے حامل هو کہ جن کے بارے میں روز قیامت کوئی تم سے حجت بازی نھیں کرسکتا ۔ تم وہ پھلے شخص هو جو خدا پر ایمان لائے اور خدائی پیمانوں کے زیادہ وفادار هو اور فرمان خداکی اطاعت میں تم زیادہ قیام کرنیوالے هو ۔۔۔“[10]

تحریف تاریخ 

یہ امر لائق توجہ ھے کہ بعض لوگ ایسے بھی جوایمان اوراسلام میں حضرت علی کی سبقت کا سیدھے طریقے سے تو انکار نھیں کرسکے لیکن کچھ واضح البطلان علل کی بنیاد پر ایک اور طریقے سے انکار کی کوشش کی ھے یا اسے کم اھم بنا کر پیش کیا ھے بعض نے کو شش کی ھے ان کی جگہ حضرت ابوبکر کو پھلا مسلمان قرار دیں یہ لوگ کبھی کہتے ھیں کہ علی اس وقت دس سال کے تھے لہٰذا طبعاًنا با لغ تھے اس بناء پر ان کا اسلام ایک بچے کے اسلام کی حیثیت سے دشمن کے مقابلے میںمسلمانوں کے محاذ کے لیے کوئی اھمیت نھیں رکھتا تھا۔[11]

یہ بات واقعاً عجیب ھے اور حقیقت میں خود پیغمبر خدا پر اعتراض ھے کیونکہ ھمیں معلوم ھے کہ یوم الدار(دعوت ذی العشیرہ کے موقع پر )رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اسلام اپنے قبیلے کے سامنے پیش کیا اور کسی نے حضرت علی(ع) کے سوا اسے قبول نہ کیا اس وقت حضرت علی کھڑے هوگئے اور اسلام کا اعلان کیا تو آپ نے ان کے اسلام کو قبول کیا بلکہ یھاں تک اعلان کیا کہ تو میرے بھائی ،میرا وصی اور میرا خلیفہ ھے ۔

یہ وہ حدیث ھے جو شیعہ سنی حافظان حدیث نے کتب صحاح اور مسانید میںنقل کی ھے، اسی طرح کئی مورخین اسلام نے اسے نقل کیا ھے یہ نشاندھی کرتی ھے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حضرت علی (ع)کی اس کم سنی میں نہ صرف ان کا اسلام قبول کیا ھے بلکہ ان کا اپنے بھائی ، وصی اور جانشین کی حیثیت سے تعارف بھی کروایا ھے ۔[12]

کبھی کہتے ھیں کہ عورتوں میں پھلی مسلمان خدیجہ تھیں ، مردوں میں پھلے مسلمان ابوبکر تھے اور بچوں میں پھلے مسلمان علی تھے یوں دراصل وہ اس امر کی اھمیت کم کرنا چاہتے ھیں [13]

حالانکہ اول تو جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں حضرت علی علیہ السلام کی اھمیت اس وقت کی سن سے اس امر کی اھمیت کم نھیں هوسکتی خصوصاً جب کہ قرآن حضرت یحٰیی(ع) کے بارے میں کہتا ھے : ”ھم نے اسے بچپن کے عالم میں حکم دیا“۔ [14]

حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں بھی ھے کہ وہ بچپن کے عالم میں بھی بول اٹھے اور افراد ان کے بارے میں شک کرتے تھے ان سے کھا : ”میں اللہ کا بندہ هوں مجھے اس نے آسمانی کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ھے “۔[15]

ایسی آیات کو اگر ھم مذکورہ حدیث سے ملاکردیکھیں کہ جس میں آپ نے حضرت علی (ع)کو اپنا وصی، خلیفہ اور جانشین قرار دیا ھے توواضح هوجاتاھے کہ صاحب المنار کی متعصبانہ گفتگو کچھ حیثیت نھیں رکھتی ۔

دوسری بات یہ ھے کہ یہ امرتاریخی لحاظ سے مسلم نھیں ھے کہ حضرت ابوبکر اسلام لانے والے تیسرے شخص تھے بلکہ تاریخ وحدیث کی بہت سی کتب میں ان سے پھلے بہت سے افراد کے اسلام قبول کرنے ذکر ھے ۔ یہ بحث ھم اس نکتے پر ختم کرتے ھیں کہ حضرت علی (ع)نے خود اپنے ارشادات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ھے کہ میں پھلا مومن ، پھلا مسلمان اور سول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پھلا نماز گذارهوں اور اس سے آپ نے اپنے مقام وحیثیت کو واضح کیا ھے یہ بات آپ سے بہت سی کتب میں منقول ھے۔ 

علاوہ ازیں ابن ابی الحدید مشهور عالم ابو جعفر اسکافی معتزلی سے نقل کرتے ھیں کہ یہ جو بعض لوگ کہتے ھیں کہ ابوبکر اسلام میں سبقت رکھتے تھے اگر یہ امر صحیح ھے تو پھر خود انھوں نے اس سے کسی مقام پر اپنی فضیلت کے لیے استدلال کیوں نھیں کیا اور نہ ھی ان کے حامی کسی صحابی نے ایسا دعوی کیا ھے۔[16]

دعوت ذوالعشیرة

تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم هوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طورپرجاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ،لیکن جب یہ آیت نازل هوئی ” وانذر عشیرتک الا قربین “۔ [17]

اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومرواعرض عن المشرکین “ ۔[18]  تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور هوگئے اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم هوا ۔

اس دعوت اور تبلیغ کی اجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ھے : آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں دعوت دی اس میںتقریباً چالیس افراد شریک هوئے آپ کے چچاؤں میں سے ابوطالب، حمزہ اور ابولھب نے بھی شرکت کی ۔

کھانا کھالینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر هوگیالہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔

دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نھیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر  چیز لایا هو ، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس دین کی دعوت دوں ، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میرا ھاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی ، میرا وصی اور میرا جانشین هو“ ؟ سب لوگ خاموش رھے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹھے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگار هوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنا ھاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور فرمایا : ”ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ “۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی ، میرا وصی اور میرا جانشین ھے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے هوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی ، ابوطالب (ع)سے سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔[19]

اس روایت سے معلوم هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حدتک تنھا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیزجملے کھا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جب کہ آپ بالکل تنھا تھے کیونکر آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رھے تھے۔ 

ایک اور روایت میں ھے کہ پیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس وقت قریش کے ھر قبیلے کا نام لے لے کر انھیں بلایا اور انھیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنی کعب انقذواانفسکم من النار “۔

اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے :  ”یا بنی عبد الشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے :  ”یابنی عبد المطلب انقذ وانفسکم النار “۔ تم خودھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نھیں کرسکوں گا ۔                              

ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم ، بیہقی ، ثعلبی اور طبری مورخ ابن اثیر نے یہ واقعہ اپنی کتاب ” کامل “ میں اور ” ابوالفداء “ نے اپنی تاریخ میں اور دوسرے بہت سے مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں اسے درج کیا ھے مزید آگاھی کے لئے کتاب” المرجعات “ص۱۳۰ کے بعد سے اور کتاب ”احقاق الحق“ ج۲، ص۶۲ ملاحظہ فرمائیں۔

ایمان ابوطالب

تمام علمائے شیعہ اور اھل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ نے اور”قسطلانی“ نے ارشاد الساری میں اور” زینی دحلان“ نے سیرةحلبی کے حاشیہ میں حضرت ابوطالب کو مومنین اھل اسلام میں سے بیان کیا ھے۔اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ھمیںاس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ھیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ھم گھرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ھیں کہ حضرت ابوطالب پرایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تھمیںکیوں لگائی گئیں ؟

جو شخص اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا کرتا تھا اور بار ھا خوداپنے فرزند کو پیغمبراسلام کے وجود مقدس کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنادیا کرتا تھا!!یہ کیسے هوسکتا ھے کہ اس پر ایسی تھمت لگائی جائے۔

یھی سبب ھے کہ دقت نظر کے ساتھ تحقیق کرنے والوں نے یہ سمجھا ھے کہ حضرت ابوطالب کے خلاف، مخالفت کی لھر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ھے جو ” شجرہٴ خبیثہٴ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداهوئی ھے۔

کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ھی نھیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی هو ،بلکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ھر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ھے ایسے ناجو انمردانہ حملوں سے نھیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نھیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔

ایمان ابو طالب پر سات دلیل

ھم یھاں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواھی دیتے ھیں کچھ دلائل مختصر طور پر فھرست وار بیان کرتے ھیں تفصیلات کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں جو اسی موضوع پر لکھی گئی ھیں۔

۱۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پھلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ھے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد  کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انهوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔

ان میں ایک واقعہ یہ ھے کہ جو نھیں قافلہ ”بحیرا“نامی راھب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا ،تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراھب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں، جن کی عمراس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔

بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہنے اور گھری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کھا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ھے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انهوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ھے۔

” بحیرا“ نے کھا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ھے، یہ وھی پیغمبر ھے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ھے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ھیں ۔

ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پھلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم   کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔

اھل سنت کے عالم شھرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء کی نقل کے مطابق: ”ایک سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اھل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو ابوطالب نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمد کو جو ابھی شیر خوارھی تھے لایاجائے، جب بچے کو اس حال میں کہ وہ ابھی کپڑے میں لپیٹا هوا تھا انھیں دیا گیا تو وہ اسے لینے کے بعد خانہٴ کعبہ کے سامنے کھڑے هوگئے اور تضرع وزاری کے ساتھ اس طفل شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور ھر مرتبہ کہتے تھے، پروردگارا، اس بچہ کے حق کا واسطہ ھم پر برکت والی بارش نازل فرما ۔

کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق کے کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار هوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا کہ یہ خوف پیدا هونے لگا کہ کھیں مسجد الحرام ھی ویران نہ هوجائے “۔

اس کے بعد شھرستانی لکھتا ھے کہ یھی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ هونے پر دلالت کرتا ھے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ھے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کھے تھے :

و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ       

ثمال الیتامی عصمة الارامل

” وہ ایسا روشن چھرے والا ھے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ھیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ھیں “

یلوذ بہ الھلاک من آل ھاشم            

فھم عندہ فی نعمة و فواضل

” بنی ھاشم میں سے جوچل بسے ھیں وہ اسی سے پناہ لیتے ھیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند هوتے ھیں ،،

ومیزان عدلہ یخیس شعیرة             

ووزان صدق وزنہ غیر ھائل

” وہ ایک ایسی میزان عدالت ھے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نھیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ھے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نھیں ھے “  

قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ هونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شھرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ھے ۔“[20]

اشعار ابوطالب زندہ گواہ

۲۔اس کے علاوہ مشهور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ھیں جو ھماری دسترس میں ھیں ان میں سے کچھ اشعار ھم ذیل میں پیش کررھے ھیں :

والله ان یصلوالیک بجمعھم              

حتی اوسدفی التراب دفینا 

”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میںنہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ھرگز ھرگز تجھ تک نھیں پہنچ سکیں گے“ 

فاصدع بامرک ماعلیک غضاضتہ        

وابشربذاک وقرمنک عیونا

”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔

ودعوتنی وعلمت انک ناصحی 

ولقد دعوت وکنت ثم امینا 

”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ھے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ھے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ھے“

ولقد علمت ان دین محمد(ص)

من خیر ادیان البریة دیناً 

” میں یہ بھی جانتا هوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ھے“۔

اور یہ اشعار بھی انهوں نے ھی ارشاد فرمائے ھیں :

الم تعلمواانا وجدنا محمد اً    

رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب 

” اے قریش !  کیا تمھیں معلوم نھیں ھے کہ محمد(  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ھیں جن کے آنے کی پیشین گوئی پھلی آسمانی کتابوں میں لکھی هوئی ھے اور ھم نے اسے پالیاھے“۔

وان علیہ فی العباد محبة               

ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب

” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ھیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا هو اس شخص سے یہ لگاؤبے موقع نھیں ھے۔“

ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شھر آشوب نے ” متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کھا ھے) کہتا ھے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ھمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔

۳۔ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل هوئی ھیں جو آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواھی دیتی ھیں منجملہ ان کے کتاب ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ھے کہ جب ابوطالب کی وفات هوگئی تو پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررھے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:

”ھائے میرے بابا!  ھائے ابوطالب !  میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین هوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے هونے پر میری دعوت پر لبیک کھی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہٴ چشم میں اور روح بدن میں“۔

نیز آپ ھمیشہ یہ کیا کرتے تھے :” مانالت منی قریش شیئًااکرھہ حتی مات ابوطالب “

”اھل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ هوگئی“۔

۴۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پھلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مھرو محبت کا اظھار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن هوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک مھرومحبت رکھیں۔

۵۔ان احادیث میں بھی کہ جو اھل بیت پیغمبر کے ذریعہ سے ھم تک پہنچی ھیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ھیں، جن کا یھاں نقل کرنا طول کا باعث هوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ھیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل هوئی ھے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:

”ان ھنا قوماً یزعمون انہ کافر“ ،  اس کے بعد فرمایاکہ:  ” تعجب کی بات ھے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ھیں کہ ابوطالب کا فرتھے۔ کیا وہ نھیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ھیں کیا ایسا نھیں ھے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ھے (اور یہ حکم دیا گیا ھے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نھیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ھے کہ فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ھیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رھیں۔“

ابوطالب تین سال تک شعب میں 

۶۔ان تمام باتوں کو چھوڑتے هوئے اگرانسان ھر چیز میں ھی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نھیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درجہٴ اول کے حامی ومددگار تھے ، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی هوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نھیں کیا جاسکتا ۔

اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ھے۔ تمام مورخین نے لکھا ھے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ھر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ھاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ھاتھ کھینچے رکھا اور بنی ھاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پھاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشهور تھا اور وھاں پر سکونت اختیار کر لی۔

ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ھر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مھیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان!  میں تو اسی حالت میں قتل هوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے!  بردباری اور صبر ھاتھ سے نہ چھوڑو، ھر زندہ موت کی طرف رواںدواں ھے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ھے ۔

یہ بات اور بھی طالب توجہ ھے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ھیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نھیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل هونے سے ڈرتاهوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم هوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ و تیار هوں۔

قارئین کرام !  ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنھری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ھمصدا هوکر کھے گا :

ولولا ابوطالب وابنہ                        لما مثل الدین شخصا وقاما 

فذاک بمکة آوی وحامی                 وھذا بیثرب جس الحماما

” اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ هوتے تو ھرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرتا ،ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“

ابوطالب کا سال وفات ”عام الحزن“

۷۔”ابوطالب کی تایخ زندگی، جناب رسالت مآب  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ ھم یھاں تک دیکھتے ھیں کہ حضرت ابوطالب کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ھیں کہ حضرت ابوطالب کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رھبر اور پیشوا کا تحفظ کررھا هو۔“

ابولھب کی دشمنی 

اس کانام ” عبدالعزی“ (عزی بت کا بندہ ) اور اس کی کنیت ”ابولھب“ تھی۔ اس کے لیے اس کنیت کا انتخاب شاید اس وجہ سے تھا کہ اس کا چھرہ سرخ اور بھڑکتا هوا تھا، چونکہ لغت میں لھب آگ کے شعلہ کے معنی میں ھے ۔ 

وہ اور اس کی بیوی ”ام جمیل“جو ابوسفیان کی بہن تھی ، پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نھایت بدزبان اور سخت ترین دشمنوں میں سے تھے ۔

”طارق محارق “ نامی ایک شخص کہتاھے : میں “ ذی المجاز “ کے بازار میں تھا ۔[21]

اچانک میں نے ایک جوان کو دیکھا جو پکار پکار کر کہہ رھا تھا: اے لوگو: لاالہ الا اللہ کا اقرار کر لو تو نجات پاجاؤگے ۔ اور اس کے پیچھے پیچھے میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اس کے پاؤں کے پچھلے حصہ پرپتھر مارتاجاتاھے جس کی وجہ سے اس کے پاؤں سے خون جاری تھا اوروہ چلا چلا کر کہہ رھاتھا ۔اے لوگو! یہ جھوٹاھے اس کی بات نہ ماننا “۔

میں نے پوچھا کہ یہ جوان کون ھے ؟ تو لوگوں نے بتایا :” یہ محمد،   ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھے جس کا گمان یہ ھے کہ وہ پیغمبر ھے اور یہ بوڑھا اس کا چچا ابولھب ھے جو جو اس کو جھوٹا سمجھتا ھے ۔                                   

”ربیع بن عباد“ کہتا ھے : میں اپنے باپ کے ساتھ تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھاکہ وہ  قبائل عرب کے پاس جاتے اور ھر ایک کو پکار کر کہتے : میں تمھاری طرف خدا کا بھیجا هوا رسول هوں : تم خدائے یگانہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ ۔

جب وہ اپنی بات سے فارغ هوجاتاتو ایک خوبرو بھینگا آدمی جو ان کے پیچھے پیچھے تھا، پکارکرکہتا : اے فلاں قبیلے : یہ شخص یہ چاہتاھے کہ تم لات وعزی بت اور اپنے ھم پیمان جنوں کو چھوڑدو اور اس کی بدعت وضلالت کی پیروی کرنے لگ جاؤاس کی نہ سننا، اور اس کی پیروی نہ کرنا “۔

میں نے پوچھا کہ یہ کون ھے ؟ تو انهوں نے بتایا کہ یہ ” اس کا چچا ابولھب ھے “۔ 

ابولھب پیغمبر کا پیچھا کرتارھا 

جب مکہ سے باھر کے لوگوں کا کوئی گروہ اس شھر میں داخل هوتا تھا تو وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے اس کی رشتہ داری اور سن وسال کے لحاظ سے بڑاهونے کی بناپر ابولھب کے پاس جاتاتھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں تحقیق کرتا تھا وہ جواب دیتا تھا: محمد ایک جادوگر ھے ،وہ بھی پیغمبر سے ملاقات کئے بغیر ھی لوٹ جاتے اسی اثناء میں ایک ایسا گروہ آیا جنهوں نے یہ کھا کہ ھم تو اسے دیکھے بغیر واپس نھیں جائیں گے ابولھب نے کھا : ”ھم مسلسل اس کے جنون کا علاج کررھے ھیں : وہ ھلاک هوجائے “۔

وہ اکثر مواقع پر سایہ کی طرح پیغمبر کے پیچھے لگارہتا تھا اور کسی خرابی سے فروگذاشت نہ کرتا تھا خصوصاً اس کی زبان بہت ھی گندی اور آلودہ هوتی تھی اور وہ رکیک اورچبھنے والی باتیں کیا کرتا تھا اور شاید اسی وجہ سے پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب دشمنوں کا سرغنہ شمار هوتا تھا اسی بناء پر قرآن کریم اس پر اور اس کی بیوی ام جمیل پر ایسی صراحت اور سختی کے ساتھ تنقید کررھاھے وھی ایک اکیلا ایسا شخص تھا جس نے پیغمبر اکرم سے بنی ھاشم کی حمایت کے عہد وپیمان پر دستخط نھیں کئے تھے اور اس نے آپ کے دشمنوں کی صف میں رہتے هوئے دشمنوں کے عہد وپیمان میں شرکت کی تھی۔

ابو لھب کے ھاتھ کٹ جائیں

”ابن عباس “سے نقل هوا ھے کہ جس وقت آیہٴ”ونذر عشیرتک الاقربین“۔نازل هوئی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے قریبی رشتہ داروں کو انذار کرنے اور اسلام کی دعوت دینے پر مامور هوئے،تو پیغمبرکوہ صفا پرآئے اور پکار کر کھا”یا صباحاہ“(یہ جملہ عرب اس وقت کہتے تھے جب ان پر دشمن کی طرف سے غفلت کی حالت میں حملہ هو جاتا تھاتا کہ سب کو با خبر کردیں اور وہ مقابلہ کے لیے کھڑے هو جائیں،لہٰذا کوئی شخص”یا صباحاہ“کہہ کر آواز دیتا تھا”صباح“کے لفظ کا انتخاب اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ عام طور پر غفلت کی حالت میں حملے صبح کے دقت کیے جاتے تھے۔

مکہ کے لوگوں نے جب یہ صدا سنی تو انهوں نے کھا کہ یہ کون ھے جو فریاد کررھا ھے۔ 

کھا گیا کہ یہ”محمد“  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھیں۔ کچھ لوگ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے قبائل عرب کو ان کے نام کے ساتھ پکارا۔ آپ کی آواز پر سب کے سب جمع هوگئے تو آپ نے ان سے فرما یا:

”مجھے بتلاؤ! اگر میں تمھیں یہ خبر دوں کہ دشمن کے سوار اس پھاڑ کے پیچھے سے حملہ کرنے والے ھیں،تو کیا تم میری بات کی تصدیق کروگے“۔

انهوں نے جواب دیا:”ھم نے آپ سے کبھی بھی جھوٹ نھیں سنا“۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا:

”انی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید“۔

”میں تمھیں خدا کے شدید عذاب سے ڈراتا هوں“۔

(”میں تمھیںتوحیدکا اقرار کرنے او ربتوں کو ترک کرنے کی دعوت دیتا هوں“)جب ابو لھب نے یہ بات سنی تو اس نے کھا:

”تبالک!اٴما جمعتنا الا لھذا؟!“۔

تو ھلاک هو جائے! کیا تو نے ھمیں صرف اس بات کے لیے جمع کیا ھے“؟

اس مو قع پر یہ سورہ نازل هوا :

<تبت یداا بی لھب وتب۔>[22]

اے ابو لھب! تو ھی ھلاک هو اور تیرے ھاتھ ٹوٹیں،تو ھی زیاں کار اور ھلاک هونے والاھے،اس کے مال وثروت نے اور جو کچھ اس نے کمایا ھے اس نے، اسے ھر گز کوئی فائدہ نھیں دیا اور وہ اسے عذاب الٰھی سے نھیں بچائے گا“۔

اس تعبیر سے معلوم هوتا ھے کہ وہ ایک دولت مند مغرور شخص تھا جواپنی اسلام دشمن کوششوں کے لئے اپنے مال ودولت پر بھروسہ کرتاتھا۔

بعدمیں قرآن مزیے کہتا ھے،”وہ جلدی ھی اس آگ میں داخل هوگا جس کے شعلے بھڑکنے والے ھیں“۔[23]

اگر اس کا نام ”ابو لھب“ھے تو اس کے لئے عذاب بھی”بو لھب“ھے یعنی اس کے لئے بھڑگتے هوئے آگ کے شعلہ ھیں۔

ایندھن اٹھائے هوئے 

قرآن کریم نے اس کے بعد اس کی بیوی ”ام جمیل “ کی کیفیت بیان کرتے هوئے فرمایاھے :”اس کی بیوی بھی جہنم کی بھڑکتی هوئی آگ میں داخل هوگی ، جو اپنے د وش پر ایندھن اٹھاتی ھے“۔ [24]

”اور اس کی گردن میں خرماکی چھال کی رسی یا گردن بند ھے “۔[25]

”فی جیدھا حبل من مسد“

”مسد“ (بروزن حسد) اس رسی کے معنی میں ھے جو کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ھے ۔ بعض نے یہ کھا ھے کہ ”مسد“ وہ رسی ھے جو جہنم میں اس کی گردن میں ڈالیںگے جس میں کھجور کے پتوں جیسی سختی هوگی اور اس میں آگ کی حرارت اور لوھے کی سنگینی هوگی ۔

بعض نے یہ بھی کھا ھے کہ چونکہ بڑے لوگوں کی عورتیں اپنی شخصیت کو آلات وزیورات خصوصا ًگردن کے قیمتی زیورات سے زینت دینے میں خاص بات سمجھتی ھیں ،لہٰذا خدا قیامت میں اس مضراوروخود پسند عورت کی تحقیر کے لیے لیف خرما کا ایک گردن بند اس کی گردن میں ڈال دے گایا یہ اصلا اس کی تحقیر سے کنایہ ھے ۔

بعض نے یہ بھی کھا ھے کہ اس تعبیر کے بیان کرنے کا سبب یہ ھے کہ ” ام جمیل “ کے پاس جواھرات کا ایک بہت ھی قیمتی گردن بند تھااور اس نے یہ قسم کھائی تھی کہ وہ اسے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دشمنی میں خرچ کرے گی لہٰذا اس کے اس کام کے بدلے میں خدا نے بھی اس کے لئے  ایسا عذاب مقرر کردیا ھے ۔

ابولھب کاعبرت ناک انجام

روایات میں آیا ھے کہ جنگ”بدر“اور سخت شکست کے بعد ،جو مشرکین قریش کو اٹھانی پڑی تھی ، ابولھب نے جوخود میدان جنگ میں شریک نھیں هوا تھا ،ابوسفیان کے واپس آنے پر اس ماجرے کے بارے میںسوال کیا،ابو سفیان کے قریش کے لشکر کی شکست اور سرکوبی کی کیفیت بیان کی، اس کے بعد اس نے مزید کھا :خدا کی قسم ھم نے اس جنگ میں آسمان وزمین کے درمیان ایسے سوار دیکھے ھیں جو محمد کی مدد کے لیے آئے تھے ۔

اس موقع پر” عباس “ کے ایک غلام ”ابورافع “نے کھا :میں وھاں بیٹھاهوا تھا ،میں نے اپنے ھاتھ بلند کیے اور کھا کہ وہ آسمانی فرشتے تھے ۔

اس سے ابولھب بھڑک اٹھا اور اس نے ایک زوردار تھپڑمیرے منہ پر دے مارا ، مجھے اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے مجھے پیٹے چلے جارھا تھا وھاں عباس کی بیوی”ام الفضل“ بھی موجود تھی اس نے ایک چھڑی اٹھائی اور ابولھب کے سرپر دے ماری اور کھا :”کیا تونے اس کمزور آدمی کو اکیلاسمجھا ھے ؟“

ابولھب کا سرپھٹ گیا اور اس سے خون بہنے لگا سات دن کے بعد اس کے بدن میں بدبو پیدا هوگئی ، اس کی جلد میں طاعون کی شکل کے دانے نکل آئے اور وہ اسی بیماری سے واصل جہنم هوگیا ۔

اس کے بدن سے اتنی بدبو آرھی تھی کہ لوگ اس کے نزدیک جانے کی جرات نھیں کرتے تھے وہ اسے مکہ سے باھر لے گئے اور دور سے اس پر پانی ڈالا اور اس کے بعد اس کے اوپر پتھر پھینکے یھاں تک کہ اس کا بدن پتھروں اور مٹی کے نیچے چھپ گیا ۔

ابوسفیا ن وابوجھل چھپ کر قرآن سنتے ھیں 

ایک شب ابوسفیان ،ابوجھل اور مشرکین کے بہت سے دوسرے سردارجدا گانہ طور پر اور ایک دوسرے سے چھپ کر آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے قرآن سننے کے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے میں مشغول تھے اور ھر ایک ، ایک دوسرے سے بالکل بے خبر علیحدہ علیحدہ مقامات پر چھپ کر بیٹھ گئے چنانچہ وہ رات گئے تک قرآن سنتے رھے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح کی سفیدی نمودار هوچکی تھی ۔اتفاق سے سب نے واپسی کے لیے ایک ھی راستے کا انتخاب کیا اور ان کی اچانک ایک دوسرے سے ملاقات هوگئی اور ان کا بھانڈا وھیں پر پھوٹ گیا انھوں نے ایک دوسرے کوملامت کی اور اس بات پر زوردیا کہ آئندہ ایسا کام نھیں کریںگے ، اگر نا سمجھ لوگوں کو پتہ چل گیا تو وہ شک وشبہ میں پڑجائیں گے ۔

دوسری اور تیسری رات بھی ایسا ھی اتفاق هوا اور پھروھی باتیں دھرائی گئیں اور آخری رات تو انھوں نے کھا جب تک اس بات پر پختہ عہد نہ کرلیں اپنی جگہ سے ھلیں نھیں چنانچہ ایسا ھی کیا گیا اور پھر ھر ایک نے اپنی راہ لی ۔اسی رات کی صبح اخنس بن شریق نامی ایک مشرک اپنا عصالے کر سیدھا ابوسفیان کے گھر پہنچا اور اسے کھا : تم نے جو کچھ محمدسے سناھے اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ھے ؟

اس نے کھا:خدا قسم : کچھ مطالب ایسے سنے ھیں جن کا معنی ٰبخوبی سمجھ سکاهوں اور کچھ مسائل کی مراد اور معنیٰ کو نھیںسمجھ سکا ۔ اخنس وھاںسے سیدھا ابوجھل کے پاس پہنچا اس سے بھی وھی سوال کیا : تم نے جو کچھ محمد سے سنا ھے اس کے بارے میں کیا کہتے هو ؟                 

ابوجھل نے کھا :سناکیاھے، حقیقت یہ ھے کہ ھماری اور اولاد عبدمناف کی قدیم زمانے سے رقابت چلی آرھی ھے انھوں نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، ھم نے بھی کھلایا ، انھوں نے پیدل لوگوں کو سواریاں دیں ھم نے بھی دیں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ کیا، سوھم نے بھی کیا گویا ھم دوش بدوش آگے بڑھتے رھے۔جب انھوں نے دعویٰ کیا ھے کہ ان کے پاس وحی آسمانی بھی آتی ھے تو اس بارے میں ھم ان کے ساتھ کس طرح برابری کرسکتے ھیں ؟ اب جب کہ صورت حال یہ ھے تو خداکی قسم !ھم نہ تو کبھی اس پر ایمان لائیں گے اور نہ ھی اس کی تصدیق کریں گے ۔اخنس نے جب یہ بات سنی تو وھاں سے اٹھ کر چلاگیا [26]

جی ھاں: قرآن کی کشش نے ان پر اس قدرا ثرکردیا کہ وہ سپیدہٴ صبح تک اس الٰھی کشش میں گم رھے لیکن خود خواھی ، تعصب اور مادی فوائدان پر اس قدر غالب آچکے تھے کہ انھوں نے حق قبول کرنے سے انکار کردیا ۔اس میں شک نھیں کہ اس نورالٰھی میں اس قدر طاقت ھے کہ ھر آمادہ دل کو وہ جھاں بھی هو، اپنی طرف جذب کرلیتا ھے یھی وجہ ھے کہ اس (قرآن)کا ان آیات میں ”جھاد کبیر“ کہہ کر تعارف کروایا گیا ھے۔[27]

ایک اور روایت میں ھے کہ ایک دن ”اخنس بن شریق“ کا ابوجھل سے آمناسامنا هوگیا جب کہ وھاں پر اور کوئی دوسرا آدمی موجود نھیںتھا۔تو اخنس نے اس سے کھا :سچ بتاؤ محمد سچاھے ،یاجھوٹا ؟قریش میں سے کوئی شخص سوامیرے اور تیرے یھاں موجود نھیں ھے جو ھماری باتوں کو سنے ۔

ابوجھل نے کھا: وائے هو تجھ پر خداکی قسم !وہ میرے عقیدے میں سچ کہتا ھے اور اس نے کبھی جھوٹ نھیں بولا لیکن اگر یہ اس بات کی بناهو جائے کہ محمد کا خاندان سب چیزوں کو اپنے قبضہ میں کرلے، حج کا پرچم ، حاجیوں کو پانی پلانا،کعبہ کی پردہ داری اور مقام نبوت تو باقی قریش کے لئے کیا باقی رہ جائےگا۔ [28]

اسلام کے پھلے مھاجرین 

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اور عمومی دعوت کے ابتدائی سالوں میں مسلمان بہت ھی کم تعداد میں تھے قریش نے قبائل عرب کو یہ نصیحت کررکھی تھی کہ ھر قبیلہ اپنے قبیلہ کے ان لوگوں پر کہ جو پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لاچکے ھیں انتھائی سخت دباؤڈالیں اور اس طرح مسلمانوں میں سے ھر کوئی اپنی قوم وقبیلہ کی طرف سے انتھائی سختی اور دباؤمیں مبتلا تھا اس وقت مسلمانوں کی تعداد جھادآزادی شروع کرنے کے لئے کافی نھیں تھی ۔پیغمبراکرم نے اس چھوٹے سے گروہ کی حفاظت اور مسلمانوں کے لئے حجاز سے باھر قیام گاہ مھیاکرنے کے لئے انھیں ہجرت کا حکم دے دیا اور اس مقصد کےلئے حبشہ کو منتخب فرمایا اور کھا کہ وھاں ایک نیک دل بادشاہ ھے جو ظلم وستم کرنے سے اجتناب کرتا ھے ۔ تم وھاں چلے جاؤ یھاں تک کہ خداوند تعالیٰ کوئی مناسب موقع ھمیں عطافرمائے۔پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد نجاشی سے تھی (نجاشی ایک عام نام تھا جیسے ”کسریٰ“ جو حبشہ کے تمام بادشاهوں کا خاص لقب تھا لیکن اس نجاشی کا اصل نام جو پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ھم عصر تھا اصحمہ تھا جو کہ حبشہ کی زبان میں عطیہ وبخشش کے معنی میں ھے )۔

مسلمانوں میں سے گیارہ مرداور چار عورتیں حبشہ جانے کے لئے تیار هوئے اور ایک چھوٹی سی کشتی کرایہ پر لے کر بحری راستے سے حبشہ جانے کے لئے روانہ هوگئے ۔یہ بعثت کے پانچویں سال ماہ رجب کا واقعہ ھے ۔کچھ زیادہ عرصہ نھیں گزراتھا کہ جناب جعفر بن ابوطالب بھی مسلمانوںکے ایک دوسرے گروہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے ۔ اب اس اسلامی جمعیت میں ۸۲مردوں علاوہ کافی تعداد میں عورتیںاور بچے بھی تھے ۔

مشرکین ،مھاجرین کی تعقیب میں 

اس ہجرت کی بنیادبت پرستوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھی کیونکہ دہ اچھی طرح سے دیکھ رھے تھے کہ کچھ زیادہ عرصہ نھیں گزرے گا کہ وہ لوگ جو تدریجاً اسلام کو قبول کرچکے ھیں اور حبشہ کی سرزمین امن وامان کی طرف چلے گئے ھیں ، مسلمانوں کی ایک طاقتور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے یہ حیثیت ختم کرنے کے لئے انهوں نے کام کرنا شروع کردیا اس مقصد کے لئے انهوں نے جوانوں میں سے دوهوشیار، فعال، حیلہ باز اور عیار جوانوں یعنی عمروبن عاص اور عمارہ بن ولید کا انتخاب کیا بہت سے ہدیے دے کر ان کو حبشہ کی طرف روانہ کیا گیا ،ان دونوں نے کشتی میں بیٹھ کر شراب پی اور ایک دوسرے سے لڑپڑے لیکن آخرکار وہ اپنی سازش کو روبہ عمل لانے کے لئے سرزمین حبشہ میں داخل هوگئے ۔ ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد وہ نجاشی کے دربار میں پہنچ گئے ،دربار میں باریاب هونے سے پھلے انهوں نے نجاشی  کے درباریوں کو بہت قیمتی ہدیے دے کران کو اپنا موافق بنایا تھا اور ان سے اپنی طرفداری اور تائید کرنے کا وعدہ لے لیا تھا ۔

” عمروعاص “ نے اپنی گفتگو شروع کی اور نجاشی سے اس طرح ھمکلام هوا: 

ھم سرداران مکہ کے بھیجے هوئے ھیں ھمارے درمیان کچھ کم عقل جوانوں نے مخالفت کا علم بلند کیا ھے اور وہ اپنے بزرگوںکے دین سے پھر گئے ھیں،اور ھمارے خداؤں کو برابھلا کہتے ھیں ،انهوں نے فتنہ وفساد برپا کردیا ھے لوگوں میں نفاق کا بیچ بودیا ھے ،آپ کی سرزمین کی آزادی سے انهوں نے غلط فائدہ اٹھایا ھے اور انهوں نے یھاں آکر پناہ لے لی ھے ، ھمیں اس بات کا خوف ھے کہ وہ یھاں بھی خلل اندازی نہ کریں بہتریہ ھے کہ آپ انھیں ھمارے سپرد کردیں تاکہ ھم انھیں اپنی جگہ واپس لے جائیں ۔ 

یہ کہہ کر ان لوگوں نے وہ ہدئیے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے پیش کیے ۔

نجاشی نے کھا : جب تک میں اپنی حکومت میں پناہ لینے والوں کے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے میں کوئی بات نھیں کرسکتا اور چونکہ یہ ایک مذھبی بحث ھے لہٰذا ضروری ھے کہ تمھاری موجودگی میںمذھبی نمائندوں کوبھی ایک جلسہ میں دعوت دی جائے ۔

جعفربن ابی طالب مھاجرین کے بہترین خطیب 

چنانچہ دوسرے دن ایک اھم جلسہ منعقد هوا، اس میں نجاشی کے مصاحبین اور عیسائی علماء کی ایک جماعت شریک تھی جعفر بن ابی طالب مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے موجود تھے اور قریش کے نمائندے بھی حاضر هوئے نجاشی نے قریش کے نمائندوں کی باتیں سننے کے بعد جناب جعفر کی طرف رخ کیا اور ان سے خواہش کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظربیان کریں جناب جعفرا دائے احترام کے بعد اس طرح گویا هوئے : پھلے ان سے پوچھیے کہ کیا ھم ان کے بھاگے هوئے غلاموں میں سے ھیں ؟

عمرو نے کھا :نھیں بلکہ آپ آزاد ھیں ۔

جعفر: ان سے یہ بھی پوچھئے کہ کیا ان کا کوئی قرض ھمارے ذمہ ھے کہ جس کا وہ ھم سے مطالبہ کرتے ھیں ؟

عمرو : نھیں ھمارا آپ سے ایسا کوئی مطالبہ نھیں ھے ۔ 

جعفر: کیا ھم نے تمھارا کوئی خون بھایا ھے کہ جس کا ھم سے بدلہ لینا چاہتے هو ؟

عمرو:نھیں ایسا کچھ نھیں ھے؟

جعفر: تو پھر تم ھم سے کیا چاہتے هو ؟تم نے ھم پر اتنی سختیاں کیں اور اتنی تکلیفیں پہنچائیں اور ھم تمھاری سرزمین سے جو سراسر مرکز ظلم وجور تھی باھر نکل آئے ھیں ۔

اس کے بعد جناب جعفر نے نجاشی کی طرف رخ کیا اور کھا : ھم جاھل اور نادان تھے، بت پرستی کرتے تھے ،مردار کا گوشت کھاتے تھے ، طرح طرح کے برے اور شرمناک کام انجام دیتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے ، اپنے ھمسایوں سے براسلوک کرتے تھے اور ھمارے طاقتور کمزوروں کے حقوق ہڑپ کرجاتے تھے ۔ لیکن خدا وند تعالیٰ نے ھمارے درمیان ایک پیغمبر کو معبوث فرمایا، جس نے ھمیں حکم دیا کہ ھم خدا کا کوئی مثل اورشریک نہ بنائیں اور فحشاء ومنکر، ظلم وستم اور قماربازی ترک کردیں ھمیں حکم دیا کہ ھم نماز پڑھیں ، زکوٰةادا کریں ، عدل واحسان سے کام لیں اور اپنے وابستگان کی مدد کریں ۔

نجاشی نے کھا : عیسیٰ مسیح علیہ السلام بھی انھی چیزوں کے لئے مبعوث هوئے تھے ۔

اس کے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آیات میں سے جو تمھارے پیغمبر پر نازل هوئی ھیں کچھ تھمیں یاد ھیں ۔جعفرنے کھا : جی ھاں : اور پھر انهوں نے سورہ ٴمریم کی تلاوت شروع کردی ،اس سورہ کی ایسی ھلادینے والی آیات کے ذریعہ جو مسیح علیہ السلام اور ان کی ماں کو ھر قسم کی نارو اتھمتوں سے پاک قراردیتی ھیں ، جناب جعفر کے حسن انتخاب نے عجیب وغریب اثر کیا یھاں تک کہ مسیحی علماء کی آنکھوں سے فرط شوق میں آنسو بہنے لگے اور نجاشی نے پکار کر کھا : خدا کی قسم : ان آیات میں حقیقت کی نشانیاں نمایاں ھیں۔

جب عمرنے چاھا کہ اب یھاں کوئی بات کرے اور مسلمانوں کو اس کے سپرد کرنے کی درخواست کرے ، نجاشی نے ھاتھ بلند کیا اور زور سے عمرو کے منہ پر مارا اور کھا: خاموش رهو، خدا کی قسم ! اگر ان لوگوں کی مذمت میں اس سے زیادہ کوئی بات کی تو میں تجھے سزادوں گا ،یہ کہہ کر مامورین حکومت کی طرف رخ کیا اور پکار کر کھا : ان کے ہدیے ان کو واپس کردو اور انھیں حبشہ کی سرزمین سے باھر نکال دو جناب جعفر اور ان کے ساتھیوں سے کھا : تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسر کرو ۔

اس واقعہ نے جھاں جعفر اور ان کے ساتھیوں سے کھا تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسرکرو۔[29]

اس واقعہ نے جھاں حبشہ کے کچھ لوگوں پر اسلام شناسی کے سلسلے میں گھرا تبلیغی اثر کیا وھاں یہ واقعہ اس بات کا بھی سبب بنا کہ مکے کے مسلمان اس کو ایک اطمینان بخش جائے پناہ شمارکریں اور نئے مسلمان هونے والوں کو اس دن کے انتظارمیں کہ جب وہ کافی قدرت و طاقت حاصل کریں ،وھاں پر بھیجتے رھیں ۔

فتح خیبرکی زیادہ خوشی ھے یا جعفرکے پلٹنے کی 

کئی سال گزر گئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ہجرت فرماگئے اور اسلام روزبروز ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا،عہدنامہ حدیبیہ لکھا گیا اور پیغمبر اکرم فتح خیبرکی طرف متوجہ هوئے اس وقت جب کہ مسلمان یهودیوں کے سب سے بڑے اور خطر ناک مرکز کے لوٹنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ پھولے نھیں سماتے تھے، دور سے انهوں نے ایک مجمع کو لشکر اسلام کی طرف آتے هوئے دیکھا ،تھوڑی ھی دیر گزری تھی کہ معلوم هواکہ یہ وھی مھاجرین حبشہ ھیں ، جو آغوش وطن میں پلٹ کر آرھے ھیں ،جب کہ دشمنوں کی بڑی بڑی طاقتیںد م توڑچکی ھیں اور اسلام کا پودا اپنی جڑیںکافی پھیلا چکا ھے ۔ 

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے جناب جعفراور مھا جرین حبشہ کو دیکھ کر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: 

”میں نھیں جانتا کہ مجھے خیبر کے فتح هونے کی زیادہ خوشی ھے یا جعفر کے پلٹ آنے کی “ 

کہتے ھیں کہ مسلمانوں کے علاوہ شامیوں میں سے آٹھ افراد کہ جن میں ایک مسیحی راھب بھی تھا اور ان کا اسلام کی طرف شدید میلان پیدا هوگیا تھاپیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرهو ئے اور انهوں نے سورہٴ یٰسین کی کچھ آیات سننے کے بعد رونا شروع کردیا اور مسلمان هوگئے اور کہنے لگے کہ یہ آیات مسیح علیہ السلام کی سچی تعلیمات سے کس قدر مشابہت رکھتی ھیں ۔

اس روایت کے مطابق جو تفسیر المنار، میں سعید بن جبیر سے منقول ھے نجاشی نے اپنے یارو انصار میں سے تیس بہترین افراد کوپیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دین اسلام کے ساتھ اظھار عقیدت کے لئے  مدینہ بھیجا تھا اور یہ وھی تھے جو سورہٴ یٰسین کی آیات سن کر روپڑے تھے اور اسلام قبول کرلیا تھا۔

معراج رسول (ص)

علماء اسلام کے درمیان مشهور یہ ھے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ میں تھے تو ایک ھی رات میں آپ قدرت الٰھی سے مسجد الحرام سے اقصٰی پہنچے کہ جو بہت المقدس میں ھے ، وھاں سے آپ آسمانوں کی طرف گئے ، آسمانی دسعتوں میں عظمت الٰھی کے آثار مشاہدہ کئے اور اسی رات مکہ واپس آگئے ۔

نیزیہ بھی مشهور ھے کہ یہ زمینی اور آسمانی سیر جسم اور روح کے ساتھ تھی البتہ یہ سیر چونکہ بہت عجیب غریب اور بے نظیر تھی لہٰذا بعض حضرات نے اس کی توجیہ کی اور اسے معراج روحانی قرار دیا اور کھا کہ یہ ایک طرح کا خواب تھایا مکا شفہ روحی تھا لیکن جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں یہ بات قرآن کے ظاھری مفهوم کے بالکل خلاف ھے کیونکہ ظاھرقر آن اس معراج کے جسمانی هونے کی گواھی دیتا ھے ۔

معراج کی کیفیت قرآن و حدیث کی نظر سے

قرآن حکیم کی دوسورتوں میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ھے پھلی سورت بنی اسرائیل ھے اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ھے ۔ (یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجد الاقصٰی تک کا سفر) اس سلسلے کی دوسری سورت ۔ سورہٴ نجم ھے اس کی آیت ۱۳ تا ۱۸ میں معراج کا دوسرا حصہ بیان کیا گیا ھے اور یہ آسمانی سیر کے متعلق ھے ارشاد هوتا ھے :

ان چھ آیات کا مفهوم یہ ھے : رسول اللہ نے فرشتہ وحی جبرئیل کو اس کو اصلی صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا (پھلے آپ اسے نزول وحی کے آغاز میں کوہ حرا میں دیکھ چکے تھے) یہ ملاقات بہشت جاوداں کے پاس هوئی ، یہ منظر دیکھتے هوئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی اشتباہ کا شکار نہ تھے آپ نے عظمت الٰھی کی عظیم نشانیاں مشاہدہ کیں۔

یہ آیات کہ جو اکثر مفسرین کے بقول واقعہٴ معراج سے متعلق ھیں یہ بھی نشاندھی کرتی ھیں کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا خصوصا “مازاغ البصروماطغی“ اس امر کا شاہد ھے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھ کسی خطا واشتباہ اور انحراف سے دوچار نھیں هوئی ۔

اس واقعے کے سلسلے میں مشهور اسلامی کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل هوئی ھیں ۔

علماء اسلام نے ان روایات کے تو اتر اور شھرت کی گواھی دی ھے ۔[30]

معراج کی تاریخ

واقعہٴ معراج کی تاریخ کے سلسلے میں اسلامی موٴرخین کے درمیان اختلاف ھے بعض کا خیال ھے کہ یہ واقعہ بعثت کے دسویں سال ۲۷ رجب کی شب پیش آیا، بعض کہتے ھیں کہ یہ بعثت کے بارهویں سال ۱۷رمضان المبارک کی رات وقوع پذیر هوا جب کہ بعض اسے اوائل بعثت میں ذکر کرتے ھیں لیکن اس کے وقوع پذیر هونے کی تاریخ میں اختلاف،اصل واقعہ پر اختلاف میں حائل نھیں هوتا ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ھے کہ صر ف مسلمان ھی معراج کا عقیدہ نھیں کھتے بلکہ دیگرادیان کے پیروکار وں میں بھی کم و بیش یہ عقیدہ پایا جاتا ھے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ عجیب تر صورت میں نظر آتا ھے جیسا کہ انجیل مرقس کے باب ۶لوقاکے باب ۲۴اور یوحنا کے باب ا۲میں ھے:

عیسٰی علیہ السلام مصلوب هونے کے بعد دفن هوگئے تو مردوں میں سے اٹھ کھڑے هوئے ،اور چالیس روز تک لوگوں میں موجود رھے پھر آسمان کی طرف چڑھ گئے ( اور ھمیشہ کے لئے معراج پر چلے گئے )                                      

ضمناً یہ وضاحت بھی هوجائے کہ بعض اسلامی روایات سے بھی معلوم هوتا ھے کہ بعض گزشتہ انبیاء کو بھی معراج نصیب هوئی تھی ۔

پیغمبرگرامی  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے یہ آسمانی سفر چند مرحلوں میں طے کیا۔

پھلا مرحلہ،مسجدالحرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیانی فاصلہ کا مرحلہ تھا، جس کی طرف سورہٴ اسراء کی پھلی آیت میں اشارہ هوا ھے: ”منزہ ھے وہ خدا جو ایک رات میں اپنے بندہ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا“۔ بعض معتبر روایات کے مطابق آپ نے اثناء راہ میں جبرئیل(ع) کی معیت میں سر زمین مدینہ میںنزول فرمایا او روھاں نماز پڑھی ۔

او رمسجد الاقصیٰ میں بھی ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ علیھم السلام انبیاء کی ارواح کی موجود گی میں نماز پڑھی اور امام جماعت پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، اس کے بعد وھاں سے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آسمانی سفر شروع هوا، اور آپ نے ساتوں آسمانوںکو یکے بعد دیگرے عبور کیا او رھر آسمان میں ایک نیاھی منظر دیکھا ، بعض آسمانوں میں پیغمبروں اور فرشتوں سے، بعض آسمانوں میں دوزخ او ردوزخیوں سے اور بعض میں جنت اور جنتیوں سے ملاقات کی ،او رپیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ان میں سے ھر ایک سے بہت سی تربیتی اور اصلاحی قیمتی باتیں اپنی روح پاک میں ذخیرہ کیں اور بہت سے عجائبات کا مشاہدہ کیا جن میں سے ھر ایک عالم ہستی کے اسرار میں سے ایک راز تھا، اور واپس آنے کے بعد ان کو صراحت کے ساتھ اور بعض اوقا ت کنایہ اور مثال کی زبان میں امت کی آگاھی کے لئے مناسب فرصتوں میں بیان فرماتے تھے، اور تعلیم وتربیت کے لئے اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے تھے۔

یہ امر اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ اس آسمانی سفر کا ایک اھم مقصد،ان قیمتی مشاہدات کے تربیتی و عرفانی نتائج سے استفادہ کرنا تھا،اور قرآن کی یہ پر معنی تعبیر”لقد رایٰ من آیات ربہ الکبریٰ “[31]                                                         

ان تمام امور کی طرف ایک اجمالی اور سربستہ اشارہ هو سکتی ھے۔

البتہ جیسا کہ ھم بیان کرچکے ھیں کہ وہ بہشت اور دوزخ جس کو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے سفر معراج میں مشاہدہ کیا اور کچھ لوگوں کو وھاں عیش میں اور عذاب میں دیکھا ، وہ قیامت والی جنت اور دوزخ نھیں تھیں ، بلکہ وہ برزخ والی جنت ودوزخ تھیں ، کیونکہ قرآن مجیدکے مطابق جیسا کہ کہتا ھے کہ قیامت والی جنت ودوزخ قیام قیامت اور حساب وکتاب سے فراغت کے بعد نیکو کاروں اور بدکاروں کو نصیب هوگی ۔

آخر کار آپ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے ، وھاں نور کے بہت سے حجابوں کا مشاہدہ کیا ، وھی جگہ جھاں پر ”سدرة المنتھیٰ“ اور” جنة الماٴویٰ“ واقع تھی، اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جھان سراسر نوروروشنی میں، شهود باطنی کی اوج، اور قرب الی اللہ اور مقام ” قاب قوسین اوادنی“پر فائز هوئے اور خدا نے اس سفر میں آپ کو مخالب کرتے هوئے بہت سے اھم احکام دیئے اور بہت سے ارشادات فرمائے جن کا ایک مجموعہ اس وقت اسلامی روایات میں” احادیث قدسی “ کی صورت میں ھمارے لئے یادگار رہ گیا ھے ۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ بہت سی روایات کی تصریح کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس عظیم سفر کے مختلف حصوں میں اچانک علی علیہ السلام کو اپنے پھلو میں دیکھا، اور ان روایات میں کچھ ایسی تعبیریں نظر آتی ھیں، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد علی علیہ السلام کے مقام کی حد سے زیادہ عظمت کی گواہ ھیں ۔

معراج کی ان سب روایات کے باوجود کچھ ایسے پیچیدہ اور اسرار آمیز جملے ھیں جن کے مطالب کو کشف کرنا آسان نھیں ھے، اور اصطلاح کے مطابق روایات متشابہ کا حصہ ھیں یعنی ایسی روایات جن کی تشریح کوخود معصومین علیھم السلام کے سپرد کردینا چاہئے ۔[32]

ضمنی طورپر، معراج کی روایات اھل سنت کی کتابوں میں بھی تفصیل سے آئی ھیں،اور ان کے راویوں میں سے تقریباً ۳۰افراد نے حدیث معراج کو نقل کیا ھے۔                              یھاں یہ سوال سامنے آتاھے : یہ اتنا لمبا سفر طے کرنا اور یہ سب عجیب اور قسم قسم کے حادثات، اور یہ ساری لمبی چوڑی گفتگو ، اور یہ سب کے سب مشاہدات ایک ھی رات میں یاایک رات سے بھی کم وقت میں کس طرح سے انجام پاگئے ؟

لیکن ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح هوجاتاھے ، سفر معراج ھرگز ایک عام سفر نھیں تھا ، کہ اسے عام معیاروں سے پرکھاجائے نہ تو اصل سفر معمولی تھا اور نہ ھی آپ کی سواری معمولی اور عام تھی،نہ آپ کے مشاہدات عام اور معمولی تھے اور نہ ھی آپ کی گفتگو ، اور نہ ھی وہ پیمانے جواس میں استعمال هوئے، ھمارے کرہٴ خاکی کے محدود اور چھوٹے پیمانوں کے مانند تھے، اور نہ ھی وہ تشبیھات جواس میں بیان هوئی ھیں ان مناظر کی عظمت کو بیان کرسکتی ھیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مشاہدہ کیے ، تمام چیزیں خارق العادت صورت میں ، اور اس مکان وزمان سے خارج هونے کے پیمانوں میں، جن سے ھم آشنا نھیں، واقع هوئیں ۔

اس بناپر کوئی تعجب کی بات نھیں ھے کہ یہ امور ھمارے کرہٴ زمین کے زمانی پیمانوں کے ساتھ ایک رات یا ایک رات سے بھی کم وقت میں واقع هوئے هوں۔[33]

معراج جسمانی تھی یاروحانی ؟

شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے درمیان مشهور ھے کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں صورت پذیر هوا، سورہ بنی اسرائیل کی پھلی آیت اور سورہ نجم کی مذکورہ آیات کا ظاھری مفهوم بھی اس امر کا شاہد ھے کہ یہ واقعہ بیداری کی حالت میں پیش آیا ۔

تواریخ اسلامی بھی اس امرپر شاہد وصادق ھیں،تاریخ کہتی ھے : جس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے واقعہٴ معراج کا ذکر کیا تو مشرکین نے شدت سے اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بھانہ بنالیا۔                                     

یہ بات گواھی دیتی ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھرگز خواب یا مکا شفہٴ روحانی کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اس قدر شور وغوغا نہ کرتے ۔

یہ جو حسن بصری سے روایت ھے کہ : ”یہ واقعہ خواب میں پیش آیا “۔

اور اسی طرح جو حضرت عائشہ سے روایت ھے کہ : ”خداکی قسم بدن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھم سے جدا نھیں هوا صرف آپ کی روح آسمان پر گئی“ ایسی روایات ظاھر ًاسیاسی پھلو رکھتی ھیں ۔

معراج کا مقصد

گزشتہ مباحث پر غور کرنے سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ معراج کا مقصد یہ نھیں کہ رسول اکرم  دیدار خدا کے لئے آسمانوں پر جائیں، جیسا کہ سادہ لوح افرادخیال کرتے ھیں، افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ بعض مغربی دانشور بھی ناآگاھی کی بناء پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چھرہ بگاڑکر پیش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ھیں ان میں سے ایک مسڑ” گیور گیو“ بھی ھیں وہ بھی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ھیںجنھیں پھرسے پہچاننا چاہئے“[34] میں کہتے ھیں:

”محمد اپنے سفر معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انھیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی، انهوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوںکے حساب کتاب میں مشغول ھے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سننے تھے مگر انھیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نھیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ھی کیوں نہ هوں“یہ عبارت نشاندھی کرتی ھے کہ قلم لکڑی کا تھا، ایسا کہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتاتھا اور آواز پیدا کرتا تھا، اسی طرح کی اور بہت سارے خرافات اس میں موجود ھیں “۔ جب کہ مقصد معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات میں بالخصوص عالم بالا میں موجود عظمت الٰھی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت ورھبری کے لئے ایک نیا ادراک اور ایک نئی بصیرت حاصل کریں ۔                               

یہ ھدف واضح طورپر سورہٴ بنی اسرائیل کی پھلی آیت اور سورہٴ نجم کی آیت ۱۸ میں بیان هوا ھے۔

امام صادق علیہ السلام سے مقصد معراج پوچھاگیا تو آپ نے فرمایا :

”خدا ھرگز کوئی مکان نھیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتاھے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باسیوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انھیں آپ کی زیارت کا شرف عطاکرے نیزآپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکر آپ انھیں لوگوں سے بیان کریں“۔ 

معراج اور سائنس 

گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح تہہ بہ تہہ ایک دوسرے کے اوپر ھیں واقعہٴ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یھی نظریہ تھا ان کے خیال میں اس طرح تویہ ماننا پڑتا ھے کہ آسمان شگافتہ هوگئے اور پھر آپس میں مل گئے۔[35]

لیکن” بطلیموسی “نظریہ ختم هو گیا تو آسمانوںکے شگافتہ هونے کا مسئلہ ختم هوگیا البتہ علم ہئیت میں جو ترقی هوئی ھے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابھر ے ھیں مثلاً؛

۱)ایسے فضائی سفر میں پھلی بار رکاوٹ کشش ثقل ھے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ھے کیونکہ زمین کے مداراور مرکز ثقل سے نکلنے کے لئے کم از کم چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ھے ۔

۲)دوسری رکاوٹ یہ ھے کہ زمین کے باھر خلا میں هوا نھیں ھے جبکہ هوا کے بغیر انسان زندہ نھیں رہ سکتا ۔                                     

۳)تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصہ میں سورج کی جلادینے والی تپش ھے جبکہ جس حصہ پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑرھی ھے اور اسی طرح اس حصے میں جان لیوا سردی ھے جس میں سورج کی روشنی نھیں پڑرھی ھے۔

۴) اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطرناک شعاعیں ھیں کہ جو فضا ئے زمین کے اوپر موجود ھیں مثلا کا  سمک ریز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ریز ultra violet ravsاور ایکس ریز x ravsیہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم otganismکے لئے نقصان دہ نھیں ھیں لیکن فضائے زمین کے باھر یہ شعاعیں بہت تباہ کن هوتی ھیں (زمین پر رہنے والوں کے لئے زمین کے اوپر موجود فضاکی وجہ سے ان کی تپش ختم هوجاتی ھے )

۵) ایک اور مشکل اس سلسلہ میں یہ ھے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار هوجاتا ھے اگرچہ تدریجاًبے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ھے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمھید کے خلا میں جا پہنچیں تو بےوزنی سے نمٹنا بہت ھی مشکل ھے ۔

۶) آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ھے اور یہ نھایت اھم رکاوٹ ھے کیونکہ دورحاضر کے سانٴسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ھر چیز سے زیادہ ھے اور اگر کوئی آسمانوں کی سیر کرنا چاھے تو ضروری هو گاکہ اس کی رفتار سے زیادہ هو ۔

ان سوالات کے پیش نظر چندچیزوں پر توجہ

ان امور کے جواب میں ان نکات کی طرف توجہ ضروری ھے ۔

۱۔ھم جانتے ھیں کہ فضائی سفر کی تمام تر مشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ھے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل هوچکی ھیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ھے ۔

۲۔اس میں شک نھیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پھلو نھیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناھی قدرت و طاقت کے ذریعے صورت پذیر هوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے زیادہ واضح الفاظ میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ معجزہ عقلاً محال نھیں هونا چاہئے اور جب معجزہ بھی عقلاً ممکن ھے ، توباقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل هوجاتے ھیں ۔

جب انسان یہ طاقت رکھتا ھے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے جو زمینی مرکز ثقل سے باھر نکل سکتی ھیں ، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باھر کی هولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور ایسے لباس تیار کرلے کہ جو اسے انتھائی زیادہ گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ سکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ،یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ھے تو پھر کیا اللہ اپنی لا محدود طاقت کے ذریعہ یہ کام نھیں کرسکتا ؟

ھمیں یقین ھے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لئے انتھائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفرمیں در پیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے انھیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ،ھاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا براق ؟ رفرف ؟ یا کوئی اور ۔۔۔؟یہ مسئلہ قدرت کاراز ھے، ھمیں اس کا علم نھیں ۔

ان تمام چیزوں سے قطع نظر تیز تریں رفتار کے بارے میں مذکورہ نظریہ آج کے سائنسدانوںکے درمیان متزلزل هوچکا ھے اگر چہ آ ئن سٹائن اپنے مشهور نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ھے ۔

آج کے سائنسداں کہتے ھیں کہ امواج جاذمہrdvs of at f fionزمانے کی احتیاج کے بغیر آن واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل هوجاتی ھیں اور اپنا اثر چھوڑتی ھیں یھاں تک کہ یہ احتمال بھی ھے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے منظومے موجودھیں کہ جوروشنی کی رفتارسے زیادہ تیزی سے مرکز جھان سے دور هوجاتے ھیں (ھم جانتے ھیں کہ کائنات پھیل رھی ھے اور ستارے اور نظام ھائے شمسی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور هورھے ھیں )(غور کیجئے گا)مختصر یہ کہ اس سفر کے لئے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ھیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نھیں ھے اور ایسی کوئی بنیاد نھیں کہ واقعہٴ معراج کو محال عقلی سمجھا جائے ,اس راستے میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے جو وسائل درکار ھیں وہ موجود هوں تو ایسا هوسکتا ھے ۔

بھرحال واقعہٴ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالے سے ناممکن ھے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے ، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ هونے کو سب قبول کرتے ھیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت هوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہئے۔

شب معراج  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے خداکی باتیں 

پیغمبر نے شب معراج پروردگار سبحان سے اس طرح سوال کیا :

پروردگار ا: کونساعمل افضل ھے ؟

خدا وند تعالیٰ نے فرمایا :

” کوئی چیز میرے نزیک مجھ پر توکل کرنے ، اور جو کچھ میںنے تقسیم کرکے دیا ھے اس پر راضی هونے سے بہتر نھیں ھے ،اے محمد جولوگ میری خاطر ایک دوسرے کو دوست رکھتے ھیں میری محبت ان کے شامل حال هوگی اور جو لوگ میری خاطر ایک دوسرے پر مھربان ھیں اور میری خاطر دوستی کے تعلقات رکھتے ھیں انھیں دوست رکھتا هوں علاوہ بر ایں میری محبت ان لوکوں کے لئے جو مجھ پر توکل کریں فرض اور لازم ھے اور میری محبت کے لئے کوئی حد او رکنارہ اوراس کی انتھا نھیں ھے “۔!

اس طرح سے محبت کی باتیں شروع هوتی ھیں ایسی محبت جس کی کوئی انتھا نھیں ،جو کشادہ اور اصولی طور پر عالم ہستی میںاسی محور محبت پر گردش کررھا ھے ۔

ایک اور ددسرے حصہ میں یہ آیا ھے ۔

”اے احمد !بچوں کی طرح نہ هونا جو سبز وزرد اور زرق وبرق کو دوست رکھتے ھیں اور جب انھیں کوئی عمدہ اور شیریں غذا دیدی جاتی ھے تو وہ مغرور هوجاتے ھیں اور ھر چیز کو بھول جاتے ھیں “۔

پیغمبرنے اس موقع پر عرض کیا :

پروردگارا :!مجھے کسی ایسے عمل کی ہدایت فرماجو تیری بارگاہ میں قرب کا باعث هو ۔

فرمایا : رات کو دن اور دن کو رات قرار دے ۔

عرض کیا : کس طرح ؟

فرمایا : اس طرح کے تیرا سونا نماز هو اور ھرگز اپنے شکم کو مکمل طور پر سیر نہ کرنا ۔

ایک اور حصہ میں آیا ھے :

”اے احمد! میری محبت فقیروں اور محروموں سے محبت ھے ،ان کے قریب هوجاوٴ اور ان کی مجلس کے قریب بیٹھو کہ میں تیرے نزدیک هوں اور دنیا پرست اور ثروت مندوں کو اپنے سے دور رکھو اور ان کی مجالس سے بچتے رهو “۔

اھل دنیا و آخرت 

ایک اور حصہ میں آیاھے:

”اے احمد !دنیا کے زرق برق اور دنیا پرستوں کو مبغوض شمار کر اور آخرت کو محبوب رکھ“ عرض کرتے ھیں :

پروردگارا :!اھل دنیا اور اھل آخرت کون ھیں ؟۔

فرمایا :”اھل دنیا تو وہ لوگ ھیں جو زیادہ کھاتے ھیں زیادہ ہنستے ھیں زیادہ سوتے ھیں اور غصہ کرتے ھیں اور تھوڑا خوش هوتے ھیں نہ ھی تو برائیوں کے مقابلہ میں کسی سے عذر چاہتے ھیں ۔اور نہ ھی کسی عذر چاہنے والے سے اس کا عذر قبول کرتے ھیں اطاعت خدا میں سست ھیں اور گناہ کرنے میں دلیر ھیں، لمبی چوڑی آرزوئیں رکھتے ھیں حالانکہ ان کی اجل قریب آپہنچی ھے مگر وہ ھر گز اپنے اعمال کا حساب نھیں کرتے ان سے لوگوں کو بہت کم نفع هوتا ھے، باتیں زیادہ کرتے ھیں احساس ذمہ داری نھیں رکھتے اور کھانے پینے سے ھی غرض رکھتے ھیں ۔

اھل دنیا نہ تو نعمت میں خدا کا شکریہ ادا کرتے ھیں اورنہ ھی مصائب میں صبر کرتے ھیں  ۔ زیادہ خدمات بھی ان کی نظر میں تھوڑی ھیں (اور خود ان کی اپنی خدمات تھوڑی بھی زیادہ ھیں ) اپنے اس کام کے انجام پانے پر جو انهوں نے انجام نھیں دیا ھے تعریف کرتے ھیں  اور ایسی چیز کا مطالبہ کرتے ھیں جو ان کا حق نھیں ھے ۔ ھمیشہ اپنی آرزوؤں اور تمنا وں کی بات کرتے ھیں اور لوگوں کے عیوب تو بیان کرتے رہتے ھیں لیکن ان کی نیکیوں کو چھپاتے ھیں۔

” عرض کیا :پروردگارا :!کیا دنیا پرست اس کے علاوہ بھی کوئی عیب رکھتے ھیں ؟

”فرمایا : اے احمد !ان کا عیب یہ ھے کہ جھل اور حماقت ان میں بہت زیادہ ھے جس استاد سے انهوں علم سیکھا ھے وہ اس سے تواضع نھیں کرتے اور اپنے آپ کو عاقل کل سمجھتے ھیں حالانکہ وہ صاحبان علم کے نزدیک نادان اور احمق ھیں“ ۔

اھل بہشت کے صفات 

خدا وند عالم اس کے بعد اھل آخرت اور بہشتیوں کے اوصاف کو یوں بیان کرتا ھے : ”وہ ایسے لوگ ھیں جو با حیا ھیں ان کی جھالت کم ھے ، ان کے منافع زیادہ ھیں ،لوگ ان سے راحت و آرام میں هوتے ھیں اور وہ خود اپنے ھاتھوں تکلیف میں هوتے ھیں اور ان کی باتیں سنجیدہ هوتی ھیں“۔

وہ ھمیشہ اپنے اعمال کا حساب کرتے رہتے ھیں اور اسی وجہ سے وہ خود کو زحمت میں ڈالتے رہتے ھیں ان کی آنکھیں سوئی هوئی هوتی ھیں لیکن ان کے دل بیدار هوتے ھیں ان کی آنکھ گریاں هوتی ھے اور ان کا دل ھمیشہ یاد خدا میں مصروف رہتا ھے جس وقت لوگ غافلوں کے زمرہ میں لکھے جارھے هوں وہ اس وقت ذکر کرنے والوں میں لکھے جاتے ھیں ۔

نعمتوں کے آغاز میں حمد خدا بجالاتے ھیں اور ختم هونے پر اس کا شکر ادا کرتے ھیں، ان کی دعائیں بارگاہ خدا میں قبول هوتی ھیں اور ان کی حاجتیں پوری کی جاتی ھیں اور فرشتے ان کے وجود سے مسرور اور خوش رہتے ھیں ۔۔۔(غافل )لوگ ان کے نزدیک مردہ ھیں اور خدا اُن کے نزدیک حی و قیوم اور کریم ھے (ان کی ھمت اتنی بلند ھے کہ وہ اس کے سوا کسی کے اوپر نظر نھیں رکھتے )

لوگ تو اپنی عمر میںصرف ایک ھی دفعہ مرتے ھیں لیکن وہ جھاد باالنفس اور هواوهوس کی مخالفت کی وجہ سے ھر روز ستر مرتبہ مرتے ھیں (اور نئی زندگی پاتے ھیں)

جس وقت عبادت کے لئیے میرے سامنے کھڑے هوتے ھیں تو ایک فولادی باندھ اور بنیان مرصوص کے مانند هوتے ھیں اور ان کے دل میںمخلوقات کی طرف کوئی توجہ نھیں هوتی مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ھے کہ میں انھیں ایک پاکیزہ زندگی بخشونگا اور عمر کے اختتام پر میں خود ان کی روح کو قبض کروںگا اور ان کی پرواز کے لئے آسمان کے دروازوں کو کھول دوں گاتمام حجابوں کو ان کے سامنے سے ہٹا دوں گا اور حکم دوں گا کہ بہشت خود اپنے ان کے لئے آراستہ کرے ۔۔۔ ”اے احمد! عبادت کے دس حصہ ھیں جن میں سے نو حصے طلب رزق حلال میں ھیں جب تیرا کھانا اور پینا حلال هوگا تو تیری حفظ و حمایت میں هوگا۔۔۔۔“

بہترین اور جاویدانی زندگی

ایک اور حصہ میں آیا ھے:

”اے احمد !  کیا تو جانتا ھے کہ کونسی زندگی زیادہ گوارا اور زیادہ دوام رکھتی ھے“؟

عرض کیا : خداوندا: نھیں۔

فرمایا: گوارا زندگی وہ هوتی ھے جس کا صاحب ایک لمحہ کے لئے بھی میری یاد سے غافل نہ رھے، میری نعمت کو فراموش نہ کرے ، میرے حق سے بے خبر نہ رھے اور رات دن میری رضا کو طلب کرے۔ 

لیکن باقی رہنے والی زندگی وہ ھے جس میں اپنی نجات کے لئے عمل کرے ، دنیا اس کی نظر میں حقیر هو اور آخرت بڑی اور بزرگ هو، میری رضا کو اپنی رضا پر مقدم کرے، اور ھمیشہ میری خوشنودی کو طلب کرے، میرے حق کو بڑا سمجھے اور اپنی نسبت میری آگاھی کی طرف توجہ رکھے۔

ھرگناہ اور معصیت پر مجھے یاد کرلیا کرے ، اور اپنے دل کو اس چیز سے جو مجھے پسند نھیں ھے پاک رکھے، شیطانی وسو سوں کو مبغوض رکھے ،اور ابلیس کو اپنے دل پر مسلط نہ کرے ۔

جب وہ ایسا کرے گا تو میں ایک خاص قسم کی محبت کو اس کے دل میں ڈال دوں گا اس طرح سے کہ اس کا دل میرے اختیار میں هوگا ، اس کی فرصت اور مشغولیت اس کا ھم وغم اور اس کی بات ان نعمتوں کے بارے میں هوگی جو میں اھل محبت کو بخشتا هوں ۔ میں اس کی آنکھ اور دل کے کان کھول دیتا هوں تاکہ وہ اپنے دل کے کان سے غیب کے حقائق کو سننے اور اپنے دل سے میرے جلال وعظمت کو دیکھے“ : 

اور آخر میں یہ نورانی حدیث ان بیدار کرنے والے جملوں پر ختم هوجاتی ھے : 

” اے احمد ! اگر کوئی بندہ تمام اھل آسمان اور تمام اھل زمین کے برابر نماز ادا کرے ،اور تمام اھل آسمان وزمین کے برابر روزہ رکھے، فرشتوں کی طرح کھانانہ کھائے اور کوئی فاخرہ لباس بدن پر نہ پہنے (اور انتھائی زہد اور پارسائی کی زندگی بسر کرے) لیکن اس کے دل میں ذرہ برابر بھی دنیا پرستی یا ریاست طلبی یازینت دنیا کا عشق هو تو وہ میرے جاودانی گھر میں میرے جوار میں نھیں هوگا اور میںاپنی محبت کو اس کے دل سے نکال دوں گا ،میرا سلام ورحمت تجھ پر هو ،والحمد للہ رب العالمین “

یہ عرشی باتیں ۔۔جو انسانی روح کو آسمانوں کی طرف بلند کرتی ھیں ، اور آستانٴہ عشق وشهود کی طرف کھینچتی ھیں ۔حدیث قدسی کا صرف ایک حصہ ھے ۔

مزید براں ھمیں اطمینان ھے کہ پیغمبر نے اپنے ارشادات میں جو کچھ بیان فرمایا ھے ان کے علاوہ بھی، اس شب عشق وشوق اور جذبہ ووصال کی شب میں ، ایسی باتیں ، اسرارورموز اور اشارے آپ کے اور آپ کے محبوب کے درمیان هوتے ھیں جن کو نہ تو کان سننے کی طاقت رکھتے ھیں اور نہ عام افکار میں ان کے درک کی صلاحیت ھے، اور اسی بناپر وہ ھمیشہ پیغمبر کے دل وجان کے اندر ھی مکتوم اور پوشیدہ رھے ، اور آپ کے خواص کے علاوہ کوئی بھی ان سے آگاہ نھیں هوا ۔

ہجرت پیامبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [36]

مختلف قبائل قریش اور اشراف مکہ کا ایک گروہ جمع هوا تاکہ وہ” دار الند وہ“ میں میٹنگ کریں اور انھیں رسول اللہ کی طرف سے درپیش خطرے پر غور وفکر کریں  

(کہتے ھیں) اثنائے راہ میں انھیں ایک خوش ظاھر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شیطان تھا (یا کوئی انسان جو شیطانی روح وفکر کا حامل تھا)۔

انهوں نے اس سے پوچھا : تم کون هو؟ 

کہنے لگا : اھل نجد کا ایک بڑا بوڑھا هوں، مجھے تمھارے اراداے کی اطلاع ملی تو میں نے چاھا کہ تمھاری میٹنگ میں شرکت کروں اور اپنا نظریہ اور خیر خواھی کی رائے پیش کرنے میں دریغ نہ کروں ۔ 

کہنے لگے : بہت اچھا اندر آجایئے ۔

اس طرح وہ بھی” دارالندوة“میں داخل هوگیا ۔

حاضرین میں سے ایک نے ان کی طرف رخ کیا اور ( پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف اشارہ کرتے هوئے ) کھا : اس شخص کے بارے میں کوئی سوچ بچار کرو ، کیونکہ بخدا ڈر ھے کہ وہ تم پر کامیاب هوجائے ( اور تمھارے دین اور تمھاری عظمت کو خاک میں ملادے گا )                                

ایک نے تجویز پیش کی : اسے قید کردو یھاں تک کے زندان ھی میں مرجائے۔

بوڑھے نجدی نے اس تجویز پراعتراض کیا اور کھا : اس میں خطرہ یہ ھے کہ اس کے طرف دار ٹوٹ پڑیں اور کسی مناسب وقت اسے قید خانے سے چھڑا کر اس سرزمین سے باھر لے جائیں لہٰذا کوئی اور بنیادی بات کرو ۔

ایک اورشخص نے کھا: اسے اپنے شھرسے نکال دو تاکہ تمھیں اس سے چھٹکارامل جائے کیونکہ جب وہ تمھارے درمیان سے چلا جائے گا تو پھر جو کچھ بھی کرتا پھرے تمھیںکوئی نقصان نھیں پہنچا سکتا اور پھر وہ دوسروں ھی سے سروکار رکھے گا ۔

اس بوڑھے نجدی نے کھا : واللہ یہ نظریہ بھی صحیح نھیں ھے ، کھا تم اس کی شیریں بیانی ،قدرت زبان اور لوگوں کے دلوں میں اس کے نفوذ نھیں دیکھتے؟ اگر ایسا کروگے تو وہ تمام دنیائے عرب کے پاس جائے گا اور وہ اس کے گرد جمع هوجائیں گے اور پھر وہ ایک انبوہ کثیر کے ساتھ تمھاری طرف پلٹے گا اور تمھیں تمھارے شھروں سے نکال باھر کرے گا اور بڑوں کو قتل کردےگا ۔

مجمع نے کھا بخدا یہ سچ کہہ رھاھے کوئی اور تجویزسو چو۔

ابوجھل کی رائے

ابوجھل ابھی تک خاموش بیٹھا تھا ، اس نے گفتگو شروع کی اور کھا : میرا ایک نظریہ ھے اور اس کے علاوہ میں کسی رائے کو صحیح نھیں سمجھتا ۔

حاضرین کہنے لگے :وہ کیا ھے ؟

کہنے لگا : ھم ھر قبیلے سے ایک بھادر شمشیر زن کا انتخاب کریں اور ان میں سے ھر ایک ھاتھ میں ایک تیز تلوار دے دیدیں اور پھر وہ سب مل کر موقع پاتے ھی اس پر حملہ کریں جب وہ اس صورت میں قتل هوگا تو اس کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نھیں سمجھتا کہ بنی ھاشم تمام قبائل قریش سے لڑسکیں گے لہٰذا مجبورا اس صورت میں خون بھا پر راضی هوجائیں گے اور یوں ھم بھی اس کے آزار سے نجات پالیں گے۔

بوڑھے نجدی نے (خوش هوکر ) کھا: بخدا : صحیح رائے یھی ھے جو اس جواں مرد نے پیش کی ھے میرا بھی اس کے علاوہ کوئی نظریہ نھیں ۔

اس طرح یہ تجویز اتفاق رائے سے پاس هوگئی اور وہ یھی مصمم ارادہ لے کروھاںسے اٹھے ۔ 

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی جان کو بیچ ڈالی

جبرئیل نازل هوئے اور پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم ملا کہ وہ رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں ،پیغمبر اکرم  رات کو غار ثور کی طرف روانہ هوگئے اور حکم دے گئے کہ علی آپ کے بستر پر سوجائیں (تاکہ جو لوگ دروازے کی درازسے بستر پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نظر رکھے هوئے ھیں انھیں بستر پر سویا هوا سمجھیں اور آپ کو خطرے کے علاقہ سے دور نکل جانے کی مھلت مل جائے )۔

اھل سنت کے مشهور مفسر ثعلبی کہتے ھیں کہ جب پیغمبراسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ہجرت کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تو اپنے قرضوں کی ادائیگی اور موجود امانتوں کی واپسی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنی جگہ مقرر کیا اور جس رات آپ غار ثور کی طرف جانا چاہتے تھے اس رات مشرکین آپ پر حملہ کرنے کے لئے آپ کے گھر کا چاروں طرف سے محاصرہ کئے هوے تھے، آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر لیٹ جائیں ، اپنی مخصوص سبز رنگ کی چادر انھیں اوڑھنے کو دی ، اس وقت خدا وند عالم نے جبرائیل اور میکائیل پر وحی کی کہ میں نے تم دونوں کے درمیان بھائی چارہ اور اخوت قائم کی ھے اور تم میں سے ایک کی عمر کو زیادہ مقرر کیا ھے تم میں سے کون ھے جو ایثار کرتے هوئے دوسرے کی زندگی کو اپنی حیات پر ترجیح دے ان میں سے کوئی بھی اس کے لئے تیار نہ هوا تو ان پروحی هوئی کہ اس وقت علی میرے پیغمبر کے بستر پر سویا هوا ھے اور وہ تیار ھے کہ اپنی جان ان پر قربان کردے، زمین پرجاؤ اور اس کے محافظ ونگھبان بن جاؤ ،جب جبرئیل ،حضرت علی علیہ السلام کے سرھانے آئے اور میکائیل پاؤں کی طرف بیٹھے تو جبرئیل کہہ رھے تھے: سبحان اللہ، صدآفرین آپ پر اے علی علیہ السلام کہ خدا آپ کے ذریعے فرشتوں پر فخر ومباھات کررھاھے ،اس موقع پر آیت نازل هوئی ”کچھ لوگ اپنی جان خدا  کی خوشنودی کے بدلے بیچ دیتے ھیں اور خدا اپنے بندوں پر مھربان ھے“ اور اسی بناء پروہ تاریخی رات ” لیلة المبیت“(شب ہجرت) کے نام سے مشهور هوگئی ۔

ابن عباسۻ کہتے ھیں :جب پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین سے چھپ کر ابوبکر کے ساتھ غار کی طرف جارھے تھے یہ آیت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل هوئی جو اس وقت بستر رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سوئے هوئے تھے ۔

ابوجعفر اسکافی کہتے ھیں :جیسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ، جلد ۳ ص ۲۷۰ پر لکھا ھے :

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بستر پر حضرت علی علیہ السلام کے سونے کا واقعہ تو اتر سے ثابت ھے اور اس کا انکار غیر مسلموں اور کم ذہن لوگوں کے علاوہ کوئی نھیں کرتا [37]

جب صبح هوئی تومشرکین گھر میں گھس آئے ۔ انهوں نے جستجو کی تو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر  کی جگہ پر دیکھا ۔ اس طرح سے خدا نے ان کی سازش کو نقش برآب کردیا ۔

وہ پکارے: محمد کھاں ھے ؟ 

آپ نے جواب دیا : میں نھیں جانتا ۔

وہ آپ کے پاؤں کے نشانوں پر چل پڑے یھاں تک کہ غار کے پاس پہنچ گئے لیکن (انهوں نے تعجب سے دیکھا کہ مکڑی نے غار کے سامنے جالاتن رکھاھے ایک نے دوسرے سے کھا کہ اگر وہ اس غار میں هوتے تو غارکے دھانے پر مکڑی کا جالا نہ هوتا ، اس طرح وہ واپس چلے گئے ) 

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین دن تک غار کے اندر رھے ( اور جب دشمن مکہ کے تمام بیابانوں میں آپ کو تلاش کرچکے اور تھک ھار کرمایوس پلٹ گئے تو آپ مدینہ کی طرف چل پڑے )۔

قبلہ کی تبدیلی 

بعثت کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں اور چند ماہ تک مدینہ میں پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم خدا سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رھے لیکن اس کے بعد قبلہ بدل گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مکہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں۔

مدینہ میں کتنے ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی رھی؟ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ھے، یہ مدت سات ماہ سے لے کر سترہ ماہ تک بیان کی گئی ھے لیکن یہ جتنا عرصہ بھی تھا اس دوران یهودی مسلمانوں کو طعنہ زنی کرتے رھے کیونکہ بیت المقدس دراصل یهودیوں کا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ان کا اپنا کوئی قبلہ نھیں بلکہ ھمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ھیں اور یہ اس امر کی دلیل ھے کہ ھم حق پر ھیں ۔

یہ باتیں پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کے لئے ناگوار تھیں ایک طرف وہ فرمان الٰھی کے مطیع تھے اور دوسری طرف یهودیوں کے طعنے ختم نہ هوتے تھے، اسی لئے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمان کی طرف دیکھتے تھے گویا وحی الٰھی کے منتظر تھے۔

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خانہٴ کعبہ سے خاص لگاؤ

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خصوصیت سے چاہتے تھے کہ قبلہ، کعبہ کی طرف تبدیل هوجائے اور آپ انتظار میں رہتے تھے کہ خدا کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی حکم نازل هو، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو حضرت ابراھیم علیہ السلام اور ان کے آثار سے عشق تھا، علاوہ از ایں کعبہ توحید کا قدیم ترین مرکز تھا، آپ جانتے تھے کہ بیت المقدس تو وقتی قبلہ ھے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ حقیقی و آخری قبلہ جلد معین هوجائے۔

آپ چونکہ حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم تھے،پس آپ یہ تقاضا زبان تک نہ لاتے صرف منتظر نگاھیں آسمان کی طرف لگائے هوئے تھے، جس سے ظاھر هوتا ھے کہ آپ کو کعبہ سے کس قدر عشق اور لگاؤ تھا۔

اس انتظار میں ایک عرصہ گذرگیا یھاں تک کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادر هوا ایک روز مسجد ”بنی سالم“ میں پیغمبر نماز ظھر پڑھارھے تھے دورکعتیں پڑھ چکے تھے کہ جبرئیل کو حکم هوا کہ پیغمبر کا بازو تھام کر ان کارخ انور کعبہ کی طرف پھیردیں۔

مسلمانوں نے بھی فوراً اپنی صفوں کا رخ بدل لیا،یھاں تک کہ ایک روایت میں منقول ھے کہ عورتوں نے اپنی جگہ مردوں کو دی اور مردوں نے اپنے جگہ عورتوں کو دیدی ،(توجہ رھے کہ بیت المقدس شمالی سمت میں تھا ،اور خانہٴ کعبہ جنوبی سمت میں تھا۔)

اس واقعے سے یهودی بہت پریشان هوئے اور اپنے پرانے طریقہ کے مطابق، ڈھٹائی، بھانہ سازی اور طعنہ بازی کا مظاھرہ کرنے لگے پھلے تو کہتے تھے کہ ھم مسلمانوں سے بہتر ھیں کیونکہ ان کا کوئی اپنا قبلہ نھیں، یہ ھمارے پیروکار ھیں لیکن جب خدا کی طرف سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل هوا تو انهوں نے پھر زبان اعتراض درازکی چنانچہ قرآن کہتا ھے۔

”بہت جلد کم عقل لوک کھیں گے ان (مسلمانوں) کو کس چیز نے اس قبلہ سے پھیردیا جس پر وہ پھلے تھے“۔[38]

مسلمانوںنے اس سے کیوں اعراض کیا ھے جو گذشتہ زمانہ میںانبیائے ماسلف کا قبلہ رھا ھے، اگر پھلا قبلہ صحیح تھا تو اس تبدیلی کا کیا مقصد،اور اگر دوسرا صحیح ھے تو پھرتیر ہ سال اور پندرہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے کیوں نماز پڑھتے رھے ھیں۔؟!

چنانچہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا: 

”ان سے کہہ دو عالم کے مشرق ومغرب اللہ کے لئے ھیں وہ جسے چاہتا ھے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ھے“۔ [39]

تبدیلی ٴقبلہ کا راز

بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی ان سب کے لئے اعتراض کا موجب بنی جن کا گمان تھا کہ ھر حکم کو مستقل رہنا چاہئے تھااگر ھمارے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھیں تو پھلے دن یہ حکم کیوں نہ دیا گیا اور اگر بیت المقدس مقدم ھے جو گذشتہ انبیاء کا بھی قبلہ شمار هوتا ھے توپھراسے کیوں بدلاگیا۔؟

دشمنوں کے ھاتھ بھی طعنہ زنی کا موقع آگیا، شاید وہ کہتے تھے کہ پھلے تو انبیاء ماسبق کے قبلہ کی طرف نماز پڑھتا تھا لیکن کامیابیوں کے بعد اس پر قبیلہ پرستی نے غلبہ کرلیا ھے لہٰذا اپنی قوم اور قبیلے کے قبلہ کی طرف پلٹ گیا ھے یاکہتے تھے کہ اس نے دھوکا دینے اور یهودو نصاریٰ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے پھلے بیت المقدس کو قبول کرلیا اور جب یہ بات کار گرنہ هوسکی تو اب کعبہ کی طرف رخ کرلیا ھے ۔ 

واضح ھے کہ ایسے وسوسے اور وہ بھی ایسے معاشرے میں جھاں ابھی نور علم نہ پھیلا هو اور جھاں شرک وبت پرستی کی رسمیں موجود هوں کیسا تذبذب واضطراب پیدا کردیتے ھیں اسی لئے قرآن صراحت سے کہتا ھے کہ” یہ مومنین اورمشرکین میں امتیاز پیدا کرنے والی ایک عظیم آزمائش تھی“۔[40]

ممکن ھے کہ قبلہ کی تبدیلی کے اھم اسباب میں سے درج ذیل مسئلہ بھی هو! خانہ کعبہ اس وقت مشرکین کے بتوں کامرکز بنا هوا تھا لہٰذا حکم دیا گیا کہ مسلمان وقتی طور پر بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھ لیا کریں تاکہ اس طرح مشرکین سے اپنی صفیں الگ کرسکیں۔

لیکن جب مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد اسلامی حکومت وملت کی تشکیل هوگئی اور مسلمانوں کی صفیں دوسروں سے مکمل طور پر ممتاز هوگئیں تو اب یہ کیفیت برقرار رکھنا ضروری نہ رھا ،لہٰذا اس وقت کعبہ کی طرف رخ کرلیا گیا جو قدیم ترین مرکز توحید اور انبیاء کا بہت پرانا مرکز تھا ۔

ایسے میں ظاھر ھے کہ جو کعبہ کو اپنا خاندانی معنوی اور روحانی سرمایہ سمجھتے تھے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا ان کے لئے مشکل تھا اور اسی طرح بیت المقدس کے بعد کعبہ کی طرف پلٹنا، لہٰذا اس میں مسلمانوں کی سخت آزمائش تھی تاکہ شرک کے جتنے آثار ان میں باقی رہ گئے تھے اس کٹھالی میں پڑکر جل جائیں اور ان کے گذشتہ شرک آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائیں۔

جیسا کہ ھم پھلے کہہ چکے ھیں اصولی طور پر تو خدا کے لئے مکان نھیں ھے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں میں اتحاد کا ایک رمزھے اور اس کی تبدیلی کسی چیز کود گرگوں نھیں کرسکتی ، اھم ترین امر تو خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ھے اور تعصب اورہٹ دھرمی کے بتوں کو توڑناھے ۔ 

جنگ بدر[41]

جنگ بدرکی ابتداء یھاں سے هوئی کہ مکہ والوں کا ایک اھم تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جارھا تھا اس قافلے کو مدینہ کی طرف سے گزرنا تھا اھل مکہ کا سردار ابوسفیان قافلہ کا سالار تھا اس کے پاس ہزار دینار کا مال تجارت تھا پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو اس عظیم قافلے کی طرف تیزی سے کوچ کا حکم دیا کہ جس کے پاس دشمن کا ایک بڑا سرمایہ تھا تاکہ اس سرمائے کو ضبط کرکے دشمن کی اقتصادی قوت کو سخت ضرب لگائی جائے تاکہ اس کا نقصان دشمن کی فوج کو پہنچے ۔[42]                                     

بھرحال ایک طرف ابوسفیان کو مدینہ میں اس کے ذریعے اس امر کی اطلاع مل گئی اور دوسری طرف اس نے اھل مکہ کو صورت حال کی اطلاع کے لئے  ایک تیز رفتار قاصد روانہ کردیا کیونکہ شام کی طرف جاتے هوئے بھی اسے اس تجارتی قافلہ کی راہ میں رکاوٹ کا اندیشہ تھا ۔ 

قاصد ،ابوسفیان کی نصیحت کے مطابق اس حالت میں مکہ میں داخل هوا کہ اس نے اپنے اونٹ کی ناک کوچیر دیا تھا اس کے کان کاٹ دیئے تھے ، خون ھیجان انگیز طریقہ سے اونٹ سے بہہ رھا تھا ،قاصد نے اپنی قمیض کو دونوں طرف سے پھاڑدیا تھا اونٹ کی پشت کی طرف منہ کرکے بیٹھا هوا تھا تاکہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے ، مکہ میں داخل هوتے ھی اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا :

اے کا میاب وکامران لوگو! اپنے قافلے کی خبر لو، اپنے کارواں کی مدد کرو ۔ لیکن مجھے امید نھیں کہ تم وقت پر پہنچ سکو ، محمد اور تمھارے دین سے نکل جانے والے افراد قافلے پر حملے کے لئے نکل چکے ھیں ۔

اس موقع پر پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک عجیب وغریب خواب تھا مکہ میں زبان زد خاص وعام تھا اور لوگوں کے ھیجان میںاضافہ کرھا تھا ۔ خواب کا ماجرایہ تھا کہ عاتکہ نے تین روزقبل خواب میں دیکھاکہ : 

ایک شخص پکاررھا ھے کہ لوگو! اپنی قتل گاہ کی طرف جلدی چلو، اس کے بعد وہ منادی کوہ ابوقیس کی چوٹی پر چڑھ گیا اس نے پتھر کی ایک بڑی چٹان کو حرکت دی تو وہ چٹان ریزہ ریزہ هوگئی اور اس کا ایک ایک ٹکڑا قریش کے ایک ایک گھرمیں جاپڑا اور مکہ کے درے سے خون کا سیلاب جاری هوگیا ۔ 

عاتکہ وحشت زدہ هوکر خواب سے بیدار هوئی اور اپنے بھائی عباس کو سنایا ۔ اس طرح خواب لوگوں تک پہنچاتو وہ وحشت وپریشانی میں ڈوب گئے ۔ ابوجھل نے خواب سنا تو بولا : یہ عورت دوسرا پیغمبر ھے جو اولادعبدالمطلب میں ظاھر هوا ھے لات وعزیٰ کی قسم ھم تین دن کی مھلت دیتے ھیں اگر اتنے عرصے میں اس خواب کی تعبیر ظاھر نہ هوئی تو ھم آپس میں ایک تحریر لکھ کر اس پر دستخط کریں گے کہ بنی ھاشم قبائل عرب میں سے سب سے زیادہ جھوٹے ھیں تیسرا دن هوا تو ابوسفیان کا قاصد آپہنچا ، اس کی پکار نے تمام اھل مکہ کو ھلاکو رکھ دیا۔

اور چونکہ تمام اھل مکہ کا اس قافلے میں حصہ تھا سب فوراً جمع هوگئے ابوجھل کی کمان میں ایک لشکر تیار هوا ، اس میں ۵۰ ۹جنگجو تھے جن میں سے بعض انکے بڑے اور مشهور سردار اور بھادر تھے ۷۰۰اونٹ تھے اور ۱۰۰گھوڑے تھے لشکر مدینہ کی طرف روانہ هوگیا ۔

دوسری طرف چونکہ ابو سفیان مسلمانوں سے بچ کر نکلنا چاہتاتھا ،لہٰذا اس نے راستہ بدل دیا اور مکہ کی طرف روانہ هو گیا۔

۳۱۳وفادار ساتھی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۳۱۳ افراد کے ساتھ جن میں تقریباً تمام مجاہدین اسلام تھے سرزمین بدرکے پاس پہنچ گئے تھے یہ مقام مکہ اور مدینہ کے راستے میں ھے یھاں آپ کو قریش کے لشکر کی روانگی کی خبر ملی اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ کیا ابوسفیان کے قافلہ کا تعاقب کیا جائے اور قافلہ کے مال پر قبضہ کیا جائے یا لشکر کے مقابلے کے لئے تیار هواجائے؟ ایک گروہ نے دشمن کے لشکر کامقابلہ کرنے کو ترجیح دی جب کہ دوسرے گروہ نے اس تجویز کو ناپسند کیا اور قافلہ کے تعاقب کو ترجیح دی ،ان کی دلیل یہ تھی کہ ھم مدینہ سے مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے ارادہ سے نھیں نکلے تھے اور ھم نے اس لشکر کے مقابلے کے لئے جنگی تیاری نھیں کی تھی جب کہ وہ ھماری طرف پوری تیاری سے آرھا ھے ۔

اس اختلاف رائے اور تردد میں اس وقت اضافہ هوگیا جب انھیں معلوم تھاکہ دشمن کی تعداد مسلمانوں سے تقریبا تین گنا ھے اور ان کا سازوسامان بھی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ھے، ان تمام باتوں کے باوجود پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے پھلے گروہ کے نظریے کو پسند فرمایا اور حکم دیا کہ دشمن کی فوج پر حملہ کی تیاری کی جائے ۔

جب دونوں لشکر آمنے سامنے هوئے تودشمن کو یقین نہ آیا کہ مسلمان اس قدر کم تعداد اور سازو سامان کے ساتھ میدان میں آئے هوں گے ،ان کا خیال تھا کہ سپاہ اسلام کا اھم حصہ کسی مقام پر چھپاهوا ھے تاکہ وہ غفلت میں کسی وقت ان پر حملہ کردے لہٰذا انهوں نے ایک شخص کو تحقیقات کے لئے  بھیجا، انھیں جلدی معلوم هوگیا کہ مسلمانوں کی جمعیت یھی ھے جسے وہ دیکھ رھے ھیں ۔

دوسری طرف جیسا کہ ھم نے کھا ھے مسلمانوںکاایک گروہ وحشت وخوف میں غرق تھا اس کا اصرار تھا کہ اتنی بڑی فوج جس سے مسلمانوں کا کوئی موازنہ نھیں ، خلاف مصلحت ھے، لیکن پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے خدا کے وعدہ سے انھیں جوش دلایا اور انھیں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمایا :کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ھے کہ دوگرو هوں میں سے ایک پر تمھیں کا میابی حاصل هوگی قریش کے قافلہ پر یا لشکر قریش پراور خداکے وعدہ کے خلاف نھیں هوسکتا۔

خدا کی قسم ابوجھل اور کئی سرداران قریش کے لوگوں کی قتل گاہ کو گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا هوں ۔ 

اس کے بعد آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ بدر کے کنوئیں کے قریب پڑاؤ ڈالیں ۔ 

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے پھلے سے خواب میں اس جنگ کا منظر دیکھا تھا، آپ نے د یکھا کہ دشمن کی ایک قلیل سی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں آئی ھے، یہ در اصل کامیابی کی ایک بشارت تھی آپ نے بعینہ یہ خواب مسلمانوں کے سامنے بیان کردیا، یہ بات مسلمانوں کے میدان بدر کی طرف پیش روی کے لئے ان کے جذبہ اور عزم کی تقویت کا باعث بنی۔

البتہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے یہ خواب صحیح دیکھا تھا کیونکہ دشمن کی قوت اور تعداد اگرچہ ظاھراً بہت زیادہ تھی لیکن باطناً کم، ضعیف اور ناتواں تھی، ھم جانتے ھیں کہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبیر کا پھلو رکھتے ھیں، اور ایک صحیح خواب میں کسی مسئلے کا باطنی چھرہ آشکار هوتا ھے۔

قریش کا ایک ہزار کا لشکر

اس ہنگامے میں ابوسفیان اپنا قافلہ خطرے کے علاقے سے نکال لے گیا ۔اصل راستے سے ہٹ کردریائے احمر کے ساحل کی طرف سے وہ تیزی سے مکہ پہنچ گیا ۔ اس کے ایک قاصدکے ذریعے لشکر کو پیغام بھیجا: 

خدانے تمھارا قافلہ بچالیا ھے میرا خیال ھے کہ ان حالات میں محمد کامقابلہ کرنا ضروری نھیں کیونکہ اس کے اتنے دشمن ھیں جو اس کا حساب چکالیں گے ۔ 

لشکر کے کمانڈرابوجھل نے اس تجویز کو قبول نہ کیا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی کہ نہ صرف ان کا مقابلہ کریں گے بلکہ مدینہ کے اندر تک ان کا تعاقب کریں گے یا انھیں قیدکرلیں گے اور مکہ میں لے آئیں گے تاکہ اس کامیابی کا شھرہ تمام قبائل عرب کے کانوں تک پہنچ جائے ۔ آخر کارلشکر قریش بھی مقام بدر تک آپہنچا، انهوں نے اپنے غلام کوپانی لانے کے لئے کنویں کی طرف بھیجے ،اصحاب پیغمبر نے انھیں پکڑلیا اور ان سے حالات معلوم کرنے کے لئے انھیں خدمت پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم کون هو ؟ انهوں نے کھا : ھم قریش کے غلام ھیں ، فرمایا: لشکر کی تعداد کیا ھے ؟ انهوں نے کھا : ھمیں اس کا پتہ نھیں، فرمایا : ھرروز کتنے اونٹ کھانے کے لئے نحرکرتے ھیں ؟ انهوں نے کھا : نو سے دس تک، فرمایا: ان کی تعداد ۹سوسے لے کر ایک ہزار تک ھے (ایک اونٹ ایک سو فوجی جوانوںکی خواراک ھے ) ۔

ماحول پُر ھیبت اور وحشت ناک تھا لشکر قریش کے پاس فراواں جنگی سازوسامان تھا ۔ یھاں تک کہ حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ گانے بجانے والی عورتوں کو بھی ساتھ لائے تھے ۔ اپنے سامنے ایسے حریف کو دیکھ رھے تھے کہ انھیں یقین نھیں آتا تھا کہ ان حالات میں وہ میدان جنگ میں قدم رکھے گا۔ 

مسلمانو! فرشتے تمھاری مدد کریں گے 

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھ رھے تھے کہ ممکن ھے آپ کے اصحاب خوف ووحشت کی وجہ سے رات میں آرام سے سونہ سکیں اور پھر کل دن کو تھکے هوئے جسم اور روح کے ساتھ دشمن کے مقابل هوں لہٰذا خدا کے وعدے کے مطابق ان سے فرمایا:

تمھاری تعداد کم هوتو اس کا غم نہ کر، آسمانی فرشتوں کی ایک عظیم جماعت تمھاری مدد کے لئے آئے گی، آپ نے انھیں خدائی وعدے کے مطابق اگلے روز فتح کی پوری تسلی دے کر مطمئن کردیا اور وہ رات آرام سے سوگئے۔ 

دوسری مشکل جس سے مجاہدین کو پریشانی تھی وہ میدان بدر کی کیفیت تھی ،ان کی طرف زمین نرم تھی اور اس میں پاؤں دھنس جاتے تھے اسی رات یہ هوا کہ خوب بارش هوئی ،اس کے پانی سے مجاہدین نے وضو کیا ، غسل کیا اور تازہ دم هوگئے ان کے نیچے کی زمین بھی اس سے سخت هوگئی ،تعجب کی بات یہ ھے کہ دشمن کی طرف اتنی زیادہ بارش هوئی کہ وہ پریشان هوگئے ۔ 

دشمن کے لشکر گاہ سے مسلمان جاسوسوں کی طرف سے ایک نئی خبر موصول هوئی اور جلد ھی مسلمانوں میں پھیل گئی ، خبریہ تھی کہ فوج قریش اپنے ان تمام وسائل کے باوجود خو فزدہ ھے گویا وحشت کا ایک لشکر خدا نے ان کے دلوں کی سرزمین پر اتار دیا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامی لشکر بڑے ولولے کے ساتھ دشمن کے سامنے صف آراء هوا، پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے پھلے انھیں صلح کی تجویز پیش کی تاکہ عذر اور بھانہ باقی نہ رھے، آپ نے ایک نمائندے کے ھاتھ پیغام بھیجا کہ میں نھیں چاہتا کہ تم وہ پھلا گروہ بن جاؤ کہ جس پر ھم حملہ آور هوں ، بعض سردار ان قریش چاہتے تھے یہ صلح کا ھاتھ جوان کی طرف بڑھایا گیا ھے اسے تھام لیں اور صلح کرلیں، لیکن پھر ابوجھل مانع هوا۔

ستر قتل ستر اسیر 

آخرکار جنگ شروع هوئی ،اس زمانے کے طریقے کے مطابق پھلے ایک کے مقابلے میں ایک نکلا ،ادھر لشکر اسلام میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حمزہ اور حضرت علی علیہ السلام جوجو ان ترین افراد تھے میدان میں نکلے، مجاہدین اسلام میں سے چند اور بھادر بھی اس جنگ میں شریک هوئے ،ان جوانوں نے اپنے حریفوں کے پیکر پر سخت ضربیں لگائیں اور کاری وار کئے اور ان کے قدم اکھاڑدیئے ،دشمن کا جذبہ اور کمزور پڑگیا ،یہ دیکھا تو ابوجھل نے عمومی حملے کا حکم دے دیا ۔ 

ابوجھل پھلے ھی حکم دے چکا تھا کہ اصحاب پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے جو اھل مدینہ میں سے ھیں انھیں قتل کردو ، مھاجرین مکہ کو اسیر کرلو مقصدیہ تھا کہ ایک طرح کے پر وپیگنڈا کے لئے انھیں مکہ لے جائیں ۔

یہ لمحات بڑے حساس تھے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جمعیت کی کثرت پر نظر نہ کریں اور صرف اپنے مد مقابل پر نگاہ رکھیں دانتوں کو ایک دوسرے پررکھ کر پیسیں ، باتیں کم کریں ، خدا سے مدد طلب کریں ، حکم پیغمبر سے کھیں رتی بھر سرتابی نہ کریں اور مکمل کامیابی کی امید رکھیں، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے دست دعا آسمان کی طرف بلند کئے اور عرض کیا : ”پالنے والے! اگر یہ لوگ قتل هوگئے تو پھر تیری عبادت کوئی نھیں کرے گا“۔

دشمن کے لشکر کی سمت میں سخت هوا چل رھی تھی اور مسلمان هوا کی طرف پشت کرکے ان پر حملے کررھے تھے ۔ ان کی استقامت ، پامردی اور دلاوری نے قریش کا ناطقہ بندکردیا ابوجھل سمیت دشمن کے ستر آدمی قتل هوگئے ان کی لاشیں خاک وخون میں غلطاں پڑی تھیں سترا فراد مسلمانوں کے ھاتھوں قید هوگئے مسلمانوں کے بہت کم افراد شھید هوئے ۔ 

اس طرح مسلمانوں کی پھلی مسلح جنگ طاقتور دشمن کے خلاف غیر متوقع کامیابی کے ساتھ اختتام پذیزر هوئی ۔

جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی، ان میں ۷۷مھاجر تھے اور دوسو چھتیس (۲۳۶) انصار، مھاجرین کا پرچم حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھ میں تھا، اور انصار کا پرچم بردار” سعد بن عبادہ“ تھے، اس عظیم معرکہ کے لئے ان کے پاس صرف ۷۰ اونٹ دو گھوڑے، ۶زرھیں اور آٹھ تلواریں تھیں، دوسری طرف دشمن کی فوج ہزار افراد سے متجاوز تھی، اس کے پاس کافی ووافی اسلحہ تھا اور ایک سو گھوڑے تھے، اس جنگ۲۲مسلمان شھید هوئے ان میں چودہ مھاجر او ر۸انصار تھے، دشمن کے ستر(۷۰) افراد مارے گئے اور ستر ھی قیدی هوئے، اس طرح مسلمانوں کو فتح نصیب هوئی اور یوں مکمل کامرانی کے ساتھ وہ مدینہ کی طرف پلٹ گئے۔

واقعاً یہ عجیب و غریب بات تھی کہ تواریخ کے مطابق مسلمانوں کے چھوٹے سے لشکر کے مقابلہ میں قریش کی طاقتور فوج نفسیاتی طور پر اس قدر شکست خودرہ هوچکی تھی کہ ان میں سے ایک گروہ مسلمانوں سے جنگ کرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل میں سوچتے کہ یہ عام انسان نھیں ھیں، بعض کہتے ھیں کہ یہ موت کو اپنے اونٹوں پر لادکر مدینہ سے تمھارے لئے سوغات لائے ھیں۔

”سعدبن معاذانصاری “نمائندہ کے طور پر خدمت پیغمبر میں حاضر هوئے اور عرض کرنے لگے : 

میرے ماں پاپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول ! ھم آپ پر ایمان لائے ھیں اور ھم نے آپ کی نبوت کی گواھی دی ھے کہ جو کچھ آپ کہتے ھیںخدا کی طرف سے ھے، آپ جو بھی حکم دینا چاھیں دیجئے اور ھمارے مال میں سے جو کچھ آپ چاھیں لے لیں، خدا کی قسم اگر آپ ھمیں حکم دیں کہ اس دریا ( دریائے احمر کی طرف اشارہ کرتے هوئے ،جووھاں سے قریب تھا ) میںکود پڑو تو ھم کو د پڑیں گے ھماری یہ آرزو ھے کہ خدا ھمیں توفیق دے کہ ایسی خدمت کریں جو آپ کی آنکھ کی روشنی کا باعث هو۔ 

روز بدر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

زمین سے مٹی اور سنگریزوں کی ایک مٹھی بھر کے مجھے دیدو۔

حضرت علی علیہ السلام نے ایسا ھی کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اسے مشرکین کی طرف پھینک دیا اور فرمایا:

”شاہت الوجوہ“(تمھارے منھ قبیح اور سیاہ هوجائیں)

لکھا ھے کہ معجزانہ طور پر گرد و غبار اور سنگریزے دشمن کی آنکھوں میں جا پڑے اور سب وحشت زدہ هوگئے۔

مجاہدین کی تشویق

ابن عباسۻ سے منقول ھے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے جنگ بدر کے روز مجاہدین اسلام کی تشویق کے لئے کچھ انعامات مقررکیے مثلاً فرمایا کہ جو فلاں دشمن کو قید کر کے میرے پاس لائے گا اُسے یہ انعام دوں گا ان میں پھلے ھی روح ایمان وجھاد موجود تھی اوپر سے یہ تشویق بھی، نتیجہ یہ هو اکہ جوان سپاھی بڑے افتخار سے مقابلہ کے لئے آگے بڑھے اور اپنے مقصد کی طرف لپکے بوڑھے سن رسیدہ افراد جھنڈوں تلے موجودرھے جب جنگ ختم هوئی تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات کے لئے بارگاہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بڑھے، بوڑھے ان سے کہنے لگے کہ اس میں ھمارا بھی حصہ ھے کیونکہ ھم تمھارے لئے پناہ اور سھارے کاکام کررھے تھے اور تمھارے لئے جوش وخروش کا باعث تھے اگر تمھارا معاملہ سخت هوجاتاھے تو تمھیں پیچھے ہٹنا پڑتا تو یقیناً تم ھماری طرف آتے اس موقع پر دو انصاریوں میں تو تو میں میں بھی هوگئی اور انهوں نے جنگی غنائم کے بارے میں بحث کی ۔

اس اثناء میں سورہٴ انفال کی پھلی آیت نازل هوئی جس میں صراحت کے ساتھ بتایا گیا کہ غنائم کا تعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے ھے وہ جیسے چاھیں انھیں تقسیم فرمائیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے بھی مساوی طور پر سب سپاھیوں میں غنائم تقسیم کردیئے اور برادران دینی میں صلح ومصالحت کا حکم دیا ۔

جنگ کا خاتمہ اور اسیروں کا واقعہ 

جنگ بدر کے خاتمہ پر جب جنگی قیدی بنالئے گئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے یہ حکم دیاکہ قیدیوں میں سے دو خطر ناک افراد عقبہ اور نضر کو قتل کردیاجائے تو اس پر انصار گھبراگئے کہ کھیں ایسا نہ هو کہ یہ حکم تمام قیدیوں کے متعلق جاری هوجائے اور وہ فدیہ لینے سے محروم هوجائیں ) لہٰذا انهوں نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا : ھم نے سترآدمیوں کو قتل کیا ھے اور سترھی کو قیدی بنایا ھے اور یہ آپ کے قبیلے میں سے آپ ھی کے قیدی ھیں ،یہ ھمیں بخش دیجئے تاکہ ھم ان کی آزادی کے بدلے فدیہ لے سکیں ۔

(رسول اللہ اس کے لئے وحی آسمانی کے منتظر تھے ) اس موقع پروحی الٰھی نازل هوئی اورقیدیوں کی آزادی کے بدلے فدیہ لینے کی اجازت دیدی گئی ۔

اسیروں کی آزادی کے لئے زیادہ سے زیادہ چار ہزار درھم اور کم سے کم ایک ہزار درھم معین کی گئی، یہ بات قریش کے کانوں تک پهونچی تو انھوں نے ایک ایک کے بدلے معین شدہ رقم بھیج کرا سیروں کو آزاد کرالیا۔ 

تعجب کی بات یہ ھے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا داماد ابوالعاص بھی ان قیدیوں میں تھا ،رسول  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی یعنی زینب جو ابولعاص کی بیوی تھی نے وہ گلو بند جو جناب خدیجہۺ نے ان کی شاد ی کے وقت انھیںدیا تھا فدیہ کے طور پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا،جب پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ گلو بند پر پڑی تو جناب خدیجہۻ جیسی فداکار اور مجاہدہ خاتون کی یاد یں ان کی آنکھوں کے سامنے مجسم هوگئیں ،آپ نے فرمایا:خدا کی رحمت هو خدیجہۺ پر ،یہ وہ گلو بند ھے جو اس نے میری بیٹی زینب کو جھیز میں دیا تھا(اور بعض دوسری روایات کے مطابق جناب خدیجہۺ کے احترام میں آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے گلو بند قبول کرنے سے احرازکیا اور حقوق مسلمین کو پیش نظر کرتے هوئے اس میںان کی موافقت حاصل کی)۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ابوالعاص کو اس شرط پر آزاد کردیا کہ وہ زینب کو (جو اسلام سے پھلے ابوالعاص کی زوجیت میں تھیں )مدینہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیج دے ، اس نے بھی اس شرط کو قبول کرلیا او ربعد میں اسے پورا بھی کیا۔

آنحضرت کے چچا عباس کا اسلام قبول کرنا

انصار کے کچھ آدمیوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے اجازت چاھی کہ آپ کے چچا عباس جو قیدیوں میں تھے ان سے آپ کے احترام میں فدیہ نہ لیا جائے لیکن پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: 

”خداکی قسم اس کے ایک درھم سے بھی صرف نظر نہ کرو“( اگر فدیہ لینا خدائی قانون ھے تو اسے سب پر جاری هونا چاہئے ،یھاں تک کہ میرے چچا پر بھی اس کے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے۔)

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عباسۻ کی طرف متوجہ هوئے اور فرمایا: اپنی طرف سے او راپنے بھتیجے ( عقیل بن ابی طالب) کی طرف سے آپ کو فدیہ ادا کرنا چاہئے۔

عباسۻ ( جو مال سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے ) کہنے لگے: اے محمد! کیا تم چاہتے هو کہ مجھے ایسا فقیر او رمحتاج کردو کہ میں اھل قریش کے سامنے اپنا ھاتھ پھیلاؤں۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: اس مال میںسے فدیہ ادا کریں جو آپ نے اپنی بیوی ام الفضل کے پاس رکھا تھا اور اس سے کھا تھا کہ اگر میں میدان جنگ میں مارا جاؤں تو اس مال کو اپنے اور اپنی اولاد کے مصارف کے لئے سمجھنا۔

عباس یہ بات سن کر بہت متعجب هوئے اور کہنے لگے: آپ کو یہ بات کس نے بتائی ( حالانکہ یہ تو بالکل محرمانہ تھی )؟ 

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا : جبرئیل نے، خدا کی طرف سے۔ 

عباسۻ بولے : اس کی قسم کہ جس کی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قسم کھاتا ھے کہ میرے اور میری بیوی کے علاوہ اس راز سے کوئی آگاہ نہ تھا۔ 

اس کے بعد وہ پکار اٹھے: ”اشھد انک رسول اللہ“

( یعنی میں گواھی دیتا هوں کہ آپ اللہ کے رسول ھیں)

اور یوں وہ مسلمان هوگئے۔

آزادی کے بعد بدر کے تمام قیدی مکہ لوٹ گئے لیکن عباس، عقیل اور نوفل مدینہ ھی میں رہ گئے کیونکہ انهوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔

عباسۻ کے اسلام لانے کے بارے میںبعض تواریخ میںھے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ مکہ کی طرف پلٹ گئے تھے اور خط کے ذریعہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سازش سے باخبر کیا کرتے تھے ، پھر   ۸   سے پھلے فتح مکہ کے سال مدینہ کی طرف ہجرت کر آئے۔

جنگ احد [43]

جنگ احد کا پیش خیمہ 

جب کفار مکہ جنگ بدر میں شکست خوردہ هوئے اور ستر(۷۰) قیدی چھوڑکر مکہ کی طرف پلٹ گئے تو ابو سفیان نے لوگوں کو خبر دار کیا کہ وہ اپنی عورتوں کو مقتولین بدر پر گریہ وزاری نہ کرنے دیں کیونکہ آنسو غم واندوہ کو دور کردیتے ھیں اور اس طرح محمد کی دشمنی اور عداوت ان کے دلوں سے ختم هوجائے گی ، ابو سفیان نے خود یہ عہد کررکھا تھا کہ جب تک جنگ بدر کے قاتلوں سے انتقام نہ لے لے اس وقت تک وہ اپنی بیوی سے ھمبستری نھیں کرے گا ،بھر حال قریش ھر ممکن طریقہ سے لوگوں کوپیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف اکساتے تھے اور انتقام کی صدا شھر مکہ میں بلند هورھی تھی ۔

ہجرت کے تیسرے سال قریش ہزار سوار اور دوہزار پیدل کے ساتھ بہت سامان جنگ لے کر آپ سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے نکلے اور میدان جنگ میں ثابت قدمی سے لڑنے کے لئے اپنے بڑے بڑے بت اور اپنی عورتوں کو بھی ھمراہ لے آئے ۔                                   

جناب عباس کی بر وقت اطلاع

حضرت رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچاحضرت عباس جو ابھی مسلمان نھیں هوئے تھے اور قریش کے درمیان ان کے ھم مشرب و ھم مذھب تھے لیکن اپنے بھتیجے سے فطری محبت کی بنا پر جب انھوں نے دیکھا کہ قریش کا ایک طاقتور لشکر پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے نکلا ھے تو فوراً ایک خط لکھا اور قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے ھاتھ مدینہ بھیجا ،عباس کا قاصد بڑی تیزی سے مدینہ کی طرف روانہ هوا ،جب آپ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے سعد بن اُبَيٴ کو عباس کا پیغام پہنچایا اور حتی الامکان اس واقعہ کو پردہ راز میں رکھنے کی کوشش کی ۔

پیغمبر کا مسلمانوں سے مشورہ 

جس دن عباسۻ کا قاصد آپ کو موصول هوا آپ نے چند مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ ومدینہ کے راستہ پر جائیں اور لشکر کفار کے کوائف معلوم کریں، آپ کے دو نمائندے ان کے حالات معلوم کرکے بہت جلدی واپس آئے اور قریش کی قوت وطاقت سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مطلع کیا اور یہ بھی اطلاع دی کہ طاقتور لشکر خود ابوسفیان کی کمان میں ھے ۔

پیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے چند روز کے بعد تمام اصحاب اور اھل مدینہ کو بلایا اور ان در پیش حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے میٹنگ کی، اس میں عباسۻ کے خط کو بھی پیش کیا گیا اور اس کے بعد مقام جنگ کے بارے میں رائے لی گئی اس میٹنگ میں ایک گروہ نے رائے دی کہ جنگ دشمن سے مدینہ کی تنگ گلیوں میں کی جائے کیونکہ اس صورت میں کمزور مرد ،عورتیں بلکہ کنیزیں بھی مدد گار ثابت هوسکیں گی۔ 

عبد اللہ بن ابی نے تائید ا ًکھا یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج تک ایسا نھیں هوا کہ ھم اپنے قلعوں اور گھروں میں هوں اور دشمن ھم پر کامیاب هوگیا هو ۔

اس رائے کو آپ بھی اس وقت کی مدینہ کی پوزیشن کے مطابق بنظر تحسین دیکھتے تھے کیونکہ آپ بھی مدینہ ھی میں ٹھھرنا چاہتے تھے لیکن نوجوانوں اورجنگجو وٴں کا ایک گروہ اس کا مخالف تھا چنانچہ سعد بن معاذ اور قبیلہ اوس کے چند افراد نے کھڑے هو کر کھا اے رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گذشتہ زمانے میں عربوں میں سے کسی کو یہ جراٴت نہ تھی کہ ھماری طرف نظر کرے جبکہ ھم مشرک اور بت پرست تھے اب جبکہ ھمارے درمیان آپ کی ذات والا صفات موجود ھے کس طرح وہ ھمیں دبا سکتے ھیں اس لئے شھرسے باھر جنگ کرنی چاہئے اگر ھم میں سے کوئی مارا گیا تو وہ جام شھادت نوش کرے گا اور اگر کوئی بچ گیا تو اسے جھاد کا اعزازوافتخار نصیب هوگا اس قسم کی باتوں اور جوش شجاعت نے مدینہ سے باھر جنگ کے حامیوں کی تعدا دکو بڑھا دیا یھاں تک کہ عبد اللہ بن اُبَيٴ کی پیش کش سرد خانہ میں جاپڑی خود پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے بھی اس مشورے کا احترام کیااور مدینہ سے باھر نکل کر جنگ کے طرف داروں کی رائے کو قبول فرمالیا اور ایک صحابی کے ساتھ مقام جنگ کا انتخاب کرنے کے لئے شھر سے باھر تشریف لے گئے آپ نے کوہ احد کا دامن لشکر گاہ کے لئے منتخب کیا کیونکہ جنگی نقطہ نظر سے یہ مقام زیادہ مناسب تھا۔ 

مسلمانوں کی دفاعی تیاریاں 

جمعہ کے دن آپ نے یہ مشورہ لیا اور نماز جمعہ کا خطبہ دیتے هوئے آپ نے حمدو ثناء کے بعد مسلمانوں کو لشکر قریش کی آمد کی اطلاع دی اور فرمایا:

” تہہ دل سے جنگ کے لئے آمادہ هوجاؤ اور پورے جذبہ سے دشمن سے لڑو تو خدا وند قددس تمھیں کامیابی وکامرانی سے ھمکنار کرے گا اور اسی دن آپ ایک ہزار افراد کے ساتھ لشکر گاہ کی طرف روانہ هوئے آپ خود لشکر کی کمان کررھے تھے مدینہ سے نکلنے سے قبل آپ نے حکم دیا کہ لشکر کے تین علم بنائے جائیں جن میں ایک مھاجرین اور دو انصار کے هوں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مدینہ اور احد کے درمیانی فاصلے کو پاپیادہ طے کیا اور سارے راستے لشکر کی دیکھ بھال کرتے رھے خود لشکر کی صفوں کو منظم ومرتب رکھا تاکہ وہ ایک ھی سیدھی صف میں حرکت کریں ۔

ان میں سے کچھ ایسے افراد کو دیکھا جو پھلی وفعہ آپ کو نظر پڑے پوچھا کہ یہ لوگ کون ھیں ؟ بتایا گیا کہ یہ عبداللہ بن ابی کے ساتھی کچھ یهودی ھیں اور اس مناسبت سے مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے ھیں آپ نے فرمایا کہ مشرکین سے جنگ کرنے میں مشرکین سے مدد نھیں لی جاسکتی مگریہ کہ یہ لوگ اسلام قبول کرلیں یهودیوں نے اس شرط کو قبول نہ کیا اور سب مدینہ کی طرف پلٹ آئے یوں ایک ہزار میں سے تین سو افراد کم هوگئے ۔

لیکن مفسرین نے لکھا ھے کہ چونکہ عبداللہ بن اُبَيٴ کی رائے کو رد کیا گیا تھا اس لئے وہ اثنائے راہ میں تین سوسے زیادہ افراد کو لے کر مدینہ کی طرف پلٹ آیا بھر صورت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لشکر کی ضروری چھان بین (یهودیوں یا ابن ابی ابی کے ساتھیوں کے نکالنے) کے بعد سات سو افراد کو ھمراہ لے کر کوہ احد کے دامن میں پہنچ گئے، اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کی صفوں کو آراستہ کیا۔

عبد اللہ بن جبیر کو پچاس ماھر تیر اندازوں کے ساتھ پھاڑ کے درہ پر تعینات کیا اور انھیں تاکید کی کہ وہ کسی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں اور فوج کے پچھلے حصے کی حفاظت کریں اور اس حد تک تاکید کی کہ اگر ھم دشمن کا مکہ تک پیچھا کریں یا ھم شکست کھاجائیں اور دشمن ھمیں مدینہ تک جانے پر مجبور کردے پھر بھی تم اپنا مورچہ نہ چھوڑنا، دوسری طرف سے ابو سفیان نے خالد بن ولید کو منتخب سپاھیوں کے ساتھ اس درہ کی نگرانی پر مقرر کیا اور انھیں ھر حالت میں وھیں رہنے کا حکم د یا اور کھا کہ جب اسلامی لشکر اس درہ سے ہٹ جائے تو فوراً لشکر اسلام پر پیچھے سے حملہ کردو۔

آغاز جنگ

دونوں لشکر ایک دوسرے کے آمنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ هوگئے اور یہ دونوں لشکر اپنے نوجوانوں کو ایک خاص انداز سے اکسا رھے تھے، ابوسفیان کعبہ کے بتوں کے نام لے کر اور خوبصورت عورتوں کے ذریعے اپنے جنگی جوانوںکی توجہ مبذول کراکے ان کو ذوق وشوق دلاتا تھا۔

جب کہ پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کے اسم مبارک اور انعامات اعلیٰ کے حوالے سے مسلمانوں کو جنگ کی ترغیب دیتے تھے اچانک مسلمانوں کی صدائے اللہ اکبراللہ اکبر سے میدان اور دامن کوہ کی فضا گونج اٹھی جب کہ میدان کی دوسری طرف قریش کی لڑکیوں نے دف اور سارنگی پر اشعار گا گا کر قریش کے جنگ جو افراد کے احساسات کو ابھارتی تھیں۔

جنگ کے شروع هوتے ھی مسلمانوں نے ایک شدید حملہ سے لشکر قریش کے پرخچے اڑادئیے اور وہ حواس باختہ هوکر بھاگ کھڑے هوئے اور لشکر اسلام نے ان کا پیچھا کرنا شروع کردیا خالدبن ولید نے جب قریش کی یقینی شکت دیکھی تو اس نے چاھا کہ درہ کے راستے نکل کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کرے لیکن تیراندازوں نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا قریش کے قدم اکھڑتے دیکھ کر تازہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے دشمن کو شکت خوردہ سمجھ کرمال غنیمت جمع کرنے کے لئے اچانک اپنی پوزیشن چھوڑدی ، ان کی دیکھا دیکھی درہ پر تعینات تیراندازوں نے بھی اپنا مورچہ چھوڑدیا، ان کے کمانڈرعبد اللہ بن جبیرنے انھیں آ نحضرت کا حکم یاددلایا مگرسوائے چند (تقریبا ًدس افراد) کے کوئی اس اھم جگہ پر نہ ٹھھرا۔

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی مخالفت کا نتیجہ یہ هوا کہ خالدبن ولید نے درہ خالی دیکھ کر بڑی تیزی سے عبد اللہ بن جبیر پر حملہ کیا اور اسے اس کے ساتھیوں سمیت قتل کردیا، اس کے بعد انهوں نے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اچانک مسلمانوں نے ھر طرف چمک دار تلواروں کی تیزدھاروں کو اپنے سروں پر دیکھا تو حواس باختہ هوگئے اور اپنے آپ کو منظم نہ رکھ سکے قریش کے بھگوڑوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو وہ بھی پلٹ آئے اور مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیرلیا۔

اسی موقع پر لشکر اسلام کے بھادر افسر سید الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جام شھادت نوش کیا ،سوائے چند شمع رسالت کے پروانوں کے اور بقیہ مسلمانوں نے وحشت زدہ هوکر میدان کو دشمن کے حوالے کردیا۔

اس خطرناک جنگ میں جس نے سب سے زیادہ فداکاری کا مظاھرہ کیا اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر هونے والے دشمن کے ھر حملے کا دفاع کیا وہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام بڑی جراٴت اور بڑے حوصلہ سے جنگ کررھے تھے یھاں تک کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی، اور پیغمبر اکرم   صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنی تلوار آپ کو عنایت فرمائی جو ذوالفقار کے نام سے مشهور ھے بالآخر آپ ایک مورچہ میں ٹھھرگئے اور حضرت علی علیہ السلام مسلسل آپ کا دفاع کرتے رھے یھاں تک کہ بعض مورخین کی تحقیق کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کے جسم پر ساٹھ کاری زخم آئے، اور اسی موقع پر قاصد وحی نے پیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے عرض کیا :اے محمد ! یہ ھے مواسات ومعاونت کا حق ،آپ نے فرمایا ( ایسا کیوں نہ هو کہ ) علی مجھ سے ھے اور میں علی سے هوں ،تو جبرئیل نے اضافہ کیا : میں تم دونوں سے هوں ۔

امام صادق ارشاد فرماتے ھیں کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے قاصد وحی کو آسمان میں یہ کہتے هوئے دیکھا کہ: ”لاسیف الاذوالفقار ولا فتی الا علی “ (ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نھیں اور علی کے سوا کوئی جوانمرد نھیں)

اس اثناء میں یہ آواز بلند هوئی کہ محمد قتل هوگئے ۔

یہ آواز فضائے عالم میں گونج اٹھی اس آواز سے جتنابت پرستوں کے جذبات پر مثبت اثر پیدا هوا اتناھی مسلمانوں میں عجیب اضطراب پیدا هوگیا چنانچہ ایک گروہ کے ھاتھ پاؤں جواب دے گئے اور وہ بڑی تیزی سے میدان جنگ سے نکل گئے یھاں تک کہ ان میں سے بعض نے سوچا کہ پیغمبر شھیدهو گئے ھیں لہٰذا اسلام ھی کو خیرباد کہہ دیا جائے اور بت برستوں کے سرداروں سے امان طلب کرلی جائے لیکن ان کے مقابلہ میں فداکاروں اور جانثاروں کی بھی ایک قلیل جماعت تھی جن میں حضرت علی ابود جانہ اور طلحہ جیسے بھادر لوگ موجود تھے جوباقی لوگوں کوپامردی اور استقامت کی دعوت دے رھے تھے ان میں سے انس بن نضر لوگوں کے درمیان آیا اور کہنے لگا :اے لوگو ! اگر محمد شھید هوگئے ھیں تو محمد کا خدا تو قتل نھیں هوا چلو اور جنگ کرو ،اسی نیک اور مقدس ہدف کے حصول کے لئے درجہ شھادت پر فائز هو جاؤ ،یہ گفتگو تمام کرتے ھی انھوں نے دشمن پر حملہ کردیا یھاں تک کہ شھید هوگئے ،تاھم جلد معلوم هوگیا کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلامت ھیں اور اطلاع ایک شایعہ تھی ۔  

کون پکارا کہ محمد (ص) قتل هوگئے ؟

”ابن قمعہ“ نے اسلامی سپاھی مصعب کو پیغمبر سمجھ کر اس پر کاری ضرب لگائی اور باآواز بلند کھا :لات وعزی کی قسم محمد قتل هوگئے ۔

اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ یہ افواہ چاھے مسلمانوں نے اڑائی یا دشمن نے لیکن مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ثابت هوئی اس لئے کہ جب آواز بلند هوئی تو دشمن میدان چھوڑ کر مکہ کی طرف چل پڑے ورنہ قریش کا فاتح لشکر جو حضور  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے دلوں میں کینہ رکھتا تھا اور انتقام لینے کی نیت سے آیا تھا کبھی میدان نہ چھوڑتا، قریش کے پانچ ہزار افراد پر مشتمل لشکر نے میدان جنگ میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد ایک رات بھی صبح تک وھاں نہ گذاری اور اسی وقت مکہ کی طرف چل پڑے۔

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی شھادت کی خبر نے بعض مسلمانوں میں اضطراب وپریشانی پیدا کردی ،جو مسلمان اب تک میدان کارزار میں موجود تھے، انھوں نے اس خیال سے کہ دوسرے مسلمان پراکندہ نہ هوں آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پھاڑ کے اوپر لے گئے تاکہ مسلمانوں کو پتہ چل جائے کہ آپ بقید حیات ھیں ، یہ دیکھ کر بھگوڑے واپس آگئے اور آنحضرت کے گرد پروانوں کی طرح جمع هوگئے ،آپ نے ان کو ملامت وسرزنش کی کہ تم نے ان خطرناک حالات میں کیوں فرار کیا ،مسلمان شرمندہ تھے انهوں نے معذرت کرتے هوئے کھا : یا رسول خدا ھم نے آپ کی شھادت کی خبر سنی تو خوف کی شدت سے بھاگ کھڑے هوے۔

مفسر عظیم مرحوم طبرسی، ابو القاسم بلخی سے نقل کرتے ھیں کہ جنگ احد کے دن( پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ)سوائے تیرہ افرادکے تمام بھاگ گئے تھے، اور ان تیرہ میں سے آٹھ انصار اور پانچ مھاجرتھے، جن میں سے حضرت علی علیہ السلام اور طلحہ کے علاوہ باقی ناموں میں اختلاف ھے، البتہ دونوں کے بارے میں تمام موٴرخین کا اتفاق ھے کہ انھوں نے فرار نھیں کیا۔

یوں مسلمانوں کو جنگ احد میں بہت زیادہ جانی اورمالی نقصان کا سامنا کرنا،پڑا مسلمانوں کے ستر افراد شھید هوئے اور بہت سے زخمی هوگئے لیکن مسلمانوں کو اس شکست سے بڑا درس ملا جو بعد کی جنگوں میں ان کی کامیابی و کامرانی کا باعث بنا ۔

جنگ کا خطرناک مرحلہ 

جنگ احد کے اختتام پر مشرکین کا فتحیاب لشکر بڑی تیزی کے ساتھ مکہ پلٹ گیا لیکن راستے میں انھیں یہ فکر دامن گیر هوئی کہ انهوں نے اپنی کامیابی کو ناقص کیوں چھوڑدیا ۔کیا ھی اچھا هو کہ مدینہ کی طرف پلٹ جائیں اور اسے غارت و تاراج کردیں اور اگر محمد زندہ هوں تو انھیں ختم کردیں تاکہ ھمیشہ کے لئے اسلام اور مسلمانوں کی فکر ختم هوجائے ، اور اسی بنا پر انھیں واپس لوٹنے کا حکم دیا گیا اور درحقیقت جنگ احد کا یہ وہ خطر ناک مرحلہ تھا کیونکہ کافی مسلمان شھید اور زخمی هوچکے تھے اور فطری طور پر وہ ازسر نو جنگ کرنے کے لئے آمادہ نھیں تھے ۔جبکہ اس کے برعکس اس مرتبہ دشمن پورے جذبہ کے ساتھ جنگ کرسکتا تھا۔

یہ اطلاع پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہنچی تو آپ نے فوراً حکم دیا کہ جنگ احد میں شریک هونے والا لشکر دوسری جنگ کے لئے تیار هوجائے ،آپ نے یہ حکم خصوصیت سے دیا کہ جنگ احد کے زخمی بھی لشکر میں شامل هوں،(حضرت علی علیہ السلام نے جن کے بدن پر دشمنوں نے ۶۰زخم لگائے تھے،لیکن آپ پھر دوبارہ دشمنوں کے مقابلہ میں آگئے) ایک صحابی کہتے ھیں :

میں بھی زخمیوں میں سے تھا لیکن میرے بھائی کے زخم مجھ سے زیادہ شدید تھے ، ھم نے ارادہ کرلیا کہ جو بھی حالت هو ھم پیغمبر اسلام کی خدمت میں پهونچے گے، میری حالت چونکہ میرے بھائی سے کچھ بہتر تھی ، جھاں میرا بھائی نہ چل پاتا میں اسے اپنے کندھے پر اٹھالیتا، بڑی تکلیف سے ھم لشکر تک جا پہنچے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور لشکر اسلام ”حمراء الاسد“ کے مقام پر پہنچ گئے اور وھاں پر پڑاؤ ڈالا یہ جگہ مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھی۔

یہ خبر جب لشکر قریش تک پہنچی خصوصاً جب انھوں نے مقابلہ کے لئے ایسی آمادگی دیکھی کہ زخمی بھی میدان جنگ میں پہنچ گئے ھیں تو وہ پریشان هوگئے اور ساتھ ھی انھیں یہ فکر بھی لاجق هوئی کہ مدینہ سے تازہ دم فوج ان سے آملی ھے۔

اس موقع پر ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کے دلوں کو اور کمزور کردیا اور ان میں مقابلہ کی ھمت نہ رھی ، واقعہ یہ هوا کہ ایک مشرک جس کا نام ”معبد خزاعی“ تھا مدینہ سے مکہ کی طرف جارھا تھا اس نے پیغمبر اکرم اور ان کے اصحاب کی کیفیت دیکھی تو انتھائی متاثر هوا، اس کے انسانی جذبات میں حرکت پیدا هوئی، اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے عرض کیا: آپ کی یہ حالت و کیفیت ھمارے لئے بہت ھی ناگوار ھے آپ آرام کرتے  تو ھمارے لئے بہتر هوتا، یہ کہہ کر وہ وھاں سے چل پڑااور” روحاء“ کے مقام پر ابو سفیان کے لشکر سے ملا، ابو سفیان نے اس سے پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کھا: میں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ھے کہ وہ ایسا عظیم لشکر لئے هوئے تمھارا تعاقب کرھے ھیں ایسا لشکر میں نے کبھی نھیں دیکھا او رتیزی سے آگے بڑھ رھے ھیں۔

ابوسفیان نے اضطراب اور پریشانی کے عالم میں کھا : تم کیا کہہ رھے هو؟ھم نے انھیں قتل کیا زخمی کیا اور منتشر کر کے ر کھ دیا تھا ،معبد خزاعی نے کھا: میں نھیں جانتا کہ تم نے پایا کیا ھے ،میں تو صرف یہ جانتا هوںکہ ایک عظیم اور کثیر لشکر اس وقت تمھارا تعاقب کر رھا ھے ۔

ابو سفیان اور اسکے سا تھیوں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ وہ تیزی سے پیچھے کی طرف ہٹ جا ئیں اور مکہ کی طرف پلٹ جا ئیں اور اس مقصد کے لئے کہ مسلمان ان کا تعاقب نہ کریں اور انھیں پیچھے ہٹ جا نے کا کا فی مو قع مل جا ئے ، انهوں نے قبیلہ عبد القیس کی ایک جما عت سے خواہش کی کہ وہ پیغمبر اسلا م  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلما نوں تک یہ خبر پہنجا دیں کہ ابو سفیان اور قریش کے بت پر ست با قی ماندہ اصحا ب پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ختم کرنے کے لئے ایک عظیم لشکر کے ساتھ تیزی سے مدینہ کی طرف آ رھے ھیں، یہ جما عت گندم خرید نے کے لئے مدینہ جا رھی تھی جب یہ اطلاع پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلما نوں تک پہنچی تو انهوں نے کھا :”حسبنا اللہ و نعم الو کیل“ (خدا ھمارے لئے کافی ھے اور وہ ھمارا بہترین حامی اور مدافع ھے )۔

انهوں نے بہت انتظار کیا لیکن دشمن کے لشکر کی کو ئی خبر نہ هو ئی ، لہٰذا تین روز توقف کے بعد ،وہ مدینہ کی طرف لوٹ گئے۔

کھوکھلی باتیں 

جنگ بدر میں بعض مسلمانوں کی پر افتخا ر شھادت کے بعد بعض مسلمان جب باھم مل بیٹھتے تو ھمیشہ شھادت کی آرزو کرتے اور کہتے کاش یہ اعزاز میدان بدر میں ھمیں بھی نصیب هوجا تا ،یقینا ان میں کچھ لوگ سچے بھی تھے لیکن ان میں ایک جھوٹا گروہ بھی تھا جس نے اپنے آپ کو سمجھنے میں غلطی کی ،بھر حال زیادہ وقت نھیں گزرا تھا کہ جنگ احد کا وحشتناک معرکہ در پیش هوا تو ان سچے مجا ہدین نے بھادری سے جنگ کی اور جام شھادت نوش کیا اور اپنی آرزوکو پا لیا لیکن جھوٹوں کے گروہ نے جب لشکر اسلام میں شکست کے آثار دیکھے تو وہ قتل هونے کے ڈر سے بھاگ کھڑے هوئے تو یہ قرآن انھیں سرزنش کرتے هوئے کہتا ھے کہ” تم ایسے لوگ تھے کہ جو دلوں میں آرزو اور تمنائے شھادت کے دعویدار تھے، پھرجب تم نے اپنے محبوب کو اپنی آنکھوںکے سامنے دیکھا تو کیوںبھاگ کھڑے هوئے“۔[44]

حضرت علی علیہ السلام کے زخم

امام باقر علیہ السلام سے اس طرح منقول ھے:حضرت علی علیہ السلام کو احد کے دن اکسٹھ زخم لگے تھے اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ”ام سلیم“ اور ”ام عطیہ“ کو حکم دیا کہ ہ دونوںحضرت علی علیہ السلام کے زخموںکا علاج کریں،تھوڑی ھی دیر گذری تھی کہ وہ حالت پریشانی میں آنحضرتکی خدمت میںعرض کرنے لگے: کہ حضرت علی علیہ السلام کے بدن کی کیفیت یہ ھے کہ ھم جب ایک زخم باندھتے ھیں تو دوسرا کھل جا تاھے اور ان کے بدن کے زخم اس قدرزیادہ اور خطرناک ھیں کہ ھم ان کی زندگی کے بارے میں پریشان ھیں تو حضرت رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور کچھ دیگر مسلمان حضرت علی علیہ السلام کی عیادت کے لئے ان کے گھرآئے جب کہ ان  کے بدن پر زخم ھی زخم تھے پیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اپنے دست مبارک ان کے جسم سے مس کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو شخص راہ خدا میں اس حالت کو دیکھ لے وہ اپنی ھی ذمہ داری کے آخری درجہ کو پہنچ چکا ھے اور جن جن زخموں پرآپ ھاتھ رکھتے تھے وہ فوراًمل جاتے تھے تواس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: الحمدا للہ کہ ان حالات میں جنگ سے نھیں بھا گا اوردشمن کو پشت نھیں دکھائی خدا نے ان کی کو شش کی قدر دانی کی۔

ھم نے شکست کیوں کھائی ؟

کا فی شھید دےکر اور بہت نقصان اٹھا کر جب مسلمان مدینہ کی طرف پلٹ آئے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کیا خدانے ھم سے فتح و کامیابی کا وعدہ نھیں کیا تھا،پھر اس جنگ میں ھمیں کیوں شکست هوئی ؟اسی سے قرآن میں انھیںجواب دیا گیا اور شکست کے اسباب کی نشاندھی کی گئی۔[45]

قرآن کہتا ھے کہ کامیابی کہ بارے میں خدا کا وعدہ درست تھا اور اس کی وجہ ھی سے تم ابتداء جنگ میں کامیاب هوئے اور حکم خدا سے تم نے دشمن کو تتر بتر کر دیا ۔ کامیا بی کا یہ وعدہ اس وقت تک تھا جب تک تم استقامت اور پائیداری اور فرمان پیغمبری  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی پیروی سے دست بردار نھیں هو ئے اور شکست کا دروازہ اس وقت کھلا جب سستی اور نا فرمائی نے تمھیں آگھیرا ،یعنی اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ھے کہ کا میابی کا وعدہ بلا شرط تھا تو تمھاری بڑ ی غلط فھمی ھے بلکہ کامیابی کے تمام وعدے فرمان خدا کی پیروی کے ساتھ مشروط ھیں ۔

عمومی معافی کا حکم 

جو لوگ واقعہٴ احد کے دوران جنگ سے فرار هوگئے تھے وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے گرد جمع هوگئے اور انهوں نے ندامت وپشیمانی کے عالم میںمعافی کی درخواست کی تو خدا ئے تعالیٰ نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے انھیں عام معافی دینے کے لئے فرمایا لہٰذا حکم الٰھی نازل هوتے ھی آپ نے فراخ دلی سے توبہ کرنے والے خطا کاروں کو معاف کردیا ۔                                        

قرآن میں پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی ایک بہت بڑی اخلاقی خوبی کی طرف اشارہ کیا گیا ھے کہ تم پروردگار کے لطف وکرم کے سبب ان پر مھربان هوگئے اور اگر تم ان کے لئے سنگدل،سخت مزاج اور تند خو هوتے اور عملا ًان پر لطف وعنایت نہ کرتے تو وہ تمھارے پاس سے بکھر جاتے ۔ اس کے بعد حکم دیا گیا کہ” ان کی کوتاھیوں سے درگزر فرمائیے اور انھیں اپنے دامن عفو میں جگہ دیجئے“۔[46]

یعنی اس جنگ میں انهوں نے جو بے وفائیاں آپ سے کی ھیں اور جو تکا لیف اس جنگ میں آپ کو پہنچائی ھیں ، ان کے لئے ان کی مغفرت طلب کیجئے اور میں خود ان کے لئے تم سے سفارش کرتا هوں کہ انهوں نے میری جو مخالفتیں کی ھیں ،مجھ سے ان کی مغفرت طلب کرو دوسرے لفظوں میں جو تم سے مربوط ھے اسے تم معاف کردو اورجو مجھ سے ربط رکھتا ھے اسے میں بخش دیتا هوں، آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمان خدا پر عمل کرتے هوئے ان تمام خطا کاروں کو عام معافی دےدی ۔[47]

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  شہداء سے مخاطب 

ابن مسعود پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے روایت کرتے ھیں :  خدا نے شہداء بدرواحد کی ارواح کو خطاب کرتے هوئے ان سے پوچھا کہ تمھاری کیا آرزو ھے تو انهوں نے کھا : پروردگارا! ھم اس سے زیادہ کیا آرزو کرسکتے ھیںکہ ھم ھمیشہ کی نعمتوں میں غرق ھیں اور تیرے عرش کے سائے میں رہتے ھیں ، ھمارا تقاضا صرف یہ ھے کہ ھم دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں اور پھر سے تیری راہ میں شھید هوں، اس پر خدا نے فرمایا : میرااٹل فیصلہ ھے کہ کوئی شخص دوبارہ دنیا کی طرف نھیں پلٹے گا ۔

انهوں نے عرض کیا : جب ایسا ھی ھے تو ھماری تمنا ھے کہ ھمارے پیغمبر کو ھماراسلام کو پہنچادے ، ھماری حالت ھمارے پسما ندگان کوبتادے اور انھیں ھماری حالت کی بشارت دے تاکہ ھمارے بارے میں انھیں کسی قسم کی پریشانی نہ هو۔ 

حنظلہ غسیل الملائلکہ

”حنظلہ بن ابی عیاش“ جس رات شادی کرنا چاہتے تھے اس سے اگلے دن جنگ احد برپاهوئی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اپنے اصحاب سے جنگ کے بارے میں مشورہ کررھے تھے کہ وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کی اگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اجازت دےدیں تو یہ رات میں بیوی کے ساتھ گزرالوں ، آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے انھیں اجازت دےدی ۔

صبح کے وقت انھیں جھاد میں شرکت کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ وہ غسل بھی نہ کرسکے اسی حالت میں معرکہٴ کارزار میں شریک هوگئے اور بالآخر جام شھادت نوش کیا ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا :میں نے فرشتوں کو دیکھا ھے کہ وہ آسمان وزمین کے درمیان حنظلہ کو غسل دے رھے ھیں ۔

اسی لئے انھیں حنظلہ کو:” غسیل الملائکہ“ کے نام سے یاد کیا جاتاھے ۔

قبیلہٴ بنی نضیر کی سازش 

مدینہ میں یهودیوں کے تین قبیلے رہتے تھے ، بنی نظیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، کھا جاتاھے کہ وہ اصلاً اھل حجازنہ تھے لیکن چونکہ اپنی مذھبی کتب میں انهوں نے پڑھا تھا کہ ایک پیغمبر مدینہ میں ظهور کرے گا لہٰذا انهوں نے اس سر زمین کی طرف کوچ کیا اور وہ اس عظیم پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے انتظار میں تھے۔

جس وقت رسول خدا نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ نے ان کے ساتھ عدم تعرض کا عہد باندھا لیکن ان کو جب بھی موقع ملا انهوں نے یہ عہد توڑا ۔

دوسری عہد شکنیوں کے علاوہ یہ کہ جنگ احد(جنگ احد ہجرت کے تیسرے سال واقع هوئی ) کعب ابن اشرف چالیس سواروں کے ساتھ مکہ پہنچا وہ اور اس کے ساتھی سب قریش کے پاس اور ان سے عہد کیا کہ سب مل کر محمد  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے خلاف جنگ کریں اس کے بعد ابوسفیان چالیس مکی افراد کے ساتھ اور کعب بن اشرف ان چالیس یهودیوں کے ساتھ مسجد الحرام میں وارد هوئے اور انهوں نے خانہ کعبہ کے پاس اپنے عہددپیمان کو مستحکم کیا یہ خبر بذریعہ وحی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو مل گئی۔

دوسرے یہ کہ ایک روز پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اپنے چند بزرگ اصحاب کے ساتھ قبیلہٴ بنی نضیر کے پاس آئے یہ لوگ مدینہ کے قریب رہتے تھے۔

پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور آپ کے صحابہ کا حقیقی مقصدیہ تھا کہ آپ اس طرح بنی نظیر کے حالات قریب سے دیکھناچاہتے تھے  اس لئے کہ کھیں ایسانہ هو کہ مسلمان غفلت کا شکار هوکر دشمنوں کے ھاتھوں مارے جائیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  یهود یوںکے قلعہ کے باھر تھے آپ نے کعب بن اشرف سے اس سلسلہ میں بات کی اسی دوران یهودیوں کے درمیان سازش هونے لگی وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ایسا عمدہ موقع اس شخض کے سلسلہ میں دوبارہ ھاتھ نھیں آئے گا، اب جب کہ یہ تمھاری دیوار کے پاس بیٹھا ھے ایک آدمی چھت پر جائے اور ایک بہت بڑا پتھر اس پر پھینک دے اور ھمیں اس سے نجات دلادے ایک یهودی ،جس کا نام عمر بن حجاش تھا ،اس نے آمادگی ظاھر کی وہ چھت پر چلا گیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  بذریعہ وحی باخبر هوگئے اور وھاں سے اٹھ کر مدینہ آگئے آپ نے اپنے اصحاب سے کوئی بات نھیں کی ان کا خیال تھا کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  لوٹ کر مدینہ جائیں گے ان کو معلوم هوا کہ آپ مدینہ پہنچ گئے ھیں چنانچہ وہ بھی مدینہ پلٹ آئے یہ وہ منزل تھی کہ جھاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  پر یهودیوں کی پیما ن شکنی واضح وثابت هوگئی تھی آپ نے مسلمانوں کو جنگ کے لئے تیار هوجانے کا حکم دیا۔

بعض روایات میں یہ بھی آیا ھے کہ بنی نظیر کے ایک شاعر نے پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی ہجومیں کچھ اشعار کھے اور آپ کے بارے میں بد گوئی بھی کی ان کی پیمان شکنی کی یہ ایک اور دلیل تھی۔

پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے اس وجہ سے کہ ان پر پھلے سے ایک کاری ضرب لگائیں ، محمد بن مسلمہ کو جو کعب بن اشرف رئیس یهود سے آشنائی رکھتا تھا ،حکم دیا کہ وہ کعب کو قتل کردے اس نے کعب کو قتل کردیا، کعب بن اشرف کے قتل هوجانے نے یهودیوں کو متزلزل کردیا،ا س کے ساتھ ھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دیا کہ ھر مسلمان اس عہد شکن قوم سے جنگ کرنے کے لئے چل پڑے جس وقت وہ اس صورت حال سے باخبر هوئے تو انهوں نے اپنے مضبوط ومستحکم قلعوں میں پناہ لے لی اور دروازے بند کرلئے ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دیا کہ وہ چند کھجوروں کے درخت جو قلعوں کے قریب ھیں ، کاٹ دیے جائیں یا جلادئے جائیں۔

یہ کام غالبا ًاس مقصد کے پیش نظر هوا کہ یهودی اپنے مال واسباب سے بہت محبت رکھتے تھے وہ اس نقصان کی وجہ سے قلعوں سے باھرنکل کر آمنے سامنے جنگ کریں گے مفسرین کی طرف سے یہ احتمال بھی تجویز کیا گیا ھے کہ کاٹے جانے والے کھجوروں کے یہ درخت مسلمانوں کی تیز نقل وحرکت میں رکاوٹ ڈالتے تھے لہٰذا انھیں کاٹ دیا جانا چاہئے تھا بھرحال اس پر یهودیوں نے فریاد کی انهوں نے کھا :”اے محمد ًآپ تو ھمیشہ اس قسم کے کاموں سے منع کرتے تھے یہ کیا سلسلہ ھے” تو اس وقت وحی نازل هوئی[48] اور انھیں جواب دیا کہ یہ ایک مخصوص حکم الٰھی تھا۔

محاصرہ نے کچھ دن طول کھینچا اور پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے خوں ریزی سے پرھیز کرتے هوئے ان سے کھا کہ وہ مدینہ کو خیر باد کہہ دیں اور کھیں دوسری جگہ چلے جائیں انهوں نے اس بات کو قبول کرلیا کچھ سامان اپنا لے لیا اور کچھ چھوڑدیا ایک جماعت” اذرعات “ شام کی طرف اور ایک مختصر سی تعداد خیبر کی طرف چلی گئی ایک گروہ” حیرہ“ کی طرف چلا گیا ان کے چھوڑے هوئے اموال،زمینیں،باغات اور گھر مسلمانوں کے ھاتھ لگے، چلتے وقت جتنا ان سے هوسکا انهوں نے اپنے گھر توڑپھوڑدئےے یہ واقعہ جنگ احد کے چھ ماہ بعد اور ایک گروہ کی نظرکے مطابق جنگ بدر کے چھ ماہ بعد هوا [49]

جنگ احزاب 

تاریخ اسلام کے اھم حادثوںمیں سے ایک جنگ احزاب بھی ھے یہ ایک ایسی جنگ جو تاریخ اسلام میں ایک اھم تاریخی موڑ ثابت هوئی اور اسلام وکفر کے درمیان طاقت کے موازنہ کے پلڑے کو مسلمانوں کے حق میں جھکادیا اور اس کی کامیابی آئندہ کی عظیم کامیابیوں کے لئے کلیدی حیثیت اختیارکر گئی اور حقیقت یہ ھے کہ اس جنگ میں دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی اور اس کے بعد وہ کوئی خاص قابل ذکر کار نامہ انجام دینے کے قابل نہ رہ سکے ۔

” یہ جنگ احزاب“ جیسا کہ اس کے نام سے ظاھر ھے تمام اسلام دشمن طاقتوں اور ان مختلف گرو هوں کی طرف سے ھر طرح کا مقابلہ تھا کہ اس دین کی پیش رفت سے ان لوگوں کے ناجائز مفادات خطرے میں پڑگئے تھے ۔ جنگ کی آگ کی چنگاری”نبی نضیر“ یهودیوں کے اس گروہ کی طرف سے بھڑکی جو مکہ میں آئے اور قبیلہ ”قریش“ کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے لڑنے پر اکسایا اور ان سے وعدہ کیا کہ آخری دم تک ان کا ساتھ دیں گے پھر قبیلہ ”غطفان “ کے پاس گئے اور انھیں بھی کارزار کے لئے آمادہ کیا ۔ 

ان قبائل نے اپنے ھم پیمان اور حلیفوں مثلاً قبیلہ ” بنی اسد “ اور” بنی سلیم “ کو بھی دعوت دی اور چونکہ یہ سب قبائل خطرہ محسوس کئے هوئے تھے، لہٰذا اسلام کا کام ھمیشہ کے لئے تمام کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ھاتھ میں ھاتھ دےدیا تاکہ وہ اس طرح سے پیغمبر کو شھید ، مسلمانوں کو سر کوب ، مدینہ کو غارت اور اسلام کا چراغ ھمیشہ کے لئے گل کردیں ۔

کل ایمان کل کفر کے مقابلہ میں 

جنگ احزاب کفر کی آخری کوشش ،ان کے ترکش کا آخری تیراور شرک کی قوت کا آخری مظاھرہ تھا اسی بنا پر جب دشمن کا سب سے بڑا پھلو ان عمروبن عبدودعالم اسلام کے دلیر مجاہد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلہ میں آیا تو پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا :”سارے کا سارا ایمان سارے کے سارے (کفر اور ) شرک کے مقابلہ میں آگیا ھے “۔ 

کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی دوسرے پر فتح کفر کی ایمان پر یا ایمان کی کفر پر مکمل کا میابی تھی دوسرے لفظوں میں یہ فیصلہ کن معرکہ تھا جو اسلام اور کفر کے مستقبل کا تعین کررھا تھا اسی بناء پر دشمن کی اس عظیم جنگ اور کار زار میں کمر ٹوٹ گئی اور اس کے بعد ھمیشہ مسلمانوں کاپلہ بھاری رھا ۔

دشمن کا ستارہٴ اقبال غروب هوگیا اور اس کی طاقت کے ستون ٹوٹ گئے اسی لئے ایک حدیث میں ھے کہ حضرت رسول گرامی  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے جنگ احزاب کے خاتمہ پر فرمایا :

”اب ھم ان سے جنگ کریں گے اور ان میں ھم سے جنگ کی سکت نھیں ھے“ ۔

لشکر کی تعداد

بعض موٴرخین نے لشکر کفار کی تعداد دس ہزار سے زیادہ لکھی ھے ۔مقریزی اپنی کتاب ”الا متاع “ میں لکھتے ھیں :”صرف قریش نے چارہزار جنگ جوؤں ، تین سو گھوڑوں اور پندرہ سواونٹوں کے ساتھ خندق کے کنارے پڑاؤ ڈالا تھا ،قبیلہٴ” بنی سلیم “سات سو افراد کے ساتھ ”مرالظھران “ کے علاقہ میں ان سے آملا، قبیلہ ”بنی فرازہ“ ہزار افراد کے ساتھ ، ”بنی اشجع“ اور” بنی مرہ“ کے قبائل میں سے ھر ایک چار چار سو افراد کے ساتھ پہنچ گیا ۔ اور دوسرے قبائل نے بھی اپنے آدمی یہ بھیجے جن کی مجموعی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ بنتی ھے “ 

جبکہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی انهوں نے (مدینہ کے قریب )” سلع “ نامی پھاڑی کے دامن کو جو ایک بلند جگہ تھی وھاںپر لشکر کفر نے مسلمانوں کا ھر طرف سے محاصرہ کرلیا اور ایک روایت کے مطابق بیس دن دوسری روایت کے مطابق پچیس دن اور بعض روایات کے مطابق ایک ماہ تک محاصرہ جاری رھا ۔

باوجودیکہ دشمن مسلمانوں کی نسبت مختلف پھلوؤں سے برتری رکھتا تھا لیکن جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں ،آخر کار ناکام هو کر واپس پلٹ گیا۔

خندق کی کھدائی 

خندق کے کھودنے کا سلسلہ حضرت سلمان فارسی ۻکے مشورہ سے وقوع پذیر هوا خندق کے اس زمانے میں ملک ایران میں دفاع کا موثر ذریعہ تھا اور جزیرة العرب میں اس وقت تک اس کی مثال نھیں تھی اور عرب میں اس کا شمار نئی ایجادات میں هوتا تھا اطراف مدینہ میں اس کا کھود نا فوجی لحاظ سے بھی اھمیت کا حامل تھا یہ خندق دشمن کے حوصلوں کو پست کرنے اور مسلمانوں کے لئے روحانی تقویت کا بھی ایک موثر ذریعہ تھی ۔

خندق کے کو ائف اور جزئیات کے بارے میں صحیح طور پر معلومات تک رسائی تو نھیں ھے البتہ مورخین نے اتنا ضرور لکھا ھے کہ اس کا عرض اتنا تھاکہ دشمن کے سوار جست لگا کر بھی اس کو عبور نھیں کرسکتے تھے اس کی گھرائی  یقینا اتنی تھی کہ اگر کو ئی شخص اس میں داخل هوجاتاھے تو آسانی کے ساتھ دوسری طرف باھر نھیں نکل سکتا تھا ،علاوہ ازیں مسلمان تیر اندازوں کا خندق والے علاقے پر اتنا تسلط تھا کہ اگر کوئی شخص خندق کو عبور کرنے کا ارداہ کرتا تھا تو ان کے لئے ممکن تھا کہ اسے خندق کے اندرھی تیر کا نشانہ بنالیتے ۔ 

رھی اس کی لمبائی تو مشهور روایت کو مد نظر رکھتے هوئے کہ حضرت رسالت مآب  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے دس ،دس افراد کو چالیس ھاتھ (تقریباً ۲۰ میڑ) خندق کھودنے پر مامور کیا تھا،اور مشهور قول کے پیش نظر لشکر اسلام کی تعداد تین ہزار تھی تو مجموعی طورپر اس کی لمبائی اندازاً بارہ ہزار ھاتھ (چھ ہزار میڑ) هوگی۔ 

اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس زمانے میںنھایت ھی ابتدائی وسائل کے ساتھ اس قسم کی خندق کھودنا بہت ھی طاقت فرسا کام تھا خصوصاً جب کہ مسلمان خوراک اور دوسرے وسائل کے لحاظ سے بھی سخت تنگی میں تھے ۔

یقینا خندق کھودی بھی نھایت کم مدت میں گئی یہ امر اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ لشکر اسلام پوری هوشیاری کے ساتھ دشمن کے حملہ آور هونے سے پھلے ضروری پیش بندی کرچکا تھا اور وہ بھی اس طرح سے کہ لشکر کفر کے مدینہ پہنچنے سے تین دن پھلے خندق کی کھدائی کا کام مکمل هوچکا تھا۔

عمرو بن عبدود دسے حضرت علی (ع)کی تاریخی جنگ 

اس جنگ کا ایک اھم واقعہ حضرت علی علیہ السلام کا دشمن کے لشکر کے نامی گرامی پھلو ان عمروبن عبددد کے ساتھ مقابلہ تھا تاریخ میں آیا ھے کہ لشکر احزاب نے جن دلاوران عرب میں سے بہت طاقت ور افراد کو اس جنگ میں اپنی امداد کے لئے دعوت دے رکھی تھی، ان میں سے پانچ افراد زیادہ مشهور تھے، عمروبن عبدود ، عکرمہ بن ابی جھل ،ھبیرہ ، نوفل اور ضرار یہ لوگ دوران محاصرہ ایک دن دست بدست لڑائی کے لئے تیار هوئے ، لباس جنگ بدن پر سجایا اور خندق کے ایک کم چوڑے حصے سے ، جو مجاہدین اسلام کے تیروں کی پہنچ سے کسی قدر دور تھا ، اپنے گھوڑوں کے ساتھ دوسری طرف جست لگائی اور لشکر اسلام کے سامنے آکھڑے هوئے ان میں سے عمروبن عبدود زیادہ مشهور اور نامور تھا اس کی”کوئی ھے بھادر “کی آواز میدان احزاب میں گونجی اور چونکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس کے مقابلہ کے لئے تیار نہ هوا لہٰذا وہ زیادہ گستاخ هوگیا اور مسلمانوں کے عقاید اورنظریات کا مذاق اڑا نے لگا اور کہنے لگا :

”تم تویہ کہتے هو کہ تمھارے مقتول جنت میں ھیں اور ھمارے مقتول جہنم میں توکیاتم میں سے کوئی بھی ایسا نھیں جسے میں بہشت میں بھیجوں یا وہ مجھے جہنم کی طرف روانہ کرے ؟“

اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دیا کہ کوئی شخص کھڑا هواور اس کے شر کو مسلمانوں کے سرسے کم کردے لیکن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کوئی بھی اس کے ساتھ جنگ کے لئے آمادہ نہ هوا تو آنحضرت نے علی ابن اطالب علیہ السلام سے فرمایا : یہ عمر وبن عبدود ھے “ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی حضور : میں بالکل تیار هوں خواہ عمروھی کیوں نہ هو، پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ان سے فرمایا ” میرے قریب آؤ : چنانچہ علی علیہ السلام آپ کے قریب گئے اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ان کے سر پر عمامہ باندھا اور اپنی مخصوص تلوار ذوالفقار انھیں عطا فرمائی اور ان الفاظ میں انھیں دعا دی :

خدایا ،علی کے سامنے سے ، پیچھے سے ، دائیں اور بائیں سے اور اوپر اور نیچے سے حفاظت فرما ۔

حضرت علی علیہ السلام بڑی تیزی سے عمرو کے مقابلہ کےلئے میدان میں پہنچ گئے ۔

یھی وہ موقع تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے وہ مشهور جملہ ارشاد فرمایا :

”کل ایمان کل کفر کے مقابلہ میں جارھا ھے “۔

ضربت علی (ع) ثقلین کی عبادت پر بھاری

امیر المو منین علی علیہ السلام نے پھلے تو اسے اسلام کی دعوت دی جسے اس نے قبول نہ کیا پھر میدان چھوڑکر چلے جانے کو کھا اس پر بھی اس نے انکار کیا اور اپنے لئے باعث ننگ وعار سمجھا آپ کی تیسری پیشکش یہ تھی کہ گھوڑے سے اتر آئے اور پیادہ هوکر دست بدست لڑائی کرے ۔

عمرو آگ بگولہ هوگیا اور کھا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ عرب میں سے کوئی بھی شخص مجھے ایسی تجویزدے گا گھوڑے سے اتر آیا اور علی علیہ السلام پر اپنی تلوار کا وار کیا لیکن امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنی مخصوص مھارت سے اس وار کو اپنی سپرکے ذریعے روکا ،مگر تلوار نے سپر کو کاٹ کرآپ کے سرمبارک کو زخمی کردیا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خاص حکمت عملی سے کام لیا عمر وبن عبدود سے فرمایا :تو عرب کا زبردست پھلو ان ھے ، جب کہ میں تجھ سے تن تنھا لڑرھا هوں لیکن تو نے اپنے پیچھے کن لوگوں کو جمع کررکھا ھے اس پر عمر ونے جیسے ھی پیچھے مڑکر دیکھا ۔

حضرت علی علیہ السلام نے عمرو کی پنڈلی پر تلوار کا وار کیا ، جس سے وہ سروقد زمین پر لوٹنے لگا شدید گردوغبار نے میدان کی فضا کو گھیررکھا تھا کچھ منافقین یہ سوچ رھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام ، عمرو کے ھاتھوں شھید هوگئے ھیں لیکن جب انھوں نے تکبیر کی آواز سنی تو علی کی کامیابی ان پر واضح هوگئی اچانک لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے سرمبارک سے خون بہہ رھا تھا اور لشکر گاہ اسلام کی طرف خراماں خراماں واپس آرھے تھے جبکہ فتح کی مسکراہٹ آپ کے لبوں پر کھیل رھی تھی اور عمر و کا پیکر بے سر میدان کے کنارے ایک طرف پڑا هوا تھا ۔

عرب کے مشهور پھلوان کے مارے جانے سے لشکر احزاب اور ان کی آرزوؤں پر ضرب کاری لگی ان کے حوصلے پست اور دل انتھائی کمزور هوگئے اس ضرب نے ان کی فتح کی آرزووٴں پر پانی پھیردیا اسی بناء پر آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس کامیابی کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا :

”اگر تمھارے آج کے عمل کو ساری امت محمد کے اعمال سے موازنہ کریں تو وہ ان پر بھاری هوگا، کیونکہ عمرو کے مارے جانے سے مشرکین کا کوئی ایسا گھر باقی نھیں رھا جس میں ذلت وخواری داخل نہ هوئی هو اور مسلمانوں کا کوئی بھی گھر ایسا نھیں ھے جس میں عمرو کے قتل هوجانے کی وجہ سے عزت داخل نہ هوئی هو“ ۔

اھل سنت کے مشهور عالم ، حاکم نیشاپوری نے اس گفتگو کو نقل کیا ھے البتہ مختلف الفاظ کے ساتھ اور وہ یہ ھے : 

” لمبارزة علی بن ابیطالب لعمروبن عبدود یوم الخندق افضل من اعمال امتی الی یوم القیامة “

” یعنی علی بن ابی طالب کی خندق کے دن عمروبن عبدود سے جنگ میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے ا فضل ھے “ 

آپ کے اس ارشاد کا فلسفہ واضح ھے ، کیونکہ اس دن اسلام اور قرآن ظاھراً نابودی کے کنارے پر پہنچ چکے تھے، ان کے لئے زبردست بحرانی  لمحات تھے،جس شخص نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی فداکاری کے بعد اس میدان میں سب سے زیادہ ایثار اور قربانی کا ثبوت دیا،اسلام کو خطرے سے محفوظ رکھا، قیامت تک اس کے دوام کی ضمانت دی،اس کی فداکاری سے اسلام کی جڑیں مضبوط هوگئیں اور پھر اسلام عالمین پر پھیل گیا لہٰذا سب لوگوں کی عبادتیں اسکی مرهون منت قرار پا گئیں۔

بعض مورخین نے لکھا ھے کہ مشرکین نے کسی آدمی کو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ عمر و بن عبدود کے لاشہ کو دس ہزار درھم میں خرید لائے (شاید ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمان عمرو کے بدن کے ساتھ وھی سلوک کریں گے جو سنگدل ظالموںنے حمزہکے بدن کےساتھ جنگ میں کیاتھا)لیکن رسول اکرم  نے فرمایا: اس کا لاشہ تمھا ری ملکیت ھے ھم مردوں کی قیمت نھیں لیا کرتے۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ھے کہ جس وقت عمرو کی بہن اپنے بھائی کے لاشہ پر پہنچی اوراس کی قیمتی زرہ کو دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس کے بدن سے نھیں اتاری تو اس نے کھا:

”میں اعتراف کرتی هوں کہ اس کا قاتل کریم اور بزرگوارشخص ھی تھا“

نعیم بن مسعود کی داستان اور دشمن کے لشکر میں پھوٹ

نعیم جو تازہ مسلمان تھے اور ان کے قبیلہ”غطفان “کو لشکر اسلام کی خبر نھیں تھی،وہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ آپمجھے جو حکم بھی دیں گے ،میں حتمی کامیابی کے لئے اس پر کار بند رهوں گا۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا :

”تمھارے جیسا شخص ھمارے درمیان اور کوئی نھیںھے ۔اگر تم دشمن کے لشکر کے درمیان پھوٹ ڈال سکتے هو تو ڈ الو! ۔کیونکہ جنگ پوشیدہ تدابیر کا مجموعہ ھے “۔

نعیم بن مسعود نے ایک عمدہ تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ وہ بنی قریظہ کے یهودیوںکے پاس گیا ،جن سے زمانہٴ جاھلیت میں ان کی دوستی تھی ان سے کھا  اے بنی قریظہ !تم جانتے هوکہ مجھے تمھارے ساتھ محبت ھے۔

انھوں نے کھا آپ سچ کہتے ھیں :ھم آپ پراس بارے میں ھر گز کوئی الزام نھیں لگاتے ۔

نعیم بن مسعود نے کھا :قبیلہ قریش اور عظفان تمھاری طرح نھیں ھیں، یہ تمھارا اپنا شھر ھے، تمھارا مال اولاد اور عورتیں یھاں پر ھیں اور تم ھر گز یہ نھیں کر سکتے کہ یھاں سے کو چ کر جا ؤ۔

قریش اور قبیلہ عظفان محمد اور ان کے اصحاب کے ساتھ جنگ کرنے کے لے آئے هوئے ھیںاور تم نے ان کی حمایت کی ھے جبکہ ان کا شھر کھیںاو رھے اور ان کے مال او رعورتیں بھی دوسری جگہ پر ھیں، اگر انھیں موقع ملے تو لوٹ مار اور غارت گری کر کے اپنے ساتھ لے جائیں گے، اگر کوئی مشکل پیش آجا ئے تو اپنے شھر کو لوٹ جائیں گے، لیکن تم کو اور محمدکو تو اسی شھر میں رہنا ھے او ریقیناتم اکیلے ان سے مقابلہ کرنے کی طاقت نھیں رکھتے ،تم اس وقت تک اسلحہ نہ اٹھاؤجب تک قریش سے کوئی معاہدہ نہ کر لو او رو ہ اس طرح کہ وہ چندسرداروں اور بزرگوں کو تمھارے پاس گروی رکھ دیں تاکہ وہ جنگ میں کو تاھی نہ کریں۔

بنی قریظہ کے یهودیوں نے اس نظریہ کوبہت سراھا۔

پھر نعیم مخفی طور پر قریش کے پاس گیا اور ابو سفیان اور قریش کے چندسرداروں سے کھا کہ تم اپنے ساتھ میری دوستی کی کیفیت سے اچھی طرح آگاہ هو، ایک بات میرے کانوںتک پہنچی ھے، جسے تم تک پہنچا نا میں اپنا فریضہ سمجھتا هوں تا کہ خیر خواھی کا حق اداکر سکوں لیکن میری خواہش یہ ھے کہ یہ بات کسی او رکو معلو م نہ هونے پائے ۔

انھوں نے کھا کہ تم بالکل مطمئن رهو ۔

نعیم کہنے لگے : تمھیں معلوم هو نا چاھیے کہ یهودی محمد کے بارے میںتمھارے طرز عمل سے اپنی برائت کا فیصلہ کر چکے ھیں ،یهودیوں نے محمد کے پاس قاصد بھیجا ھے او رکھلوایا ھے کہ ھم اپنے کئے پر پشیمان ھیں اور کیا یہ کافی هو گا کہ ھم قبیلہ قریش او رغطفان کے چندسردار آپکے لئے یرغمال بنالیں اور ان کو بندھے ھاتھوں آپ کے سپرد کردیں تاکہ آپ ان کی گردن اڑادیں، اس کے بعد ھم آپ کے ساتھ مل کر ان کی بیخ کنی کریں گے ؟محمد نے بھی ان کی پیش کش کوقبول کرلیا ھے، اس بنا ء پر اگر یهودی تمھارے پاس کسی کو بھیجیں او رگروی رکھنے کا مطالبہ کریں تو ایک آدمی بھی ان کے سپرد نہ کر نا کیونکہ خطرہ یقینی ھے ۔

پھر وہ اپنے قبیلہ غطفان کے پاس آئے اور کھا :تم میرے اصل اور نسب کو اچھی طرح جانتے هو۔ میں تمھاراعاشق او رفریفتہ هوں او رمیں سوچ بھی نھیں سکتا کہ تمھیں میرے خلوص نیت میںتھوڑا سابھی شک اور شبہ هو ۔

انھوںنے کھا :تم سچ کہتے هو ،یقینا ایسا ھی ھے ۔ 

نعیم نے کھا : میںتم سے ایک بات کہنا چاہتا هوں لیکن ایسا هو کہ گو یا تم نے مجھ سے بات نھیں سنی ۔

انھوں نے کھا :مطمئن رهویقینا ایسا ھی هو گا ،وہ بات کیا ھے ؟ 

نعیم نے وھی بات جو قریش سے کھی تھی یهودیوں کے پشیمان هونے او ریر غمال بنانے کے ارادے کے بارے میں حرف بحرف ان سے بھی کہہ دیا او رانھیں اس کام کے انجام سے ڈرایا ۔

اتفاق سے وہ ( ماہ شوال سن ۵ ہجری کے ) جمعہ او رہفتہ کی درمیانی رات تھی ۔ ابو سفیان او رغطفان کے سرداروں نے ایک گروہ بنی قریظہ کے یهودیوںکے پاس بھیجا او رکھا : ھمارے جانور یھاں تلف هو رھے ھیں اور یھاں ھمارے لئے ٹھھر نے کی کو ئی جگہ نھیں ۔ کل صبح ھمیں حملہ شروع کرنا چاھیے تاکہ کام کو کسی نتیجے تک پہنچائیں ۔

یهودیوں نے جواب میں کھا :کل ہفتہ کا دن ھے او رھم اس دن کسی کام کو ھاتھ نھیں لگاتے ،علاوہ ازیں ھمیں اس بات کا خوف ھے کہ اگر جنگ نے تم پر دباؤ ڈالا تو تم اپنے شھروں کی طرف پلٹ جاؤ گے او رھمیں یھاں تنھاچھوڑدوگے ۔ ھمارے تعاون او رساتھ دینے کی شرط یہ ھے کہ ایک گروہ گروی کے طور پر ھمارے حوالے کردو، جب یہ خبر قبیلہ قریش او رغطفان تک پہنچی تو انھوں نے کھا :خداکی قسم نعیم بن مسعود سچ کہتا تھا،دال میں کالا ضرو رھے ۔

لہٰذا انھوںنے اپنے قاصد یهودیوں کے پاس بھیجے اور کھا : بخدا ھم تو ایک آدمی بھی تمھارے سپرد نھیں کریں گے او راگر جنگ میں شریک هو تو ٹھیک ھے شروع کرو ۔ 

بنی قریظہ جب اس سے با خبر هوئے تو انھوں نے کھا :واقعا نعیم بن مسعود نے حق بات کھی تھی !یہ جنگ نھیں کرنا چاہتے بلکہ کوئی چکر چلا رھے ھیں، یہ چا ہتے ھیں کہ لوٹ مار کر کے اپنے شھروں کو لوٹ جائیں او رھمیں محمد کے مقابلہ میں اکیلا چھوڑجا ئیں پھر انهوں نے پیغام بھیجا کہ اصل بات وھی ھے جو ھم کہہ چکے ھیں ،بخدا جب تک کچھ افرادگروی کے طور پر ھمارے سپرد نھیں کروگے ،ھم بھی جنگ نھیں کریں گے ،قریش اورغطفان نے بھی اپنی بات پراصرار کیا، لہٰذا ان کے درمیان بھی اختلاف پڑ گیا ۔ اور یہ وھی موقع تھا کہ رات کو اس قدر زبردست سرد طوفانی هوا چلی کہ ان کے خیمے اکھڑگئے اور دیگیں چو لهوں سے زمین پر آپڑیں ۔

یہ سب عوامل مل ملاکر اس بات کا سبب بن گئے کہ دشمن کو سر پر پاؤں رکھ کر بھا گنا پڑا اور فرار کو قرار پر ترجیح دینی پڑی ۔ یھاں تک کہ میدان میں انکا ایک آدمی بھی نہ رھا۔

حذیفہ کا واقعہ 

بہت سی تواریخ میں آیا ھے ،کہ حذیفہ یمانی کہتے ھیں کہ ھم جنگ خندق میں بھوک او رتھکن ،وحشت اوراضطراب اس قدر دو چار تھے کہ خدا ھی بہتر جانتا ھے ،ایک رات (لشکر احزاب میں اختلاف پڑ جانے کے بعد )پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا:کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ھے جو چھپ چھپا کر دشمن کی لشکر گاہ میں جائے اور ان کے حالات معلوم کر لائے تا کہ وہ جیت میں میرا رفیق اور ساتھی هو۔

حذیفہ کہتے ھیں: خدا کی قسم کوئی شخض بھی شدت وحشت ، تھکن اور بھوک کے مارے اپنی جگہ سے نہ اٹھا ۔ 

جس وقت آنحضرتنے یہ حالت دیکھی تو مجھے آوازدی، میں آپ کی خدمت میں حاضر هوا تو فرمایاجاؤ اور میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آؤ ۔ لیکن وھاںکوئی اور کام انجام نہ دینا یھاں تک کہ میرے پاس آجاؤ ۔

میںایسی حالت میں وھاںپہنچا جب کہ سخت آندھی چل رھی تھی اور طوفان برپا تھا اور خدا کا یہ لشکر انھیں تہس نہس کررھا تھا ۔ خیمے تیز آندھی کے سبب هوا میںاڑ رھے تھے ۔ آگ بیابان میں پھیل چکی تھی۔ کھانے کے برتن الٹ پلٹ گئے تھے اچانک میںنے ابو سفیان کا سایہ محسوس کیاکہ وہ اس تاریکی میں بلند آواز سے کہہ رھا تھا: اے قریش ! تم میں سے ھر ایک اپنے پھلو میں بیٹھے هوئے کو اچھی طرح سے پہچان لے تا کہ یھاں کوئی بے گانہ نہ هو ، میںنے پھل کر کے فوراًھی اپنے پاس بیٹھنے والے شخص سے پوچھا کہ تو کون ھے ؟ اس نے کھا ، فلاں هوں ، میں نے کھابہت اچھا ۔ 

پھر ابو سفیان نے کھا:خدا کی قسم !یہ ٹھھرنے کی جگہ نھیں ھے، ھمارے اونٹ گھوڑے ضائع هو چکے ھیں اور بنی قریظہ نے اپنا پیمان توڑ ڈالا ھے اور اس طوفان نے ھمارے لئے کچھ نھیں چھوڑا ۔ 

پھر وہ بڑی تیزی سے اپنے اونٹ کی طرف بڑھا اور سوار هو نے کے لئے اسے زمین سے اٹھا یا، اور اس قدر جلدی میں تھا کہ اونٹ کے پاؤںمیں بندھی هوئی رسی کھولنا بھول گیا ،لہٰذا اونٹ تین پاؤں پر کھڑا هو گیا، میں نے سوچا ایک ھی تیرسے اسکا کام تمام کردوں،ابھی تیر چلہ کمان میں جوڑا ھی تھا کہ فوراًآنحضرت کا فرمان یادآگیا کہ جس میں آپ  نے فرمایا تھا کچھ کاروائی کے بغیر واپس آجا نا،تمھارا کام صرف وھاں کے حالات ھمارے پاس لانا ھے، لہٰذا میں واپس پلٹ گیا اور جا کر تمام حا لات عرض کئے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا :

”خداوندا ! تو کتاب کو نازل کرنے والا او رسریع الحساب ھے ، توخود ھی احزاب کو نیست و نا بو دفرما !خدایا ! انھیں تباہ کردے اور ان کے پاؤں نہ جمنے دے “۔

جنگ احزاب قرآن کی روشنی میں

قرآن اس ماجرا تفصیل بیان کرتے هوئے کہتا ھے: ”اے وہ لوگ! جو ایمان لائے هو، اپنے اوپر خدا کی عظیم نعمت کو یاد کرو،اس موقع پر جب کہ عظیم لشکر تمھاری طرف آئے “۔[50]

”لیکن ھم نے ان پر آندھی اور طوفان بھیجے اور ایسے لشکر جنھیں تم نھیں دیکھتے رھے تھے اور اس ذریعہ سے ھم نے ان کی سرکوبی کی اور انھیں تتر بتر کردیا “۔[51]

” نہ دکھنے والے لشکر “ سے مراد جو رسالت مآب  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی نصرت کے لئے آئے تھے ، وھی فرشتے تھے جن کا مومنین کی جنگ بدر میں مدد کرنا بھی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ھے لیکن جیسا (کہ سورہٴ انفال کی آیہ ۹ کے ذیل میں) ھم بیان کرچکے ھیں ھمارے پاس کوئی دلیل نھیں ھے کہ یہ نظر نہ آنے والا فرشتوں کا خدائی لشکر باقاعدہ طور پر میدان میں داخل هوا اور وہ جنگ میں بھی مصروف هوا هو بلکہ ایسے قرائن موجود ھیں جو واضح کرتے ھیں کہ وہ صرف مومنین کے حوصلے بلند کرنے اور ان کا دل بڑھانے کے لئے نازل هوئے تھے ۔

بعد والی آیت جو جنگ احزاب کی بحرانی کیفیت ، دشمنوں کی عظیم طاقت اور بہت سے مسلمانوں کی شدید پریشانی کی تصویر کشی کرتے هوئے یوں کہتی ھے !” اس وقت کو یاد کرو جب وہ تمھارے شھر کے اوپر اور نیچے سے داخل هوگئے ،اور مدینہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا) اور اس وقت کو جب آنکھیں شدت وحشت سے پتھرا گئی تھیں اور جاںبلب هوگئے تھے اور خدا کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیان کرتے تھے “۔[52]

اس کیفیت سے مسلمانوں کی ایک جماعت کے لئے غلط قسم کے گمان پیدا هوگئے تھے کیونکہ وہ ابھی تک ایمانی قوت کے لحاظ سے کمال کے مرحلہ تک نھیں پہنچ پائے تھے یہ وھی لوگ ھیں جن کے بارے میں بعد والی آیت میں کہتا ھے کہ وہ شدت سے متزلزل هوئے ۔

شایدان میں سے کچھ لوگ گمان کرتے تھے کہ آخر کار ھم شکست کھا جائیں گے اور اس قوت و طاقت کے ساتھ دشمن کا لشکر کامیاب هوجائے گا، اسلام کے ز ندگی کے آخر ی دن آپہنچے ھیں اور پیغمبر  کا کا میابی کا وعدہ بھی پورا هوتا دکھا ئی نھیںدیتا ۔

ٰٰالبتہ یہ افکار اور نظریات ایک عقیدہ کی صورت میں نھیں بلکہ ایک وسوسہ کی شکل میں بعض لوگوںکے دل کی گھرائیوں میں پیدا هو گئے تھے بالکل ویسے ھی جیسے جنگ احد کے سلسلہ میں قرآن مجید ان کا ذکر کرتے هو ئے کہتا ھے :”یعنی تم میں سے ایک گروہ جنگ کے ان بحرانی لمحات میںصرف اپنی جان کی فکر میں تھا اور دورجا ھلیت کے گمانوں کی مانند خدا کے بارے میں بدگمانی کررھے تھے “۔

یھی وہ منزل تھی کہ خدائی امتحان کا تنور سخت گرم هوا جیسا کہ بعد والی آیت کہتی ھے کہ ”وھاں مومنین کو آزمایا گیا اور وہ سخت دھل گئے تھے۔[53]

فطری امر ھے کہ جب انسان فکری طوفانوںمیںگھر جاتا ھے تو اس کا جسم بھی ان طوفانوں سے لا تعلق نھیں رہ سکتا ،بلکہ وہ بھی اضطراب اور تزلزل کے سمندر میں ڈوبنے لگتا ھے ،ھم نے اکثر دیکھا ھے کہ جب لوگ ذہنی طور پر پریشان هوتے ھیں تو وہ جھاں بھی بیٹھتے ھیں اکثر بے چین رہتے ھیں، ھاتھ ملتے کاپنتے رہتے ھیں اور اپنے اضطراب اور پریشانیوںکو اپنی حرکات سے ظاھر کرتے رہتے ھیں۔

اس شدید پریشانی کے شواہد میں سے ایک یہ بھی تھا جسے مورخین نے بھی نقل کیا ھے کہ عرب کے پانچ مشهور جنگجو پھلوان جن کا سردار عمرو بن عبدود تھا ،جنگ کا لباس پہن کر اورمخصوص غرور اور تکبر کے ساتھ میدان میں آئے اور ”ھل من مبارز“( ھے کو ئی مقابلہ کرنے والا )کی آواز لگانے لگے ، خاص کر عمرو بن عبدود رجز پڑھ کر جنت اور آخرت کا مذاق اڑا رھا تھا ،وہ کہہ رھا تھا کہ ”کیا تم یہ نھیںکہتے هوکہ تمھارے مقتول جنت میں جائیں گے ؟تو کیا تم میں سے کوئی بھی جنت کے دیدار کا شوقین نھیںھے ؟لیکن اس کے ان نعروں کے برخلاف لشکر اسلام پر بُری طرح کی خاموشی طاری تھی اور کوئی بھی مقابلہ کی جر ائت نھیںرکھتا تھا سوائے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے جو مقابلہ کے لئے کھڑے هوئے اور مسلمانوں کو عظیم کامیابی سے ھم کنار کردیا ۔اس کی تفصیل نکات کی بحث میںآئےگی۔

جی ھاں جس طرح فولاد کو گرم بھٹی میں ڈالتے ھیں تا کہ وہ نکھر جائے اسی طرح اوائل کے مسلمان بھی جنگ احزاب جیسے معرکوں کی بھٹی میں سے گزریں تا کہ کندن بن کر نکلیںاو رحوادثات کے مقابل میں جراٴت اور پا مردی کا مظاھرہ کر سکیں ۔

منا فقین او رضعیف الایمان جنگ احزاب میں 

ھم کہہ چکے ھیں کہ امتحان کی بھٹی جنگ احزاب میں گرم هوئی او رسب کے سب اس عظیم امتحان میں گھر گئے۔ واضح رھے کہ اس قسم کے بحرانی دور میں جولوگ عام حالات میں ظاھراًایک ھی صف میں قرارپاتے ھیں ،کئی صفوںمیںبٹ جاتے ھیں،یھاں پربھی مسلمان مختلف گروهوںمیں بٹ گئے تھے، ایک جماعت سچے مومنین کی تھی ،ایک گروہ ہٹ دھرم اور سخت قسم کے منافقین کا تھا اور ایک گروہ اپنے گھر بار ،زندگی اور بھاگ کھڑے هونے کی فکر میں تھا ،اور کچھ لوگوں کی یہ کوشش تھی کہ دوسرے لوگوں کو جھاد سے روکیں ۔ اور ایک گروہ اس کوشش میں مصروف تھا کہ منافقین کے ساتھ اپنے رشتہ کو محکم کریں ۔

خلاصہ یہ کہ ھر شخص نے اپنے باطنی اسراراس عجیب ”عرصہٴ محشر“اور ”یوم البروز“میںآشکار کردیئے۔

میں نے ایران، روم اور مصرکے محلوں کو دیکھا ھے

خندق کھودنے کے دوران میں جب ھر ایک مسلمان خندق کے ایک حصہ کے کھودنے میں مصروف تھا تو ایک مرتبہ پتھر کے ایک سخت اوربڑے ٹکڑے سے ان کا سامنا هوا کہ جس پر کوئی ہتھوڑا کار گر ثابت نھیں هورھا تھا ،حضرت رسالت مآب  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو خبر دی گئی تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  بنفس نفیس خندق میں تشریف لے گئے او راس پتھر کے پاس کھڑے هو کراورہتھوڑا لے کر پھلی مرتبہ ھی اس کے دل پر ایسی مضبوط چوٹ لگائی کہ اس کا کچھ حصہ ریزہ ریزہ هو گیا اور اس سے ایک چمک نکلی جس پر آپ نے فتح وکامرانی کی تکبیر بلند کی۔ آپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوںنے بھی تکبیرکھی۔

آپ نے ایک اورسخت چوٹ لگائی تو اس کا کچھ حصہ او رٹوٹا اوراس سے بھی چمک نکلی۔اس پر بھی سرورکونین  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے تکبیرکھی اور مسلمانوں نے بھی آپ کے ساتھ تکبیرکھی آخر کاآپ نے تیسری چوٹھی لگائی جس سے بجلی کوند ی اورباقی ماندہ پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے هو گیا ،حضوراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے پھر تکبیر کھی او رمسلمانوںنے بھی ایسا ھی کیا، اس موقع پر جناب سلمان فارسیۻ نے اس ماجرا کے بارے میں دریافت کیا تو سرکاررسالت مآب  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا :”پھلی چمک میں میںنے ”حیرہ“کی سرزمین او رایران کے بادشاهوں کے قصر ومحلات دیکھے ھیں او رجبرئیل نے مجھے بشارت دی ھے کہ میری امت ان پر کامیابی حاصل کرے گی،دوسری چمک میں ”شام او رروم“کے سرخ رنگ کے محلات نمایاں هوئے او رجبرئیل نے پھر بشارت دی کہ میری امت ان پرفتح یاب هوگی، تیسری چمک میں مجھے ”صنعا و یمن “کے قصور ومحلات دکھائی دئیے اورجبرئیل نے نوید دی کہ میری امت ان پربھی کامیابی حاصل کرے گی، اے مسلمانو!تمھیں خوشخبری هو!!

منافقین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا او رکھا: کیسی عجیب و غریب باتیںکر رھے ھیں اور کیا ھی باطل اور بے بنیاد پروپیگنڈاھے ؟مدینہ سے حیرہ او رمدائن کسریٰ کو تو دیکھ کر تمھیں ان کے فتح هونے کی خبردیتا ھے حالانکہ اس وقت تم چند عربوں کے چنگل میں گرفتا رهو (او رخو ددفاعی پوزیشن اختیار کئے هوئے هو )تم تو” بیت الحذر“(خوف کی جگہ ) تک نھیں جا سکتے ( کیا ھی خیال خام او رگمان باطل ھے ۔

الٰھی وحی نازل هوئی او رکھا:

”یہ منا فق او ردل کے مریض کہتے ھیں کہ خدا او راس کے رسو ل نے سوائے دھوکہ و فریب کے ھمیں کوئی وعدہ نھیں دیا، (وہ پر و ردگارکی بے انتھا قدرت سے بے خبر ھیں“۔)[54]

اس وقت اس قسم کی بشارت او رخوشخبری سوائے آگاہ او ربا خبر موٴمنین کی نظر کے علاوہ ( باقی لوگوں کے لئے )دھوکا او ر فریب سے زیادہ حیثیت نھیںرکھتی تھی لیکن پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی ملکوتی آنکھیں ان آتشیں چنگاریوں کے درمیان سے جو کدالوں او رہتھوڑوں کے خندق کھودنے کے لئے زمین پرلگنے سے نکلتی تھیں، ایران روم او ریمن کے بادشاهوں کے قصرو محلات کے دروازوں کے کھلنے کو دیکھ سکتے تھے او رآئندہ کے اسرارو رموز سے پردے بھی اٹھاسکتے تھے۔                                  

منافقانہ عذر

جنگ احزاب کے واقعہ کے سلسلے میں قرآن مجیدمنافقین او ردل کے بیمارلوگوں میں سے ایک خطرناک گروہ کے حالات تفصیل سے بیان کرتا ھے جو دوسروں کی نسبت زیادہ خبیث او رآلودہٴ گناہ ھیں، چنانچہ کہتا ھے: ”او راس وقت کو بھی یا دکرو، جب ان میں سے ایک گروہ نے کھا: اے یثرب (مدینہ )کے رہنے والو!یھاں تمھارے رہنے کی جگہ نھیں ھے ،اپنے گھروںکی طرف لوٹ جاؤ“[55]

خلاصہ یہ کہ دشمنوںکے اس انبوہ کے مقابلہ میں کچھ نھیں هو سکتا، اپنے آپ کو معرکہٴ کار زار سے نکال کرلے جاؤ او راپنے آپ کو ھلاکت کے اور بیوی بچوں کو قید کے حوالے نہ کرو۔ اس طرح سے وہ چاہتے تھے کہ ایک طرف سے تو وہ انصار کے گروہ کو لشکر اسلام سے جدا کرلیں اوردوسری طرف ”انھیں منافقین کا ٹولہ جن کے گھر مدینہ میں تھے ،نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے اجازت مانگ رھے تھے کہ وہ واپس چلے جا ئیں او راپنی اس واپسی کے لئے حیلے بھانے پیش کررھے تھے ، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ھمارے گھردل کے درودیوارٹھیک نھیں ھیں حالانکہ ایسا نھیں تھا ،اس طرح سے وہ میدان کو خالی چھوڑکر فرارکرنا چاہتے تھے“۔[56]

منافقین اس قسم کا عذر پیش کرکے یہ چاہتے تھے کہ وہ میدان جنگ چھوڑکر اپنے گھروں میں جاکرپناہ لیں ۔ 

ایک روایت میں آیا ھے کہ قبیلہ ”بنی حارثہ “نے کسی شخص کو حضور رسالت پناہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں بھیجااو رکھا کہ ھمارے گھر غیر محفوظ ھیں اور انصار میں سے کسی کا گھر بھی ھمارے گھروں کی طرح نھیں اور ھمارے او رقبیلہ ”غطفان “کے درمیان کوئی رکا وٹ نھیں ھے جو مدینہ کی مشرقی جانب سے حملہ آور هو رھے ھیں، لہٰذا اجا زت دیجئے تا کہ ھم اپنے گھروں کو پلٹ جا ئیں او راپنے بیوی بچوں کا دفاع کریں تو سرکار رسالت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے انھیں اجازت عطا فرمادی ۔                                

جب یہ بات انصار کے سردار ”معد بن معاذ “کے گوش گذارهوئی توانھوںنے پیغمبراسلام کی خدمت میں عرض کیا ”سرکا ر!انھیں اجازت نہ دیجئے ،بخدا آج تک جب بھی کوئی مشکل درپیش آئی تو ان لوگوں نے یھی بھانہ تراشا،یہ جھوٹ بولتے ھیں“۔[57]

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دیا کہ واپس آجائیں ۔[58]

قرآن میں خداوندعالم اس گروہ کے ایمان کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے هوئے کہتا ھے: ”وہ اسلام کے اظھار میں اس قدر ضعیف اور ناتواں ھیں کہ اگر دشمن مدینہ کے اطراف و جوانب سے اس شھر میں داخل هوجائیں اور مدینہ کو فوجی کنٹرول میں لے کر انھیں پیش کش کریں کہ کفر و شرک کی طرف پلٹ جائیں توجلدی سے اس کو قبول کرلیں گے اور اس راہ کے انتخاب کرنے میں ذراسا بھی توقف نھیں کریں گے“۔[59]

ظاھر ھے کہ جو لوگ اس قدرت ضعیف، کمزور اور غیر مستقل مزاج هوں کہ نہ تو دشمن سے جنگ کرنے چند ایک روایات میں آیاھے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا کہ ”اس شھر کو یثرب نہ کھا کرو شاید اسکی وجہ یہ هو کہ یثرب اصل میں ”ثرب“(بروزن حرب)کے مادہ سے ملامت کرنے کے معنی میں ھے اور آپ اس قسم کے نام کو اس بابرکت شھر کے لئے پسند نھیں فرماتے تھے۔

بھرحال منافقین نے اھل مدینہ کو ”یااھل یثرب“کے عنوان سے جو خطاب کیا ھے وہ بلاوجہ نھیں ھے او رشاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو اس نام سے نفرت ھے ،یا چاہتے تھے کہ اسلام او ر”مدینةالرسول“کے نام کو تسلیم نہ کرنے کااعلان کریں ۔یالوگوںکو زمانہٴ جاھلیت کی یادتازہ کرائیں ۔

کے لئے تیار هوں اور نہ ھی راہ خدا میں شھادت قبول کرنے کے لئے، ایسے لوگ بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ھیں اور اپنی راہ فوراً بدل دیتے ھیں۔

پھر قرآن اس منافق ٹولے کو عدالت کے کٹھرے میں لاکر کہتا ھے: ”انھوں نے پھلے سے خدا کے ساتھ عہد و پیمان باندھا هوا تھا کہ دشمن کی طرف پشت نھیں کریں گے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہتے هوئے توحید، اسلام اور پیغمبر کے لئے دفاع میں کھڑے هوں گے، کیا وہ جانتے نھیں کہ خدا سے کئے گئے عہد و پیمان کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔[60]

جب خدا نے منافقین کی نیت کو فاش کردیا کہ ان کا مقصد گھروں کی حفاظت کرنا نھیں ، بلکہ میدان جنگ سے فرار کرنا ھے تو انھیں دود لیلوں کے ساتھ جواب دیتا ھے۔

پھلے تو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے فرماتا ھے: ”کہہ دیجئے کہ اگر موت یا قتل هونے سے فرار کرتے هو تو یہ فرار تمھیں کوئی فائدہ نھیں پهونچائے گااور تم دنیاوی زندگی کے چند دن سے زیادہ فائدہ نھیں اٹھاپاؤ گے“۔[61]

دوسرا یہ کہ کیا تم جانتے هوکہ تمھارا سارا انجام خدا کے ھاتھ میں ھے اور تم اس کی قدرت و مشیت کے دائرہ اختیار سے ھرگز بھاگ نھیں سکتے۔

”اے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! ان سے کہہ دیجئے : کون شخص خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں تمھاری حفاظت کرسکتا ھے، اگر وہ تمھارے لئے مصیبت یا رحمت چاہتا ھے“۔[62]

روکنے والا ٹولہ

اس کے بعد قرآن مجید منافقین کے اس گروہ کی طرف اشارہ کرتا ھے جو جنگ احزاب کے میدان سے خودکنارہ کش هوا اور دوسروں کو بھی کنار کشی کی دعوت دیتا هو فرماتا ھے: ” خدا تم میں سے اس گروہ کو جانتا ھے جو کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو جنگ سے منحرف کردیں ،اور اسی طرح سے ان لوگوں کو بھی جانتا ھے جو  اپنے بھائیوں سے کہتے تھے کہ ھماری طرف آؤ“ اور اس خطرناک جنگ سے دستبردار هوجاؤ ۔

وھی لوگ جواھل جنگ نھیں ھیں اور سوائے کم مقدار کے اور وہ بھی بطور جبر واکراہ یاد کھاوے کے؛ جنگ کے لئے نھیں جاتے۔ [63]

ھم ایک روایت میں پڑھتے ھیں کہ ایک صحابی رسول کسی ضرورت کے تحت میدان” احزاب “ سے شھر میں آیا هوا تھا اس نے اپنے بھائی کو دیکھا کہ اس نے اپنے سامنے روٹی ، بھنا هوا گوشت اور شراب رکھے هوئے تھے ، تو صحابی نے کھا تم تو یھاں عیش وعشرت میں مشغول هواور رسول خدا نیزوں اور تلواروں کے درمیان مصروف پیکار ھیں اس نے جواب میں کھا ، اے بے وقوف : تم بھی ھمارے ساتھ بیٹھ جاؤ اور مزے اڑاؤ  اس نے کھا:اس خدا کی قسم جس کی محمد کھاتا ھے وہ اس میدان سے ھرگز پلٹ کر واپس نھیں آئے گا اور یہ عظیم لشکر جو جمع هوچکا ھے اسے اور اس کے ساتھیوں کو زندہ نھیں چھوڑے گا ۔

یہ سن کر وہ صحابی کہنے لگے :تو بکتا ھے،خدا کی قسم میں ابھی رسول اللہ کے پاس جاکر تمھاری اس گفتگو سے باخبر کرتا هوں، چنانچہ انھوں نے بارگاہ رسالت میں پہنچ کر تمام ماجرا بیان کیا ۔

وہ ھرگز ایمان نھیں لائے 

قرآن فرماتاھے :” ان تمام رکاوٹوں کا باعث یہ ھے کہ وہ تمھاری بابت تمام چیزوں میںبخیل ھیں“۔[64]

نہ صرف میدان جنگ میں جان قربان کرنے میں بلکہ وسائل جنگ مھیا کرنے کے لئے مالی امداد اور خندق کھودنے کے لئے جسمانی امداد حتی کہ فکری امداد مھیا کرنے میں بھی بخل سے کام لیتے ھیں، ایسا بخل جو حرص کے ساتھ هوتا ھے اور ایسا حرص جس میں روز بروز اضافہ هوتا رہتا ھے ۔

ان کے بخل اور ھر قسم کے ایثارسے دریغ کرنے کے بیان کے بعد ان کے ان دوسرے اوصاف کو جو ھر عہد اور ھر دور کے تمام منافقین کے لئے تقریباً عمو میت کا درجہ رکھتے ھیں بیان کرتے هوئے کہتا ھے :” جس وقت خوفناک اور بحرانی لمحات آتے ھیں تو وہ اس قدر بزدل اور ڈرپوک ھیں کہ آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کو دیکھ رھے ھیں حالانکہ ان کی آنکھوں میں ڈھیلے بے اختیار گردش کررھے ھیں ، اس شخص کی طرح جو جاں کنی میں مبتلا هو “ [65]

چونکہ وہ صحیح ایمان کے مالک نھیں ھیں اور نہ ھی زندگی میں ان کا کوئی مستحکم سھارا ھے ، جس وقت کسی سخت حادثہ سے دوچار هوتے ھیں تو وہ لوگ بالکل اپنا توازن کھوبیٹھتے ھیں جیسے ان کی روح قبض ھی هوجائے گی۔

پھر مزید کہتا ھے: ” لیکن یھی لوگ جس وقت طوفان رک جاتاھے اور حالات معمول پر آجاتے ھیں تو تمھارے پاس یہ توقع لے کر آتے ھیں کہ گویا جنگ کے اصلی فاتح یھی ھیں اور قرض خواهوں کی طرح پکار پکار کر سخت اور درشت الفاظ کے ساتھ مال غنیمت سے اپنے حصہ کا مطالبہ کرتے ھیں اور اس میں سخت گیر، بخیل اور حریص ھیں “۔[66]

آخر میں ان کی آخری صفت کی طرف جو درحقیقت میں ان کی تمام بد بختیوں کی جڑ اور بنیاد ھے ، اشارہ کرتے هوئے فرماتاھے ” وہ ھر گز ایمان نھیں لائے۔اور اسی بناپر خدانے ان کے اعمال نیست ونابود کردئیے ھیںکیونکہ ان کے اعمال خدا کے لئے نھیں ھیں اور ان میں اخلاص نھیں پایا جاتا۔[67]

”وہ اس قدر وحشت زدہ هو چکے ھیں کہ احزاب اور دشمن کے لشکروں کے پر اگندہ هوجانے کے بعد بھی یہ تصور کرتے ھیں کہ ابھی وہ نھیں گئے“۔[68]

وحشتناک اور بھیانک تصور نے ان کی فکر پر سایہ کر رکھا ھے گویا کفر کی افواج پے درپے ان کی آنکھوں کے سامنے قطاردر قطار چلی جارھی ھیں ، ننگی تلواریں اور نیزے تانے ان پر حملہ کررھی ھیں۔

یہ بزدل جھگڑالو ، ڈرپوک منافق اپنے سائے سے بھی ڈرتے ھیں ، جب کسی گھوڑے کے ہنہنانے یا کسی اونٹ کے بلبلانے کی آواز سنتے ھیں تو مارے خوف کے لرزنے لگتے ھیں کہ شاید احزاب کے لشکر واپس آرھے ھیں ۔

اس کے بعدکہتا ھے ” اگر احزاب دوبارہ پلٹ کر آجائے تو وہ اس بات پر تیار ھیں کہ بیابان کا رخ کرلیں اور بادیہ نشین بدووٴںکے درمیان منتشر هو کر پنھاں هو جائیں ھاں، ھاں وہ چلے جائیں اور وھاں جاکر رھیں” اور ھمیشہ تمھاری خبروں کے جویا رھیں “۔[69]

ھر مسافر سے تمھاری ھر ھر پل کی خبر کے جویا رھیں ایسا نہ هوکہ کھیں احزاب ان کی جگہ قریب آجائیں اور ان کا سایہ ان کے گھر کی دیواروں پر آپڑے اور تم پر یہ احسان جتلائیں کہ وہ ھمشہ تمھاری حالت اور کیفیت کے بارے میں فکر مند تھے ۔

اور آخری جملہ میں کہتا ھے:

”بالفرض وہ فراربھی نہ کرتے اور تمھارے درمیان ھی رہتے ، پھر بھی سوائے تھوڑی سی جنگ کے وہ کچھ نہ کرپاتے“۔[70]

نہ ان کے جانے سے تم پریشان هونا اور نہ ھی ان کے موجود رہنے سے خوشی منانا، کیونکہ نہ تو ان کی قدر وقیمت ھے اور نہ ھی کوئی خاص حیثیت، بلکہ ان کا نہ هونا ان کے هونے سے بہتر ھے ۔

ان کی یھی تھوڑی سی جنگ بھی خدا کےلئے نھیں بلکہ لوگوں کی سرزنش اور ملامت کے خوف اور ظاھرداری یاریاکاری کےلئے ھے کیونکہ اگر خدا کے لئے هوتی تو اس کی کوئی حدو انتھا نہ هوتی اور جب تک جان میں جان هوتی وہ اس میدان میں ڈٹے رہتے ۔                         

جنگ احزاب میں سچے مومنین کا کردار 

اب تک مختلف گر وهوںاور ان کے جنگ احزاب میں کارناموں کے بارے میں گفتگو هورھی تھی جن میں ضعیف الایمان مسلمان ، منافق، کفر ونفاق کے سرغنے اور جہد سے روکنے والے شامل ھیں ۔

قرآن مجید اس گفتگو کے آخر میں ” سچے مئومنین “ ان کے بلند حوصلوں ، پامردیوں ، جرائتوں اور اس عظیم جھاد میں ان کی دیگر خصوصیات کے بارے میں گفتگو کرتا ھے ۔

اس بحث کی تمھید کو پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی ذات سے شروع کرتا ھے جو مسلمانوں کے پیشوا ، سرداراور اسوہٴ کامل تھے، خدا کہتا ھے: ” تمھارے لئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی زندگی اور (میدان احزاب میں ) ان کا کردار ایک اچھا نمونہ اوراسوہ ھے ، ان لوگوں کے لئے جورحمت خدا اور روز قیامت کی امید رکھتے ھیں اور خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ھیں ۔“[71]

تمھارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ،نہ صرف اس میدان میں بلکہ ساری زندگی پیغمبراسلام کی ذات والا صفات ھے آپ کے بلند حوصلے، صبرو استقامت ،پائمردی ،زیر کی ، دانائی ، خلوص ، خدا کی طرف تو جہ، حادثات پر کنڑول، مشکلات اور مصائب کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنا ، غرضکہ ان میں سے ھر ایک چیز مسلمانوں کے لئے نمونہ ٴ کامل اور اسوہٴ حسنہ ھے ۔

وہ ایسا عظیم نا خدا ھے کہ جب اس کی کشتی سخت ترین طوفانوں میں گھر جاتی ھے تو ذرہ برابر بھی کمزوری،گھبراہٹ اور سراسیمگی کا مظاھرہ نھیں کرتا وہ کشتی کانا خدا بھی ھے اور اس کا قابل اطمینان لنگر اور چراغ ہدایت بھی وہ اس میں بیٹھنے والوں کے لئے آرام وسکون کا باعث بھی ھے اور ان کے لئے راحت جان بھی ۔

وہ دوسرے مئومنین کے ساتھ مل کر کدال ھاتھ میں لیتا ھے اور خندق کھودتا ھے،بلیچے کے ساتھ پتھر اکھاڑکرکے خندق سے باھر ڈال آتا ھے اپنے اصحاب کے حوصلے بڑھانے اور ٹھنڈے دل سے سوچنے کے لئے ان سے مزاح بھی کرتا ھے ان کے قلب و روح کو گرمانے کے حربی اور جوش وجذبہ دلانے والے اشعار پڑھ کر انھیں ترغیب بھی دلاتاھے، ذکر خدا کرنے پرمسلسل اصرار کرتا ھے اور انھیں درخشاں مستقبل اور عظیم فتوحات کی خوشخبری دیتاھے انھیں منافقوں کی سازشوں سے متنبہ کرتا ھے اور ان سے ھمیشہ خبردار رہنے کا حکم دیتا ھے ۔

صحیح حربی طریقوں اور بہترین فوجی چالوں کو انتخاب کرنے سے ایک لمحہ بھی غافل نھیں رہتا اس کے باوجود مختلف طریقوں سے دشمن کی صفوں  میںشگاف ڈالنے سے بھی نھیںچوکتا ۔

جی ھاں: وہ موٴمنین کا بہترین مقتدا ھے اور ان کے لئے اسوہٴ حسنہ ھے اس میدان میں بھی اور دوسرے تمام میدانوں میں بھی۔ 

مومنین کے صفات

اس مقام پر مومنین کے ایک خاص گروہ کی طرف اشارہ ھے:

” جو پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی اقتداء میں سب سے زیادہ پیش قدمی کرتے تھے وہ خدا سے کئے هوئے اپنے اس عہدو پیمان پرقائم تھے کہ وہ آخری سانس اور آخری قطرہٴ خون تک فداکاری اور قربانی کے لئے تیار ھیں فرمایا گیا ھے مومنین میں ایسے بھی ھیں جواس عہدوپیمان پر قائم ھیں جو انھوںنے خدا سے باندھا ھے ان میں سے کچھ نے تو میدان جھاد میں شربت شھادت نوش کرلیا ھے اوربعض انتظار میں ھیں ۔ور انھوں نے اپنے عہدوپیمان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نھیں کی “ ۔[72]

اور نہ ھی ان کے قدموں میں لغزش پیدا هوئی ھے۔ 

مفسرین کے درمیان اختلاف ھے کہ یہ آیت کن افراد کے بارے میں نازل هوئی ھے ۔                                 

اھل سنت کے مشهور عالم ، حاکم ابوالقاسم جسکانی سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا :

آیہٴ ”رجال صدقوا ما عاھدوا اللّٰہ علیہ “ ھمارے بارے میں نازل هوئی ھے اور بخدا میں ھی وہ شخص هوں جو(شھادت کا) انتظار کررھاهوں(اور قبل از ایں ھم میں حمزہ سید الشہداء جیسے لوگ شھادت نوش کرچکے ھیں )اور میں نے ھرگز اپنی روش اور اپنے طریقہٴ کار میں تبدیلی نھیں کی اور اپنے کیئے هوے عہدوپیمان پر قائم هوں ۔

جنگ بنی قریظہ 

مدینہ میں یهودیوں کے تین مشهور قبائل رہتے تھے : بنی قریظہ، بنی النضیر اور بنی قینقاع۔

تینوں گروهوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے معاہدہ کر رکھا تھا کہ آپ کے دشمنوں کا ساتھ نھیں دیں گے، ان کے لئے جاسوسی نھیں کریں گے، اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر امن و آشتی کی زندگی گزاریں گے، لیکن قبیلہ بنی قینقاع نے ہجرت کے دوسرے سال اور قبیلہ بنی نضیر نے ہجرت کے چوتھے سال مختلف حیلوں بھانوں سے اپنا معاہدہ توڑ ڈالا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے مقابلہ کے لئے تیار هوگئے آخر کار ان کی مزاحمت اور مقابلہ کی سکت ختم هوگئی اور وہ مدینہ سے باھر نکل گئے۔

بنی قینقاع” اذر عات“ شام کی طرف چلے گئے اور بنی نضیر کے کچھ لوگ تو خیبر کی طرف اور کچھ شام کی طرف چلے گئے ۔

اسی بناء پر ہجرت کے پانچویں سال جب کہ جنگ احزاب پیش آئی تو صرف قبیلہ بنی قریظہ مدینہ میں باقی رہ گیا تھا ، وہ بھی اس میدان میں اپنے معاہدہ کو توڑکر مشرکین عرب کے ساتھ مل گئے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں تلواریں سونت لیں ۔

جب جنگ احزا ب ختم هوگئی اور قریش، بنی غطفان اور دیگر قبائل عرب بھی رسوا کن شکست کے بعد مدینہ سے پلٹ گئے تو اسلامی روایات کے مطابق پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اپنے گھر لوٹ آئے اور جنگی لباس اتارکر نھانے دھونے میں مشغول هوگئے تو اس موقع پر جبرئیل حکم خدا سے آپ پر نازل هوئے اور کھا : کیوں آپ نے ہتھیار اتار دیئے ھیں جبکہ فرشتے ابھی تک آمادہ پیکار ھیں آپ فوراً بنی قریظہ کی طرف جائیں اور ان کا کام تمام کردیں ۔

واقعاً بنی قریظہ کا حساب چکانے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور موقع نھیں تھا مسلمان اپنی کامیابی پر خوش خرم تھے، بنی قریظہ شکست کی شدید وحشت میں گرفتار تھے اور قبائل عرب میں سے ان کے دوست اور حلیف تھکے ماندے اور بہت ھی پست حوصلوں کے ساتھ شکست خوردہ حالت میں اپنے اپنے شھروںاور علاقوں میں جاچکے تھے اور کوئی نھیں تھا جوان کی حمایت کرے ۔

بھرحال منادی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی طرف سے ندادی کہ نماز عصر پڑھنے سے پھلے بنی قریظہ کی طرف چل پڑو مسلمان بڑی تیزی کے ساتھ ھی بنی قریظہ کے محکم ومضبوط قلعوںکو مسلمانوں نے اپنے محاصرے میں لے لیا ۔

پچیس دن تک محاصرہ جاری رھا چنانچہ لکھتے ھیں کہ مسلمانوں نے بنی قریظہ کے قلعوں پر حملہ کرنے کے لئے اتنی جلدی کی کہ بعض مسلمان نماز عصر سے غافل هوگئے کہ مجبوراً بعد میں قضا کی،خداوند عالم نے ان کے دلوں میں سخت رطب و دبدبہ طاری هوگیا۔

تین تجاویز

”کعب بن اسد“ کا شمار یهودیوں کے سرداروں میں هوتا تھا اس نے اپنی قوم سے کھا : مجھے یقین ھے کہ محمد ھمیں اس وقت تک نھیں چھوڑیں گے جب تک ھم جنگ نہ کریں لہٰذا میری تین تجاویز ھیں ، ان میں سے کسی ایک کو قبول کرلو ،پھلی تجویز تویہ ھے کہ اس شخص کے ھاتھ میں ھاتھ دے کر اس پر ایمان لے آوٴ اور اس کی پیروی اختیار کرلو کیونکہ تم پر ثابت هوچکا ھے کہ وہ خدا کا پیغمبر ھے اوراس کی نشانیاں تمھاری کتابوں میں پائی جاتی ھیں تو اس صورت میں تمھارے مال ، جان، اولاد اور عورتیں محفوظ هوجائیں گی۔

وہ کہنے لگے کہ ھم ھرگز حکم توریت سے دست بردار نھیں هوں گے اور نہ ھی اس کا متبادل اختیار کریں گے ۔ 

اس نے کھا : اگر یہ تجویز قبول نھیں کرتے تو پھر آؤ اور اپنے بچوں اور عورتوں کو اپنے ھاتھوں سے قتل کرڈالو تاکہ ان کی طرف سے آسودہ خاطر هوکر میدان جنگ میں کود پڑیں اور پھر دیکھیں کہ خدا کیا چاہتا ھے ؟ اگر ھم مارے گئے تو اھل وعیال کی جانب سے ھمیں کوئی پریشانی نھیں هوگی اور اگر کامیاب هوگئے تو پھر عورتیں بھی بہت بچے بھی بہت ۔!!

وہ کہنے لگے کہ ھم ان بے چاروں کو اپنے ھی ھاتھوں سے قتل کردیں ؟ان کے بعد ھمارے لئے زندگی کی قدرو قیمت کیارہ جائے گی ؟

کعب بن اسد نے کھا : اگر یہ بھی تم نے قبول نھیں کیا تو آج چونکہ ہفتہ کی رات ھے محمد  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور اس کے ساتھی یہ خیال کریں گے کہ ھم آج رات حملہ نھیں کریں گے انھیں اس غفلت میں ڈال کر ان پر حملہ کردیں شاید کامیابی حاصل هوجائے ۔

وہ کہنے لگے کہ یہ کام بھی ھم نھیں کریں گے کیونکہ ھم کسی بھی صورت میںہفتہ کا احترام پامال نھیں کریں گے ۔

کعب کہنے لگا : پیدائش سے لے کر آج تک تمھارے اندر عقل نھیں آسکی ۔

اس کے بعد انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے بات کی کہ” ابولبابہ“ کو ان کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ ان سے صلاح مشورہ کرلیں ۔

ابولبابہ کی خیانت 

جس وقت ابولبابہ ان کے پاس آئے تو یهودیوں کی عورتیں اور بچے ان کے سامنے گریہ وزاری کرنے لگے اس بات کا ان کے دل پر بہت اثر هوا اس وقت لوگوں نے کھا کہ آپ ھمیں مشورہ دیتے ھیں کہ ھم محمد کے آگے ہتھیار ڈال دیں ؟ ابولبابہ نے کھا ھاں اور ساتھ ھی اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کردیں گے ۔!

ابولبابہ کہتے ھیں، جیسے ھی میں وھاں سے چلا تو مجھے اپنی خیانت کا شدید احساس هوا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے پاس نہ گیا بلکہ سیدھا مسجد کی طرف چلا اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کھا اپنی جگہ سے اس وقت تک حرکت نھیں کروں گا جب تک خدا میری توبہ قبول نہ کرلے ۔

سات دن تک اس نے نہ کھانا کھایا نہ پانی پیا اور یونھی بے هوش پڑا رھا یھاں تک کہ خدا نے اس کی توبہ قبول کر لی،جب یہ خبر بعض مومنین کے ذریعہ اس تک پہنچی شتو اس ننے قسم کھائی میں خود رہنے کو اس ستون سے نھیں کھولوں گا یھاں تک کہ پیغمبر آکر کھولیں۔

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  آئے اور اس کو کھولا ابولبابہ نے کھا کہ اونی توبہ کو کامل هونے کے لئے اپنا سارا مال راہ خدا میں دیتا هوں۔اس وقت پیغمبر نے کھا:ایک سوم مال کافی ھے،”آخرکار خدانے اس کا یہ گناہ اس کی صداقت کی بنا ء پربخش دیا [73]

لیکن آخر کار بنی قریظہ کے یهودیوں نے مجبور هوکر غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔

جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا سعد بن معاذ تمھارے بارے میں جو فیصلہ کردیں کیا وہ تمھیں قبول ھے ؟وہ راضی هوگئے ۔

سعدبن معاذ نے کھا کہ اب وہ موقع آن پہنچا ھے کہ سعد کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو نظر میں رکھے بغیر حکم خدا بیان کرے ۔

سعد نے جس وقت یهودیوں سے دوبارہ یھی اقرار لے لیا تو آنکھیں بند کرلیں اور جس طرف پیغمبر  کھڑے هوئے تھے ادھر رخ کرکے عرض کیا : آپ بھی میرا فیصلہ قبول کریں گے ؟ آنحضرت نے فرمایا ضرور: تو سعد نے کھا : میں کہتا هوں کہ جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے پر آمادہ تھے (بنی قریظہ کے مرد ) انھیں قتل کردینا چاہئے ، ان کی عورتیں اور بچے قید اور ان کے اموال تقسیم کردیئے جائیں البتہ ان میں سے ایک گروہ اسلام قبول کرنے کے بعد قتل هونے سے بچ گیا ۔

قرآن اس ماجرا کی طرف مختصر اور بلیغ اشارہ کرتا ھے اور اس ماجراکا تذکرہ خداکی ایک عظیم نعمت او رعنایت کے طور پر هوا ھے ۔

پھلے فرمایا گیا ھے:”خدا نے اھل کتاب میں سے ایک گروہ کو جنهوںنے مشرکین عرب کی حمایت کی تھی ،ان کے محکم و مضبوط قلعوں سے نیچے کھینچا  ۔[74] 

یھاں سے واضح هو جا تا ھے کہ یهو دیوں نے اپنے قلعے مدینہ کے پاس بلند او راونچی جگہ پربنا رکھے تھے او ران کے بلند برجوں سے اپنا دفاع کرتے تھے ”انزل “(نیچے لے آیا ) کی تعبیر اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ھے ۔ 

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ھے : ”خدا نے ان کے دلوں میں خوف او ررعب ڈال دیا “:

آخر کار ان کا مقابلہ یھاں تک پہنچ گیا کہ ”تم ان میں سے ایک گروہ کو قتل کررھے تھے او ردوسرے کو اسیر بنا رھے تھے ۔”او ران کی زمینیں گھر اور مال و متاع تمھارے اختیارمیں دے دیا “۔[75]

یہ چند جملے جنگ بنی قریظہ کے عام نتائج کا خلاصہ ھیں ۔ ان خیانت کاروںمیں سے کچھ مسلمانوںکے ھاتھوںقتل هو گئے،کچھ قید هوگئے اوربہت زیادہ مال غنیمت جس میں ان کی زمینیں ،گھر ،مکا نات او رمال و متاع شامل تھا ،مسلمانوں کو ملا ۔ 

 

[1] سورہٴ علق آیت ۱۔

[2] یقینی طورپر مفسرین کے بعض کلمات یا تاریخ کی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی اس فصل کے بارے میں ایسے ناموزوںمطالب نظرآتے ھیں جو مسلمہ طور پر جعلی‘ وضعی ‘ گھڑی هوئی روایات اور اسرائیلیات سے ھیں ‘ مثلاًیہ کہ پیغمبر  نزول وحی کے پھلے واقعہ کے بعد بہت ھی ناراحت هوئے اور ڈرگئے کہ کھیں یہ شیطانی القاآت نہ هوں ‘ یا آپ نے کئی مرتبہ

[3] اس سوال کو اکثر مفسرین نے سورہٴ توبہ آیت۱۰۰”السابقون الاولون“کے ضمن میں بیان کیا ھے۔

[4] مستدرک علی صحیحین کتاب معرفت ص۲۲ ۔   

[5] استیعاب ،ج ۲ ص۴۵۷۔

[6] الغدیر ج ،۳ص۲۳۷۔          

[7] الغدیر ج ،۳ص۲۳۷۔          

[8] الغدیرمیں یہ حدیث مستدرک حاکم ج۲ص۶ ۱۳ ،استیعاب ج۲ ص ۴۵۷ اور شرح ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۲۵۸ سے نقل کی گئی ھے ۔

[9] الغدیر ھی میں یہ حدیث طبرانی اور بیہقی سے نقل کی گئی ھے نیز بیہقی نے مجمع میں، حافظ گنجی نے کفایہ اکمال میں اور کنز العمال میں نقل کی ھے ۔

[10] الغدیر میں یہ حدیث حلیتہ الاولیاء ج اص ۶۶ کے حوالے سے نقل کی گئی ھے ۔

[11] یہ بات فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میںسورہٴ توبہ آیت ۱۰۰۔ کے ذیل میں ذکر کی ھے۔

[12] یہ حدیث مختلف عبارات میں نقل هوئی ھے اور جو کچھ ھم نے بیان کیا ھے اسے ابو جعفر اسکافی نے کتاب ”نہج العثمانیہ“ میں ،برھان الدین نے” نجبا الانبا“ میں ،ابن اثیر نے کامل میں اور بعض دیگر علماء نے نقل کیا ھے (مزید وضاحت کے لئے الغدیر،عربی کی جلد دوم ص۲۷۸ تا۲۸۶کی طرف رجوع کریں۔) 

[13] یہ تعبیر مشهور اور متعصب مفسر موٴلف المنارنے بھی سورہٴ توبہ آیت ۱۰۰۔کے ذیل میں ذکر ھے ۔

[14] سورہ مریم آیت۱۲۔        

[15] سورہٴ مریم آیت ۳۰۔

[16] الغدیر ج۲ ص ۲۴۰۔

[17] سورہ شعراء آیت ۲۱۴ ۔

[18] سورہ حجرات آیہ ۹۴ ۔

[19] اس روایت کو بہت سے اھل سنت علماء نے نقل کیا ھے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ھیں :

[20] علامہ امینی نے اسے اپنی کتاب”الغدیر“ میں” شرح بخاری“ ،”المواھب اللدنیہ“ ،” الخصائص الکبریٰ“ ،” شرح بہجتہ المحافل“ ،”سیرہ حلبی“، ” سیرہ نبوی“ اور ” طلبتہ الطالب“ سے نقل کیا ھے۔

[21] ذی المجار عرفات کے نزدیک مکہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر ھے ۔

[22] سورہ مسد آیت۱ تا ۲۔

[23] سورہٴ مسدآیت۳۔         

[24] سورہ مسد آیت ۴ ۔

[25] سورہ مسد آیت ۴۔

[26] سیرت ابن ہشام جلداول ص۳۳۷ ، اور تفسیر فی ظلال القرآن جلد۶ ص ۱۷۳۔

[27] تفسیر نمونہ ج ۸ ص ۱۴۴   

[28] مندرجہ بالاروایات تفسیر المنار اور مجمع البیان سے سورہٴ انعام آیت ۳۳کے ذیل میں بیان کردہ تفسیر سے لی گئی ھیں ۔

 

[29] بہت سے مفسرین نے نقل کیا ھے کہ سورہٴ مائدہ آیات ۸۲تا۸۶ نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل هوئی ھیں۔

[30] رجوع کریں تفسیر نمونہ ج

[31] سورہٴ نجم آیت۱۸۔ 

[32] روایات معراج کے سلسلہ میں مزید اطلاع کے لئے بحارالانوار کی جلد ۱۸ از ص ۲۸۲ تاص ۱۰ ۴ رجوع فرمائیں۔

[33] تفسیر نمونہ  ج ۱۳ ص۹۷ تا ۹۹ ۔ 

[34] مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمے کا نام ھے “ محمد پیغمبری کہ از نوباید شناخت “ ص ۱۲۵ دیکھئے۔

[35] بعض قدیم فلاسفہ کا نظریہ یہ تھا کہ آسمانوں میں ایسا هونا ممکن نھیں ھے ۔اصطلاح میں وہ کہتے تھے کہ افلاک میں --”خرق “(پھٹنا)اور ”التیام“(ملنا)ممکن نھیں ۔

[36] سورہٴ انفال آیت ۳۰ کے ذیل میں واقعہ ہجرت بیان هوا ھے۔ 

[37] الغدیر، جلد ۲ ص۴۵ پر ھے کہ غزالی نے احیاء العلوم ج۳ ص ۲۳۸ پر، صفوری نے نزہتہ المجالس ج۲ ،ص ۲۰۹ پر، ابن صباغ مالکی نے فصول المھمہ، میں سبط ابن جوزی نے تذکرہ الخواص ص ۲۱ پر ، امام احمد نے مسندج ا ص ۳۴۸ پر، تاریخ طبری جلد ۲ ص۹۹ پر، سیرة ابن ہشام ج ۲، ص ۲۹۱ پر، سیرة حلبی ج ۱ ص ۲۹ پر، تاریخی یعقوبی ج۲ ص ۲۹ پرلیلة المبیت کے واقعہ کو نقل کیا ھے۔

[38] سورہٴ بقرہ  آیت ۱۴۲۔

[39] سورہٴ بقرہ آیت۱۴۲۔

[40] سورہٴ بقرہ آیت ۱۴۳۔

[41] واقعہ جنگ بدر سورہ انفال آیات ۵ تا ۱۸کے ذیل میں بیان هوئی ھے ۔

[42] پیغمبراور ان کے اصحاب ایسا کرنے کا حق رکھتے تھے کیونکہ مسلمان مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرکے آئے تو اھل مکہ نے ان کے بہت سے اموال پر قبضہ کرلیا تھا جس سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا لہٰذا وہ حق رکھتے تھے کہ اس نقصان کی تلافی کریں ۔اس سے قطع نظر بھی اھل مکہ نے گذشتہ تیرہ برس میں پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں سے جو سلوک روارکھا اس سے بات ثابت هوچکی تھی وہ مسلمانوں کو ضرب لگانے اور نقصان پہنچانے کے لئے کوئی موقع ھاتھ سے نھیں گنوائیں گے یھاں تک کہ وہ خودپیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے پر تل گئے تھے ایسا دشمن پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہجرت مدینہ کی وجہ سے بے کار نھیں بیٹھ سکتا تھا واضح تھا کہ وہ قاطع ترین ضرب لگانے کے لئے اپنی قوت مجتمع کرتا پس عقل ومنطق کا تقاضا تھا کہ پیش بندی کے طورپر ان کے تجارتی قافلے کو گھیر کر اس کے اتنے بڑے سرمائے کو ضبط کرلیا جاتا تاکہ اس پر ضرب پڑے اور اپنی فوجی اور اقتصادی بنیاد مضبوط کی جاتی ایسے اقدامات آج بھی اور گذشتہ ادوار میں بھی عام دنیا میں فوجی طریق کار کا حصہ رھے ھیں ،جولوگ ان پھلوؤں کو نظر اندازکرکے قافلے کی طرف پیغمبر کی پیش قدمی کو ایک طرح کی غارت گری کے طور پر پیش کرنا چاہتے ھیں یاتو وہ حالات سے آگاہ نھیں اور اسلام کے تاریخی مسائل کی بنیادوں سے بے خبر ھیںاور یا ان کے کچھ مخصوص مقاصد ھیں جن کے تحت وہ واقعات وحقائق کو توڑمروڑکر پیش کرتے ھیں ۔

[43] جنگ احد کا واقعہ سورہ  آل عمران آیت ۱۲۰ کے ذیل میں بیان هوا ھے۔ 

[44] سورہٴ آل عمران آیت ۱۶۳۔

[45] آل عمران آیت ۱۵۲۔

[46] سورہ آل عمران آیت۱۵۹۔            

[47] واضح رھے کہ عفو ودر گزر کرنے کے لئے یہ ایک اھم اور بہت مناسب موقع تھا اور اگر آپ ایسانہ کرتے تو لوگوں کے بکھرجانے کےلئے فضا ھموار تھی وہ لوگ جو اتنی بری شکست کا سامناکر چکے تھے اور بہت سے مقتول ومجروح پیش گرچکے تھے (اگرچہ یہ سب کچھ ان کی اپنی غلطی سے هواتا ھم ) ایسے لوگوں کو محبت ، دلجوئی اور تسلی کی ضرورت تھی تاکہ ان کے دل اور جسم کے زخم پر مرھم لگ سکے اور وہ ان سے جانبرهوکر آئندہ کے معرکوں کےلئے تیار هوسکیں ۔ 

[48] سورہٴ حشر آیت۵۔        

[49] یہ واقعہ سورہٴ حشرکی ابتدائی آیات میں بیان هوا ھے ۔

[50] سورہ احزاب آیت ۹۔

[51] سورہ احزاب آیت ۹۔

[52] سورہٴ احزاب آیت۱۰۔

[53] سورہ احزاب آیت ۱۱۔

[54] سورہ احزاب آیت ۱۲۔

[55] سورہٴ احزاب آیت ۱۲۔

[56] سورہ احزاب آیت ۱۳۔

[57] سورہٴ احزاب۱۴۔

[58] ”یثرب “مدینہ کا قدیمی نام ھے ،جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس شھر کی طرف ہجرت کرنے سے پھلے تک اس کا نام ”یثرب“رھا ۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا نام ”مدینةالرسول“(پیغمبرکا شھر )پڑگیا جس کا مخفف”مدینہ “ھے۔ اس شھرکے کئی ایک نام او ربھی ھیں ۔ سید مرتضٰی ۺنے ان دو ناموں ( مدینہ او ریثرب)کے علاوہ اس شھر کے گیارہ او رنام بھی ذکرکیے ھیں ،منجملہ ان کے ”طیبہ“”طابہ“”سکینہ“”محبوبہ“”مرحومہ “ اور”قاصمہ“ھیں ۔ (اوربعض لوگ اس شھر کی زمین کو ”یثرب“کا نام دیتے ھیں۔) 

[59] سورہ احزاب آیت ۱۴۔

[60] سورہ احزاب آیت ۱۵۔

[61] سورہ احزاب آیت ۱۶۔

[62] سورہ احزاب آیت ۱۷۔

[63] سورہ احزاب آیت۱۸۔

[64] سورہ ٴ احزاف آیت۱۹ ۔

[65] سورہ احزاب ۱۹۔           

[66] سورہ احزاب ۱۹۔           

[67] سورہ احزاب آیت ۱۹۔

[68] سورہٴ احزاب آیت ۲۰۔

[69] سورہٴ احزاب آیت ۲۰۔

[70] سورہٴ احزاب آیت۲۰۔

[71] سورہ احزاب آیت ۲۱۔

[72] سورہ احزاب آیت ۲۳۔

[73] سورہ توبہ آیت ۱۰۲۔

[74] سورہ احزاب آیت ۲۶۔

[75] سورہٴ احزاب آیت ۲۶،۲۷۔

صلح حدیبیہ 

چھٹی ہجری کے ماہ ذی قعدہ میں پیغمبر اکرم  عمرہ کے قصد سے مکہ کی طرف روانہ هوئے ،مسلمانوں کو رسول اکرم کے خواب کی اطلاع مل چکی تھی کہ رسول اکرمنے اپنے تمام اصحاب کے ساتھ ”مسجد الحرام“میں وارد هونے کو خواب میں دیکھا ھے ،او رتمام مسلمانوں کو اس سفرمیں شرکت کا شوق دلایا،اگر چہ ایک گروہ کنارہ کش هو گیا ،مگر مھاجرین و انصار او ربادیہ نشین اعراب کی ایک کثیر جماعت آپ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ هو گئی ۔

یہ جمعیت جو تقریباًایک ہزار چار سوافراد پر مشتمل تھی ،سب کے سب نے لباس احرام پہنا هوا تھا ،او رتلوار کے علاوہ جو مسافروں کا اسلحہ شمار هو تی تھی ،کوئی جنگی ہتھیار ساتھ نہ لیا تھا ۔

جب مسلمان ”ذی الحلیفہ“ مدینہ کے نزدیک پهونچے،اور بہت اونٹوں کو قربانی کے لئے لے لیا۔

پیغمبر (اور آپ (ع)کے اصحاب کا)طرز عمل بتارھا تھا کہ عبادت کے علاوہ کوئی دوسرا قصد نھیں تھا۔جب پیغمبر مکہ کے نزدیکی مقام آپ کو اطلاع ملی کہ قریش نے یہ پختہ ارادہ کرلیا ھے کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ هونے دیں گے ،یھاں تک کہ پیغمبرمقام” حدیبیہ“میں پہنچ گئے ( حدیبیہ مکہ سے بیس کلو مٹر کے فاصلہ پر ایک بستی ھے ،جو ایک کنویں یا درخت کی مناسبت سے اس نام سے مو سوم تھی )حضرت نے فرمایا: کہ تم سب اسی جگہ پر رک جاؤ،لوگوں نے عرض کی کہ یھاں تو کوئی پانی نھیں ھے پیغمبر نے معجزانہ طور پر اس کنویںسے جو وھاںتھا ،اپنے اصحاب کے لئے پانی فراھم کیا ۔ 

اسی مقام پر قریش او رپیغمبر کے درمیان سفراء آتے جاتے رھے تاکہ کسی طرح سے مشکل حل هو جائے ، آخرکا ر”عروہ ابن مسعودثقفی“جو ایک هوشیا ر آدمی تھا ،قریش کی طرف سے پیغمبر کی خدمت میں حاضر هوا ،پیغمبر  نے فرمایا میں جنگ کے ارادے سے نھیں آیا او رمیرا مقصد صرف خانہٴ خدا کی زیارت ھے ،ضمناًعروہ نے اس ملاقات میں پیغمبر کے وضو کرنے کا منظربھی دیکھا،کہ صحابہ آپ کے وضو کے پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پرگرنے نھیں دیتے تھے ،جب وہ واپس لوٹا تو اس نے قریش سے کھا :میں قیصر وکسریٰ او رنجاشی کے دربارمیں گیا هوں ۔میں نے کسی سربراہ مملکت کو اس کی قوم کے درمیان اتنا با عظمت نھیں دیکھا ،جتنا محمدکی عظمت کو ان کے اصحاب کے درمیان دیکھا ھے ۔ اگر تم یہ خیال کرتے هو کہ محمدکو چھوڑ جائیںگے تویہ بہت بڑی غلطی هو گی ،دیکھ لو تمھارا مقابلہ ایسے ایثار کرنے والوں کے ساتھ ھے ۔یہ تمھارے لئے غور و فکر کا مقام ھے ۔

بیعت رضوان

اسی دوران پیغمبر نے عمر سے فرمایا: کہ وہ مکہ جائیں ، او ر اشراف قریش کو اس سفرکے مقصد سے آگاہ کریں ،عمر نے کھاقریش مجھ سے شدید دشمنی رکھتے ھیں ،لہٰذامجھے ان سے خطرہ ھے ، بہتر یہ ھے کہ عثمان کو اس کام کے لئے بھیجا جائے ،عثمان مکہ کی طرف آئے ،تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ مسلمانوں کے ورمیان یہ افواہ پھیل گئی کہ ان کو قتل کر دیاھے ۔ اس مو قع پرپیغمبرنے شدت عمل کا ارادہ کیا او رایک درخت کے نیچے جو وھاں پرموجودتھا ،اپنے اصحاب سے بیعت لی جو ”بیعت رضوان“ کے نام سے مشهو رهوئی ،او ران کے ساتھ عہد وپیمان کیا کہ آخری سانس تک ڈٹیں گے،لیکن تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ عثمان صحیح و سالم واپس لوٹ آئے او رانکے پیچھے پیچھے قریش نے”سھیل بن عمر“کو مصالحت کے لئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں بھیجا ،لیکن تاکید کی کہ اس سال کسی طرح بھی آپکا مکہ میںورود ممکن نھیں ھے ۔ 

بہت زیادہ بحث و گفتگو کے بعد صلح کا عہد و پیمان هوا،جس کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ سے باز رھیں او ر آئندہ سال مکہ میں آئیں،اس شرط کے ساتھ کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ رھیں ،او رمسافرت کے عام ہتھیارکے علاوہ او رکوئی اسلحہ اپنے ساتھ نہ لائیں۔اورمتعددمواد جن کا دارومداران مسلمانوںکی جان و مال کی امنیت پر تھا،جو مدینہ سے مکہ میں واردهوں،او راسی طرح مسلمانوں اورمشرکین کے درمیان دس سال جنگ نہ کرنے او رمکہ میں رہنے والے مسلمانوںکے لئے مذھبی فرائض کی انجام دھی بھی شامل کی گئی تھی۔

یہ پیمان حقیقت میں ھر جہت سے ایک عدم تعرض کا عہد و پیمان تھا ،جس نے مسلمانوںاو رمشرکین کے درمیان مسلسل اوربار با رکی جنگوں کو وقتی طور پر ختم کردیا ۔

صلح نامہ کی تحریر

 

”صلح کے عہدو پیمان کا متن “اس طرح تھاکہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے علی علیہ السلام کوحکم دیا کہ لکھو:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم“:سھیل بن عمرنے،جو مشرکین کانمائندہ تھا ،کھا :میںاس قسم کے جملہ سے آشنا نھیں هو ں،لہٰذا”بسمک اللھم“ لکھو:پیغمبر نے فرمایا لکھو :”بسمک اللھم“

اس کے بعد فرمایا: لکھویہ وہ چیز ھے جس پر محمدرسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے سھیل بن عمرو سے مصالحت کی ، سھیل نے کھا : ھم اگر آپ کو رسول اللہ سمجھتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے ،صرف اپنا او راپنے والد کا نام لکھئے،پیغمبرنے فرمایا کو ئی حرج نھیں لکھو :”یہ وہ چیز ھے جس پرمحمد بن عبد اللہ نے سھیل بن عمرو سے صلح کی ،کہ دس سال تک دو نو ں طرف سے جنگ مترو ک رھے گی تاکہ لو گوں کو امن و امان کی صورت دوبارہ میسرآئے۔

علاوہ ازایں جو شخص قریش میں سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد کے پاس آئے (او رمسلمان هو جائے )اسے واپس کردیں اورجو شخص ان افراد میں سے جو محمد کے پاس ھیں ،قریش کی طرف پلٹ جائے تو ان کو واپس لوٹانا ضروری نھیں ھے ۔

تمام لوگ آزاد ھیں جو چاھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے عہد و پیمان میں داخل هو او رجو چاھے قریش کے عہد و پیمان میں داخل هو،طرفین اس بات کے پابندھیں کہ ایک دوسرے سے خیانت نہ کرےں،او رایک دوسرے کی جان و مال کو محترم شمار کریں ۔

اس کے علاوہ محمد اس سال واپس چلے جائیں او رمکہ میں داخل نہ هوں،لیکن آئندہ سال ھم تین دن کے لئے مکہ سے باھر چلے جائیں گے او ران کے اصحاب آجائیں ،لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھھریں ، (اور مراسم عمرہ کے انجام دے کر واپس چلے جائیں )اس شرط کے ساتھ کہ سواے مسافرکے ہتھیار یعنی تلوار کے،وہ بھی غلاف میں کو ئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں ۔ 

اس پیمان پر مسلمانوں او رمشرکین کے ایک گروہ نے گواھی دی او راس عہد نامہ کے کاتب علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام تھے ۔

مرحو م علامہ مجلسی ۺنے بحار الانوارمیں کچھ او رامور بھی نقل کئے ھیں ،منجملہ ان کے یہ کہ :

”اسلام مکہ میں آشکارا هوگا اورکسی کو کسی مذھب کے انتخاب کرنے پر مجبورنھیںکریں گے ،اورمسلمان کو اذیت و آزارنھیں پہنچائیںگے“۔

اس موقع پرپیغمبراسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دیا کہ قربانی کے وہ اونٹ جووہ اپنے ھمراہ لائے تھے ،اسی جگہ قربان کردیںاور اپنے سروں کو منڈوائیں اور احرام سے باھرنکل آئیں ،لیکن یہ بات کچھ مسلمانوں کو سخت ناگوار معلوم هوئی ،کیونکہ عمرہ کے مناسک کی انجام دھی کے بغیر ان کی نظرمیں احرام سے باھر نکل آنا ممکن نھیںتھا ،لیکن پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ذاتی طور پرخودپیش قدمی کی او رقربانی کے اونٹوںکو نحر کیا او راحرام سے باھرنکل آئے اورمسلمانوںکو سمجھایاکہ یہ احرام اور قربانی کے قانون میں استثناء ھے جو خداکی طرف سے قراردیا گیا ھے ۔

مسلمانوں نے جب یہ دیکھا تو سر تسلیم خم کردیا ،او رپیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا حکم کامل طورسے مان لیا،اوروھیںسے مدینہ کی راہ لی،لیکن غم واندوہ کا ایک پھاڑ ان کے دلوںپر بوجھ ڈال رھا تھا ،کیونکہ ظاھر میں یہ سارے کا ساراسفرایک نا کامی اور شکست تھی ،لیکن اسی وقت سورہٴ فتح نازل هوئی اورپیغمبرگرامی اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو فتح کی بشارت ملی ۔

صلح حدیبیہ کے سیاسی ،اجتماعی او رمذھبی نتائج

ہجرت کے چھٹے سال (صلح حدیبیہ کے وقت )مسلمانوں کی حالت میں او ردو سال بعد کی حالت میںفرق نمایاں تھا ،جب وہ دس ہزار کے لشکر کے ساتھ فتح مکہ کے لئے چلے تاکہ مشرکین کو پیمان شکنی کا دندان شکن جواب دیا جائے،جنانچہ انھوںنے فوجوں کو معمولی سی جھڑپ کے بغیرھی مکہ کوفتح کرلیا ،اس وقت قریش اپنے اندر مقابلہ کرنے کی معمولی سی قدرت بھی نھیں رکھتے تھے ۔ایک اجمالی موازنہ اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ ”صلح حدیبیہ“ کا عکس العمل کس قدر وسیع تھا ۔

خلاصہ کے طور پر مسلمانوں نے ا س صلح سے چند امتیاز او راھم کامیابیاںحاصل کیں ،جنکی تفصیل حسب ذیل ھے ۔

۱)عملی طور پر مکہ کہ فریب خوردہ لوگوں کو یہ بتا دیا کہ وہ جنگ و جدال کا ارادہ نھیںرکھتے ،او رمکہ کے مقدس شھر اور خانہٴ خداکے لئے بہت زیادہ احترام کے قائل ھیں،یھی بات ایک کثیرجماعت کے دلوںکے لئے اسلام کی طرف کشش کا سبب بن گئی ۔

۲)قریش نے پھلی مرتبہ اسلام او رمسلمانوں کی رسموں کو تسلیم کیا ،یھی وہ چیز تھی جو جزیرةالعرب میں مسلمانوں کی حیثیت کو ثابت کرنے کی دلیل بنی ۔

۳)صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان سکون واطمنان سے ھر جگہ آجا سکتے تھے او رانکا جان و مال محفوظ هوگیا تھا ،او رعملی طورپرمشرکین کے ساتھ قریبی تعلق اورمیل جول پیدا هوا،ایسے تعلقات جس کے نتیجہ میں مشرکین کو اسلام کی زیادہ سے زیادہ پہچان کے ساتھ ان کی توجہ اسلام کی طرف مائل هو ئی ۔

۴)صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی نشر واشاعت کے لئے سارے جزیرةالعرب میں راستہ کھل گیا ،او رپیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی صلح طلبی کی شرط نے مختلف اقوام کو،جو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی ذات او راسلام کے متعلق غلط نظریہ رکھتے تھے ،تجدید نظر پر آمادہ کیا ،او رتبلیغاتی نقطہٴ نظرسے بہت سے وسیع امکانات ووسائل مسلمانوںکے ھاتھ آئے ۔

۵)صلح حدیبیہ نے خیبر کو فتح کرنے او ریهودیوں کے اس سرطانی غدہ کو نکال پھینکنے کے لئے،جوبالفعل اوربالقوہ اسلام او رمسلمانوں کے لئے ایک اھم خطرہ تھا ،راستہ ھموار کردیا۔

۶)اصولی طو رپر پیغمبرکی ایک ہزار چار سو افراد کی فوج سے ٹکرلینے سے قریش کی وحشت جن کے پاس کسی قسم کے اھم جنگی ہتھیاربھی نھیں تھے، او رشرائط صلح کو قبول کرلینا اسلام کے طرفداروں کے دلوں کی تقویت ،او رمخالفین کی شکست کے لئے ،جنهوں نے مسلمانوں کو ستایاتھا خود ایک اھم عامل تھا۔

۷)واقعہ حدیبیہ کے بعد پیغمبر نے بڑے بڑے ملکو ں،ایران وروم وحبشہ کے سربراهوں ،او ردنیا کے بڑے بڑے بادشاهوںکو متعددخطوط لکھے او رانھیں اسلام کی طرف دعوت دی او ریہ چیزاچھی طرح سے اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ صلح حدیبیہ نے مسلمانوں میں کس قدر خود اعتمادی پیداکردی تھی،کہ نہ صرف جزیرہ عرب میں بلکہ اس زمانہ کی بڑی دنیا میں ان کی راہ کو کھول دیا۔

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ھے ،اس سے یہ بخوبی معلوم کیا جا سکتا ھے، کہ واقعاً صلح حدیبیہ مسلمانوں کے لئے ایک عظیم فتح او رکامیابی تھی ،اور تعجب کی بات نھیں ھے کہ قرآن مجیدا سے فتح مبین کے عنوان سے یاد کرتا ھے :

صلح حدیبیہ یا عظیم الشان فتح

جس و قت پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  حدیبیہ سے واپس لوٹے (او رسورہٴ فتح نازل هوئی )تو ایک صحابی نے عرض کیا :”یہ کیا فتح ھے کہ ھمیں خانہٴ خدا کی زیارت سے بھی رو ک دیا ھے او رھماری قربانی میں بھی رکاوٹ ڈال دی“؟!

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا:”تو نے بہت بری بات کھی ھے ،بلکہ یہ تو ھماری عظیم ترین فتح ھے کہ مشرکین اس بات پر راضی هوگئے ھیں کہ تمھیں خشونت آمیز طریقہ سے ٹکر لئے بغیر اپنی سرزمین سے دور کریں، اور تمھارے سامنے صلح کی پیش کش کریں اوران تمام تکالیف او ررنج وغم کے باو جود جو تمھاری طرف سے انھوں نے اٹھائے ھیں ،ترک تعرض کے لئے تمھاری طرف مائل هوئے ھیں ۔

اس کے بعد پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے وہ تکالیف جو انھوں نے بدر واحزاب میں جھیلی تھیں انھیں یاد دلائیں، تو مسلمانوں نے تصدیق کی کہ یہ سب سے بڑی فتح تھی او رانھوں نے لا علمی کی بناء پر یہ فیصلہ کیا تھا ۔

”زھری “جو ایک مشهور تابعی ھے، کہتا ھے:کوئی بھی فتح صلح حدیبیہ سے زیادہ عظیم نھیں تھی ،کیونکہ مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ ارتباط اور تعلق پیدا کیا او راسلام ان کے دلوں میں جاں گزیں هوا ،او رتین ھی سال کے عرصہ میں ایک عظیم گروہ اسلام لے آیا او رمسلمانوں میں ان کی وجہ سے اضافہ هوا“۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا سچا خواب

جیسا کہ ھم نے شروع میں عرض کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مدینہ میں ایک خواب دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے مناسک ادا کرنے کے لئے مکہ میں داخل هورھے ھیں اور اس خواب کو صحابہ کے سامنے بیان کردیا ، وہ سب کے سب شاد و خوش حال هوئے لیکن چونکہ ایک جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ اس خواب کی تعبیر اسی سال پوری هوگی، تو جس وقت قریش نے مکہ میں ان کے دخیل هونے کا راستہ حدیبیہ میں ان کے آگے بند کردیا تو وہ شک و تردید میں مبتلا هوگئے، کہ کیا پیغمبر  کا خواب غلط بھی هوسکتا ھے، کیا اس کا مطلب یہ نھیں تھا کہ ھم خانہٴ خدا کی زیارت سے مشرف هوں؟ پس اس وعدہ کا کیا هوا؟ اور وہ رحمانی خواب کھاں چلا گیا؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:کیا میں نے تمھیںیہ کھا تھا کہ یہ خواب اسی سال پورا هوگا؟  اسی بارے میں مدینہ کی طرف بازگشت کی راہ میں وحی الٰھی نازل هوئی اور تاکید کی کہ یہ خواب سچا تھا او رایسا مسئلہ حتمی و قطعی اور انجام پانے والا ھے۔

ارشاد خدا وندعالم هوتا ھے:”خد نے اپنے پیغمبر کو جو کچھ دکھلایا تھا وہ سچ اور حق تھا“۔[76]                                         

اس کے بعد مزید کہتا ھے: ”انشاء اللہ تم سب کے سب قطعی طور پر انتھائی امن وامان کے ساتھ اس حالت میں کہ تم اپنے سروں کو منڈوائے هوئے هوں گے، یا اپنے ناخنوں کو کٹوائے هوئے هوں گے مسجد الحرام میں داخل هوں گے اور کسی شخص سے تمھیں کوئی خوف ووحشت نہ هوگی“۔[77]

مومنین کے دلوں پرنزول سکینہ

یھاںگذشتہ میں جو کچھ بیا ن هوا ھے،وہ اتنی عظیم نعمتیں تھیں جو خدا نے فتح مبین و (صلح حدیبیہ) کے سائے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو عطا فرمائی تھیں لیکن یھاں پراس عظیم نعمت کے بارے میں بحث کی جارھی ھے جو اس نے تمام مئومنین کو مرحمت فرمائی ھے ، فرماتاھے : وھی تو ھے ، جس نے مومنین کے دلوں میں سکون واطمینان نازل کیا، تاکہ ان کے ایمان میںمزید ایمان کا اضافہ کر“

اور سکون واطمینان ان کے دلوں پر نازل کیوں نہ هو” در آنحالیکہ آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا کےلئے ھیں اور وہ دا ناو حکیم ھے “[78]

یہ سکینہ کیا تھا ؟

ضروری ھے کہ ھم پھر”صلح حدیبیہ“ کی داستان کی طرف لوٹیں اور اپنے آپ کو” صلح حدیبیہ “ کی فضا میں اور اس فضاء میں جو صلح کے بعد پیدا هوئی ، تصور کریں تاکہ آیت کے مفهوم کی گھرائی سے آشنا هوسکیں ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ایک خواب دیکھا تھا (ایک رؤیائے الٰھی ورحمانی) کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد الحرام میں داخل هورھے ھیں اور اس کے بعد خانٴہ خدا کی زیارت کے عزم کے ساتھ چل پڑے زیادہ تر صحابہ یھی خیال کرتے تھے کہ اس خواب اورر وٴیائے صالحہ کی تعبیر اسی سفر میں واقع هوگی، حالانکہ مقدر میں ایک دوسری چیز تھی یہ ایک بات۔                                       

دوسری طرف مسلمانوں نے احرام باندھا هوا تھا، لیکن ان کی توقع کے بر خلاف خانہٴ خدا کی زیارت کی سعادت تک نصیب نہ هوئی اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دے دیا کہ مقام حدیبیہ میں ھی قربانی کے اونٹوں کو نحرکہ دیں ،کیونکہ ان کے آداب وسنن کا بھی اور اسلامی احکام ودستور کا بھی یھی تقاضا تھا کہ جب تک مناسک عمرہ کو انجام نہ دے لیں احرام سے باھر نہ نکلیں ۔

تیسری طرف حدیبیہ کے صلح نامہ میں کچھ ایسے امور تھے جن کے مطالب کو قبول کرنا بہت ھی دشوار تھا،منجملہ ان کے یہ کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان هوجائے اور مدینہ میں پناہ لے لے تو مسلمان اسے اس کے گھروالوں کے سپرد کردیں گے،لیکن اس کے برعکس لازم نھیں تھا ۔

چوتھی طرف صلح نامہ کی تحریر کے موقع پر قریش اس بات پر تیار نہ هوئے کہ لفظ ” رسول اللہ” محمد“  کے نام کے ساتھ لکھا جائے، اور قریش کے نمائندہ ” سھیل “ نے اصرار کرکے اسے حذف کرایا ، یھاں تک کہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کے لکھنے کی بھی موافقت نہ کی ،اور وہ یھی اصرار کرتا رھا کہ اس کے بجائے ”بسمک اللھم“لکھاجائے ، جو اھل مکہ کی عادت اور طریقہ کے مطابق تھاواضح رھے، کہ ان امور میں سے ھر ایک علیحدہ علیحدہ ایک ناگوار امرتھا۔

چہ جائیکہ وہ سب کے سب مجموعی طور سے وھاں جاتے رھے، اسی لئے ضعیف الایمان ،لوگوں کے دل ڈگمگا گئے ،یھاںتک کہ جب سورہٴ فتح نازل هوئی تو بعض نے تعجب کے ساتھ پوچھا :کونسی فتح ؟ 

یھی وہ موقع ھے جب نصرت الٰھی کو مسلمانوں کے شامل حال هونا چاہئے تھا اور سکون واطمینان ان کے دلوں میں داخل هوتا تھا نہ یہ کہ کوئی فتور اورکمزوری ان میں پیداهوتی تھی۔

بلکہ ”لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم“۔ کے مصداق کی قوت ایمانی میں اضافہ هونا چاہئے تھا اوپر والی آیت ایسے حالات میں نازل هوئی ۔

ممکن ھے اس سکون میں اعتقادی پھلو هو اور وہ اعتقاد میں ڈگمگا نے سے بچائے ، یا اس میں عملی پھلو هواس طرح سے کہ وہ انسان کو ثبات قدم ، مقاومت اور صبر و شکیبائی بخشے ۔

پیچھے رہ جانے والوں کی عذر تراشی 

گذشتہ صفحات میں ھم بیان کرچکے ھیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ایک ہزار چار سو مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کے ارادہ سے مکہ کی طرف روانہ هوئے۔

پیغمبر کی طرف سے بادیہ نشین قبائل میں اعلان هوا کہ وہ بھی سب کے سب کے ساتھ چلیں لیکن ضعیف الایمان لوگوں کے ایک گروہ نے اس حکم سے رو گردانی کرلی،اور ان کا تجزیہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ مسلمان اس سفر سے صحیح وسالم بچ کر نکل آئیں ، حالانکہ کفار قریش پھلے ھی ھیجان واشتعال میں تھے ، اور انھوں نے احدواحزاب کی جنگیں مدینہ کے قریب مسلمانوں پر تھوپ دی تھیں اب جبکہ یہ چھوٹا ساگروہ بغیر ہتھیاروں کے اپنے پاؤں سے چل کر مکہ کی طرف جارھا ھے ، گویا بھڑوں کے چھتہ کے پاس خود ھی پہنچ رھا ھے ، تو یہ کس طرح ممکن ھے کہ وہ اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ آئیں گے ؟

لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان کا میابی کے ساتھ اور قابل ملا حظہ امتیازات کے ھمراہ جو انھوں نے صلح حدیبیہ کے عہد وپیمان سے حاصل کئے تھے ، صحیح وسالم مدینہ کی طرف پلٹ آئے ھیں اور کسی کے نکسیر تک بھی نھیں چھوٹی ، تو انهوں نے اپنی عظیم غلطی کا احساس کیا اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر هوئے تاکہ کسی طرح کی عذر خواھی کرکے اپنے فعل کی توجیہ کریں ، اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے استغفار کا تقاضا کریں ۔

لیکن وحی نازل هوئی اور ان کے اعمال سے پردہ اٹھادیا اور انھیں رسوا کیا ۔

اس طرح سے منافقین اور مشرکین کی سرنوشت کا ذکر کر نے کے بعد، یھاں پیچھے رہ جانے والے ضعیف الایمان لوگوں کی کیفیت کا بیان هورھا ھے تاکہ اس بحث کی کڑیاں مکمل هوجائیں ۔

فرماتاھے ” عنقریب بادیہ نشین اعراب میں سے پیچھے رہ جانے والے عذر تراشی کرتے هوئے کھیں گے: ھمارے مال ومتاع اور وھاںپر بچوں کی حفاظت نے ھمیں اپنی طرف مائل کرلیاتھا، اور ھم اس پرُبرکت سفر میں آپ کی خدمت میں نہ رہ سکے، رسالتماب  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ھمارے عذر کو قبول کرتے هوئے ھمارے لئے طلب بخشش کیجئے ،وہ اپنی زبان سے ایسی چیز کہہ رھے ھیں جو ان کے دل میں نھیں ھے “۔[79]

وہ تو اپنی توبہ تک میں بھی مخلص، نھیں ھیں ۔

لیکن ان سے کہہ دیجئے : ”خدا کے مقابلہ میں اگر وہ تمھیں نقصان پہنچانا چاھے تو کس کی مجال ھے کہ وہ تمھارا دفاع کرسکے، اور اگر وہ تمھیں کچھ نفع پہنچانا چاھے تو کس میں طاقت ھے، کہ اسے روک  سکے “۔ [80]

خدا کے لئے یہ بات کسی طرح بھی مشکل نھیں ھے ، کہ تمھیں تمھارے امن وامان کے گھروں میں ، بیوی بچوں اور مال ومنال کے پاس ،انواع واقسام کی بلاؤں اور مصائب میں گرفتار کردے ،اور اس کےلئے یہ بھی کوئی مشکل کام نھیں ھے کہ دشمنوں کے مرکز میں اور مخالفین کے گڑھ میں تمھیں ھر قسم کے گزندسے محفوظ رکھے، یہ تمھاری قدرت خدا کے بارے میںجھالت اور بے خبری ھے جو تمھاری نظر میں اس قسم کے انکار کو جگہ دیتی ھے ۔

ھاں، خدا ان تمام اعمال سے جنھیں تم انجام دیتے هو باخبر اور آگاہ ھے “[81]

بلکہ وہ تو تمھارے سینوں کے اندر کے اسرار اور تمھاری نیتوں سے بھی اچھی طرح باخبر ھے ، وہ اچھی طرح جانتا ھے کہ یہ عذر اور بھانے واقعیت اور حقیقت نھیں رکھتے اور جو اصل حقیقت اور واقعیت ھے وہ تمھاری شک و ترید، خوف وخطر اور ضعف ایمان ھے ، اور یہ عذر تراشیاں خدا سے مخفی نھیں رہتیں، اور یہ ھرگز تمھاری سزا کو نھیں روکیں گی ۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ قرآن کے لب ولہجہ سے بھی اور تواریخ سے بھی یھی معلوم هوتا ھے کہ یہ وحی الٰھی پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی مدینہ کی طرف بازگشت کے دوران نازل هوئی، یعنی اس سے پھلے کہ پیچھے رہ جانے والے آئیں اورعذر تراشی کریں ، ان کے کام سے پردہ اٹھادیا گیا اور انھیں رسوا کردیا۔

قرآن اس کے بعد مزید وضاحت کے لئے مکمل طور پر پردے ہٹاکر مزید کہتا ھے :”بلکہ تم نے تو یہ 

گمان کرلیا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور مومنین ھرگز اپنے گھروالوں کی طرف پلٹ کرنھیں آئیں گے“ ۔[82]

ھاں ، اس تاریخی سفر میں تمھارے شریک نہ هونے کا سبب ، اموال اور بیوی بچوں کا مسئلہ نھیں تھا، بلکہ اس کا اصلی عامل وہ سوء ظن تھا جو تم خدا کے بارے میں رکھتے تھے، اور اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے یہ سوچتے تھے کہ یہ سفر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ختم هونے کا سفر ھے اور کیونکہ شیطانی وسوسہ تمھارے دلوں میں زینت پاچکے تھے ،اور یہ تم نے برا گمان کیا“۔[83]کیونکہ تم یہ سوچ رھے تھے کہ خدا نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو اس سفر میں بھیج کر انھیں دشمن کے چنگل میں دےدیا ھے ، اور ان کی حمایت نھیں کرے گا ،” اور انجام کار تم ھلاک هوگئے “۔[84] اس سے بدتر ھلاکت اور کیا هوگی کہ تم اس تاریخی سفر میں شرکت ، بیعت رضوان، اور دوسرے افتخارات واعزازات سے محروم رہ گئے، اور اس کے پیچھے عظیم رسوائی تھی اور آئندہ کے لئے آخرت کادردناک عذاب ھے ، ھاں تمھارے دل مردہ تھے اس لئے تم اس قسم کی صورت حال میں گرفتار هوئے۔

اگر حدیبیہ میں جنگ هوجاتی 

قرآن اسی طرح سے ” حدیبیہ“ کے عظیم ماجرے کے کچھ دوسرے پھلووٴں کو بیان کرتے هوئے، اور اس سلسلہ میں دو اھم نکتوں کی طرف اشارہ کررھا ھے۔

پھلا یہ کہ یہ خیال نہ کرو کہ سرزمین ” حدیبیہ “ میں تمھارے اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ چھڑجاتی تو مشرکین جنگ میں بازی لے جاتے، ایسا نھیں ھے، اکثر کفار تمھارے ساتھ وھاں جنگ کرتے تو بہت جلدی پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے، اور پھر کوئی ولی ویاورنہ پاتے “۔[85]

اور یہ بات صرف تم تک ھی منحصر نھیں ھے ، ” یہ تو ایک سنت الٰھی ھے ،جو پھلے بھی یھی تھی اور تم سنت الٰھی میں ھرگز تغیرو تبدیلی نہ پاؤ گے۔[86]

وہ اھم نکتہ جو قرآن خاص طور پر بیان کررھاھے، یہ ھے کہ کھیں قریش بیٹھ کر یہ نہ کہنے لگیں ، کہ افسوس ھم نے جنگ کیوں نہ کی اوراس چھوٹے سے گروہ کی سرکوبی کیوں نہ کی، افسوس کہ شکارھمارے گھر میں آیا، اور اس سے ھم نے غفلت برتی ، افسوس ، افسوس ۔ 

ھرگز ایسا نھیں ھے اگر چہ مسلمان ان کی نسبت تھوڑے تھے، اور وطن اور امن کی جگہ سے بھی دور تھے، اسلحہ بھی ان کے پاس کافی مقدار میں نھیں تھا، لیکن اس کے باوجود اگر جنگ چھڑجاتی تو پھر بھی قوت ایمانی اور نصرت الٰھی کی برکت سے کامیابی انھیں ھی حاصل هوتی، کیا جنگ ”بدر “ اور” احزاب “ میں ان کی تعداد بہت کم اور دشمن کا سازو سامان اور لشکر زیادہ نہ تھا؟ ان دونوں مواقع پر دشمن کو کیسے شکست هوگئی ۔

بھرحال اس حقیقت کا بیان مومنین کے دل کی تقویت اور دشمن کے دل کی کمزوری اور منافقین کے ” اگر “ اور ” مگر “ کے ختم هونے کا سبب بن گئی اور اس نے اس بات کی نشاندھی کردی کہ ظاھری طور پر حالات کے برابر نہ هونے کے باوجود اگر جنگ چھڑجائے تو کامیابی مخلص مومنین ھی کو نصیب هوتی ھے ۔

دوسرا نکتہ جو قرآن میں بیان هوا ھے یہ ھے کہ فرماتاھے ”وھی تو ھے جس نے کفار کے ھاتھ کو مکہ میں تم سے باز رکھا اور تمھارے ھاتھ کو ان سے،یہ اس وقت هوا جبکہ تمھیں ان پر کامیابی حاصل هوگئی تھی، اور خدا وہ سب کچھ جو تم انجام دے رھے هو دیکھ رھاھے “۔[87]

مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کےلئے ایک ” شان نزول“ بیان کی ھے اور وہ یہ ھے کہ: مشرکین مکہ نے ”حدیبیہ “کے واقعہ میں چالیس افراد کو مسلمانوں پرضرب لگانے کےلئے مخفی طور پر حملہ کے لئے تیار کیا، لیکن ان کی یہ سازش مسلمانوں کی هوشیاری سے نقش برآب هوگئی اور مسلمان ان سب کو گرفتار کرکے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں لے آئے ، اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے انھیں رھا کردیا ۔ بعض نے یہ بھی کھا ھے کہ جس وقت پیغمبر درخت کے سائے میں بیٹھے هوئے تھے تاکہ قریش کے نمائندہ کے ساتھ صلح کے معاہدہ کو ترتیب دیں ، اور علی علیہ السلام لکھنے میں مصروف تھے، تو جوانان مکہ میں سے ۳۰ افراد اسلحہ کے ساتھ آپ پر حملہ آور هوئے،اور معجزا نہ طورپر ان کی یہ سازش بے کار هوگئی اور وہ سب کے سب گرفتار هوگئے اور حضرت نے انھیں آزاد کردیا ۔

 

عمرة القضاء

”عمرة القضاء“وھی عمرہ ھے جو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حدیبیہ سے ایک سال بعد یعنی ہجرت کے ساتویں سال کے ماہ ذی القعدہ میں اسے( ٹھیک ایک سال بعد جب مشرکین نے آپ کو مسجد الحرام میں داخل هونے سے روکا تھا) اپنے اصحاب کے ساتھ انجام دیا اوراس کا یہ نام اس وجہ سے ھے ، چونکہ یہ حقیقت میں گزشتہ سال کی قضاء شمار هوتا تھا۔  اس کی وضاحت اس طرح ھے کہ : قرار داد حدیبیہ کی شقوں میں سے ایک شق کے مطابق پروگرام یہ تھا کہ مسلمان آئندہ سال مراسم عمرہ اور خانہ خدا کی زیارت کو آزادانہ طور پر انجام دیں، لیکن تین دن سے زیادہ مکہ میں توقف نہ کریں اور اس مدت میں قریش کے سردار اور مشرکین کے جانے پہچانے افراد شھرسے باھر چلے جائیں گے تاکہ ایک تو احتمالی ٹکراؤ سے بچ جائیں اور کنبہ پروری اور تعصب کی وجہ سے جو لوگ مسلمانوں کی عبادت توحیدی کے منظر کو دیکھنے کا یارا اور قدرت نھیں رکھتے، وہ بھی اسے نہ دیکھیں) 

بعض تواریخ میں آیا ھے کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے صحابہ کے ساتھ احرام باندھا اور قربانی کے اونٹ لے کر چل پڑے اور ” ظھران“کے قریب پہنچ گئے اس موقع پر پیغمبر نے اپنے ایک صحابی کو جس کا نام “ محمد بن مسلمہ“ تھا، عمدہ سواری کے گھوڑوں اور اسلحہ کے ساتھ اپنے آگے بھیج دیا، جب مشرکین نے اس پر وگرام کو دیکھا تو وہ سخت خوف زدہ هوئے اور انھوں نے یہ گمان کرلیا کہ حضرت ان سے جنگ کرنا اور اپنی دس سالہ صلح کی قرار داد کو توڑنا چاہتے ھیں ، لوگوں نے یہ خبر اھل مکہ تک پہنچادی لیکن جب پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  مکہ کے قریب پہنچے تو آپ نے حکم دیا کہ تمام تیر اور نیزے اور دوسرے سارے ہتھاراس سرزمین میں جس کا نام ”یاجج“ ھے منتقل کردیں، اور آپ خود اور آپ کے صحابہ صرف نیام میں رکھی هوئی تلواروں کے ساتھ مکہ میں دارد هوئے ۔ اھل مکہ نے جب یہ عمل دیکھا تو بہت خوش هوئے کہ وعدہ پورا هوگیا، (گویا پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا یہ اقدام مشرکین کے لئے ایک تنبیہ تھا،کہ اگر وہ نقض عہد کرنا چاھیں اور مسلمانوں کے خلاف سازش کریں،تو ان کے مقابلہ کی قدرت رکھتے ھیں )

رؤ سائے مکہ، مکہ سے باھر چلے گئے، تاکہ ان مناظر کو جوان کےلئے دل خراش تھے نہ دیکھیں لیکن باقی اھل مکہ مرد ، عورتیں اور بچے سب ھی راستوں میں ، چھتوں کے اوپر ، اور خانہ خدا کے اطراف میں جمع هوگئے تھے ، تاکہ مسلمانوں اور ان کے مراسم عمرہ کو دیکھیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاص رُعب اور دبدبہ کے ساتھ مکہ میں وارد هوئے اور قربانی کے بہت سے اونٹ آپ کے ساتھ تھے، اورآپ نے انتھائی محبت اور ادب کے ساتھ مکہ والوں سے سلوک کیا،اور یہ حکم دیا کہ مسلمان طواف کرتے وقت تیزی کے ساتھ چلیں ، اور احرام کو ذراسا جسم سے ہٹالیں تاکہ ان کے قوی اور طاقتور اور موٹے تازے شانے آشکار هوں ، اور یہ منظر مکہ کے لوگوں کی روح اور فکر میں ، مسلمانوں کی قدرت وطاقت کی زندہ دلیل کے طور پر اثراندز هو ۔

مجموعی طور سے ” عمرة القضاء“ عبادت بھی تھا اور قدرت کی نمائش بھی ،یہ کہنا چاہئے کہ ” فتح مکہ “ جو بعد والے سال میں حاصل هوئی ، اس کا بیج انھیں دنوں میں بویا گیا ، اوراسلام کے مقابلہ میں اھل مکہ کے سرتسلیم خم کرنے کے سلسلے میں مکمل طور پر زمین ھموار کردی ۔ یہ وضع وکیفیت قریش کے سرداروں کے لئے اس قدر ناگوار تھی کہ تین دن گزرنے کے بعد کسی کو پیغمبر کی خدمت میں بھیجا کہ قرادداد کے مطابق جتنا جلدی هو سکے مکہ کو چھوڑدیجئے ۔ قابل توجہ بات یہ ھے ، کہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مکہ کی عورتوں میں سے ایک بیوہ عورت کو،جو قریش کے بعض سرداروں کی رشتہ دار تھی، اپنی زوجیت میں لے لیا، تاکہ عربوں کی رسم کے مطابق ،اپنے تعلق اور رشتے کو ان سے مستحکم کرکے ان کی عداوت اور مخالفت میں کمی کریں ۔

جس وقت پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مکہ سے باھر نکل جانے کی تجویز سنی تو آپ نے فرمایا : میں اس ازدواج کے مراسم کے لئے کھانا کھلانا چاہتا هوں اور تمھاری بھی دعوت کرنا چاہتاهوں ،یہ دعوت رسمی طور پررد کردی گئی ۔ 

 

 

فتح خیبر

جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  حدیبیہ سے واپس لوٹے تو تمام ماہ ذی الحجہ اور ہجرت کے ساتویں سال کے محرم کا کچھ حصہ مدینہ میں توقف کیا، اس  کے بعد اپنے اصحاب میں سے ان ایک ہزار چار سوافراد کو جنهوں نے حدیبیہ میں شرکت کی تھی ساتھ لے کر خیبر کی طرف روانہ هوئے ،(جو اسلام کے برخلاف تحریکوں کا مرکز تھا، اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کسی مناسب فرصت کے لئے گن گن کردن گزار رھے تھے کہ اس مرکز فساد کو ختم کریں۔

روایات کے مطابق جس وقت پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ”حدیبیہ“ سے پلٹ رھے تھے توحکم خدا سے آپ نے حدیبیہ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو ” فتح خیبر“ کی بشارت دی ، اور تصریح فرمائی کہ اس جنگ میں صرف وھی شرکت کریں گے ، اور جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت بھی انھیں کے ساتھ مخصوص هوگا تخلف کرنے والوں کو ان غنائم میں سے کچھ نہ ملے گا ۔

لیکن جو نھی ان ڈر پوک دنیا پرستوں نے قرائن سے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اس جنگ میں جو انھیں درپیش ھے یقینی طور پر کامیاب هوں گے اور سپاہ اسلام کو بہت سامال غنیمت ھاتھ آئے گا، تو وقت سے فائدہ اٹھاتے هوئے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں حاضر هوئے اور میدان خیبر میں شرکت کی اجازت چاھی اور شاید اس عذر کو بھی ساتھ لیا کہ ھم گزشتہ غلطی کی تلافی کرنے ، اپنی ذمہ داری کے بوجھ کو ھلکا کرنے ، گناہ سے توبہ کرنے اور اسلام وقرآن کی مخلصانہ خدمت کرنے کے لئے یہ چاہتے ھیں کہ ھم میدان جھاد میں آپ کے ساتھ شرکت کریں ، وہ اس بات سے غافل تھے کہ وحی الٰھی    پھلے ھی نازل هوچکی تھیں اور ان کے راز کو فاش کرچکی تھیں، جیسا کہ قرآن میں بیان هوا ھے ۔

” جس  وقت تم کچھ غنیمت حاصل کرنے کے لئے چلو گے تو اس وقت پیچھے رہ جانے والے کھیں گے : ھمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیں اور اس جھاد میں شرکت کرنے کا شرف بخشیں “۔[88]

بھرحال قرآن اس منفعت اور فرصت طلب گروہ کے جواب میں کہتا ھے :”وہ یہ چاہتے ھیں کہ خدا کے کلام کو بدل دیں “۔ [89]

اس کے بعد مزید کہتا ھے :”ان سے کہہ و : تم ھرگز ھمارے پیچھے نہ آنا“ تمھیں اس میدان میں شرکت کرنے کا حق نھیں ھے ،یہ کوئی ایسی بات نھیں ھے جو میں اپنی طرف سے کہہ رھاهوں ” یہ تو وہ بات ھے جو خدا نے پھلے سے ھی کہہ دی ھے “ ۔[90]  اور ھمیں تمھارے مستقبل (کے بارے میں ) باخبر کردیا ھے ۔

خدا نے حکم دیا ھے کہ ” غنائم خیبر“،”اھل حدیبیہ “ کے لئے مخصوص ھیں اور اس چیز میں کوئی بھی ان کے ساتھ شرکت نہ کرے ، لیکن یہ بے شرم اور پرا دعا پیچھے رہ جانے والے پھر بھی میدان سے نھیں ہٹتے اور تمھیں حسد کے ساتھ متھم کرتے ، اور عنقریب وہ یہ کھیں گے : کہ معاملہ اس طرح نھیں ھے بلکہ تم ھم سے حسد کررھے هو ۔[91]

اور اس طرح وہ ضمنی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی تکذیب بھی کرتے تھے یھی لوگ”جنگ خیبر“میں انھیں شرکت سے منع کرنے کی اصل حسد کو شمار کرتے ھیں۔

دعائے پیامبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم 

”غطفان“کے قبیلہ نے شروع میں تو خیبر کے یهودیوں کی حمایت کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن بعد میں ڈرگئے اور اس سے رک گئے ۔ 

 

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  جس وقت”خیبر“ کے قلعوں کے نزدیک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کو رکنے کا حکم دیا، اس کے بعد آسمان کی طرف سربلند کیا اور یہ دعا پڑھی:

”خداوندا ! اے آسمانوں کے پروردگار اور جن پر انھوں نے سایہ ڈالا ھے، اور اے زمینوں کے پروردگار اور جن چیزوں کو انھوں نے اٹھارکھا ھے میں تجھ سے اس آبادی اور اس کے اھل میں جو خیر ھے اس کا طلب گارهوں، اور تجھ سے اس کے شراور اس میں رہنے والوں کے شر اور جو کچھ اس میں ھے اس شرسے پناہ مانگتاهوں“ ۔اس کے بعد فرمایا:” بسم اللہ “آگے بڑھو: اور اس طرح سے رات کے وقت ”خیبر“ کے پاس جاپہنچے‘ اور صبح کے وقت جب ا”ھل خیبر“ اس ماجرا سے باخبر هوئے تو خود کو لشکر اسلام کے محاصرہ میں دیکھا، اس کے بعد پیغمبر نے یکے بعد دیگرے ان قلعوں کو فتح کیا،یھاں تک کہ آخری قلعہ تک ، جو سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھا، اور مشهور یهودی کمانڈر”مرحب“ اس میں رہتا تھا، پہنچ گئے ۔

انھیں دنوں میں ایک سخت قسم کا دردسر، جو کبھی کبھی پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو عارض هوا کرتا تھا، آپ کو عارض هوگیا ، اس طرح سے کہ ایک دو دن آپ اپنے خیمہ سے باھر نہ آسکے تو اس موقع پر (مشهور اسلامی تواریخ کے مطابق ) حضرت ابوبکر، نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر یهودیوں کے لشکر پر حملہ آور هوئے ، لیکن کوئی نتیجہ حاصل کیے بغیر واپس پلٹ آئے دوسری دفعہ ” حضرت عمر“ نے علم اٹھایا، اور مسلمان پھلے دن کی نسبت زیادہ شدت سے لڑے،لیکن بغیر کسی نتیجہ کے واپس پلٹ آئے ۔

فاتح خیبر علی علیہ السلام 

یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:”خدا کی قسم کل یہ علم ایسے مرد کو دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ھے، اور خدا اور پیغمبر اس کو دوست رکھتے ھیں ،اور وہ اس سے قلعہ کو طاقت کے زورسے فتح کرے گا “۔ ھرطرف سے گردنیں اٹھنے لیگیں کہ اس سے مرادکون شخص ھے؟ کچھ لوگوں کا اندازہ تھا کہ پیغمبر   کی مراد علی علیہ السلام ھیںلیکن علی علیہ السلام ابھی وھاں موجود نھیں تھے،کیونکہ شدید آشوب چشم انھیں لشکر میں حاضر هونے سے مانع تھا، لیکن صبح کے وقت علی علیہ السلام اونٹ پر سوار هوکر وارد هوئے، اور پیغمبر اکرم  کے خیمہ کے پاس اترے درحالیکہ آپ کی آنکھیں شدت کے ساتھ درد کررھی تھیں ۔

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا :میرے نزدیک آؤ،آپ قریب گئے توآنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے دہن مبارک کا لعاب علی علیہ السلام کی آنکھوں پر ملا اور اس معجزہ کی برکت سے آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک هوگئیں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے علم ان کے ھاتھ میں دیا۔

علی علیہ السلام لشکر اسلام کو ساتھ لے کر خیبر کے سب سے بڑے قلعہ کی طرف بڑھے تو یهودیوں میں سے ایک شخص نے قلعہ کے اوپر سے پوچھا کہ آپ کون ھیں ؟ آپ نے فرمایا : ” میں علی بن ابی طالب“ هوں، اس یهودی نے پکار کر کھا : اے یهودیو! اب تمھاری شکست کا وقت آن پہنچا ھے ، اس وقت اس قلعہ کا کمانڈر مرحب یهودی ، علی علیہ السلام سے مقابلہ کے لئے نکلا، اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک ھی کاری ضرب سے زمین پر گرپڑا ۔

مسلمانوں اور یهودیوں کے درمیان شدید جنگ شروع هوگئی، علی علیہ السلام قلعہ کے دروازے کے قریب آئے ، اور ایک قوی اورپُر قدرت حرکت کے ساتھ دروازے کو اکھاڑا اور ایک طرف پھینک دیا، اور اس زور سے قلعہ کھل گیا اور مسلمان اس میں داخل هوگئے اور اسے فتح کرلیا ،یهودیوں نے اطاعت قبول کرلی، اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے درخواست کی کہ اس اطاعت کے عوض ان کی جان بخشی کی جائے، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا، منقول غنائم اسلامی لشکر کے ھاتھ آئے اور وھاں کی زمینیں اور باغات آپ نے یهودیوں کو اس شرط کے ساتھ سپرد کردئیے کہ اس کی آمدنی کا آدھا حصہ وہ مسلمانوں کو دیا کریں گے ۔

آخرکار پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے تواریخ کی نقل کے مطابق غنائم خیبرصرف اھل حدیبیہ پر تقسیم کئے، یھاں تک کہ ان لوگوں کے لئے بھی جو حدیبیہ میں موجود تھے اور کسی وجہ سے جنگ خیبر میں شریک نہ هوسکے ان کے لئے بھی ایک حصہ قراردیا ، البتہ ایسا آدمی صرف ایک ھی تھا، اور وہ ” جابربن عبداللہۻتھا ۔

فتح مکہ 

فتح مکہ نے؛ تاریخ اسلام میںایک نٴی فصل کا اضافہ کیاھے اور تقریباً بیس سال کے بعد دشمن کی مقاومتوں کو ھمیشہ کے لئے ختم کردیا، حقیقت میں فتح مکہ سے جزیرة العرب سے شرک و بت پر ستی کی بساط لپیٹ دی گئی ،اور اسلام دنیاکے دوسرے ممالک کی طرف حرکت کے لئے آمادہ هوا۔

اس واقعہ کا خلاصہ یہ ھے کہ عہد وپیمان اور صلح کے بعد کفار نے عہد شکنی کی اور اس صلح نامہ کونظر انداز کردیا، اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے بعض حلیفوں کے ساتھ زیادتی کی، آپ کے حلیفوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے شکایت کی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے حلیفوںکی مددکرنے کا ارادہ کرلیا،اور دوسری طرف مکہ میں بت پرستی شرک اور نفاق کا جو مرکز قائم تھا اس کے ختم هونے کے تمام حالات فراھم هوگئے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جسے ھر حالت میں انجام دینا ضروری تھا،اس لئے پیغمبر خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے حکم سے مکہ کی طرف جانے کے لئے آمادہ هوگئے ،فتح مکہ تین مراحل میںانجام پائی ۔ 

پھلا مرحلہ مقدماتی تھا، یعنی ضروری قوااور توانائیوں کو فراھم کرنا، زمانہ کے موافق حالات کا انتخاب اور دشمن کی جسمانی و روحانی قوت و توانائی کی مقدار وکیفیت کی حیثیت کے بارے میں کافی اطلاعات حاصل کرنا تھا۔

دوسرا مرحلہ، فتح کے مرحلہ کوبہت ھی ماھرانہ اور ضائعات و تلفات یعنی نقصان کے بغیر انجام دینا تھا۔ اور آخری مرحلہ، جو اصلی مرحلہ تھا، وہ اس کے آثار و نتائج کا مرحلہ تھا۔ 

یہ مرحلہ انتھائی دقت، باریک بینی اور لطافت کے ساتھ انجام پایا ، خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے مکہ و مدینہ کی شاھراہ کو اس طرح سے سے قرق کرلیا تھا کہ اس عظیم آمادگی کی خبر کسی طرح سے بھی اھل مکہ کو نہ پہنچ سکی۔ اس لئے انهوں نے کسی قسم کی تیار ی نہ کی ،وہ مکمل طور پر غفلت میں پڑے رھے اور اسی وجہ سے اس مقد س سرزمین میںاس عظیم حملہ اور بہت بڑی فتح میں تقریباً کوئی خون نھیںبھا۔ 

یھاں تک کہ وہ خط بھی،جو ایک ضعیف الایمان مسلمان ”حاطب بن ابی بلتعہ“نے قریش کو لکھا تھا اور قبیلہ ”مزینہ“ کی ایک عورت ”کفود“یا ”سارہ“نامی کے ھاتھ مکہ کی طرف روانہ کیا تھا،اعجاز آمیز طریقہ سے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے لئے آشکار هوگیا، علی علیہ االسلام کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑی تیزی سے اس کے پیچھے روانہ هوئے، انهوںنے اس عورت کو مکہ و مدینہ کی ایک درمیانی منزل میںجالیا اور اس سے وہ خط لے کر،خود اسے بھی مدینہ واپس لے آئے۔ 

مکہ کی طرف روانگی

بھر حال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  مدینہ میں اپنا ایک قائم مقام مقرر کر کے ہجرت کے آٹھویں سال ماہ رمضان کی دس تاریخ کو مکہ کی طرف چل پڑے ، اور دس دن کے بعد مکہ پہنچ گئے ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے راستے کے وسط میں اپنے چچا عباس کو دیکھا کہ وہ مکہ سے ہجرت کرکے آپ کی طرف آرھے ھیں ۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ اپنا سامان مدینہ بھیج دیجئے اور خود ھمارے ساتھ چلیں، اور آپ آخری مھاجر ھیں۔ 

آخر کار مسلمان مکہ کی طرف پہنچ گئے اور شھر کے باھر،اطراف کے بیابانوں میں اس مقام پر جسے ”مرالظھران“کھا جاتا تھا اور جو مکہ سے چند کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ پر نہ تھا،پڑاؤ ڈال دیا۔ اور رات کے وقت کھانا پکانے کے لئے (یا شاید اپنی وسیع پیمانہ پر موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے) وھاں آگ روشن کردی، اھل مکہ کا ایک گروہ اس منظر کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا۔

ابھی تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور لشکر اسلام کے اس طرف آنے کی خبریں قریش سے پنھاں تھیں۔ اس رات اھل مکہ کا سرغنہ ابو سفیان اور مشرکین کے بعض دوسرے سرغنہ خبریںمعلوم کرنے کے لئے مکہ سے باھر نکلے،اس موقع پر پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے چچا عباس ۻنے سوچا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  قھرآلود طریقہ پر مکہ میںوارد هوئے تو قریش میں سے کوئی بھی زندہ نھیں بچے گا، انهوں نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے اجازت لئے اور آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی سواری پر سوار هوکر کھا میں جاتاهوں ،شاید کوئی مل جائے تو اس سے کهوں کہ اھل مکہ کو اس ماجرے سے آگاہ کردے تا کہ وہ آکر امان حاصل کرلیں۔

عباسۻ وھاںروانہ هوکر بہت قریب پہنچ گئے۔ اتفاقاً اس موقع پر انهوں نے ”ابو سفیان“کی آواز سنی جواپنے ایک دوست ”بدیل“ سے کہہ رھا تھا کہ ھم نے کبھی بھی اس سے زیادہ آگ نھیں دیکھی، ”بدیل“ نے کھا میرا خیال ھے کہ یہ آگ قبیلہ”خزاعہ“نے جلائی هوئی ھے، ابوسفیان نے کھا قبیلہ خزاعہ اس سے کھیں زیادہ ذلیل وخوار ھیں کہ وہ اتنی آگ روشن کریں،اس موقع پر عباس نے ابوسفیان کو پکارا، ابوسفیان نے بھی عباس کو پہچان لیا اور کھا سچ سچ بتاؤ کیا بات ھے؟

عباسۻ نے جواب دیا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ھیں جو دس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ تمھاری طرف آرھے ھیں، ابو سفیان سخت پریشان هوا اور کھا آپ مجھے کیا حکم دیتے ھیں۔ 

عباسۻ نے کھا:میرے ساتھ آؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   سے امان لے لو ورنہ قتل کردیے جاؤگے۔ 

اس طرح سے عباس نے”ابوسفیان“کو اپنے ھمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی سواری پر ھی سوار کرلیا اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں پلٹ آئے ۔ وہ جس گروہ اور جس آگ کے قریب سے گزرتے وہ یھی کہتے کہ یہ تو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے چچا ھیں جو آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی سواری پر سوار ھیں ،کوئی غیر آدمی ھے، یھاںتک کہ وہ اس مقام پر آئے، جھاں عمر ابن خطاب تھے ،جب عمر بن خطاب کی نگاہ ابو سفیان پر پڑی تو کھا خدا کا شکر ھے کہ اس نے مجھے تجھ ( ابوسفیان) پر مسلط کیا ھے، اب تیرے لئے کوئی امان نھیں ھے اور فوراً ھی پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میںآکرآپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   سے ابوسفیان کی گردن اڑانے کی اجازت مانگی ۔ 

لیکن اتنے میں عباسۻ بھی پہنچ گئے اور کھا: کہ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  میں نے اسے پنا ہ دے دی ھے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: میں بھی سر دست اسے امان دیتا هوں، کل آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اسے میرے پاس لے آئیں اگلے دن جب عباسۻ اسے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں لائے تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے اس سے فرمایا:”اے ابوسفیان! وائے هو تجھ پر، کیا وہ وقت ابھی نھیں آیا کہ تو خدائے یگانہ پر ایمان لے آئے“۔

اس نے عرض کیا: ھاں! ےا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  میرے ماں باپ آپ پر قربان هوں ،میں گواھی دیتاهوں کہ خدا یگانہ ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے،اگر بتوں سے کچھ هو سکتا تو میں یہ دن نہ دیکھتا۔

آنحضرت نے فرمایا:”کیا وہ موقع نھیں آیا کہ تو جان لے کہ میں اللہ کا رسو ل هوں“۔

اس نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر قربان هو ںابھی اس بارے میں میرے دل میں کچھ شک و شبہ موجود ھے لیکن آخر کار ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں میں سے دو آدمی مسلمان هوگئے۔ 

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے عباسۻ سے فرمایا:

”ابوسفیان کو اس درہ میں جو مکہ کی گزرگاہ ھے، لے جاؤ تاکہ خدا کا لشکر وھاں سے گزرے اور یہ دیکھ لے“۔

عباسۻ نے عرض کیا:”ابوسفیان ایک جاہ طلب آدمی ھے،اسکو کوئی امتیازی حیثیت دے دیجئے“پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا:”جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل هوجائے وہ امان میں ھے،جوشخص مسجد الحرام میں پناہ لے لے وہ امان میں ھے،جو شخص اپنے گھر کے اندر ھے اور دروازہ بند کرلے وہ بھی امان میں ھے“۔

بھر حال جب ابوسفیان نے اس لشکر عظیم کو دیکھا تو اسے یقین هوگیا کہ مقابلہ کرنے کی کوئی راہ باقی نھیں رھی او راس نے عباس کی طرف رخ کرکے کھا:آپ کے بھتیجے کی سلطنت بہت بڑی هوگئی ھے،عباسۻ نے کھا: وائے هو تجھ پر یہ سلطنت نھیں نبوت ھے۔ 

اس کے بعدعباس نے اس سے کھا کہ اب تو تیزی کے ساتھ مکہ والوں کے پاس جاکر انھیں لشکر اسلام کا مقابلہ کرنے سے ڈرا۔

ابوسفیان؛ لوگوں کو تسلیم هونے کی دعوت کرتاھے

ابوسفیان نے مسجدالحرام میں جاکر پکار کر کھا: 

”اے جمعیت قریش! محمد ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمھاری طرف آیا ھے،تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نھیں ھے، اس کے بعد اس نے کھا: جو شخص میرے گھر میں داخل هوجائے وہ امان میںھے،جو شخص مسجد الحرام میں چلا جائے وہ بھی امان میں ھے اور جو شخص اپنے گھر میں رہتے هوئے گھر کا دروازہ بندکرے وہ بھی امان میں ھے“۔ 

اس کے بعد اس نے چیخ کر کھا: اے جمعیت قریش! اسلام قبول کرلو تا کہ سالم رهو اور بچ جاؤ، اس کی بیوی”ہندہ“نے اس کی داڑھی پکڑلی اور چیخ کر کھا:اس بڈھے احمق کو قتل کردو۔

ابوسفیان نے کھا: میری داڑھی چھوڑدے۔ خدا کی قسم اگر تو اسلام نہ لائی تو تو بھی قتل هو جائے گی،جاکر گھر میں بیٹھ جا۔

علی علیہ السلام کے قدم دوش رسول پر

اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  لشکر اسلام کے ساتھ روانہ هوئے اور ”ذوی طوی“کے مقام تک پہنچ گئے،وھی بلند مقام جھاں سے مکہ کے مکانات صاف نظرآتے ھیں،پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو وہ دن یاد آگیا جب آپ  مجبور هوکر مخفی طور پر مکہ سے باھر نکلے تھے، لیکن آج دیکھ رھے ھیں کہ اس عظمت کے ساتھ داخل هورھے ھیں،تو آپ نے اپنی پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے کے اوپر رکھ دی او رسجدہ شکر بجا لائے،اس کے بعد پیغمبر اکرم ”حجون“ میں (مکہ کے بلند مقامات میں سے وہ جگہ جھاں خدیجہ(ع) کی قبر ھے) اترے، غسل کر کے اسلحہ اور لباس جنگ پہن کر اپنی سوار ی پر سوار هوئے،سورہٴ فتح کی قرائت کرتے هوئے مسجدالحرام میں داخل هوئے اور آواز تکبیر بلند کی، لشکر اسلام نے بھی نعرہٴ تکبیر بلندکیا تو اس سے سارے دشت و کوہ گونج اٹھے۔ اس کے بعد آپ اپنے اونٹ سے نیچے اترے اور بتوں کو توڑنے کے لئے خانہ کعبہ کے قریب آئے، آپ یکے بعد دیگرے بتوں کو سرنگوںکرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتھے:

”جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً“

”حق آگیا اور باطل ہٹ گیا،اور باطل ھے ھی ہٹنے والا“۔

کچھ بڑے بڑے بت کعبہ کے اوپر نصب تھے، جن تک پیغمبر کا ھاتھ نھیں پہنچتاتھا،آپ نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حکم دیا وہ میرے دوش پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ جائیں اور بتوں کو زمین پر گرا کر توڑڈالیں، علی علیہ السلام نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔

اس کے بعد آپ نے خانہٴ کعبہ کی کلید لے کر دروازہ کھولا اور انبیاء کی ان تصویروں کو جو خانہٴ کعبہ کے اندر درودیوار پر بنی هوئی تھیں، محو کردیا۔ اس سریع اور شاندا رکامیابی کے بعد پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے خانہٴ کعبہ کے دروازے کے حلقہ میں ھاتھ ڈالا اور وھاں پر موجود اھل مکہ کی طرف رخ کرکے فرمایا:

”اب بتلاؤ تم کیا کہتے هو؟ اور تمھارا کیا خیال ھے کہ میںتمھارے بارے میں کیا حکم دوں گا؟ انهوں نے عرض کیا: ھم آپ سے نیکی اور بھلائی کے سواراور کوئی توقع نھیںرکھتے!آپ ھمارے بزرگواربھائی اور ھمارے بزرگوار بھائی کے فرزند ھیں،آج آپ بر سر اقتدار آگئے ھیں، ھیں بخش دیجئے ،پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے اورمکہ کے لوگ بھی بلند آواز کے ساتھ رونے لگے۔ 

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے فرمایا:  ”میں تمھارے بارے میں وھی بات کہتا هوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ آج تمھارے اوپر کسی قسم کی کوئی سرزنش اور ملامت نھیں ھے، خدا تمھےں بخش دے گا،وہ الرحم الراحمین ھے“۔[92]

اور اس طرح سے آپ نے ان سب کو معاف کردیا اور فرمایا:  ”تم سب آزاد هو،جھاں چاهو جاسکتے هو“۔                               

آج کا دن روز رحمت ھے

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے یہ حکم دیاتھا کہ آپ کے لشکری کسی سے نہ الجھیں اور بالکل کوئی خون نہ بھایا جائے۔ ایک روایت کے مطابق صرف چھ افراد کو مستثنیٰ کیا گیا جو بہت ھی بد زبان اور خطرناک لوگ تھے۔

یھاں تک کہ جب آپ نے یہ سنا کہ لشکر اسلام کے علمدار”سعد بن عبادہ نے انتقام کا نعرہ بلند کیا ھے اور وہ یہ کہہ رھا ھے کہ:” آج انتقام کا دن ھے“ تو پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے علی علیہ السلام سے فرمایا، ”جلدی سے جاکر اس سے علم لے کر یہ نعرہ لگاؤ کہ:

” آج عفو وبخشش اور رحمت کا دن ھے“۔!

اور اس طرح مکہ کسی خونریزی کے بغیر فتح هوگیا،عفوورحمت اسلام کی اس کشش نے،جس کی انھیں بالکل توقع نھیں تھی،دلوں پر ایسا اثر کیا کہ لوگ گروہ در گروہ آکر مسلمان هوگئے،اس عظیم فتح کی صدا تمام جزائر عربستان میں جاپہنچی،اسلام کی شھرت ھر جگہ پھیل گئی اور مسلمانوں اور اسلام کی ھر جہت سے دھاک بیٹھ گئی ۔

جب پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  خانہٴ کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑے هوئے تھے تو آپ نے فرمایا:

”خداکے سوا اور کوئی معبود نھیںھے،وہ یکتا اور یگانہ ھے،اس نے آخر کار اپنے وعدہ کو پورا کردیا، اور اپنے بندہ کی مددکی،اور اس نے خود اکیلے ھی تمام گروهوں کو شکست دےدی، ان لوگوں کا ھر مال ،ھر امتیاز ،اورھر وہ خون جس کاتعلق ماضی اور زمانہٴ جاھلیت سے ھے،سب کے سب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ھیں“۔

(یعنی زمانہٴ جاھلیت میں هوئے خون خرابہ کو بھول جاوٴ ،غارت شدہ اموال کی بات نہ کرو اور زمانہٴ جاھلیت کے تمام امتیازات کو ختم کر ڈالو، خلاصہ گذشتہ فائلوں کو بند کر دیا جائے ۔) 

یہ ایک بہت ھی اھم اور عجیب قسم کی پیش نھاد تھی جس میں عمومی معافی کے فرمان سے حجاز کے لوگوں کو ان کے تاریک اور پُر ماجرا ماضی سے کاٹ کر رکھ دیا اور انھیں اسلام کے سائے میں ایک نئی زندگی بخشی جو ماضی سے مربوط کشمکشوں اور جنجالوں سے مکمل طور پر خالی تھی۔ 

اس کام نے اسلام کی پیش رفت کے سلسلہ میں بہت زیادہ مد دکی اور یہ ھمارے آج اور آنے والے کل کے لئے ایک دستو رالعمل ھے۔

عورتوں کی بیعت کے شرائط

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے کوہ صفا پر قیام فرمایا،او رمردوں سے بیعت لی،بعدہ مکہ کی عورتیں جو ایمان لے آئی تھیں بیعت کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر هوئیں تووحی الٰھی نازل هوئی اور ان کی بیعت کی تفصیل بیان کی ۔

روئے سخن پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی طرف کرتے هوئے فرماتا ھے :

”اے پیغمبر !جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں او ران شرائط پر تجھ سے بیعت کرلیں کہ وہ کسی چیز کو خداکا شریک قرار نھیں دیں گی، چوری نھیں کریں گی ،زنا سے آلودہ نھیں هوںگی،اپنی اولاد کو قتل نھیں کریں گی،اپنے ھاتھوں اورپاؤں کے آگے کوئی افتراء اور بہتان نھیں باندھیں گی اور کسی شائستہ حکم میں تیری نافرمانی نھیں کریں گی تو تم ان سے بیعت لے لو اوران کے لئے بخشش  طلب کرو،بیشک خدا بخشنے ،والا اورمھربان ھے۔ “[93]

اس کے بعد پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے ان سے بیعت لی۔ 

بیعت کی کیفیت کے بارے میں بعض مورخین نے لکھا ھے کہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے پانی کاایک برتن لانے کا حکم دیا او راپنا ھاتھ پانی کے اس برتن میں رکھ دیا،عورتیں اپنے ھاتھ برتن کے دوسری طرف رکھ دیتی تھیں،جب کہ بعض نے کھا ھے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  لباس کے اوپر سے بیعت لیتے تھے ۔ 

ابو سفیان کی بیوی ہندہ کی بیعت کا ماجرا 

فتح مکہ کے واقعہ میں جن عورتوں نے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی خدمت میں حاضر هوکر بیعت کی ان میں سے ایک ابو سفیان کی بیوی”ہندہ“تھی، یعنی وہ عورت جس کی طرف سے تاریخ اسلام بہت سے دردناک واقعات محفوظ رکھے هوئے ھے،ا ن میں سے ایک میدان احد میں حمزہ سید الشہداء (ع) کی شھادت کا واقعہ ھے کہ جس کی کیفیت بہت ھی غم انگیز ھے ۔ 

اگرچہ آخرکاروہ مجبور هوگئی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے سامنے گھٹنے ٹیک دے او رظاھراً مسلمان هو جائے لیکن اسکی بیعت کا ماجرا بتاتا ھے کہ وہ حقیقت میں اپنے سابقہ عقائد کی اسی طرح وفادار تھی، لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نھیں ھے کہ بنی امیہ کا خاندان اور ہندہ کی اولادنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے بعد اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا کہ جن کی سابقہ زمانہ میں کوئی نظیر نھیں ملتی ۔ 

بھر حال مفسرین نے اس طرح لکھا ھے کہ ہند ہ نے اپنے چھرے پر نقاب ڈالا هوا تھا وہ پیغمبر   کی خدمت میں اس وقت حاضر هوئی جب آپ کوہ صفا پر تشریف فرما تھے اور عورتوںکی ایک جماعت ہندہ کے ساتھ تھی، جب پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے یہ فرمایاکہ میں تم عورتوںسے اس بات پر بیعت لتیا هوں کہ تم کسی چیز کو خدا کا شریک قرار نھیں دو گی، تو ہندہ نے اعتراض کیا او رکھا:”آپ ھم سے ایسا عہد لے رھے ھیں جو آپ نے مردوں سے نھیں لیا ، (کیونکہ اس دن مردوں سے صرف ایمان اورجھاد پربیعت لی گئی تھی ۔)

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس کی بات کی پرواہ کئے بغیر اپنی گفتگو کو جاری فرمایا:”کہ تم چوری بھی نھیں کرو گی،“ہند ہ نے کھا: ابو سفیان کنجوس اوربخیل آدمی ھے میں نے اس کے مال میں سے کچھ چیزیںلی ھیں، میں نھیں جانتی کہ وہ انھیں مجھ پر حلال کرے گا یا نھیں!ابو سفیان موجود تھا ،اس نے کھا: جو کچھ تو نے گذشتہ زمانہ میں میرے مال میںسے لے لیا ھے وہ سب میں نے حلال کیا ،(لیکن آئندہ کے لئے پابندی کرنا ۔)

اس موقع پر پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ہنسے اور ہندہ کو پہچان کر فرمایا:”کیا تو ہندہ ھے“؟ اس نے کھا :جی ھاں ،یا رسول اللہ !پچھلے امور کو بخش دیجئے خدا آپ کو بخشے “۔!!

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے اپنی گفتگو کو جاری رکھا:”او رتم زنا سے آلودہ نھیں هوگی،“ہندہ نے تعجب کرتے هوئے کھا:”کیا آزاد عورت اس قسم کا عمل بھی انجام دیتی ھے؟“حاضرین میںسے بعض لوگ جو زمانہٴ جاھلیت میں اس کی حالت سے واقف تھے اس کی اس بات پر ہنس پڑے کیونکہ ہندہ کا سابقہ زمانہ کسی سے مخفی نھیں تھا۔

پھر پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے اپنی بات کو جاری رکھتے هوئے فرمایا:

”اور تم اپنی اولاد کو قتل نھیں کروگی “۔

ہند نے کھا:”ھم نے تو انھیں بچپن میں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے هوئے تو آپ نے انھیں قتل کردیا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ھیں“۔( اس کی مراد اس کا بیٹا ”حنظلہ“تھا جو بدر کے دن علی علیہ السلام کے ھاتھوں ماراگیا تھا۔)

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے اس کی اس بات پر تبسم فرمایا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمایا:

”تم بہتان او رتھمت کو روا نھیں رکھوگی “۔

تو ہندہ نے کھا:”بہتان قبیح ھے او رآپ ھمیں صلاح و درستی ،نیکی او رمکارم اخلاق کے سوا او رکسی چیز کی دعوت نھیں دیتے“۔

جب آپ نے یہ فرمایا:

”تم تمام اچھے کاموں میں میرے حکم کی اطاعت کروگی “۔تو ہندہ نے کھا:”ھم یھاں اس لئے نھیں بیٹھے ھیں کہ ھمارے دل میں آپ کی نافرمانی کاارادہ هو“۔

(حالانکہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نھیں تھا، لیکن تعلیمات اسلامی کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اس بات کے پابند تھے کہ ان کے بیانات کو قبول کرلیں۔

 

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے خطوط دنیا کے بادشاهوںکے نام 

تاریخ اسلام سے معلوم هوتا ھے کہ جب سرزمین حجاز میںاسلام کافی نفوذ کرچکا تو پیغمبراکرم نے اس زمانے کے بڑے بڑے حکمرانوں کے نام کئی خطوط روانہ کیے ۔ ان میں بعض خطوط میں کا سھارا لیا گیا ھے ،جس میں آسما نی ادیان کی قدر مشترک کا تذکرہ ھے۔ 

مقوقس[94] کے نام خط

مقوقس مصر کا حاکم تھا پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاهوں او رحکام کو خطوط لکھے او رانھیں اسلام کی طرف دعوت دی،حاطب بن ابی بلتعہ کو حاکم مصر مقوقس کی طرف یہ خط دے کرروانہ کیا۔

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم 

من:              محمد بن عبداللّٰہ 

الی:   المقوقس عظیم القبط 

سلام علی من اتبع الھدیٰ ،اما بعد:”فانی ادعوک بدعایةالاسلام۔

اسلم تسلم،یوٴتک اللّٰہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم 

القبط،۔۔۔یا اھل الکتٰب تعالواالیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم” ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون“۔

اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مھربان ھے ۔

از ۔۔۔محمد بن عبد اللہ 

بطرف۔۔۔قبطیوں کے مقوقس بزرگ ۔

حق کے پیروکاروں پر سلام هو۔ 

میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا هوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رهو ۔ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا ۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو قبطیوں کے گناہ تیرے ذمہ هوں گے ۔۔اے اھل کتاب! ھم تمھیں ایک مشترک بنیادکی طرف دعوت دیتے ھیں او روہ یہ کہ ھم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کهو کہ گواہ رهو ھم تم مسلمان ھیں“۔

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کا سفیر مصر کی طرف روانہ هوا، اسے اطلاع ملی کہ حاکم مصر اسکندریہ میں ھے لہٰذا وہ اس وقت کے ذرائع آمد ورفت کے ذریعے اسکندریہ پہنچا او رمقوقس کے محل میں گیا، حضرت کا خط اسے دیا ، مقوقس نے خط کھول کر پڑھا کچھ دیر تک سوچتا رھا، پھر کہنے لگا:”اگر واقعاً محمدخدا کا بھیجا هوا ھے تو اس کے مخالفین اسے اس کی پیدائش کی جگہ سے باھر نکالنے میں کیوں کامیاب هوئے او روہ مجبور هوا کہ مدینہ میں سکونت اختیار کرے؟ ان پر نفرین او ربد دعا کیوں نھیںکی تاکہ وہ نابود هو جاتے؟“

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے قاصد نے جواباً کھا:

”حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے رسول تھے اور آپ بھی ان کی حقانیت کی گواھی دیتے ھیں، بنی اسرائیل نے جب ان کے قتل کی سازش کی توآپ نے ان پر نفرین اور بد دعا کیوں نھیں کی تاکہ خدا انھیں ھلاک کردیتا؟

یہ منطق سن کر مقو قس تحسین کرنے لگا اور کہنے لگا :

”احسنت انت حکیم من عند حکیم “

”آفرین ھے ،تم سمجھ دار هو اور ایک صاحب حکمت کی طرف سے آئے هو “

حاطب نے پھر گفتگو شروع کی اور کھا :

”آپ سے پھلے ایک شخص (یعنی فرعون )اس ملک پر حکومت کرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں میں اپنی خدائی کا سودا بیچتا رھا ،بآلاخر اللہ نے اسے نابود کر دیا تاکہ اس کی زندگی آپ کے لئے باعث عبرت هو لیکن آپ کوشش کریں کہ آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بن جائے“۔

”پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ھمیں ایک پاکیزہ دین کی طرف دعوت دی ھے ، قریش نے ان سے بہت سخت جنگ کی او ران کے مقابل صف آراء هوئے، یهودی بھی کینہ پروری سے ان کے مقابلے میں آکھڑے هوئے او راسلام سے زیادہ نزدیک عیسائی ھیں ۔ “

مجھے اپنی جان کی قسم جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی بشارت دی تھی اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد کے مبشر تھے ، ھم آپ لوگوں نے تو ریت کے ماننے والوں کو انجیل کی دعوت دی تھی ،جوقوم پیغمبرحق کی دعوت کو سنے اسے چاہئے کہ اس کی پیروی کرے ،میں نے محمد کی دعوت آپ کی سرزمین تک پہنچادی ھے، مناسب یھی ھے کہ آپ او رمصری قوم یہ دعوت قبول کر لے“۔

حاطب کچھ عرصہ اسکندریہ ھی میں ٹھھرا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے خط کا جواب حاصل کرے ،چند روز گزر گئے، ایک دن مقوقس نے حاطب کو اپنے محل میں بلایا او رخواہش کی کہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ مزید بتایا جائے۔ 

حاطب نے کھا:

”محمد  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  ھمیں خدانے یکتا ئی پرستش کی دعوت دیتے ھیں او رحکم دیتے ھیں کہ لوگ روزوشب میں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قریبی رابطہ پیدا کریں او رنماز پڑھیں ،پیمان پورے کریں ،خون او رمردار کھانے سے اجتناب کریں“۔

علاوہ ازیں حاطب نے پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی زندگی کی بعض خصوصیات بھی بیان کیں۔ 

مقوقس کہنے لگا:

”یہ تو بڑی اچھی نشانیاں ھیں۔ میرا خیال تھا کہ خاتم النبیین سرزمین شام سے ظهور کریں گے جو انبیاء علیھم السلام کی سرزمین ھے،اب مجھ پر واضح هوا کہ وہ سر زمین حجاز سے مبعوث هوئے ھیں“۔

اس کے بعد اس نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ وہ عربی زبان میں اس مضمون کا خط تحریر کرے:

بخدمت :  محمد بن عبد اللہ ۔

منجانب:   قبطیوں کے بزرگ مقوقس ۔

”آپ پر سلام هو،میںنے آپ کاخط پڑھا ،آپ کے مقصد سے باخبر هوااو رآپ کی دعوت کی حقیقت کو سمجھ لیا،میں یہ تو جانتا تھا کہ ایک پیغمبر  ظهور کرے گا لیکن میرا خیال تھا کہ وہ خطہٴ شام سے مبعوث هوگا، میں آ پ کے قاصد کا احترام کرتا هوں“۔

پھر خط میں ان ہدیوں اور تحفوں کی طرف اشارہ کیا جواس نے آپ کی خدمت میں بھیجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام کیا۔

”آپ پر سلام هو“

تاریخ میں ھے کہ مقوقس نے کوئی گیارہ قسم کے ہدیے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے لئے بھیجے ، تاریخ اسلام میں ان کی تفصیلات موجود ھیں،ان میں سے ایک طبیب تھا تاکہ وہ بیما ر هونے والے مسلمانوں کا علاج کرے، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   نے دیگر ہدیئے قبول فرمایائے لیکن طبیب کو قبول نہ کیا او رفرمایا:”ھم ایسے لوگ ھیں کہ جب تک بھوک نہ لگے کھانا نھیں کھاتے او رسیر هونے سے پھلے کھانے سے ھاتھ روک لیتے ھیں، یھی چیز ھماری صحت و سلامتی کے لئے کافی ھے، شاید صحت کے اس عظیم اصول کے علاوہ پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اس طبیب کی وھاں موجودگی کو درست نہ سمجھتے هوں کیونکہ وہ ایک متعصب عیسائی تھا لہٰذا آپ نھیںچاہتے تھے کہ اپنی او رمسلمانوں کی جان کا معاملہ اس کے سپرد کردیں۔

مقوقس نے جو سفیر پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا احترام کیا،آپ کے لئے ہدیے بھیجے او رخط میں نام محمد اپنے نام سے مقدم رکھا یہ سب اس بات کی حکایت کرتے ھیں کہ اس نے آپ کی دعوت کو باطن میں قبول کرلیا تھا یا کم از کم اسلام کی طر ف مائل هوگیا تھا لیکن اس بناء پرکہ اس کی حیثیت او روقعت کو نقصان نہ پہنچے ظاھری طو رپراس نے اسلام کی طرف اپنی رغبت کا اظھار نہ کیا ۔ 

قیصر روم کے نام خط

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم 

من:    محمد بن عبداللّٰہ 

الی:   ھرقل عظیم الرّوم

سلام علی من اتبع الھدیٰ 

اما بعد:فانی ادعوک بدعایةالاسلام۔

اسلم تسلم،یوٴتک اللّٰہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم القبط،۔۔۔یا اھل الکتٰب تعالواالیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم” ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون“۔

اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مھربان ھے۔

منجانب:   محمدبن عبد اللہ ۔

بطرف:   ھرقل بادشاہ روم۔

”اس پر سلام ھے جو ہدایت کی پیروی کرے۔میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا هوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رهو ۔ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا ۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو اریسوں کا گناہ بھی تیری گردن پر هوگا۔اے اھل کتاب! ھم تمھیں ایک مشترک بنیادکی طرف دعوت دیتے ھیں او روہ یہ کہ ھم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کهو کہ گواہ رهو ھم تم مسلمان ھیں“۔

قیصر کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام پہنچانے کے لئے ”دحیہ کلبی“ مامور هوا سفیرپیغمبر  عازم روم هوا۔

قیصرکے دارالحکومت قسطنطنیہ پہنچنے سے پھلے اسے معلوم هوا کہ قیصربیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے قسطنطنیہ چھوڑ چکا ھے، لہٰذا اس نے بصریٰ کے گور نر حادث بن ابی شمر سے رابطہ پیداکیا اور اسے اپنامقصد سفر بتایا ظاھراً پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے بھی اجازت دے رکھی تھی کہ دحیہ وہ خط حاکم بصریٰ کو دیدے تاکہ وہ اسے قیصرتک پہنچادے سفیر پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے گورنر سے رابطہ کیا تو اس نے عدی بن حاتم کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ دحیہ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف جائے اور خط قیصر تک پہنچا دے مقام حمص میں سفیر کی قیصر سے ملاقات هوئی لیکن ملاقات سے قبل شاھی دربار کے کارکنوں نے کھا:

”تمھیں قیصر کے سامنے سجدہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ تمھاری پرواہ نھیں کرے گا “ 

دحیہ ایک سمجھدار آدمی تھا کہنے لگا :

”میں ان غیر مناسب بدعتوں کوختم کرنے کے لئے اتنا سفر کر کے آیا هوں ۔ میں اس مراسلے کے بھیجنے والے کی طرف سے آیا هوں تا کہ قیصر کو یہ پیغام دوں کہ بشر پرستی کو ختم هونا چاہئے او رخدا ئے واحد کے سواکسی کی عبادت نھیں هونی چاھیے ، اس عقیدے کے باوجود کیسے ممکن ھے کہ میںغیر خدا کے لئے سجدہ کروں“۔

پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد کی قوی منطق سے وہ بہت حیران هوئے ،درباریوں میں سے ایک نے کھا:

”تمھیں چاہئے کہ خط بادشاہ کی مخصوص میز پر رکھ کر چلے جاؤ، اس میز پر رکھے هوئے خط کو قیصر کے علاوہ کوئی نھیں اٹھا سکتا“۔

دحیہ نے اس کا شکریہ اداکیا ،خط میز پر رکھا اورخودواپس چلا گیا،قیصر نے خط کھولا ،خط نے جو”بسم اللہ“ سے شروع هوتا تھا اسے متوجہ کیا اور کہنے لگا۔ 

”حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے سوا آج تک میں نے ایسا خط نھیں دیکھا “

اس نے اپنے مترجم کو بلایا تا کہ وہ خط پڑھے او راس کا ترجمہ کرے ،بادشاہ روم کو خیال هوا کہ هو سکتا ھے خط لکھنے والا وھی نبی هو جس کاوعدہ انجیل او رتوریت میں کیا گیا ھے، وہ اس جستجو میں لگ گیا کہ آپ کی زندگی کی خصوصیات معلوم کرے، اس نے حکم دیا کہ شام کے پورے علاقے میں چھان بین کی جائے،شاید محمد کے رشتہ داروںمیں سے کوئی شخص مل جائے جو ان کے حالات سے واقف هو ،اتفاق سے ابوسفیان او رقریش کا ایک گروہ تجارت کے لئے شام آیا هوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم کامشرقی حصہ تھا، قیصر کے آدمیوں نے ان سے رابطہ قائم کیا او رانھیں بیت المقدس لے گئے،قیصر نے ان سے سوال کیا :

کیا تم میں سے کوئی محمد کا نزدیکی رشتہ دار ھے ؟

ابو سفیان نے کھا :

میںاور محمد ایک ھی خاندان سے ھیں او رھم چوتھی پشت میں ایک درسرے سے مل جاتے ھیں۔

پھرقیصر نے اس سے کچھ سوالات کئے۔ دونوں میں یوں گفتگو هوئی“

قیصر: اس کے بزرگوں میںسے کوئی حکمران هوا ھے؟ 

ابوسفیان: نھیں ۔

قیصر: کیا نبوت کے دعویٰ سے پھلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتا تھا؟ 

ابوسفیان: ھاں محمد راست گو او رسچا انسان ھے۔ 

قیصر: کونسا طبقہ اس کا مخالف ھے اور کونسا موافق؟ 

ابوسفیان: اشراف اس کے مخالف ھیں، عام او رمتوسط درجے کے لوگ اسے چاہتے ھیں۔

قیصر: اس کے پیروکاروں میں سے کوئی اس کے دین سے پھرا بھی ھے؟

ابوسفیان: نھیں۔

قیصر: کیا اس کے پیروکار روز بروز بڑھ رھے ھیں ؟ 

ابوسفیان:ھاں ۔

اس کے بعد قیصر نے ابوسفیان او راس کے ساتھیوں سے کھا:

”اگر یہ باتیں سچی ھیں تو پھر یقینا وہ پیغمبر موعود ھیں، مجھے معلوم تھا کہ ایسے پیغمبر کا ظهور هوگا لیکن مجھے یہ پتہ نہ تھا کہ وہ قریش میں سے هوگا، میں تیار هوں کہ اس کے لئے خضوع کروں او راحترام کے طور پر اس کے پاؤں دھووٴں ،میں پیش گوئی کرتا هوں کہ اس کا دین او رحکومت سرزمین روم پر غالب آئے گی“۔

پھر قیصر نے دحیہ کو بلایا او راس سے احترام سے پیش آیا، پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب لکھا او رآپ کے لئے دحیہ کے ذریعے ہدیہ بھیجااورآپ کے نام اپنے خط میں آپ سے اپنی عقیدت او رتعلق کا اظھار کیا۔

یہ بات جاذب نظر ھے کہ جس وقت پیغمبرا کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد آنحضرت کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پهونچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظھار ایمان کیا یھاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کی دعوت دینا چاہتا تھا، اس نے سوچا کہ پھلے ان کی آزمائش کی جائے، جب اس کی فوج نے محسوس کیا کہ وہ عیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ھے تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کرلیا، قیصر نے ان سے فوراً کھا کہ میں تو تمھیں آزمانا چاہتا تھا اپنی جگہ واپس چلے جاؤ۔

جنگ ذات السلاسل 

ہجرت کے آٹھویں سال پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ملی کہ بارہ ہزار سوار سرزمین ”یابس“میں جمع ھیں، اور انهوں نے ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا ھے کہ جب تک پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم او رعلی علیہ السلام کو قتل نہ کرلیں او رمسلمانوں کی جماعت کو منتشر نہ کردیں آرام سے نھیں بیٹھیں گے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے اصحاب کی ایک بہت بڑی جماعت کو بعض صحابہ کی سرکردگی میں ان کی جانب روانہ کیا لیکن وہ کافی گفتگو کے بعد بغیر کسی نتیجہ کے واپس آئے۔

آخر کار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے علی علیہ السلام کو مھاجرین وانصار کے ایک گروہ کثیر کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا، وہ بڑی تیزی کے ساتھ دشمن کے علاقہ کی طرف روانہ هوئے او ررات بھر میں سارا سفر طے کر کے صبح دم دشمن کو اپنے محاصرہ میںلے لیا، پھلے تو ان کے سامنے اسلام کو پیش کیا، جب انهوں نے قبول نہ کیا تو ابھی فضا تاریک ھی تھی کہ ان پر حملہ کردیا اور انھیں درھم برھم کر کے رکھ دیا،ان میں سے کچھ لوگوں کو قتل کیا ، ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرلیا او ربکثرت مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا۔

سورہٴ ”والعادیات“نازل هوئی حالانکہ ابھی سربازان اسلام مدینہ کی طرف لو ٹ کر نھیں آئے تھے ،پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن نماز صبح کے لئے آئے تو اس سورہٴ کی نماز میں تلاوت کی،نمازکے بعد صحابہ نے عرض کیا، یہ تو ایسا سورہٴ ھے جسے ھم نے آج تک سنا نھیں ھے۔  آپ نے فرمایا: ھاں! علی علیہ السلام دشمنوں پر فتح یاب هوئے ھیں اور جبرئیل نے گزشتہ رات یہ سورہ لاکر مجھے بشارت دی ھے۔ کچھ دن کے بعد علی علیہ السلام غنائم او رقیدیوں کے ساتھ مدینہ میں وارد هوئے۔[95]

جنگ حنین [96]

اس جنگ کی ابتداء یوں هوئی کہ جب ”هوازن“ جو بہت بڑا قبیلہ تھا اسے فتح مکہ کی خبر هوئی تو اس کے سردار مالک بن عوف نے افراد قبیلہ کو جمع کیا او ران سے کھا کہ ممکن ھے فتح مکہ کے بعد محمد ان سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے هو، کہنے لگے کہ مصلحت اس میں ھے کہ اس سے قبل کہ وہ ھم سے جنگ کرے ھمیں قدم آگے بڑھا نا چاہئے ۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اطلاع پهونچی تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سر زمین هوازن کی طرف چلنے کو تیار هو جائیں ۔ 

۱   ہجری رمضان المبارک کے آخری دن تھے یا شوال کا مھینہ تھا کہ قبیلہ هوازن کے افراد سردار ”مالک بن عوف “کے پاس جمع هوئے اور اپنا مال ، اولاد او رعورتیں بھی اپنے ساتھ لے آئے تاکہ مسلمانوں سے جنگ کرتے دقت کسی کے دماغ میں بھاگنے کا خیال نہ آئے،اسی طرح سے وہ سرزمین ”اوطاس“ میں وارد هوئے۔

پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے لشکر کا بڑا علم باندھ کر علی علیہ السلام کے ھاتھ میں دیا او روہ تمام افراد جو فتح مکہ کے موقع پر اسلامی فوج کے کسی دستے کے کمانڈر تھے آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے اسی پرچم کے نیچے حنین کے میدان کی طرف روانہ هوئے ۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع ملی کہ ”صفوان بن امیہ“ کے پاس ایک بڑی مقدار میں زرھیں ھیں آپ نے کسی کو اس کے پاس بھیجا اور اس سے سو زرھیں عاریتاً طلب کی، صفوان نے پوچھا واقعاً عاریتاً یا غصب کے طور پر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: عاریتاً ھیں اور ھم ان کے ضامن ھیں کہ صحیح و سالم واپس کریں گے ۔

صفوان نے زرھیں عاریتاً پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کودےدیں اورخود بھی آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چلا ۔

فوج میں کچھ ایسے افراد تھے جنهوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا، ان کے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدینِ اسلام تھے جو پیغمبر اکرم کے ساتھ فتح مکہ کے لئے آئے تھے ، یہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتی ھے، یہ سب میدان جنگ کی طرف چل پڑے ۔ 

دشمن کے لشکر کا مورچہ

”مالک بن عوف“ ایک مرد جری او رھمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبیلے کو حکم دیا کہ اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالیں او رپھاڑ کی غاروں میں ، دروں کے اطراف میں او ردرختوں کے درمیان لشکر اسلام کے راستے میں کمین گاھیں بنائیں اور جب اول صبح کی تاریکی میں مسلمان وھاں پہنچیں تو اچانک اور ایک ھی بار ان پر حملہ کردیں اور اسے فنا کردیں ۔

اس نے مزید کھا :محمد کا ابھی تک جنگجو لوگوں سے سامنا نھیں هوا کہ وہ شکست کا مزہ چکھتا ۔ 

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب کے ھمراہ نماز صبح پڑھ چکے تو آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دیا کہ سر زمین حنین کی طرف چل پڑیں ،اس موقع پر اچانک لشکر” هوازن“ نے ھر طرف سے مسلمانوں پرتیروں کی بوچھار کر دی، وہ دستہ جو مقدمہٴ لشکر میں تھا (اور جس میں مکہ کے نئے نئے مسلمان بھی تھے ) بھاگ کھڑا هوا، اس کے سبب باقی ماندہ لشکر بھی پریشان هوکر بھاگ کھڑا هوا ۔ 

خداوندمتعال نے اس موقع پر دشمن کے ساتھ انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا او روقتی طور پر ان کی نصرت سے ھاتھ اٹھالیا کیونکہ مسلمان اپنی کثرت تعداد پر مغرور تھے، لہٰذا ان میں شکست کے آثار آشکار هوئے، لیکن حضرت علی علیہ السلام جو لشکر اسلام کے علمبردار تھے وہ مٹھی بھر افراد سمیت دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رھے او راسی طرح جنگ جاری رکھے رھے ۔ 

اس وقت پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قلب لشکر میں تھے، رسول اللہ کے چچا عباسۻ بنی ھاشم کے چند افراد کے ساتھ آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرد حلقہ باندھے هوئے تھے، یہ کل افراد نو سے زیادہ نہ تھے دسویں ام ایمن کے فرزند ایمن تھے، مقدمہ لشکر کے سپاھی فرار کے موقع پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے تو آنحضرت نے عباسۻ کو جن کی آواز بلند او رزور دار تھی کو حکم دیا کہ اس ٹیلے پر جو قریب ھے چڑھ جائیں او رمسلمانوں کو پکاریں :

”یا معشر المھاجرین والانصار ! یا اصحاب سورةالبقرة !یا اھل بیعت الشجرة! الٰی این تفرون ھٰذا رسول اللہ ۔ “

اے مھاجرین وانصار !  اے سورہٴ بقرہ کے ساتھیو!

اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!         کھاں بھاگے جارھے هو؟ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو یھاں ھیں ۔ مسلمانوں نے جب عباسۻ کی آواز سنی تو پلٹ آئے اور کہنے لگے:لبیک لبیک !

خصوصاً لوٹ آنے والوںمیں انصار نے پیش قدمی کی او رفوج دشمن پر ھر طرف سے سخت حملہ کیا اور نصرتِ الٰھی سے پیش قدمی جاری رکھی یھاں تک کہ قبیلہ هوازن وحشت زدہ هوکر ھر طرف بکھر گیا، مسلمان ان کا تعاقب کررھے تھے، لشکر دشمن میں سے تقریباً ایک سو افراد مارے گئے ،ان کے اموال غنیمت کے طور پر مسلمانوںکے ھاتھ لگے او رکچھ ان میں سے قیدی بنا لئے گئے ۔ 

لکھا ھے کہ اس تاریخی واقعہ کے آخر میں قبیلہ هوازن کے نمائندے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوئے او راسلام قبول کرلیا،پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے ان سے بہت محبت و الفت فرمائی، یھاںتک کہ ان کے سر براہ مالک بن عوف نے بھی اسلام قبو کر لیا، آپ نے اس کا مال او رقیدی اسے واپس کردئیے او راس کے قبیلہ کے مسلمانوں کی سرداری بھی اس کے سپرد کردی ۔ 

درحققت ابتداء میں مسلمانوں کی شکست کا اھم عامل غرور و تکبر جو کثرت فوج کی وجہ سے ان میں پیدا هوگیا تھا، اسکے علاوہ دو ہزا رنئے مسلمانوں کا وجود تھا جن میں سے بعض فطری طور پر منافق تھے ، کچھ ان میں مال غنیمت کے حصول کے لئے شامل هوگئے تھے او ربعض بغیر کسی مقصد کے ان میں شامل هوگئے تھے۔ 

نھائی کامیابی کا سبب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، حضرت علی علیہ السلام اور بعض اصحاب کا قیام تھا، اور پھلے والوںکا عہد و پیمان اور خدا پر ایمان اور اس کی مدد پر خاص توجہ باعث بنی کہ مسلمانوں کو اس جنگ میں کامیابی ملی۔

بھاگنے والے کون تھے ؟

اس بات پر تقریباً اتفاق ھے کہ میدان حنین میں سے اکثریت ابتداء میں بھاگ گئی تھی، جو باقی رہ گئے تھے ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق دس تھی او ربعض نے تو ان کی تعداد چار بیان کی ھے بعض نے زیادہ سے زیادہ سو افراد لکھے ھیں ۔ 

بعض مشهور روایات کے مطابق چونکہ پھلے خلفاء بھی بھاگ جانے والوں میں سے تھے لہٰذا بعض اھلِ سنت مفسرین نے کوشش کی ھے کہ اس فرار کو ایک فطری چیز کے طور پر پیش کیا جائے ۔ المنار کے موٴلف لکھتے ھیں : ”جب دشمن کی طرف سے مسلمانوں پر تیروں کی سخت بوچھارهوئی توجو لوگ مکہ سے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے، اورجن میں منافقین اورضعیف الایمان بھی تھے اور جو مال غنیمت کے لئے آگئے تھے وہ بھاگ کھڑے هوئے اور انهوں نے میدان میں پشت دکھائی تو باقی لشکر بھی فطری طور پر مضطرب او رپریشان هوگیا وہ بھی معمول کے مطابق نہ کہ خوف و ھراس سے ،بھاگ کھڑے هوئے اوریہ ایک فطری بات ھے کہ اگر ایک گروہ فرار هو جائے تو باقی بھی بے سوچے سمجھے متزلزل هو جاتے ھیں، لہٰذا ان کا فرار هونا پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد ترک کرنے او رانھیں دشمن کے ھاتھ میں چھوڑ جانے کے طور پر نھیں تھا کہ وہ خداکے غضب کے مستحق هوں، ھم اس بات کی تشریح نھیں کرتے او راس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ھیں “۔

 

جنگ تبوک

”تبوک“[97]کا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جھاں پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنی جنگوں میں پیش قدمی کی ۔ ”تبوک“اصل میںایک محکم اور بلند قلعہ کا نام تھا ۔ جو حجاز او رشام کی سرحد پر واقع تھا ۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو سر زمین تبوک کہتے تھے ۔ 

جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے تیز رفتار نفوذ کی وجہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شھرت اطراف کے تمام ممالک میں گونجنے لگی باوجود یہ کہ وہ اس وقت حجازکی اھمیت کے قائل نھیں تھے لیکن طلوع اسلام اور لشکر اسلام کی طاقت کہ جس نے حجاز کو ایک پرچم تلے جمع کرلیا، نے انھیں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں ڈال دیا ۔

مشرقی روم کی سرحد حجاز سے ملتی تھی اس حکومت کو خیال هوا کہ کھیں اسلام کی تیز رفتار ترقی کی وہ پھلی قربانی نہ بن جائے لہٰذا اس نے چالیس ہزار کی زبردست مسلح فوج جو اس وقت کی روم جیسی طاقتور حکومت کے شایان شان تھی‘ اکھٹی کی اور اسے حجاز کی سرحد پر لاکھڑا کیا یہ خبر مسافروں کے ذریعے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کانوں تک پہنچی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے روم اور دیگر ھمسایوں کودرس عبرت دینے کے لئے توقف کئے بغیر تیاری کا حکم صادر فرمایاآپ کے منادیوںنے مدینہ اور دوسرے علاقوں تک آپ کا پیغام پہنچایا تھوڑے ھی عرصہ میں تیس ہزار افراد رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار هوگئے ان میں دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ تھے ۔

موسم بہت گرم تھا، غلے کے گودام خالی تھے اس سال کی فصل ابھی اٹھائی نھیں گئی تھی ان حالات میں سفر کرنا مسلمانوں کے لئے بہت ھی مشکل تھا لیکن چونکہ خدا اور رسول کافرمان تھا لہٰذا ھر حالت میں سفر کرنا تھا اور مدینہ اور تبوک کے درمیان پرُ خطر طویل صحرا کو عبور کرنا تھا ۔   

لشکر ی مشکلات

اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زھریلی هوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ ”جیش العسرة“ (یعنی سختیوں والا لشکر ) کے نام سے مشهور هوا ۔

تاریخ اسلام نشاندھی کرتی ھے کہ مسلمان کبھی بھی جنگ تبوک کے موقع کی طرح مشکل صورت حال، دباؤ اور زحمت میں مبتلا نھیں هوئے تھے کیونکہ ایک تو سفر سخت گرمی کے عالم میں تھا دوسرا خشک سالی نے لوگوں کو تنگ اور ملول کررکھا تھا اور تیسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے کے دن تھے اور اسی پر لوگوں کی سال بھر کی آمدنی کا انحصار تھا۔ 

ان تمام چیزوں کے علاوہ مدینہ اور تبوک کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا اور مشرقی روم کی سلطنت کا انھیں سامنا تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی۔

مزید برآں سواریاں اور رسد مسلمانوں کے پاس اتنا کم تھا کہ بعض اوقات دوافراد مجبور هوتے تھے کہ ایک ھی سواری پرباری باری سفر کریں بعض پیدل چلنے والوں کے پاس جوتاتک نھیںتھا اور وہ مجبور تھے کہ وہ بیابان کی جلانے والی ریت پرپا برہنہ چلیں آب وغذا کی کمی کا یہ عالم تھا کہ بغض اوقات خرمہ کا ایک دانہ چند آدمی یکے بعد دیگرے منہ میں رکھ کر چوستے تھے یھاں تک کہ اس کی صرف گٹھلی رہ جاتی پانی کا ایک گھونٹ کبھی چند آدمیوں کو مل کر پینا پڑتا ۔

یہ واقعہ نوہجری یعنی فتح مکہ سے تقریبا ایک سال بعد رونماهوا ۔مقابلہ چونکہ اس وقت کی ایک عالمی سوپر طاقت سے تھا نہ کہ عرب کے کسی چھوٹے بڑے گروہ سے لہٰذا بعض مسلمان اس جنگ میں شرکت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال میں منافقین کے زھریلے پر وپیگنڈے اور وسوسوں کے لئے ماحول بالکل ساز گار تھا اور وہ بھی مومنین کے دلوں اور جذبات کوکمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نھیں کررھے تھے ۔

پھل اتارنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا جن لوگوں کی زندگی تھوڑی سی کھیتی باڑی اور کچھ جانور پالنے پر بسر هوتی تھی یہ ان کی قسمت کے اھم دن شمار هوتے تھے کیونکہ ان کی سال بھر کی گزر بسر انھیں چیزوں سے وابستہ تھےں۔

جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں مسافت کی دوری اور موسم کی گرمی بھی روکنے والے عوامل کی مزید مدد کرتی تھی اس موقع پر آسمانی وحی لوگوں کی مدد کے لئے آپہنچی اور قرآنی آیات یکے بعد دیگر ے نازل هوئیں اور ان منفی عوامل کے سامنے آکھڑی هوئیں۔

تشویق ، سرزنش، اور دھمکی کی زبان

قرآن جس قدر هوسکتی ھے اتنی سختی اور شدت سے جھاد کی دعوت دتیاھے ۔ کبھی تشویق کی زبان سے کبھی سرزنش کے لہجے میں اورکبھی دھمکی کی زبان میں ان سے بات کرتا ھے،اور انھیںآمادہ کرنے کے لئے ھر ممکن راستہ اختیار کرتا ھے۔ پھلے کہتا ھے:” کہ خدا کی راہ میں ،میدان جھاد کی طرف حرکت کرو تو تم سستی کا مظاھرہ کرتے هو اور بوجھل پن دکھاتے هو “۔[98]

اس کے بعد ملامت آمیز لہجے میں قرآن کہتا ھے : ”آخرت کی وسیع اور دائمی زندگی کی بجائے اس دنیاوی پست اور ناپائیدار زندگی پر راضی هوگئے هو حالانکہ دنیاوی زندگی کے فوائد اور مال ومتاع آخرت کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نھیں رکھتے اور بہت ھی کم ھیں “۔[99]

ایک عقلمند انسان ایسے گھاٹے کے سودے پر کیسے تیار هوسکتا ھے اور کیونکہ وہ ایک نھایت گراں بھامتاع اور سرمایہ چھوڑکر ایک ناچیز اور بے وقعت متاع کی طرف جاسکتاھے ۔

اس کے بعد ملامت کے بجائے ایک حقیقی تہدید کا اندازاختیار کرتے هوئے ارشاد فرمایا گیا ھے :” اگر تم میدان جنگ کی طرف حرکت نھیں کرو گے تو خدا دردناک عذاب کے ذریعے تمھیں سزادے گا“۔ [100]

”اور اگر تم گمان کرتے هو کہ تمھارے کنارہ کش هونے اور میدان جھاد سے پشت پھیرنے سے اسلام کی پیش رفت رک جائے گی اور آئینہ الٰھی کی چمک ماند پڑجائے گی تو تم سخت اشتباہ میں هو ،کیونکہ خدا تمھارے بجائے ایسے صاحبان ایمان کو لے آئے گا جو عزم مصمم رکھتے هوں گے اور فرمان خدا کے مطیع هوں گے“۔ [101]

وہ لوگ کہ جو ھر لحاظ سے تم سے مختلف ھیں نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ انکا ایمان، ارادہ،دلیری اور فرماں برداری بھی تم سے مختلف ھے لہٰذا ” اس طرح تم خدا اور اس کے پاکیزہ دین کو کوئی نقصان نھیں پہنچا سکتے“ ۔[102]

تنھاوہ جنگ جس میںحضرت علی نے شرکت نہ کی

اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زھریلی هوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکّڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ” جیش العسرة“ (یعنی سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشهور هوا اس نے تمام سختیوں کو جھیلا اور ماہ شعبان کی ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سرزمین ”تبوک“ میں پہنچا جب کہ رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ پر مدینہ میں چھوڑآئے تھے یہ واحد غزوہ ھے جس میں حضرت علی علیہ السلام شریک نھیں هوئے ۔

رسول اللہ کایہ اقدام بہت ھی مناسب اور ضروری تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچھے رہنے والے مشرکین یامنا فقین جو حیلوں بھانوں سے میدان تبوک میں شریک نہ هوئے تھے، رسول اللہ اور ان کی فوج کی طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں اور مدینہ پر حملہ کردیں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں اور مدینہ کو تاراج کردیں لیکن حضرت علی کا مدینہ میں رہ جانا ان کی سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور رکاوٹ تھی ۔

بھرحال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وھاں آپ کو رومی فوج کا کوئی نام ونشان نظر نہ آیا عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنی عجیب وغریب جراٴت وشجاعت کا مظاھرہ کرچکی تھی، جب ان کے آنے کی کچھ خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے اسی کو بہتر سمجھا کہ اپنے ملک کے اندرچلے جائیں اور اس طرح سے ظاھر کریں کہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر روم کی سرحدوں پر جمع هونے کی خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھی کیونکہ وہ ایک ایسی خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے جس کا جواز بھی ان کے پاس کوئی نہ تھا لیکن لشکر اسلام کے اس طرح سے تیز رفتاری سے میدان تبوک میں پہنچنے نے دشمنانِ اسلام کو کئی درس سکھائے، مثلاً:

۱۔یہ بات ثابت هوگئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جھاد اس قدر قوی ھے کہ وہ اس زمانے کی نھایت طاقت ور فوج سے بھی نھیں ڈرتے۔

۲۔ بہت سے قبائل اور اطراف تبوک کے امراء پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ کرنے کے عہدوپیمان پر دستخط کیے اس طرح مسلمان ان کی طرف سے آسودہ خاطر هوگئے ۔

۳۔ اسلام کی لھریں سلطنت روم کی سرحدوں کے اندر تک چلی گئیں اور اس وقت کے ایک اھم واقعہ کے طور پر اس کی آواز ھر جگہ گونجی اور رومیوں کے اسلام کی طرف متوجہ هونے کے لئے راستہ ھموار هوگیا ۔

۴۔ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو برداشت کرنے سے آئندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ھموار هوگئی اور معلوم هوگیا کہ آخرکار یہ راستہ طے کرنا ھی ھے ۔

یہ عظیم فوائد ایسے تھے کہ جن کے لئے لشکر کشی کی زحمت برداشت کی جاسکتی تھی ۔

بھرحال پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنی سنت کے مطابق اپنی فوج سے مشورہ کیا کہ کیا پیش قدمی جاری رکھی جائے یاواپس پلٹ جایا جائے؟

اکثریت کی رائے یہ تھی، کہ پلٹ جانا بہتر ھے اور یھی اسلامی اصولوں کی روح سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا خصوصاً جبکہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے کی مشقت وزحمت کے باعث اسلامی فوج کے سپاھی تھکے هوئے تھے اور ان کی جسمانی قوت مزاحمت کمزور پڑچکی تھی، رسول اللہ نے اس رائے کو صحیح قرار دیا اور لشکر اسلام مدینہ کی طرف لوٹ آیا۔ 

ایک عظیم درس 

”ابو حثیمہ “[103] اصحاب پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے تھا ،منافقین میں سے نہ تھا لیکن سستی کی وجہ سے پیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میدان تبوک میںنہ گیا ۔

اس واقعہ کو دس دن گذر گئے ،هوا گرم او رجلانے والی تھی،ایک دن اپنی بیویوں کے پاس آیا انھوں نے ایک سائبان تان رکھا تھا ، ٹھنڈا پانی مھیا کر رکھا تھا او ربہترین کھانا تیار کر رکھا تھا، وہ اچانک غم و فکر میں ڈوب گیا او راپنے پیشوا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یاد اسے ستانے لگی ،اس نے کھا:رسول اللہ کہ جنھوںنے کبھی کوئی گناہ نھیں کیا او رخدا ان کے گذشتہ اور آئندہ کا ذمہ دار ھے ،بیابان کی جلا ڈالنے والی هواؤں میں کندھے پر ہتھیار اٹھائے اس دشوار گذار سفر کی مشکلات اٹھارھے ھیں او رابو حثیمہ کو دیکھو کہ ٹھنڈے سائے میں تیار کھانے اور خوبصورت بیویوں کے پاس بیٹھا ھے ،کیا یہ انصاف ھے ؟ 

اس کے بعد اس نے اپنی بیویوں کی طرف رخ کیا او رکھا:

خدا کی قسم تم میں سے کسی کے ساتھ میں بات نہ کروں گا او رسائبان کے نیچے نھیں بیٹھوں گا جب تک پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے نہ جاملوں ۔ 

یہ بات کہہ کر اس نے زادراہ لیا ،اپنے اونٹ پر سوار هوااور چل کھڑا هوا ،اس کی بیویوںنے بہت چاھا کہ اس سے بات کریں لیکن اس نے ایک لفظ نہ کھا او راسی طرح چلتا رھا یھاں تک کہ تبوک کے قریب جا پہنچا ۔

مسلماان ایک دوسرے سے کہنے لگے :یہ کوئی سوار ھے جو سڑک سے گذررھا ھے، لیکن پیغمبر اکرم  نے فرمایا:اے سوار تم ابو حثیمہ هو تو بہتر ھے۔

جب وہ قریب پہنچا او رلوگوںنے اسے پہچان لیا تو کہنے لگے : جی ھاں ؛ ابو حثیمہ ھے ۔ 

اس نے اپنا اونٹ زمین پر بٹھایا او رپیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کیا او راپنا ماجرابیان کیا ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اسے خوش آمدید کھا اور اس کے حق میں دعا فرمائی ۔ 

اس طرح وہ ایک ایسا شخص تھا جس کا دل باطل کی طرف مائل هوگیا تھا لیکن اس کی روحانی آمادگی کی بنا ء پر خدا نے اسے حق کی طرف متوجہ کیا اور ثبات قدم بھی عطا کیا ۔ 

جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین لوگ 

مسلمانوں میں سے تین افراد کعب بن مالک ،مرارہ بن ربیع او ربلال بن امیہ نے جنگ تبوک میںشرکت نہ کی او رانھوںنے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ھمراہ سفر نہ کیا وہ منافقین میں شامل نھیں هو نا چاہتے تھے بلکہ ایسا انھوںنے سستی اور کاھلی کی بنا پر کیا تھا،تھوڑا ھی عرصہ گذرا تھا کہ وہ اپنے کئے پر نادم اور پشیمان هوگئے۔ 

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میدان تبوک سے مدینہ لوٹے تو وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوئے اور معذرت کی لیکن رسول اللہ نے ان سے ایک لفظ تک نہ کھا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی شخص ان سے بات چیت نہ کرے وہ ایک عجیب معاشرتی دباؤ کا شکار هوگئے یھاں تک کہ ان کے چھوٹے بچے او رعورتیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں او راجازت چاھی کہ ان سے الگ هو جائیں ،آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے انھیں علیحدگی کی اجازت تو نہ دی لیکن حکم دیا کہ ان کے قریب نہ جائیں،مدینہ کی فضااپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ هو گئی ،وہ مجبور هوگئے کہ اتنی بڑی ذلت اوررسوائی سے نجات حاصل کرنے کے لئے شھر چھوڑدیں اوراطراف مدینہ کے پھاڑوں کی چوٹی پر جاکر پناہ لیں۔

جن باتوںنے ان کے جذبات پر شدید ضرب لگائی ان میں سے ایک یہ تھی کہ کعب بن مالک کہتا ھے :میںایک دن بازار مدینہ میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھاکہ ایک شامی عیسائی مجھے تلاش کرتا هوا آیا، جب اس نے مجھے پہچان لیا تو بادشاہ غسان کی طرف سے ایک خط میرے ھاتھ میںدیا ، اس میں لکھاتھا کہ اگر تیرے ساتھی نے تجھے دھتکاردیا ھے تو ھماری طرف چلے آؤ، میری حالت منقلب اور غیر هوگئی ،اور میں نے کھا وائے هو مجھ پر میرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ھے کہ دشمن میرے بارے میں لالچ کرنے لگے ھیں، خلاصہ یہ کہ ان کے اعزا ء واقارب ان کے پاس کھانالے آتے مگر ان سے ایک لفظ بھی نہ کہتے ،کچھ مدت اسی صورت میں گزر گئی او روہ مسلسل انتظار میں تھے کہ اس کی توبہ قبول هو اورکوئی آیت نازل هو جو ان کی توبہ کی دلیل بنے ، مگر کوئی خبر نہ تھی ۔ 

اس دوران ان میں سے ایک کے ذہن میںیہ بات آئی او راس نے دوسروں سے کھا اب جبکہ لوگوں نے ھم سے قطع تعلق کر لیا ھے ،کیا ھی بہتر ھے کہ ھم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیں (یہ ٹھیک ھے کہ ھم گنہ گار ھیں لیکن مناسب ھے کہ دوسرے گنہ گار سے خوش او رراضی نہ هوں)۔

انھوں نے ایسا ھی کیا یھاں تک کہ ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نھیںکہتے تھے اوران میںسے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نھیں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوںنے توبہ وزاری کی او رآخر کار ان کی توبہ قبول هوگئی ۔[104]

مسجد ضرار[105]

کچھ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے او رعرض کیا، ھمیں اجازت دیجیئے کہ ھم قبیلہ ”بنی سالم“ کے درمیان”مسحد قبا“کے قریب ایک مسجد بنالیں تاکہ ناتواں بیمار اور بوڑھے جو کوئی کام نھیں کرسکتے اس میں نماز پڑھ لیا کریں۔ اسی طرح جن راتوں میں بارش هوتی ھے ان میں جو لوگ آپ کی مسجد میں نھیں آسکتے اپنے اسلامی فریضہ کو اس میں انجام دے لیا کریں۔

یہ اس وقت کی بات ھے جب پیغمبر خد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ تبوک کا عزم کرچکے تھے آنحضرت نے انھیں اجازت دےدی۔

انھوں نے مزید کھا: کیا یہ بھی ممکن ھے کہ آپ خود آکر اس میں نماز پڑھیں؟نبی اکرم نے فرمایا: اس وقت تو میں سفر کا ارادہ کر چکا هوں البتہ واپسی پر خدا نے چاھا تو اس مسجد میں آکر نماز پڑھوں گا۔

جب آپ جنگ تبوک سے لوٹے تو یہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ھماری درخواست ھے کہ آپ ھماری مسجد میں آکر اس میں نماز پڑھائیں اورخدا سے دعا کریں کہ ھمیں برکت دے ۔

یہ اس وقت کی بات ھے جب ابھی آنحضرت مدینہ کے دروازے میں داخل نھیںهوئے تھے اس وقت وحی خدا کا حامل فرشتہ نازل هوا اور خدا کی طرف سے پیغام لایا او ران کے کرتوت سے پردہ اٹھایا۔ 

ان لوگوںکے ظاھراًکام کو دیکھا جائے تو ھمیں شروع میں تو اس حکم پر حیرت هوئی کہ کیا بیماروں اوربوڑھوں کی سهولت کے لئے اوراضطراری مواقع کے لئے مسجد بنانا برا کام ھے جبکہ یہ ایک دینی او رانسانی خدمت معلوم هوتی ھے کیا ایسے کام کے بارے میں یہ حکم صادر هوا ھے؟لیکن اگر ھم اس معاملہ کی حقیقت پر نظر کریں گے تو معلوم هوگا کہ یہ حکم کس قدر بر محل اور جچاتلا تھا۔

اس کی وضاحت یہ ھے کہ” ابو عامر“نامی ایک شخص نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور راھبوں کے مسلک سے منسلک هوگیا تھا ۔ اس کا شمار عابدوں میں هوتا تھا ، قبیلہ خزرج میں اس کا گھرا اثرورسوخ تھا ۔

رسول اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی او رمسلمان آپ کے گرد جمع هوگئے تو ابو عامر جو خودبھی پیغمبر کے ظهور کی خبر دینے والوں میں سے تھا،اس نے دیکھا کہ اس کے ارد گرد سے لوگ چھٹ گئے ھیں اس پر وہ اسلام کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑا هوا ،وہ مدینہ سے نکلا اور کفار مکہ کے پاس پہنچا،اس نے ان سے پیغمبر اکرم کے خلاف جنگ کے لئے مدد چاھی اور قبائل عرب کو بھی تعاون کی دعوت دی ،وہ خود مسلمانوں کے خلاف جنگ احد کی منصوبہ بندی میںشریک رھا تھا،اور راہنمائی کرنے والوں میں سے تھا،اس نے حکم دیا کہ لشکر کی دو صفوں کے درمیان گڑھے کھوددے جائیں ۔اتفاقاً پیغمبر اسلامایک گڑھے میں گر پڑے ،آپ کی پیشانی پر زخم آئے اور دندان مبارک ٹوٹ گئے ۔ 

جنگ احد ختم هوئی،مسلمانوں کو اس میدان میں آنے والی مشکلات کے باوجود اسلام کی آواز بلند تر هوئی او رھر طرف صدا ئے اسلام گونجنے لگی، تو وہ مدینہ سے بھاگ گیا او ربادشاہ روم ھرقل کے پاس پہنچا تاکہ اس سے مددچاھے اور مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر مھیا کرے۔

اس نکتے کا بھی ذکر ضروری ھے کہ اس کی ان کارستانیوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام نے اسے ”فاسق“کالقب دے رکھاتھا۔

بعض کہتے ھیں کہ موت نے اسے مھلت نہ دی کہ وہ اپنی آرزو ھرقل سے کہتا لیکن بعض دوسری کتب میں ھے کہ وہ ھرقل سے جاکر ملا اور اس کے وعدوں سے مطمئن اورخوش هوا۔

بھر حال اس نے مرنے سے پھلے مدینہ کے منافقین کو ایک خط لکھا اور انھیں خوشخبری دی کہ روم کے ایک لشکر کے ساتھ وہ ان کی مدد کوآئے گا۔اس نے انھیں خصوصی تاکید کی کہ مدینہ میں وہ اس کے لئے ایک مرکز بنائیں تاکہ اس کی آئندہ کی کارگذاریوں کے لئے وہ کام دے سکے لیکن ایسا مرکز چونکہ مدینہ میں اسلام دشمنوں کی طرف سے اپنے نام پر قائم کرنا عملی طور پر ممکن نہ تھا۔ لہٰذا منافقین نے مناسب یہ سمجھا کہ مسجد کے نام پر بیماروں اور معذوروں کی مدد کی صورت میں اپنے پروگرام کو عملی شکل دیں۔

آخر کار مسجد تعمیر هوگئی یھاں تک کہ مسلمانوں میں سے ”مجمع بن حارثہ“ (یا مجمع بَن جاریہ)نامی ایک قرآن فھم نوجوان کو مسجد کی امامت کے لئے بھی چن لیا گیا لیکن وحی الٰھی نے ان کے کام سے پردہ اٹھادیا۔

یہ جو پیغمبر اکرم نے جنگ تبوک کی طرف جانے سے قبل ان کے خلا ف سخت کاروائی کا حکم نھیں دیا اس کی وجہ شاید ایک تو ان کی حقیقت زیادہ واضح هوجائے او ردوسرا یہ کہ تبوک کے سفر میں اس طرف سے کوئی او رذہنی پریشانی نہ هو۔ بھر حال جو کچھ بھی تھا رسول اللہ نے نہ صرف یہ کہ مسجد میں نماز نھیں پڑھی بلکہ بعض مسلمانوں (مالک بن دخشم،معنی بن عدی اور عامر بن سکر یا عاصم بن عدی)کو حکم دیا کہ مسجدکو جلادیں او رپھر اس کی دیواروں کو مسمار کروادیا۔ او رآخر کار اسے کوڑاکرکٹ پھیکنے کی جگہ قرار دےدیا۔

 

 

مسجد قبا ء 

یہ بات قابل توجہ ھے کہ خدا وند عالم اس حیات بخش حکم کی مزید تاکید کے لئے خداوند متعال فرماتا ھے کہ اس مسجد میں ھرگز قیام نہ کرو اور اس میں نمازنہ پڑھو۔[106] 

”بلکہ اس مسجدکے بجائے زیادہ مناسب یہ ھے کہ اس مسجد میں عبادت قائم کرو جس کی بنیاد پھلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ھے“ [107]

نہ یہ کہ یہ مسجد جس کی بنیاد روز اول ھی سے کفر،نفاق،بے دینی اور تفرقہ پر رکھی گئی ھے۔

”مفسرین نے کھا ھے کہ جس مسجد کے بارے میں مندرجہ بالا جملے میں کھا گیا ھے کہ زیادہ مناسب یہ ھے کہ پیغمبر اس میں نماز پڑھیں اس سے مراد” مسجد قبا “ھے کہ جس کے قریب منافقین نے مسجد ضرار بنائی تھی“۔

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ھے :”کہ علاوہ اس کے کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ھے ،مردوں کا ایک گروہ اس میں مشغول عباد ت ھے جو پسند کرتا ھے کہ اپنے آپ کو پاک وپاکیزہ رکھے اور خدا پاکباز لوگوں کو دوست رکھتا ھے “۔[108]

سب سے پھلی نماز جمعہ 

پھلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اپنے اصحاب کے ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گیا جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ جب آپ مدینہ میں وارد هوئے تو اس دن پیر کا دن بارہ ربیع الاول او رظھر کا وقت تھا۔ حضرت چار دن تک”قبا “میں رھے او رمسجد قبا کی بنیاد رکھی ، پھر جمعہ کے دن مدینہ کی طرف روانہ هوئے(قبااور مدینہ کے درمیان فاصلہ بہت ھی کم ھے اور موجودہ وقت میںقبا مدینہ کا ایک داخلی محلہ ھے)

اور نماز جمعہ کے وقت آپ محلہ”بنی سالم“میں پہنچے وھاں نماز جمعہ ادا فرمائی اور یہ اسلام میں پھلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اداکیا۔ جمعہ کی نماز میں آپ نے خطبہ بھی پڑھا۔ جو مدینہ میں آنحضرت کا پھلا خطبہ تھا۔

واقعہ غدیر

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار و پرشکوہ هو سکتے تھے اس قدر پیغمبر اکرم کی ھمراھی میں اختتام پذیر هوئے۔ سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررھی تھی ۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیض یاب هوئے او راس سعادت کے حاصل هونے پر جامے میں پھولے نھیں سماتے تھے۔

نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ھمراہ تھے۔

سرزمین حجاز کا سورج دروں اور پھاڑوںپر آگ برسارھا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنارھی تھی۔ زوال کا وقت نزدیک تھا۔ آہستہ آہستہ ”حجفہ “کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کے بیابان نظر آنے لگے۔

در اصل یھاں پر ایک چوراھا ھے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ھے۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ھے یھی وہ مقام ھے جھاں پر آخری مقصد او راس عظیم سفر کااھم ترین کام انجام پذیر هوتا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اھم ذمہ داریوںمیںسے ان کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جداهوں ۔

جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ھمراھیوں کو ٹھھر جانے کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں نے بلندآواز سے ان لوگوں کو جو قافلے کے آگے چل رھے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اوراتنی دیر کے لئے ٹھھر گئے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت دی ۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار هوگئے ۔ لیکن فضاء اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں،ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔

اس صحراء میں کوئی سائبان نظر نہ آتا تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند بے برگ وبار بیابانی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رھے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے هوئے تھے اور انهوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان سا بنا رکھا تھا لیکن گرم هوا اس سائبان کے نیچے سے گزرتی هوئی سورج کی جلانے والی گرمی کو اس سائبان کے نیچے بھی پھیلا رھی تھی۔ بھر حال ظھر کی نماز پڑھ لی گئی۔

خطبہٴ غدیر

مسلمان ارادہ کررھے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھارکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار هوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چھرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے دیکھ نھیں پارھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے۔پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے هوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقرب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے هوئے تمھارے درمیان سے جارھا هوں ،میں بھی جوابدہ هوںاورتم بھی جوابدہ هو ،تم میرے بارے میں کیا گواھی دوگے لوگوں نے بلند آواز میں کھا :

”ھم گواھی دیں گے کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث هونے کی گواھی نھیں دیتے؟

سب نے کھا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔

آپ نے فرمایا: خداوندگواہ رہنا۔ 

آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے هو؟

انهوںنے کھا: جی ھاں۔

اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری هوگیا۔ سوائے هوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ۔ پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دوگرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا هوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟

حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ھیں؟

تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ هو جاؤگے۔ دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت  (ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوں گے یھاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیںگے۔

ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک هو جاؤگے۔

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑارھے ھیں گویا کسی کو تلاش کر رھے ھیں جو نھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔

اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند هوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:

”ایھا الناس من اولی الناس بالموٴمنین من انفسھم۔“

یعنی اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔

تو پیغمبر نے فرمایا: خداا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر هوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا هوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ھے)۔ 

اس کے بعد فرمایا:

”فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ“۔

”یعنی جس جس کا میں مولاہ هوں علی (ع) بھی اس اس کے مولاہ اوررھبر ھے“۔

پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:۔

”اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصرمن نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حیث دار۔“

یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ۔ جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرپھیردے جدھر وہ رخ کرے۔

اس کے بعد فرمایا:

” تمام حاضرین آگاہ هوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یھاں پر اور اس وقت موجود نھیں ھیں “۔

روز اکمال دین

پیغمبر کا خطبہ ختم هوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نھائے هوئے تھے۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔

ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوئی تھیں کہ جبرئیل (ع) امین وحی لے کر نازل هوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو بایں الفاظ بشارت دی:

”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی “۔[109]

”آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔

اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:

”اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والولایةلعلی من بعدی“۔

”ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد کے لئے علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش هوا۔“

امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا هوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی (ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کررھے تھے ۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انهوں نے کھا:

”بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولائی و مولاکل موٴمن و موٴمنةٍ۔“

”مبارک هو ! مبارک هو! اے فرزند ابی طالب کہ آپ(ع) میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر هوگئے“۔

اس وقت ابن عباس نے کھا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رھے گا“۔[110]

فدک 

فدک اطراف مدینہ میں تقریباً ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا۔جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگر افواج اسلامی نے فتح کرلئے اور یهودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یهودی صلح کے خیال سے بارگاہ پیغمبر میں سرتسلیم خم کرتے هوئے آئے اور انهوں نے اپنی آدھی زمینیں اور باغات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کردئیے اور آدھے اپنے پاس رکھے ۔ اس کے علاوہ انهوں نے پیغمبر اسلام کے حصہ زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی۔ اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ پیغمبر اسلام سے وصول کرتے تھے،(سورہٴ حشر آیت)کے پیش نظراس کی طرف توجہ کرتے هوئے یہ زمینیں پیغمبر اسلام کی ملکیت خاص تھیں ۔ ان کی آمدنی کو آپ اپنے مصرف میں لاتے تھے یا ان مدات میں خرچ کرتے تھے جن کی طرف اس سورہ کی آیت نمبر۷ میں اشارہ هوا ھے ۔

لہٰذا پیغمبر نے یہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھا کوعنایت فرمادیں۔ یہ ایسی حقیقت ھے جسے بہت سے شیعہ اور اھل سنت مفسرین نے تصریح کے ساتھ تحریر کیا ھے۔منجملہ دیگر مفسرین کے تفسیر درالمنثور میں ابن عباسۻ سے مروی ھے کہ جس وقت آیت (فات ذاالقربیٰ حقہ)[111] نازل هوئی تو پیغمبر   نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو فدک عنایت فرمایا:                                 

کتا ب کنزالعمال جو مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی گئی ھے،میں صلہ رحم کے عنوان کے ماتحت ابو سعید خدری سے منقول ھے کہ جس وقت مذکورہ بالاآیت نازل هوئی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو طلب کیا اور فرمایا:

” یا فاطمة لکِ فدک“

”اے فاطمہ(ع) فدک تیری ملکیت ھے“۔ 

حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی تاریخ میں اس حقیقت کو تحریرکیا ھے۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی نہج البلاغہ کی شرح میں داستان فدک تفصیل کے ساتھ بیان کی ھے اور اسی طرح بہت سے دیگر مورخین نے بھی،لیکن وہ افراد جو اس اقتصادی قوت کو حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے مضر سمجھتے تھے،انهوں نے مصصم ارادہ کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے یاور وانصار کو ھر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں۔ حدیث مجهول(نحن معاشر الانبیاء ولا نورث) کے بھانے انهوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود یکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا قانونی طور پر اس پر متصرف تھیں اور کوئی شخص ”ذوالید“(جس کے قبضہ میں مال هو)سے گواہ کا مطالبہ نھیں کرتا،جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے گواہ طلب کیے گئے ۔ بی بی نے گواہ پیش کیے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے خود انھیں فدک عطا فرمایا ھے لیکن انهوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نھیں کی۔بعد میں آنے والے خلفاء میں سے جو کوئی اھلبیت  (ع) سے محبت کا اظھار کرتا تو وہ فدک انھیں لوٹا دیتا لیکن زیادہ دیر نہ گزرتی کہ دوسرا خلیفہ اسے چھین لیتا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیتا ۔ خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس بارھا یہ اقدام کرتے رھے ۔

واقعہ فدک اور اس سے تعلق رکھنے والے مختلف النوع حوادث جو صدر اسلام میں اور بعد کے ادوار میں پیش آئے،زیادہ دردناک اورغم انگیز ھیں اور وہ تاریخ اسلام کا ایک عبرت انگیز حصہ بھی ھیں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ کا متقاضی ھے تا کہ تاریخ اسلام کے مختلف حوادث نگاهوں کے سامنے آسکیں۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ اھل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشهور و معروف کتاب ”صحیح مسلم“ میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیھا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ھے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ھے کہ جناب فاطمہ کو جب خلیفہ اول نے فدک نھیں دیا تو بی بی ان سے ناراض هوگئی اور آخر عمر ان سے کوئی گفتگو نھیں کی۔(صحیح مسلم،کتاب جھاد ج۳ص۱۳۸۰حدیث ۵۲)

”نحن معاشر الانبیاء لا نورث“

اھل سنت کی مختلف کتابوں میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ایک حدیث موجود ھے جو اس طرح کے مضمون پر مشتمل ھے:

”نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقة“

”ھم پیغمبر لوگ اپنی میراث نھیں چھوڑتے جو ھم سے رہ جائے اسے راہ خدا میں صدقے کے طور پر خرچ کردیا جائے“۔

اور بعض کتابوں میں ”لا نورث“کا جملہ نھیں ھے بلکہ”ما ترکناہ صدقة“کی صورت میں نقل کیا گیا ھے ۔

اس روایت کی سند عام طور پر ابوبکر تک جا کر ختم هوجاتی ھے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مسلمانوں کی زمام امور اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ اور جب حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا یا پیغمبر اکرم  کی بعض بیویوں نے ان سے پیغمبر کی میراث کا مطالبہ کیا تو انھوں نے اس حدیث کا سھارا لےکر انھیں میراث سے محروم کردیا۔

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح (جلد ۳ کتاب الجھاد والسیر ۔ص۔۱۳۷۹)میں ،بخاری نے جزو ہشتم کتاب الفرائض کے صفحہ ۱۸۵۔پر اور اسی طرح بعض دیگر افراد نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ھے۔ 

یہ بات قابل توجہ ھے کہ مذکورہ کتابوں میں سے بخاری میں بی بی عائشہ سے ایک روایت نقل کی گئی ھے:فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور جناب عباس بن عبد المطلب (رسول  کی وفات کے بعد )ابو بکر کے پاس آئے اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا ۔ اس وقت انھوں نے اپنی فدک کی اراضی اور خیبر سے ملنے والی میراث کا مطالبہ کیا تو ابو بکر نے کھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا۔”ھم میراث میں کوئی چیز نھیں چھوڑتے،جو کچھ ھم سے رہ جائے وہ صدقہ هوتا ھے“۔

جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے جب یہ سنا تو نا راض هو کر وھاں سے واپس آگئیں اور مرتے دم تک ان سے بات نھیں کی۔

البتہ یہ حدیث مختلف لحاظ سے تجزیہ و تحلیل کے قابل ھے لیکن اس تفسیر میں ھم چند ایک نکات بیان کریں گے:

۱۔یہ حدیث،قرآنی متن کے مخالف ھے اور اس اصول اور کلیہ قاعدہ کی رو سے نا قابل اعتبار ھے کہ جو بھی حدیث کتاب اللہ کے مطابق نہ هو اس پر اعتبار نھیں کرنا چاھیے اور ایسی حدیث کو پیغمبر اسلام  یا دیگر معصومین علیھم السلام کا قول سمجھ کر قبول نھیں کیا جا سکتا۔

ھم قرآنی آیات میں پڑھتے ھیں کہ حضرت سلیمان(ع) جناب داؤد (ع) کے وارث بنے اورآیت کا ظاھر مطلق ھے کہ جس میں اموال بھی شامل ھیں۔ جناب یحییٰ(ع) اور زکریا (ع) کے بارے میں ھے: 

”یرثنی ویرث من اٰل یعقوب“[112]

”خداوندا! مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے“۔ 

حضرت”زکریا(ع)“کے بارے میں تو بہت سے مفسرین نے مالی وراثت پر زور دیا ھے۔

اس کے علاوہ قرآن مجیدمیں”وراثت“کی آیات کا ظاھر بھی عمومی ھے کہ جو بلا استثناء سب کے لئے ھے۔ 

شاید یھی وجہ ھے کہ اھل سنت کے مشهور عالم علامہ قرطبی نے مجبور هوکر اس حدیث کو غالب اور اکثر فعل کی حیثیت سے قبول کیا ھے نہ کہ عمومی کلیہ کے طور پر اور اس کے لئے یہ مثال دی ھے کہ عرب ایک جملہ کہتے ھیں:

”انا معشرالعرب اقری الناس للضیف“۔

ھم عرب لوگ دوسرے تمام افراد سے بڑھ کر مھمان نوازھیں (حالانکہ یہ کوئی عمومی حکم نھیں ھے)۔

لیکن ظاھر ھے کہ یہ بات اس حدیث کی اھمیت کی نفی کررھی ھے کیونکہ حضرت سلیمان(ع) اور یحییٰ(ع) کے بارے میں اس قسم کا عذر قبول کرلئے تو پھر دوسرے کے لئے بھی یہ قطعی نھیں رہ جاتی۔ 

۲۔مندرجہ بالا روایت ان کے خلاف ھے جن سے معلوم هوتا هو کہ ابو بکر نے جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کو فدک واپس لوٹا نے کا پختہ ارادہ کر کیا تھا لیکن دوسرے لوگ اس میںحائل  هوگئے تھے چنانچہ سیرت حلبی میں ھے:

فاطمہ بنت رسول ،ابو بکر کے پاس اس وقت آئیں جب وہ منبر پر تھے ۔ انھوں نے کھا:

”اے ابو بکر! کیا یہ چیز قرآن میں ھے کہ تمھاری بیٹی تمھاری وراث بنے لیکن میں اپنے باپ کی میراث نہ لوں“؟

یہ سن کر ابو بکر رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری هوگئے پھر وہ منبر سے نیچے اترے اور فدک کی واپسی کا پروانہ فاطمہ  کو لکھ دیا۔ اسی اثناء میں عمر آگئے ۔ پوچھا یہ کیا ھے؟انھوں نے کھاکہ میں نے یہ تحریر لکھ دی ھے تا کہ فاطمہ کو ان کے باپ سے ملنے والی وراثت واپس لوٹا دوں!

عمر نے کھا: اگرآپ یہ کام کریں گے تو پھر دشمنوں کے ساتھ جنگی اخراجات کھاں سے پورے کریں گے؟

جبکہ عربوں نے آپ کے خلاف قیام کیا هوا ھے ۔ یہ کھا اور تحریر لے کر اسے پارہ پارہ کردیا۔[113]

یہ کیونکر ممکن ھے کہ پیغمبر اکرم نے تو صریحی طور پر ممانعت کی هو اور ابو بکر اس کی مخالفت کی جراٴت کریں؟اور پھر عمر نے جنگی اخراجات کا تو سھارا لیا لیکن پیغمبر اکرم کی حدیث پیش نھیں کی۔

مندرجہ بالا روایت پر اگر اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم هوگاکہ یھاں پر پیغمبر اسلام کی طرف سے ممانعت کا سوال نھیں تھا۔ بلکہ سیاسی مسائل آڑے تھے اور ایسے موقع پر معتزلی عالم ابن ابی الحدید کی گفتگو یادآجاتی ھے۔ وہ کہتے ھیں:

میںنے اپنے استاد” علی بن فارقی“ سے پوچھا کہ کیا فاطمہ اپنے دعویٰ میں سچی تھیں ؟ تو انھوں نے کھا جی ھاں ! پھر میں نے پوچھا تو ابوبکر انھیں سچا اور بر حق بھی سمجھتے تھے ۔ 

اس موقع پر میرے استاد نے معنی خیز تبسم کے ساتھ نھایت ھی لطیف اور پیارا جواب دیا حالانکہ انکی مذاق کی عادت نھیں تھی،انھوں نے کھا:

اگر وہ آج انھیں صرف ان کے دعویٰ کی بناء پر ھی فدک دےدیتے تو پھر نہ تو ان کے لئے کسی عذر کی گنجائش باقی رہتی اور نہ ھی ان سے موافقت کا امکان“۔[114]

۳۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مشهور حدیث ھے جسے شیعہ اور سنی سب نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ھے،حدیث یہ ھے: ”العلماء ورثة الانبیاء“۔ ”علماء انبیاء کے وارث هوتے ھیں“۔

نیز یہ قول بھی آنحضرت ھی سے منقول ھے: ”ان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً“۔ ”انبیاء اپنی میراث میں نہ تودینار چھوڑتے ھیں اور نہ ھی درھم“۔

ان دونوں حدیثوں کو ملا کر پڑھنے سے یوں معلوم هوتا ھے کہ آپ کا اصل مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ بات باور کرائیں کہ انبیاء کے لئے سرمایہ افتخار ان کا علم ھے اور اھم ترین چیز جو وہ یادگارکے طور پر چھوڑ جاتے ھیں ان کا ہدایت و راہنمائی کا پروگرام ھے اور جو لوگ علم و دانش سے زیادہ بھرہ مند هوں گے وھی انبیاء کے اصلی وارث هوں گے۔ بجائے اس کے کہ ان کی مال پر نگاہ هو اور اسے یادگار کے طور پر چھوڑجائیں ۔ اس کے بعد اس حدیث کے نقل بہ معنی کردیا گیا اور اس کی غلط تعبیریں کی گئیں اور شاید”ماترکناہ صدقة“ والے جملے کا بعض روایات میںاس پر اضافہ کردیا گیا۔      

مباھلہ

خداوندعالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ھے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ (ع) کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے”مباھلہ“کی دعوت دو اور کهو کہ وہ اپنے بچوں،عورتوں اور نفسو ںکو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںکو عورتوں اور نفسں کو بلا لو پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے۔

بغیر کھے یہ بات واضح ھے جب کہ مباھلہ سے مراد یہ نھیں کہ طرفین جمع هوں ،اور ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کریں اور پھر منتشر هو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نھیں ھے۔

بلکہ مراد یہ ھے کہ دعا او رنفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاھر کرے اور جو جھوٹا هو فوراً عذاب میں گرفتار هو جائے۔

آیات میں مباھلہ کا نتیجہ تو بیان نھیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہٴ کار منطق و استدلال کے غیر موثر هونے پر اختیار کیا گیا تھا اس لئے یہ خود اس بات کی دلیل ھے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خاجی اثر پیش نظر تھا۔

مباھلہ کا مسئلہ عرب میں کبھی پیش نھیں آیا تھا،اور اس راستہ سے پیغمبر اکرم کو صدقت و ایمان کو اچھی سرح سمجھا جاسکتا تھا،کیسے ممکن ھے کہ جو شخص کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا هو وہ ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دی کہ آؤ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں،اس سے درخواست کریں اور دعا کریسیں کہ وہ جھوٹے کو رسو اکردے اور پھر یہ بھی کھے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ خوددیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ھے او رعذاب کرتا ھے۔

یہ مسلم ھے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطرناک معاملہ ھے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ هوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ هوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ هوگا۔

کیسے ممکن ھے کہ ایک عقلمند اورسمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کھا جاتا ھے کہ پیغمبراکرم کی طرف سے دعوت مباھلہ اپنے نتائج سے قطع نظر،آپ  کی دعوت کی صداقت اور ایمان کی دلیل بھی ھے۔

اسلامی روایات میں ھے کہ”مباھلہ“کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مھلت چاھی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں۔ مشورہ کی یہ بات ان کی نفسیاتی حالت کی چغلی کھاتی ھے۔

بھر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے ما بین یہ طے پایاکہ اگر محمد شور وغل،مجمع اور دادوفریادکے ساتھ”مباھلہ“کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اورمباھلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نھیں ،جب بھی شوروغل کا سھارا لیا جائے گا اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں،بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاھیے کہ وہ خدا کے پیغمبرھیں اور اس صورت میں اس سے ”مباھلہ“کرنے سے پرھیز کرنا چاھیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطرناک ھے!۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباھلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین(ع) کو گود میں لئے حسن(ع) کا ھاتھ پکڑے اور علی (ع) اور فاطمہ(ع) کو ھمراہ لئے آپہنچے ھیں اور انھیں فرمارھے ھیں کہ جب میں دعاکروں ،تم آمین کہنا۔ 

عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتھائی پریشان هوئے اور مباھلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لئے تیار هوگئے اور اھل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ هوگئے ۔

عظمت اھل بیت کی ایک زندہ سند 

شیعہ اورسنی مفسرین اور محدثین نے تصریح کی ھے کہ آیہٴ مباھلہ اھل بیت رسول علیھم السلام کی شان میں نازل هوئی ھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جن افراد کو اپنے ھمراہ وعدہ گاہ کی طرف لے گئے تھے وہ صرف ان کے بیٹے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ،ان کی بیٹی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور حضرت علی (ع) تھے ۔ اس بناء پر آیت میں ”ابنائنا “سے مراد صرف امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ھیں۔”نسائنا“سے مراد جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ھیں اور”انفسنا“ سے مراد صرف حضرت علی (ع) ھیں۔ 

اس سلسلے میں بہت سی احادیث نقل هوئی ھیں۔ اھل سنت کے بعض مفسرین نے جوبہت ھی تعداد میں ھیں۔ اس سلسلے میں وارد هونے والی احادیث کا انکار کرنے کی کوشش کی ھے۔ مثلاًمولفِ”المنار“نے اس آیت کے ذیل میں کھا ھے:

”یہ تمام روایات شیعہ طریقوں سے مروی ھیں،ان کا مقصد معین ھے،انهوں نے ان احادیث کی نشرو اشاعت اور ترویج کی کوشش کی ھے۔ جس سے بہت سے علماء اھل سنت کو بھی اشتباہ هوگیا ھے“!!۔

لیکن اھل سنت کی بنیادی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نشاندھی کرتی ھیں کہ ان میں سے بہت سے طریقوں کا شیعوں یا ان کی کتابوں سے ھرگز کوئی تعلق نھیںھے اور اگر اھل سنت کے طریقوںسے مروی ان احادیث کا انکار کیا جائے تو ان کی باقی احادیث اورکتب بھی درجہٴ اعتبار سے گرجائیں گی۔

اس حقیقت کو زیادہ واضح کرنے کے لئے اھل سنت کے طریقوں سے کچھ روایات ھم یھاںپیش کریں گے۔

قاضی نوراللہ شوستری اپنی کتاب نفیس ”احقاق الحق“[115]میں لکھتے ھیں:                       

”مفسرین اس مسئلے میں متفق ھیں کہ ”ابنائنا“سے اس آیت میں امام حسن(ع) او رامام حسین(ع) مراد ھیں،”نسائنا“سے ”حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا“اور”انفسنا“میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا گیا ھے“۔

اس کے بعد کتاب مذکور کے حاشیے پر تقریباً ساٹھ بزرگان اھل سنت کی فھرست دی گئی ھے جنهوں نے تصریح کی ھے کہ آیت مباھلہ اھل بیت رسول علیھم السلام کی شان میں نازل هوئی ھے۔[116]                                                       

”غایة المرام“ میں صحیح مسلم کے حوالے سے لکھا“:

”ایک روز معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کھا:“

تم ابو تراب ( علی (ع)) کو سب وشتم کیوں نھیں کرتے۔وہ کہنے لگا۔

جب سے علی (ع) کے بارے میں پیغمبر کی کھی هوئی تین باتیں مجھے یاد آتی ھیں،میں نے اس کام سے صرف نظرکرلیا ھے۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ جب آیت مباھلہ نازل هوئی تو پیغمبر نے فاطمہ(ع)،حسن(ع)،حسین(ع)،اور علی (ع) کو دعوت دی۔اس کے بعد فرمایا”اللھم ھٰوٴلاء اھلی“(یعنی خدایا! یہ میرے نزدیکی اور خواص ھیں)۔

تفسیر”کشاف“کے موٴلف اھل سنت کے بزرگوں میں سے ھیں۔ وہ اس آیت کے ذیل میں کہتے ھیں۔”یہ آیت اھل کساء کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قوی ترین دلیل ھے“۔

شیعہ مفسرین،محدثین اور موٴرخین بھی سب کے سب اس آیت کے ”اھل بیت “کی شان میں نازل هونے پر متفق ھیں چنانچہ”نورالثقلین“ میں اس سلسلے میں بہت سی روایات نقل کی گئی ھیں۔ ان میں سے ایک کتاب”عیون اخبار الرضا“ھے۔ اس میں ایک مجلس مناظرہ کا حال بیان کیا گیا ھے،جو مامون نے اپنے دربار میں منعقد کی تھی۔

اس میں ھے کہ امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام نے فرمایا:

”خدا نے اپنے پاک بندوں کو آیت مباھلہ میں مشخص کردیا ھے اور اپنے پیغمبر کو حکم دیا ھے:

”فمن حاجک فیہ من بعد ما جاء ک من العلم فقل۔۔۔“

اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر ،علی (ع) ،فاطمہ(ع)،حسن(ع)،اور حسین(ع) کو اپنے ساتھ مباھلہ کے لئے لے گئے اور یہ ایسی خصوصیت اور اعزاز ھے کہ جس میں کوئی شخص اھل بیت علیھم السلام پر سبقت حاصل نھیں کرسکا اور یہ ایسی منزلت ھے جھاں تک کوئی شخص بھی نھیں پہنچ سکا اور یہ ایسا شرف ھے جسے ان سے پھلے کوئی حاصل نھیں کرسکا“۔

تفسیر”برھان“،”بحارالانوار“اور تفسیر”عیاشی“میں بھی اس مضمون کی بہت سی روایات نقل هوئی ھیں جو تمام اس امر کی حکایت کرتی ھیں کہ مندرجہ بالا آیت”اھل بیت“علیھم السلام کے حق میں نازل هوئی ھے۔

 

زینب سے آنحضرت (ص)  کی شادی[117]

زمانہٴ بعثت سے پھلے اور اس کے بعد جب کہ حضرت خدیجة الکبریٰ(ع) نے پیغمبر اسلام سے شادی کی تو حضرت خدیجہ (ع) نے ”زید“ نامی ایک غلام خریدا،جسے بعد میں آنحضرت کو ھبہ کردیا۔

آپ نے اسے آزاد کردیا۔ چونکہ اس کے قبیلے نے اسے اپنے سے جدا کردیا تھا،لہٰذا رسول رحمت   نے اسے اپنا بیٹا بنالیا تھا،جسے اصطلاح میں”تبنّی“ کہتے ھیں۔

ظهور اسلام کے بعد زید مخلص مسلمان هوگیا اور اسلام کے ھر اول دستے میں شامل هوگئے اور اسلام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیا۔ آخر میں جنگ موتہ میں ایک مرتبہ لشکر اسلام کے کمانڈر بھی مقرر هوئے اور اسی جنگ میں شربت شھادت نوش کیا۔

جب سرکار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے زید کا عقد کرنا چاھا تو اپنی پھوپھی زاد،بہن زینب  بنت حجش “بنت امیہ بنت عبد المطلب سے اس کے لئے خواستگاری کی۔ زینب نے پھلے تو یہ خیال کیا کہ آنحضرت اپنے لئے اسے انتخاب کرناچاہتے ھیں۔لہٰذا وہ خوش هوگئی اور رضا مندی کا اظھار کردیا،لیکن بعدمیں جب اسے پتہ چلا کہ آپ کی یہ خواستگاری تو زید کے لئے تھی تو سخت پریشان هوئیںاور انکار کردیا ۔ اس کے بھائی عبداللہ نے بھی اس چیز کی سخت مخالفت کی۔

یھی وہ مقام تھا جس کے بارے میںوحی الٰھی نازل هوئی او رزینب اور عبداللہ جیسے افراد کو تنبیہ کی کہ جس وقت خدا اور اس کا رسول کسی کام کو ضروری سمجھیں تو وہ مخالقت نھیں کر سکتے۔

جب انھوں نے یہ بات سنی تو سر تسلیم خم کردیا ۔ (البتہ آگے چل کرمعلوم هوگا کہ یہ شادی کوئی عام شادی نھیں تھی بلکہ یہ زمانہٴ جاھلیت کی ایک غلط رسم کو توڑنے کے لئے ایک تمھید تھی کیونکہ زمانہٴ جاھلیت میں کسی باوقار اور مشهور خاندان کی عورت کسی غلام کے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار نھیں هوتی تھی،چاھے وہ غلام کتنا ھی اعلی قدر وقیمت کا مالک کیوں نہ هوتا۔

لیکن یہ شادی زیادہ دیرتک نہ نبھ سکی اور طرفین کے درمیان اخلاقی نا اتفاقیوں کی بدولت طلاق تک نوبت جا پہنچی ۔ اگر چہ پیغمبر اسلام کا اصرار تھا کہ یہ طلاق واقع نہ هو لیکن هوکر رھی۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم نے شادی میں اس نا کامی کی تلافی کے طور پر زینب کو حکم خدا کے تحت اپنے حبالہ عقد میں لے لیا اور یہ بات یھیں پر ختم هوگئی۔

لیکن دوسری باتیں لوگوں کے درمیان چل نکلیں جنھیں قرآن نے مربوط آیات کے ذریعے ختم کردیا۔ اس کے بعد زید اور اس کی بیوی زینب کی اس مشهور داستان کو بیان کیا گیا ھے جو پیغمبر اسلام کی زندگی کے حساس مسائل میں سے ایک ھے اور ازواج رسول کے مسئلہ سے مربوط ھے ۔ 

چنانچہ ارشاد هوتاھے کہ:”اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص کو جسے خدا نے نعمت دے رکھی تھی اور ھم نے ابھی ،اے رسول!اسے نعمت دی تھی او رتم کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو روکے رکھو اور خدا سے ڈرو“۔[118]

نعمت خدا سے مراد وھی ہدایت اور ایمان کی نعمت ھے جو زید بن حارثہ کو نصیب هوئی تھی اور پیغمبر کی نعمت یہ تھی کہ آپ نے اسے آزاد کیا تھا اور اپنے بیٹے کی طرح اسے عزت بخشی تھی۔

اس سے معلوم هوتا ھے کہ زید او رزینب کے درمیان کوئی جھگڑا هوگیا تھا اور یہ جھگڑا اس قدرطول پکڑگیا کہ نوبت جدائی اور طلاق تک جاپہنچی ۔ اگرآیت میںلفظ”تقول“کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم هوگا کہ یہ فعل مضارع ھے او راس بات پر دلالت کررھا ھے کہ آنحضرت بارھا بلکہ ھمیشہ اسے نصیحت کرتے اور روکتے تھے۔

کیا زینب کا یہ نزاع زید کی سماجی حیثیت کی بناء پر تھا جو زینب کی معاشرتی حیثیت سے مختلف تھی؟کیونکہ زینب کا ایک مشهور ومعروف قبیلہ سے تعلق تھا اور زید آزاد شدہ تھا۔ یا زید کی اخلاقی سختیوں کی وجہ سے تھا؟یا ان میں سے کوئی بات بھی ،نھیں تھی بلکہ دونوں میں روحانی او راخلاقی موافقت اور ھماآہنگی نھیں تھی؟کیونکہ ممکن ھے دو افراد اچھے تو هوں لیکن فکر ونظر اور سلیقہ کے لحاظ سے ان میں اختلاف هوجس کی بناء پر اپنی ازدواجی زندگی کوآئندہ کے لئے  جاری نہ رکھ سکتے هوں؟

پیغمبر کی نظر میں تھا کہ اگر ان میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی نھیں هوپائی اور نوبت طلاق تک جاپہنچتی ھے تو وہ اپنی پھوپھی زادبہن زینب کی اس نا کامی کی تلافی اپنے ساتھ نکاح کی صورت میں کردیں گے،اس کے ساتھ آپ کو یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ لوگ دو وجوہ کی بناء پر آپ پر اعتراض کریں گے اور مخالفین ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیں گے۔

اس سلسلے میں قرآن کہتا ھے :”تم اپنے دل میں ایک چیز کو چھپائے هوئے تھے جسے خدا آشکار کرتا ھے اور تم لوگوں سے ڈرتے هوحالانکہ تمھارا پروردگارزیادہ حق رکھتا ھے کہ اس سے ڈرو“۔[119]

پھلی وجہ تویہ تھی کہ زید آنحضرت کا منہ بولا بیٹا تھا،اور زمانہٴ جاھلیت کی رسم کے مطابق منہ بولے بیٹے کے بھی وھی احکام هوتے تھے جو حقیقی بیٹے کے هوتے ھیں ۔ منجملہ ان کے یہ بھی تھا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بھی شادی کرنا حرام سمجھاجاتا تھا ۔

دوسری یہ کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیونکراس بات پر تیار هوسکتے ھیں کہ وہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی                                    

مطلقہ سے عقد کریں جبکہ آپ کی شادی بہت بلندوبالاھے ۔

بعض اسلامی روایات سے معلوم هوتا ھے کہ آپ نے یہ ارادہ حکم خداوندی سے کیا هوا تھا اوربعد والے حصے میں بھی اس بات کا قرینہ موجود ھے۔

اس بناء پر یہ مسئلہ ایک تو اخلاتی اور انسانی مسئلہ تھا اور دوسرے یہ زمانہٴ جاھلیت کی غلط رسموں کو توڑنے کا ایک نھایت ھی موٴثر ذریعہ تھا (یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے ازادکردہ غلام کی مطلّقہ سے عقد)۔

مسلم ھے کہ پیغمبراکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان مسائل میں نہ تو لوگوں سے ڈرنا چاہئے تھا اور نہ ھی فضا کے مکدر هونے اور زھریلے پروپیگنڈے سے خوف ووحشت کا شکارھی هوجاتے ،خاص کرجب یہ احتمال هوکہ ایک جنجال کھڑاهوجائے گااور آپ اور آپ کے مقدس مشن کی ترقی اور اسلام کی پیش رفت کےلئے رکاوٹ کھڑی هوجائے گی اور یہ بات ضعیف الایمان افراد کو متزلزل کردے گی اور ان کے دل میں شک وشبھات پیدا هوجائیں گے ۔

اس لئے قرآن میںاس سلسلہ کے آخرمیں فرمایا گیا ھے:

” جس وقت زید نے اپنی حاجت کو پورا کرلیا اور اپنی بیوی کو چھوڑدیا تو ھم اسے تمھاری زوجیت میں لے آئے تاکہ منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے مطلّقہ هونے کے بعد مومنین کو ان سے شادی کرنے میں کوئی مشکل نہ هو“۔[120]

یہ کام ایسا تھا جسے ا نجام پاجانا چاہئے تھا

”اور خدا کافرمان انجام پاکر رہتا ھے“۔ [121]

قابل توجہ بات یہ ھے کہ قرآن ھرقسم کے شک وشبہ کو دور کرنے کےلئے پوری صراحت کے ساتھ اس شادی کا اصل مقصد بیان کرتا ھے جو زمانٴہ جاھلیت کی ایک رسم توڑنے کے لئے تھی یعنی منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں سے شادی نہ کرنے کے سلسلے میں یہ خود ایک کلی مسئلہ کی طرف اشارہ ھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مختلف عورتوں سے شادی کرنا کوئی عام سی بات نھیں تھی بلکہ اس میں کئی مقاصد کا ذکر کرنا مقصود تھا جو آپ کے مکتب کے مستقبل کے انجام سے تعلق رکھتا تھا ۔[122]                                              

ثعلبہ 

”ثعلبہ بن حاطب انصاری“ ایک غریب آدمی تھا،روزانہ مسجد میں آیا کرتا تھا اس کا اصرار تھاکہ رسول اکرم دعا فرمائیں کہ خدا اس کو مالا مال کردے۔ حضور  نے اس سے فرمایا:

”مال کی تھوڑی مقدار جس کا تو شکر ادا کر سکے مال کی کثرت سے بہتر ھے جس کا تو شکر ادا نہ کرسکے“۔

کیا یہ بہترنھیں ھے کہ تو خدا کے پیغمبرکی پیروی کرے اور سادہ زندگی بسر کرے ۔

لیکن ثعلبہ مطالبہ کرتا رھا او ر آخر کار اس نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا کہ میں آپ کو اس خدا کی قسم دیتا هوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ھے۔ اگر خدا نے مجھے دولت عطا فرمائی تو میں اس کے تمام حقوق ادا کروں گا۔چنانچہ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔

ایک روایت کے مطابق زیادہ وقت نھیں گذرا تھا کہ اس کا ایک چچا زاد بھائی جو بہت مال دار تھا ، وفات پاگیا اور اسے بہت سی دولت ملی۔

ایک اور روایت میں ھے کہ اس نے ایک بھیڑ خریدی جس سے اتنی نسل بڑھی کہ جس کی دیکھ بھال مدینہ میں نھیں هوسکتی تھی ۔ اس لئے انھیں مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں میں لے گیا اور مادی زندگی میں اس قدر مصروف هوگیا کہ نماز با جماعت تو کیا نماز جمعہ میں بھی نہ آتا تھا ایک مدت کے بعد رسول اکرم نے زکوٰةوصول کرنے والے عامل کو اس کے پاس زکوٰة لینے کے لئے بھیجا لیکن اس کم ظرف کنجوس نے نہ صرف خدائی حق کی ادائیگی میں پس وپیش کیا بلکہ شرع مقدس پر بھی اعتراض کیا اور کھا کہ یہ حکم جزیہ کی طرح ھے یعنی ھم اس لئے مسلمان هوئے تھے کہ جزیہ دینے سے بچ جائیں۔ اب زکوٰة دینے کی شکل میں ھم میں اور غیر مسلموں میں کون سافرق باقی رہ جاتا ھے۔ حالانکہ اس نے نہ جزیہ کا مطلب سمجھا تھا اور نہ زکوٰة کا اور اگر اس نے سمجھا تھا تو دنیا پرستی جو اسے حقیقت کے بیان او راظھار حق کی اجازت نھیں دیتی تھی،غرض جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا:

”یا ویح ثعلبہ ! یا ویح ثعلبہ“۔

”وائے هو ثعلبہ پر ھلاکت هو ثعلبہ پر“۔[123]

(منتخب از تفسیر نمونه)

 

 

حواله جات

 

________________________________________

[76] سورہ فتح آیت۲۷۔

[77] سورہ فتح آیت۲۷۔         

[78] سورہ فتح آیت ۴۔

[79] سورہ فتح آیت ۱۱۔        

[80] سورہ فتح آیت ۱۱۔

[81] سورہ فتح آیت ۱۱۔

[82] سورہ فتح آیت ۱۱۔        

[83] سورہ فتح آیت ۱۱ ۔

[84] سورہ فتح آیت ۱۱۔        

[85] سورہ فتح آیت ۲۲۔

[86] سورہ فتح آیت ۲۲۔

[87] سورہ فتح آیت ۲۴۔

[88] سورہ فتح آیت ۱۵۔

[89] سورہ فتح آیت ۱۵۔        

[90] سورہ فتح آیت ۱۵۔        

[91] سورہ فتح آیت ۔

[92] سورہ یوسف آیت ۔۹۲۔

[93] سورہٴ ممتنحہ آیت ۱۲ ۔

[94] ”مقوقس“(بہ ضم میم وبہ فتحہ ھردو ”قاف“)”ھرقل “بادشاہ روم کی طرف سے مصر کا والی تھا۔ 

[95] بعض کا نظریہ یہ ھے کہ یہ واقعہ اس سورہ کے واضح مصادیق میں سے ایک ھے،یہ اس کا شان نزول نھیں ھے۔

[96] ذیل آیات ۲۵ تا ۲۷ سورہ ٴ توبہ ۔

[97] واقعہ جنگ تبوک سورہٴ توبہ آیت ۱۱۷ کے ذیل میں بیان هوا ھے ۔

[98] سورہ توبہ آیت ۳۸۔        

[99] سورہ توبہ آیت ۳۸۔

[100] سورہ توبہ آیت ۳۹۔

[101] سورہ توبہ آیت ۳۹۔

[102] سور ہ توبہ آیت ۳۹۔

[103] یہ شخص انھیں افراد میں سے تھا جن کے بارے میں کھا جاتا ھے کہ سورہ توبہ آیت۱۱۷ نازل هوئی ۔

[104] سورہ توبہ:آیت ۱۱۸۔ اس سلسلے میں نازل هوئی ھے ۔

[105] مسجد ضرار کے سلسلے میں سورہٴ توبہ ۔۱۰۷ تا۱۱۰ میں بیان هوا ھے۔

اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم دیا کہ مذکورہ مسجد کو جلا دیا جائے او راسکے باقی حصے کو مسمارکردیا جائے او راس کی جگہ کوڑاکرکٹ ڈالاجایا کرے۔

[106] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔

[107] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔

[108] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔

[109] سورہٴ مائدہ آیت ۳۔

[110] اس سلسلے میں مزید آگھی کے لئے کتاب الغدیر، علامہ امینیۺ ،احقاق الحق ،قاضی نوراللہ شوشتریۺ ،المراجعات شرف الدین ۺ اور دلائل الصدق محمدحسین مظفر پر رجوع کریں۔

[111] سورہٴ روم آیت ۳۸۔

[112] سورہٴ مریم آیت ۶.

[113] سیرہٴ حلبی ج۳/ص۳۶۱۔

[114] شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید جلد۔۱۶۔ص۔۲۸۴۔

[115] جلد سوم طبع جدید صفحہ۴۶۔

[116] ان کے نام او ران کی کتاب کی خصوصیات صفحہ ۔۴۶ ۔سے لیکر صفحہ۔۷۶۔ تک تفصیل سے بیان کی گئی ھے ان شخصیتوں میں سے یہ زیادہ مشهور ھیں ۔

۱۔مسلم بن حجاج نیشاپوری،موٴلف صحیح مسلم جو نامور شخصیت ھیں اور ان کی حدیث کی کتاب اھل سنت کی چھ قابل اعتماد صحاح میں سے ھے ملا حظہ هو مسلم،ج۔۷۔ص۔۱۲۰طبع مصر زیر اہتمام محمد علی صبیح۔

۲۔احمد بن حنبل نے اپنی”مسند“میں لکھاھے ملاحظہ هو ،ج۔۲۔ص۔۱۸۵۔طبع مصر۔

۳۔طبری نے اپنی مشهور تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھا ھے۔ دیکھئے ۔ج۔۳۔ص۔۱۹۲۔طبع میمنیہ۔ مصر۔

۴۔حاکم نے اپنی”مستدرک“میںلکھا ھے،دیکھئے۔ج۔۳۔ص۔۱۵۔مطبوعہ حیدرآباد دکن۔

۵۔حافظ ابو نعیم اصفھانی،کتاب ”دلائل النبوة“۔ص۔۲۹۷۔مطبوعہ حیدرآباد دکن۔

۶۔واحدی نیشاپوری،کتاب”اسباب النزول“۔ص۔۷۴۔طبع ہند۔

۷۔فخر رازی، نے اپنی مشهور تفسیر کبیر میں لکھا ھے، دیکھئے۔ ج۔۸۔ ص۔۸۵۔ طبع بھیہ،مصر۔

۸۔ابن اثیر،”جامع الاصول“جلد۔۹۔ص۔۴۷۰۔طبع سنتہ المحمدیہ،مصر۔

۹۔ابن جوزی”تذکرة الخواص“ صفحہ۔۱۷۔طبع نجف۔

۱۰۔قاضی بیضاوی،نے اپنی تفسیر میں لکھا ھے،ملاحظہ کریں۔ ج۔۲۔ ص۔۲۲۔ طبع مصطفی محمد،مصر۔

۱۱۔آلوسی نے تفسیر”روح المعانی“میں لکھا ھے۔ دیکھئے ۔ج۔ ۳۔ص۔۱۶۷۔طبع منیریہ۔ مصر۔

۱۲۔معروف مفسر طنطاوی نے اپنی تفسیر ”الجواھر“میں لکھا ھے۔۔ ج۔۲۔ ص۔ ۱۲۰۔ مطبوعہ مصطفی الیابی الحلبی،مصر۔

۱۳۔زمخشری نے تفسیر”کشاف“میں لکھا ھے،دیکھئے۔ج۔۱۔ص۔۱۹۳،مطبوعہ مصطفی محمد،مصر۔

۱۴۔حافظ احمد ابن حجر عسقلانی ،”الاصابة“۔ج۔۲۔ص۔۵۰۳،مطبوعہ مصطفی محمد، مصر۔

۱۵۔ابن صباغ،”فصول المھمة“۔ص۔۱۰۸۔مطبوعہ نجف۔

۱۶۔علامہ قرطبی،”الجامع الاحکام القرآن“۔ج۔۳۔ص۔۱۰۴۔مطبوعہ مصر ۱۹۳۶۔

 

[117] اکثر مفسرین و مورخین اسلامی کے بقول سورہ احزاب کی آیات ۳۶تا۳۸/اس سلسلے میں نازل هوئی ھیں۔

[118] سورہٴ احزاب آیت ۳۷۔

[119] سورہٴ احزاب آیت۳۷۔

[120] سورہ احزاب آیت ۳۷۔

[121] سورہ احزاب آیت ۳۷۔

[122] پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زینب کے ساتھ شادی کی داستان قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کردی ھے اور یہ بھی واضح کردیا ھے کہ اس کا ہدف منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کے ذریعے دور جاھلیت کی ایک رسم کو توڑنا تھا، اس کے باوجود دشمنان اسلام نے اسے غلط رنگ دے کر ایک عشقیہ داستان میں تبدیل کردیا اس طرح سے انهوں نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کو آلودہ کرنے کی ناپاک جسارت کی ھے اور اس بارے میں مشکوک اور جعلی احادیث کا سھارالیا ھے ان داستانوں میں ایک یہ بھی ھے کہ جس وقت رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زید کی احوال پرسی کے لئے اس کے گھرگئے اور جو نھی آپ نے دروازہ کھولا تو آپ کی نظر زینب کے حسن وجمال پر جا پڑی تو آپ نے فرمایا :

”سبحان اللہ خالق النور تبارک اللہ احسن الخالقین“

”منزہ ھے وہ خدا جو نور کا خالق ھے اور جاویدو بابرکت ھے وہ اللہ جو احسن الخالقین ھے“۔

ان لوگوں نے اس جملے کو زینب ۺکے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لگاؤ کی دلیل قراردیا ھے، حالانکہ ،عصمت ونبوت کے مسئلہ سے قطع نظر بھی اس قسم کے افسانوں کی تکذیب کے لئے واضح شواہد ھمارے پاس موجود ھیں :

پھلا یہ کہ حضرت زینب، رسول پاک کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور خاندانی ماحول میں تقریباً آپ کے سامنے پلی  بڑھی تھیں اور آپ ھی نے زید کے لئے ان کی خواستگاری کی تھی اگر زینب حد سے زیادہ حسین تھیں اور بالفرض اس کے حسن وجمال نے پیغمبر اکرم کی توجہ کو اپنی طرف جذب کرلیا تھا تونہ تو اس کا حسن وجمال ڈھکا چھپا تھا اور نہ ھی اس ماجرے سے پھلے ان کے ساتھ آنحضرت کا عقد کرنا کوئی مشکل امر تھا بلکہ اگر دیکھا جائے تو زینب کو زید کے ساتھ شادی کرنے سے دلچپی نہ تھی ، بلکہ اس بارے میں انهوں نے اپنی مخالفت کا اظھار صراحت کے ساتھ بھی کردیا تھا اور وہ اس بات کو کا ملاً ترجیح دیتی تھیں کہ زید کی بجائے رسول اللہ کی بیوی بنیں، کیونکہ جب آنحضرت زید کےلئے زینب سے رشتہ دینے آئے تو وہ نھایت خوش هوگئیں، کیونکہ وہ یہ سمجھ رھی تھیں کہ آپ ان سے اپنے لئے خواستگاری کی غرض سے تشریف لائے ھیں ،لیکن بعد میں وحی الٰھی کے نزول اور خدا وپیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے هوئے زید کے ساتھ شادی کرنے پر راضی هوگئیں۔ تو ان حالات کو سامنے رکھتے هوئے توھم کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ھے کھیں آپ زینب کے حالات سے بے خبر تھے؟ یا آپ ان سے شادی کی خواہش رکھتے هوئے بھی اقدام نھیں کرسکتے تھے؟

دوسرا یہ کہ جب زیدنے اپنی بیوی زینب کو طلاق دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف رجوع کیا تو آپ نے بار باراسے نصیحت کی اور اطلاق دینے کے لئے روکا اور یہ چیز بجائے خود ان افسانوں کی نفی کا ایک اورشاہدھے ۔

پھر یہ کہ خود قرآن صراحت کے ساتھ اس شادی کا مقصد بیان کرتا ھے تاکہ کسی قسم کی دوسری باتوں کی گنجائش باقی نہ رھے۔

چوتھا امر یہ ھے کہ قرآنی آیت میں خداو ندعا لم اپنے پیغمبر  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  سے فرماتاھے کہ زید کی مطلقہ بیوی کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی خاص بات تھی جس کی وجہ سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے ڈرتے تھے، جبکہ انھیں صرف خدا سے ھی ڈرنا چاہئے۔ 

خوف خدا کا مسئلہ واضح کرتا ھے کہ یہ شادی ایک فرض کی بجا آوری کے طور ر انجام پائی تھی کہ خدا کی ذات کے لئے شخصی معاملات کو ایک طرف رکھ دینا چاہئے تاکہ ایک خدائی مقدس ہدف پورا هوجائے، اگرچہ اس سلسلے میں کو ردل دشمنوں کی زبان کے زخم اور منافقین کی افسانہ طرازی کا پیغمبر کی ذات پر الزام ھی کیوں نہ آتا هو پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے حکم خدا کی اطاعت اور غلط رسم کو توڑنے کی پاداش میں یہ ایک بہت بڑی قیمت ادا کی ھے اور اب تک کررھے ھیں ۔

لیکن سچے رھبروں کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آجاتے ھیں ، جن میں انھیں ایثار اور فداکاری کا ثبوت دینا پڑتاھے ، اور وہ اس قسم کے لوگوں کے اتھامات اور الزامات کا نشانہ بنتے رہتے ھیں تاکہ اس طرح سے وہ اپنے اصل مقصد تک پہنچ جائیں 

البتہ اگر پیغمبر گرامی قدر نے زینب کو بالکل ھی نہ دیکھا هوتا اور نہ ھی پہچانا هوتا اور زینب نے بھی آپ کے ساتھ ازدواج کے بارے میں رغبت کا اظھار نہ کیا هوتا اور زید بھی انھیں طلاق دینے پر تیار نہ هوتے (نبوت وعصمت کے مسئلہ سے ہٹ کر)پھر تو اس قسم کی گفتگو اور توھمات کی گنجائش هوتی،لیکن پیغمبر کی تو وہ دیکھی دکھائی تھیںلہٰذا ان تمام امکانات کی نفی کے ساتھ ان افسانوں کا جعلی اور من گھڑت هونا واضح هو جاتا ھے۔

علاوہ ازیں نبی اکرم کی زندگی کا کوئی لمحہ یہ نھیں بتاتا کہ آپکو زینب سے کوئی خاص لگاؤ او ررغبت هو،بلکہ دوسری بیویوں کی نسبت ان سے کوئی رغبت رکھتے تھے اور ان افسانوں کی نفی پر یہ ایک اور دلیل ھے ۔

[123] مفسرین کے درمیان مشهور ھے کہ سورہ توبہ کی آیت ۷۵تا ۷۸ اس واقعہ کو بیان کیا گیا ھے۔

 

 

آخری تازہ کاری (بدھ, 13 مئی 2009 05:10)

 

 

 معصومین علیہم السلام کے روضوں کی زیارت

 

 

اصلی فهرست

صفحه اوّل

قرآن کریم وحدیث

معصومین علیهم السلام

عقاید

تاریخ

متفرقه مضامین

آڈیو لائبریری

ہمارے بارے میں

حدیث

چالیس حدیثیں ۱۔ کیاآپ پہلے ہی مرحلہ میں شیطان کو شکست دینا چاہتے ہیں؟ان تین فنون کو اپنائے: رسول خدا نے ارشاد فرمایا: نماز شیطان کو روسیاہ کرتی ہے ۔ صدقہ اسکی کمر توڑ دیتا ہے اور راہ خدا میں دوستی اس کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے ۔ اگر تم نے ایسا کیا تو وہ تم سے مشرق و مغرب کے فاصلہ کے برابر دوری قائم کرے گا۔﴿۱﴾ ۲۔ کیاآپ جانتے ہیں کہ دوست کتنے اور دشمن کتنے قسم کے ہیں؟ حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: تمہارے دوست تین طرح کے ہیں اور تمہارے دشمن کی بھی تین قسمیں ہیں ۔ تمہارے دوست: تمہارا دوست، تمہارے دوست کا دوست اور تمہارے دشمن کا دشمن۔ تمہارے دشمن: تمہارا دشمن، تمہارے دوست کا دشمن اور تمہارے دشمن کا دوست۔ ﴿۲﴾ ۳۔کیا دو الفاظ کے تین جملے میں ایمان کی تعریف کی جا سکتی ہے؟ حضرت علی علیہ السلام سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے ارشاد فرمایا: دل سے معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائ و جوارح کے ذریعہ عمل کو ایمان کہتے ہیں۔﴿۳﴾ ۴۔ دنیا اور دریا کے درمیان رابطہ! حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دنیا آب دریا کے مانند ہے ، پیاسا اس سے جتنا بھی پیتا ہے، اتنا ہی پیاسا ہوتا جاتا ہے ،یہاں تک کہ وہ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔﴿۴﴾ ۵۔کیا آپ جانتے ہیں کہ جلدبازی کس چیز کی علامت ہے؟ حضرت امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جلد بازی، کم عقلی کی علامت ہے۔ ﴿۵﴾ ۶۔عورتوں کے لئے قابل توجہ بات! کم خرچ میں بہترین زینت؟! رسول خدا نے ارشاد فرمایا: عفت و پاکدامنی ، عورتوں کی زینت ہے۔﴿۶﴾ ۷۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انسان کو سب سے برتر چیز کیا دی گئی ہے؟ حضرت امام علی رضا - ارشاد فرماتے ہیں: ایمان،اسلام سے ایک درجہ بالاتر ہے، تقویٰ، ایمان سے ایک درجہ بلند ہے اور بنی آدم کو یقین سے بالا تر کوئی چیز نہیں دی گئی۔﴿۷﴾ ۸۔ ہاں تفریح بھی ضروری ہے! حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: مسلسل کام کے ذریعہ اپنے آپ کو نہ تھکاؤ ۔ اپنے لئے تفریح اور کھیل کا وقت قرار دو ، لیکن ایسے کام سے پرہیز کرو، جس میں اسراف ہو یا وہ سماج میں تمہاری حیثیت کو سبک کردے۔﴿۸﴾ ۹۔ اضطراب میں مبتلا لوگوں کے لئے ! حضرت امام حسن علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: خدا کی پناہ میں آنے والا مطمئن و محفوظ ہے اور اس کا دشمن خوف زدہ اور بے ناصر و مددگار ہے۔﴿۹﴾ ۰۱۔ سماجی برتاؤ کے مقابلہ میں پانچ اہم باتیں! حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں پانچ باتوں کی تاکید کرتاہوں: اگر تم پر ظلم و ستم ہوا ہے تو تم ظلم وستم نہ کرو۔ اگر لوگوں نے تمہارے ساتھ خیانت کی ہے تو تم کسی کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ اگر لوگوں نے تمہیں جھٹلایا ہے تو غصہ نہ کرو۔ اگر لوگ تمہاری مدح و ثنا کریں تو تم زیادہ خوشحال نہ ہوجاؤ اور اگر تمہاری مذمت کریں تو مضطرب و پریشان بھی نہ ہو۔﴿۰۱﴾ ۱۱۔اگر چاہتے ہیں کہ پشیمان نہ ہوں تو مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کیجئے! حضرت امام محمد تقی - نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیںجن پر عمل کرنے والا پشیمان نہیں ہوگا: ۱﴾ جلدبازی سے دوری کرنا،۲﴾ مشورہ کرنا،۳﴾ فیصلہ کرتے وقت خدا پر توکل ۔﴿۱۱﴾ ۲۱۔ بہترین ملاوٹ! حضرت امام محمد باقر -نے ارشاد فرمایا: کوئی بھی چیز کسی چیز سے ملائی نہیں گئی، جو حلم اور علم کی ملاوٹ سے بہتر ہو۔﴿۲۱﴾ ۳۱۔ کیا جانتے ہیں کہ فقر کیا ہے؟ حضرت امام حسن علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ فقر کیا ہے تو آپ (ع) نے فرمایا: ہر چیز کی لالچ اور حرص۔﴿۳۱﴾ ۴۱۔ کیا صلہ رحمی کے بہترین طریقے سے آگاہ ہیں؟ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: رشتہ داروں سے رابطہ برقرار رکھو چاہے ایک گھونٹ پانی پلانے کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو اور بہترین صلہ رحم، رشتہ داروں کو اذیت نہ پہونچانا ہے ۔﴿۴۱﴾ ۵۱۔بلا و مصیبت کی موجوں کو کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ حضرت علی علیہ السلام نے رشاد فرمایا: اپنے ایمان کی نگہداشت صدقے سے اور اپنے اموال کی حفاظت زکوٰۃ سے کرو اور بلاؤں کے تلاطم کو دعاؤں سے ٹال دو۔﴿۵۱﴾ ۶۱۔کیا آپ جانتے ہیں کہ توبہ کی مدت کو کم اور زیادہ کیا جا سکتا ہے؟!! رسول خدا نے ارشاد فرمایا: جو شخص تنگدست کو ﴿قرض ادا کرنے میں ﴾اتنی مہلت دے کہ اسے گشایش حاصل ہوجائے تو پروردگار اسے گناہوں سے توبہ کرنے کی مہلت دیتا ہے۔﴿۶۱﴾ ۷۱۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ بعض لوگوں کو نصیحت و خیرخواہی سمجھ میں نہیں آتی؟! امام علی -نے ارشاد فرمایا: تمہارے اور نصیحت قبول کرنے والے کے درمیان غرور اور خودخواہی کا ایک پردہ پڑا ہوا ہے۔﴿۷۱﴾ ۸۱۔ کیا نئے کپڑے پہننے کے لئے عید سے بہتر بھی کوئی دن ہے؟ حضرت امام حسن

 

 

 

 


source : http://www.fazael.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت محمّد مصطفی ؐرحمت للعالمین ؐ
قرآن امام سجاد (ع) کے کلام ميں
حضرت علی علیہ السّلام کی حیات طیّبہ
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
رسول اﷲ ۖ کی معاشی زندگی پر ایک نظر
علی جو آئے تو دیوارِ کعبہ بھی مسکرائی تھی یا علی ...
امام حسن مجتبي عليہ السلام کي عمر کے آخري ايام ...
ولادت امام جواد علیہ السلام
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
امام حسین (ع) کے چند زرین اقوال

 
user comment