اردو
Thursday 26th of December 2024
0
نفر 0

حضرت مسلم اور فقاہت

تحریر: سید شاھد رضا رضوی 

جب کھبی کسی شخصیت کے تعارف کی بات آتی ھے تو سب سے پھلے یہ سوال اٹھتا ھے کہ تعلق کس خاندان سے ھے آپ کے والد کا کیا نام ھے والدہ کون ھیں اور آپ کی نشو ونما کس ماحول میں ھوئی آپ کی تربیت کس نے کی اور کس سے تعلیم حاصل کی تو جب حضرت مسلم کے تعارف کی بات آتی تھے تو باپ کی طرف سے آپ کی نسبت جناب ھاشم تک پھونچتی ھے، عرب میں سب سے اونچا خاندان قریش کا اور قریش میں ھاشمی خاندان تمام خاندانی کرامتوں کا حامل ھے آپ کے والد حضرت عقیل ابن ابی طالب ابن عبد المطلب ھيں،او رآپ رسول اکرم (ص) کے داماد کے بھتیجے ھیں، آپ کی والدہ محترمہ حرّیہ ھیں  اور نسب عالیہ کی حامل تھیں وھی عقیل جنھوںنے جنگ صفین میں پورے خاندان کے ساتھ آکر نصرت کی خواھش ظاھر کی تھی، اور حضرت امیر الموٴمنین نے وھیں پر رہنے کے لئے اصرار کیا تھا، شاید وجہ یھی رھی ھو کہ آپ کا ایک بیٹا اور میرا پروردہ مسلم میری خدمت میں ھے، اور شایان شان جاں نثاری کررھا ھے، لہٰذا آل ابو طالب کا محفوظ رہنا بھی اھمیت رکھتا تھا، اور آپ کی بیوی رقیہ بنت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام تھیں۔

اس مختصر سے تعارف کے بعد آپ کی فقاہت اور عالِمیت کی بحث آسان ھوجاتی ھے۔

سیدھے لوح محفوظ سے حکم حاصل کرنے والا معلم جبرئیل امین آپ کو علم وفقاہت کے جوھر سکھا رھا تھا تو فقاہتی اورعلمی لحاظ سے کسی کمی کا کوئی امکان باقی نھیں رہ جاتا، اخلاقی اعتبار سے حضرت امیر نے آپ کی تربیت کی تھی اور حضرت کی تعلیم کو حضرات حسنین کے حضور سند کمال حاصل کرلیتے اس طرح سے کہ تعلیم وتربیت مولافرماتے  اور حسنین علھما السلام نظارت فرماتے، لہٰذا خطا کا امکان بھی ختم ھوجاتا ھے، نیز حضرت مسلم پر حضرت امیر کے وثوق واطمینان کا عالم یہ تھا کہ جنگ صفین میں حضرت امیر نے آپ کو سپہ سالار بنایا تھا اس سے معلوم ھوتا ھے حضرت امیر کے سامنے حضرت مسلم کی جنگی مھارت کے ساتھ علمی شخصیت بھی مسلم تھی، اور معصومین کے بعد آپ کی عملی اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے، نیز آپ کی نشوونما کے لکے وحی کا ماحول مل گیا تھا متعدد معصومین کے درمیان آپ کی تربیت ھوئی او رماحول بھی پاک وشفاف چشمہ کی طرح مل گیا اور آپ اس کو دل ودماغ میں اتارتے چلے گئے، اور شخصیت سازی کے انمول مونگوں او رموتیوں سے جاملے جو علم ومعرفت کے ٹھاٹھیں مارتے ھوئے سمندر کی طرح اپنی گیرائی اور اپنے مستحکم کو عزم وارادہ کا اعلان کررھے تھے، اس کے علاوہ کتاب سفیر الحسین واصحاب الخمس ، محمد علی دخیل واضح انداز میں حضرت مسلم کی فقاہت کے بارے میں درج کیا ھے۔

فقہ کے معنی: الفقہ ھو الفھم، لغوی اعتبار سے فقہ کے معنی ”فھم“ کے ھیں۔

اصطلاح میں فقہ کی تعریف اس طرح کی جاتی ھے: الفقہ ھو العلم بالاحکام الشریعة الفرعیة عن ادلتھا التفصیلیہ۔(معالم الدین مرحوم حسن بن جمال الدین)

الفقیہ: من یتصدیٰ لعمل الفقہ عن اجتھادٍ۔فقیہ اس شخص کو کہتے ھیں جو بذریعہ اجتھاد احکام شرعیہ فرعیہ ک وحاصل کرنے پر قدر رکھتا ھو۔

اس روشنی میں آپ ایک مسلم فقیہ تھے اس لئے کہ قرآن وسنت سے آپ بہت زیادہ نزدیک تھے مزید تشریح وتفصیل کے لئے معصوم استاد موجود تھے حضرت امیر کی زبانی آپ کے لئے احادیث وقرآن کا حصول علم ھاتھ کی پانچ انگلیوں کی طرح تھا، قرآن کی سنت کی روشنی میں بنحو احسن مسائل کا جواب دریافت کرکے لوگوں میں علوم اھلبیت (ع) کو نشر فرماتے تھے۔

حضرت مسلم کی جلالت خود رسول اکرم (ص) کی زبانی اور اظھار محبت نیز آپ پر رسول اعظم کا گریہ

حضرت مسلم کی ولادت سے دس سال قبل رسول اکرم (ص) نے حضرت مسلم کی مظلومی کی یاد کرکے اس طرح گریہ کیا کہ رسول اکرم کے آنسو سینہ پر بہہ رھے تھھے او رآپ کے مقام ومنزلت کی بہت تعریف وتمجید کی نیز اپنی چاہت اور محبت کا اظھار کیا۔

ایک روز مولائے کائینات نے حضرت رسول اللہ سے دریافت کیا کہ آپ کے نزدیک میرے بھائی عقیل کتنے عزیز ھیں، پیغمبر  اکرم نے جواب میں فرمایا:

ای واللہ انی لاٴُحِبّہ حبین حبا لہ ابی طالب لہ وان ولدہ لمقتول فی محبة ولدک فتدمہ علھی عین المومنین وتصلی علیہ ملائکة المقربون “ثم جرت دموعہ علی صدرہ ثم قال الیٰ اللہ اشکو ماتلقی عترتی من بعدی) (حضرت مسلم ابن عقیل پیشتاز شھیدان کربلا، محمد محمدی اشتھاردی)

جناب مسلم کی ولادت سے پھلے نبی کریم کا اتنی تمجید وتکریم اور اظھار محبت کرنا اور ان پر زاروقطار رونا جبکہ شھادت مسلم پچاس سال سے زیادہ زمانہ یخ خود اس بات کو بتاتا ھے کہ جناب مسلم علم وفقاہت کے اعتبار سے بھی اتنے ھی غیر معمولی شخصیت تھے جس قدر شجاعت او رمھارت جنگی میں آپ اپنی مثال آپ تھے، اس کے بعد یہ فرمانا کہ میری امت میرے بعد میرے اھلبیت (ع) کے ساتح ناروا اور غیر انسانی سلوک کرے گی، اور میں اللہ سے شکایت کرونگا، اور اس کے بعد یہ کہنا:  وتصلی علیہ ملائکة المقربون  مقرب ملائکہ مسلم پر ھمیشہ صلوات اور تمجید وتکریم کرتے رھيں گے۔

خلاصہ یہ سب چیزیں یہ ثابت کررھی ھیں کہ آپ بہت اھم شخصیت ھیں جن کی وجہ سے تادیر رسول اکرم کی آنکھوں سے آنسو جاری رھے، اور اس کے بعد مقرب فرشتوں کا صبح ومساء تعریف وتمجید کرنا اور صلوات بھیجتے رہنا اس بات کی دلیل ھے کہ حضرت مسلم حتی رسول اکرم کی نظر میں بھی علمی اور عملی اعتبار سے بھی بہت بڑی شخصیت تھے، اور اللہ ورسول کی نظر میں ان کی منزلت کتنی زیادہ ھے۔

حضرت اباعبد اللہ الحسین (ع) کے نزدیک

 حضرت مسلم کی علمی اوراخلاقی منزلت

آپ نے بنی ھاشم میں حضرت مسلم کا انتخاب کیا نظر انتخاب کا حضرت مسلم پر ٹک جانا یہ بتاتا ھے کہ جناب مسلم بنی ھاشم میں سب سے تجربہ کار اور علم واخلاق میں سب سے بہتر ھیں اسی لئے ان کا انتخاب اپنی پُرخطر سفارت کا عھدہ آپ کے سپرد کیا اور اس پر اصرار بھی کیا کہ تم کو میرا نمائندہ بن کر جانا اور اھل کوفہ سے بیعت لینی ھے چاھے جتنی سختیوں کا سامنا کرنا پڑے اور اگر مرضی پروردگار شھادت ھے تو شھید ھوکر سرخرو ھوں، لیکن سفیر ھونے کی لیاق تم ھی پائی ھے۔

یہ امام علیہ السلام کا اصراراس بات کا غمّاز ھے کہ اے مسلم تم میں تمام فقھی، ثقافتی اور جنگی سفارت کی لیاقتیں پائی جاتی ھیں، لہٰذا یہ عھد وپیمان تمھارے سپرد کرتا ھوں جاؤ اور جاکر مجھے فوراً وھاں کے حالات سے باخبر کرو تاکہ میں جلد آسکوں، اور وھاں جانے کے بعد معتمدین کے یھاں اپنا ٹھکانا بنانا کھیں ایسا نہ ھوں کہ یہ کوفی پھر جائیں، او راس طریقہ سے خط تحریر کیا:

”وانی باعث الیکم اخی وابن عمی من اھل بیتی مسلم ابن عقیل فان الی ان قد اجتمع راٴی ملائکم وذوی الحِجیٰ والفضل منکم علی مثل ماقدمت برسلکم وقرئت من کتبکم فانی اقدم الیکم وشیکاً انشاء اللہ“

میں تمھارے درمیان اپنے اھل بیت میں چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رھا ھوں، درست ھے کہ تمھارے صاحبان عقل وخرد اور اھل فضل گروہ نے ھم پ راتفاق کیا ھے جس بات کو تم سب نے مل کر لکھا ھے او رھم جو تمھارے خطوط میں پڑھا ھے اسی وجہ سے عنقریب میں تم تک پھونچنے والا ھوں۔

او رخط لکھ کر گویا امامت ورہبری کے فرائض بھی بیان کرنا چاہتے ھیں، )شاید وجہ یہ ھو کہ کوفیوں کو بھی ابھی سے آگاہ فرمانا چاہتے ھوں کہ میں اس طرح حکومت کرونگا کہ پچھلی حکومتوں کی طرح پیش نھیں آؤنگا، اور شاید جناب مسلم کو مثالیہ کی طور پر بتانا چاہتے ھوں۔(فرمایا:

”فلعمری ماالامام الا الحاکم بالکتاب، القائم بالقسط الدائن بدین الحق الحابس بنفسہ علی ذات اللہ“

میری جان کی قسمامام صرف وہ ھوتا ھے جو کتاب خدا پر حل وفصل کرے اور عدل وانصاف پر قائم اور دین حق کا پابند او رذات خدا پر تکیہ کرے اور اپنے آپ کو صرف اللہ پر محبوس کرے (یعنی صرف خدا کا ھوجائے)

اس بات سے یہ بھی اندازہ ھوتا ھے کہ یہ سب بالا صفات میرے سفیر میں موجود ھیں اور کتاب سے وھی حکم کرسکتا ھے جو کتاب کے بارے میں علم رکھتا ھو اور عدل وانصاف بھی وھی برت سکتا ھے جو کتاب کا علم رکھتے ھوئے عمل بھی کرتا ھو، او رمتدین صرف وھی رہ سکتا ھے جو کتاب کا خاصہ علم رکھنے، اس پر عمل پیرا ھونے کے ساتھ ساتھ اللہ پر توکل بھی رکھتا ھو،

اور ایک فقیہ میں انھیں شرائط کا ھونا ضروری ھے اور یہ سب باتیں حضرت مسلم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ھیں، لہٰذا میرے خیال میں بالواسطہ جناب مسلم کی والا صفات ھی کا تذکرہ کیا ھے کہ آپ ان صفات کے حامل ھیں اور جب حضرت مسلم ان صفات کے حامل ھیں تو پھر حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کا کیا کہنا، وہ امام الکمالات ھیں اور تمام کمالات تو اپنی معراج حاصل کرنے کے لئے امام حسین (ع) کی ڈیوڑھی پر سجدہ کرنے میں فخر محسوس کرتے ھیں،

  اخطب خوارزمی متوفی ۵۶۸ہجری لکھتا ھے کہ امام حسین (ع) نے خط لکھ کر مھر کیا اور اسے لپیٹ کر حضرت مسلم (ع) کے حوالہ کرتے ھوئے فرمایا: میں تم کو کوفہ والوں کی درمیان بھیج رھا ھوں عنقریب تمھارے بارے میں جو خدا کی مرضی ھوگی وہ تمھیں اس مقام تک پھونچادے گا۔

”وانا ارجون ان اکون وانت فی درجة الشھداء فامضِ ببرکة اللہ وعونہ۔۔۔“

میں امید کرتا ھوں کہ ھم دونوں اللہ کی برکت اور اس کی مدد سے شھادت کے بلند مرتبہ پر پھونچ جائیں، اے مسلم اب چل پڑو… یھاں تک کہ کوفہ پھونچ جاؤ تو بھروسہ مند لوگوں کے یھاں سکونت اختیار کرو اور لوگوں کو میری اطاعت کی دعوت دو، اگر یہ دیکھوکہ میری اطاعت کے لئے ان سب لوگوں نے ایکا کرلیا ھے تو فوراً مجھے خبر دار کرو تاکہ میں اسی اعتبار سے کوفہ کی طرف آنے کی سوچوں۔

امام حسین علیہ السلام جناب مسلم کو گلے لگار بہت روئے اور یہ دیکھ کر تمام حاضرین مجلس بھی رونے لگے اور اسی حالت میں وداع کی۔ [1]

شہ کے ھمراہ گر عاشور کو ھوتے مسلم

دونوں حیدر ھیں یہ دشمن بھی گواھی دیتے

ایک ھی شان سے کاندھے پہ رکھے مشکیزہ

بیچ دریا میں دوعباس دکھائے دیتے

جب جناب مسلم (ع) پر دھوکہ سے وار ھورھے تھے اور آپ پیکر مظلومیت وشجاعت بنے ھوئے تھے ایسے شدید وقت میں بھی اپنی فقیھانہ حیثیت پر اپنے کو باقی رکھا اور پیغمبر اکرم(ص) سے اپنی نسبت کو یاد دلاتے ھوئے قوم جفاکار سے مخاطب ھوکر فرماتے ھیں کہ میرے ساتھ کافروں کا سا برتاؤ کررھے ھو، پتھروں کی بارش کیوں کررھے ھو میرا جرم کیا ھے تم سنگ بارانی کررھے ھو ایسے موقع پر بھی پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ فقھی ذمہ داری کو نبھاتے ھوئے فرمانے لگے اور جبکہ بے گناہ پر کوئی حدی نھیں ھے تو مجھے اس بے دردی سے کیوں زخمی کررھے ھو نیز فرمایا کہ اولاد رسول کا پاس لازم ھے اور یہ کرکے تم اللہ ، رسول اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو ناراض نہ کرو تو محمد بن اشعث جناب مسلم سے کہتا ھے کہ: ”لاتقتل نفسک انت فی امانی “اے مسلم تم اپنے کو قتل نہ کرو تم میری امان میں ھو۔

پھر بھی وہ  فقاہت جو امیر المومنین (ع)سے حاصل کرکے اپنی رگ وپے میں رچا بسا لیا تھا، اس کا ایک مرقع پیش فرماتے ھیں ایسے کہ جناب مسلم زخموں سے چور لشکر جفاکار سے لڑتے لڑتے بے حال ھوگئے تھے پھر تسلیم ھوجانے وامان حاصل کرنے کے بجائے تھوڑے وقفہ کے بعد دوبارہ پیکار میں مشغول ھوگئے اور فقیھانہ شاہکار پیش کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”اٴ وٴسروبی طاقة لاواللہ لایکون ذالک ابداً“[2]

 (جب تک جان میں جان ھے میں اپنے آپ کو اسیری میں نھیں دے سکتا) اور یہ درس دیتے ھیں کہ جب تک جان میں جان ھو ھراسلامی سپاھی پر لازم ھے ک دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کرے نہ یہ کہ ھمت چھوڑ کر بیٹھ جائے اور نہ پیٹھ دکھاکر بھاگ جائے بلکہ دینی اقدار کی حفاظت کے لئے خون کے آخری قطرے تک دین کا دفاع کرتا رھے۔

نیز جناب مسلم (ع) کو پیاس کے شدید غلبہ کے باوحود آقا کی فکر ھے اسی فکر میں ڈوبے ھوئے تھے کہ جناب مسلم کو چاروں طرف سے گھیر کر مزید کاری زخم لگائے، آہ! زخموں سے چور حضرت مسلم (ع) زمین پر گر پڑے اور انھیں اسیر کرلیا اس بیچ میں مولا کو یاد کرکے گریہ فرمانے لگے کہ ھائے میرا مولا اور بھائی، جان کی بازی لگادینے کے باوجود جانبر نھیں ھوسکے۔

حضرت مسلم (ع) اور آپ کویک طرفہ دیا گیا امان نامہ اور ابن زیاد کی غداری

جب کہ دوران جاھلیت سے عرب کاقاعدہ تھا کہ جنگ میں دشمن پر غلبہ پاکر اسیر بناکر امان دینے کے بعد اس پر کوئی تعدی نھیں کرتے تھے اور امان یافتہ کو کمال آسائش کا حق ھوتا نیز جس کو امان دیتے اس کی امنیت کے پاپند رہتے اور اسے قتل بھی نہ کرتے تھے نیز اسلام نے بھی اس پر صاد کردی اور اسی پر مھر صحت لگادی اسی بارے میں رسول خدا نے فرمایا:

 من امّن رجلا علی دمہ فقتلہ انا بری من القاتل وان کان المقتول کافر ا“[3]

ایک دوسری حدیث میں اس طرح ارشاد فرماتے ھیں: من امن رجلا علی دمہ ثم قتلہ جاء یوم القیامة  لحمل لواء الغدر“ تواریخ سے پتہ چلتا ھے کہ ابن زیاد نے اک طرفہ امن وامان کا پیغام محمد بن اشعث کو دے دیا تھا اس کے باوجود غداری کی اور مکاری سے گرفتار کرواکر جناب مسلم کو کس مظلومی سے قتل کردیا۔

ایک روایت میں اس طرح آیا ھے کہ جیسے ھی حضرت مسلم کی تلوار کو ان کے قبضہ سے چھینا جارھا تھا آپ نے فوراً فرمایا:”خدا کی قسم میں تجھے دیکھ رھا ھوں کہ تو امان نامہ کو بروی کار لانے سے عاجز ھے اب جب میں نے تیری گذارش قبول کرلی ھے تو کیا تیرا خیر مجھ تک پھونچ سکتا ھے اگر تیرے امکان میں ھو تو کسی کو میری جانب سے حسین کے پاس روانہ کردے اور وہ میری طرف سے یہ کھے کہ ابن عقیل دشمنوں کے ھاتھوں گرفتار ھوچکے تھے اسی حالت میں انھوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ھے اور انھوں نے کھلوایا ھے کہ اے میر چچازاد بھائی آپ اور آپ کے خاندان پر میرے ماں باپ فدا ھوجائیں آپ مدینہ پلٹ جائیں کوفیوں کے دھوکہ میں نہ آئیں وہ وھی آپ کے باپ امیر المومنین (ع) کے اصحاب ھیں آپ کے والد گرامی بھی ان لوگوں کی وجہ سے موت کی تمنا کرنے لگے تھے کہ ان غداروں سے کیسے جان چھوٹ جائے کوفیوں نے آپ سے جھوٹ بولا اور جھوٹے کبھی بھی بھروسہ کے لائق نھیں ھوسکتے ھیں لہٰذا ایسی قوم پر بھروسہ کرنابھی مناسب نھیں ھے۔

یھاں پر بھی جناب مسلم نے ھمیں یہ بتاتے ھوئے ایک فقھی شق کی طرف اشارہ کیا ھے کہ کسی کو امان دینے کے بعد اس کے ساتھ غداری نہ کرو ورنہ تمھارا ٹھکانہ جہنم ھوگا اور دلیل کے طور پر حدیث نبوی (ص) کو پیش کردیا کہ کسی کو امان دینے کے بعد اسے غداری سے قتل کرنا جہنم میں جانے کا سبب  ھے چاھے مقتول کافر ھی کیوں نہ ھو۔من امّن رجلا علی دمہ فقتلہ انا بری من القاتل وان کان المقتول کافر ا“

دار الامارہ میں آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جس پر عبید اللہ ابن عباس نامی ایک شخص نے جملہ کسا اور کہنے لگا جو آدمی اتنے بڑے بلوے کرکے آشوب کو برپا کرتا ھے وہ اتنی تھوڑی مشکل میں پھنس کر گریہ وزاری نھیں کرتا، اس کی بات نے مسلم ابن عقیل کے دل میں آگ لگادی  اور جناب مسلم (ع) نے فوراً اپنے رونے کا سبب بتادیا کہ میں اپنے لئے نھیں رورھا ھوں (جو مجھ کو طعنہ دے رھے ھو) بلکہ جو لوگ میرے خط کے بعد میری طرف چل پڑے ھیں میں اپنے اھل بیت امام حسین (ع) اور ان کے خاندان کی جان تلف ھوجانے کی خطرے سے رورھا ھوں،”واللّٰہ انی مالنفسی بکیت۔۔۔ ولاکنی ابکی لاھلی المقبلین انیّ ابکی للحسین وآل الحسین“۔[4] اور یہ کہہ کر غمناک او ریادو کے ھولناک سمندر میں ڈوب کر مولائے کائنات کازمانہ یاد کرنے لگے۔

اس مقام پر گریہ بھی ایک ذمہ دار فقیہ کے عنوان سے تھا کہ میرے اس خط کے لکھ دینے سے میرے اھل بیت امام حسین (ع) اور ان کی اولاد ھماری طرف آرھے ھیں اور اس آنے میں آنے والوں کے جاں برھونے کی بھی کوئی امید نھیں ھے اور اتنے بہت سے نفوس کی حفاظت کا مسئلہ بہت زیادہ اھمیت کا حامل تھا۔

جواب دینے کے بعد محمد ابن اشعث سے فرمانے لگے کہ: میری طرف سے حسین (ع)کے پاس کوئی آدمی بھیج دے کہ کوفیوں نے وفا نھیں کی (لہٰذا آپ پلٹ جائیے۔[5]

شریک ابن اعور کی بصرہ سے کوفہ آمد، ھانی بن عروہ کے یھاںٹھھرنا

جناب مسلم سے شریک بن اعور نے کھا کہ ابن زیاد میری عیادت کے لئے آئے گا اور جب میں پانی طلب کروں  تو آپ آکر اس نجس کو قتل کردیں لیکن شریک کے بار بار پانی طلب کرنے کے باوجود آپ نے اسے قتل نھیں کیا یھاں تک کہ شریک نے ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ھے کہ ”مجھے پانی پلادو چاھے اسی پانی سے مجھے موت ھی کیوں نہ آجائے “ لیکن حضرت مسلم نے پھر بھی قتل نھیں کیا اور فرمانے لگے: الاسلام قید الفتک فلا یفتک مومن“ اسلام مخفیانہ طورپرقتل سے منع کرتا ھے اور مومن کسی کا مخفیانہ  قتل نھیں کرتا (یعنی مومن کی شان اس سے بالا ھے کہ مخفیانہ قتل کرے چاھے مقتول کافر ھی کیوں نہ ھو۔)

 حضرت مسلم کی ابن زیاد کے قتل نہ کرنے کی دوسری دلیل

ھانی کی زوجہ کی گریہ وزاری اوران کی خوشامد تھی، آپ نے فرمایا کہ میں نے مناسب نھیں سمجھا کہ مھمان ھوتے ھوئے اپنے میزبان کو ناخوش کرکے ابن زیاد کا قتل کردو ں۔

تو شریک ابن اعور مسلم ابن عقیل سے عرض کرنے لگا کہ اگر آپ اس کوقتل کردیتے تو ایک فاسق وفاجر نیست ونابود ھوجاتا(اور مومنین کو سکون مل جاتا) ”لوقتلت فقلت فاسقاً فاجراً“ (اور اس کے قتل سے ھم سب کو اس کے شر سے خلاصی مل جاتی اور قصر کو آناً فاناً خالی کروالیا جاتا)

حضرت مسلم کے جواب پر ایک غایرانہ تبصرہ

آپ مسلَّم فقھی بصیرت سے ھر مسئلہ کا حل قرآن وسنت اور عقل سے دریافت فرماتے (اور کسوٹی پر پرکھ کر ھی کسی کام پر مھر صحت ثبت کرتے تھے حضرت مسلم کا حواب اسلام اور عقل کی روشنی میں کاملاً منطقی اور صحیح تھا اور اس سے ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ آپ کو علم وفقہ میں ید طولیٰ حاصل تھا اور اپنے علم کے مطابق زندگی کے تمام گوشوں میں پابند تھے اور اسی طرح زندگی بھر اصول وقوانین پرشدت سے عامل رھے یھاں تک کہ مشکل ترین حالات میں بھی اخلاقی اقدار واصول کی حفاظت فرماتے رھے اور فرعی مسائل کے حصول کے لئے کبھی بھی قانون اور اسلامی اقدار کا دامن ھاتھ سے نھیں چھوڑا اس لئے کہ ناگھانی خفیہ قتل نامردی ھے اور اسلام اس کی ہزگز اجازت نھیں دیتا ، مخفیانہ ناگھانی قتل جنگ کے علاوہ کسی صورت میں جائز نھیں ھے چونکہ جناب مسلم (ع) نے حضرت علی (ع) سے تعلیم وتربیت حاصل کی تھی لہٰذا آپ دنیا کے دوسرے واھی عقائد پر اعتماد نہکرتے کہ اپنے ذاتی مقصد کے حصول کے لئے کوئی راستہ اختیار کیا جاسکے بلکہ پھلے مقصد پر مبصرانہ نظر فرماتے اور بعد میں اسلامی کسوٹی پر خوب ااٹھاؤ پٹک کرتے کہ یہ میرا حکم اسلامی کسوٹی پر پورا اترتا ھے یا نھیں اس لئے کہ مقصد پانے کے لئے فقھی اور اخلاقی کسوٹی کی رعایت ضروری ھے نہ یہ کہ آپ اچھے برے ھر راستہ سے مقصد کو پالینے کی کوشش کرتے ۔

دوسرا سبب یہ ھے کہ آپ ھانی کے مھمان تھے او راگر میزبان کے یھاں اس کی مرضی کے خلاف عمل کرتے تو بھی مناسب نھیں تھا اسلئے کہ شریف جواں مرد لوگ ایسا کام نھیں کرتے جس میں میزبان کو تکلیف ھو،ان کی شان اس سے بلند وبالا ھے حضرت مسلم (ع)نے اس بات کو مذھب کے رہبر اپنے چچا امیر المومنین علی علیہ السلام سے سیکھ کر اپنی زندگی کا جزء بنالیا تھا، اس لئے کہ حضرت امیر زندگی کے ھرنشیب وفراز میں اسلامی قوانین کی ضرور بالضرور رعایت فرماتے اور اس کو دنیوی کاموں پرقربان نہ ھونے دیتے، مثلاً عمر کی طے کردہ  چھ رکنی کمیٹی میں جب عبد الرحمن بن عوف نے کھا تھا کہ اگر آپ قرآن وسنت پیغمبر اور سیرت شیخین پر عمل کریں تو میں آپ کی بیعت کرنے کے لئے تیار ھوں ، یھاں پر اگر حضرت امیر المومنین (ع) صرف یہ کہہ دیتے کہ ھاں میں ان تینوں چیزوں پر عمل کرنے کے لئے تیار ھوں تو آپ کی خلافت عمر کے بعد محکم ھوجاتی لیکن مولائے کائینات نے ھاں کے بجائے اپنا اصلی موقف بیان کیا اور جواب میں فرمایا:

 میں قرآن وسنت پیغمبر اور اپنے اجتھاد پر عمل کرونگا لہٰذا عبد الرحمن بن عوف نے عثمان کی بیعت کرلی اورعثمان کی خلافت مان لی گئی۔[6]

بعض لوگ یہ کہتے ھیں کہ اگر مولا وقتی  طور پر مان لیتے تو کیا ھوجاتا؟

جواب : میں اس طرح کھا جاسکتا ھے مولائے کائنات اور ان کا معصوم خاندان جھوٹ اور وعدہ خلافی سے کوسوں دور تھا،کیونکہ وعدہ خلافی رجس ھے اور رجس ان کے پاس نھیں آسکتا، لہٰذا آپ نے ھرگز ایساکام نھیں کیا جس کی بناجھوٹ اور دھوکہ پر ھو نیز جنگ صفین کے واقعہ میںپھلے معاویہ کی فوج نے گھاٹ پرتصرف کرلیا تو مولاکی فوج کو پانی سے روک دیا لیکن جیسے ھی مولا کی فوج نے دشمن کی فوج پر غلبہ پاکر پانی کو اپنے قبضہ میں لے لیا تولشکر اسلام کے شدید اصر ار پر مولا تیار نھیں ھوئے کہ دشمن پر پانی روک دیں، اور اسی صورت کو امام حسین نے بھی لشکر حر سے پھلی ملاقات میں کثیر مقدار میں جوپانی کا ذخیرہ جو ان کے پاس تھا اس سے مع جانوروں کے دشمن کی پیاسی فوج کو سیراب کردیا۔[7]

مخفیانہ ناگھانی حملہ کے بارے میں ایک سوال کا جواب

باوجود اس کے کہ حضرت مسلم (ع) کو یہ معلوم تھا کہ ابن زیاد ستمگر، پست او رمشرک ھے اور اس کے خون کی کوئی اھمیت نھیں بلکہ وہ واجب القتل ھے، اس لئے کہ وہ مفسد فی الارض اور اس کا وجود فساد وظلم کا باعث ھے اس لئے کہ یہ بنی امیہ کا فرمانبردار غلام ھے لہٰذا اسکو قتل کیوں نہ کردیا جائے۔

آیا ھانی یا ان کی بیوی کی ممانعت، اسلام میں ناگھانی مخفی حملہ کی ممانعت، یہ سب کچھ ابن زیاد کو قتل نہ کرنےکاجواز بن سکتی ھے؟ باوجود اس کے کہ ھر چیز میں ایک استثناء ھوتا ھے۔

جواب: اگرچہ جناب مسلم کویہ معلوم تھا کہ ابن زیاد کے خون کی کوئی اھمیت نھیں ھے اور اس کا خون بھاناواجب ھے نیز جناب مسلم (ع) کو یہ بھی معلوم تھا کہ ابن زیاد کاوجود فساد کا باعث ھے، اور امام حسین (ع) کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے اس کا قتل بہت مفید اور کار ساز ھے لیکن حضرت کے نزدیک ابن زیاد کے قتل نہ کرنے کا سب سے اھم سبب ناگھانی خفیہ قتل کے خلاف قانون ھے، جس کی حرمت کا استنباط آپ نے احادیث نبوی سے کیا تھا چونکہ اسلام نے حفظ نفس اور امنیت کی خاطر ھر قسم کی”Terrorism“ (دھشت گردی) کو محکوم کیا ھے اگر مسلم (ع) ابن زیاد کو مخفی طور پر قتل کردیتے تو خفیہ طورپر قتل کی ممانعت کی حرمت پامال ھوجاتی اور اسلام کے بین الاقوامی قانون کوزبردست نقصان پھونچتا، الغرض نظام اور سماج کے تتر بتر ھوجانے کا خطرہ لاحق ھوتا نیز اس کے درھم وبرھم ھونے میں آپ بھی شریک ھوجاتے، اور سماج میں دراڑ ڈالنے کا گناہ اس باغی، غدار کے مخفیانہ قتل کے ثواب سے کھیں زیادہ ھوتا۔

حضرت مسلم (ع)کے اس مناسب اقدام پربعض دانشور وںکا نظریہ:   ابن زیاد کا بے اھمیت اور سبک ھونا حفظ نفوس کے قانون کی سنگینی سے کوئی ٹکراؤ نھیں رکھتا ، چھوڑیں، قانون عدالت کے فیض سے ایک مچھر بھی بچ جائے تو کوئی خاص بات نھیں ھے مچھر کی اھمیت ھو یا نہ ھو مگر عدالت کی اھمیت ھمیشہ ھمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گی اور ظلم کی مذموم تاریکی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے کافور ھوجائے گی اور مخفیانہ ناگھانی حملہ کا ناسور بھی خود بخود ختم ھوجائے گا۔ (یہ اور بات ھے کہ جناب مسلم (ع) کو کیا معلوم کہ عدالت اور داد خواھی کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اموی کٹگھرہ میں بند کردیا جائے گا اور ظلم وبربریت کو عام کردیا جائے گا) حضرت مسلم (ع) اسلامی نظام کے محافظ تھے جاہ، منصب ومقام کے شیدائی نھیں کہ تمام اسلامی اقدار کو جاہ ومقام پر قربان کردیتے، بلکہ الہٰی نظام کے پاسبان اور محافظ تھے، جناب مسلم (ع) کی سوچ اور انکی فکر نظام اسلام میں اور اس کے عقائد میں رچی بسی تھی یعنی مسلم کے رگ وپے میں سرایت کرچکی تھی۔ [8]

مثال کے طور پر جب بھی کچھ مفسد لوگ جن کا خون بھانا نہ صرف یہ کہ اھمیت نھیں رکھتا بلکہ ایسے افراد کا خون بھانا  مسئلہ کی اھمیت کے پیش نظر ضروری ھوجاتا ھے اور یہ کہ مسافر لے جانے والے جھاز میں سوا ھوکر جھاز پر اجانک حملہ کردیتے ھیں تو کیا یہ جھاز پر فضائی ڈاکہ ڈالنا مناسب ھے ایسا کام ھرگز مناسب نھیں ، اور یھاں پر کوئی استثناء بھی نھیں ھے لہٰذا اس مسئلہ (مخفیانہ حملہ) میں کوئی استثناء نھیں ھوگا ساری دنیا کے عقلاء جھاز میں فضائی ڈاکہ کو مذموم سمجھتے ھیں اور سب کے سب ایک زبان ھوکر جھاز میں فضائی حملہ کے خلاف حفاظتی قانون کو باقی رکھناچاہتے ھیں اور اگر اس قانون میں استثناء کے قائل ھوجائیں تو فضائی نظام درھم وبرھم ھونے کا خطرہ ھے کیونکہ اس خطرہ کے پیش نظر لوگ ھوائی جھاز کا سفر چھوڑدیں گے اس لئے کہ اپنے کو محفوظ نہ پاکر سوار بھی نھیں ھونگے، جس کی بناپر معاشرے کے لئے بہت بڑا انسانی،مُلکی اور معیشتی نقصان ھوگا، لہٰذا کوئی عاقل اس قانون میں استثناء نھیں چاھے گا۔

لہٰذا صدر اسلام میںجب اسلام کی ابتدائی ترویج کی جارھی ھو تو تبلیغ کے درمیان ایسا کرنا جو ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ھو تو ایسے حالات میں ایسا کرنا کیسے مناسب ھوسکتا ھے، تو مخفیانہ قتل کے قانون میں بھی کسی قسم کا استثناء نھیں ھوسکتا ۔

اس بناپر بعض قوانین میں عمومی فوائد کی حفاظت کے پیش نظر ایسے قوانین میں استثناء کی کوئی گنجائش نھیں ھے اور عقلاً بھی عظیم فوائد کو تھوڑے فائدہ پپر قربان نھیں کیا جاسکتا اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں بہت معمولی سے مفید حادثہ پر عمومی اور عالمی امنیت کو خطرے میں نھیں ڈالا جاسکتا، نیز دھشت گردی بھی فضا میں جھاز پر ڈاکہ سے کم نھیں ھے بلکہ کھیں زیادہ ھے اس لئے کہ اس سے معاشرہ کی امنیت درھم وبرھم ھوجانے کا شدید خطرہ لاحق ھے ، حضرت مسلم ابن عقیل (ع) نے اپنے چچا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے تعلیم وتربیت حاصل کی ، اور آپ نے علم ومعرفت کے شفاف چشمہ سے سیر ھوکر حضرات حسنین علیھما السلام کے مکتب سے فارغ ھوکر محمد وعلی علیھما السلام کے حقیقی اسلام کے تمام احکام کے اتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف تھے اور اسی بنیاد پر اپنی زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ کو تیزی  سے با آسانی سے طے کرتے چلے گئے اور کمالات کی معراج تک پھونچ گئے اور کبھی اپنے احساسات کو اسلام کے عالمی نظام(قانون) پر ترجیح نھیں دی، ایک دائرہ میں اپنے کو محدود کرکے زندگی گذار نا یہ خود بتاتا ھے کہ آپ میں فقھیانہ پھلو کمال درجہ کے پائے جاتے ھیںجو آپ کی زدندگی کے مختلف گوشوں میں اپنی تمام گیرائیوں کے ساتھ دیکھے جاسکتے ھیں جو حضرت مسلم ابن عقیل (ع) کی زندگی جو ان کے یھاں زیادہ نکھر کر سامنے آیا اور غیر معصوم ھوتے ھوئے مختلف مقام پر معصومانہ شان دیکھنے کو ملتی ھے ۔

یہ سبھی چیزیں اپنے مقام پر حضرت مسلم (ع) کی بلند مرتبہ زندگی کے دل نشین افتخارات میں سے ھے کہ شجاعت اور جھاد کے اسلامی فریضہ کو کبھی احساساتی اندھی مٹھ بھیڑ پر ترجیح نہ دی اور آخری قطرہٴ خون تک اسی عقیدے کا دفاع کرتے رھے کہ” ان الحیاة عقیدة وجھاد“(درحقیقت زندگی صرف عقیدہ کے مطابق جھاد کا نام ھے)اور اسی حالت میں خون سے شرابور جان کی بازی لگاکر الاسلام ھو التسلیم کا عملی پیکر بن کر معشوق حقیقی حضرت حق سے جاملے اور شھادت کے اس رفیع درجہ کو پاکر اپنی مربی کے ھاتھ کوثر کے جام سے سرفراز ھوکر اپنے بھشتی انعامات حاصل کرکے سرخرو ھوگئے جو انسانیت کے لئے باعث فخر ھے۔

خدایا! تو اپنے فضل وکرم سے توفیق عنایت کر کہ ھم تیری راہ کے فقیہ ھوکر حضرت مسلم کی طرح تیرے اھل بیت (ع) کے حریم کا دفاع کرتے ھوئے سرخرو ھوکر شھید اٹھائے جائیں او رخون کے آخری قطرہ تک ھر ھر قدم پر اپنے سید ومولا امام زمانہ (ع) کے دین کی نصرت کرتے ھوئے ، ھمیں جناب مسلم(ع) کی طرح اسلام کا مخلص سپاھی بنادے۔(آمین)

[1] مقتل خوارزمی ص ۱۹۵

[2] المناقب ج۴ ص۹۴

[3] من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲ ص۵۶۹، بحار الانوار ج ۹۷ص ۴۷، ثواب الاعمال ص ۲۵۶

[4] بحارالانوار ج ۴۴ص۳۵۳

[5] معالی السبطین ج۲ ص ۲۳۸

[6] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید المعتزلی ج۱ ص ۱۸۷

[7] ترجمہ ارشاد مفید ج۲س ۸۲

[8] کتاب عنصر شجاعت مولف میزا خلیل کمرہ ای ص ۵۳۹۔۵۴۰


source : http://www.sadeqeen.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ پہلی مرتبہ قم میں محسوس ...
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
خدمت خلق
دعا کے مستجاب نہ ہونے کے اسباب
امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ
حضرت پیغمبر اسلام (ص) کا مختصر زندگی نامه
امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیثیں
تعقل
گھاٹے کا سودا
ہندوستان میں ظھور اسلام

 
user comment