اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

خطبه غدیر سے حضرت علی علیه السلام کی امامت پر استدلال

حجة الوداع کے موقع پرغدیر خم میں پیغمبر اکرم (ص) نے جو خطبه اراشد فرمایا اُس میں  حدیث ائمہٴ اثنا عشر بهی هے٬ جس سے حضرت علی علیه السلام کی ولایت و امامت پر استدلال کیا جاسکتا هے۔

یہ حدیث سند کے اعتبار سے امت مسلمہ کی متفق علیہ حدیث ھے۔ اس حدیث میں رسول خدا نے اپنے جانشین اور خلفاء کی تعداد بارہ بتائی ھے، اور ان کی کچھ خصوصیات بھی بیان کی ھیں اور یہ سب خصوصیات شیعوں کے بارہ اماموں کے علاوہ کسی اور پر پوری نھیں اترتیں۔ یہ حدیث بھی ایک واضح دلیل ھے جو یہ بتاتی ھے رسول خدا اپنے تاریخی نوشتے میں وھی مطالب تحریر کرنا چاہتے تھے جن کو کچھ پھلے واقعہ حجة الوداع میں حدیث اثنا عشر کے ضمن میں بتاچکے تھے۔

اب اگر کوئی ھماری یہ بات تسلیم نھیں کرتا تو مجبوراً اسے وہ راستہ اپنانا پڑے گا جو اھل سنت نے اس حدیث کی تاویل کے سلسلے میں اپنایا ھے اورجیسا کہ ھم بیان کریں گے وہ راستہ ایسا راستہ ھے جو آگے جاکر بند ھوجاتا ھے اور اس پر چلنے والا ھرگزمنزل تک نھیں پھونچ سکتا۔

مذکورہ حدیث صحاح اھل سنت کی نقل کے اعتبار سے اس طرح ھے:

مسلم نے اپنی صحیح میں رسول خدا سے یہ روایت نقل کی ھے:

لایزال الدین قائماًحتیٰ تقوم الساعة، او یکون علیکم اثنا عشر خلیفة، کلھم من قریش۔[1]

 مسلم نے آٹھ سندوں سے، بخاری نے ایک سند سے اور ترمذی نے تین سندوں سے، ابوداؤد نے دوسند سے اور احمد ابن حنبل نے ۳۶سندوں سے اس حدیث کو نقل کیا ھے([2])،([3])، ([4])

احمد ابن حنبل کی ایک نقل میں اس طرح آیا ھے:

یکون بعدی اثنا عشر امیراً کلھم من قریش۔[5]

میرے بعدبارہ حاکم یا خلیفہ ھوں گے  جو سب کے سب قریش سے ھونگے۔

 مذکورہ حدیث جیساکہ اھل سنت کے منابع میں ذکر ھوئی ھے اسی طرح شیعہ منابع میں بھی اس کا ذکر ھے[6]

مذکورہ حدیث سے جو کوئی بھی مرادھوں اس میں کوئی شک و شبہ نھیں کہ وھی رسول خدا کے جانشین اور امت مسلمہ کے رھبر ھیں اور رسول خدا کا وعدہ ان کے بارے میں در حقیقت خدا کا وعدہ ھے۔ چونکہ نبی اپنی مرضی سے کچھ کہتے ھی نھیں وہ جو کچھ کہتے ھیں وہ وحی الھی ھوتی ھے[7]

شیعوں نے شروع سے اب تک ایک دل اور ایک زبان ھوکر نبی کی اس حدیث کے مصداق بارہ اماموں کو مانا ھے۔ جو اھل بیت رسول سے ھیں لیکن اھل سنت نے شیعوں کے نظریہ کو نھیں مانا، اور وہ اس حدیث کی کوئی مناسب تفسیر کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس حدیث کے بارے میں اب تک دسیوں نظریے سامنے لائے گئے ھیں۔ ھم یھاں علماء اھل سنت کی طرف سے کی گئی اس حدیث کی توجیھات کے چند نمونے پیش کررھے ھیں:

(الف)ابوحاتم نے کھا ھے کہ بارہ خلفاء یہ ھیں:

ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاویہ، یزید، معاویہ بن یزید،مروان بن حکم، عبد الملک مروان،ولید بن عبد الملک، سلیمان بن عبدالملک،عمربن عبدالعزیز۔[8]

(ب)قاضی عیاض کہتے ھیں کہ بارہ خلیفہ یہ ھیں:

ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاویہ، یزید،عبد الملک مروان، ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبد الملک، یزید بن عبدالملک، ھشام بن عبد الملک اور ولید بن عبد الملک،[9]

سیوطی لکھتے ھیں کہ بارہ خلفاء یہ ھیں:

ابو بکر، عمر، عثمان، علی، حسن بن علی، معاویہ، عبداللہ بن زبیر، عمر بن عبدالعزیز، المہتدی، الظاھر، مھدی(عج)اور؟[10]

مذکورہ باتیں اور اس قسم کی توجیہ جو معمولاً خلفاء راشدین، اموی اور عباسی حکام سے ملی جلی ایک فھرست ھے ھماری نظر میں ھرگز قابل قبول نھیں ھے۔

جن دلیلوں سے ان توجیھات کی خامی ثابت ھوتی ھے وہ یہ ھیں:

۱۔ان توجیھات کے قائلین نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل قائم نھیں کی ھے، بلکہ فقط اپنادعوابیان کیا ھے۔ دنیا بھر کے صاحبان عقل کے لئے ایسا دعویٰ قابل قبول نھیں۔

۲۔علماء اھل سنت نے امام اور خلیفہٴ رسول کے لئے جو شرائط بیان کئے ھیں ان میں عدالت اور علم کی شرط بھی ھے ، چنانچہ انھوں نے لکھا ھے کہ خلیفہ کو چاہئے کہ عادل ھو اور علم اور دین شناسی میں اپنے زمانے میں افضل و برتر ھو.[11]

جیسا کہ آپ نے دیکھا انھوںنے جن لوگوں کے نام نبی کے بارہ خلفاء میں لئے ھیں وہ زیادہ تر اموی حاکم ھیں جو شیعہ اور سنی دونوں کی نظر میں بے دین، کم علم، ستم گر اور فاسق تھے۔ لہٰذا یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ ایسے لوگ رسول خدا کے خلفاء شمار کئے جائیں؟! مذکورہ شرائط فقط ائمہ اھل بیت میں مکمل طور پر پورے اترتے ھیں۔

  ۳۔جیسا کہ ھم نے کھا رسول خدا کی طرف سے بارہ خلفاء کے آنے کا وعدہ بلا شک خدا کا وعدہ ھے۔ اگرھے تو ضروری ھے کہ یہ سب خلفاء ایک ھی رفتار اور کردار کے حامل ھوں لیکن جب ھم ائمہ اھل بیت اور خلفاء اھل سنت کی تاریخ پر نظر ڈالتے ھیں تو معلوم ھوتا ھے کہ ائمہ اھل بیت تو ایک ھی طرح کے کردار اور رفتار کے حامل ھیں، اپنے قول و عمل میں پیغمبر اکرم کی سیرت اور ان کی راہ پر چلنے والے ھیں لیکن خلفاء اھل سنت میں سے ھر ایک دوسرے کا مخالف تھا ۔

معاویہ نے، امیر المؤمنین اور امام حسن مجتبیٰ سے جنگ کی جبکہ یہ دونوں حضرات (امیر المؤمنین اور امام حسن مجتبیٰ) اھل بیت رسول سے ھیں، یزید نے نبی کے نواسے حسین بن علی (ع)سے جنگ کی اور آپ کو شھید کردیا، یزیداور مروان اور اس کا بیٹا عبدالملک یہ تینوں عبدالله بن زبیر سے لڑے اور آخر کار اس کو قتل کردیا۔

اسی طرح امویوں نے عمر ابن عبدالعزیز کو زھر دے کر قتل کردیا۔[12]

تمام خلفاء بنی امیہ کا یھی حال تھا ان میں سے بعض نے تو اپنے سے پھلے خلیفہ کو قتل کیا اور مسند حکومت پر بیٹھ گئے، بنی عباس نے بنی امیہ سے جنگ کی اور اموی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔

ان کا یہ کردار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ یہ لوگ خلیفہ رسول نھیں تھے چونکہ انبیاء نے ایک دوسرے سے جنگ نھیں کی لہٰذا یہ بات بھی قابل قبول نھیں کہ نبی کے خلفاء ایک دوسرے سے جنگ کریں اور ایک دوسرے کا خون بھائیں۔

  تمام خلفاء بنی امیہ کا یھی حال تھا ان میں سے بعض نے تو اپنے سے پھلے خلیفہ کو قتل کیا اور مسند حکومت پر بیٹھ گئے، بنی عباس نے بنی امیہ سے جنگ کی اور اموی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔

ان کا یہ کردار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ یہ لوگ خلیفہ رسول نھیں تھے چونکہ انبیاء نے ایک دوسرے سے جنگ نھیں کی لہٰذا یہ بات بھی قابل قبول نھیں کہ نبی کے خلفاء ایک دوسرے سے جنگ کریں اور ایک دوسرے کا خون بھائیں۔

۴۔ اھل سنت نےجن لوگوں کو خلیفہٴ رسول جانا اور اور بشارت الٰھی کا مصداق سمجھا ان میں زیادہ تر اموی حاکم ھیں جن پر خدا نے نبی کی زبان پاک سے لعنت کی ھے[13]

کیا اس حالت میں ان کو خلیفہ ، حاکم اور جانشین رسول ماننا صحیح ھے،جب کہ خود خدا ان پر لعنت کررھا ھے؟!

تعجب کی بات ھے کس طرح اھل سنت نے، جن لوگوں پرخدا نے ان کے برے اعمال اور خیانت آمیز کردار کی وجہ سے لعنت کی ھے اور ان کو اپنی رحمت سے دور کیا ھے ان کو خلیفہٴ خدا اور رسول کے طور پر پہچنوانا کیسے گوارا کرلیا؟! جو الٰھی ھدایت سے دور رھے ان کو لوگوں کا ھادی اور رھنما مان لیا۔

اس کے علاوہ پھلی اور دوسری فھرست میں امام حسن علیہ السلام کا نام نھیں لیا گیاجب کہ آپ نے اپنے والد بزرگوار کی وصیت اور لوگوں کی بیعت پر چھ مھینے خلافت فرمائی۔

اسی طرح امام مھدی(عج) کا نام نھیں لیا گیا جبکہ صحیح بلکہ متواتر احادیث میں آپ کے آنے اور آپ کے خلیفہ ھونے کی بشارت دی گئی ھے۔[14]

اسی طرح معاویہ جو کہ اھل سنت کا ایک خلیفہ ھے اس نے امیر المؤمنین اور حسن مجتبیٰ سے جنگ کی اور امام حسن کو شھید کیا۔یزید بھی اھل سنت کا خلیفہ ھے اس نے امام حسین سے جنگ کی اور آپ کو شھید کیا ان تینوں ھستیوں سے جنگ رسول خدا کے قول کے مطابق خود رسول خدا سے جنگ کرنا ھے۔

ابوھریرہ کہتے ھیں: رسول خدا نے علی،فاطمہ، حسن اور حسین کی جانب رخ کرکے فرمایا:

انا حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم[15]


source : http://www.balaghah.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

2012ء میں قیامت
آؤنہج البلاغہ کی سیر کریں!
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ...
تفریح
کفرانِ نعمت
اسلام کی سب سے بڑی عید مبارک ہو/ عید غدیر کے دن کے ...
ائمہ اطہار{ع} کے پاس زرارہ کا مقام کیا تھا؟
عزاداری اور انتظارکا باہمی رابطہ
قرآنی جوان

 
user comment