وہ لوگ کہ جن کی دعائیں بارگاہ خداوندی مستجاب واقع ہوجاتی ہیں اورخداوندعالم انھیں اپنی بے کران نعمتیں عطا کردیتا ہے تو انھیں چند ضروری چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ذکر ہیں:
۱۔ جس شخص کی دعا پوری ہو جائے اسے چاہئے کہ اپنے اندرغروروتکبرجیسی آگ کو پیدا نہ کرے اوراپنے دل یہ خیال ہرگز پیدا نہ کرے کہ میں ایک اچھا اورنیک انسان ہوں لہٰذا الله تبارک تعالیٰ نے میری بات سن لی ہے اورمیری دعا قبول کرلی ہے کیونکہ غرور وتکبرایسی آگ ہے جوانسان کے عمل کو باطل کرنے علاوہ خود انسان کوتباہ کر دیتی ہے اوراس پر شیطان غالب آ جاتا ہے۔
۲۔ دعا مستجاب ہونے شخص کوچاہئے کہ خدا کا شکرادا کرے بلکہ مستحب ہے کہ دعا قبول ہوجانے کی وجہ سے دو رکعت نمازشکر بجا لائے۔
۳۔ دعا کے مستجاب ہوجانے پردعا کرنا ترک نہ کرے بلکہ دعا مستجاب ہونے کے بعد بھی خالق دو جہاں کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہے کہیں ایسا نہ ہو وہ الله کے نزدیک ایک اجنبی بندہ بن جائے اورخداوند عالم اسے ایک مطلبی انسان شمارکرے ۔
۴۔ اگر دعا مستجاب ہوجائے تو اس میں ممکن ہے کہ شاید تمھاری آوازمبغوض تھی جس کی وجہ سے خداوندعالم نے تمھیں اپنی بارگاہ سے جلدی نکال دینے کی وجہ سے تمھاری دعا جلدی قبول کرلی ہو ۔
دعا کے سایہ میں تلاش وکوشش
یہ بات عقل اورشریعت کے بالکل خلاف ہے کہ انسان گھرمیں یا مسجد میں مصلے پربیٹھ جائے اور فقط دعا کا دامن تھام کرالله تبارک وتعالیٰ کی طرف سے رزق وروزی کے نازل ہونے کا انتظار کرنے لگے اورروزی کی تلاش کرنا بند کر دے اور کہے کہ خداوندعالم نے وعدہ دیا ہے اورکہا ہے :
<اُدْعُونِی اَستَجِبْ لَکُم> تم مجھ سے مانگوتومیں عطاکروں گا
یادرکھو!الله تبارک تعالیٰ نے کارکوشش کے تمام دروازے کھول رکھے ہیں ،انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے روزانہ کے اخراجات کے لئے کسی کام کی تلاش میں گھرسے باہرقدم نکالے ،اوراس کام میں برکت کی دعا کرے ،اس آیہ مبارکہ سے یہ کبھی ثابت نہیں ہوسکتا ہے کہ انسان کوئی کام نہ کرے اورمصلے پربیٹھ کردعا کرتا رہے اورخدا اسے غیب سے رزق عطا کرتا رہے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ تم دعا کرو اور کاروبار کی تلاش میں نکلو،اِ نشاءالله تمھیں کام مل جائے اوراس میں منافع بھی ہوگا۔
اگر انسان کے جسم میں جان ہے اور وہ کار و کوشش کرسکتا ہے، روزی کی تلاش میں نکلے تو وہ اپنے روزانہ کے اخراجات کے لئے پیسہ حاصل کر سکتا ہے اور وہ کسب معاش کی راہ کو چھوڑ کر دعا کے لئے مصلے پر بیٹھ جاتا ہے کیا ایسے شخص کو خداوند عالم اسے گھر بیٹھے روزی عطا کرسکتا ہے، ہرگز نہیں، یاد رکھو اگر کسی چیزکی کنجی ہمارے ہاتھوں میں ہو تو ایسے میں دعا کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے پاس زمین و جائداد ہے اور صاحب زمین اپنے گھر میں بیٹھ جائے، زمین میں نہ ہل چلائے اور نہ اس میں کوئی دانہ ڈالے، نہ زمین کی آبیاری کرے اور ہر روز دعا کرتے رہے اور کھیتی کے پکنے کا وقت پہنچے تو اسے کاٹنے کے لئے جنگل میں جائے تو کیا اسے اپنے کھیتوں میں کوئی چیز نظر آئے گی؟ ہرگز نہیں کیونکہ جب محنت و زحمت ہی نہیں تو پھل کیسے نصیب ہو سکتا ہے، انسان کو فقط دعا پر اکتفا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ دعا کا کام یہ نہیں ہے کہ تم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر گھر میں بیٹھ جاؤ اور کھیتی کے پکنے انتظار کرتے رہے بلکہ انسان کو چاہئے کہ زمین میں ہل چلائے، دانہ ڈالے ، آبیاری کرے اس کے ساتھ ساتھ دعا کرے کہ بارالٰہا! میری کھیتی کو آفت سے محفوظ رکھنا اوراس میں برکت عطا کرنا، اگر ہم انبیاء و آئمہ کی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہ فقط دعا پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ کار و کوشش کرتے تھے اور جہاں کام ہاتھ سے نکل جاتا تھا وہاں دعا کرتے تھے.
ایوب اخی ادیم سے مروی ہے کہ ہم امام صادق کی خدمت میں موجود تھے کہ علاء ابن کامل آئے اورامام (علیه السلام) کے برابرمیں بیٹھ گئے اورامام (علیه السلام) سے عرض کیا: آپ میرے دعاکردیجئے کہ خداوند عالم مجھ پر روزی کو آسان کر دے، امام (علیه السلام) نے فرمایا: میں تمھارے لئے دعا نہیں کروں گا بلکہ تم جاؤ اور جس طرح خداوند متعال نے تمھیں روزی حاصل کرنے حکم دیا ہے تحصیل مال و متاع کرو۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ایک فقیر اور مقروض شخص حضرت امام صادق کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے فرزند رسول خدا! آپ میرے حق میں دعا کیجئے کہ خداوند عالم مجھے وسعت عنایت کرے اور مجھے رزق و روزی عطا کرے ، کیونکہ بہت ہی زیادہ فقیر و تنگدست ہوں، امام (علیه السلام) نے فرمایا: میں تیرے لئے ایسی کوئی دعا ہرگز نہیں کروں گا کیونکہ خداوند عالم نے روزی حاصل کرنے کے وسیلے پیدا کئے ہیں اور ہمیں ان وسیلوں کے ذریعہ روزی حاصل کرنے کے لئے حکم دیا ہے مگرتو یہ چاہتا ہے کہ اپنے گھرمیں بیٹھا رہے اوردعا کے ذریعہ روٹی کھاتا رہے۔
source : http://www.tebyan.net/