ایک بدو اور جنگلی عرب مدینہ میں داخل ہوا اور سیدھے مسجد پہنچ گیا تاکہ وہ رسول خدا سے کچھ اپنے لئے سونے و چاندی حاصل کر سکے۔ جب وہ مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اکرم اصحاب کے درمیان تشریف فرما ہيں ۔ اس نے اپنی حاجت رسول اکرم سے بیان کی اور ان سے عطیہ مانگا ۔ رسول اکرم نے اس کو کوئي چیز عطا کر دی لیکن وہ اس قانع و راضي نہيں ہوا ۔ وہ اس کوکم سمجھ رہا تھا ۔ علاوہ ازیں اس نے رسول اسلام کی خدمت میں کچھ نازیبا کلمات بھی کہے اور آنحضرت کی شان اقدس میں گستاخی بھی کی ۔ یہ سن کراصحاب و یاران پیغمبر کو سخت غصہ آیا اور قریب تھا کہ اصحاب پیغمبر اس کو زد و کوب کر دیں لیکن رسول اسلام نے فورا اپنے اصحاب کو منع فرمایا ۔
رسول اکرم اس کے بعد اس اعرابی کو اپنے ساتھ اپنے گھرلے گئے اوراس کی کچھ اورمدد کی ۔ اس دوران اس اعرابی نے قریب سے اس چیز کو دیکھا کہ رسول اسلام کے پاس ديگرحکام و سلاطین کی مانند مال دنیا میں سے کچھ بھی نہیں ہے اوران سلاطین سے توذرہ برابر ان کی شباہت نہيں ملتی ان کے پاس توکچھ بھی نہيں ہے ۔
وہ رسول اسلام کی دی ہوئی مدد سے قانع ہوگیا اور ان کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس موقع پر آنحضرت نے اس سے فرمایا تو نے کل اپنی زبان سے ایسے کلمات ادا کئے جن پرمیرے اصحاب ناراض ہوگئے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تمہیں گزند نہ پہنچا دیں لیکن اب جبکہ تو میرے سامنے اس طرح سے میرا شکریہ ادا کر رہا ہے توکیا ممکن ہے کہ یہی بات چل کرتومیرے اصحاب کے سامنے کہہ دے تاکہ ان کی ناراضگی اورغصہ برطرف ہو جائے ؟ اعرابی نے کہا کوئی بات نہيں میں چلتا ہوں ۔ اگلے دن وہ اعرابی مسجد میں آیا جہاں تمام اصحاب موجود تھے ۔ رسول اکرم نے مجمع کی طرف رخ کیا اور فرمایا :
اس شخص کا کہنا ہے کہ یہ مجھ سے راضي ہے کیا ایسا ہی ہے ؟
اعرابی نے کہا کہ ہاں بالکل ایسا ہی ہے اورپھر اس نے وہی شکریہ کا جملہ ادا کیا جو اس نے رسول اسلام کی خدمت میں پہلے ادا کیا تھا ۔ اس پررسول اسلام کے اصحاب خوش ہوگئے اورسب کے چہروں پرمسکراہٹ آ گئي ۔ رسول خدا نے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ
اگر میں کل تم لوگوں کوچھوڑ دیتا تو یقینی طورپرتم لوگ اس بیچارے اعرابی کو جان سے مار دیتے اوریہ کس برے حال میں مارا جاتا یعنی کفربت پرستی کی حالت میں ۔ لیکن میں نے تم لوگوں کوروکا اورخود ہی پیار ومحبت سے اسے سمجھایا اوراس کورام کرلیا ۔
source : http://www.tebyan.net