اردو
Tuesday 5th of November 2024
0
نفر 0

اسلامی بیداری خود شناسی اور اسكا دفاع

كیا اسلامی جماعتوں كا وجود معاشرے كے بائكاٹ شدہ عناصر كی شورش كا مظہر ہے كیا یہ شورش ناكام لوگوں كی شورش ہے یا مسلمان گروہوں كی صدای احتجاج ہے جو وہ مغربی تہذیب كے مقابلے میں بلند كررہے ہیں۔

كیا اسلامی جماعتوں كا وجود معاشرے كے بائكاٹ شدہ عناصر كی شورش كا مظہر ہے كیا یہ شورش ناكام لوگوں كی شورش ہے یا مسلمان گروہوں كی صدای احتجاج ہے جو وہ مغربی تہذیب كے مقابلے میں بلند كررہے ہیں۔

آجكل مغربی باشندوں اور مفكرین كے ساتھ اسلامی گروہوں كے بارے میں بات كرنا ایك مشكل امر بن چكا ہے دراصل مسئلہ یہ ہے كہ مغربی معاشرے اسلامی گروہوں كے بارے میں منفی فكر اور شدید حساسیت كا شكار ہو چكے ہیں اس پر مستزاد یہ كہ اسلامی-عربی پروپگینڈا مشینری مسلمانوں كی تصویر مسخ كركے پیش كرتی ہے ان گروھوں كو اسلام پسند كہنا مغرب كی منفی نطر كو آشكار كرتا ہے۔

مغربی ملكوں میں اسلام پسند اس كو كہا جاتا ہے جو صرف مسلمان ہونے اور عبادت كرنے پر اكتفا نہیں كرتا بلكہ اسلامی تعلیمات كے مطابق زندگی گذارنے كی كوشش كرتا ہے دین اسلام كے بارے میں ایسے نظریات دین كو ہمہ گیر شكل دیدیتے ہیں اور اسكی رو سے خالق اور مخلوق كے درمیان ایسا رابطہ پیدا ہو جاتا ہے كہ دین معاشرے پر حاكم ہوجاتاہے مغربی معاشرے كے لۓ دین كے یہ معنی قابل ہضم نہیں ہیں كیونكہ یہ لوگ دین كو صرف كلیسا كی چار دیواری میں محصور دیكھنے كے عادی ہیں اور دین كو خالق و مخلوق كے درمیان ایك خاص رابطہ سے تعبیر كرتے ہیں ان كا ماننا ہے كے روزمرہ كی زندگی میں دین اور سیاست میں جدايئ بدیہی امر ہے اور اسی طرح معاشرے میں نظم و ضبط قائم رہ سكتا ہے ۔

آیۓ دیكھتے ہیں كیا ہمارے مد مقابل كو بھی زندہ رہنے كا حق ہے دوسرے الفاظ میں كیا اسے بھی حق حیات حاصل ہے ؟

ہم سے جب یہ مطالبہ كیا جاتا ہے كہ ہم مختلف ادیان اور تھذیبوں كو قبول كریں تو مغربی باشندوں كو یہ خیال رہنا چاہیۓ كہ انہیں بھی دیگر مذھبوں كے پیروں كے بارے میں صبر و تحمل اور رواداری كا مظاہرہ كرنا چاہیۓ اور دوسرے كی نظر سے دین كے معنی پوری طرح درك كرنے چاہیں شاید دیگر مذھبوں كے پیرووں كے نزدیك دین كا مفھوم مغرب میں رائج مفھوم سے بنیادی اختلاف ركھتا ہو ۔

اس سلسلے میں ایك اور مسئلہ یہ ہے كہ ہمیں یہ دیكھنا چاہیۓ كہ مغربی معاشروں میں دوسروں كے حقوق كو باضابطہ طور پر تسلیم كرنے پر كس حد تك آمادگی پائي جاتی ہے بلكہ یہ بھی دیكھنا ضروری ہے كہ مغرب كس حد تك دیگر تھذیبوں كو قبول كرنے پر تیار ہے جو مغربی اصولوں پر استوار نہیں ہیں اور نہ اس سے مطابقت ركھتی ہیں، اگر ان سوالوں كا جواب مثبت ہو تو بے شك ہر طرح كی بحث اور تبادلہ خیال مفید اور تعمیری ہو گا لیكن اگر جواب منفی ہو تو بحث و مباحثہ كا كوئي فایدہ نہیں ہوگا ۔

مسلمانوں كا خیال ہے كہ اسلام ترقی یافتہ اجتماعی نظام ہے اور وہ اسلام كو انسانی تھذیب كے كمال اور ترقی كے لۓ پیشرفتہ اور مكمل دستورالعمل سمجھتے ہیں مسلمانوں كا عقیدہ ہے كہ اسلام آسمانی دین ہے جسے اللہ نے انسان كی سعادت كے لۓ بھیجا ہے اور زمین كو آباد كرنا اسلام كے پیرووں كی ذمہ داری ہے ۔

مسلمانوں كا عقیدہ ہے كہ دین اسلام نے انسان كی كامیابی اور سعادت كے لۓ خاص اصول و ضوابط معین كۓ ہیں یہی نہیں بلكہ ترقی نۓ افق تلاش كرنے اور جدت و نوآوری پر بھی تاكید كی ہے ۔

مسلمانوں كے نزدیك عبادت دین كا بنیادی ركن ہے جس سے انسان اور خالق كے درمیان قریبی رابطہ برقرار ہو تا ہے اس كی تفصیلات اس طرح بیان كی گئی ہیں كہ ہر مسلمان ان سے آگاہ ہے، ان عقاید كے حامل مسلمانوں كو كسی بھی طرح خاص مستثنی اور الگ گروہ قرار نہیں دیا جاسكتا یہ لوگ نہ شدت پسند ہیں نہ متعصب، مشكل صرف یہ ہے كہ یہ لوگ مغربی نظریہ كے بر خلاف دین كی تصویر پیش كرتے ہیں اسی بناپر مغربی باشندہ مسلمانوں كے بارے میں شك و شبہے میں مبتلا ہو جاتا ہے مغرب میں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے بلكہ زور پكڑ چكا ہے ۔

اس مضمون میں ہم نے اسلام پسندوں كے بارے میں غلط فھمیوں كا ازالہ كرنے كی ہے ہمیں امید ہے كہ ہماری یہ كوشش، حقیقی اسلام جو كہ انسانی بیداری اور ترقی نیز اسكی اجتماعی زندگی كے لۓ مكمل نظام ہے اس میں اور ان شدت پسند گروھوں كے طرز عمل میں جو عام طور سے اپنی حكومتوں كے خلاف سر گرم عمل رہتے ہیں اور دنیا كے مختلف علاقوں میں تخریبی كاروائیاں انجام دیتے ہیں خلط نہ كیا جاے بلكہ ان مكاتب فكر كو الگ الگ ركھا جاے ۔

شدت پسند گروہ بہرحال الگ اور خاص گروہ شمار ہوتا ہے گرچہ ذرایع ابلاغ ان كے اراكین كی شخصیت اور ان سے لاحق خطروں كو اور حكومتیں سیاسی عزم كے فقدان كے باعث یا اخلاقی و مالی بدعنوانیوں نیز اپنے جرایم اور انسانیت سوز اقدامات كی وجھ سے ان كے كاموں كو خوب بڑھا چڑھا كر پیش كرتی ہیں، انتھا پسند گروہوں كو حكومتوں كی آمرانہ كاركردگی كے خلاف عوام كے غم و غصے كا مظہر قراردیا جاتا ہے عام طور سے استبدادی حكومتیں اقتدار پر پوری طرح قبضہ جمانے كے بعد اپنے اقتدار كو محفوظ ركھنے كے لۓ عوام سے یہ كہتی رہتی ہیں كہ ان كی سرنگونی كی صورت میں انتھا پسند گروہ اقتدار حاصل كرلینگے اور افراتفری پھیل جایگی ۔

ان جماعتوں كی وجھ سے بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے كہ دین اسلام سے آگہی اور امت كی بیداری ان جماعتوں كے وجود میں آنے كا سبب ہے اور معاشرے كی اصلاح مفاہمت پسند اور پرامن اقدامات سے كی جانی چاہۓ۔

یہ طرز تفكر مایوس ہوكر حقائق كو توڑ مڑوڑ كر پیش كرنے كے مترادف ہے گرچہ یہ نظریہ عرب ملكوں كی حكومتوں كی مذمت كرتا ہے تاہم اگر عرب حكومتوں كی كاركردگی كی بنا پر انتھا پسند جماعتیں وجود میں آرہی ہیں تو ہمیں یہ تسلیم كرنا ہوگا كہ عرب حكومتوں میں خرابی ہے جن كی اصلاح ضروری ہے۔

ہمیں اس سوال كا بھی جواب تلاش كرنا ہوگا كہ كیا اسلام پسندوں كاوجود معاشرے كے محروم اور پسماندہ طبقے كی صدای احتجاج ہے ؟

یہاں ہم عام حكم لگانے كے بارے ضرور خبر دار كرینگے بلكہ اس امر كی طرف بھی توجھ مبذول ركھی جاۓ كہ ہمیں اس معاشرے كی صورتحال اور خصوصیتوں پر نظر ركہنی چاہۓ جس كے بارے میں گفتگو كر رہے ہیں، اس كے علاوہ یہ بھی خیال رہے كہ انتھا پسند گروھوں میں اتحاد نہیں ہے بلكہ شدید اختلافات پاۓ جاتے ہیں۔

اسلامی امت كی بیداری كے قایل گروھوں اور عوام كی ناراضگی سے جنم لینے والے انتھا پسند گروھوں كا جائزہ لیتے وقت ہمیں جس اہم نكتے پر توجھ ركھنا چاہیۓ وہ ان دو نظریات میں شدید اختلاف ہے یہ بات تو آپ كے مد نظر ہے كہ اسلامی بیداری كا قایل گروہ جو متوازن اورمتعادل نظریات كا حامل ہے وہ اصل گروہ ہے اور انتھا پسند جماعتیں فرعی و استثنايئ گروہ میں شمار ہوتی ہیں بڑے افسوس كی بات ہے كہ مغربی دانشور اور مفكرین ذرایع ابلاغ كے زہریلے پروپگیڈوں اور سیاسی محركات كے زیر اثر اس فرق كو سمجھنے سے قاصر ہیں یہ لوگ اسلام پسندی كو اشتعال انگیزی اور انتھا پسندی كے برابر سمجھ بیٹھے ہیں ان لوگوں نے سرے سے اس حقیقت كو نظر انداز كردیا ہے كہ اسلامی تہذیب و تمدن میں ایسی كشش اور جذابیت ہے جو لوگوں كو اپنی طرف كھینچتی ہے اور انہیں اسلام قبول كرنے پر مائل كرتی ہے۔

انیس سو اناسی میں اسلامی انقلاب كی كامیابی سے پہلے یورپ اور امریكہ كی آبادی كا بہت بڑا حصہ اسلام و مسلمین سے ناواقف تھا اسی طرح مشرق بعید جیسے جاپان میں انیس سو تہترتك جب تیل كی قیمتوں میں اضافہ ہوا اسلام كے بارے میں معلومات نہ ہونے كے برابر تھیں ۔

اسلامی بیداری كے لۓ سب سے پہلی تحریك مصر میں بیسویں صدی كی ابتدا میں شروع ہویئ اس تحریك كے بانی جمال الدین اغفانی (اسدآبادی)اور محمد عبدہ تھے اسكے بعد رشیدرضا نے اس كی باگ ڈور سنبھالی ان انفرادی كوششوں كا نتیجہ انیس سو اٹھایس میں اخوان المسلمین كی صورت میں نكلا اور پہلی مرتبہ ایك گروہ نے اسلامی بیداری كے لۓ كام كرنا شروع كیا اخوان المسلمین كی یا كوشش تھی كہ عثمانی خلافت كا شیرازہ بكھرنے سے جو خلاءپیدا ہوگیا تھا اسے پر كیا جاے عثمانی خلافت انیس سو چوبیس میں ختم ہوگیئ تھی ۔

اسلامی بیداری كی تحریك آغاز ہی سے بیسویں صدی كے وسط تك سامراج كامقابلہ كرنے اور اپنے وجود كا دفاع كرنے پر مجبور تھی جب انیس سو باون كا قیام عمل میں آیا تو اس تحریك نے اپنے دفاع كے لۓ نھایت جرات مندانہ اقدامات كۓ اسی بناپر بہت سے اسلامی ملكوں كو آزادی نصیب ہویئ۔

اس زمانے كو ہم اسلامی بیداری كی تحریك میں تبدیلیوں كا زمانہ قرار دے سكتے ہیں كیونكہ اس مرحلے میں یہ تحریك دفاعی پوزیشن سے نكل كر خود كو استحكام بخشنے اور اپنا تشخص حاصل كرنے میں كامیاب ہوگیئ اس طرح كی جو تبدیلی آتی ہے مكمل طرح سے واضح اور قابل درك ہوتی ہے كیونكہ ایك قوم سامراج كے چنگل سے رہایئ پانے اور آزادی حاصل كرنے نیز اقتصادی لحاظ سے خود مختار بننے كے بعد ثقافتی لحاظ سے خود مختاری حاصل كرنے كی كوشش كرتی ہے ۔

انیس سو ستر كی دہایئ میں عرب ملكوں میں اس طرح كی تبدیلی آیئ گرچہ اسلامی بیداری كی تحریك میں دیگر عوامل كی تاثیر كو نظر انداز نہیں كیا جاسكتا بلكہ یہ عوامل ثقافتی عوامل ہی ہوتے ہیں ۔

اس بات میں كسی طرح كا شك و شبہ نہیں ہے كہ انیس سو سڑسٹھ میں اسرایئل كے ہاتھوں مصر اردن اور شام كی شكست كے بعد اسلامی امۃ كے حوصلے بری طرح پست ہوگۓ تھے اور امۃ اپنا اعتماد كھو بیٹھی تھی ۔

مصر كے صدر جمال عبدالناصر كی موت اور انور سادات كے اقتدار میں آنے كے بعد اخوان المسلمین كے سربراہ كو سترہ برسوں كے بعد رہایئ نصیب ہویئ ان كی قیادت میں اسلامی تحریك نے تیزی سے پیشرفت كرنا شروع كیا دوسری طرف ایران میں اسلامی انقلاب كی كامیابی كے بعد عالم اسلام پر اسلامی بیداری كے لحاظ سے نہایت مفید اثرات مرتب ہوے۔

انیس سو ستر كی دہایئ میں مصر میں بنیادی تبدیلیاں آیئں اسی زمانے میں مصر نے مغربی ملكوں سے وابستگی اختیار كرنا شروع كیااور آزاد منڈی كی پالیسی پر عمل پیرا ہوا ۔

مغرب سے آنے والی زہریلی ہواوں نے مغربی تھذیب كے مقابل اسلامی امۃ كے پاے ثبات میں لغزش پیدا كردی اس بلا سے نجات حاصل كر نے كے لۓ مسلمانوں نے اپنی اسلامی شناخت میں پناہ لی یعنی انہوں نے ایك ایسے مضبوط قلعے میں پناہ لی جس نے انہیں مغرب كی ثقافتی یلغار سے محفوظ ركھا ہے مغرب كی اس ثقافتی یلغار كو سامراج كے نۓ حملے سے بھی تعبیر كیا جاتا ہے۔

اسلامی بیداری كی تحریك كے دو اہم نتایج سامنے آے

پہلا نتیجہ یہ ہے كہ اسلامی تھذیب و تمدن كو حیات تازہ ملی یہ امر مسلمانوں كی خود شناسی كا ۔

دوسرا نتیجہ یہ ہے كہ قوم پرست عناصر نے مغرب كی ثقافتی یلغار كے سامنے گھٹنے ٹیك ديے جبكہ اسلام پسندوں نے مغرب كا ڈٹ كر مقابلہ كیا اور اپنی شناخت پر اصرار كیا ۔

یاد رہے اسلامی تحریك ہرگز كسی اجتماعی بحران كا نتیجہ نہیں تھی بلكہ اسلامی قوموں كی فكری اور ثقافتی بالندگی كا نتیجہ تھی اور ہے كہ جس كے آثار ہمیں بیسویں صدی كے آغاز میں واضح طرح سے دكھایئ دیتے ہیں۔

ان سیاسی اور اقتصادی عوامل كے علاوہ جن عوامل كا اضافہ كیا جاتاہے وہ خوف اور بدبینی ہے جو اقتصادی اور سیاسی صورتحال كی اصلاح كے لۓ كی جانے والی كوششوں پر لاحق ہوتا ہے اور یہی تشدد كو جنم دیتا ہے ۔

كیا اسلامی جماعتیں مغربی تہذیب و تمدن كی دشمن ہیں اھل مغرب اس سوال كا جواب مثبت دیتے ہیں ان كا كہنا ہے كہ اسلامی جماعتیں مغربی تہذیب سے دشمنی ركھتی ہیں میرے خیال میں اھل مغرب كا یہ نظریہ سادہ لوحی اور عجلت پسندی كا نتیجہ ہے، اس سوال كا جواب دینے كے لۓ ہمیں مندرجہ ذیل امور پر غور كر كے متفق ہونا پڑیگا۔

اھل مغرب اپنی تہذیب و تمدن كے لۓ اس بات كے قائل ہیں كہ اسكے اقدار اور سیاسی اجتماعی اصول ازادی جمہوریت اور مساوات سے عبارت ہیں جنہیں ان كی روز مرہ كی زندگی میں دیكھا جاسكتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے كہ مغربی تہذیب كو اقوام عالم پر مثالی تہذیب كے طور پر مسلط نہیں كر نا چاہیۓ نہ دوسروں كو اسكی پیروی مجبور كرنا چاہیۓ۔

مختلف مذھبوں اور تہذیبوں كے احترام كے اصول كے مطابق سرزمین مشرق كی تمام تہذیبوں كو باضابطہ طور پر تسلیم كیا جاۓ اور ان كے پیرووں كے لۓ حق حیات كا قائل ہوا جاۓ۔

مغربی تہذیب و تمدن سے بے نیاز اور مستقل رہنے كے معنی اس سے دشمنی كے ہرگز نہیں ہیں ثقافتی خود مختاری سے یہ لازم نہیں آتا كہ دوسری تہذیبوں كے ساتھ تعاون نہ كیا جاۓ اور بھایئ چارے سے نہ رہا جاۓ ہمیں یہ كہنے میں ذرا سا تامل نہیں ہے كہ مغربی تہذیب میں بھی كچھ انسانی اقدار پاۓ جاتے ہیں جو در حقیقت ساری انسانیت سے تعلق ركھتے ہیں ان اقدار پر كسی خاص تہذیب و تمدن كی اجارہ داری نہیں رہ سكتی۔

ہر قوم كے ذمہ داروں كو یہ حق حاصل ہے كہ وہ اپنی قوم كو دوسری تہذیبوں كے منفی اور نقصان دہ امور سے محفوظ ركھیں مغرب میں بھی اس اصول پر پورے شدو مد سے عمل كیا جاتا ہے۔

ان اصولوں كو قبول كرنے كے بعد اسلامی جماعتوں كا موقف بھی واضح ہو جاتا ہے، امت اسلامی كی بیداری كی قائل اسلامی جماعتیں تہذیبی لحاظ سے خود مختار رہنے كی خواہاں ہیں وہ اپنی اسلامی تھذیب كو پوری طرح سے مستقل اور خود مختار دیكھنا چاہتی ہیں ان جماعتوں كے منشور میں مغربی تہذیب و تمدن كے خلاف كوئی بات نہیں ملتی، امر واقعہ یہ ہے كہ اسلامی معاشرے اسلامی اقدار و تہذیب كو نافذ كرنا چاھتے ہیں اسی بناپر مغرب كے دوبارہ فوجی سیاسی اور ثقافتی تسلط سے خائف ہیں اسلامی ملكوں كی ثقافتی خود مختاری كی كوششیں چین جاپان ھندوستان اور دیگر ملكوں كی ثقافتی خودمختاری اور اپنی تہذیب و تمدن پر قائم رہنے كی كوششوں كی طرح ہے۔

اس حقیقت كو نظر انداز نہیں كیا جاسكتا كہ مسلمان مغرب كی تسلط پسندانہ پالیسیوں پر نہایت حساس ہو چكے ہیں وہ ابھی تك سامراج كے قبضے كی تلخ یادیں نہیں بھلا پا‌ۓ ہیں اسی بناپر بعض لوگ مغرب كی مخالفت میں افراط سے كام لیتے ہیں مغرب میں بھی یہی صورتحال ہے مغرب میں اسلامی فتوحات اور صلیبی جنگوں كے زمانے سے اسلامی بیداری كا خوف چھایا ہوا ہے اور یہ ملك اسلامی معاشروں میں بھی اسلامی بیداری سے بری طرح خوف زدہ ہیں۔

اسلامی معاشروں پر مغربی تہذیب و تمدن كی دشمنی كا الزام بے بنیاد ہے اس دعوے كے اثبات میں كوئي دلیل نہیں ہے اب اگر كوئی یہ سوچتا ہے كہ اپنے آپ كو خود مختار بنانا اور مغربی تہذیب و تمدن سے بے نیاز ہونا دشمنی ہے تو یہ ایك غیر منطقی نظریہ ہے ہم اس سلسلے میں تمام قوموں كو خبردار كرتے ہیں۔

میں امریكہ كی جارج ٹاون یونیورسٹی كے پروفیسر دون اسپو زیٹو كے اس نظریہ سے پوری طرح متفق ہوں كہ اسلامی تہذیب مغربی تہذیب كی مد مقابل ہے لیكن اس سے مغربی تہذیب كو ہرگز كوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

اسلامی معاشروں میں عوام كی ناراضگی كے نتیجے میں سر ابھار نے والے انتھا پسند گروہ بھی اپنے معاشروں پر مغرب كے تسلط كے مخالف ہیں لیكن سیاسی اور ثقافتی راستوں سے مخالفت كا اظہار كرنے كے بجاۓ تشدد آمیز طریقوں سے كرتے ہیں دراصل اسی شدت پسند طرز تفكر كی بنا پر وہ مغرب كی بہت سے اقدار كو قدر كی نگاہ سے نہیں دیكھتے ہیں بلكہ سرے سے مسترد كرتے ہیں جبكہ امت اسلامی كی بیداری كے قائل گروہ جو متوازن رویے

كے حامل اور اعتدال پسند ہیں وہ مغرب كی بہت سی اقدار سے اتفاق كرتے ہیں اور انہیں اسلامی اقدار كے مطابق سمجھتے ہیں یہ اقدار كچھ اس طرح سے ہیں ۔

الف) مختلف ادیان اور تہذیبوں كو قبول كرنا

ب) عورتوں اور مردوں میں مساوات كا قائل ہونا

ج) معاشرے میں بلا تفریق مذھب و ملت

سماجی عدالت و مساوات

ان امور كی وضاحت كے بعد ایك اہم نكتے كی طرف آپكی توجہ مبذول كراناچاہتے ہیں وہ یہ كہ اسلامی معاشروں میں یہ سوچ رائج ہوتی جارہی ہے كہ دراصل یہ مغرب ہے جو مسلمانون سے دشمنی كررہا ہے نہ یہ كہ مسلمان مغرب سے دشمنی كر رہے ہیں اس مدعا پر منہ بولتی دلیل بوسنیا ھرزگویئنا كے مسلمانوں كے بحرانی حالات كے زمانے میں بعض مغربی ملكوں كا شرمناك موقف ہے۔

كیا ہمیں یہ حق نہیں ہے كہ سب كی توجھ اس سوال كی طرف موڑیں كہ كون كس سے دشمنی كر رہا ہے ؟ مسلمان جو كمزور ہیں یا مغرب جو خود كو سوپر پاور كہتا ہے ۔

 

 

 

 

 


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی ولادت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
قرآن اور عورت
شيعہ کافر ، تو سب کافر
موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ید بیضا
دنیا کے بیشتر ملکوں میں رمضان المبارک کا آغاز
اسلام میں عورت کا مقام
مذاہب کی مشترکہ بنیادیں قرآنی نظریہ
حدیث غدیرمیں " مولی " کامعنی
قرآن میں انبیاء كرام كے معنوی جلوے

 
user comment