واياک نستعين
اور فقط تجھ ہي سے مدد چاہتے ہيں۔
جھوٹے خدا ہماري کيونکر امداد کرسکتے ہيں؟
وہ تمام لوگ جو خود ساختہ خدا ہيں اور لوگوں پر اپني خدائي کا دعويٰ کرنے والے ہيں، ہميں ان سے کوئي توقع نہيں ہے کہ وہ ہماري حمايت و امداد کرينگے۔ يہي وہ لوگ ہيں جو خود کو احکام خدا کي اطاعت سے ہٹانے والے ہيں اور جب يہ خدا کي اطاعت اور اس کے راستے پر چلنے کو تيار ہي نہيں تو پھر يہ خدا کے بندوں اور اس کي راہ پر چلنے والوں کو کيونکر امدادکريں گے؟
خدا کا راستہ تو وہي ہے جسے خدا کے پيغمبروں نے لوگوں کو متعارف و روشناس کرايا ہے اور وہي راستہ ہے جو حق و عدالت کي طرف ہے تاکہ لوگوں ميں بھائي چارہ اور دلبستگي قائم رہے، انسان کي قدر و قيمت کو سمجھا جائے، کسي کو کسي پر ( بلا جواز) ترجيح و سبقت نہ دي جائے، کسي پر ظلم و ستم نہ ہو اور کسي کو چھوٹا يا بڑا نہ سمجھا جائے جبکہ اس نظام کے مد مقابل چند خود ساختہ خدا ہيں جو اپني خدائي کے دعوے دار ہيں اور اپني شرمناک زندگي کو پايہ تکميل تک پہنچانے اور ظلم و زيادتي سے دنياوي فائدے حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اس بات کا بيڑا اٹھايا ہے کہ عدل و انصاف کے تمام سر چشموں کو ختم اور انسانوں کي بھلائي کے تمام قيمتي سرمايوں کو برباد کرديں ۔
جب ان خود ساختہ خداوں کے يہ افکار ہيں تو پھر يہ کس طرح ممکن ہے کہ يہ لوگ ايک خدا کي بندگي کرنے والوں کي حمايت و نصرت کريں!
يہ تو وہ لوگ ہيں جو بندگان خدا کے ساتھ جنگ کررہے ہيں بلکہ فائدے حاصل کرنے کے لئے کبھي ان سے صلح کرنے والے نہيں ہيں بلکہ لوٹ مار ، ظلم کرنا اور بے امني پھيلانا انہي کا شيوہ ہے۔ پس ہم خدا ہي سے مدد طلب کرتے ہيں اور اپني عقل ، فہم اور ارادے سے ،۔۔ جو خدا نے ہميں وديعت کيے ہيں ۔۔۔۔ اور ان تمام سامان و اسباب سے ۔۔۔۔۔ جو خداوند عالم نے ہميں زندہ رہنے اور زندگي گذارنے کے لئے عطاکيے ہيں ۔۔۔۔ فائدے اٹھاتے ہيں۔ ہم ديکھتے ہيں کہ خدا کي سنتيں اور فطري قوانين جو تاريخ ميں دہرائے گئے ہيں اگر ہم ان الہي نظاموں کو سمجھيں تو ہماري فکر اور ہمارا عمل خدا کے راستے پر چل پڑے گا اور اسي طرح خدا کي وہ تمام چيزيں جو خداوند عالم نے خلق کي ہيں، خدا کے سپاہي ہيں جو انسانوں کي مدد کرتے ہيں۔
اھدنا الصراط المستقيم
(خداوند ا) ہميں سيدھے راتے کي ہدايت فرما۔
ہدايت انسان کي سب سے بڑي حاجت
انسان کي سب سے بڑي حاجت ہدايت ہے کہ اس سے بڑھ کر انسان کي کوئي اور حاجت نہيں ہے اور اگر ہدايت سے اعليٰ ترين کوئي اور حاجت ہوتي تو بے شک اسے سورہ حمد ميں بيان کيا جاتا۔ ليکن چونکہ سورہ حمد قرآن کا ديباچہ ہے اور نماز کا اہم ترين رکن ( جز) ہے لہذا ہدايت کو سورۃ الحمد ميںبطور دعا ذکر کيا گيا ہے اور خدا سے اسے طلب کرنے خواہش کي جاتي ہے۔
ہميں خيال کرنا چاہئيے کہ يہ خدا ہي کي ہدايت ہے جس کي وجہ سے انسان کي عقل اور اس کا تجربہ اسے اس کے فائدے کے راستے يعني سيدھے راستے پر لے جاتا ہے اگر خدا کي ہدايت نہ ہو تو ہماري عقل اور ہمارا تجربہ ہميں ذرا برابر فائدہ نہيں پہنچائے گا بلکہ ہدايت سے دوري کے سبب يہي عقل اور اس کا تجربہ ايک چور کو چوري کے طريقے سکھاتا ہے اور ايک پاگل کے ہاتھ ميں تلوار کي شکل اختيار کرليتا ہے ( کہ جس سے صرف تباہي کي اميد کي جاسکتي ہے)۔
ہدايت کا حصول نجات کي علامت ہے
ہميں ديکھنا چاہئيے کہ انسان کے لئے کاميابي کي ر اہ ( سيدھي راہ) کيا ہے؟ سيدھي راہ يا کاميابي کي راہ انسان کے مزاج ميں فطرت کا بنايا ہوا نظام ہے جس کي اساس و بنياد اس بات پر ہے کہ انسان کي حاجات کيا ہيں؟ اس ميں کيا کوتاہياں ہيں اور اس ميں عمل کرنے کے امکانات کتنے ہيں ؟ ہم سيدھي راہ ( صراط مستقيم) اس راہ کو کہيں گے جسے خدا کے پيغمبروں نے لوگوں کے لئے آشکار کيا ہے اور خود اس راستے پر سب سے پہلے اور سب سے آگے چلنے والے ہيں۔
ہدايت الہي کا راستہ وہ راستہ ہے کہ اگر عالم بشريت اس راستے پر گامزن ہوجائے تو يہ اس پاني کے مثل ہوگي جو ہموار زمين پر بالکل سيدھا اور آگے بڑھتا ہوا چلا جائے ، خود بخود آگے اپني منزل کي طرف بڑھتا رہے گا اور اگر انسان بھي ہدايت الہي سے بہرہ مند ہوجائے تو وہ بحر بيکراں کي طرح ۔۔۔ جو اس کي بلنديوں اور عظمتوں کا بحر بيکراں ہے ۔۔۔۔ آگے بڑھتا چلا جائے گا ۔ ہدايت الہي وہ نور ہے کہ اگر يہ ايک معاشرے کے افراد کے قلوب ميں جا گزين ہوجائے اور وہ اس کے مطابق عمل کرنے لگيں اور وہ حقيقتاً ہدايت الہي کو پاليں تو پورا معاشرہ خوشحال ہوجائے گا، اس معاشرے کے تمام افراد خوش و خرم ہوں گے ، ہر طرف امن و امان ہوگا ، سب غلاموں سے آزاد ہو کر ايک دوسرے کے مدد گار بن جائيں گے اور ذمہ داري ، محبت و خلوص اور بھائي چارگي ان کے دلوں ميں گھر کر لے گي اور اگر پورا عالم بشريت حقيقي معنوں ميں اس پروگرام پر عمل پيرا ہو تو وہ تمام بد بختياں ۔۔۔ جو ہميشہ سے بشريت کے ساتھ چمٹي ہوئي ہيں۔۔۔۔۔ ہميشہ کے لئے نابود ہوجائيں گي۔
ليکن يہ خوش قسمتي کا راستہ اور نجات دہندہ پروگرام کيا ہے ؟ اس کا روبار حيات ميں سب ہي نيکي کا دعويٰ کرنے والے ہيں اور اس عالم کا ہر گروہ دوسرے گروہ کو خطا و اشتباہ کا پتلا قرار ديتا ہے لہذا ہميں چاہئيے کہ ان سب کو چھوڑ کر قرآن مجيد کے افتتاحي سورے ، سورہ حمد کو ديکھيں کہ اس ميں عالم بشريت کے لئے نجات دہندہ اور ہدايت کے راستے کو کس طرح بيان کيا گيا ہے؟
source : http://www.alhassanain.com